ہمجنس با ہمجنس

0
154
Urdu Story Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’یہ ایک ایسے جوڑے کی کہانی ہے جن کی شادیاں ادھیڑ عمر کے ساتھیوں کے ساتھ ہو جاتی ہیں۔ اتفاق سے ایک سفر کے دوران ان دونوں کی ملاقات ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد ان کی زندگی پوری طرح سے بدل جاتی ہے۔‘‘

(۱)

میں اپنے کتب خانے میں برقی چراغ کے آگے اس لمبے چوڑے خط کو لیے حیران کھڑی تھی۔ خط بہت طویل تھا۔ ہر سطر مسرت و انبساط میں ڈوبی ہوئی تھی،

’’دیکھنا پیاری روحی! تم فوراً یہاں چلی آؤ۔ اس مسرت وشادمانی کے زمانے میں تمہاری غیرموجودگی نہایت نازیبا ہے۔ ہم لوگ کوہِ زیتون پر آج بارہ دن سے ایام عروسی بسر کر رہے ہیں۔ تم سے اتنی رازکی باتیں کرنی ہیں کہ کیا بتاؤں! روحاً اور قلباً میں تمہاری آمد کا انتظار کروں گی۔ تم کل صبح سویرے منہ اندھیرے پلین میں چل پڑو۔ غروبِ آفتاب سے پہلے یہاں پہنچ جاؤ گی۔ میں کل شام ایروڈروم پر تمہارا انتظار کروں گی۔‘‘

’’تمہاری صوفی‘‘

- Advertisement -

میری حیرانی کی انتہانہ تھی۔ صوفی کے لیے یہ خوش ہونے کا موقع نہ تھا۔ وہ نہایت خوش مزاج اور چلبلی لڑکی تھی۔ خاندان کے ممبروں کے اصرار پر پچھلے سال جس دوپہر بوڑھے ڈاکٹر سے اس کی نسبت ہوئی وہ کھانے کی میز پر سے ایک چھری لے کر آہستہ سے اپنی خواب گاہ میں جاگھسی تھی کہ اپنے آپ کو ہلاک کردے مگر میں نے بچا لیا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی اس کی شادی ہوگئی تھی۔ اس کے بعد میں سیاحت کی غرض سے مشرق بعید کے جنگلوں کی طرف روانہ ہوگئی تھی۔ اور مجھے نہ معلوم ہوسکا کہ اس پر کیا گزری لیکن اب اس کا یہ پیام!اب تک ایام عروسی! اورپھر بہار کے پھول کی طرح کھل کر خط لکھنا اور مجھے مدعو کرنا۔۔۔ میرے لیے ایک معمہ تھا۔

کچھ دیر کے بعد اس کے اس فقرے پر مجھے بڑے زور کی ہنسی آگئی، ’’ایامِ عروسی بسر کررہے ہیں۔‘‘ میں نے ہنس کر اس کے فقرے کو دہرایا۔ ایام عروسی کا لفظ بوڑھے بلّے کے نام کے ساتھ ایسا ہی مضحکہ انگیز تھا جیسے کوئل کے ساتھ مینڈک کا۔ میں خود اس کی شادی میں شریک تھی۔ نکاح کی صبح دولہانے بندرٹوپی پہن رکھی تھی۔ یہ میں جانتی ہوں کہ اس روز سردی غیر معمولی تھی مگر خیال توکیجیے کہ شادی کے دن ایسا لباس!لباس سے خیالات کا اندازہ بھی کرلیجیے۔ یاس کن زگلستانِ من بہار مرا۔ کچھ دیر بعد مجھے صوفی کی حالت پر ترس آگیا۔ آہ کم نصیب لڑکی! کس طرح کوشش کرکے اپنے درد کو خوشی میں تبدیل کررہی ہے۔ بوڑھے ڈاکٹر بخش کے ساتھ زندگی کے دن کاٹنا ایسا ہی ہے جیسے سولی پر دن کٹیں، باہمت لڑکی! میں ہوتی تو اک خوراک آیوڈین کی پی کر اپنا خاتمہ نہ کرلیتی؟ مجھ میں اتنی ہمت کہاں!

میں نے خط میز پر رکھ دیا اور ایک لمبی سی دریچی کھول کر اس کے آگے کھڑی ہوگئی۔ باہر باغ کی روشوں پر چاندنی کا فرش بچھاہوا تھا۔ رات کس قدر گرم اور بے انتہا حسین تھی۔ ایشیاکی شب بیدار بلبل قریب ہی حنا کی جھکی ہوئی شاخ پر بیٹھی گا رہی تھی۔ اتنے میں سبزمخملی پردہ ہلا اور بڑی بوڑھی حبشن زوناش حسب معمول اپنی موٹی کمر سمیت اندر پھدک پڑی۔

’’بوڑھے جن کی بیوی!‘‘ میں نے اسے نازسے مخاطب کیا، ’’سنتی ہو؟کل صبح سویرے میرا صنوبری (ہوائی جہاز) کوہِ زیتون کی پروازکو جائے گا۔ تم ایک سوٹ کیس میں کوئی اسی نوے جوڑے بھر دو۔‘‘ میرے ساتھ سفر کی تلخیاں پے درپے چکھنے کے بعد زوناش اب سفر سے متوحش سی رہتی تھی۔ اس نے بگڑ کر کہا، ’’کیا پھر سفر؟خدا جلدی میری زندگی کا خاتمہ کردے۔‘‘

