چھنال

0
184
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

مون سون کی پہلی بارش والے روز اس کا جسم درد سے اینٹھ رہا تھا اور وہ چارپائی پر پڑی رہنا چاہتی تھی۔

صبح سے آسمان پر بادل تھے۔ وہ بےخیالی میں اس چیل کو تک رہی تھی، جو ہوا میں تیرتی معلوم ہوتی۔ کچھ دیر بعد چیل غوطہ لگاکر منظر سے غائب ہو گئی۔ وہ یوں ہی لیٹے آسمان کو تکتی رہی۔ ماہواری شروع ہوئے دوسرا دن تھا۔ باورچی خانے میں برتن پڑے تھے۔ دوپہر کا کھانا پکاتے ہوئے آپانے اسے پکارا تھا۔

اس کی ماں چچا کے گھر گئی ہوئی تھی۔ وہ کہہ گئی تھی کہ شام میں بارش ہوگی، بہتر ہے، وہ کپڑے دھو کر سکھا لیے، مگر مسرت یونہی لیٹی رہی۔ جسم میں تیرتی آلکس کا احساس اطمینان بخش تھا اور مرچوں کے اچار کاذائقہ اب تک زبان پر تھا۔ ہلکی ہلکی ہوا چلنے لگی۔ گلی میں لگے نیم کے پیڑ کی شاخیں دھیرے دھیرے ہل رہی تھیں۔

اسے گلی میں قدموں کی آواز سنائی دی۔ بہت سے لڑکے آپس میں ہنسی مذاق کرتے ریلی کی صورت جارہے تھے۔ وہ تخیل کے پردے پر انھیں ہنستے مسکراتے، ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے، جھنڈے تھامے گلی سے گزرتے دیکھ سکتی تھی۔ وہ مطمئن تھے اور خواب دیکھ رہے تھے۔

کچھ دیر بعد ان کی آوازیں بھی مسرت کوسنائی دینے لگیں۔ ایک لڑکے نے کسی بات پر بہن کی گالی دی تھی۔ سب نے قہقہہ لگایا۔

- Advertisement -

اسے ناصر یاد آ گیا۔ ایک مسکراہٹ ہونٹوں پر ظاہر ہوئی تھی۔

کبھی کبھار جب وہ اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کرتی، تو وہ اسے یہی گالی دیا کرتا تھا اور جواب میں وہ ہنسے لگتی تھی اور جب کبھی وہ اسے نظرانداز کرنے کی کوشش کرتا یا چند روز تک ملنے نہ آتا اور جب آتا، تو چائے پیتے ہوئے اجنبیوں سا برتاؤ کرتا، تو وہ بھی اسے یہی گالی دیا کرتی تھی۔

تب وہ اٹھ کر اسے بالوں سے پکڑ لیتا تھا۔ وہ اس کی کمر کو اپنے بازو میں جکڑ لیتا۔ وہ خوشی سے کھکھلاتی اور کہتی جاتی۔ ’’چھوڑ، اماں آجائےگی۔ چھوڑ!‘‘

وہ اس کا بوسہ لیتا۔ پھردونوں آہستگی سے الگ ہوتے۔ ان کی آنکھوں میں سمندر ہوتا۔ اس کمرے میں جانے کی خواہش پنپنے لگتی، جہاں زمین پر ایک بستر بچھا تھا، جس کی پرانی چادر انھیں بھلی لگتی تھی، مگر وہ مناسب وقت تک ٹھہر جاتے۔

انھیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ مناسب وقت جلد آ جاتا۔ شام ڈھلے، جب آپا کوچنگ سینٹر چلی جاتی اور اماں سلائی کے آرڈر پہنچانے گئی ہوتی اور خواہش شدید ہوتی، تو ناصر خاموشی سے زینہ چڑھ کر، کرایے داروں کی نظروں میں آئے بغیر مکان کے پہلی منزل پر آ جاتا۔ مسرت سارے کام چھوڑکر اس کے ساتھ کمرے میں چلی جاتی۔

کمرہ، جو کچھ دیر میں تپنے لگتا۔

’’چپ کر بھڑوے!‘‘ گلی میں کسی نے کہا تھا۔ ایک کبوتر بالکونی کی دیوار پر آ کر بیٹھ گیا۔

مسرت کے منہ میں اب بھی اچار کا ذایقہ تھا۔ لڑکے شور مچاتے ہوئے آگے بڑھ گئے تھے۔ گلی کے کونے پر ڈپو تھا۔ وہ جانتی تھی کہ ناصر وہیں ہوگا۔ ڈپو پر موجود لڑکے بھی ریلی میں شامل ہو جائیں گے۔ آج جلسہ تھا۔ بڑے میدان میں، جہاں کچھ روز قبل مسجد پر قبضہ ہوا تھا، خصوصی خطاب کا اہتمام کیا گیا تھا۔

وہ ذہن کے پردے پر ناصر کو جلوس کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھ سکتی تھی۔ اس نے ماتھے پر پڑے بالوں کو جھٹکے سے ہٹایا ہوگا اور اپنے دوست عادل کے کان میں سرگوشی کی ہو گئی، اور پھر دونوں نے قہقہہ لگایا ہوگا۔

اس روز بھی، جب آسمان صاف تھا اور ان کا پہلی بار سامنا ہوا تھا، لڑکے نے ایسا ہی کیا تھا۔

