شکل اس کی گھڑی گھڑی بدلتی کبھی روشن دان کی حد سےنکل کر تنکوں کا جھومر دیوار پر لٹکنے لگتا، کبھی اتنا باہر سرک آتا کہ آدھا روشن دان میں ہے، آدھا خلا میں معلق، کبھی اکا دکا تنکے کا سرکشی کرنا اور روشن دان سے نکل چھت کی طرف بلند ہوکر اپنےوجود کا اعلان کرنا۔ چڑا چڑیا گھونسلے سے نکل روشن دان کے کنارے بیٹھ جاتے اور دھیمے میٹھے شور سے کمرہ بھر جاتا۔ چڑے کے روئیں روئیں میں بجلی کی روچلتی دکھائی دیتی۔ چڑیا پہ ایک نشے، ایک سپردگی کی کیفیت کہ وہ رو جب اس کیفیت میں شامل ہوتی تو الگ الگ وجود ختم ہوجاتے اور ایک گرم دھڑکتی ہوئی پروں کی ننھی سی پوٹلی باقی رہ جاتی۔ کبھی چڑیوں کاایک غول ہوجاتا اور یہ شور مچاتا کہ کان پڑی آوازسنائی نہ دیتی۔ باہر سے کھنچ کھنچ کر آتیں، روشن دانوں میں، دروازوں کے کنوڑوں پر، طاقوں میں، آتش دان پر، بس سمجھو کہ کمرہ چڑیوں سے بھرجاتا اور وہ چیں پیس ہوتی گویا چڑیوں میں بلوہ ہوگیا ہے۔ کوئی دوچڑے گتھم گتھا ہوجاتے، لڑتے لڑتے روشن دان سے پھسلتے، بھد سے فرش پہ آگرتے، پکے فرش پہ چت گرے ہوئے، دھڑکتے ہوئے پوٹے، چونچیں کھلی ہوئیں، لگتا کہ ہانپتے ہانپتے چل بسیں گے کہ ذرا کھٹکا ہوا، پھریری لی، آن کی آن میں پھر سے اڑ روشندان سے باہر نکل یہ جا وہ جا، ساتھ میں چڑیوں کا موج موج مجمع بھی رخصت ہوجاتا اور کمرے میں ایک دم سے خاموشی چھا جاتی۔
کمرے کی عجب حالت تھی۔ ہر طرف تنکے بھرے ہوئے آتشدان پر، چاندنی بستر میں کتابوں کی میز پر، کرسیوں پر، کہیں اکا دکا کہیں ڈھیری کی ڈھیری، فرش پر چیتھڑے گودڑے تنکوں کے ساتھ الجھے ہوئے سوکھی گھاس کا کوئی بڑا سا گچھاآوارہ آوارہ، کبھی فرش کے بیچو بیچ، کبھی ہوا کے سہارے سرکتا سرکتا کرسی کے نیچے سے پلنگ کے نیچے کئی مرتبہ اس نے بانس اٹھایا کہ گھونسلے کو روشندان سے پھینک دے۔ مگر اماں جی نے ٹوک ٹوک دیا ، ’’نابیٹا چڑیوں کونہیں ستاتے ہیں۔‘‘
’’اور چڑیاں ہمیں ستاتی رہیں؟‘‘
’’ستاویں یا نہ ستاویں، پر گھونسلہ تو نہیں اجاڑنا چاہیے۔ آخر ہوا کیا، لا میں جھاڑو دے دوں۔‘‘
اور وہ جھاڑو لے کر کھڑی ہوجاتیں۔ سارے کمرے میں جھاڑو دیتیں۔ کتابوں کی میز سے آتشدان سے، بستر پوش سے تنکے چنتیں، جھاڑن سےایک ایک چیز کو جھاڑتیں۔ کمرہ صاف ستھرا ہوجاتا، مگر جب تیسرے پہر کو وہ دفتر سےواپس ہوتا اور کمرے میں قدم رکھتا تو پھر وہی بکھرے ہوئے تنکے، وہی گھاس پھونس، ننھے چیتھڑے گودڑے تنکوں میں الجھے ہوئے، کتابوں پہ جابجا بیٹھیں۔
