شہزادہ آزاد بخت نے اس دن مکھی کی صورت میں صبح کی۔۔۔ اور وہ ظلم کی صبح تھی کہ جو ظاہر تھا چھپ گیا، اور جو چھپا ہوا تھا وہ ظاہر ہوگیا، تو وہ ایسی صبح تھی کہ جس کے پاس جو تھا وہ چھن گیا اور جو جیسا تھا ویسا نکل آیا۔ اور شہزادہ آزاد بخت مکھی بن گیا۔
شہزادہ آزاد بحت نے پہلے اس بات کو ایک خواب جانا۔ مگر صبح ہوتے ہوتے یہ خواب وہ بھول چکا تھا۔۔۔ اسے بس اتنا یاد تھا کہ جب شام ہوئی اور دیو گرجتا برستا قلعہ میں داخل ہوا تو وہ سمٹتا چلا گیا۔ اس سے آگے اسے کچھ یادنہ تھا۔ پھر شہزادی کی محبت میں وہ اتنا کچھ بھی بھول گیا۔ لیکن شام ہونے پر بھر وہی ہوا۔ پھر دیو چیختا چنگھاڑتا قلعہ میں داخل ہوا۔۔۔ ’’مانس گند، مانس گند۔۔۔‘‘ اور یہ آواز سن وہ خود سے سمٹتا چلا گیا۔ صبح کو وہ پھر حیران ہوا کہ میں نے یہ کیسا ڈراؤنا خواب دیکھا۔ اس نے بہت یاد کرنا چاہا کہ رات کس عالم میں گزری۔ اور وہ خواب کیا تھا؟ پر اسے کچھ یاد نہ آیا۔
جب تین راتیں اسی طور گزریں تو شہزادے کو تشویش ہوئی کہ الٰہی یہ کیا ماجرا ہے کہ شام ہوتے ہوتے میں اپنے آپ کو بھول جاتا ہوں۔ مقرر کسی نے سحر باندھا ہے۔ یہ سوچ کر اس نے اپنے تئیں ملامت کی کہ اے غافل تو شہزادی کو سفید دیوکی قید سے رہائی دلانے آیا تھا اور خودسحر میں گرفتار ہوا۔ تب اس نے تلوار سونتی اور شام کا منتظر رہا۔ جب شام ہوئی اور دیو کی دھمک سے قلعہ کے درودیوار ہلنے لگے تو وہ چوکنا ہوا۔ مگر اس نے دیکھا کہ شہزادی نے اس کی طرف منھ کرکے پھونک ماری اور وہ سمٹنا شروع ہوگیا۔ اس نے اپنے تئیں بہت سنبھالا لیکن وہ بے اختیار چھوٹا ہوتا ہی چلا گیا۔
وہ صبح کو پھر ایک ڈراؤنے خواب سے جاگا اور یاد کیا کہ رات کس طور پر بیتی تھی، مگر اسے کچھ یاد نہ آیا۔ ہاں اس نے شہزادی کو پھونک مارتے دیکھ لیا۔ اس کا ماتھا ٹھنکا کہ کچھ دال میں کالا ہے۔ وہ اس سے مخاطب ہوا کہ اے بدانجام میں تجھے سفید دیو کی قید سے آزاد کرانے کے جتن کرتا تھا۔ تو نے اس کا بدلہ مجھے یہ دیا کہ مجھ پر سحر پھونکا۔ شہزادی نے بہت حیلے بہانے کیے، مگر شہزادہ کسی صورت مطمئن نہ ہوا اور حقیقت جاننے کے درپے رہا۔ تب شہزادی نے کہا کہ اے نیک بخت میں جو کچھ کرتی ہوں تیرے بھلے کو کرتی ہوں۔ سفید دیو آدمی کا دشمن ہے۔ اگر تجھے دیکھ لے تو چٹ کرجائے اور مجھ پر ظلم توڑے۔ پس میں عمل پڑھ کر تجھے مکھی بناتی ہوں اور دیوار سے چپکادیتی ہوں۔ رات بھر وہ ’’مانس گند۔ مانس گند‘‘ چلاتا ہے اور میں کہتی ہوں کہ میں آدم زاد ہوں مجھے کھالے۔ پھر جب صبح کو وہ قلعے سے رخصت ہوتا ہے تو میں عمل پڑھتی ہوں اور تجھے آدمی بناتی ہوں۔
