کہانی کی کہانی:’’بچپن سے ہی لڑکیوں پر بے جا بندشوں سے پیدا ہونے والے نتایج کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ دادی اپنی پوتی ننھی کو اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ بھی کھیلنے سے منع کر دیتی ہیں اور وقتاً فوقتاً مخلتف قسم کی تنبیہیں اور دھمکیاں دیتی رہتی ہیں۔ نتیجہ کے طور پر ننھی کا میلان اپنے چچا زاد بھائی کی طرف بڑھتا رہتا ہے اور جب وہ شباب کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو ایک نامعلوم جذبہ کے تحت اپنے چچا زاد بھائی کے کمرے میں پہنچ جاتی ہے۔ صلو بھیا سو رہے ہوتے ہیں۔ بکھرے ہوئے بال اور بھیگی ہوئی مسیں دیکھ کر اور دادی کے زیادتیاں یاد کرکے اس کا دل جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے اور وہ اپنا سر صلو بھیا کے سینے پر رکھ دیتی ہے۔ اسی وقت دادی ننھی کو تلاش کرتی ہوئی آ جاتی ہیں اور ان کے پوپلے منہ سے ہائے اللہ کے سوا کچھ نہیں نکل پاتا۔‘‘
بیچاری دادی! نہ کسی کے لینے میں نہ کسی کے دینے میں۔ بس اپنے کوٹھری نما کمرے میں تخت پر بیٹھی موٹے موٹے دانوں والی سیاہ تسبیح کھٹکھٹایا کرتیں۔ تسبیح کھٹکھٹانا تو اب جیسے ان کی عادت ہوگئی تھی۔ کسی سے بات کر رہی ہوں، کسی کو نصیحت فرمارہی ہوں، شادی بیاہ پر اظہار خیال ہو یا بیماری غمی کی خبریں سن رہی ہوں، لیکن ان کی تسبیح کی گردش جاری رہے گی اور اسی دوران میں برابر کھانس کر پورے کمرے میں بلغم کے سفید سفید بتاشے بھی بکھیرتی رہتیں۔ دادی کو دنیا میں دو چیزوں سے بڑی محبت تھی، تسبیح سے اور ننھی سے۔ ننھی ان کی یتیم پوتی تھی۔ ویسے تو دوسرے بیٹے سے بھی تین اولادیں تھیں۔ لیکن چونکہ وہ اپنے ماں باپ کے سائے میں پروان چڑھ رہے تھے۔ اس لیے وہ ان کی محبت کے اس قدر مستحق بھی نہ تھے۔ لیکن ادھر کچھ دنوں سے دادی کو دو فکریں شدت سے لاحق تھیں۔ ایک عاقبت اور دوسری ننھی۔
وہ وظیفہ پڑھتے پڑھتے اپنی دھنسی ہوئی سفید سفید آنکھیں ادھر ادھر گھما گھما کر ننھی کو دیکھنا چاہتیں اور جب وہ نظر نہ آتی تو اپنا پوپلا منہ پھاڑ کر چلا اٹھتیں، ’’ہائے اللہ! جانے کہاں مرگئی۔‘‘ ابھی یہ نعرہ ان کے منہ سے نکل کر گونجتا ہی ہوتا کہ ایک دس گیارہ سال کی تندرست چھوکری گھر کے کسی نہ کسی حصے سے نکل پڑتی۔ چھوٹی سی بل کھاتی چوٹی، بالکل چوہیا کی دم، گلے میں پھانسی کے پھندے کی طرح پڑا ہوا دوپٹہ، سوکھی ہوئی سلیپریں گھسٹتی جھپ سے ان کے تخت پر آ بیٹھتی۔
’’اری ہرجائی!‘‘ وہ تسبیح کی کھٹ کھٹ کے ساتھ دانتوں سے محروم مسوڑھوں کو بھنچ کر کہتیں اور ننھی سہم کر سوکھا سا منہ بنا لیتی۔
’’اتنی سیانی ہوگئی ہے لیکن سمجھ نہ آئی۔‘‘ وہ اس کے بڑھتے ہوئے ڈیل پر اپنی جالے سے دھندلائی آنکھیں گاڑ دیتیں اور ننھی غریب سر جھکا کر جسم چرانے لگتی۔
