کہانی کی کہانی:’’یہ ایک ایسے کامیاب شخص کی کہانی ہے جو دولتمند ہو کر بھی تنہا ہے۔ اسے ایک دوست کی ضرورت ہے، جس کے لیے وہ اخبار میں اشتہار دیتا ہے۔ کچھ لوگ اس اشتہار اور اشتہار دینے والے کا مزاق اڑاتے ہیں۔ اشتہار کے جواب میں اگلے ہی دن کچھ لوگ اس کے پاس پہنچتے ہیں۔ سبھی افراد اپنی خوبیاں بیان کرتے ہیں اور خود کو اس کی دوستی کے لیے سب سے مناسب امیدوار بتاتے ہیں لیکن اس شخص کو تو کسی اور ہی دوست کی تلاش ہوتی ہے۔‘‘
۶۵ سال کے ایک ریٹائرڈ شخص کو ایک دوست کی ضرورت ہے۔
اس کی فیملی ہے۔ علم، ادب، آرٹ اور سنگیت کا شوقین ہے۔
’’دوست کی کسی بھی کمزوری اور کوتاہی کونظرانداز کرکے ہاتھ ملانا ہے۔‘‘
نیوزپیپر میں اشتہار پڑھ کر ڈاکٹر نائیک ہنسنے لگے، ’’۶۵برس تک اسے کوئی دوست نہیں ملا؟‘‘
’’جانے کتنے دوستوں سے دشمنی کرچکا ہے؟‘‘ راشد نے کارڈ بانٹتے ہوئے کہا۔
’’اسی لیے اسے اب بھی کوئی دوست نہیں ملے گا،‘‘ وہ سب ایک ساتھ ہنسنے لگے۔
’’۶۵برس گزاردیے اس نے کسی دوست کے بغیر! کتنا اکیلا ہوگا وہ! میری طرح۔۔۔‘‘
سورن سنگھ سرجھکاکر سوچنے لگا۔۔۔ گھر میں بیوی ہے۔ بچے ہیں۔۔۔ آس پاس دوست بیٹھے ہیں۔ ہاتھ میں رمی کے کارڈ لیے ہر طرح سے مجھے مات دینا چاہتے ہیں۔۔۔ جس کی طرف ہاتھ بڑھاؤں وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔۔۔
سورن سنگھ نے چائے کا کپ رکھ دیا۔۔۔ بے بسی سے ہاتھ ملنے لگا۔
اتوار کا دن تھا۔۔۔ وہ سب رمیش کے گھر بیٹھے ہی کھیل رہے تھے۔
رمی تو ایک بہانہ تھا۔۔۔ ہفتے بھر کی تھکان اور بوریت کم کرنے کے لیے وہ سب کسی ایک جگہ ساتھ بیٹھ کر خوب ہنستے۔ بیئر پیتے۔۔۔ بیوی بچوں سے دور۔۔۔آفس سے دور۔۔۔ سیاسی دہشت سے دور۔۔۔ جو دوست وہاں نہیں ہے اس کی برائیاں کرکے جی خوش کرتے۔
’’بور کرتا ہوگا سالا دوستوں کو۔۔۔۔ تمہاری طرح۔۔۔‘‘ نائیک نے بیئر کا گلاس اٹھاکر کہا۔
’’تو پھر تم بن جاؤ اس کے دوست۔۔۔ ڈاکٹر ہو۔ اس کے دکھ کی دوا دے دو۔۔۔‘‘ سب ہنس پڑے۔
’’اتنے دوست یہاں بیٹھے ہیں۔ ان کے ظلم کچھ کم ہیں کہ ایک اور ہارٹ پیشنٹ کو لے آؤں۔۔۔؟‘‘ وینکٹ کے تھپڑ سے بجتے ہوئے نائیک نے کہا۔
’’اشتہاریوں دیا ہے جیسے ایک نوکری کی، ایک ڈرائیور کی ضرورت ہے۔‘‘
’’سالا سمجھتا ہے دوست بھی مارکیٹ میں بک رہے ہیں۔
ریاض نے کارڈ ٹیبل پر ڈال کر سگریٹ منہ میں دبایا۔
’’کیا میرا کوئی دوست ہے؟ یہ بات امتیاز نے سگریٹ کے ساتھ جلائی اور لائیٹر دباکر بجھادی۔
’’اسے ایک دوست کی ضرورت ہے۔ مگر دوست کون ہوتا ہے۔ ۶۵برس میں بھی اسے پتہ نہیں چلا۔‘‘