شہزادے نے جب یہ جانا کہ وہ رات کو مکھن بن جاتا ہے اور ایک عورت اس کی جان بچانے کے لیے یہ جتن کرتی ہے تو اس کی مردانہ غیرت نے جوش کھایا اور اس بات کو اپنی آدمیت اور شجاعت پر حرف جانا۔ وہ یہ سوچ کر انگاروں پر لوٹنے لگا کہ اے آزاد بخت تجھے اپنی عالی نسبی، اپنی ہمت و شجاعت اور اپنے علم و ہنر پر بہت گھمنڈ تھا۔ آج تیرا گھمنڈ خاک میں ملا کہ ایک غیرجنس تیری جنس پر حکومت کرتا ہے اور ستم توڑتا ہے اور تو حقیر جان کی خاطر دنیا کی سب سے حقیر مخلوق بن گیا ہے۔ شہزادے کو پہلے اپنے آپ پر غصہ آیا۔ پھر اس نے شہزادی پر غصہ کھایا۔ مگر پھر اس نے اس کی چشم پر نم دیکھی اور اس کا دل ڈوبنے لگا۔ جاننا چاہیے کہ وہ شہزادی شہزادے سے دور رہتی تھی اور کہتی تھی کہ جب اس ظلم کے حلقہ سے نکلیں گے تب ملیں گے اور شہزادہ اس سے قریب ہوکر دوری کی آگ میں جلتا تھا۔ پر آج شہزادی کاحال دگر تھا۔ شہزادے کے کُڑھنے پر اس کی آنکھ بھر آئی۔ اور اس کے سینے پر سر رکھ کر بے اختیار ہوگئی۔ شہزادے کا دل موم ہوا اور ہاتھ اس کی گوری گردن میں حمائل ہوئے۔ بدن سے بدن کا ملنا بھی قیامت ہوتا ہے۔ ایک لمس میں ساری دوریاں دور ہوگئیں۔ ان میں شب وصل کا رنگ پیدا ہوا اور شہزادہ اس گرم آغوش میں تن بدن کا ہوش کھو بیٹھا۔ اسے اس وقت ہوش آیا جب قلعہ کی درودیوار دیو کی دھمک سے پھر لرزنے لگے۔ وہ پھر سکڑنے لگا۔ وہ بہت سنبھلا مگر سکڑتا ہی گیا اور سکڑتے سکڑتے ایک چوڑا سا سیاہ نقطہ رہ گیا، اور پھر ایک بڑی سی مکھی بن گیا۔
صبح کو جب شہزادہ جاگا تو سہما سہما تھا اور اس خیال میں غلطاں تھا کہ کیا وہ سچ مچ مکھی بن گیا تھا۔ تو کیا آدمی مکھی بھی بن سکتا ہے؟ اس خیال سے روح اس کی اندوہ سے بھر گئی۔ اور وہ شہزادہ علم و ہنر میں طاق تھا، شجاعت میں فرد، عالی نسب، صاحب وقار، جس کسی ملک پر حملہ کرتا فتح قدم اس کے چومتی۔ اس طور اس نے بہت سے معرکے مارے تھے اور بہت زمینیں فتح کی تھیں۔ پر سفید دیو کے قلعہ میں آکر وہ عالی نسب صاحب جلال شہزادہ مکھی بن گیا۔ تو اے آزاد بخت تو اندر سے مکھی تھا۔ اور اس نے اپنے پرشکوہ ماضی کو یاد کیا، اپنی فتوحات اور کارنامے یاد کیے، اپنے اجداد کو کہ فخر روزگار تھے، یاد کیا۔ یہ سب اب اس کے لیے ماضی ہوا تھا۔ اور وہ ماضی کو یاد کرکے رویا اور جب شام ہوئی تو وہ پھر سمٹنے لگا اور سمٹتے سمٹتے ایک مکھی کی صورت رہ گیا۔
