ممی خانے میں ایک رات

0
137
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’یہ ایک تجرباتی کہانی ہے۔ ایک ڈاکٹر نے اپنے پوسٹ مارٹم ہائوس کا نام ممی خانہ رکھا ہے۔ اس علاقے میں ہیضے کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ سارا دن ہنستا کھیلتا انسان شام ہوتے ہوتے موت کی گود میں پناہ لے لیتا تھا۔ ممی خانے میں لاشوں کا انبار لگا ہوا ہے اور ان لاشوں کے ساتھ ڈاکٹر اپنا تجربہ کرتا ہے۔‘‘

اُس شب میں بڑی دیر تک اپنی تجربہ گاہ میں مردوں کی چیرپھاڑ میں مصروف رہا۔

رات بہت گرم اور بے حد ویران تھی۔ لیبارٹری کے دریچوں کے باہر اندھیرا جیسے تکان سے نڈھال ہوکر لمبے لمبے سانس لے رہا تھا۔ نہ آسمان پر کہیں چاند تھا نہ زمین پر کسی قسم کی آواز۔ دور دور تک تاریکی اور ویرانی پھیلی ہوئی تھی۔

میں اپنے لاشوں کے کمرے میں جسے میں اپنا ممی خانہ کہا کرتا تھا۔ اپنے اسسٹنٹ کے ساتھ ایک دلچسپ مردے کے پوسٹ مارٹ میں مشغول تھا۔ میں ہمیشہ رات کے سنسان گھنٹے مردوں کی چیر پھاڑ میں بسر کرنے کا عادی ہوں۔

جس سنہ کا میں ذکر کر رہا ہوں اُس زمانے میں شہر میں وبا اِس شدت کی پھیلی تھی کہ الامان الحفیظ! ہر اِک کا دل مٹی میں تھا۔ صبح جو آدمی ہنستا بولتا تندرست اٹھتا، وہ شام تک قبر کی آغوش میں جا لیٹتا۔ صبح سے شام کرنا اور رات سے صبح کرنا جوئے شیر لانا تھا۔

- Advertisement -

مجھے ہمیشہ سے مردوں کی چیرپھاڑ سے دلچسپی رہی ہے، آپ کو معلوم ہے کہ ہیضے کی وبا کے زمانے میں ہیضے کے مردے کس بے دردی سے پھینک دیے جاتے ہیں۔ اس زمانے میں مجھے اپنے تجربات کے لیے لاشیں غیرمعمولی کثرت سے دستیاب ہو رہی تھیں۔

جس یادگار رات کا میں ذکر کر رہا ہوں، اُس رات میں اپنی تجربہ گاہ میں تھا۔ ممی خانہ بڑے بڑے برقی لمپوں سے جگمگا رہا تھا۔ سامنے تیز نشتر اور دوسرے اوزار غول بیابانی کی طرح چمک رہے تھے۔ کمرہ جراثیم کش دواؤں کی لپٹوں سے پُر تھا۔ کمرے کے درمیان عین برقی چراغ کے نیچے میز پر ایک لاش پڑی تھی۔ میں اس کے چیرنے میں مصروف تھا اور جسمِ انسانی کی اِک اِک چیز کو اسی نگاہ دلچسپی سے دیکھ رہا تھا جیسے کوئی اپنے کسی محبوب مصنف کی دلآویز کتاب کا اِک اِک ورق اُلٹ کر نہایت غور سے دیکھ رہا ہو۔

باغیچے کے رُخ اندھے شیشوں کے دریچے ہوا کے لیے کھول دیے گئے تھے۔ رات واقعی بے حد گرم اور نہایت ویران تھی! دریچوں سے باہر ناشپاتی اور املی کے منحوس اندھیرے درختوں پر شاید گوشت کی بو سے بیتاب ہوکر گدھ اور الو آبیٹھے تھے۔ اور تاریکی میں بار بار اپنے پر پھڑپھڑا رہے تھے۔ ان کی بے قراری اور بے تابی میری مصروفیت میں بار بار مخل ہو کر مجھے پریشان کر رہی تھی۔