’’یہ دوپٹہ اوڑھا ہے چڑیل نے۔‘‘ ان کی کمزور نظریں اس کے پورے جسم پر اوپر نیچے پھسلنے لگتیں اور وہ جلدی سےاپنی بھاری بھاری پلکیں جھکا کر دوپٹہ احتیاط سے اوڑھ لیتی۔ بالکل آمنہ آپا اور بڑی اماں کی طرح۔ لیکن فوراً ہی اسے دادی کے سرے سے دوپٹہ نہ اوڑھنے اور دوسروں کو ہدایت کرنے پر غصہ آنے لگتا۔
’’چل بیٹھ یہاں، خبردار جو اٹھی، ٹانگ توڑدوں گی مردار کی۔‘‘ وہ دھمکا کر مزے سے اپنی تسبیح سے شغل فرمانے لگتیں اور ننھی زیر لب بدبداتی تخت کے ایک کونے میں سمٹ کر دادی کو جلتی ہوئی نظروں سے گھورا کرتی۔ اسے رہ رہ کرکسی کھیل کے ادھورے رہ جانے یا کسی بات کو پورا نہ سن سکنے کا خیال ستانے لگتا اور وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگنے لگتی۔ اللہ کرے دادی کو نیند آجائے تو وہ جھٹ آمنہ آپا کے پاس بھاگ جائے۔ لیکن توبہ! کہیں دادی کو دن میں نیند آسکتی تھی۔ وہ جوں کی توں پپوٹے پیٹ پیٹ کر وظیفہ پڑھنے کی مشقت میں رال کی پھواریں اڑایا کرتیں، اور ننھی کا جی لوٹ لوٹ کر رہ جاتا۔ لیکن دادی اسے پاس بٹھا کر اطمینان سےاپنی تسبیح اس طرح کھٹکھٹایا کرتیں جیسے کوئی غصے میں دانت کٹکٹاتا ہو۔
گرمیوں کی چاندنی رات، سب لوگ کھانے پینے سے فارغ ہو کر لیٹے بیٹھے تھے اور دادی عشا کی نماز ادا کر رہی تھیں۔ ننھی لیٹے لیٹے اکتا کر اٹھی اور آمنہ آپا کے پاس جا پہنچی۔ آمنہ آپا تھیں بڑی کھلنڈری، عمر بھی کوئی سولہ سترہ سال کی لیکن انہیں لڑکیوں کی طرح اچھل پھاند کے کھیلوں میں خاص مزا آتا۔ ہنسوڑ ایسی کہ بے بات کی بات پر کھلکھلا رہی ہیں۔ شاید یہی خوبیاں تھیں کہ ان سے بچے بڑے خوش رہتے۔
’’آمنہ آپا! بھئی دل گھبرا رہا ہے ہمارا۔‘‘ ننھی نے ٹھنک کر آمنہ آپا کا ہاتھ کھینچا۔
’’آؤ تو کچھ کھیلیں۔‘‘ آمنہ آپا تو جیسے تیار بیٹھی تھیں۔ جھٹ شلوار کے پائنچے چڑھا کر کھڑی ہو گئیں۔
’’ہاں ہاں چھپی چھپول ہوگی۔‘‘ ننھی کھل اٹھی۔ ’’صلو بھیا اور ریاضو سے بھی کہو آمنہ آپا۔‘‘ صلو بھیا اور ریاضو کو کھیل سے کب انکار تھا۔ چاروں گھیرا بنا کر کھڑے ہوئے اور صلو بھیا نے اکڑ بکڑ شروع کی۔
’’اکڑ بکڑ بمبے بو۔۔۔‘‘ انہوں نے ہر ایک کے سینے پر انگلی سے ٹھونگیں دے دے کر کہنا شروع کیا۔ لیکن آج جیسے ہی ان کی انگلی ننھی کے سینے کی طرف بڑھی، ویسے ہی ننھی کو دادی کی گہری نظریں اپنے سینے پر چبھتی ہوئی معلوم ہونے لگیں اور اس نے بالکل غیر ارادی طور پر اپنے گلے میں پڑا ہوا دوپٹہ سینے پر کھینچ لیا۔ صلو بھیا کی انگلی اٹھی کی اٹھی رہ گئی اور وہ اس چھوٹی سی لڑکی کی اتنی بڑی سی حرکت پر بھونچکے رہ گئے۔ کھیل شروع ہوا۔ ننھی چور بنی۔ ریاضو، آمنہ آپا اور صلو بھیا نے آنگن میں بچھے ہوئے پلنگوں کو اپنے اور ننھی کے درمیان حد فاصل رکھا۔ ننھی پکڑنے دوڑی اور مچ گئی دھما چوکڑی۔ کسی نے جھکائی دی، کسی نے چکر۔ اےلو! وہ تگڈم دوڑا اور دھپک کے قریب پہنچا۔ ننھی انہیں پکڑنےکے لیے پلٹی ہی تھی کہ کسی نے اس کی چوٹی پکڑ کر گھسیٹا۔ اس نے جو مڑ کر چوٹی پکڑنے والے کو دیکھا تو دادی سر پر سوارتھیں۔ غریب کے چھکے چھوٹ گئے۔