’’کم عقل چھپکلی!‘‘ میں نے مسکرا کر کہا، ’’کوہِ زیتون وہ جگہ ہے جہاں گلاب کے سرخ پھول سنہری دھوپ میں دن بھر قہقہے لگاتے رہتے ہیں او رجہاں سبز طوطوں کی خمیدہ چونچوں میں لال چیری نظر آتی ہے، بید مجنوں کی شاخوں پر سبز چشم فاختہ رات بھر آہیں بھرتی ہے، شمشاد کی ٹہنیوں پر سنہرے پروں والی ننھی بلبل دن بھر بیٹھی دردِدل سنایا کرتی ہے، وہ تو جنت ہے۔‘‘ مگر اس وحشی لومڑی نے میری شاعری کا ایک لفظ نہ سنا۔ نا اہل کے ساتھ گفتگو کرنے کا یہی نتیجہ ہوتاہے۔ آہ تو صوفی غریب کا کیا حال ہوگا؟دوسرے دن صبح کی لطیف ہواؤں میں میں اپنے چمکیلے پروں والے صنوبری میں کوہ ِ زیتون کی طرف اڑگئی۔

(۲)

دوسری شام غروب آفتا ب سے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ پہلے میری ہوائی کشتی کوہِِ زیتون کے ایروڈروم کے قریب پہنچ گئی۔ میں نے نیچے نظر ڈالی تو صوفی ہینگرکے پاس کھڑی نظر آئی، بالکل چیونٹی معلوم ہوتی تھی۔ شاید ہوا میں جہاز کا شور قریب سنائی دینے لگا اس لیے وہ ٹکٹکی لگاکر آسمان کو دیکھ رہی اور مارے خوشی کے اچھلی پڑ رہی تھی۔

اب میرا جہاز نیچے اترنے اور اپنی پروازکی کی قوت کھونے لگا تھا۔ آہستہ آہستہ زمین سے آلگا اور آخر کچھ دیر بعد ٹھہر گیا۔ اس کے رکتے ہی جہاز کی دریچی کھول کر گلہری کی طرح میں باہر کود پڑی اور سوفی سے لپٹ گئی۔

’’میری جان روحی!‘‘

’’میری پیاری صوفی!‘‘

’’کیاہی خوشی کا دن ہے روحی۔‘‘

’’بلا شبہ صوفی۔‘‘

ہم دونو ں پانچ منٹ ایک دوسرے سے چمٹی رہیں پھر یکایک مجھے کچھ یاد آیا اور میں نے پوچھا، ’’مگر۔ مگر صوفی یہ تو کہوخلافِ امید تم ایسی خوش کیسے ہو؟ میرا تو خیال تھا۔۔۔ خیر۔ ہاں تمہارے دولھا (مسکر ا کر) کہاں ہیں؟‘‘

میں سمجھتی تھی ’’دولہا‘‘ کانام بیچ میں آتے ہی اس کی تمام شوخی و شادمانی یکلخت کافور ہوجائے گی اور اس کا چہرہ کیلے کے نوخیز پتے کی طرح پیلا پرجائے گا مگر اس نے مسکرا کر کہا، ’’وہ کھڑے ہیں وہ۔‘‘ میں نے مڑکر دیکھا تو دس دس گز کے فاصلے پر اک درازقد اور خوش رو نوجوان ایک دل پذیرشانِ استغنا سے کھڑا تھا۔ میں دو لمحے غور سے اس کی طرف دیکھتی رہی۔ آنکھوں میں جادوتھا، مسکرا ہٹ میں بجلی۔ میں نے حیران ہوکر صوفی سے پوچھا، ’’میں نے تمہارے شوہر کے متعلق پوچھا تھا۔‘‘ وہ ہنس پڑی، ’’ادھرکھڑے ہیں اُدھر۔ درخت کے پیچھے؟‘‘

’’درخت کے پیچھے؟‘‘ میں نے حیران ہو کر کہا، ’’وہ اتنے شوخ کب سے ہوگیے کہ آنکھ مچولی کھیلنے لگے (درخت کے پیچھے دیکھ کر) شریر لڑکی!یہاں ڈاکٹر بخش کہاں؟ کیا کردیا انہیں؟ اور یہ نوجوان کون ہے؟ بہت ہی خوبصورت ہے۔‘‘

صوفی نے قہقہہ لگاکر کہا، ’’سچ مچ‘‘ واقعہ یہ ہے کہ ’’میں نے ڈاکٹر بخش کے انجکشن لگوائے تھے جس سے ان کے بڑھاپے کا خول اتر گیا اور اندر سے وہ ایسے نکل آئے۔‘‘ میں حیران ہو کر نوجوان کو دیکھنے لگی پھر یکلخت ہنسی آگئی، ’’صوفی تم ا ب تک ویسی ہی شریر ہو؟‘‘

’’یہ تمہاری ہمت ہے۔ اچھا ان حضرت سے کم از کم میرا تعارف توکراؤ۔‘‘

’’تمہیں ایسا ہی اضطراب ہے تو آؤ روحی، اس شخص سے ملاؤں۔ یہ ہیں رمزی صاحب اور یہ خاتون روحی۔‘‘ ہم نے ایک دوسرے کو اشتیاق سے سلام کیا۔

’’رمزی صاحب! ڈاکٹر بخش کہاں ہیں؟‘‘

’’ڈاکٹر بخش؟‘‘ رمزی نے دلفریب تبسم کے ساتھ کہا، ’’ہم نے انہیں ایام عروسی بسر کرنے کے لئے ساحلِ نور پر چھوڑ رکھا ہے۔‘‘

’’ایں؟‘‘ میرا منہ کھلے کا کھلا رہاگیا۔

’’آپ نے کہاں چھوڑ رکھا ہے اور کس کام کے لیے؟‘‘

صوفی ہنس پڑی، ’’ایام عروسی بسرکرنے کے لئے ایام عروسی۔‘‘ میں نے اپنی شمسی (چھتری) کو آفتاب کی طرف کردیا۔ حیران ہو کر دونوں کو تکنے لگی پھربولی، ’’تمہاری باتیں ذرا بھی میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ یہ معمہ کیاہے؟کیاڈاکٹر بخش نے کوئی او رشادی کرلی ہے؟ اور صوفی تم یہاں کیوں آئی ہوئی ہو؟‘‘