’’تمہاری صورت دکھادیتے ہیں اسے۔ پھر توبہ کرلے گا دوست بنانے سے۔‘‘ سورن سنگھ نے امتیاز کے گھونسے سے بچتے ہوئے کہا۔
’’ہاں میری صورت دکھادو اسے۔۔۔‘‘ امتیاز نے گردن جھکالی۔
یہ سب جو میرے پاس بیٹھے ہیں۔۔۔ کیا میرے دوست ہیں؟ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہم سب دوسروں کی غلطیوں، کوتاہیوں کی تاک میں رہتے ہیں اور پھر اس کی حماقت پر سب کے قہقہے ایک ساتھ گونج اٹھتے ہیں۔
’’سالا بور کرتا ہوگا گھروالوں کو۔۔۔ بیٹی کالج سے کیوں نہیں آئی۔۔۔ بیٹا کہاں گیا۔۔۔ بیوی نے فون پر کس سے بات کی۔۔۔ تم کہاں جارہے ہو؟‘‘
یہ سب شکایتیں اس کے گھر والوں کو امتیاز سے تھیں۔
وہ دوستوں کو اپنے گھر کے مسائل سناتا رہتا تھا۔
امتیاز کو آج ہی کی بات یاد آئی۔
وہ دہلی میں جس لڑکی سے ملا تھا اس کاآج فون آنے والا تھا۔
اس نے بیوی سے کہا، ’’میرے لیے ایک لڑکی کا فون آئے گا۔ اس سے کہنا میں گھر پر نہیں ہوں۔ شام کو کلب میں ملے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد فون آگیا۔ بیوی نے فون اٹھاکر کہا، ’’تم آج مت آؤ۔امتیاز گھر میں ہیں۔‘‘
اسے غصہ آگیا، ’’میں نے کہا تھا اس لڑکی سے کہنا میں گھر پر نہیں ہوں۔‘‘
’’مگر وہ فون میرے لیے تھا۔۔۔‘‘ بیوی نے مسکراکے کہا۔۔۔
اب وہ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر شراب نہ پیے تو کیا کرے!
مگر آج سب کو قہقہے لگانے کے لیے ایک بات مل گئی تھی۔
’’پہلے تو یہ بتاؤ یار کہ کیا ہم کسی کے دوست بن سکتے ہیں؟‘‘
راشد کے اس سوال پر سب ہنسنا بھول گئے۔ سورن سنگھ کے ہاتھ سے کچھ کارڈز نیچے گر گئے۔ نائیک نے بیئرکا گلاس ٹیبل پر رکھ کر دونوں ہاتھوں سے سر کو تھام لیا۔ جب سے ڈاکٹر نائیک سیول سرجن ہوگیا ہے یوں بات کرتا ہے جیسے یہاں سب دل کے مریض بیٹھے ہیں جن کا انجیوگرام ہوگا۔۔۔
’’تھک گئے یار اب۔۔۔‘‘ امتیاز نے کارڈز ٹیبل پر ڈال کر انگڑائی لی۔۔۔
’’اوسادھنا۔۔۔ دہی بڑے کھلانے کے لیے اور کتنی دیر ترسائے گی تو۔۔۔؟‘‘
یہ بات سب جانتے تھے کہ دہی بڑے کھانے کے بہانے امتیاز تھوری دیر سادھنا سے ہنسی مذاق چھینا جھپٹی کرنا چاہتا ہے۔ گروپ کے سب ہی کا کسی نہ کسی کی بیوی سے رومانس چلتا رہتا تھا۔
مگر راشد کو ایک ہی فکر تھی آج۔۔۔
’’جانے وہ ہندو ہے یا مسلمان؟‘‘
’’مسلمان ہے تو ریٹائر ہونے کے بعد حوروں کو ہتھیانے میں جٹ گیا ہوگا،‘‘ رمیش کی بات پر سب ہنس پڑے۔
’’اور ہندو ہےتو رام رام جپنا، پرایا مال اپنا کر رہا ہوگا،‘‘ امتیاز نے کہا۔
’’یار سورن سنگھ۔ تو بھی بتادے کہ جب تیرے بارہ بج جائیں گے تو کیا کرے گا؟‘‘