’’ہائے اللہ! اس کمینی ہڑدنگی کا کیا کروں۔‘‘ دادی نے تڑ سے اس کے منہ پر چانٹا رسید کیا اور وہ چکرا کر زمین پر بیٹھ گئی۔ آنکھوں کے سامنے جیسے چراغ کی لو سی ابھری اور پھر اندھیرا چھا گیا۔
’’ارےکیا بات ہے دادی؟‘‘ صلو بھیا نےدوڑ کر دادی کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’جا تو رہنے دے۔ آگیا دادی کا سگا۔‘‘ دادی کی جالے سے منڈھی ہوئی آنکھیں چاندنی میں بڑی بھیانک معلوم ہو رہی تھیں۔
’’ہٹ آؤ صلو، ننھی انہی کی سب کوئی ہے۔ ہماری تو کچھ نہیں لگتی۔‘‘ بڑی اماں کو دادی سے لڑنے کا موقع ہاتھ آگیا۔ وہ تو ایسے ہی دادی سے خار کھاتی تھیں۔
’’واہ آخر یہ بھی کوئی بات ہے کہ اٹھیں اور دھوں دھوں پیٹ دیا۔‘‘ صلو بھیا کو واقعی حیرت تھی کہ دادی کو اچانک یہ کیا سوجھی اور ادھر ننھی کا مغموم دل اس بر وقت باز پرس سے کھل اٹھا۔ کوئی تو ہے آڑے وقت کا ساتھی۔ لیکن دادی یہ سن کر ایک دم بپھر گئیں، ’’تو مجھ سے پوچھنے والا کون ہوتا ہے۔ دیکھ آنے تو دے اپنے باپ کو فیصلہ کروں گی، ہائے خدا کی شان ہے کہ مجھے ننھی پر بھی اختیار نہ رہے۔ اتنی بڑی لڑکی اور یوں اچھل پھاند کرے۔ اس پر اگر میں منع کروں تو اپنی ماں کا لاڈلا چھاتی پر چڑھنے دوڑے۔ سب مل کرمیری لونڈیا کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔‘‘
بڑی اماں تو بھری بیٹھی تھیں۔ ننھی کو خراب کرنے کاسنگین الزام جو سنا تو بھبھک گئیں۔ بات میں بات بڑھتی گئی۔ یہاں تک دادی نے ہار کر ننھی کی کندی بنائی تو بنائی خود کو بھی پیٹ لیا۔ رات گئے تک ننھی اپنے کھٹولے پر اوندھی پڑی سسکیاں بھر بھر کر یہی سوچتی رہی کہ آخر کو دادی کو خاص کر اسی سے جلن کیوں ہوگئی ہے۔ پہلے بھی تو آخر وہ یہی ننھی تھی جواک ذرا دیر بھی چپ بیٹھتی تو دادی دھکیل کر کھیلنے جانے کو کہا کرتی تھیں۔ اور اب یہ عالم کہ جہاں دادی کے کولھے سے کولھا بھڑا کر نہ بیٹھی، ان کے کلیجے میں ہوکیں اٹھنے لگیں۔ جانے دادی کو اب اس سے نفرت کیوں ہوگئی ہے۔
صبح اٹھ کر ننھی نے جو دیکھا تو دادی کا منہ بری طرح پھولا ہوا تھا۔ سامنے ناشتہ آیا تو دادی نے منہ پھیر لیا۔ بیٹے نے سلام کیا تو بلائیں لینے کے بجائے پیٹھ موڑ لی اور ننھی کی طرف تو آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی نہیں۔ بس اپنا تخت اور تسبیح۔۔۔ باقی سب سے گویا انہیں نفرت ہوگئی تھی۔ لیکن ننھی بھی دادی کی خوشنودی حاصل کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ ایک منٹ کے لیے بھی سامنے سے نہ ٹلی۔ آخر دوپہر ڈھلے ان کا غصہ بھی ڈھلا۔ اشارے سے ننھی کو اپنے پاس بلایا۔ ننھی خوش خوش ان کے قریب جا بیٹھی۔
’’دیکھ ننھی اگر تو میرا کہنا نہ مانے گی تو میں تیرا منہ نہ دیکھوں گی۔‘‘
’’دادی میں تو تمہاری ہر بات مانتی ہوں۔‘‘