’’بڑی آفت ہے یہ تو، ان چڑیوں نے تو ہمارا ناک میں دم کر رکھا ہے۔‘‘
’’بیٹا چڑئیں آبادی کی نشانی ہیں۔ اجاڑگھروں میں ابابیلیں رہوے ہیں۔ چڑئیں تو بھرے گھروں میں ہی رہوے ہیں۔‘‘ اسےوہ اپناپرانا گھر وہ گیا وقت یاد آجاتا۔ جب گھر بھرا ہوا تھا۔ دالان کی خمیدہ کڑی میں تو خیر دو گھونسلے تھے ہی، ایک گھونسلہ بڑے کمرے کے چھت کو چھوتے ہوئے بدرنگ ہرے شیشے والے روشندان میں تھا ایک گھونسلہ زینے کی گرد سےاٹی میلی چھت میں تنکوں اور گودڑ کی صورت میں غُلاّ جتنا چتیوں والا خاکستری انڈا کبھی زینے کی سیڑھیوں پہ، کبھی دالان کے فرش پر خمیدہ کڑی کے نیچے، کبھی کمرے میں روشندان تلے لوٹا پڑا نظر آتا۔ کبھی چتیوں والا خاکستری انڈا، کبھی گوشت کا ننھا لوتھڑا ایسا چڑیا کا بچہ کہ ہاتھ لگانے سے پچ پچ کرتا۔ سویرے سویرے جب اس کی آنکھ کھلتی تو دالان اور زینے اور کمرے والی اپنی چڑیاں اور دور کے گھروں سے آتی ہوئی رنگ رنگ کی پرائی چڑیاں سامنے والی منڈیر پہ پھدکتی شور کرتی دکھائی دیتیں۔ کبھی منڈیر پہ، کبھی منڈیر سے آنگن میں، جہاں ٹاٹ کے لمبے بوریے پر رحلیں جمائے سیپارے کھولے لڑکیوں کی ایک قطار لگی ہوتی۔ والتین والزیتون۔ والطور سینینا وہذا البلد الامین۔ سبق اس زور زور سے یاد کیا جاتا کہ سارا آنگن گونجتا۔
’’نعیمہ، چلو چڑیا پکڑیں،‘‘ نعیمہ اماں جی کو غافل دیکھ سیپارہ آہستہ سے بند کرچپکے سے ساتھ ہولیتی۔ زینہ چڑھ چھت پہ پہنچتے۔ بوئیے کو چھوٹی سی کھپچی کے سہارے ٹکایا، نیچے گیہوں کے دانے بکھیرے، کھپچی میں لمبی سی چیز باندھی اور چیر کا دوسرا کنارا تھام زینے کی دیوار کے پیچھے چھپ گئے۔ گھلے ملے بیٹھے ہیں اور نظریں بوئیہ پہ جمی ہیں۔ چڑیاں کتنی چالاک ہوگئی تھیں کہ باہر کے دانے چگتیں، بوئیے کے پاس جائیں اور پھر ہٹ جائیں، دیر گزر جاتی اور چھوتے ہوئے جسم پسینے میں بھیگنے لگتے اور وہ بیٹھے رہتے، اسی طرح گھلے ملے، نظریں اسی طرح بوئیے پہ جمی ہوئیں۔ کوئی چڑیا بہت بہادری دکھاتی اور عقلمند بنتی کہ بوئیے کے قریب جاکر ننھی گردن گھماپھر اوپر نیچے دیکھتی، چونچ بڑھاکر اندر سے ایک دانہ چگتی پھر پیچھے ہٹ جاتی۔ پھر پھدک اک ذرا اور اندر جاتی، ایک دانہ چنتی اور پھر باہر اور اس کے بعد اطمینان سے دانہ چگنے لگتی، چگتے چگتے اندر چلی جاتی۔ کھٹ سے بوئیا گر پڑتا۔
’’اہاہا پکڑی گئی۔ چڑیا پکڑی گئی۔‘‘
’’اری چپ۔ اماں جی سن لیں گی۔‘‘
پھر وہ ہولے ہولے بوئیے کے پاس گئے۔ احتیاط سے چڑیا کو پکڑا۔
