کہانی کی کہانی:’’عہد نامہ عتیق کے معروف قصے نوح کو بنیاد بنا کر لکھی گئی اس کہانی میں انسان کی من مانیوں کے نتائج کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ خدا کے بتائے ہوئے اصول سے روگردانی کی وجہ تباہی کی صورت دیکھنی پڑی۔ قصہ نوح اور ہندو دیو مالا کے امتزاج سے کہانی کی فضا بنائی گئی ہے۔‘‘
باہر مینھ برس رہا تھا۔ اندر حبس بہت تھا، حبس سے پریشان ہوکر کسی نے سر باہر نکالا پھر فوراً ہی اندر کر لیا۔
’’بارش کچھ کم ہوئی؟‘‘
’’بالکل کم نہیں ہوئی، اسی شور کے ساتھ ہوئے چلی جا رہی ہے، یہ بارش ہے یا قیامت ہے؟‘‘
’’اندر کے حبس سے تو بہرحال بہتر صورت ہے۔‘‘
’’کوئی بہتر صورت نہیں، اندر حبس باہر بارش، آدمی آخر کہاں جائے؟‘‘
’’سب کچھ تو ڈوب گیا، اب آخر بارش کیوں ہوئے چلی جا رہی ہے۔‘‘
’’ہم جو باقی رہ گئے ہیں۔‘‘
’’ہاں بس ہم ہی رہ گئے ہیں، مگر ہم ہیں کتنے، انگلیوں پر گن لو، باقی تو چرند پرند ہیں۔‘‘
’’ہاں باقی تو چرند پرند ہیں، شاید اس لئے بھی حبس بہت ہو گیا ہے۔ جانوروں کے درمیان سانس لینا کتنا مشکل ہوتا ہے، پتہ نہیں کب تک ہم اس طور جانوروں کے درمیان بسر کرتے رہیں گے۔‘‘
’’ہاں پتہ نہیں کب تک، بارش تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی، کتنے دن گزر گئے کہ اسی ایک رفتار سے ہوئے چلی جا رہی ہے۔‘‘
’’شروع کس دن ہوئی تھی؟‘‘
’’کس دن، ہاں کم از کم حساب تو کرنا چاہئے کہ کس دن شروع ہوئی تھی اور اب کتنے دن ہو گئے، سب نے اپنے اپنے طور پر یاد کیا پر کسی کو یاد نہ آیا کہ وہ کون سا دن تھا اور کون سی تاریخ تھی جب برسنا شروع ہوا تھا۔‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اب کچھ اندازہ نہیں کہ کتنے دن سے سفر میں ہیں۔‘‘
’’کتنے دن سے ہم سفر میں ہیں، سب سوچ میں پڑ گئے، کتنے دن سے کتنے برس سے کتنی صدیوں سے بارش اور سفر میں یہی ہوتا ہے، لگاتار برسے تو لگتا ہے برسوں سے برس رہا ہے اور برس برس بر سے گا، سفر کے بیچ کوئی پڑاؤ نہ آئے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنم جنم سے سفر میں ہیں۔‘‘
’’بہر حال جس دن بارش شروع ہوئی ہے اسی دن ہم گھروں سے نکلے تھے، سو اگر ہم میں سے کسی کویہ یاد ہو کہ ہم نے کس روز اپنے گھروں کو چھوڑا تھا تو۔۔۔‘‘
’’گھروں کو؟‘‘
’’گھروں کو چھوڑنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ گھروں کا نام کسی کے لب پہ آیا تھا۔ تو ہمارے گھر بھی تھے، یہ سوچ کے وہ حیران ہوئے اور چھوڑے ہوئے گھر دفعتاً ان کے تصور میں یوں ابھرے جیسے ابھی ابھی وہ انھیں چھوڑ کر نکلے ہیں۔‘‘
’’کاش وہ بھی میرے ساتھ سوار ہو جاتی، جانے اب کن پانیوں میں گھری ہوگی۔‘‘
’’وہ کون تھی؟‘‘
’’وہ جو زینے سے اترتے ہوئے سیڑھیوں کے بیچ مجھ سے ٹکرائی تھی اور وہ سارا منظر اس کی آنکھوں میں پھر گیا، وہ ہرنی جیسی آنکھوں والی کہ اپنے لبادے کے اندر دو پکے پھل لئے پھرتی تھی اور جب ان سیڑھیوں سے اترتے ہوئے اس نے اسے تھاما، تو لگا کہ دو گرم دھڑکتے پوٹے والی کبوتریاں اس کی مٹھیوں میں آ گئی ہیں، دوسرے ہی لمحہ وہ اس کی گرفت سے باہر تھی اور وحشی ہرنی کی مثال قلانچیں بھرتی بھاگی چلی جا رہی تھی۔ پر بعد اس کے وحشت اس ہرنی کی کم ہوتی چلی گئی حتیٰ کہ بھری دوپہر میں ٹیلے کے پیچھے کھجور تلے وہ اس کے گرم بوجھ سے ڈھیتی چلی گئی۔‘‘