’’اخبار میں اشتہاردوں گا کہ ایک اور دشمن کی ضرورت ہے۔۔۔‘‘
زوردار قہقہوں کے ساتھ سب بریف کیس سنبھال کر کھڑے ہوگئے۔۔۔
اگلی اتوار کو۔۔۔
ایک بہت شاندار خوبصورت بنگلے کے سامنے ایک سات کئی کاریں رک گئیں۔۔۔ اور وہ سب ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران ہوگئے۔ پھر زور زور سے ہنسنے لگے۔
’’میں نے سوچا ذرا دیکھ آؤں کہ وہ کون احمق ہے جسے ابھی تک ایک دوست بھی نہیں ملا۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ میں نے بھی یہی سوچا تنہا انسان کو کیوں نہ سہارا دیاجائے۔۔۔‘‘
وہ سب زور زور سے ہنستے ہوئے آگے بڑھے۔۔۔
بہت شاندار گھر تھا۔۔۔ پھولوں سے بھرا ہوا لان۔۔۔
واچ مین نے سب کا نام پوچھا۔۔۔اور پھر آگے بڑھ کر دھیرے سے بیل بجائی۔۔۔
ایک خوش شکل اسمارٹ شخص نے دروازہ کھولا۔۔۔
اونچا پورا، ادھیڑ عمر والا، سفید کھادی کا کرتا پاجامہ پہنے۔۔۔ سفید بالوں سے ڈھکا ہوا سر۔۔۔ ایک کھلی ہوئی کتاب ہاتھ میں تھامے۔۔۔ وہ سب کو دیکھ کر گھبراگیا۔۔۔
’’آپ۔۔۔؟ آپ کون؟ سوری۔۔۔ میں نے آپ کونہیں پہچانا۔۔۔‘‘
’’آپ ہمیں اس وقت بھی نہیں پہچانیں گے جب ہم آپ کے دوست بن جائیں گے۔‘‘ سورن سنگھ کے ساتھ ہم سب زور زور سے ہنسنے لگے۔۔۔
’’اچھا۔۔۔ اچھا آپ سب میرے دوست بننے کے لیے آئے ہیں۔۔۔؟ آئیے۔ آئیے۔‘‘
اس نے ایک طرف جھک کر بڑے خلوص کے ساتھ ہم سب کو اندر بلایا۔۔۔ اور پھر ایک شاندار ڈرائنگ روم میں بٹھاکر کہا۔۔۔ ’’میں شیام ہوں۔۔۔ کام تو آرکیٹکٹ کا کرتا تھا۔ مگر کچھ بھی نہ بنا سکا۔ صرف توڑ پھوڑ کرتا رہا۔۔۔ اور کیا کہوں؟‘‘ وہ ادھر ادھر دیکھ کر سرکھجانے لگا۔
’’میں خود نہیں جانتا کہ میں کون ہوں؟‘‘ سب ہنسنے لگے۔۔۔
ڈرائنگ روم میں ماڈرن آرٹ کی پینٹنگیں تھیں۔ قیمتی فرنیچر۔۔۔ سنگِ مرمر کے ایک اونچے استھان پر پتھر کی مورت بنی میرا ہاتھ میں اکتا رہ لیے سرجھکائے بیٹھی تھی۔۔۔ جیسے سوچ رہی ہو۔ کون گلی گئیو شیام؟
ٹیبل پر بیئر کی خالی بوتل، بھرا ہوا گلاس، سیل فون اور نیوز پیپر رکھاتھا۔
سب کو بٹھانے کے بعد اس نے بیئر کا گلاس اور بوتل ٹیبل پر سے اٹھائی تو اس کے کانپتے ہاتھ سے چھوٹ کر گلاس زمین پر گرگیا۔۔۔ کانچ کے ٹکڑے چاروں طرف بکھر گئے۔
اس نے بڑی ندامت کے ساتھ ہماری طرف دیکھا، ’’سوری۔۔۔ میرے گھر میں ہرچیز ٹوٹ جاتی ہے۔‘‘
’’کوئی بات نہیں کانچ کا گلاس تھا۔ آپ کے ہاتھ سے چھوٹ گیا،‘‘ نائیک نے ہنس کر کہا۔