میں نے بیزار ہوکر اپنے اسسٹنٹ سے کہا۔ ’’منیر! دریچہ لگادو۔ اس منحوس مردارخور پرندوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔‘‘

ابھی میرا جملہ ختم بھی نہ ہوا تھا کہ ایک بڑا سا الو اپنے بوجھل پروں سے جیسے تاریکی میں تیرتا ہوا کمرے میں گھس آیا اور میرے سر کے اوپر دائرے کی صورت میں گھومنے لگا۔ میں لاش پر جھکا ہوا تھا۔ میں نے پریشان ہوکر سراوپر کو اٹھایا اور نشتر ہاتھ میں رکھ کر ایک وحشیانہ انداز میں ہاتھ ہلانے لگا۔ لیکن الو میرے غصے اور پریشانی سے بےنیاز اپنے طواف میں مصروف رہا۔ طیش کی اک لہر سے میری کنپٹیاں گرم ہو گئیں۔ میں نے کہا ’’نحس چڑیا! یہ اس طرح نہیں جائےگی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے میں نے ایک تیز چاقو اٹھاکر اس کی طرف ہوا میں پھینکا۔ اتفاقاً وہ سیدھا اس کی آنکھ میں جالگا اور الوّ ایک دلدوز چیخ کے ساتھ پھڑ پھڑاکر دریچے سے باہر نکل گیا اور رات کی اتھاہ تاریکی میں جذب ہو گیا۔

میں صبح تک اپنے دلچسپ کام میں نہایت اطمینان سے مصروف رہا۔ کوئی چھ بجے کے قریب ممی خانے سے تھکا ماندہ باہر نکلا اور اپنے کمرے میں گیا۔ چائے کی ایک پیالی پی اور بستر پر پڑتے ہی غافل ہو گیا۔

میں دن بھر سوتا رہا۔

میری روح ممی خانوں کا گشت لگا رہی تھی۔ ڈراؤنے اور ہیبت ناک خواب دیکھے۔ لاشوں کو چلتے پھرتے، کبھی کودتے پھاندتے دیکھا۔ کبھی کفن میں لپٹے ہوئے مجسموں کو مصروف رقص دیکھا۔ لاشوں اور مردہ جسموں سے میری پرانی دوستی تھی۔ اس لیے میں نے خواب میں بھی اُن کا خیرمقدم کیا۔ حریص نظروں سے اُن کی رگ رگ کو تکتا رہا کہ موقع ملے تو اس جگہ اپنا تیز چاقو بھونک دوں۔

شام کے وقت جب بیداری کی سرحد کی مدھم آوازیں خواب کی دنیا میں رفتہ رفتہ نفوذ کر رہی تھیں تو اچانک ٹیلیفون کی گھنٹی اِس زور سے بجی کے میں نیند میں چونک پڑا۔ مست نیند اور شرکیں غنودگی یک لخت اُتر گئی۔ ڈراؤنے خواب میرا مضحکہ اُڑاتے ہوئے غائب ہو گئے۔ اور میں لاشوں کی دنیا سے جیتے جاگتے انسانوں کی دنیا میں پہنچ گیا۔

مریضوں کے ٹیلیفون ڈاکٹروں کو دم نہیں لینے دیتے۔ میں ان کا عادی تھا۔ اِس لیے اطمینان سے سگریٹ کیس کھول کر سگریٹ جلایا، ڈریسنگ گون پہنا اورآہستہ آہستہ ٹیلی فون کی ختم نہ ہونے والی گھنٹی تک پہنچا۔

’’ڈاکٹر زہری گھر پر ہیں؟‘‘ کوئی صاحب عجیب گول مول سی آواز میں پوچھ رہے تھے۔ یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے منہ میں ڈبل روٹی ٹھونس رکھی ہو۔

’’جی۔ میں ڈاکٹر زہری بول رہا ہوں۔‘‘

’’نمبر ۷، اندھی باولی پر آج رات گیارہ بجے کے قریب ایک مریض سے ملیے۔ مریض آپ کا بے چینی سے منتظر ہوگا۔ پتہ اپنی یادداشت کی کتاب میں لکھ لیجیے۔ نمبر۷، اندھی باولی۔‘‘