تب وہ ایک رجسٹر سینے پر رکھے کالج سے لوٹ رہی تھی اور ناصر ہاتھ پر رومال باندھے گلی کے کونے پر کھڑا تھا۔ اس کے پیچھے ویڈیو کیسٹ کی دکان تھی۔ امیتابھ بچن اور ریکھا کی کسی فلم کا پوسٹر لگا تھا۔ لڑکے نے زنگ آلود کھمبے سے ٹیک لگا رکھا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر سیدھا ہو گیا۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ وہ گھبرانے والی لڑکی نہیں تھی، اس لیے جب ناصر نے اپنے دوست کے کان میں کچھ کہا اور دونوں نے ایک فحش قہقہہ لگایا، تو وہ ذرا نہیں دبی، بلکہ مڑکر اسے دیکھنے لگی۔

اسے یقین ہے کہ اس روز وہ مسکرائی تھی۔ وہ اصرار بھی کرتی ہے، مگر ناصر بار بار یہی کہتا کہ اس سہ پہر اس کا چہرہ سپاٹ تھا اور اس کی بڑی بڑی آنکھیں چیلنج کرتی تھیں اور ان ہی آنکھوں نے اسے خود سے باندھ لیا تھا۔ شام جب وہ کھڑکی میں گئی، تو وہی لڑکا نیم کے پیڑ سے ٹیک لگائے اکڑوں بیٹھا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔

اس بار اس نے کسی کے کان میں کچھ نہیں کہا۔

’’اس کی کی گھڑی یہاں رہ گئی ہے۔‘‘

آپا نے کھڑکی میں کچھ رکھا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کمرے میں، جو وہ اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ بانٹتی ہے اور جہاں حبس بھرا رہتا ہے، مسرت ان تجربات سے گزر چکی ہے، جن کا تصور اس کی ہم جولیوں پر لرزہ طاری کر سکتا ہے۔ مگر وہ چپ رہتی تھی، کیوں کہ وہ خود بھی کچھ برس ادھر اسی کمرے میں اسی تجربے سے گزری تھی اور تب اس کی چھوٹی بہن چپ رہی تھی۔

اسے اس لڑکے کا چہرہ یاد تھا۔ اس کے گال پر زخم کا نشان تھا اور پستول اس کے نیفے میں اڑسا رہتا تھا۔ وہ مکو دادا کا بھانجا تھا۔ گذشتہ سال ہونے والے لسانی فسادات میں وہ قتل کر دیا گیا۔ اس کے ماتھے پر گولی لگی تھی۔ وہ اسے یاد کرکے کبھی کبھار رویا کرتی تھی۔ اس نے کئی بار مسرت سے کہا کہ وہ ناصر کو سیاست سے باز رکھنے کی کوشش کرے اور مسرت نے یہ کوشش کی بھی، ایک سے زاید بار، انتہائی نازک لمحات میں، اپنی قسم دیتے ہوئے اور ہر بار ناصر نے وعدہ کیا، مگر وہ اسے نبھا نہیں سکا۔

یہ اب ممکن نہیں تھا۔

گلی میں اب خاموشی تھی۔ بادل گہرے ہو گئے۔ شاید بارش ہونے والی تھی۔ کسی نے کچرا جلایا تھا۔ مسرت کی کمر کادرد بڑھ گیا۔ اس نے اٹھ کرچولھے پر کیتلی چڑھائی اور ایک انڈا ابالنے کو رکھ دیا۔ آپا نے برتن دھو دیے تھے۔ اب وہ کمرے میں لیٹی ڈائجسٹ پڑھ رہی تھی۔

’’شکریہ سسٹر!‘‘ اس نے آواز لگائی۔ آواز میں شوخی تھی۔ آپانے کوئی جواب نہیں دیا۔ بس کچھ دیر بعد بولی۔ ’’گھڑی اٹھا لینا!‘‘

کرایہ دار اپنی بیوی سے لڑ رہا تھا۔ اس کے بچے کی رونے کی آواز آرہی تھی۔ مسرت نے ہوا دان سے نیچے جھانکا۔ کسی نے مچھلی تلی تھی۔ زینے کا دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔ اس کی ماں خدیجہ بی بی کپڑوں کے تھیلے اٹھائے آ رہی تھی۔ وہ بوڑھی ہوگئی تھی۔ اس نے تھیلے چارپائی پر پھینکے اور دھب سے بیٹھ گئی۔

’’خدا خیر کرے، بازار میں گولی چلی ہے!‘‘ عورت نے کہا۔

’’اچھا۔‘‘ مسرت نے اسے بنا دیکھے جواب دیا۔ انڈا ابل چکا تھا۔

’’پھر جھگڑے شروع ہو جائیں گے، تیرے ابا کے ٹائم بھی ایسا ہی ہوا تھا۔‘‘ عورت بادلوں کو دیکھتے ہوئے تھیلے کھولنے لگی۔

’’کون ساابا؟‘‘ اس نے تلخی سے کہا۔

’’کم بخت، بکتی رہتی ہے ہر وقت۔‘‘ عورت جھنجھلا گئی اور بیٹی کو کوسنے لگی۔

عورت اپنے شوہر کو نہیں بھولی تھی۔ دوسری شادی کے بعد وہ فقط تین چاربار ان سے ملنے آیا۔ خرچا بھی صرف ایک ڈیڑھ سال بھجوایا۔ اب کبھی کبھار اس کا خط آ جاتا تھا یا پھر عید پر وہ منی آرڈر کر دیتا اور عورت کے لیے یہ بہت تھا۔ گھر کی ایک دیوار پر اس کے شوہر کی بلیک اینڈ وائٹ تصور آویزاں تھی۔ نئے ملنے والوں کو وہ یہی کہتی کہ مصباح اور مسرت کے ابا کا انتقال ہو چکا ہے، گوجرانوالا میں ان کی قبر ہے۔