’’ایام عروسی بسر کرنے۔‘‘

میں بڑی حیران ہوئی، ’’ایام عروسی!معلوم ہوتا ہے کہ آج کل یہ لفظ تمہاری زبان پر بہت ہی چڑھا ہواہے۔ ڈاکٹر بخش ساحل نور پر ایام عروسی بسر کر رہے ہیں اور تم کوہ نور پرایام عروسی بسر کرنے آئی ہو؟‘‘

’’ہاں ہاں بالکل درست! کیاکوئی بری بات ہے؟‘‘

’’کیا واہیات ہے صوفی۔‘‘ میں نے جھنجھلاکرکہا، ’’بتاتی کیوں نہیں کہ معاملہ کیا ہے؟‘‘

اتنے میں ہم گھر پہنچ گیے۔ چنبیلی کی خوشبو دار بل کھاتی ہوئی بیلوں میں پوشیدہ اک نہایت خوبصورت سا چھوٹا بنگلہ تھا جس کے تمام کمرے حسین اور دریچے نہایت سہانے تھے۔ تمام وقت میں حیران ہوتی رہی کہ یہ کیا رمزہے۔ نہانے گئی تواسی خیال میں۔ واپس آکر آئینے کے آگے کنگھی کرنے لگی تواسی دُھن میں! کیاواقعی بوڑھے بخش کے صوفی نے انجکشن لگوائے؟ جس سے اس کی ضعیفی نوجوانی میں تبدیل ہوگئی؟مگر عقل کہتی تھی کہاں وہ بوڑھی مکروہ روح اورکہاں یہ شوخ نوجوان! چہ نسبت خاک راباعالم پاک؟ تبدیل لباس کے بعد میں کھانے کے لئے کمرہ طعام میں چلی گئی۔

(۳)

رات کافی گرم تھی اس لیے کھانے کی میز کھڑکی کے باہر سنگِ مرمر کی چھوٹی سی چبوتری پر لگی تھی۔ زرد موم بتیوں کی مدھم خوابناک روشنی میں اعلی پالش کی ہوئی سیاہ میز بلور کے ٹکڑے کی طرح جگمگارہی تھی۔ ذرافاصلے پربیدمجنوں اور ناشپاتی کے درخت دم بخود کھڑے تھے۔ دور کہیں پہاڑوں میں ماہ مارچ کا حسین چاند طلوع ہورہاتھا۔ ہم تینوں میز کے گرد بیٹھ گیے۔ میں نے اک آلو کاٹ کر کھاتے کھاتے پوچھا، ’’آخر بچارے بخش کو تم نے غائب کہاں کردیا؟ اس معمے کو حل کرو۔‘‘

’’یہ معمہ تم رمزی صاحب سے حل کراؤ۔‘‘ صوفی نے گوشت پر نمبو نچوڑتے ہوئے کنکھیوں سے رمزی کو دیکھا۔ رمزی مسکراکر پنیر کو روٹی پر رکھنے لگے۔

’’نہ نہ۔ یہ معمہ آپ خاتون صوفی سے ہی حل کرایئے۔‘‘

اسی وقت زوناش ہاتھ میں ستارلے کر آگئی کیوں کہ میں کھانے کے دوران میں ہمیشہ اس کی ستار سنا کرتی ہوں۔ ’’اچھا۔ کیازوناش بھی ساتھ ہے؟ سلام بوڑھی بھینس!‘‘

’’سلام خاتون صوفی۔ سلام ڈاکٹر بخش۔ ایں؟‘‘

یکایک اس کی نظر بجائے بخش کے رمزی پر پڑی اور وہ چپ ہوگئی پھر ذرا توقف کرکے پوچھا، ’’خاتون صوفی کیا ڈاکٹر بخش باہر گیے ہوئے ہیں؟ اس کی حیرانی کی انتہانہ رہی، جب اس نے سنا کہ بوڑھے ڈاکٹر بخش ساحل نور پر ایام عروسی بسر کر رہے ہیں۔

وہ وحشت ناک نظروں سے صوفی کو دیکھنے لگی۔ ’’آہ‘‘ زوناش کی زبان سے نکلا۔ ’’مرد برے ہوتے ہیں۔ بھلا اس عمر میں یہ شوق؟ تومیری خاتون انہوں نے دوسری شادی کرلی؟ مرد زہریلے سانپ ہوتے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے آنکھیں جھپکا جھپکا کر رمزی کوبھی دیکھتی جاتی تھی جوموم بتی کی روشنی میں سیاہ الپا کے کوٹ میں بالکل غلمان معلوم ہوتا تھا۔

صوفی ہنس پڑی، ’’نہیں نہیں زوناش، صرف مردوں کو موردِ الزام نہ ٹھہراؤ۔ یہ بے انصافی ہے۔ بہت سے مرد برے ہوتے ہیں۔ بہت عورتیں بری ہوتی ہیں بہت سی عورتیں اچھی ہوتی ہیں۔ بہت سے مرد اچھے ہوتے ہیں۔‘‘

’’صوفی!‘‘ کھانے کے بعد میں نے بیزارہوکر کہا، ’’اس طرح مجھے کب تک پاگل بنائے رکھوگی؟‘‘

’’اچھا چلو روحی! میں اس فوارے کے قریب بید مجنوں کے تلے تمہیں اپنا قصہ سناؤں گی۔‘‘

’’قصہ؟‘‘ میں نے حیران ہوکر کہا، ’’قصہ کیسا؟ کیابہت سے حالات ہیں؟‘‘

’’بہت سے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑکر وہ مجھے بید مجنوں کے تلے لے گئی جہاں یاسمین کے پھول کھلے تھے۔ اب چاند اوپر کو نکل آیا تھا۔ صوفح یکلخت کچھ افسردہ سی ہوگئی اورپھر کہنے لگی۔

(۴)