میں کچھ سوچ کر بولا۔ ’’مگر ذرا ٹھہریے صاحب۔ آج تو میرا اِک اور۔۔۔‘‘

پھر آواز آئی۔ ’’آپ کو ملنا ہوگا۔ مریض آپ کا منتظر ہوگا۔ نمبر۷، اندھی باولی۔‘‘

ٹیلی فون بند ہوگیا اور لامحالہ مجھے اپنی یادداشت میں رات کا اپوائنٹ منٹ لکھنا پڑا۔

گرمی کے دن تھے۔ سات تو بج ہی رہے تھے۔ رات ہونے میں کیا دیر تھی؟ جلد جلد میں نے غسل کیا۔ کپڑے بدلے۔ صبح سے بھوکا تھا۔ اِس لیے ایک طویل اور مفصل کھانا کھایا اور ایک مزے دار سگریٹ ہونٹوں میں اٹکاکر اپنا بیگ اٹھایا اور ایک کرائے کی چھوٹی سی گاڑی میں سوار ہو گیا۔ اور نمبر ۷، اندھی باولی کی طرف روانہ ہو گیا۔

گاڑیبان حیران ہوکر مجھے دیکھنے لگا۔ ’’اندھی باولی! مگر میرا تو خیال ہے حضور۔ وہاں کوئی بھی نہیں ہوتا۔ بارہ سال سے کرائے کی گاڑی چلاتا ہوں۔ شہر کے چپے چپے میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ یہ سڑک شہر سے بہت دور ندی کے کنارے جو قبرستان ہے اُس سے لگی ہوئی ہے۔ پہلے وہاں اینٹوں کا اِک آوا تھا۔ مگر میرا خیال ہے اب وہ بھی اُٹھ چکا ہے۔‘‘

میں ہمیشہ ملازموں اور کمینہ لوگوں سے ڈانٹ کر بات کرنے کا عادی ہوں۔ طبعاً سخت آدمی ہوں۔ چنانچہ میں نے کہا۔ ’’احمق! تمہیں اس سے کیا؟ چلو ہم جہاں کہتے ہیں۔‘‘

’’بہت اچھا حضور۔ آپ کی مرضی۔‘‘

’’باتیں مت کرو۔ اپنا کام کرو۔‘‘

گاڑی جب تک شہر کی سڑکوں پر سے گزرتی رہی۔ کبھی کبھی لوگوں کا ایک چپ چاپ ہجوم نظر آتا رہا جو جنازہ لیے گزر رہے تھے۔ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، اس زمانے میں شہر میں بےپناہ ہیضہ پھوٹ پڑا تھا۔ اس لیے شہر کی گلیاں اور بازار وقت سے بہت پہلے سنسان ہو جاتے تھے۔ خرید و فروخت پر پابندیاں عائد ہو چکی تھیں۔ سڑکوں پر یا تو وہ لوگ رات کے وقت نظر آتے تھے جو اپنے گرفتارِ مرض عزیز کے لیے دوا لینے کے لیے بھاگ رہے ہوتے یا جو اپنے کسی رشتہ دار کی لاش لیے ہوئے جارہے ہوتے، ورنہ ہر طرف ایک دہشت ناک سناٹا طاری رہتا تھا۔

رفتہ رفتہ گاڑی شہر سے باہر نکل گئی اور ایک اجاڑ سڑک پر چلنے لگی۔ رات گہری اور اندھیری ہوتی جاتی تھی، ہر طرف اِک یاس انگیز تنہائی بھائیں بھائیں کر رہی تھی۔ دور سے کتوں کے بھونکنے کی نحیف آوازیں آ رہی تھیں۔ سڑک کی خاموشی میں گھوڑے کے ٹاپوں کی آوازیں ایسی معلوم ہوتی تھی جیسے کسی جن کی بارات میں ڈھول پٹ رہا ہو۔ او معبود! وہ رات!