زینے، ڈیوڑھیاں، آنگن، ٹیڑھی ٹیڑھی راہیں، ٹیلے، پھلوں سے لدے، پرندوں سے بھرے اونچے پیڑ، ایک دم سے انھیں کتنا کچھ یاد آگیا تھا۔
’’ان گھروں کو کیا یاد کرنا جو ڈھے گئے اور بہہ گئے۔‘‘ ہاں یہ تو انھیں ابھی تک خیال آیا ہی نہیں تھا کہ جو پانی پہاڑوں کی چوٹیوں سے گزر رہا ہے اس نے ان کے گھروں کو کہاں چھوڑا ہوگا۔
’’مگر ہم ان گھروں کو کیسے بھول جائیں کہ ہم نے ان گھروں میں بیٹھ کر اترنے والی دلہنوں کے لئے گیت گائے اور گزرنے والوں کے لئے گریہ کیا۔‘‘ تب سب آنکھیں ڈبڈبائیں، پھر ان سب نے مل کر اپنے گھروں کو یاد کیا اور وہ روئے۔
’’عزیزو، ان گھروں کی بربادی مقدر ہوچکی تھی۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
تب گلگامش دوزانو ہو بیٹھا اور یوں گویا ہوا کہ ہمسفر و دیدہ عبرت نگاہ رکھتے ہو تو مجھے دیکھو کہ میں کن کن پر شور سمندروں سے گزر کر اس اقلیم میں پہنچا جہاں اتنا پشتم استراحت کرتا تھا، میں نے فریاد کی کہ اے اتنا پشتم میں نے سنا تھا کہ حرکت میں برکت ہے اور سفر وسیلہ ظفر ہے، پر مجھ درماندہ راہ نے حرکت کو بے برکت پایا اور سفر کو لا حاصل جانا، جب کہ تو حیات جاودانی کے مزے لوٹتا ہے اور اس بہشت بنیاد اقلیم میں آرام کرتا ہے، یہ سخن سن اتنا پشتم نے تامل کیا۔ پھر یوں لب کشا ہوا کہ اے تیرہ بخت میں دیکھتا ہوں کہ رنج سفر نے تجھے ہلکان کر دیا اور الم نے تیرے اندر گھر کر لیا ہے، سو تو گھڑی بھر کو دم لے، پھر مؤدب ہو بیٹھ اور گوش ہوش سے سن کہ کیوں کر میں نے حرکت میں برکت دیکھی اور سفر کو وسیلہ ظفر جانا، اور اس راہ حیاتِ جاوداں پائی۔ میں نے اپنا گھر ڈھایا پھر کشتی بنائی۔
اس پر میں حیران ہوا اور یوں بولا کہ اے بزرگ یہ میں کیا سنتا ہوں۔ کہیں کوئی اپنے ہاتھوں سے بھی اپنا گھر ڈھاتا ہے، اتنا پشتم یہ سن کر افسردہ ہوا، پھر بولا کہ میرے خداوند کی مرضی یہی تھی، وہ میرے خواب میں آیا اور خبر دی کہ انیلیل غصے میں ہے کہ زمین پہ شور بہت ہوگیا ہے کہ یہ شور اسے سونےنہیں دیتا، سو اے اتنا پشتم تیری عافیت اس میں ہے کہ اپنا گھر ڈھادے اور کشتی تعمیر کر، تو اے گلگلامش گھر اپنا میں نے خداوند کی مرضی سے ڈھایا اور کشتی بنائی۔
تب انھوں نے سوچا اور یاد کیا کہ ہوا کیا تھا، ہوا یوں کہ زمین آدمیوں سے بھر گئی، آدمیوں سے نیز ظلم سے، خداوند نے تو بس آدمی کو پیدا کیا تھا، پر اس نے آگے بیٹیاں پیدا کر ڈالیں اور خداوند کے بیٹوں نے ان بیٹیوں کو خوبصورت پایا اور اپنی جوروئیں بنا لیا اور ان بیٹیوں نے جو روئیں بن کر مزید بیٹیاں جنیں کہ مزید خدا کے بیٹے ان پہ ریجھے اور انھیں جو روئیں بناکر اپنے گھروں میں لوٹے، بس اس طور زمین آدمیوں سے بھرتی چلی گئی۔ آدمیوں سے نیز ظلم سے اور ایسا ہوا کہ خداوند پچھتایا اور دلگیر ہوا اور پھر یوں بولا کہ میں نے آدم زاد کو بھر پایا۔ سو میں اب انسان کو جسے میں نے خلق کیا تھا نا بود کروں گا کہ زمین بہت بگڑ گئی ہے اورظلم سے بھر گئی ہے۔