’’تو صلو کے پاس نہ بیٹھا اٹھا کر اور نہ اس سے بات ہی کیا کر۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ ننھی اس نئے حکم سے چونکی۔ کیونکہ گھر بھر میں صلو بھیا ہی تو اس کے سب سے زیادہ طرف دار تھے۔
’’سیانی لڑکیاں، لڑکوں سےالگ رہتی ہیں۔‘‘ دادی نے گویا ایک بڑا راز کہہ ڈالا۔
’’تو میں سیانی ہو گئی ہوں؟‘‘ ننھی واقعی اس وقت بہت سنجیدگی سے اپنے متعلق فیصلہ سننا چاہتی تھی۔
’’ہشت۔‘‘ دادی اس وقت اعتراف کرتے ہوئے ڈر رہی تھیں کہ کہیں یہ بیوقوف لڑکی یہ بھی نہ پوچھ بیٹھے کہ سیانے ہونے کا مطلب کیا ہے؟ انہیں فوراً ہی اپنا بچپن یاد آگیا۔ جب وہ اپنی ماں کے اشاروں سے سب کچھ سمجھ جایا کرتی تھیں، اور تو اورسات برس کی عمر سے اتنے ڈھنگ سے دوپٹہ اوڑھتی تھیں کہ گھر میں آنے جانے والیاں شادی کے پیام لانے کی فکر کرنے لگی تھیں اور ایک یہ ہے ننھی۔۔۔ دادی کی خاموشی نے ننھی کے دماغ میں ایک ایسا سوال اٹھا دیا جو اس کے خیال سے دادی کو چت کر دینے کے لیے کافی تھا۔
’’تو پھر آمنہ آپا۔ صلو بھیا کے ساتھ کیوں کھیلتی ہیں؟ انہیں کیوں نہیں روکتیں۔ بس میرے ہی پیچھے پڑی رہتی ہو۔‘‘ مارے جوش کے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
’’چڑیل!‘‘ وہ بڑے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں، ’’وہ کھیلیں۔ وہ ان کی سگی بہن ہیں۔‘‘
’’اور میں؟‘‘
’’تو چچا زاد بہن ہے۔‘‘
’’تب تو ہم دونوں بہنیں ہی ہیں ان کی۔‘‘ ننھی کو چچازاد بہن اور سگی بہن میں کچھ زیادہ فرق نہ معلوم ہوا۔
’’اری! وکیل کی بچی، تجھے دلیلیں چھانٹنا بہت آتی ہیں۔ بس میں نے کہہ دیا۔۔۔ آمنہ کا جو دل چاہے کرے مگر تو نہ کر، اسے کوئی کچھ نہ کہے گا۔ لیکن تجھے سب تھوکیں گے۔‘‘
’’اچھی دادی! بھلا کیوں تھوکیں گے مجھے؟‘‘ ننھی کی رگ تجسس پھڑکی۔
’’چل مردار، چڑیل۔‘‘ دادی نےاس کے تابڑ توڑ سوالات سے بھنا کر ایک دوہتڑ رسید کر دیا اور ننھی نے بجائے رو دینے کے ان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔
’’اچھا! اب میں صلو بھیا کے پاس نہ بیٹھوں گی مگر اب تم مجھ سے ناراض نہ ہونا۔‘‘
اس وقت تو صلو بھیا سے نہ ملنے کا رنج سیانے ہونے کی خوشی کے باعث ماند پر گیا۔ ایک عجیب سی خوشی کہ وہ سیانی ہو رہی ہے۔۔۔ لیکن اس کے دماغ پر ایک نامعلوم سا بوجھ بھی تھا جس کے نیچے سینکڑوں سوالات سڑے پھل کے مکروہ کیڑوں کی کلبلا رہے تھے۔ دو تین روز تک تو سیانے ہونے کا نشہ اسے سب کچھ بھلائے رہا لیکن پھر تنہائی کی ترشی نے اس نشے کو ہلکا کردیا۔ جب صلو بھیا اس کے سامنے سے آتے جاتے تو اس کا دل مچل جاتا کہ وہ ان سے بولے بات کرے اور ان سے یہ بھی کہہ دے کہ ’’اچھے بھیا! دادی کہتی ہیں کہ تم سیانی ہو رہی ہو، اس لیے صلو سے نہ بولا کرو۔ ورنہ میرا دل تو بہت چاہتا ہے کہ تم سے بولوں۔‘‘ لیکن صلو بھیا بھی کچھ ناراض سے تھے یعنی گردن اکڑائے، بغیر اس کی طرف دیکھے شان سے گزر جاتے۔ جیسے اب انہیں اس کی کوئی پرواہ نہ رہی تھی۔ یہ دیکھ کر ننھی کا دل بہت جلتا لیکن وعدہ!