تو روز شام کو دیو گرجتا برستا قلعہ میں داخل ہوتا ’’مانس گند مانس گند‘‘ اور شہزادی مکر سے جواب دیتی۔۔۔ ’’یہاں آدم کہاں، میں ہوں، مجھے کھالے۔‘‘ دیو یہ سن کر مطمئن ہوجاتا، اور شہزادہ آزاد بخت مکھی بنا دیوار سے رات بھر چپکا رہتا۔ صبح کو شہزادی منتر پڑھ کر اس پر پھونکتی اور وہ آدمی بن جاتا۔ پس شہزادے کی زندگی یہ ٹھہری کہ دن میں آدمی اور رات کو مکھی۔ اس نے اپنی اس زندگی پر بہت پیچ و تاب کھائے۔ شہزادی اس کا جی بہلانے کی کوشش کرتی۔ اسے نہر و باغات کی سیر کراتی اور پھل پھول سے تواضع کرتی اور پھل پھول سفید دیو کے باغ میں بہت تھے۔ رنگ رنگ کے پھل باغ میں اور الوان و انواع کے کھانے دسترخوان پر۔ شہزادہ تو انھیں دیکھ کر سچ مچ مکھی بن گیا۔ یہ لذتیں اور یہ آرام اسے فتوحات کی کٹھن زندگی میں کہاں نصیب ہوئے تھے۔
تو شہزادہ آزاد بخت دن کو دیو کے دسترخوان کی مکھی بنا رہتا اور رات کو مکھی بن جاتا۔ دن اس کے لیے شب وصل تھے کہ شہزادی اس کے آغوش میں ہوتی اور رات کی ساری کدورت دور کردیتی۔ مگر پھر رفتہ رفتہ راتیں لمبی اور دن چھوٹے ہونے لگے اور شہزادہ دیر تک مکھی کے قالب میں رہنے لگا۔ مگر اس نے اس عیش و آرام سے لبریز چھوٹے سے دن کو لمبی کالی راتوں کا انعام جانا اور مطمئن رہا۔ مگر پھر ایسا ہوا کہ کبھی کبھی دن میں اسے ایسا لگتا کہ وہ مکھی بن گیا ہے۔ خیر شروع میں تو بس پلک بھر کے لیے اسے ایسا گمان ہوتا اور پھر اسے فوراً دھیان آجاتا کہ یہ دن ہے اور میں ابھی آدمی کی جون میں ہوں لیکن ہوتے ہوتے یہ وقفے طویل ہوگئے۔ وہ شہزادی کی میٹھی آغوش میں پڑے پڑے سدھ بدھ بھول جاتا اور دیر تک اسی گمان میں رہتا کہ وہ مکھی بن گیا ہے۔ پر جب شہزادی باہوں کے حلقے میں کسمساتی تو اسے یکایک دھیان آتا کہ ہنوز دن ہے اور وہ آدمی کی کھال میں ہے۔ پھر اسے ہوش کے عالم میں بھی شک رہنے لگا۔ کبھی دیو کے باغ میں پھل پھول چنتے ہوئے، کبھی لذیذ غذاؤں اور مشروبات سے آراستہ دسترخوان پر بیٹھے بیٹھے اسے ایک شک آگھیرتا۔ کیا میں آدمی کی جون میں ہوں؟ اور پھر اسے بہت سے اندیشوں، وسوسوں اور شکوں نے گھیر لیا۔
شہزادہ آزاد بخت نے اندیشوں، وسوسوں اور شکوں کے گھیرے کو توڑنے کی سعی کی اور دیو سے نبٹنے کی سمہمی باندھی اور بار بار شہزادی نے سمجھایا کہ سفید دیو کی جان تو طوطے میں ہے اور طوطا، سات سمندر پار ایک درخت ہے، درخت میں ایک پنجرا لٹکتا ہے، پنجرے میں وہ طوطا ہے۔ شہزادہ آزاد بحت اس پر بھی حیران ہوا کہ سفید دیو یہاں ہے اور جان اس کی سات سمندر پار ایک طوطے کے اندر ہے۔ جان کا جان سے جدا اور دور ہونا اسے عجیب لگا اور اسے خیال آیا کہ اس کی جان بھی تو کہیں اس سے دور نہیں ہے۔ تو کیا میری جان مکھی میں ہے؟