’’تو نے کپڑے نہیں دھوئے ناں؟‘‘ عورت نے غصے سے کہا۔

’’میں مر رہی ہوں اور تمھیں کپڑوں کی پڑی ہے۔‘‘ اس نے تیزی سے کہا، گو لہجے میں غصہ نہیں تھا۔ ’’انڈا کھاؤگی اماں؟‘‘

’’نہیں، تو ہی کھا۔‘‘ عورت نے جواب دیا۔ پھر چونکی۔ ’’مگرانڈے تو کل ختم ہو گئے تھے۔‘‘

لڑکی ہنسنے لگی۔

کچھ دیر بعد آسمان سیاہ ہو گیا اور بارش شروع ہو گئی۔ گلی میں بچے چھینٹیں اڑا رہے تھے۔ بارش کے پانی میں گٹر کا پانی بھی شامل ہو گیا تھا۔ آپا کمرے کے دروازے میں کھڑی تھی۔ مسرت نے چادر خود پر ڈال لی۔ ا ماں نے باورچی خانے آواز لگائی۔ ’’تو نہیں نہائےگی آج۔‘‘

’’پاگل ہو گئی ہو اماں، اس حالت میں۔‘‘

عورت نے جواب نہیں دیا۔ بارش تیز ہو گئی۔

*

جب بارش آئی، ناصر جیب میں ہاتھ ڈالے، کاندھا جھکائے کچرا کنڈی کے پاس کھڑا تھا۔

ناصر معراج مستری کا بیٹا تھا، جو پانچ برس قبل بیماری کے باعث اس پیشے سے کنارہ کش ہو گیا تھا۔ آخر ی بار اس نے اس کمرے کا پلستر کیا تھا، جہاں ناصر کی ماں اپنی بہو کو لانا چاہتی تھی۔ مگر اس سے پہلے وہ چاہتی تھی کہ لڑکا کسی کام دھندے پر لگ جائے۔ معراج نے اب اسکول کے باہر ٹافی اور بسکٹوں کا ٹھیا لگا لیا تھا۔ وہ غوث پاک کا ماننے والا تھا، جن کی برکت سے کاروبار چل نکلا۔ وہ اکثر سوچا کرتا تھا کہ راج مستری کے کام میں اس نے یونہی اتنے برس برباد کیے۔ اس نے ناصر سے بہتیرا کہا کہ دھندے میں اس کا ہاتھ بٹائے، مگر لڑکے کو تو ہیرو بن کر علاقے کی تنگ، بدل حال گلیوں میں گھومنے سے فرصت نہیں تھی۔

جلسے کے انتظامات آخری مرحلے میں تھے۔ شامیانہ تو صبح ہی لگا دیا گیا تھا۔ اب دریاں بھی بچھ گئیں۔ دریوں پر محلے کے بوڑھے اور فارغ لوگ بیٹھے گپیں لڑا رہے تھے۔ کچھ عورتیں بھی آ گئی تھیں۔ مقامی لیڈر واسکٹ پہنے غیرضرور ی طور پر مصروف نظر آ رہے تھے۔ بچوں نے صفوں میں ادھم مچا رکھا تھا۔

اور ایسے میں۔۔۔ بادل گرجے۔

مینہ برسنے لگا۔

ناصر کا دوست عادل فرنیچر والے کے چھپرے کے نیچے چلا گیا اور وہاں سے اسے آوازیں دینے لگا، مگر ناصر ہاتھ کھولے بھیگتا رہا تھا۔ سڑک پر جلد پانی کھڑا ہو گیا۔ بسیں اور موٹرسائیکلیں گزرنے سے کیچڑ اچھلتا۔ میدان کی دیواروں کے ساتھ پڑا کچرا بہتا ہوا آ رہا تھا۔

عادل کی چیخ پکار سے تنگ آکر ناصر نے کہا۔ ’’ڈھکن، کیا لڑکیوں کی طرح چلا رہا ہے۔ پہلی بارش ہے، آ۔۔۔ تو بھی نہا لے۔‘‘

عادل نے جواباً اسے گالی دی۔ فرنیچر والا ہنسنے لگا۔ اس نے عادل کو دیکھ کر ران کھجائی۔ دکان میں برادہ پھیلا تھا۔

میدان میں ہل چل تھی۔ شامیانہ ٹپکنے لگا۔ ایک شخص اسٹیج پر چڑھا گیا اور مائیک آن کر دیا۔ اسپیکر سے عجیب و غریب آوازیں بلند ہونے لگیں۔ دو لڑکے اسٹیج کے بالکل ساتھ امپلی فائر لیے بیٹھے تھے۔ وہ آواز کو ٹون کرنے کی کوشش میں بے طرح ہنسے جاتے اور نقلیں اتارتے۔ ایک ادھیڑ عمر شخص نے آگے بڑھ کر ایک لڑکے کے منہ پر چانٹا رسید کر دیا۔ لڑکے کی ٹوپی گر گئی۔ اس نے منہ سے گٹکا تھوکا۔

اسی لمحہ پی ایم ٹی میں زور دار دھماکا ہوا اور چنگاریاں نکلیں۔ ناصر بھاگتاہوا چھپرے کے نیچے چلا گیا۔

’’کیوں بے، پھٹ گئی؟‘‘ عادل ہنسا۔

’’جلسے کے تو ’ل‘ سے لگ گئے۔‘‘ ناصر نے بالوں کو جھٹکا دیا اور ایک جنسی اشارہ کیا۔ اس نے عادل سے چپکنے کی کوشش کی، تو اس نے دھکے سے پرے کر دیا۔ ’’اپنی چھنال سے جاکر چپک۔‘‘