’’ہاں۔۔۔ میرے ہاتھ سے ہر چیز چھوٹ جاتی ہے۔ بہانہ ڈھونڈتی ہے۔ بکھر جانے کا۔۔۔‘‘ شیشہ ٹوٹنے کی آواز سن کر ایک نوکر اندر آیا۔ اس نے گلاس کے بکھرے ہوئے ٹکڑے سمیٹے، فرش صاف کیا تو ڈاکٹر نائیک نے کہا۔۔۔ ’’آپ کو ایک دوست کی ضرورت ہے تو ہم سب دوستوں نے سوچا کہ اچھا ہے ایک اور دوست مل جائے۔‘‘
’’ایک اور۔۔۔؟‘‘ اس نےبڑے طنز کے ساتھ مسکراکے ہمیں دیکھا تو سب ہنس پڑے۔
’’میں اردو کا ایک پروفیسر ہوں۔ ڈاکٹر امتیاز علی،‘‘ امتیاز نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ تھام کر چوم لیا۔
’’میں ڈاکٹر نائیک۔ کارڈیالوجسٹ ہوں۔‘‘
’’میں سدرن سنگھ بیرسٹر ہوں۔۔۔‘‘
’’میں رمیش چندر۔ ڈی۔ جی آئی۔ پولیس۔۔۔ لیکن مجھ سے دور مت بھاگیے۔ میں اپنا ڈریس اتار کر آیا ہوں۔‘‘
’’میں راشد نیازی۔۔۔‘‘ راشد نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
’’یہ کچھ نہیں کرتے۔ صرف شاعری کرتے ہیں،‘‘ امتیاز نے ہنس کر کہا۔ آپ کو ان سے بچ کر رہنا ہوگا ورنہ وہ فوراً اپنی نئی غزل سناتا شروع کردیں گے۔۔۔‘‘ سب نے مل کر زوردار قہقہے لگائے۔
’’شاید راشد ہی دنیا کا سب سے اچھا کام کرتے ہیں۔۔۔ ٹوٹنے بکھرنے کے اس شور میں پیار اور امن کی پناہ تو ان کی غزل ہی میں ملے گی۔ یامیرا کے گیتوں میں،‘‘ شیام نے راشد سے ہاتھ ملاکر کہا اور سب نے ایک دوسرے کی طرف یوں دیکھا کہ جیسے کہہ رہے ہوں، ’’یہ برا آدمی نہیں ہے۔‘‘
’’آپ سے مل کر اچھا لگ رہا ہے،‘‘ سورن سنگھ نے بڑی خوشی سے کہا۔
’’ہمیں بھی آپ کے گھر آکر اچھا لگ رہاہے،‘‘ امتیاز نے مسکراکے کہا۔
’’جی ہاں۔۔۔ اس گھر میں آکر ہمیشہ اچھا لگتا ہےجو اپنا نہ ہو۔۔۔‘‘ اس نے بڑی لاپروائی سے یہ بات کہی مگر راشد نے اسے بڑے غور سے دیکھا۔ جیسے اس نے سب کے دل کی بات کہہ دی ہو۔
’’پہلے ہم نےرات کو پروگرام بنایا تھا آپ سے ملنے کا۔ خیال تھا کہ شاید رات میں آپ کی کوئی مصروفیت ہوگی۔‘‘
’’نہیں ۔۔۔ آپ رات کو بھی آئیے۔ رات دن سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میرے لیے تو کبھی رات آتی ہے کبھی نہیں آتی،‘‘ اس نے سگریٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا پھر سورن سنگھ کو دیکھ کر رک گیا۔
’’سوری،‘‘ اور پھر نوکر کو بلاکر چائے لانے کے لیے کہا۔
’’بہت اچھی باتیں کرتے ہیں آپ،‘‘ رمیش نے مسکراکر کہا۔
’’ہاں۔۔۔ صرف باتیں ہی اچھی کرتا ہوں۔‘‘
’’آپ ہمارے کلب کے ممبر بن جائے۔ وہاں ہم شطرنج بھی کھیلتے ہیں۔‘‘
’’آئی ایم ویری سوری۔۔۔ مجھے کوئی کھیل نہیں آتا۔ ہر بازی ہار جاتا ہوں۔۔۔‘‘ اس نے ادھر ادھر دیکھ کر بے بسی سے کہا۔۔۔‘‘ کیا کروں؟ ٹی۔ وی دیکھو تو مذہب، سائنس، سیاست کی دہشت۔۔۔ دنیا میں لوٹ۔۔۔ نفرت کااندھیرا۔۔۔ میرے دل کو دھڑکنے پر مجبور کردیتی ہے۔‘‘