شہزادہ دنوں اس فکر میں غلطاں رہا کہ کس تدبیر سے قلعے سے نکلے اور سات سمندر پار جاکر طوطے کی گردن مروڑے۔ اور شہزادی جب اسے زیادہ فکر میں غلطاں دیکھتی تو شکوے شکایت کرتی کہ تیری محبت سرد ہے، تو مجھ سے دغا کیا چاہتا ہےاور شہزادہ کہ شہزادی کی محبت میں دیوانہ تھا۔ سو سو طرح سے اسے وفا کا یقین دلانے لگا اور ان شکووں اور صفائیوں میں دیو کی قید سے رہائی کا سوال رفت گزشت ہوگیا۔
شہزادہ آزاد بخت اب شہزادی کی مرضی کے تابع تھا۔ اس کی مرضی کے بغیر پتہ نہ توڑتا۔ اس کی ایک پھونک سے مکھی بن جاتا اور ایک پھونک سے آدمی کی قالب میں واپس آجاتا۔ پھر یوں ہوا کہ شہزادی کے پھونک مارنے سے پہلے ہی شہزادہ سمٹنے لگا۔ اور صبح کو شہزادی کے پھونک مارنے کے بعد دیر تک نڈھال پڑا رہتا، جیسے وہ مکھی کی جون سے نکل آیا ہو مگر آدمی کی جون میں داخل نہ ہوا ہو۔
درمیانی وقفہ طویل سے طویل تر ہوتا گیا اور اس کا ضعف اور اذیت بڑھتی گئی۔ شام کو وہ پھرتی سے آدمی سے مکھی بن جاتا، مگر مکھی سے آدمی کی جون میں آنا اس کے لیے اذیت کا ایک لمبا عمل ہوتا۔ پھر ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ اذیب کا یہ لمبا عمل گزرجانے پر بھی ایک اذیت کی کیفیت کے ساتھ یاد آتا رہتا۔ اور اس نے ایک روز اذیت کے عالم میں سوچا کہ میں آدمی ہوں یا مکھی ہوں۔ یہ سوال اس کے دماغ میں آج پہلے پہل پیدا ہوا تھا۔ اس پر وہ بہت گڑبڑایا۔ پہلے اس نے سوچا کہ میں پہلے آدمی ہوں بعد میں مکھی ہوں۔ میری اصل زندگی میرا دن ہے۔ میری رات ایک دھوکا ہے۔ اس نے ایسا سوچا اور مطمئن ہوگیا۔ مگرآپ ہی آپ اسے اس خیال پر شک ہونے لگا۔ شاید میری رات ہی میری اصل زندگی ہو اور میرا دن میرا بہروپ ہو۔ تو شہزادہ آزاد بخت ایک دفعہ پھر شکوں، اندیشوں اور وسوسوں کے گھیرے میں آگیا اور اس ادھیڑ بن میں لگ گیا کہ اس کی اصل کیا ہے۔
میں اصل میں آدمی ہوں مگر مصلحتاً مکھی بن گیا ہوں۔ مگر پھر اسے خیال گزرا کہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ اصل میں مکھی ہو اور درمیان میں آدمی بن گیا ہو۔ ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ میں کہ مکھی تھا پھر مکھی بن گیا ہوں۔ اس خیال سے اسے بہت گھن آتی۔ اس نے جلدی سے رد کردیا۔ مگر کیا واقعی میں آدمی ہوں۔ کوشش کےباوجود شہزادہ اپنے تئیں اس کا یقین نہ دلا سکا۔ آخر اس نے سمجھوتے کا ایک راستہ نکالا اور طے کیا کہ وہ آدمی بھی ہے اور مکھی بھی۔