پھر انھیں بگڑے ہوؤں کے بیچ ایک نیک بندہ تھا کہ خداوند کے ساتھ چلتا تھا اور خداوند نے اس سے کہا کہ اے لمک کے بیٹے میں تجھے بچاؤں گا، سو تو ایسا کر کہ ایک کشتی بنا اور دیکھ جب طوفان اٹھے تو ہر ذی روح کے ایک جوڑے کو اپنے ساتھ لے اور کشتی میں بیٹھ جا اور اس بندے نے ویسا ہی کیا جیسا اس کے خداوند نے اس سے کہا تھا۔ پر وہ بندہ بھی جورو والا تھا اور اس جورو نے بیٹے جنے جنھوں نے بڑے ہوکر خوبصورت بیٹیوں کو اپنی جورو بنایا اور وہ جو رو شوہر کو کشتی بناتے دیکھتی تو ٹھٹھا کرتی۔ اور بیٹیوں کو جمع کرکے کہتی کہ تمھارے باپ نے یہ کیا کھڑاگ پھیلا رکھا ہے کہ دن بھر اور رات بھر لکڑیاں کاٹ کاٹ کے کچھ بناتا رہتا ہے۔
یہ طعنے سن سن لمک کے بیٹے نوح نے آخر زبان کھولی اور کہا اے میری زندگی کی شریک، ڈر اس دن سے کہ تیرا گرم تندور ٹھنڈا ہوجائے اور تو آکرمجھے طوفان کی خبر سنائے اور بھور بھئے منو جی یہ دیکھ بھوچک رہ گئے کہ مچھلی بڑی ہوگئی ہے اور باسن چھوٹا رہ گیا ہے۔ کل ہی تو اشنان کرتے سمے ان کے چلوّ میں آگئی تھی کہ اس سمے چھنگلیا انگلی کے سمان تھی۔ وہ اسے پھینکنے لگے تھے کہ اس نے دہائی دی کہ پربھوشانتی میں تمھارے شرن لینے آئی ہوں کہ میں چھوٹی مچھلی ہوں اور ندی اندر بڑی مچھلیوں کے بیچ نہیں رہ سکتی کہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے۔ انھوں نے اسے اپنے شرن میں لے لیا اورایک کونڈے میں جل بھر کے اسے اس میں ڈال دیا، پر اب وہ دیکھ رہے تھے کہ کونڈا چھوٹا رہ گیا ہے اور مچھلی بڑی ہوگئی ہے۔
منو جی نے مچھلی کو کونڈے سے نکال کے گھڑے میں ڈال دیا اور پانی اس میں بھر دیا، پر اگلے دن بھور بھئے جب منو جی پوجا کے لئے اٹھے، تو دیکھا کہ گھڑا چھوٹا رہ گیا ہے اور مچھلی بڑی ہوگئی ہے کہ دم اس کی گھڑے میں نہیں سماتی، مچھلی نے دہائی دی کہ پربھو کرپا کرو، گھڑے میں میرا دم گھٹ رہا ہے۔ منوجی کی کٹیا کے باہر ایک جل کنڈ تھا، انھوں نے مچھلی کو گھڑے سے نکال کے جل کنڈ میں ڈال دیا اور نچنت ہوگئے، پھر اگلے دن انھیں چنتا لگ گئی، جل کنڈ مچھلی سے چھوٹا رہ گیا تھا، مچھلی بڑی ہو گئی تھی کہ پونچ اس کی جل کنڈ سے باہر نکلی ہوئی تھی۔ مچھلی نے پھر دہائی دی کے پر بھو تم نے مجھے اپنے شرن میں لیا ہے پر مجھے تمھارے شرن میں چین نہیں ملا، منو جی نے یہ سن کے مچھلی کو جل کنڈ سے نکالا اور نگر سے باہر تلیا میں کھسکا دیا، کہا کہ لے اب تلیا میں تیر اور چین کر۔
منوجی مچھلی کو تلیا میں چھوڑ کے گھر ایسے آئے جیسے سر سے بڑا بوجھ اتار کے آئے ہوں، اس رات وہ چین سے سوئے، پر جب تڑکے میں ان کی آنکھ کھلی تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، مچھلی کی پونچ تلیا سے نکل لمبی ہوتے ہوتے ان کے آنگن میں آن پھیلی تھی۔ وہ جھٹ پٹ اٹھ تلیا پہ گئے، کیا دیکھا کہ تلیا چھوٹی رہ گئی، مچھلی بڑی ہوگئی ہے، اتنی بڑی کہ تلیا کے اندر تو بس اس کا منھ تھا۔ باقی دھڑ اور پونچ سب باہر۔ مچھلی بولی کہ ہے پربھو تمھارے شرن میں میں تیرنے اور سانس لینے کو ترستی ہوں۔ منوجی نے مچھلی کو تلیا سے نکالا، کمر پہ لادا، اور چلے گنگا ندی کی اور، وہاں جاکے انھوں نے اسے ندی میں چھوڑا اور کہا کہ ہے رے مچھلیا، میں نے تجھے گنگا میّا کی گود میں دیا، میّا کی گود میں چاہے سمٹ چاہے پھیل، پر وہ ابھی یہ کہتے تھے کہ مچھلی پھیلنے لگی، اتنی پھیلی کہ گنگا میّا کی گود چھوٹی رہ گئی، مچھلی بڑی ہوگئی۔