’’سچ کہہ رہے ہیں آپ،‘‘ راشد نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
’’بچے مجھ سے دور چلے گئے ہیں۔ دوستوں کو میرے ساتھ ہولی کھیلنا یاد نہیں رہتا۔ بیوی کو اپنی محرومیاں اور میری حماقتیں یاد آتی ہیں۔ صبح شام کی طرح اب ہم دونوں اکٹھے نہیں بیٹھتے کبھی۔‘‘
’’یہ تو ہر جگہ ہو رہا ہے۔ اب دنیا سے پیار خلوص ختم ہوگیا ہے،‘‘ راشد نے کہا۔
’’اب تو ہماری دنیا بھی ان تاریک سیاروں میں شامل ہوچکی ہے جہاں آکسیجن ہے نہ روشنی۔‘‘
’’آپ کی فیملی کہاں ہے۔ گھر میں آپ کے ساتھ اور کون رہتا ہے؟‘‘
سورن سنگھ چاہتا تھا اس ٹاپک کو بدل دے جس میں آکسیجن ہے نہ روشنی۔
’’میرا بیٹا، رام کمپیوٹر انجینئر ہے۔۔۔ وہ اپنےآفس کمپیوٹر کے آگے کان بند کیے بیٹھا رہتا ہے۔ نینا کی شادی ہوگئی۔وہ امریکہ چکی گئی ہے۔ میری بیوی نرملا شیام بہت مشہورآرٹسٹ ہے۔‘‘
’’نرملا شیام؟ ہم سب چونک پڑے۔۔۔ وہ بہت مشہور آرٹسٹ ہیں۔ وہ آپ کی بیوی ہیں؟‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ وہ آج کل اپنے دوست راجن سنہا کے ساتھ کشمیرگئی ہیں۔ وہ بھی بہت مشہور گائیک ہیں۔ان کی مدھرتانیں نرملا کو اپنے ساتھ لے جاتی ہیں۔‘‘
’’تو یہ نرملا شیام کا گھر ہے۔۔۔ بہت اچھا لگا ہمیں آپ کے گھر آکر۔۔۔‘‘ امتیاز نے خوش ہوکر کہا۔
’’آپ کایہ پورٹریٹ بھی انہوں نے بنایا ہے؟‘‘
سب دیوار پر لگا شیام کاپورٹریٹ دیکھنے لگے۔
’’جی ہاں۔۔۔ وہ کئی رنگوں کو ملاکر میرے من مانے روپ اجاگرکردیتی ہیں،‘‘ شیام نےہنس کر کہا۔
’’آپ دیکھیے۔ اتنے خوبصورت فریم کے اندر ایک کیل سے باندھ کر کتنی اونچائی پر رکھ دیا ہے مجھے۔۔۔ بہت بڑی فن کار ہے وہ۔۔۔‘‘
شیام کی بات سن کر سب چپ ہوگئے۔
’’لیکن آپ یہ دیکھیے کہ ایک کیل سے بندھا ہوا اتنی اونچائی پر بیٹھا اس گھر کو دیکھ رہا ہوں میں، جو ایک تھیئٹر کا خالی ہال لگتا ہے۔ جہاں سب اپنا اپنا کردار ادا کرکے چلے گئے۔‘‘
’’شیام صاحب! آپ کی باتیں سن کر ایسا لگتا ہے جیسے آپ بہت اچھے شاعر ہیں۔‘‘
راشد کی بات پر سب ہنس پڑے۔۔۔
’’نہیں راشد صاحب ہم۔۔۔ لوگ نہ شاعری کرتے ہیں نہ جی بھر کے ہنسنا آتا ہے۔ شک، مصلحت اور احتیاط کے حصار میں قید رہتے ہیں۔ لائیٹر جلاکر دنیا کے ہر مسئلے کو دیکھتے ہیں اور اپنی محرومی کو راکھ بناکر جھٹک دیتے ہیں۔‘‘
’’واہ کتنی اچھی بات کہی ہے آپ نے،‘‘ امتیاز نے خوش ہوکر اس کا ہاتھ لیا۔
’’آپ جینئس لوگ ہیں۔ میں کوئی ایسی بات نہ کہہ دوں جو آپ کو بری لگے۔‘‘