توشہزادہ آزاد بحت اب آدمی تھا اور مکھی بھی۔ اور مکھی نے آدمی سے کہا کہ میں رات کو تیری حفاظت کرتی ہوں۔ تو مجھے اپنے دن میں شریک کرلے اور آدمی نے مصلحت سے کہا کہ میں نے سنا اور میں نے تجھے اپنے دن میں شریک کیا اور اس کے دن دورنگے ہوگئے۔ صبح کو اذیت کے ایک لمبے وظیفے کے بعد وہ مکھی کی جون سے آدمی کی قالب میں آتا اور مکھی کی مثال دیو کے میٹھے پھلوں اور لذیذ کھانوں پر ٹوٹ پڑتا۔ لذت و عیش میں وہ سب کچھ بھول جانا چاہتا مگر اچانک دیو کا سایہ اس کے تصور میں منڈلاتا اور اسے لگتا کہ وہ سمٹ رہا ہے۔ قلعہ میں محصور، دیو کے تصور سے خوف زدہ، شہزادی کے غصے سے سہما ہوا، ہر دم اسے لگتا کہ وہ سمٹ رہا ہے، چھوٹا ہوتا جارہا ہے۔ جیسے وہ بھی مکھی بن جائے گا۔ وہ بڑی مشکل سے اپنے تئیں سنبھالنا اور مکھی کے قالب میں گرتے گرتے واپس آتا۔ ہر دم اسے وہم رہتا کہ وہ اندھیرے میں کسی گہرے گڑھے کے کنارے چل رہا ہے۔ اب اس کا پاؤں پھسلا اور اب وہ آدمی سے مکھی بنا۔
شہزادہ آزاد بخت کہ اب مکھی بھی تھااور آدمی بھی۔ اپنی دورنگی مصلحت آمیز زندگی سے خود ہی بیزار ہوگیا۔ اور گہرے گڑھے کے کنارے کنارے چلتے ہوئے سہمے آدمی نے کہا، کہ کسی طور دیو کو ختم کیاجائے کہ دورنگی ختم ہو اور میں خودمختار بنوں۔ پر شہزادہ آزاد بخت میں اب اتنا دم کہاں تھا کہ وہ دیو سے لڑے۔ اس نے دیو سے لڑنے کے، قلعہ سے نکلنے کے، سات سمندر پار جاکر طوطے کی گردن مروڑنے کے سو سو منصوبے بنائے مگر پھر خود ہی ڈانواں ڈول ہوگیا۔ اس نے قلعہ کی اونچی فصیلوں کو دیکھا، اپنے ضعف و ناتوانی پر غور کیا۔ دیو کی گھن گرج کو دھیا ن میں لایا۔ اور اس کا دل اندر پنکھے کی مثال ہلنے لگا۔ تو پھر بالکل مکھی بن جا کہ نہ قلعہ کی کوئی معنی رکھے، نہ دیو کا کوئی خوف رہے۔ کہ دیو مکھیوں سے خطرہ محسوس نہیں کرتے، مگر شہزادے کا جی اس پر بھی نہ ٹکا۔ بس وہ تذبذب کے عالم میں بیچ میں لٹکا رہا، اور اس کے اندر کی مکھی بڑی اور قوی ہوتی چلی گئی۔ اور رات کا سایہ دن پر گہرا ہوتا چلا گیا۔