’’تم میری شادی کے فوراًبعدواپس چلی گئی تھیں۔ شادی کی تیسری شام تھی۔ نیلے آسمان پر شفق کا رنگین سیلاب دیکھ کر مردہ دل میں ہوک سی اٹھنے لگی۔ میں نے اشتیاق سے اپنے شوہر سے کہا، ’’شام کیسی حسین ہے! چہل قدمی کو چلیں؟‘‘

’’مگر میری کمر میں درد ہے۔‘‘ انہوں نے عینک کے اوپر سے مجھے دیکھ کر جواب دیا، ’’تب تو شاید چہل قدمی سے نقصان پہنچے۔ چلیے پھر کسی سنیما ہال ہی میں بیٹھ کر شام کاٹ دیں۔‘‘ میں نے کہا۔

’’بند سنیماہال میں بیٹھنا طبی نقطہ نظر سے بہت مضر ہے۔‘‘ اپنے روغنی سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دولھا نے جواب دیا۔ صوفی سے اتنا سن کر میں اپنی ہنسی ضبط نہ کرسکی مگر صوفی بچاری دردناک پیرائے میں اپنا قصہ سنائے جارہی تھی۔

’’روحی!شادی کے ایک ہفتہ بعد میرے شوہر کو (مریض کے دیکھنے کے لیے ) شوراک جانا پڑا۔ میں اس واقعہ کو کبھی نہ بھولوں گی۔ کبھی نہیں! میں نے کہانیوں میں پڑھا تھا کہ محب و محبوب کے خط فردوسی لہجوں میں لکھے ہوئے خمارانگیز ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کے جانے کے تیسرے ہی دن سے میں خط کے انتظار اور اشتیاق میں بیتاب ہورہی تھی کہ ایک خط آئے گا اور کب میں اسے پڑھوں گی!آخر پانچویں دن وہ جاں نواز لفافہ آیا۔ فرط مسرت سے میرا چہرہ گلابی ہوگیا۔ ہاتھ پاؤں میں کپکپی تھی۔ اس اضطراری کیفیت میں لفافہ چاک کیا۔ لرزاں انگلیوں سے کاغذ نکالا مگر اندر سے کیا نکلا؟ اُف میری تقدیر! کمر کے درد کا نسخہ! اسی نسخہ کی پشت پر دوترچھی سطریں پنسل سے لکھی گئی ہیں، ’’کیمسٹ سے یہ نسخہ بنوارکھنا، میں کل پہنچ جاؤں گا۔‘‘ پہلی جدائی کو لوگ ایسے ہی محسوس کرتے ہیں؟

میرے خرمن آرزو پر بجلی سی گری۔ میں نے اس وقت تو اپنے نامراددل کو تسلی دے لی کہ ایسا بھی ہوجاتاہے مگر خبرنہ تھی کہ یہ کمر کا درد۔ دردِدل کی طرح ساری زندگی میں شریک اور مخل رہے گا۔

میری شادی ہوئے پورا سال ہونے آگیا۔ اس دوران میں اس کمر کے درد کی شکایت میں برابر سنتی رہی اور روحی اس پر بس نہیں باؤٹا اور رعشہ پر مستزاد۔ اس سے تم یہ نہ سمجھنا کہ میں اپنے بزرگ شوہر کے دکھ بیماری کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا کرتی تھی۔ کبھی نہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہواکہ بخش کی کسی تکلیف کوسن کر میری آنکھوں میں دواک آنسونہ آگیے ہوں۔ میرے ہونٹوں سے اک آہ نہ نکل گئی ہو مگر اس کا کیا علاج کہ جب بھی ان سے کوئی بات کی، ان کے ساتھ جب کوئی پروگرام بنایااس کے جواب میں کمر درد کا دخل ضرور ہوگیا۔ جب دردنہ ہوتا تھا تو درد کا اندیشہ دامن گیرہوتا تھا۔ عادت ہی کچھ اس طرح کی ہوگئی تھی۔

آخر ایک دن میں نے تنگ آکر کہا، ’’قبلہ! آپ اپنی کمر کا علاج باقاعدہ کیوں نہیں کراتے؟فوراکسی دوسرے معالج سے علاج کرائیں ورنہ خدانخواستہ آپ بستر ہی کے نہ ہورہیں۔‘‘ نسوار کی ڈبیہ پر چٹکی بجاتے ہوئے عینک ناک کی انی پررکھ کر انہوں نے میری طرف دیکھ کر فرمایا، ’’تم سمجھتی ہو کہ میں صرف اک کمر درد میں مبتلا ہوں؟‘‘ میں حیران ہوکر انہیں دیکھنے لگی ’’ایں؟اس کے علاوہ کوئی اور شکایت بھی ہے؟ ہاں میں بھولی باؤٹا؟‘‘

اس کے ساتھ ہی مجھے اپنے دل میں بھی باؤٹے کی سی تکلیف محسوس ہونے لگی۔ بخش صاحب کسی قدر غصے سے بولے، ’’تمہیں میری صحت کی کیا فکر؟ تم تو دن رات خوشنما لباسوں اور جگمگاتے زیور وں میں گم رہتی ہو۔ تفریح گاہوں کے تصورنے ہمدردی کے مادے ہی کو تم میں سے سلب کرلیاہے۔ اس شادی کا کیا فائدہ؟ میں تواب بھی اپنے آپ کو دنیا میں بالکل تنہا محسوس کرتاہوں۔‘‘

میں حیران ہوکر اپنے شوہر کی خشخشی داڑھی کودیکھنے لگی کیوں کہ بالکل یہی خیالات میرے بھی تھے۔ میں بھی سوچتی تھی کہ اس شادی کا کیا فائدہ؟ میں بھی اپنے آپ کو دنیا میں بالکل تنہا محسوس کرتی تھی۔ کچھ دیر بعد انہوں نے اپنا گھٹنا سہلاتے ہوئے فرمایا، ’’ڈاکٹرخدا داد سچ کہا کرتاہے کہ اچھی بیویاں دنیا میں خوش نصیبوں ہی کو ملتی ہیں۔‘‘