منوجی یہ دیکھ ہکا بکا رہ گئے، بولے کہ اری تو نرالی مچھلی ہے کہ پھیلتی ہی جا رہی ہے، جینے کا نیَم یہ ہے کہ جتنی چادر دیکھے اتنے پاؤں پھیلائے، پر تیرے لچھن یہ ہیں کہ جتنا جل دیکھتی ہے اس سے زیادہ پھیل جاتی ہے۔ اچھا اب تیرا اپائے یہی ہے کہ میں تجھے ساگر کے بھینٹ کردوں، یہ کہہ کے انھوں نے مچھلی کو گنگا کی گود سے لیا اور کندھے پہ لاد چلے ساگر کی اور۔
ساگر کی اور جاتے ہوئے منوجی کو دھیان کی لہر بہاکے بیتے سمے میں لے کر گئی جب وشنو جی بونے کے روپ میں پرکٹ ہوئے تھے، انھوں نے اس دشٹ راجہ سے تین ڈگ دھرتی مانگی تھی، اس مورکھ نے سوچا کہ بونے کے تین ڈگوں میں کتنی دھرتی جاتی ہے، مانگ مان لو۔ یہ سوچ اس نے مانگ مان لی، پروشنو جی ایک دم سے بونے سے دیو بن گئے۔ انھوں نے تین ڈگ ایسے بھرے کہ دھرتی اور آکاش دونوں تین ڈگوں میں سمیٹ لئے، اس دھیان نے منوجی کو چونکا دیا، ایک سندیہہ کے ساتھ انھوں نے مچھلی کو دیکھا پر ترنت دھیان کی اک اور لہر آئی، جی میں کہا کہ اس سمے تو دھرتی راکشسوں کے چنگل میں تھی، سو وشنو مہاراج نے انھیں اس پرکار جُل دیا اور دھرتی کو ان کے چنگل سے نکالا۔ آج کے دشٹ ایسے کون سے بڑے راکشس ہیں کہ وشنو مہاراج ایسا سوانگ بھریں گے، انھیں وہ چاہیں تو ابھی چیو نٹیوں کے سمان مسل ڈالیں۔
بس یہی سوچتے سوچتے منو جی ساگر کنارے پہنچ گئے، مچھلی کو ساگر میں دھکیلا اور کہا کہ اب تو میرا پنڈ چھوڑ، اس وشال ساگر میں جتنا من چاہے اتنا پھیل جا، وہ یہ کہتے تھے کہ مچھلی پھیلنے لگی، پھیلتے پھیلتے پورے ساگر پر چھا گئی۔ منو جی نے ایک بھے کے ساتھ یہ کچھ دیکھا، پھر شردھا سے ان کا سر جھک گیا، دونوں ہاتھ جوڑ کے آنکھیں موند کے کھڑے ہوگئے اور لگے کہنے، پربھو شانتی۔ آواز آئی کہ ہے منو دھرتی ادھرمیوں کے ہاتھوں اشانت ہے پر تجھے شانتی ملے گی، سو تو ناؤ بنا جب ساگر امڈے اور دھرتی ڈوبے تو پنچھیوں، پشوؤں میں سے ایک ایک جوڑا سنگ لے اور ناؤ میں بیٹھ جا۔
منو جی یہ سن بولے کہ ہے پر بھو جب ساگر امڈے گا تو میرے ہاتھوں کی بنائی ہوئی بودی نیّا ڈوبے گی یا تیرے گی، آواز آئی کہ ہے منو تو اسے میری مونچھ کے بال سے باندھ دیجیو، بولے کہ باندھنوں گا کاہے سے، میرے پاس کوئی رسّی نہیں ہے، ترنت ایک سانپ رسّی سمان لہروں میں لہرایا، ہے منو یہ رہی رسّی، اس سے نیا باندھ لیجیو۔