شہزادے کو شروع میں ایک خیال سا ہوا تھا کہ شاید اس کے اندر کہیں بہت گہرائی میں ایک ننھی مکھی بھنبھنارہی ہے۔ اس نے اسے وہم جانا اور رد کردیا۔ پھر رفتہ رفتہ اسے خیال ہوا کہ کہیں وہ سچ مچ مکھی ہی نہ ہو۔ تو مکھی میرے اندر بھی پل رہی ہے؟ اس خیال سے اسے بہت گھن آئی۔ جیسے وہ اپنی ذات میں نجاست کی پوٹ لیے پھر رہا ہو۔ جیسے اس کی ذات دودھ گھی تھی اور اب اس میں مکھی پڑگئی ہے۔
دن گزرتے گئے اور رات دن کا روپ بہروپ جاری رہا۔ قلعہ سے نکلنے کی صورت کسی طور پیدا نہ ہوئی۔ سفید دیو کا قلعہ شہزادے کے لیے مکڑی کا جالا بن گیا۔ مکھی نے اپنی سوئی ایسی ٹانگیں خوب چلائیں، اور ننھے پر پھڑپھڑائے، پھر بے دم ہوکر الٹی لٹک گئی، اور جالا شہزادے کے اندر سمانے لگا۔ باہر کی دنیا سے اس کا ناتا ٹوٹنے لگا جیسے اس کے حافظہ پر کسی مکڑی نے جالا پور دیا تھا، کہ اب قلعے سے باہر کی دنیا اس کے تصور میں دھندلا رہی تھی۔ وطن، وطن کے لوگ اسے خواب لگتے جو بسرتا جارہا تھا۔ اور باپ جو فاتحوں کا فاتح تھا آگے اس کے تصور میں ہردم منڈلاتا تھا، کہ وہ آئے گا اور سفید دیو کی قید سے رہائی دلائے گا۔ مگر پھر اس کے تصور میں جالا پھیلنے لگا اور اس نے سوچا کہ میرا باپ کون تھا۔
وہ یہ سوچ کر حیران ہوا کہ باپ اس کا کون تھا کہ اس کا نام اسے یاد نہیں آرہا تھا۔ عجب ہوا کہ جب اس نے یہ سوچا تو وہ اپنا نام بھی بھول گیا۔ تب وہ بہت پریشان ہوا اور یاد کرنے لگا کہ نام اس کا کیا ہے؟ نام! اس نے کہا حقیقت کی کنجی ہے۔ میری حقیقت کی کنجی کہاں ہے؟ ایک مکھی تھی۔ وہ اپنا گھر لیپ رہی تھی۔ گھر لیپتے لیپتے وہ اپنا نام بھول گئی۔ گھر لیپنا چھوڑ وہ اپنی جگہ سے اڑی اور دردر اپنا نام پوچھتی پھرتی۔ ہر کوئی اسے دھتکاردیتا۔ وہ مچھر کے پاس گئی اور کہا ’’مچھر مچھر میرا نام کیا ہے؟‘‘ اس نے دھتکارا۔ ’’در! مجھے کیا پتہ، تیرا نام کیا ہے؟‘‘ پھر وہ بھینس کے پاس گئی کہا، ’’بھینس بھینس میرا نام کیا ہے؟‘‘ بھینس کا ٹھسّا بڑا تھا، اس نے جواب ہی نہیں دیا۔ اسی طرح آنکھیں موندے جگالی کرتی رہی۔ اور بس اپنی پونچھ ہلادی۔ اور شہزادہ آزاد بخت نے اپنا نام بہت یاد کیا پر اسے اپنا نام یاد نہ آیا اور وہ بے حقیقت بن گیا۔ جیسے وہ سب کچھ اپنے پچھلے جنم میں تھا، اور جیسے یہ اس کا نیا جنم ہے کہ اس میں وہ محض اور خالص مخلوق ہے۔ یہ سوچ کر اسے بے کلی ہوئی اور اس نے کہا کہ میں دوسری مخلوقات سے خود کو کیسے علیحدہ کردوں۔ تب اس نے سوچا اور دھیان کیا کہ اس کا نام کیا تھا، اس کے باپ کا نام کیا تھا، اور وہ کن لوگوں میں تھا اور کس زمین پر تھا، پر اسے کچھ یاد نہ آیا اس کے اندر کا جالا پھیلا ہی چلا گیا اور اس نے کہا کہ میں جو تھا وہ ماضی ہوا، میں وہ ہوں جو میں ہوں۔