’’ارے میں بتاؤں ایک بات، چڑیا کو رنگ لیں۔‘‘
نعیمہ کی تجویز اسے بہت بھائی۔ ہولے ہولے نیچے گیا، دبے پاؤں دالان میں جاطاق سے گلابی پڑیا اٹھا جیب میں رکھ، چپکے چپکے کنکھیوں سےاماں جی کو کہ گھڑونچی سے پرے لڑکیوں کو سبق دینے میں مصروف تھیں دیکھتے ہوئے گھڑے سے کٹورا اٹھایا، پانی سے بھرا، بے پاؤں زینے سے جلدی جلدی اوپر۔ نعیمہ نے پڑیا پانی میں گھولی۔ پھر چڑیا کو پکڑ کٹورے میں ڈبکیاں دیں۔
’’بھئی بس کرو چڑیا بھیگ گئی۔‘‘
چڑیا کو بھیگا دیکھ کر اس کا دل جانے کیوں پسیجنے لگا۔ پر بھیگ کر لٹک سے گئے تھے۔ اور وہ بجلی ایسی رو، وہ حرارت کہ اس پدی سی شے کو ہر دم حرکت میں رکھتی تھی مندی پڑ گئی تھی۔ اسے ترس آنے لگا۔ ’’بھئ چھوڑدو، چڑیا مرجائے گی۔‘‘
وہ بہت ہنسی ، ’’باول خاں چڑیا کہیں رنگنے سے بھی مرتی ہوگی۔ اب وہ سرخ ہوجاوے گی۔ ذرا سوکھ جاوے پھر دیکھو۔‘‘
’’تو بھئی اسے سوکھ جانے دو۔ اسے دھوپ میں بٹھادو۔‘‘
نعیمہ نے اسے دھوپ میں بٹھادیا۔ اس کے بازو بھیگ کر کیسے لٹک گئے تھے، جیسے ساڑھی اور چولی اور انگ انگ ہولی کے رنگ سے شرابور ہوگیا ہو اور دو قدم چلنا دوبھر ہوا ہو۔ پھر بھی نعیمہ نے خبردار کردیا تھا۔ ’’سوکھ جاوے تو فوراً پکڑ لیجیو نہیں تو اڑجاوے گی۔‘‘
چڑیا رنگ میں بھیگی اونگھتی رہی۔ پھر اس نے پھریری لی، پروں کو پھرتی سے جھٹکا اور پھر سے اڑ منڈیر پہ جابیٹھی۔
’’ارے اڑ گئی،‘‘ نعیمہ چلائی۔ پھر دونوں نے دوڑ لگائی۔ لیکن چلانا اور دوڑنا دونوں کام نہ آئے۔ چڑیا منڈیر سے اڑی اور دم کے دم میں آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔
’’اڑگئی،‘‘ اس نے افسردہ لہجہ میں کہا۔
سرنیوڑھائے منہ لٹکائے ہولے ہولے قدم اٹھاتے واپس ہوئے اور زینے کی چوکھٹ پہ بیٹھ گئے۔ دیر تک چپ بیٹھے رہے۔ پھر نعیمہ نے اپنے گلابی ہاتھ دیکھے اور دیوار سے رگڑنے شروع کردیے۔
’’اب پٹائی ہوگی۔‘‘
نعیمہ نےاس کی بات کا کچھ جواب نہ دیا، ہاں ہتھیلیوں کو دیوار پہ اور زیادہ سختی سے رگڑنا شروع کردیا۔
اس نے اس کے گال کو گھور کے دیکھا، پھر ہنس پڑا۔ ’’گال پہ بھی لالی لگ رہی ہے۔‘‘
نعیمہ کا ہاتھ جلدی سے گال پہ گیا۔ گلابی انگلیاں گال پہ ملیں تو گال اور لال گلابی ہوگیا اور وہ کھلکھلاکے ہنس پڑا۔ ’’پگلی تیرے ہاتھ تو سرخ ہیں۔ گال پہ اور لالی لگ گئی۔‘‘
وہ رونے والی ہوگئی۔