میں نے اپنی گھڑی دیکھی۔ گیارہ بجنے میں چند ہی منٹ باقی تھے۔ میں نے گاڑی بان سے تیزی سے چلنے کو کہا۔

تھوڑی دیر بعد جب ہماری گاڑی ایک شکستہ پُل پر سے نیچے اُتر آئی تو مجھے بڑا تعجب ہوا۔

’’کیا یہی اندھی باولی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’جی‘‘ گاڑیبان نے سرد مہری سے جواب دیا۔ وہ مجھ سے چڑھا ہوا تھا۔

’’یہاں تو زندگی کے آثار ہی نہیں۔‘‘ میں نے گنگنایا۔

’’میں نے پہلے ہی عرض کر دیا تھا۔‘‘ اس نے سرد مہری سے کہا۔

مجھے غصہ آ گیا۔ اس لیے میں نے رعب دار آواز میں کہا۔

’’گستاخ! تم یہیں ٹھہرو۔ میں اُتر کر وہ مکان تلاش کرتا ہوں جہاں میرا مریض میرا انتظار کر رہا ہے۔‘‘

یہ کہہ کر میں گاڑی سے کود پڑا۔ اور ہاتھ میں بیگ لے کر سڑک کے کنارے کنارے ۷نمبر کا م کان ڈھونڈتا ہوا آگے بڑھا۔ تاریکی میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر گھورتا ہوا بہت دور چلا گیا۔ کچھ دیر بعد مڑکر دیکھا تو اب گاڑی کی روشنیاں بھی نظر نہ آتی تھیں۔ چاروں طرف دہشت ناک تاریکی کا ایک سیلاب لہریں مار رہا تھا۔ ناگہاں دل میں خیال آیا کہ مڑ کر بھاگ جاؤں کہ اچانک کسی انسان کے درد و کرب سے کراہنے کی مدھم آواز آئی۔ میں رُک گیا۔ یقین ہوگیا کہ یہاں کوئی بدنصیب آدمی موجود ہے جومیری مدد کا طالب ہے۔

دفعتاً دور سے ایک روشنی جھلملاتی نظر آئی۔ میں تیزگامی سے اس کی طرف بڑھا۔ ایک نشیب میں ایک اجڑے مکان کے دروازے پر ایک دِیا ٹمٹما رہا تھا۔ میں قریب پہنچا تو دیکھا کہ بوسیدہ لکڑی کے دروازے میں ایک سوسال کی سفید رنگ بڑھیا ہاتھ میں مٹی کا دِیا لیے چپ چاپ کھڑی ہے۔ منہ پر جھریاں، دانت غائب اور تھوڑی باہر کو نکلی ہوئی۔ میرے دل میں ایک عجیب قسم کا اضطرار گہرا اترنے لگا۔ مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے وہ بوسیدہ مکان کوئی شکستہ اور پرانی قبر ہے جس میں یہ بوڑھی عورت مردے کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ ٹمٹماتے ہوئے دیے کے شعلے کو ٹکٹکی باندھ کر گھور رہی تھی۔

یک لخت بڑھیا نے شعلے پر سے نگاہ اٹھائی اور پہلی دفعہ مجھے دیکھا۔ اس کے چہرے پر شدت، غصہ اور نفرت کی علامتیں نمودار ہو گئیں۔ زندگی میں میں نے کبھی خوف کا نام بھی نہ سنا تھا۔ سائنس اور طب میں جو انسان پھنس کر رہ جائے وہ کبھی خوف اور ڈر جیسے فضول جذبوں سے متعارف نہیں ہوتا۔ مگر اُس رات، اُس بڑھیا کی غضب ناک نگاہ نے مجھے تھرا دیا۔ اس کی نظروں سے نظریں بچانے کے لیے میں نے اپنی نگاہیں شعلے کی طرف کیں، غور سے دیکھاتو معلوم ہوا کہ ایک انسانی کھوپڑی میں دیا ٹمٹما رہا ہے۔

یہ سب کچھ مجھے بہت عجیب سالگا، اس لیے میں بھاگنے کا اِرادہ کرنے لگا، بلکہ قریب تھا کہ بھاگ جاؤں۔