تو وہ اب وہ تھا جو اب وہ تھا۔ اور اب مکھی اس کی بڑی اور قوی ہوچکی تھی، اور اس کا آدمی ماضی بنتا جارہا تھا۔ مکھی کی جون سے واپس آنا اس کے لیے اب بڑی مصیبت ایک کرب بن گیا تھا۔ جب وہ جاگتا تو اسے اپنا آپا میلا نظر آتا۔ طبیعت گری گری سی، بدن ٹوٹا ہوا، جیسے رات بند بند الگ ہوگیا تھا، اور ابھی بند پورے طور پر جڑ نہیں پائے تھے۔ وہ پھر آنکھیں بند کرلیتا اور آدھ سوئی حالت میں دیر تک پڑا رہتا پھر وہ اکساہٹ کے ساتھ اٹھتا اور اپنےآپ کو میلا پاکر باغ میں جاتا اور نہر جس کا پانی موتی کی مثال چمکتا تھا، دیر تک غسل کرتا۔ پر جب وہ غسل سے فارغ ہوکر باہر نکلتا تو اسے رات کاخیال آتا، اور آپ ہی آپ اس کی طبیعت مکدر ہوجاتی۔ اسے لگتا کہ اس کے شعور کے عقب میں کوئی چیز بھنبھنارہی ہے۔ وہ پھر نہاتا اور پھر اپنے تئیں میلا پاتا، اسے متلی ہونے لگتی اور اسے اپنے آپ سے گھن آتی۔
متلی اس کی طبیعت کا حصہ بن گئی۔ اور اسے مستقل آپ سے گھن رہنے لگی۔ اس کا اضمحلال بڑھتا چلاگیا۔ ایک طویل کرب اور سخت کش مکش کے بعد وہ مکھی سے آدمی بنتا، اور نڈھال پڑا رہتا۔ اسے ہر چیز میلی اور غلیظ نظر آتی، قلعہ کی دیواریں، درختوں کے پتے، نہر کا پانی، حتی کہ شہزادی بھی۔اسے لگتا کہ وہ مری ہوئی مکھیوں کےانبار میں دبا پڑا ہے، اور خود اس کے اندر کی مکھی بڑی اور قوی ہوتی ہی چلی جارہی تھی۔ اسے وہم ہونے لگا کہ اس کے اندر بھنبھناتی ہوئی مکھی اس کی روح میں اتر رہی ہے۔ کبھی اسے لگتاکہ شہزادی نےصبح کو سحر نہیں توڑا تھا اور وہ مکھی بنا ہوا دیوار سے چمٹا ہے۔ کبھی لگتا کہ اندر کی مکھی باہر نکل آئی ہے اور اس کے وجود پر پھیل گئی ہے۔ شام کو شہزادی کے پھونک مارنے سے پہلے وہ سمٹنے لگتا اور صبح کو پھونک مارنےکے بعد دیر تک نیم بیہوشی کی حالت میں پڑا رہتا۔ اسے یقین نہ آتا کہ وہ پھر آدمی بن گیا ہے۔ وہ مکھی کی جون سے نکل آتا اور آدمی کی جون میں دیرتک نہ آتا کہ یہ عمل روز بروز زیادہ اذیت ناک ہوتاجارہاتھا۔
دن بھر وہ حیران و پریشان رہتا۔ جیسے وہ اپنی جون میں نہیں ہے۔ جب دن ڈھلنے لگتا تو اسے اطمینان ہونے لگتا۔ شام کے وقت جب دیو چیختا چنگھاڑتا قلعہ میں قدم رکھتا تو خوف اور سکون کی ایک ملی جلی کیفیت اس پر طاری ہوجاتی۔ اور پھر وہ مکھی کی جون میں مگن رہنے لگا۔