’’لا میں چھٹاؤں،‘‘ اس نے پوروؤں کو تھوک سے گیلا کر اس کے گال پہ ملا۔ وہ الگ سرک گئی۔ ’’نہیں بھئی ہم خود صاف کرلیں گے،‘‘ اور اس نے کرتے کے دامن کو ہونٹوں سے گیلا کیا اور گالوں کو ملنا شروع کردیا۔
اس نے اپنے پورؤوں کو دیکھا کہ لال گلابی ہوچلے تھے، لال گلابی پورو ئے کہ اب ان میں نرم نرم مٹھاس سا بہہ رہا تھا، اس نے لال گلابی پوروؤں کو ہونٹوں سے تر کیا اور کرتے پہ ملنے کو تھا کہ رکا۔ لال گلابی پوروؤں میں، باہر اور اندر،نرم نرم مٹھاس بہہ رہا تھا۔ جی اس کا چاہا کہ پھر ان لال گلابی گالوں کو لال گلابی پوروؤں سے چھوئے۔ مگر نعیمہ گھبراہٹ میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ ’’بھئی دوپہر ہوگیا ہمارا سبق یاد نہیں ہوا ہے۔۔۔‘‘
اور چڑیوں کا غول کا غول کمرےمیں گھس آتا اور وہ غل مچاتا کہ یادیں اس کی تتر بتر ہوجاتیں۔ اس کی یادیں بھی عجیب تھیں کہ کسی مہم سے اشارے پر ماضی کے دھندلکوں میں گم آشیانوں سےاڑ اڑ کر قطار درقطار آتیں اور جھرمٹ بن کر اترتیں اور ہلکے سے کھٹکے پر بھرا کر اڑجاتیں اور وہ پھر خالی آنگن ایسا ویران ہوجاتا۔ خالی کمرے میں وہ، اس کی کتابیں، حرارت سے محروم، اکیلا بستر، روشندان میں بیٹھا ہوا چڑا کچھ دیر اکیلا بیٹھا چلاتا رہتا، پھر آپ ہی آپ اڑجاتا۔ اکیلے چڑے کی آواز کہ یادوں کے جمگھٹے میں غلہ بن کر گرتی اور تتر بتر کردیتی اور کبھی یادوں کا بلاوا بن جاتی۔ گلابی چڑیا تو ادبدا کریادآ تی کہ اس کے ہاتھ سےنکل کر بھی اس کی ہی رہی۔ کالی ڈاڑھی سفید پوٹے والے چڑوں اور خاکستری چڑیوں کے حلقے میں یوں لگتی کہ لال پری ہے اور وہ اور نعیمہ دونوں غل مچاتے کہ ’’وہ دیکھو ہماری چڑیا‘‘ اور گلابی چڑیا شاید تاڑ جاتی کہ شاید اس پر انگشت نمائی ہو رہی ہے او رچہچہاتے چہچہاتے جھینپ سی جاتی، پھر بلاوجہ سب اس حلقے سے باہر نکل پھر سے اڑجاتی۔
وہ گلابی چڑیا کیا ہوئی، کب اور کیسے آنکھوں سے اوجھل ہوئی، وہ بہت یاد کرتاکچھ یاد نہ آتا ، بیتے دنوں گزے سموں میں کوئی ترتیب کوئی تسلسل نہیں تھا۔ انمل بے جوڑ یادیں، گڈ مڈ ہوتی ہوئی دوپہریں ، شامیں، صبحیں، گھلے ملے مٹے مٹے سائے کہ جن میں سے ایک گلابی گلابی سایہ ابھرتا، تصور میں منڈلاتا رہتا اور پھر مٹے مٹے سایوں میں گھل مل جاتا۔