’’اور اچھے شوہروں کے متعلق ان کا کیا ارشاد ہے؟‘‘ میں نے ہمت کرکے پوچھا۔

’’خیر واہیات باتوں سے کیا حاصل؟‘‘ یہ کہہ کر وہ کھانسنے لگے۔ زور زور سے بے ڈھنگی آوازوں میں کھانسنے کے بعد فرمایا، ’’اس ڈبیہ میں نسواربھردوتوبڑی مہربانی۔‘‘ پھراپنے تولیہ نما رومال سے بآواز بلند ناک صاف کرنے لگے۔ مجھے گھن آنے لگی۔ میں نے نسوار کی ڈبیہ اٹھالی، ساتھ ہی میرے آنسونکل پڑے۔ اسی شام کا ذکرہے میں نے اپنے شوہر صاحب کے لئے دلیہ پکا کر باورچی خانے سے لا رہی تھی۔ دلیہ مرغوب غذاتھی کیوں کہ ان معصوم کے صرف چند ہی دانت سلامت تھے اور وہ بھی ہلتے ہوئے۔

’’بید مجنوں کی طرح لرزاں۔‘‘ میں نے ہنس کر صوفی کو چھیڑا۔

’’رہنے بھی دوروحی تمہاری شوخیاں، میری داستان سنو۔ برآمد ے میں پہنچی تو دیکھا کہ ڈاکٹر خداداد آئے ہوئے ہیں اور مصروف کلام ہیں۔‘‘

’’کیا دلیہ تیار ہوگیا؟‘‘ بخش نے مجھے دیکھ کر پوچھا۔

’’جی ہاں جناب۔‘‘ میں نے کہا۔

میں ہنس پڑی، ’’توصوفی!تم اپنے بڑے میاں کو قبلہ اور جناب سے مخاطب کرتی ہو؟‘‘

’’اور کیا روحی؟ بخش کے لیے ان سے زیادہ موزوں اور کیا خطابات ہوتے؟ اچھا تو میں نے کہا، ’’جی ہاں جناب‘‘ یہ سن کر انہوں نے کہا، ’’ابھی کھالوں گا، غروبِ آفتاب کے بعد کھانے سے ہاضمے میں فتور واقع ہوتاہے۔ کیوں ڈاکٹر؟‘‘

’’ضرور ہوتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔

میں پھر ہنس پڑی، ’’صوفی تمہیں یادہے؟ میرے دادا ابا اور تمہارے ناناجان بھی غروبِ آفتاب سے پہلے کھانے کی میز پر بیٹھ جایا کرتے تھے؟‘‘

’’ہاں روحی!‘‘ صوفی کہنے لگی، ’’آخر بخش بھی تو انہی دونوں کے ہم عمر ہوں گے۔ اچھا تومیں نے دلیہ کا کٹورہ تپائی پررکھ دیا اور بڑے میاں آستین چڑھاکر چمچہ لیے کٹورے پر پل پڑے۔ بولے، ’’اس وقت میری داڑھ کا درد بھی دبا ہوا ہے۔ ابھی اس کا ختم کرنا مناسب ہے۔‘‘

ڈاکٹرخداداد نے میرے شوہر کو تبدیل آب و ہوا کے لیے سمندر کے کنارے جانے کی رائے دی اور ساتھ ہی کہا، ’’میں آپ کو اک خاتون کا پتہ بھی دے سکتا ہوں جن کے ہاں آپ اطمنان سے قیام فرما سکتے ہیں۔ یہ اک تجربہ کار خاتون ہیں۔ ان کے کمرے آپ کی رہائش کے لیے مناسب ہوں گے۔ خاتون آپ کی نگرانی بھی بخوبی کرلیں گی۔ ادھیڑعمر کی ہیں۔‘‘

’’ادھیڑعمر کی؟‘‘ میرے شوہر نے دلیہ چباتے ہوئے کہا، ’’ناتجربہ کار لڑکیاں فضول ہوتی ہیں۔‘‘

میں کچھ خیال کرکے ہنس پڑی، ’’صوفی چبانے کے دوران میں تمہارے شوہر کی شکل کیسی ہوا کرتی تھی؟ کیوں کہ دانت توتھے ہی نہیں۔‘‘

’’خیر روحی رہنے دو۔ تبدیل آب و ہوا کی تجویزسن کر میں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ تفریح کی اک سبیل تو نکل آئی۔ شاید وہ ساحل پر چند دن زندگی کے ہنسی خوشی کٹ جائیں۔

میں نے پھر مداخلت کی، ’’میں ہوتی تو ڈاکٹر کی رائے سے بہت پہلے خود ہی اس تجویز کو سوچ لیتی اور اپنی تفریح کی سبیل نکال لیتی۔‘‘ یہ سن کر صوفی ہنس پڑی۔ جب خداداد جانے لگے تو میں نے دبے لہجے میں کہا، ’’آپ نے مجھ پر بڑا احسان کیا۔ یہی تبدیل آب وہوا کی رائے دے کر۔‘‘

’’میں جانتا ہوں۔ میں جانتاہوں۔‘‘ ڈاکٹر خداداد نے مسکرا کر اک شوخ نگاہ مجھ پر ڈالتے ہوئے کہا۔ وہ میری مصیبت کی داستان سے واقف ہو گیا تھا۔ خدا اس کا بھلا کرے اس نے یہ رائے دے کر مجھ پر بڑا احسان کیا۔‘‘

(۵)

غرض روحی تیسرے دن شام کو ہم لوگ ساحلِ نور پر پہنچ گیے۔ وہ شام میں اپنی زندگی میں کبھی نہ بھولوں گی کیوں کہ بہت مبارک تھی۔