تب زوجہ حضرت نوح کی حضرت کے پاس پہنچی، اس حال سے کہ اس کے ہاتھ آٹے میں سنے ہوئے تھے اور ہوش اڑے ہوئے تھے، بعد تشویش بولی کہ اے مرے والی ہمارا گرم تندور ٹھنڈا ہوگیا اور پانی اس کی تہہ میں سے ابل رہا ہے، حضرت نے تامل کیا، پھر یوں بولے کہ دیکھ رب ذوالجلال کا دن آن پہنچا ہے، تویوں کر کہ اپنے جنوں کو اکھٹا کر اور کشتی میں سوار ہوجا، اس پر وہ جو رویہ بولی کہ میں تندور پر طشت ڈھکے دیتی ہوں، پھر پانی نہیں ابلے گا، یہ کہہ کہ وہ دوڑی ہوئی اندر گئی، طشت الٹا کر کے تندوور پر ڈھکا اور اوپر اس کے بڑا سا پتھر رکھ دیا، یہ کہہ کر وہ باہر آئی اور اپنے والی سے بولی کہ دیکھ میری ترکیب کام آئی، پانی ابلنا بند ہوگیا ہے۔
وہ یہ کہتی تھی کہ پانی انگنائی سے نکل کے باہر امنڈنے لگا، طشت اور پتھر اس کے بیچ تیر رہے تھے اور اسی ساعت برابر کے گھر والے کی زوجہ حواس باختہ آئی اور چلائی کہ میرے گھر کے تندور سے فوارہ چھوٹ رہا ہے کہ انگنائی میری جل تھل ہوگئی۔ پھر مختلف گھروں سے بیبیاں نکلیں اس حال سے کہ ہوش ان کے اڑے ہوئے تھے، ہر ایک کے لب پہ خبر یہ تھی کہ تندور ان کے گھر کا گرم سے ٹھنڈا ہوا اور پانی اس سے ابلنے لگا اور سیلاب باہر سے امنڈے تو اسے روکا جا سکتا ہے مگر جب گھر کے اندر سے پھوٹ پڑے توکیوں کر اس پہ بند باندھا جائے۔
سو یوں ہوا کہ دم کے دم میں اس بستی کے سب تندور ٹھنڈے ہوگئے اور وہ ایسا وقت تھا جب ابھی ابھی گھر والیوں نے اپنے تندور گرم کئے تھے، ہر تندور میں انگارے دہک رہے تھے اور روٹیاں پک کر گرم نکل رہی تھیں کہ دفعتاً ایک تندورٹھنڈا ہوا، پھر دوسرا تندور ٹھنڈا ہوا، پھر کسی تیسرے تندور میں آگ بجھی اور نمی پیدا ہوئی، پھر ہلکا ہلکا پانی رسنے لگا، پھر جیسے تہہ پھٹ گئی ہو، ایک دم سے پانی ابلنے لگا، پانی تندوروں سے ابلا، انگنائیوں میں امنڈا اور شاہراہوں میں پھیلا اور پھر بارش شروع ہوگئی۔ ایسے جیسے آسمانوں کے سب دریچے کھل گئے ہوں۔
تب حضرت نوح نے کہا کہ بیشک خداوند کے قہر کا دن آن پہنچا ہے، اور تب حضرت نوح نے کشتی نکالی، سب جانوروں کے جوڑوں کو اس میں بٹھایا اور زوجہ سے کہا کہ اے مری زوجہ دیکھ قہر کی ساعت آن پہنچی، تندور پر ڈھکا ہوا تیرا طشت پتے کی مثال پانی میں بہہ گیا اور آنگن تیرا پانی سے بھر گیا، اب یوں کر کہ اپنے جنوں کو اکٹھا کر اور کشتی میں سوار ہوجا۔ تِس پر وہ زوجہ یہ بولی کہ اے مرے والی اس گھر میں میں نے تیرے سنگ پانچ سو سے اوپر برس کھینچے، دن گزارے، راتیں بسر کیں، یاد کر کہ ہم دونوں نے مل کر اس گھر میں کتنے دکھ دیکھے اور کتنے سکھ پائے، کتنی بار آور ہوئی، دو دھوں نہائی، پوتوں، پڑپوتوں کی بہاریں دیکھیں، سوچ کہ میں کیوں کر اس گھر کو چھوڑ دوں۔
تب نوح نے فرمایا کہ اے مری رفیقہ، خانہ ہستی بے بنیاد ہے اور گھر بنایا بیچ ان لوگوں کے جن کے ظلم سے زمین بھر گئی اور ٹیڑھی ہوگئی، سو ڈھینا اس گھر کا مقدر ٹھہرا، سو اس سے پہلے کہ دیواریں اس کی بیٹھ جائیں اور چھت اس کی آن پڑے، تو یہاں سے نکل اور کشتی میں بیٹھ کہ آج زمین و آسمان کے بیچ وہی ایک پناہ گاہ ہے۔ پر زوجہ ان حضرت کی ڈھیٹ ہوکے یہ بولی کہ اگر میرا گھر مجھے پناہ نہیں دے سکتا تو پھر مجھے کہاں پناہ ملے گی۔ تب حضرت اپنے بیٹوں سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ اے مرے بیٹو، تمھاری ماں نے تو زمین پکڑی ہے اور ہلاک ہونے والوں میں شامل ہو گئی ہے، تم باپ کی سنو اور جلد کشتی میں بیٹھ جاؤ، مبادا تم نا فرمانوں میں شمار کئے جاؤ اور ہلاکت کے گھیرے میں آجاؤ۔