نعیمہ خود اب اس کے تئیں ایک مٹا مٹا گلابی سایہ تھی۔ کب نظروں میں سمائی، کیسے آنکھوں سے اوجھل ہوئی کوئی گھڑی کوئی دن یوں اسے یاد نہ تھا کہ وہ اسے چٹکی میں پکڑ لیتا، حافظہ میں محفوظ کرلیتا۔ اسے تو یہ بھی یاد نہ تھا کہ اس نے قرآن کب ختم کیا تھا، کیا بھی تھا یا نہیں، کیا تھا، نہیں کیا تھا تو کون سے سیپارے سے پڑھنا چھوڑا۔ بس اتنا یاد تھا کہ اس نے پرھنے آنا چھوڑ دیا تھا۔ کبھی کبھار کسی کام سے آنکلتی تو بس گھڑی دوگھڑی کے لیے اس سے دور دور اماں جی کے پاس آنا، بات کرنا، دم کے دم میں چلے جانا۔ دور دور سے وہ اسے دیکھتا یوں جیسے کبھی پاس سے دیکھا ہی نہ ہو۔ لمبی کتنی ہوگئی تھی وہ۔ پھر اس کا پردہ ہوگیا۔۔۔ چڑیا اچانک سے کمرے میں آجاتی، لگتا کہ لمبا سفر کرکے آرہی ہے اور چڑا اس شور سے اس کااستقبال کرتا کہ کمرہ چیں چیں کے نرم شور سے بھر جاتا اور تصور میں تیرتا گلابی سایہ پھر کسی پردے میں چھپ جاتا۔
پھر ایک روز کیا ہوا کہ دفتر سےواپس ہوا تو دیکھا کہ چڑیوں کے سراسیمہ شور نے کمرے کو اٹھارکھا ہے۔ آتشدان پر، کرسی پہ، فرش پہ جابجا بیٹھی ہیں، مگر جو جہاں ہے پریشان ہے۔ اس کے داخل ہونے سے وہ پریشان مجمع تتر بتر ہوگیا۔ کچھ باہر اڑگئیں۔ ایک چڑیا آتشدان سے اڑکر کنواڑ پہ جابیٹھی، روشندان والا جوڑا فرش سے اٹھا اور روشندان میں جابیٹھا مگر اسی طرح بے تاب اور بے قرار۔ پھر تھوڑی دیر میں کونے میں رکھی ہوئی بڑی الماری کے پیچھے سے بہت باریک بہت نحیف چوں چوں کی آواز آنی شروع ہوئی۔ الماری کے پیچھے جھانکا تو اندھیرے میں ایک ننھی سی شے حرکت کرتی چوں چوں کرتی دکھائی دی۔ دل میں آیا کہ بچے کو اٹھاکر روشندان میں رکھ دے۔ پر رک گیا۔ کب کی بات یاد آئی تھی۔ اسی طرح روشندان طاقوں دریچوں میں چڑیاں جمع تھیں اور آسمان سر پر اٹھا رہی تھیں۔ وہ بے پروں کا ننھا سا لوتھرا ابھی ابھی کڑی والے گھونسلے سے پٹ سے گراتھا۔ اسے ترس آرہا تھا کہ بے چارے کواتنی زور کی چوٹ آئی ہے۔ نعیمہ گھنٹوں پہ جھکی، پھر بیٹھ کر دیکھنے لگی، پھر آدھالیٹے ہوئے اپنا کان بچے کے بالکل برابر کردیا۔ مگر اس احتیاط سے کہ بچے کو چھونہ جائے۔
’’نعیمہ، بچہ زندہ ہے؟‘‘
’’ہاں زندہ ہے۔‘‘ پھر وہ اٹھی بولی، ’’اسے گھونسلے میں رکھ دیں۔‘‘
اس نے جھک کر آہستہ سے بچے کو اٹھایا۔ جنگلے پہ چڑھا۔ نعیمہ نے اپنے ہاتھوں میں اس کے پیر تھام رکھے تھے۔ پھر ایک پاؤں جنگلے پہ دوسرا پاؤں نعیمہ کے کندھے پہ رکھا۔ ایک گرم میٹھی نرمی تلوے میں، تلوے کی راہ سارے بدن میں چڑھ رہی تھی۔ جی اس کا چاہ رہا تھا کہ تلوا اسی انداز سے ٹکا رہے، گرم میٹھی نرمی میں اترتا چلا جائے۔ پر اس کا ہاتھ کڑی تک جاپہنچا تھا۔ احتیاط سے بچے کو گھونسلے میں رکھا اور دھم سے نیچے کود پڑا۔