ساحلِ نور پر ہمارا پہلا دن تھا۔ آسمان پر خوشگوار بادل چھائے ہوئے تھے۔ سمندر کی سفید اورنیلی موجیں اک رومان انگیز طریق پر ساحل سے سر ٹکرارہی تھیں۔ تاڑاورناریل کے فلک بوس درخت سمندری ہواؤں سے کسی مخمور کی طرح جھوم رہے تھے۔ شام نہایت سرد تھی۔ ہم لوگ ایک بند کمرے میں آگ کے پاس بیٹھے تھے۔ ہماری میزبان خاتون شامی اپنی موٹی کمر کسے ہوئے آگ کے قریب عینک ناک پر رکھے بیٹھی تھیں اور بھورے رنگ کے پرانے جراب بن رہی تھیں۔ میرے شوہر اس ادائے دست کاری کو نہایت قدر سے دیکھ رہے تھے۔ میں دریچی میں اُداس اور اکتائی ہوئی بیٹھی تھی اور للچائی ہوئی نظروں سے ساحل کے دل خوش کن نظارے کو تک رہی تھی کہ کس طرح لوگ آزادانہ پھر رہے ہیں۔

’’کیا آپ پرانے کپڑوں کو سیتے ہوئے اک لطف محسوس کرتی ہیں؟‘‘ میرے شوہر نے ناک صاف کرتے کرتے میزبان خاتون سے دریافت کیا۔

’’جی ہاں، خصوصاًپرانے جراب۔‘‘ خاتون شامی نے فرمایا۔ میرے شوہر نے تحسین کی نظروں سے اسے دیکھا۔ ’’خوب!یہی خوبی تو عورت کو عورت بناتی ہے۔ آج کل کی لڑکیاں پرانے توکیانئے کپڑے سیتے ہوئے ناک بھوں چڑھاتی ہیں۔‘‘ یہ سن کر خاتون شامی شغل رفوکے دوران میں گویا ہوئیں، ’’آج کل کے تو مذاق ہی نرالے ہیں۔‘‘

اسی وقت دریچے کے باہر باغیچے میں گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز آئی جسے سن کر خاتون شامی نے فرمایا، ’’شاید میرے شوہر آگیے ہیں۔ امید ہے آپ دونوں ان سے مل کر خوش ہوں گے مگر انہوں نے کچھ عجیب بچوں کی سی طبیعت پائی ہے۔‘‘ میں نے دل میں کہالیجئے ایک نہ شد دوشد۔ اک خاتون شامی کیا کم تھیں جو ان کے شوہر بھی نازل ہوگیے۔ ان تینوں میں میری زندگی حرام ہوجائے گی۔

دروازہ کھلا اور اک نوجوان اندر داخل ہوا۔ چہرہ سرخ سفید۔ آنکھیں شوخ اور مسکراتی ہوئیں۔ ہونٹوں پر اک استغنا کی مسکراہٹ۔ وہ حیران ہوکر ہمیں دیکھنے لگا۔ آگ کے سامنے میرے شوہر اپنی پرانی بندر ٹوپی پہنے بیٹھے تھے۔ میں اپنا سبز ریشم کا بہترین لباس جس پر موتی ٹکے تھے، زیب تن کیے دریچے میں کھڑی تھی۔ وہ قدرے حیران ہوکر ہمیں دیکھ رہاتھا۔ اتنے میں خاتون شامی نے کہا، ’’یہ میرے شوہر ہیں۔‘‘ میں استعجاب آمیز نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔ ایں؟ یہ خوبصورت نوجوان شخص! خاتون شامی کا شریکِ زندگی؟نیچر کتنی بے رحم ہے!کیسی اندھی ہے!

نوجوان مے مجھے اور میرے شوہر کو نہایت غور سے دیکھا۔ پھر مجھ سے کہنے لگا، ’’خوش آمدید! مجھے دلی خوشی ہوئی۔ مجھے امید ہے کہ آپ لوگ یہاں خوش رہیں گے۔ شامی! کیا کیاتم اب تک اپنے پرانے جراب کے قصے میں الجھی ہوئی ہو؟ مجھے ان سڑے ہوئے پرانے کپڑوں کو دیکھ کر وحشت ہوتی ہے۔ مہمانوں کے لیے کچھ گاؤ بجاؤیاچلوسیر کو چلیں۔ اس گندگی کو اٹھاکر پھینکو۔‘‘

میں ایک حیران مسرت کے ساتھ اس قابلِ قدر نوجوان کو دیکھنے لگی۔ میں سیر کے لیے بالکل تیار تھی مگرعین وقت پر میرے شوہر نے گلا صاف کرکے کہا، ’’جی نہیں ایسے موسم میں سیر کیسی؟ اس سے وجع مفاصل کا اندیشہ ہے۔ پچھلے سال مجھے گھٹنے کا درد ہو گیا تھا۔‘‘ خاتون شامی بولیں، ’’بجافرمایاآپ نے میری بھی ایک ٹانگ سردی سے اکڑی اکڑی رہتی ہے۔‘‘

’’یہی حال میرا ہے۔‘‘ میرے شوہرنے تائیدکی پھربولے، ’’میرا تو جی یہی چاہتا ہے کہ اس سردشام میں لحاف اوڑھ کر آگ کے سامنے کوچ پر لیٹ رہوں۔‘‘ خاتون شامی بولیں، ’’ایسی شام سوائے اس کے اور کس شغل میں بسر ہوسکتی ہے؟‘‘

بے چارہ نوجوان مایوس ہوکر دریچے سے باہر سمندر کو دیکھنے لگا۔ دم کی دم میں مجھے اس سے ہمدردی پیدا ہوگئی۔ کیاوہ بھی اس مرض میں گرفتار نہیں تھا جس میں میں تھی؟ مجھے ڈھارس سی بندھی۔ دل نے کہا کہ ہمارے ہاں روزانہ سیکڑوں ایسی ہی شادیاں ہورہی ہیں، اک میں ہی بدنصیب نہیں ہوں۔