یہ سن کر سب بیٹے کشتی میں سوار ہوئے سوائے بڑے بیٹے کنعان کے کہ اس نے ماں کی راہ کو اپنایا اور باپ سے کہا کہ اے مرے باپ میں کیوں کر اس گھر کو جس میں مری نال گڑی ہے چھوڑ کر اور کیوں کر اس مٹی سے جس نے مجھے رس اور جس دیا ہے منھ موڑ کر اس کشتی میں سوار ہو جاؤں جس میں تونے ہر رنگ کا جناور جمع کر لیا ہے۔ حضرت نے بیٹے کی بات سن کر کہا کہ اے مرے بیٹے دیکھ یہ قہر کا دن ہے، سو انسان حیوان سب ایک کشتی میں سوار ہیں کہ طوفان بے امان ہے اور زندگی کی ضمانت اس کشتی کے سوا کہیں نہیں ہے۔ بیٹا بولا کہ اے مرے باپ تنہائی کی موت ہجوم کے ساتھ زندہ رہنے سے بہتر ہے اور گھر کے اندر پانی میں غرق ہوجانا اچھا ہے، بہ نسبت اس کے کہ آدمی اجنبی پانیوں میں جانوروں کے درمیان بسر کرے۔
تب حضرت نوح اپنی بی بی سے اور اپنے بیٹے سے مایوس ہوئے کہ انھوں نے زمین پکڑی اور نافرمانوں میں شمار ہوئے اور تب کشتی رواں ہوئی، اور حضرت نے کہ سلام ہو ان پر ہمارا، مڑ کے بصد یاس اس گھر کی جانب دیکھا جسے وہ چھ سو برس تک رچ بس کر چھوڑ رہے تھے اور انھوں نے دیکھا کہ ان کے باپ کا بنایا ہوا بڑے پھاٹک والا وہ گھر کہ کل تک شاد آباد تھا، اب امنڈتی موجوں کے بیچ خالی ڈھنڈار پڑا تھا۔ اور ان کی زوجہ نے اور ان کے بیٹے نے برستے آسمان تلے چھت پہ پناہ لی ہوئی تھی، پھر یوں ہوا کہ وہ گھر آنکھوں سے اوجھل ہوتا چلا گیا اور پانی کا زور بڑھتا چلا گیا۔ مینھ ایسے برسا جیسے آسمان کے سب دروازے اور دریچے چوپٹ کھل گئے ہوں۔ مینھ برسا، رات برسا، دن دن برسا، لگاتار برسا کہ دن اور رات کا صبح اور شام کا، دن اور دن کا فرق مٹتا چلا گیا اور زمین نظروں سے یوں اوجھل ہوئی جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔
پھر یوں ہوا کہ کوّے کو کشتی کے اندر بیٹھے بیٹھے بے کلی ہوئی، اس نے پر پھڑ پھڑائے اور کائیں کائیں کرتا باہر اڑ گیا، مگر چکر کاٹنے کے بعد پھر واپس آگیا، اور اس کی واپسی اعلان تھی کہ اب کہیں خشکی نہیں ہے کہ پنجے ٹکائے جا سکیں۔ پھر چوہوں کے جو ڑے کو بےکلی ہوئی، انھوں نے پوری کشتی کا چکّر کاٹا کہ کہیں کوئی بل ملے اور وہ اس میں سٹک جائیں پر انھوں نے کشتی میں کوئی بل نہ پایا، مگر بل تو ہونا چاہئے کہ وہ اس میں سٹک سکیں۔ یہ سوچ انھوں نے کشتی کے پیندے کو کترنا شروع کر دیا، کشتی کے جانوروں نے دیکھا اور ہر اساں ہوئے یہ سوچ کر کہ مبادا کشتی میں چھید ہوجائے اور اس میں پانی بھر جائے اور وہ غرق ہوجائیں۔
تب انھوں نے فریاد کی حضرت نوح سے اور افسوس کیا حضرت نوح نے کہ وائے خرابی میری کہ میں نے کشتی میں سوار کیا چوہوں کو، جن کا شیوہ ہی یہ ہے کہ کترو اور سوراخ کرو۔ حضرت نے انھیں اس فعل سے باز رہنے کی ہدایت کی مگر وہ باز نہ آئے، تب حضرت نے تنگ آکر شیر کے منھ پر ہاتھ پھیرا کہ ہاتھ پھیرتے ہی نکلی اس کے نتھنوں سے ایک بلی کہ جھپٹی چوہوں پر اور چٹ کر گئی انھیں دم کے دم میں۔