وہ ہنسنے لگا۔ ’’ نہیں۔ ابھی تو اسے کپڑا آ رہا ہے!‘‘

دونوں نے قہقہہ لگایا۔ فرنیچر والے کی خارش بڑھ گئی۔ لوگ اٹھ کر جلسہ گاہ سے جانے لگے تھے۔ ایک مقامی عہدے دار نے انھیں روکنے کی کوشش کی، مگر بارش نے سب تلپٹ کر دیا۔

ناصر گھر جاتے جاتے مسرت کی گلی کی طرف مڑ گیا۔ دور سے ایک لڑکے نے سیٹی بجاکر اسے متوجہ کرنا چاہا، مگر اس نے دھیان نہیں دیا۔ اس کے ذہن میں مسرت کے ہاتھ تھے۔ اس کی انگلیاں لمبی مگر مضبوط تھیں۔

مسرت اس کی زندگی میں آنے والی پہلی لڑکی نہیں تھی اور اس بات کا مسرت کو بھی علم تھا۔ مگر وہ خواہش مند تھی کہ وہی اس کی زندگی کی آخری لڑکی ثابت ہوا۔ یہی خواہش ناصر کی بھی تھی، مگر یہ کچھ دشوار تھا۔ وہ اپنی برادری سے باہر شادی نہیں کر سکتا تھا۔ کچھ برس قبل اس کے ماموں زاد نے یہ حرکت کی تھی۔ ہر شخص نے، یہاں تک کہ اس کے ماں باپ نے بھی اسے بے دخل کرکے اس سے قطع تعلق کر لیا۔ اگر ناصر ایسا کرتا، تو اس کا نتیجہ بھی یہی نکلتا۔ مگر وہ ابھی اس بارے میں نہیں سوچ رہا تھا۔

وہ کھلے ہوئے گٹر اور نیکر پہنے بچوں سے بچتا بچاتا مسرت کے مکان کے سامنے پہنچا۔ اب کچھ اندھیرا ہو گیا تھا۔ بارش دھیمی پڑ گئی۔ گلی میں کھلنے والی باورچی خانوں کی کھڑکیوں سے چائے اور پکوڑوں کی خوش بو آ رہی تھی۔ قریبی سڑک سے ایمبولینس گزری۔

اس نے ایک منٹ کے وقفے سے مسرت کی چھت پرکنکریاں پھینکیں۔

کوئی جواب نہیں آیا۔ وہ یونہی کھڑا رہا۔ کچھ پلوں بعد آپا کھڑکی میں دکھائی دی۔ اس نے سر ہلایا کر سلام کیا۔

’’وہ تو سوئی ہوئی ہے۔‘‘ لڑکی نے کہا اور گھبرا گئی۔ لڑکا اس سے چھوٹا تھا۔

ناصر سر ہلاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

*

وہ پوری شام پڑی سوتی رہی۔

اٹھی، تو آس پاس اندھیرا تھا۔ تین گھنٹے سے بجلی نہیں تھی۔ آپا نے ایک موم بتی جلا دی۔ اب بھی ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ مسرت کو شدید بھوک محسوس ہوئی۔ اٹھی، تو بستر گیلا تھا۔ اسے خود سے الجھن ہو رہی تھی۔ وہ کمرے سے باہر نکل کر کھلے حصے میں آ گئی۔ ٹھنڈی ہوا جسم میں سے ٹکرائی۔ ساتھ والے کمرے میں ہلکی روشنی تھی۔ خدیجہ بی بی جائے نماز بچھائے بیٹھی تھی۔

’’کچھ کھا لے۔ کب سے بھوکی پڑی ہے۔‘‘ عورت نے آواز لگائی۔

وہ رسوئی میں چلی گئی۔ کھانے کے بعد اس نے چائے چڑھا دی۔

’’تم لو گی کیا؟‘‘ اس نے آپا سے پوچھا۔

کوئی جواب نہیں آیا۔ شاید آپا کی آنکھ لگ گئی تھی۔ وہ چائے کا کپ لیے بالکونی میں جا کھڑی ہوئی۔ گلی میں سناٹا تھا۔ کرائے دار کی بیوی کسی سے باتیں کر رہی تھی۔ دور کہیں کسی نے جنریٹر چلانے کی کوشش کی۔ چند کوششوں کے بعد ناکامی کی چپ سنائی دینے لگی۔

موٹرسائیکل کے انجن کی آواز قریب آتی جا رہی تھی۔ مسرت اس آواز سے شناسا تھی۔ اسے خبر تھی کہ موٹر سائیکل اس کے گھر کے نیچے آکر رک جائےگی۔

کچھ لمحوں بعد فیضان زینہ پھلانگتے ہوئے اوپر آ گیا۔ وہ اس کا چچا زادہ تھا۔ لڑکے کو اندھیرے سے مانوس ہونے میں کچھ دقعت ہوئی۔

’’السلام علیکم!‘‘ وہ ہنسی۔ لڑکا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔

’’او بھائی ادھر۔‘‘ اس نے آواز لگائی۔ لڑکے نے اسے دیکھ لیا۔

لڑکے نے منہ بنایا۔ ’’اور یہاں کھڑی کیا کر رہی ہو، اس کتے کا انتظار!‘‘

اس نے قہقہہ لگایا۔ ’’اوہ، میرا فیضی بڑے غصے میں ہے۔‘‘

لڑکا اس سے چار برس چھوٹا تھا۔ وہ ساتھ پلے بڑھے تھے۔ جب مسرت کے باپ نے شادی کی اور گوجرانوالا جا بسا، تب وہ نومولود تھی۔ باقی خاندان نے آدمی سے قطع تعلق کر لیا، اور اپنی تمام تر محبت اس کی پہلی بیوی اور دونوں بیٹیوں کے لیے وقف کر دی۔ پہلے پہل یہ محبت بڑی توانا اور روشن تھی، مگر اس میں وقت کے ساتھ کمی آنا بھی فطری تھا۔ جب خدیجہ بی بی کے دیور کی شادی ہو گئی اور ایک اور عورت گھر آ گئی، تب پہلی دراڑ نمودار ہوئی۔

اور پھر دیور کے ہاں بچوں کی پیدائش کے بعد دوسری،

اور ساس کے انتقال کے بعد تیسری۔

گو خدیجہ بی بی نے ایک ملازمہ کا روپ دھار لیا تھا اور اس کی بیٹیاں ہی گھر سنبھالا کرتی تھیں، مگر اب اس خلیج کو پاٹنا ممکن نہ تھا۔ سسر خاندانی آدمی تھا۔ وہ میرٹھ کو یاد کیا کرتا تھا۔ اس نے اسے قریب ہی ایک مکان خرید دیا۔ پہلی منزل ماں بیٹیوں کا مسکن بن گئی، نیچے کرایہ دار آ گئے۔ خدیجہ بی بی سمجھ دار تھی، مگر اس سے زیادہ ذہین اس کی بڑی بیٹی مصباح تھی۔ سسر نے اپنی پنشن کا ایک حصہ بڑی بہو کے لیے مختص کر دیا تھا اور اس کے دیور نے بھی اس معاملے میں کبھی غفلت نہیں برتی، مگر مصباح نے میٹرک کے فوراً بعد نہ صرف ٹیوشن پڑھانی شروع کر دی، بلکہ سلائی کے آرڈر بھی لینے لگی۔ اس سرگرمی سے، جو ماں بیٹی تواتر سے انجام دینے لگی تھیں، جو تھوڑا بہت معاشی اطمینان حاصل ہوا، اس سے زیادہ فائدہ مسرت نے اٹھایا۔

’’کون میرا بچہ آیا ہے کیا؟‘‘ خدیجہ بی بی لالٹین لیے باہر نکلی اور لڑکے کے سر پر ہاتھ رکھا۔

لڑکے نے جیب سے لفافہ نکالا۔ ’’ابو نے دیا ہے۔‘‘

عورت اس کی بلائیں لینے لگی۔ وہ جانے لگا، تو روک لیا۔ ’’کھیر بنائی ہے، کھاتا جا۔‘‘

وہ رسوئی میں چلی گئی۔ فیضان منہ دوسری طرف کیے کھڑا تھا۔ مسرت نے اسے دیکھ کو وہی اطمینان محسوس کیا، جو ایک عورت اس بچے کو دیکھ کر محسوس کرتی ہے، جو ناراض ہو اور منائے جانے کا منتظر ہو۔ وہ اسے جانتی تھی اور اس سے محبت کرتی تھی۔ انھوں نے ایک ہی ماحول میں ایک سے کھیل کھیلے تھے۔ بچوں والے کھیل۔ وہ کھیل بھی، جو ایک دوسرے کو بے لباس دیکھنے کی خواہش کے گرد گھومتے تھے۔ وہ کھیل فیضان کے لیے سنسنی خیز تو تھے، مگر اسے انگیخت نہ کرتے تھے کہ وہ اس وقت خاصا کم عمر تھا، مگر مسرت کا معاملہ دیگر تھا۔ وہ دنیا کی ہر لڑکی کے مانند وقت سے پہلے بڑی ہو گئی تھی۔

’’چلو غصہ تھوک دو۔‘‘ اس نے کہا۔

لڑکا نے ہونٹ سیکڑ لیے۔ پھر مسکرایا۔ ’’وہ تمھیں چھوڑ دے گا۔ آج نہیں تو کل۔‘‘

مسرت ڈر گئی۔ یہ اس کا بدترین اندیشہ تھا۔ اس نے جلد اپنا کھویا ہوا اعتماد بحال کر لیا۔ بادل پھٹ گئے تھے۔ ہلکی ہلکی چاندی تھی۔

’’ تم جلتے ہو اس سے۔‘‘

اس جملے سے لڑکے پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ فیضان اب وہ بچہ نہیں تھا، جو چارپائی کے نیچے چھپ کر اس کی قمیص اٹھا تا اور اس کے سپاٹ سینے پر ہونٹ رکھ دیا کرتا تھا۔

وہ اپنے بھاری کاندھے ہلاتا ہوا اعتماد سے اس کی سمت بڑھا۔ آفٹر شیو لوشن کی لپٹیں مسرت کے نتھوں سے ٹکرائیں۔ پہلے تو وہ اپنی جگہ کھڑی رہی، مگر جب وہ بہت قریب آ گیا، تو گھبرا گئی اور ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔ وہ نہائی نہیں تھی اور بدن سے بو اٹھ رہی تھی۔

’’تم جانتی ہو، وہ تمھیں چھوڑ دےگا۔‘‘ فیضان نے آہستگی سے کہا تھا۔

اس بار یہ آفٹر شیولوشن کی مہک نہیں تھی، جس نے اسے پریشان کیا، بلکہ یہ اس کا مستحکم لہجہ تھا۔ وہ سچ کہہ رہا تھا۔ وہ بھی اندر سے ڈری ہوئی تھی۔