کچھ دیر کے بعد نوجوان نے میری طرف دیکھ کر کہا، ’’آپ کو تووجع مفاصل کا ڈر نہیں؟ آپ چاہیں توآپ کو ساتھ لے جانے پر میں تیارہوں۔‘‘ میں خود یہی چاہتی تھی مگر مصلحتاً چپ تھی۔ میں نے مڑکر اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ نوجوان نے میرا مطلب تاڑ لیا اس لیے اس نے میرے شوہر کی طرف پھر کر پوچھا، ’’ان خاتون کومیں ساحل پر چہل قدمی کے لئے لے جاؤں دادا ابا؟‘‘

’’ہاں۔ اگر وہ چاہتی ہے تو لے جائیے۔‘‘ میرے شوہر نے ذرا چیں بجیں ہوکر کہا۔ یہ سنتے ہی نوجوان نے جھٹ جھک کر میرا کوٹ اٹھایا۔ میں نے دم کی دم میں پہن لیااور چٹ پٹ ہم دونوں دروازے سے نکل کر ساحل کی طرف چل دیے۔

دو ر سمندر میں چاند طلوع ہورہاتھا۔ آبی پرندوں کی دردناک راگنی ہواؤں میں ملی ہوئی تھی۔ بادل پھٹ رہے تھے۔ رات حسین تر ہونے لگی ہے جیسے ساحلوں پر ہوا کرتی ہے۔ دفعتاً سر اٹھا کر نوجوان نے پوچھا، ’’آپ کو ساحل پر چہل قدمی کا شوق ہے؟‘‘

’’بے حد۔‘‘ میں نے کہا۔ پھر کچھ وقفے کے بعد المناک انداز میں بولی، ’’مگر میرے شوہر اسے ناپسند کرتے ہیں۔‘‘

’’شوہر؟‘‘ نوجوان نے پوچھا۔ میں شرم سے زمین میں گڑگئی مگر آخر کہنا ہی پڑا، ’’وہی جو آگ کے پاس بندر ٹوپی پہنے بیٹھے تھے۔‘‘

’’ارے وہ؟‘‘ نوجوان نے حیرانی سے پوشیدہ رکھنے کی غرض سے منہ دوسری طرف پھیر لیا، ’’اچھا۔ توکیوں، وہ ناپسند کیوں کرتے ہیں؟‘‘

’’کیوں کہ۔۔۔ کیوں کہ۔۔۔‘‘ میں رک رک کرکہنے لگی، ’’ان کی کمر میں ہمیشہ درد رہتا ہے۔‘‘

’’اچھا!‘‘ نوجوان بولا، ’’میری بیوی بھی پسند نہیں کرتیں۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’کیوں کہ ان کے گھٹنوں میں ہمیشہ دردرہتاہے۔‘‘ نوجوان نے اداس ہوکر کہا۔

’’اچھا!‘‘ میں نے کہا۔

ہم دونو ں کسی سوچ میں غرق تھے گویا دونوں ایک ہی کشتی میں سوار تھے۔ دفعتاًمیں نے نظر اٹھاکر دیکھا تو سمندر کی موجیں سنہرے چاند کو چوم لینے کی کوشش کررہی تھیں۔ ہر طرف ایک حسن برس رہا تھا۔ بادل دور کے ساحلوں پر چلے گیے تھے اور ننھے ننھے تارے جلوہ گر ہونے لگے تھے۔ زندگی! آج شام زندگی کتنی دل ربا معلوم ہورہی تھی۔ ا ٓج سے پہلے مجھے اپنی زندگی کبھی اتنی دلچسپ معلوم نہ ہوئی تھی۔ آج سے پہلے کبھی اتنی حسین شام نہ آئی تھی۔ ہم دونوں موجوں کے قریب چلے گیے۔ اتنے قریب کہ اگر میرے شوہر یا نوجوان کی اہلیہ دیکھتیں تو وہشت سے منہ پیٹ لیتیں۔ ایک طرف کوخشکی پر ایک چھوٹی کشتی الٹی پڑی تھی۔ وہاں پہنچ کر ہم دونوں اسی کشتی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیے۔ ہم دونوں چپ تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لمحہ بہ لمحہ سمندرکی گرج اور دلوں کی دھڑکن بڑھتی ہی جاتی ہے۔

’’آج میں اک مسرت صحیح محسوس کررہاہوں، آہ!‘‘ نوجوان نے بڑی دیربعد حسرت بھرے لہجے میں کہا۔

’’نہ معلوم کیوں، میں بھی۔ شاید موسم کے سبب۔‘‘ میں نے مرتعش آواز میں کہا۔

’’زندگی میں ایسی شام کبھی نہیں آئی۔‘‘ نوجوان نے کانپتے ہوئے کہا۔

’’میرا بھی یہی خیال ہے، زندگی میں ایسی شام کبھی نہیں آئی۔‘‘ میں نے تائیدکی۔

’’آج چاند غیر معمولی روشن ہے۔‘‘ اس نے کہا۔

’’مجھے خود محسوس ہو رہا ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’آج ہوائیں گارہی ہیں۔‘‘ وہ بولا۔

’’مجھے آواز آرہی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

’’وہ کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’آہ کیا بتاؤں!‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’اس سے پہلے ایسی شام کبھی نہیں آئی۔‘‘ اس نے پھر کہا۔

’’کبھی نہیں۔‘‘ میں نے پھر تائید کی۔

’’واقعی کبھی نہیں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔

ہم دونوں پھر کسی گہرے سوچ میں غرق ہوگیے۔

کچھ دیر بعد نوجوان اچانک بولا، ’’ایسی رومانوی شام میں میری بیوی پرانے جراب سی رہی ہوگی اور رہ رہ اپنی دردناک ٹانگ دبارہی ہوگی۔‘‘ میں نے رونے لہجے میں کہا، ’’اور وہ؟آگ کے سامنے بیٹھے خواب آوردوا کی گولی ڈھونڈرہے ہوں گے اور اپنی کمر سہلا رہے ہوں گے۔‘‘