’’ارے نہیں یار۔۔۔ آپ ہم سے بات کرتے وقت کیوں ڈر رہے ہیں؟‘‘ سورن سنگھ نے ہنس کر کہا۔
’’نہیں۔۔۔ مجھے اپنے سوا کسی سے ڈر نہیں لگتا۔ غصہ آجائے تو میں پھر اپنی دھجیاں بکھیر کے پھینک دیتا ہوں۔ اور پھر کچھ مل جانے کی امید لیے خالی گھر میں گھومتا پھرتا ہوں۔‘‘
’’تو اصل مسئلہ آپ کی تنہائی کا ہے۔۔۔؟ ڈاکٹر نائیک نے شیام کی بیماری سمجھ لی۔‘‘
’’مجھے جانے کتنے روگ ہیں ڈاکٹر صاحب۔ میں تو کسی کہانی کاادھورا کردار ہوں جسے کوئی لکھ کر کاٹ دیتا ہے۔‘‘
’’اس لیے آپ کو ایک دوست کی ضرورت ہے۔‘‘
’’اب آپ کو پانچ دوست مل گئے ہیں۔۔۔‘‘ سورن سنگھ نے بڑی محبت سے اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔
’’ہم آپ کو تنہائی میں گھبرانے کے لیے اکیلا نہیں چھوڑیں گے،‘‘ راشد نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
’’ہاں یار۔ تم اس گھر میں اکیلے ہو۔ وقت کیسے گزارتے ہو؟‘‘
’’وقت کب رکتا ہے! وہ تو گزر ہی جاتاہے۔ میں تو شلف کھول کر گزرے ہوئے وقت کو ڈھونڈتا ہوں۔‘‘
’’گزرے ہوئے وقت کو ہم بھی ڈھونڈتے ہیں،‘‘ راشد نے بڑی اداسی سے کہا۔ ’’مگر وہ وقت کہاں ملتا ہے۔۔۔‘‘
’’مل بھی جاتا ہے،‘‘ شیام نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’’اگر کسی نے اپنی یادوں میں باندھ رکھا ہو۔‘‘
وہ سب چپ ہوگئے جیسے اب کچھ بھی کہنے کو نہ رہا ہو۔
بعد میں امتیاز نے پوچھا۔۔۔ ’’ہم سب کے آجانے سے آپ کو کیسا لگا؟‘‘
’’بہت اچھا لگ رہا ہے،‘‘ اس نےچاروں طرف دیکھ کر کہا۔
’’گھر کی ہر چیز ویسی ہی لگ رہی ہے جیسی وہ ہے۔‘‘
اس کی بات سن کر پھر سب چپ ہوگئے۔
’’معاف کرنا شیام، اگر میں یہ پوچھوں کہ کیا آپ بھگوان کو مانتے ہیں؟‘‘ رمیش چاہتا تھا اسے دھرم ایمان کی طرف لے جائے۔
’’ہاں۔۔۔ اس نے گردن جھکاکر دھیرے سے کہا،‘‘ میں بھگوان کو اس لیے مانتا ہوں کہ اپنی ہر محرومی ناکامی، بے ایمانی کاذمہ دار اسی کو بنادیتا ہوں۔‘‘
’’اچھا۔ تو آپ بھگوان سے نہیں ڈرتے؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ مجھے اپنے سوا کسی سے ڈر نہیں لگتا۔ دوسروں سے بے ایمانی کرکے تو مزہ آتا ہے مگر اپنے آپ سے بے ایمانی کرنے کا پاپ ہمیشہ ساتھ رہتا ہے،‘‘ وہ سرجھکائے جیسے کسی عدالت میں بیان دے رہاتھا۔
’’آپ سب میرے دوست بننا چاہتے ہیں تو اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے بہت سے قتل کیے ہیں۔ لوٹ بے ایمانی کی ہے۔ اپنی بیوی نرملا سے جھوٹا پیار جتاکر۔ بچوں کو ادھر جانے سے روکا جدھر وہ جانا چاہتے تھے۔ میں نے اپنے آپ سے بھی انصاف نہیں کیا۔ میرے خواب۔ میری خواہشیں۔ سب کاگلا گھونٹ دیا۔‘‘