خدیجہ بی بی پیالا لیے منظر میں داخل ہوئی۔ فیضان چارپائی پر بیٹھا کھیر کھا تا رہا۔ وہ پاؤں زور زور سے ہلا رہا تھا۔ اس کا سینہ پھولا ہوا تھا اور سر بلند تھا اور سر پر مچھر اڑ رہے تھے۔

مسرت کو وہ اجنبی لگا۔

لائٹ آ گئی تھی۔ صحن میں زرد سی روشنی پھیل گئی۔ لڑکے نے اس کی سمت نہیں دیکھا اور چابی گھومتا ہوا زینہ اتر گیا۔ مسرت بستر پر جا گر ی۔ گلی میں موٹرسائیکل کی آواز سنائی دی۔ اس کے کانوں میں فیضا ن کے جملے گونج رہے تھے۔

وہ جانتی تھی کہ ناصر اسے چھوڑ سکتا ہے۔ اس کا ادراک اسے تب بھی تھا، جب وہ پہلی بار ہم بستر ہوئے تھے اور تب بھی، جب وہ آخری بار مدغم ہوئے۔ یہ اندیشہ خوابوں میں اس کا تعاقب کرتا تھا۔

تم جانتی ہو، وہ تمھیں چھوڑ دےگا۔۔۔

یہ جملہ اس کے ذہن پر دستک دیتا رہا۔ پھر اس دستک کی جگہ بارش کی آواز نے لے لگی۔ وہ دوبارہ سو گئی تھی۔

*

خدیجہ بی بی نے گذشتہ روز جس گولی کی آواز سنی تھی، اس کا سبب وہ لسانی اختلافات نہیں تھے، جنھوں نے اس زمانے میں علاقے کو فسادات کا گڑھ بنا دیا تھا، جب اس کے بستر کی ایک طرف اس کا شوہر سویا کرتا تھا اور جب وہ خود سے مطمئن تھی اور جب اسے اپنی دونوں بیٹیاں بوجھ نہیں لگتی تھیں۔

ان چند گولیوں کے پیچھے تو کل کے جلسے سے جڑا جوش اور سنسنی تھی۔ بارش کی وجہ سے شہر کے کئی علاقوں میں قائد کا خطاب ملتوی ہو گیا تھا۔ اِس پر شدید مایوسی پائی جاتی تھی۔ لوگ چائے کے ڈھابوں، ہوٹلوں اور نائی کی دکانوں پر بیٹھے اس واقعے پر تبصرے کر رہے تھے۔ وہ کچھ نام لیتے ہوئے اپنی آواز نیچی کر لیتے اور کبھی کبھار فقط اشاروں میں بات کرتے۔ پھر اچانک ہنسنے لگتے اور ایک دوسرے کو فحش لطیفے سناتے۔

مسرت سبزی لینے نکلی تھی۔ آج بھی بارش کی پیش گوئی تھی۔ سڑک پر کیچڑا اور رات کی بارش کا پانی کھڑا تھا۔ اسے خبر تھی کہ کہاں کہاں پانی نے گڑھوں اور کھلے ہوئے گٹروں کو ڈھانپ رکھا ہے۔ کچھ دور ایک رکشے کا پہیا ایسے ہی گٹر میں پھنس گیا تھا۔ بہت سے بچے رکشے کے گرد جمع ہو کر نعرے لگانے لگے۔ مکانوں کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ عورتوں نے دیواروں پر کپڑے سکھانے کے لیے ڈال دیے تھے۔

سموسوں کی اشتہا انگیزمہک سے اس کے نتھنے بھر گئے۔ مسرت کو لگا کہ سموسے والا اسے کن انکھیوں سے دیکھ رہا ہے۔ پھر سوچا، شاید اسے وہم ہوا تھا۔ اس نے دو سموسے لیے اور وہیں کھانے شروع کر دیے۔ سموسا بہت گرم تھا۔ لقمہ لیتے ہی اس کا منہ جل گیا۔ وہ منہ کھول کر ہائے ہائے کرتی اور ساتھ ہنستی جاتی۔

سموسے والا بھی ہنسنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں لگاؤ تھا۔ یہی لگاؤ مسرت نے اوروں کی آنکھوں میں بھی دیکھا تھا۔ مگر اب اسے اپنے لیے چمکتی آنکھیں بری نہیں لگتی تھیں۔ وہ لاابالی اور پراعتماد تھی اور جانتی تھی کہ کہاں، کب اور کیسے فاصلہ قائم کرنا ہے۔

وہ سموسا کھاتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔ اسے دور، گلی کے کونے پر ناصر کی شبیہ دکھائی دی۔ لڑکے کی کمر اس کی طرف تھی۔ پھر وہ ایک سمت مڑا اور غائب ہو گیا۔

اسے خبر تھی کہ ناصر لکی ہیئرڈریسر کے ہاں بیٹھا ہوگا کہ وہ اکثر وہیں بیٹھتا تھا۔

’’واپسی میں دیکھتی ہوں۔‘‘ اس نے خود سے کہا اور اطمینان سے سبزی والے کی سمت چل دی۔

*

سیلون اس وقت خالی تھا۔

بارش، شیونگ کریم، سستے پرفیوم اور گیلے تولیوں کی ملی جلی مہک نے سیلون میں ایک بیمار سی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ مکھیوں کی تعداد کچھ بڑھ گئی تھی۔ ناصر شیو بنوانے بیٹھ گیا۔ نائی برش اس کے چہرے پر مارنے لگا۔ واشن بیسن میں کسی نے تھوکا ہوا تھا۔ لڑکے کو کراہت محسوس ہوئی۔ اس نے نائی کو گالی دی۔