’’اچھا بھئی اب باہر چلیں۔ چڑیا اسے چگا کھلادے گی۔‘‘ دونوں دالان سے آنگن میں آنگن سے باہر گلی میں نکل گئے۔ دیر تک گلی گلی گھومتے رہے اور بچے کے مستقبل پہ سوچ بچار کرتے رہے۔
دیر بعد پلٹے، دالان میں قدم رکھا تھا کہ ٹھٹھک گئے۔ چڑیا کا بچہ، بے پروں کا بے جان گوشت کا لوتھڑا پھر گرا پڑا تھا اور چیونٹیوں کی لمبی قطار دور تک چلتی نظر آرہی تھی۔
’’مرگیا،‘‘ نعیمہ دبی آواز میں بولی۔
دونوں کھڑے رہے، چپ چاپ دیکھتے رہے، اس بے جان ننھے لوتھڑے کو چیونٹیوں کی چلتی ہوئی لمبی قطار کو۔ پھر پلٹے اور دبے قدموں کہ آہٹ نہ ہو، دھیرے دھیرے باہر نکل گئے۔۔۔ تیزی سے گھومتی ہوئی پھرکنی کی سی آواز نے پھر رخنہ ڈالا۔ روشندان سے اترتی ہوئی چڑیا پھر سے اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزری، الماری کے پیچھے گئی، بچہ چوں چوں کرتا باہر نکل آیا۔ ننھا سا منہ کھلا۔ چڑیا نے چگادیا اور پھر اڑکر روشندان میں چلی گئی اسے یونہی خیال آیا کہ گھونسلہ عجب ملک ہے کہ اس کی سرحد کو جو وقت سے پہلے پھلانگ گیا واپس نہ آیا، اس دیس سے جو نکل گیا۔ واپسی کے رستے بند ہیں۔ کچھ عجب طرح کا خیال تھا کہ دل اداس سا ہوگیا اور وہ جھکی ہوئی چٹختی ہوئی کالی کڑیوں والالمبا دالان، پٹرے نکلی میلی چھت والا زینہ، وہ چھتیں، وہ گلیاں دیر تک یاد آتی رہیں۔
دیر دیر کمرے میں خاموشی رہتی۔ بستر پہ کوئی تنکا گرتا نہ کوئی چوں چوں کی آواز ہوتی۔ پھر دروازے کی اوپر والی چوکھٹ کے آس پاس پروں کی آہٹ ہوتی۔ صورت سے تھکی ہاری سی جیسے کہیں دور سے چل کرآتی ہے، کنواڑ پہ بیٹھتی، روشندان میں جاتی، پھر اسی طرح جیسے پھر کنی گھر رگھرر کرتی ہے، نیچے اترتی چہچہاتی، اور الماری کے پیچھے سے چڑیا کا بچہ منہ کھولے بے تاب ہوکر نکلتا اور چونچ سے چونچ بھڑا دیتا۔
پھر وہ الماری کے پیچھے سے خود ہی نکل آتا، چیں چیں کرتا رہتااور لمبی اڑان لیتا کہ فرش سے دو تین انچ اونچا اڑتا چلا جاتا اور کہیں کمرے کے دوسرے کونے میں دیوار سے ٹکراکر نیچے گرتا پھر اونچا اڑتا اور کبھی کرسی پر کبھی بستر پہ کبھی عین اس کے سر کے برابر تکیے پہ آبیٹھتا مگر فوراً ہی پھر اڑتا۔ اور میز پہ جابیٹھتا بہت اونچا اڑا تو آتشدان پہ جابیٹھا۔ اس سے اونچا اڑنے کی سکت اس میں کبھی نہ دیکھی گئی۔