’’آپ نے قتل بھی کیے ہیں؟‘‘ وہ سب چونک پڑے۔
’’ہاں۔۔۔ میں نے اپنی اس لگن کو مار ڈالا جو مجھے روشن سے من کی بات کہنے پر اکساتی تھی۔۔۔ مگر میری خودپسندی نے دل کی بات کہنے نہیں دی۔ بعد میں اپنے دل کا حال اس کے نام خطوں میں لکھا اور وہ خط غالب کے دیوان میں چھپادیے۔ کئی بار روشن مجھ سے کچھ سننے کو آئی۔ میری جھکی جھکی آنکھوں میں کچھ ڈھونڈ کر پاکستان چلی گئی۔ جلد ہندوستان پاکستان کے بیچ مجھے روشن سے دور رکھنے کے لیے حدبندی کردی گئی۔‘‘
’’میں نے یہ گھر بنایاتھا کہ جب سارے سنسار میں جھوٹ، بے ایمانی، ناانصافی کااندھیرا چھا جائے گا، اپنے گھر کے چراغ سے سچائی اور پیار کی لو بڑھادوں گا۔ مگر جھوٹ، بے ایمانی، خودغرضی کی آندھی میں وہ سارے چراغ بجھ گئے ہیں۔۔۔ میرے ہاتھوں سے ہر چیز گرکے ٹوٹ چکی ہے۔‘‘
اس کی بات سن کر کچھ دیر تک سب چپ ہوگئے۔۔۔ پھر رمیش نے اسے سمجھایا۔
’’ہاں یار۔۔۔ زندگی میں ہم سب کچھ ایسے کام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جو کرنا نہیں چاہتے۔‘‘
’’تم اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اتنے دکھی کیوں ہوگئے ہو؟‘‘ راشد نے قریب جاکر بڑی محبت سے اس کا ہاتھ تھام لیا اور اس کا جھکا ہوا سر اوپر اٹھایا۔
’’آپ انہیں چھوٹی چھوٹی باتیں کہتے ہیں؟‘‘ اس نے سرجھکاکر کہا۔
’’میں آرکیٹکٹ تھا۔۔۔ اتنے ڈیم بنائے۔۔۔ لاکھوں روپے کا ہیرپھیر کیا۔۔۔ خراب کنسٹریکشن کی وجہ سے وہ پل ٹوٹ گیا۔۔۔ دومزدور دب کر مرگئے۔‘‘
’’ایسی غلطیاں ہم سب کرتے ہیں۔ ان باتوں کو بھول کر اپنے آپ کو سنبھالیے آپ۔۔۔‘‘
ڈاکٹرنائیک نے انہیں غور سے دیکھا۔
’’کل آپ ہمارے کلینک آئیے۔ میں آپ کو انجیوگرام کروں گا۔‘‘
’’نہیں نہیں۔۔۔‘‘ وہ گھبراگیا۔۔۔ ’’آپ کیا کریں گے میرے دل کا حال جان کر؟‘‘ سب ہنس پڑے۔۔۔
’’میں تو اپنے دل کاحال اپنے آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔‘‘
کچھ دیر کے بعد پھر سے جیسے چپ ہوگئے اور پھر وہ دونوں ہاتھ ملتے ہوئے دھیرے دھیرے اپنےآپ سے باتیں کرنے لگا۔
’’آپ سب شاید سن کر ہنسیں گے کہ میں نے نیوزپیپر میں یہ اشتہار اس لیے دیا تھا کہ کال بیل کی آواز سن کر میں دروازہ کھولوں تو سامنے میں کھڑا ہوں۔۔۔‘‘
اور پھر بے بسی سے ہاتھ ملتے ہوئے جیسے کسی سے سرگوشی کرنے لگا۔
’’یہ کیسی ان ہونی بات ہوگی کہ میں اپنے گناہوں، اپنی خودسری کو معاف کرکے اپنے آپ سے ہاتھ ملانے کو تیار ہوجاؤں؟‘‘
مأخذ : یقیں کے آگے گماں کے پیچھے
مصنف:جیلانی بانو