تب کشتی کے سب جانوروں نے شادمانی کی اور بلی پر آفرین بھیجی کہ اس نے انھیں آنے والی تباہی سے بچا لیا، پھر یوں ہوا کہ اسی ساعت کبوتری نے پر پھڑ پھڑائے اور کشتی سے باہر نکل اڑ گئی اور دیکھا انھوں نے کہ مینھ تھم گیا ہے اور کبوتری زیتون کی پتّی چونچ میں دبائے واپس آرہی ہے اور وہ شادمان ہوئے یہ سوچ کر کہ پانی اترنے لگا ہے اور خشکی نمود کرنے لگی ہے، مگر پھر انھوں نے یہ دیکھا کہ جوں ہی وہ زیتون کی پتّی سمیت کشتی میں اتری تونہی بلی اس پر جھپٹی اوراسے چٹ کر گئی۔ یہ کیا ہوا انھوں نے دیکھا اور دم بخود رہ گئے، ساتھ میں زیتون کی پتّی بھی۔ عجیب بات ہے۔
’’اب ہم بیچ پانیوں میں ہیں اور کوئی یہ بتانے والا نہیں کہ خشکی کہاں ہے۔‘‘ مینھ بے شک تھم گیا تھا، بادل کی گرج کتنی دیر سے سنائی نہیں دی تھی مگر پانی کی دھارا سی شور سے گرج رہی تھی اور اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں سے گزر رہی تھی، کسی کسی نے سر نکال کر باہر دیکھا، پھر فوراً ہی اندر کر لیا، بہت پانی ہے۔‘‘
اندر حبس بہت تھا اور بلی بیٹھی تھی، باہر پانی گرج رہا تھا اور زمین و آسمان ملے نظر آ رہے تھے، زمین و آسمان اور زمیں و زمان، لگتا تھا کہ ایک زمانہ ہوگیا انھیں گھروں سے نکلے ہوئے اور ایک زمانہ ہوگیا انھیں پر شور پانیوں کے بیچ ڈولتے ہوئے۔
’’کیا ہم کبھی واپس نہیں جا سکیں گے؟‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’اپنے گھروں کو۔‘‘
اپنے گھروں کو؟ ایک بار پھر انھیں حیرانی نے آلیا، گھر۔۔۔ ایک بار پھر گھروں کی یاد نے انھیں ایسے آلیا جیسے کوئی بڑا جھکڑ پیڑوں کو آلے اور انھیں ہلا دے۔ ’’عزیزو، کون سے گھر، باہر جھانک کے دیکھو، کوئی بستی کوئی دیوار در کہیں دکھائی پڑتے ہیں، کیا تم نے گلگلامش سے نہیں سنا کہ اتنا پشتم نے گھر ڈھاکر کشتی بنائی تھی۔‘‘
’’اتنا پشتم نے اچھا نہیں کیا۔‘‘
’’ہاں مگر اتنا پشتم کے خداوند کی تسلی ہوگئی کہ اب زمین پر پانی کے شور کے سوا کوئی شور نہیں ہے کہ اس کی نیند میں خلل ڈالے۔‘‘
مار کنڈے نے باہر جھانک کے دیکھا، چاروں اور گھور اندھیرا، اندھیرا اور سناٹا اور جل کی گرجتی دھارا، پرم آتما نیند میں تھی اور اننت ناگ کے پھن پھیلے ہوئے تھے، اس نے سر اندر کر لیا، نارائن، نارائن، گہراؤ کے اوپر اندھیرا تھا اور خداوند کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی، پانی جس کا کوئی اور چھور نہیں تھا، پانی کی گرجتی دھار میں ازل اور ابد کے ڈانڈے مل جاتے ہیں اور زمین اور زماں گھل مل جاتے ہیں۔ انھیں کچھ یاد نہیں تھا، کب سے گھروں سے نکلے ہوئے ہیں اور کب سے پرشور پانیوں میں بہہ رہے ہیں تنکوں کی طرح، اور کوا پھر بے کل ہوا، پر پھڑ پھڑائے، کوا اڑ گیا اور لوٹ کے نہیں آیا۔ انھوں نے باہر جھانک کے دیکھا، مینھ بے شک تھم گیا تھا مگر پانی اسی طرح امنڈا ہوا تھا اور گرج رہا تھا، کوے کا دور دور پتہ نہیں تھا۔
’’کوّا سیانا جانور ہے، وہ لوٹ کے نہیں آئے گا۔‘‘
’’خیر یہ تو پتہ چل ہی گیا کہ کہیں نہ کہیں خشکی ہے، سو ہماری کشتی بھی کسی نہ کسی کنارے جا ہی لگے گی، سو اے ہمارے رب ہمیں برکت کی جگہ اتار یو اور تحقیق تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے۔‘‘