مگر اُسی پل بڑھیا نے کہا۔ ’’آپ کا انتظار تھا۔ ڈاکٹر آپ ہی ہیں نا؟‘‘

بڑھیا کے حلق میں سے آواز نکلتی دیکھ کر میں سنبھل گیا۔ ذرا سے توقف کے بعد تردد سے اس کا بےرونق چہرہ تکتے ہوئے میں نے قدم اندر رکھا۔ گھر کیا تھا، اِک ویرانہ تھا، کہیں دیواریں گر رہی تھیں تو کہیں چھتیں غائب تھیں۔ چوکھٹ پر گھاس اُگ آئی تھی۔

میں نے کہا، ’’مریض کہاں ہے؟‘‘

بڑھیا نے اپنے پیچھے چلنے کا اشارہ کیا۔

اور عجیب وہ منظر تھا! زعفرانی رنگ کا لمبا کرتا پہنے، سفید بال گھٹنوں سے نیچے لٹکائے، دیا جو انسانی کھوپڑی میں جل رہاتھا، ہاتھ میں اٹھائے بڑھیا آگے آگے چلی جارہی تھی اور میں اُس کے پیچھے پیچھے تھا۔ کہیں بغیر چھت کے کمرے کے فرش پر گھاس اُگی ہوئی تھی جو پاؤں میں الجھنے لگتی تھی، کہیں بوسیدہ کھڑکی کے دروازے کہنیوں سے ٹکرا رہے تھے۔ اور رات بےحد گرم اور نہایت ویران تھی۔

آخر وہ حجرہ آیا جہاں مجھے جانا تھا۔ یہاں پہنچ کر بڑھیا دروازے پر رُک گئی اور مجھے اشارہ کیا کہ ’’اندر جاؤ‘‘ اور میں دل کڑا کرکے اندر چلا گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شکستہ چارپائی پر ایک سو سال کا بوڑھا پڑا کراہ رہا ہے اور اس کی دائیں آنکھ پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ اُسی کے کراہنے کی آواز مجھے باہر سڑک پر آ رہی تھی۔ اس کی دوسری آنکھ لہو کی طرح سرخ ہو رہی تھی اور غول بیابانی کی طرح چمک رہی تھی۔ وہ مجھے ٹکٹکی باندھے ایک آنکھ سے گھور رہا تھا۔

زندگی میں پہلی دفعہ میں سہم گیا۔

’’یہی مریض ہے؟‘‘ میں نے کسی قدر لرزتے ہوئے پوچھا۔

’’ہاں‘‘ بڑھیا نے کسی قدر چیخ کر جواب دیا۔

’’ان کی آنکھ پر تو کوئی زخم ہے۔ کیا تکلیف ہے؟‘‘ یہ کہہ کر میں مریض پر جھکا۔

دفعتاً بڑھیا نے دیا نیچے پٹک دیا۔ اپنا خوفناک لال کرتا سمیٹ کر دونوں ہاتھ اوپر اٹھا لیے اور خونخوار درندے کی طرح مجھ پر جھپٹی اور میرا گلا دبانا شروع کیا۔ غصہ کی شدت میں الفاظ مرتعش ہوکر اس کے گلے سے نکل رہے تھے۔ ’’سفاک بدمعاش ڈاکٹر! کیا تجھے یاد نہیں کہ یہ زخم کس طرح یہاں لگا تھا؟ ایک رات پہلے کی بات بھول گیا؟ تو نے اپنے کمرے میں چاقو اسی لیے تیز کر رکھے ہیں کہ اس سے مظلوموں کی آنکھیں پھوڑا کرے؟ تو نے سمجھا کہ تیرا قصور معاف کر دیا جائےگا؟ لے اب اپنے کئے کی سزا پا۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک تیز چاقو اٹھا لیا اور میری آنکھ کی طرف جھپٹی جیسے وہ اسے پھوڑ ڈالےگی۔

میں بے ہوش ہوکر گر پڑا۔

دوسرے دن پولیس نے مجھے اندھی باولی کے کھنڈروں میں سے اٹھایا۔

بعض کہتے ہیں مجھے کوئی ذہنی عارضہ ہو گیا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ لاشوں کی دن رات کی صحبت نے میرا دماغ خراب کر دیا ہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ میری آپ بیتی ہے اور اس میں ایک لفظ کی کمی بیشی میری طرف سے نہیں ہوئی۔

مأخذ : ممی خانہ

مصنف:حجاب امتیاز علی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here