پھر یوں ہوا کہ وہ مکھی کی جون میں مگن رہنےلگا اور مکھی کی جون سےآدمی کی جون میں واپس آنا اس کے لیے قیامت بن گیا۔ مکھی کی جون چھوڑتے ہوئے اسے ایسا لگتا جیسے روح قالب کو چھوڑتی ہے۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ وہ مکھی کی جون سے بہت کرب و اذیب سے نکلااور آدمی کی جون میں دیر تک نہ آیا۔ اسے یوں لگا کہ وہ ایک صدی سے درمیانی کیفیت میں بھٹک رہا ہے اور اس روز دن بھر اس پر یہی عالم رہا جیسے وہ مکھی سے آدمی نہیں بن سکا ہے۔ جیسے وہ عبوری منزل میں بھٹک رہا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو بار بار دیکھا اور کہا میں آدمی نہیں ہوں، تو پھر میں مکھی ہوں؟ مگر اس وقت وہ مکھی بھی نہیں تھا۔ تو میں آدمی بھی نہیں ہوں، اور میں مکھی بھی نہیں ہوں۔ پھر میں کیا ہوں؟ شاید میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ اس خیال سے اسے پسینہ آنے لگا اور اس نے سوچا کہ نہ ہونےسے مکھی ہونا اچھا ہے۔ اس سے آگے وہ کچھ نہ سوچ سکا کہ آج اس کے خیال کی رو ڈوبتی نبض کی مانند رک رک کر چل رہی تھی۔
شہزادی اس کی یہ غیرحالت دیکھ کر متوحش ہوئی اور دل میں پچھتائی کہ سب خرابی اس کی لائی ہوئی ہے، تب اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ شہزادے کو مکھی نہیں بنائے گی۔ پھر اس نے یہ تدبیر کی کہ دن ڈھلے شہزدے کو تہہ خانے میں بند کردیا۔
تو شہزادی نے اس شب اسے مکھی نہیں بنایا اور تہہ خانہ میں بند کریا۔ پر جب دن ڈھلا اور قلعہ کے درودیوار دیو کی دھمک سے لرزنےلگے تو وہ روز کی طرح سہم گیا اور آپ ہی سمٹتاچلا گیا۔
اس رات دیو ’’مانس گند، مانس گند‘‘ نہیں چلایا۔ اس پر شہزادی کمال حیران ہوئی کہ جب میں شہزادے کو مکھی بنادیتی تھی تب بھی اس کی آدمی والی بوباقی رہتی تھی، اور دیو ’’مانس گند، مانس گند‘‘ چلاتا تھا۔ آج کیا ہوا کہ میں نے اسے مکھی نہیں بنایا، مگر دیو پھر بھی ’’مانس گند، مانس گند‘‘ نہیں چلایا۔ شہزادہ آزاد بخت کی آدمی والی بو کیا ہوئی؟
خیر جب رات گزری اور صبح ہونے پر دیو رخصت ہوا تو شہزادی نے تہہ خانہ کھولا۔ پر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہاں شہزادہ نہیں ہے اور ایک بڑی سی مکھی بیٹھی ہے۔ وہ دیر تک شش و پنج میں رہی کہ یہ کیا ہوا، اور کیسے شہزادہ خود ہی مکھی بن گیا۔ پھر اس نے اس پر اپنا منتر پڑھ کر پھونکا کہ وہ مکھی سے آدمی بن جائے۔ پر اس کے منتر نے آج کچھ اثر نہ کیا۔ شہزادہ آزاد بخت نے اس روز مکھی کی جون میں صبح کی۔
مصنف:انتظار حسین