نائی کھی کھی کرنے لگا۔ اس نے استرے کا بلیڈ بدلا۔ جب ناصر نے اسے استرا ڈیٹول میں دھونے کو کہا، تو اس نے منہ بنایا۔

’’باس، کالر کتنی گندی ہو گئی ہے۔ لگتا ہے، کپڑے دھونے کی مشین خراب ہے۔‘‘

نائی نے آنکھ ماری۔ ناصر نے قہقہہ لگایا۔ نائی اس کی برادری کا تھا۔ وہ بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ ایک مکھی اس کے گال پر بیٹھ گئی۔ نائی نے ہاتھ ہلا کر مکھی ہٹائی۔ وہ اڑی، تو پیروں میں لتھڑی کریم کے باعث فوراً نیچے چلی گئی۔

’’تیری بھابھی بیمار ہے ناں۔‘‘ ناصر نے کہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ جلد اس سے ملے۔ اس نے حساب لگایا کہ چار روز میں وہ نہا لے گی۔ اب باہر بادل آ گئے تھے۔ ایک موٹر سائیکل پانی اڑاتی گزری۔ بچے بارش کی امید پر باہر نکل آئے تھے۔

’’بیمار ہیں، اللہ خیر، کیا بیمار ہو گئی؟‘‘ نائی نے اداکاری کی۔

’’سالے اسے خون آ رہا ہے۔‘‘ ناصرنے کہا۔ ’’ٹھیک ہو جائےگی، تو انجیکشن لگاؤں گا۔‘‘ اس نے اپنی ران پر ہاتھ پھیرا۔

نائی نے استرا چلانا شروع کر دیا تھا۔ لڑکے کو جلن محسوس ہوئی۔ دو آدمی سیلون کی بیرونی دیوار پر پوسٹر لگا رہے تھے۔

’’تو نے پیسے نہیں دیے اب تک؟‘‘ ایک آدمی نے، جس نے کچھ برس پہلے مکو دادا کے بھانجے پر گولی چلائی تھی، نائی کو دیکھ کر درشتی سے کہا۔ اسے دیکھ کرناصر بھی چپ ہو گیا۔

’’دے دوں بھائی، کیوں نہیں دوں گا۔ پرسوں دیتا ہوں ناں۔‘‘ نائی ڈرا ہوا تھا۔ آدمیوں کے جانے کے بعد وہ گالیاں دینے لگا۔ ’’سالے حرام زادے۔ اوپرکچھ نہیں بھیجتے، سارا خود کھا جاتے ہیں۔‘‘

کچھ دیروہ دونوں لمحوں کے احترام میں خاموش رہے۔ شیو مکمل ہو چکی تھی۔ ناصر نے خود کو آئینے میں دیکھا، تو اسے معراج مستری دکھائی دیا۔ نائی نے آفٹر شیو لگا کر کریم اس کے چہرے پر مل دی۔

’’لو، دولہا بنا دیا۔ شادی کا وقت آگیا ہے باس۔‘‘ نائی بغل کھجا رہا تھا۔ ناصر نے ٹھوڑی پر ہاتھ پھیرا۔

’’کہو تو بھابھی کی اماں سے بات کروں۔‘‘

ناصر نے نائی کے چوتڑوں پر ہاتھ مارا۔ ’’سالے، اس چھنال سے تھوڑی شادی کروں گا۔‘‘

بادل زور سے گرجے تھے۔ ایک لمحہ کے لیے دونوں ڈر گئے۔ دکان کے پاس سے ایک سایہ گزرا تھا۔ بارش اتنی تیز تھی کہ سیلون کی بیرونی دیوار پر لگایا ہوا پوسٹرلمحوں میں گیلا ہو کر پھٹ گیا۔

سایہ دور جاتے جاتے غائب ہو گیا۔

مسرت کو اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہے یا بارش کے پانی سے۔

کانوں میں ایک ہی لفظ گونج رہا تھا: چھنال!

*

وہ ہفتے کا دن تھا۔ تیز دھوپ نکل آئی تھی۔ کیچڑ سے بھاپ اڑتی محسوس ہوتی۔

وہ چارپائی پر اوندھی لیٹی تھی۔

تکیہ آنسوؤں سے گیلا ہو چکا تھا۔ خدیجہ بی بی اسے کوستے کوستے تھک گئی۔ دو دن سے وہ ہر شے سے لاتعلق ہو گئی تھی۔ نہ تو کپڑے بدلے تھے، نہ ہی منہ دھویا تھا، نہ ہی کچھ کھایا تھا۔ آپا نے پوچھنے کی کوشش کی، مگر وہ کچھ نہیں بولی۔ آپا سمجھ گئی اور چپ ہو گئی۔

کل دوپہر چھت پر دو کنکریاں آن کر گریں، مگر وہ بے سدھ لیٹی رہی۔ یہی واقعہ شام میں ہوا۔ آخر ناصر نے دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ گو اماں گھر پر نہیں تھیں، مگر عام دونوں کے برعکس وہ زینہ چڑھ کر اوپر نہیں آیا۔ وہ مسرت کا پوچھ رہا تھا۔

’’میرا پوچھے، تو کہہ دیناکہ بیمار ہے۔‘‘ مسرت نے آپا سے پہلے ہی کہہ دیا تھا اور یہی جملہ اس نے دہرا دیا۔ خاموشی میں تناؤ تھا۔ ناصر چپ چاپ چلا گیا۔