’’ہمسفرو، برکت کی جگہ کہاں ہے، ہم گہرے پانیوں کے بیچ میں ہیں اور کوئی یہ بتانے والا نہیں کہ خشکی کہاں ہے اور برکت کی جگہ کون سی ہے، ہاں اگر نوح ہمارے بیچ میں ہوتا تو۔۔۔‘‘
’’نوح۔۔۔؟ نوح یہاں نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
سب نے خوف بھری نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرےسے پوچھ رہے تھے نوح کہاں ہے؟ تب حاتم طائی نے زبان کھولی اور کلام لب پہ لایا کہ، ’’اے ہمسفرانِ عزیز! اے عزیزانِ با تمیز! صبر کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑو، دیکھتے رہو کہ پردہ غیب سے کیا نمودار ہوتا ہے۔ مجھے دیکھو کہ میں نے بھری ندیوں کے بیچ ایسی کشتیوں میں سفر کیا ہے جن کا کھِویا نہیں تھا۔ کان دھر کر سنو کہ کوہ ندا کی مہم میں مجھ پہ کیا بیتی۔ حیران سرگرداں چلا جاتا تھا کہ ایک پہاڑ بلند عظیم الشان نظر آیا، اسی کی طرف متوجہ ہوا۔ تین دن کے بعد اس کے نیچے جا پہنچا، اور جس پتھر کو اٹھا کر دیکھا اس کے تلے لہو بہتا پایا۔ فکر کرتا تھا کہ کوئی یہاں نہیں ہے جس سے اس کا احوال پوچھوں۔ پھر کیا دیکھتا ہوں کہ ایک دریا بڑے زور وشور سے بہہ رہا ہےاور اس کا اور چھور بھی نہیں ملتا۔ نہایت متفکر ہوا۔
دل میں کہا کہ یا الہی! اب اس سے کیونکر پار اتروں۔ اتنے میں ایک ناؤ پر نظر پڑی کہ ادھر ہی چلی آتی ہے۔ جانا میں نے کہ کوئی ملاح لیے آتا ہے۔ جب کنارے آ لگی تو اس پر کسی کو نہ دیکھا۔ متعجب ہوا۔ پھر شکر خدا کا بجا لا کر سوار ہو لیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک دستر خوان میں کچھ لپٹا دھرا ہے۔ بھوکا تو تھا ہی، فوراً ہاتھ بڑھا کر کھولا تو دو گرم گرم نان اور کباب۔ حیران ہوا کہ یا الہی یہ گرم نان کس تندور سے آئے ہیں۔ دھیان آیا کہ شاید ملاح نے اپنے واسطے رکھا ہو۔ پرائے کا حق کھانا خوب نہیں۔ اتنے میں ایک مچھلی نے دریا سے سر نکال کر کہا کہ اے حاتم یہ روٹیاں اور کباب تیرا ہی رزق ہے۔ شوق سے کھا۔ کچھ اندیشہ جی میں نہ لا۔ یہ کہہ کر غوطہ مار گئی۔ میں حیران کہ کشتی کون لایا، کباب روٹی کون دھر گیا، مچھلی کون تھی؟‘‘
’’مچھلی؟‘‘ سب چونک پڑے۔ مچھلی تو ان کے دھیان سے اتر ہی گئی تھی۔
’’مچھلی کون تھی؟ ہاں پہلے تو پرجا پتی بھوچک رہ گئےتھے، پر پھر اسی کی مونچھ کے بال سے انھوں نے ناؤ کو باندھا۔‘‘
سب نے باہر جھانک کے دیکھا، باہر چاروں اور گھور اندھیرا اور اندھیارا اور گرجتے جل کی دھارا، مانو بھو ساگر امنڈا تھا پر مچھلی کا کہیں اتا پتا نہیں تھا۔
’’مچھلی تو کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔‘‘
’’مترو اسے ڈھونڈو، اسی کے بال سے تو ہم بندھے ہوئے ہیں۔‘‘
سب نے باہر دور دور تک دیکھا، بس لہراتی رسّی دکھائی پڑی، مچھلی کہیں نہیں تھی۔
’’مترو رسّی تو ہے کہ سانپ سمان ناؤ کے چاروں اور لہرا رہی ہے پر مچھلی نہیں ہے۔‘‘
’’یہ تو بہت چنتا کی بات ہے۔‘‘
سو چنتا نے انھیں گھیرا اور سندیہہ نے آن پکڑا، دور دور کی بات دھیان میں آئی پر گتھی نہ کھلی، ناؤ ڈول رہی تھی اور چاروں اور جل دھارا گرج رہی تھی۔
مصنف:انتظار حسین