ہم دونوں کانپ اٹھے؟پھر دفعتاً فضا میں دو باریک چیخیں اٹھیں۔

’’مجھے اس سے بچاؤ۔‘‘ میں چیخ پڑی۔

’’مجھے اس سے بچاؤ وہ چیخ پڑا۔

’’آہ بے رونق زندگی۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔

’’ناشاد زندگی۔‘‘ اس نے کراہ کر کہا۔

’’آہ صوفی۔‘‘

’’آہ رمزی۔‘‘

ہم دونوں ایک دوسرے کو تک رہے تھے۔ تکے جارہے تھے۔ اژدہے کی طرح جو چڑیاکو نگل جانے کی نیت سے گھورتاہے اک دوسرے کو تکے جارہے تھے۔ بڑی دیر بعد اس نے کہا، ’’آہ۔ جس مرضِ لاعلاج میں میں گرفتار ہوں تم بھی اسی میں مبتلا نکلیں! کیا قدرت اندھی ہے؟‘‘

’’بلاشبہ اندھی۔‘‘ میں نے کہامگر اس کے اندھے پن کی سزا خواہ مخواہ ہم کیوں بھگتیں؟ مجھ سے برداشت نہیں ہوسکتا۔‘‘ میری نیت بدلنے لگی۔

رمزی بولے، ’’تو تمہارا مطلب ہے کہ یہ مرض لاعلاج نہیں ہے؟‘‘

’’بالکل نہیں رمزی۔ بالکل نہیں۔‘‘ میں نے نہایت دلیری سے کہا۔ ’’اس کا بھی فیصلہ ہوجانا چاہیے۔‘‘ یکلخت مسرت سے اچھل کر رمزی نے کہا، ’’چلوگھر کی طرف چلو۔‘‘

ہم دونوں اک والہانہ انداز میں رمزی کے گھر کی طرف بھاگے۔ اندھیرا ہوچکا تھا۔ باغیچہ میں درخت رات کی ہواؤں میں جھوم رہے تھے۔ ہم دریچے کے پاس پہنچ کر رک گیے، ’’سنو سنو۔‘‘ رمزی نے میرے کان میں سرگوشی کی، ’’یہ دونوں کیا باتیں کررہے ہیں۔‘‘ میں بھی کان لگاکر سننے لگی۔

’’آپ صبح کے وقت کس سالٹ کا استعمال کرتی ہیں خاتون؟‘‘ میرے شوہر کی آوازآئی۔

’’میں کسی سالٹ کی قائل نہیں۔ میں آج تین سال سے ہلیلہ استعمال کرتی ہوں، علاوہ قبض کے یہ بعض دوسرے عوارض کے لیے بھی بے حد مفید ہے۔‘‘

’’اچھا؟‘‘ بوڑھے بخش نے کہا، ’’میں توآج پانچ سال سے کروشن سالٹ پیتا ہوں لیکن آپ کہتی ہیں تو میں بھی ہلیلہ شروع کر دیتا ہوں۔‘‘

دولمحوں کے لیے دونوں نے آگ کی طرف دیکھا۔ پھر غنودگی سی طاری ہونے لگی۔ پہلے بخش پر پھر خاتون شامی پر۔ باہر ہم دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے۔ یکایک خاتون شامی چونک پڑیں، ’’ایں! کیاآپ سوگیے تھے؟‘‘ بخش صاحب آواز سن کر پھریری سی لے کر اٹھ بیٹھے، ’’نہیں نہیں، کچھ غنودگی سی۔۔۔ (جمائی لے کر) یہ لوگ اب تک نہیں آئے (کچھ دیر خاموشی اور پھر گفتگوکا نیا موضوع ڈھونڈکر) آپ نے اخباروں میں وسمہ مہندی کا اشتہار پڑھاہے خاتون؟سناہے کہ دومنٹ میں روئی کے گالے کے سے بال سیاہ ہوجاتے ہیں۔‘‘

خاتون شامی ناز سے بولیں، ’’مگر ان خضابوں میں اک خرابی ہوتی ہے جسے میں برداشت نہیں کر سکتی۔‘‘

’’وہ کیا؟‘‘ بخش صاحب نے ذرا اشتیاق سے پوچھا۔

’’یہی کہ جلد پر داغ پڑجاتا ہے جو بعد میں بڑا بدنما لگتا ہے‘‘ خاتون شامی نے کہا۔ یہ سن کر بخش صاحب بولے، ’’اگر انگلیوں میں رعشہ ہوتو؟‘‘ اتنا سن کر رمزی نے میری طرف دیکھا، ’’یہ لوگ بڑے مزے میں ہیں، انہیں تکلیف نہیں دینی چاہیے۔‘‘

’’اس کے بعد روحی یہ کچھ ہواجو تم دیکھ رہی ہویعنی ہم دونوں ایک دوسرے کی زندگی میں داخل ہوگیے۔‘‘

’’اور بخش صاحب صوفی؟ وہ کیاہوئے؟‘‘ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔ صوفی ہنس کر بولی، ’’بخش صاحب نے خوشی سے اجازت دے دی بلکہ طلاق کے بعد خود ہی انہوں نے ہمارانکاح پڑھایا اور خاتون شامی سے بڑی ارمانوں سے شادی خود کرلی۔‘‘

اپنی سہیلی کی یہ داستان سن میں ہنستے ہنستے بیتاب ہوگئی۔ صرف اتنا کہہ سکی، ’’شاباش! تم نے تیر بہدف علاج کیا۔ خدا کرے تم سی لڑکیاں ہزاروں پیدا ہو جائیں!‘‘

مأخذ : گلستاں اور بھی ہیں

مصنف:حجاب امتیاز علی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here