اگلے روز وہ پھر آیا۔ اس روز پھوار پڑ رہی تھی اور خدیجہ بی بی بھی گھر پر تھی۔ اس بار آپا نے بالکونی سے جواب دیا۔

’’کیا ہو گیا ہے اسے؟‘‘ لڑکے کے لہجے میں تلخی تھی۔ اسے اپنی بے عزتی کا احساس ہو رہا تھا۔ خدیجہ بی بی کو بھی آوازیں سنائی دیں۔ وہ بہت کچھ جانتی تھی، مگر خاموش تھی۔ اس نے لڑکیوں کے کمرے میں جھانکا۔ مسرت ماتھے پر ہاتھ رکھے لیٹی رہی۔ کچھ دیر بعد لائٹ چلی گئی۔

شام پڑی، تو خدیجہ بی بی باہر چلی گئی۔ اسے مسرت کے لیے تعویذ لینا تھا۔

اسے چھت پر کنکر گرنے کی آواز آئی تھی۔ کچھ دیر بعد ایک اور کنکر گرا۔ وہ سیدھی ہو گئی۔ آنسوؤں پونچھ لیے۔ کچھ دیر بعد دروازہ بجا۔

’’کہہ دینا، میں بیمار ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اچانک زینے پر بھاری قدموں کی آواز سنائی دی۔ آپا کو دیکھ کر اوپر آتا ناصر زینے کے درمیان ہی میں رک گیا۔ کمرے میں بیٹھی مسرت کو اس کا سر دکھائی دے رہا تھا۔ گلی میں کسی نے پھر کچرا جلایا تھا۔ دھواں صحن تک آ رہا تھا۔

’’کہاں ہے وہ؟‘‘ بے شک وہ غصے میں تھا۔ اس نے ہاتھ بالوں میں پھیرا۔ مسرت نے اس کی کلائی میں وہ چین دیکھ لی، جو گذشتہ ماہ اس نے ناصر کو تحفے میں دی تھی۔ لڑکے کی آواز اس تک پہنچ رہی تھی۔

’’وہ۔۔۔‘‘ آپا تذبذب کا شکار تھی۔ ’’بیمار ہے مسرت۔‘‘

’’سالی کون سے بیمار ہو گئی؟‘‘ وہ گستاخی سے ہنسا۔ ’’میں علاج کر دیتا ہوں۔‘‘

اس کے تیور دیکھ کر آپا کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور مسرت نے یہ دیکھ لیا۔

لڑکا کچھ قدمچے پھلانگ کر اوپر آ گیا تھا۔ وہ اپنا عضو کھجانے لگا۔ ’’اس سے کہو، انجیکشن لے کر آیا ہوں، لگوا لے۔‘‘

وہ زور سے ہنسا۔ آپا گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی۔

مسرت چارپائی سے اتری اور تیزی سے زینے تک گئی۔

’’اپنی ماں کو لگا یہ انجیکشن بھڑوے۔ اس چھنال کو بھی یہی بیماری ہے۔‘‘

ناصر پر جیسے بجلی گری تھی۔

کچھ رونما ہوا تھا۔ وہ پلکیں جھپکنے لگا۔ اسے مسرت کی جگہ ایک بلی دکھائی دی، جو حملہ کرنے والی تھی اور وہ بلیوں سے ڈرتا تھا۔

لڑکا پیچھے ہٹ گیا اور خاموشی سے زینہ اتر گیا۔

*

وہ نہا کر نکلی تھی کہ فیضان آ گیا۔

سورج ڈوب گیا تھا اور ہوا چلنے لگی تھی۔ نیم کے پیڑ پر پرندے اتر آئے تھے۔

’’اماں اور آپا باہر گئے ہیں۔ آتے ہوں گے۔‘‘

لڑکے نے کچھ نہیں کہا۔ اس کی پیشانی اوپر کو اٹھی ہوئی تھی۔ شرٹ نئی تھی اور بال چمک رہے تھے۔ وہ اسے نظر انداز کر رہا تھا۔

وہ باروچی خانے میں چائے بنانے چلی گئی۔ اس کے بال کھلے ہوئے تھے اور قمیص گیلی تھی۔ وہ پلٹی، تو لڑکا کن انکھیوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ جوان اور مضبوط تھا اور اس کا رنگ صاف تھا۔

اچانک۔۔۔ ایک آواز ہوئی۔۔۔

کہیں کھٹکا ہوا تھا۔۔۔

کیا چھت پر کنکر آکر گرا تھا؟

مسرت اندر سے دہل گئی۔ کنکر سے جڑی یاد یں ذہن میں در آئیں۔ اس کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ کوئی شے اسے کھینچ رہی تھی۔

پھر ایک اور کنکر آکر گرا۔۔۔ شاید حقیقت کی دنیا میں۔۔۔ یا شاید اس زمین پر جہاں خواہش کا جنم ہوتا ہے۔

یکدم اس کے اندر بہت سے کنکر برسنے لگے۔۔۔

ابال آ گیا تھا۔ اس نے چولھا بند کیا۔ باورچی خانے سے باہر آکر کر فیضان کا ہاتھ پکڑا، ا ور اسے کمرے میں لے گئی۔

بوسہ لینے کے بعد جب اس نے فیضان کا چہرہ دیکھا، تووہاں وہی کم سن بچہ تھا، جو کبھی اس کی قمیص اٹھا کر اس کے سپاٹ سینے پر ہونٹ رکھ دیا کرتا تھا۔

وہ روز سے ہنسی اور ایسا آج چار دن بعد ہوا تھا۔

مصنف:اقبال خورشید

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here