انہیں دنوں دورہ نکل آیا ، باہر چلا گیا۔ ہفتہ ڈیڑھ ہفتے کے بعد واپس آیا تو دفتر میں رکے ہوئے کام کو بنٹانا دوبھر ہوگیا۔ صبح سویرے گھر سے نکلتا اور شام پڑے جب بچے کھیل کود سے تھک ہار کر گھروں کو واپس ہو رہے ہوتے اور گلی خاموش ہوچلی ہوتی پلٹتا۔ دنوں بعد جب دفتر کے کام سے ذرافراغت ہوئی اور گھر پہ زیادہ وقت گزرنے لگا تو احساس ہوا کہ کمرہ خاموش ہوگیا ہے۔ روشندان میں گھونسلہ بدستور جما تھا، جم گیا تھا۔ فرش پر، کرسیوں پر، اس کے بستر پر کوئی تنکا گرا پڑا دکھائی نہیں دیتا تھا اور وہ کمرہ سرد سرد رہنے لگا تھا۔
گھر میں سفیدی ہوئی تو اس کے کمرے کا سارا سامان نکل کر آنگن میں آگیا۔ مگر شام کو جب وہ پلٹا تو سفیدی کرنے والے جاچکے تھے۔ کمرے کی دھلائی پتائی ہوچکی تھی اور سامان قرینے سے جمادیا گیا تھا۔ چھت کے قریب کونوں میں تنے ہوئے جالے، دیوار پہ جابجا اکھڑا ہوا چونا،سب غائب تھا۔ کمرہ قلعی ہوکر انڈا سا نکل آیا تھا۔ روشندان بھی صاف ہوگئے تھے۔ سامنے والے روشندان سے تنکوں کا وہ مردہ انجر پنجر بھی صاف ہوگیا تھا۔
کمرہ صاف شفاف رہتا۔ گھر میں ایسے کون سے بال بچے تھے کہ چیزوں کو الٹ پلٹ کرتے۔ نئی نئی سفیدی ہوئی تھی، چھت اور دیواروں سے بھی گرد نہیں جھڑتی تھی۔ کئی کئی دن تک فرش کو جھاڑو نہ لگتی اور فرش اجلا دکھائی دیتا۔ اماں جی کو بس عادت سی تھی کہ دوسرے تیسرے دن جھاڑو لے کر کھڑی ہوتیں اور جھاڑن سے ایک ایک چیز صاف کرتیں۔ مگر اگلے سے اگلا اتوار آیا تو دیر تک سونے کے بعد دن چڑھے اس کی آنکھ کھلی تو لحاف پہ کئی تنکے بکھرے پڑے تھے۔ سامنے کے روشندان سے گھومتی ہوئی بغلی روشندان پہ اس کی نظر پڑی اب کے گھونسلہ بغلی روشندان میں بنایا تھا، عین اس کی پائنتی کے اوپر، کمرے میں دیکھا کہ توتین تنکے تازہ تازہ بستر پہ بکھرے ہیں اور اکا دکا بیٹ اجلی اجلی اس کی نظریں سامنے کے روشندان پہ اٹھ گئیں مگر روشندان خالی تھا۔ اس کی نظریں سامنے کے روشندان سے ہٹ کر دیواروں کے مختلف گوشوں میں گھومتی ہوئی بغلی روشندان پہ جاٹکیں کہ اب کے گھونسلہ وہاں بنایا گیا تھا، عین اس کی چارپائی کے اوپر نئے تنکے، سوکھے زرد مگر تازگی اور گرمائی کا رنگ لیے، قرینے سے جمع ہوئے۔ کمرے میں پھر گرمائی سی پیدا ہوگئی تھی۔ پھر دل کے صحن میں نئی چبھن کے ساتھ یادیں اترنے لگیں تھیں کہ کسی مبہم سے اشارے پر ماضی کے دھندلکوں میں گم آشیانوں سے اڑاڑ کر قطار قطار آتیں اور ان کے جھرمٹ سے ایک مٹا مٹا گلابی سایہ پھر اسی طرح ابھرتا نکھرتا تصور میں دیر تک منڈلاتا رہتا اور ہلکے سے کھٹکے پر یادوں کے ساتھ تتربتر ہوجاتا۔
مصنف:انتظار حسین