ایک دن بڑے سویرے ہی ننھی کی آنکھ کھل گئی۔۔۔ دادی کمرے کے اندر اپنے تخت پرنماز ادا کر رہی تھیں۔ باقی سب لمبی تانے تھے۔ اچانک اس کے دل میں آئی کہ لاؤ اس وقت صلو بھیا کو جگا کر وہ سب کہہ دے جس کو سن کر وہ اسے بے قصور سمجھیں۔ وہ ادھر ادھر دیکھ کر ننگے پاؤں اٹھ کر ان کے پلنگ تک گئی اور اس نے ان کے چہرے پر سے چادر الٹ دی۔ اتنی چوری سے انہیں دیکھا تو وہ اسے بہت ہی بھلے معلوم ہوئے، اجڑے اجڑے بال، اوپر کےہونٹ پر ریشمی روئیں اور ان پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں۔۔۔ اسے پسینے سے بڑی گھبراہٹ ہوتی تھی۔ خواہ اس کے نکلے یا کسی دوسرے کے۔ اس نے جھٹ اپنے میلے دوپٹے سے ان کا پسینہ خشک کرنا شروع کردیا۔۔۔ وہ جاگ پڑے اور ننھی کو اتنے سویرے اپنے پاس دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہوں نےگھبرا کر ادھر ادھر دیکھا اور اچانک اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔ پھر چادر سے اپنا منہ چھپا کر کروٹ بدل لی۔
ننھی نے مڑکر کمرے کی طرف دیکھا۔ دادی سلام پھیر رہی تھیں۔ اس کی سمجھ میں فوراً آگیا کہ صلو بھیا نےمنھ کیوں چھپالیا۔۔۔ وہ جھپٹ کر اپنے کھٹولے پر لیٹ گئی۔ دل اس چوری کی حرکت پر دھڑ دھڑ کر رہاتھا۔۔۔ توبہ! یہ وہی صلو بھیا ہی تو تھے جن کے ساتھ گھنٹوں تنہا کمرے میں بیٹھ کر کتابوں کی کہانیاں سنی تھیں، جن کے کندھوں پر چڑھ کر بازاروں میں گھومی تھی لیکن آج دادی کی ہائے ہائے نے اس کی معصوم حرکتوں کو کتنا سنجیدہ بنا دیا تھا۔
’’ہائےاللہ!‘‘ دادی تسبیح کی کھٹاکھٹ کے ساتھ چلائیں، ’’ہر وقت پڑی ہے مسٹنڈی۔۔۔ اری تجھے کوئی کام نہیں کرنےکو۔‘‘ ادھر کچھ دنوں سے یہ نئی آفت اٹھ کھڑی ہوئی تھی کہ دادی اسے خاموش لیٹا بیٹھا بھی نہیں دیکھ سکتی تھیں۔
’’کیا کریں پھر؟‘‘ وہ دادی کا ہر روز گرگٹ کی طرح بدلتا ہوا رنگ دیکھ کر بہت زرد اور مضمحل ہو گئی تھی۔
’’اری میرے پھٹے ہوئے کرتوں میں کھونپیں ہی بھر دے۔‘‘ دادی اس پر احساس جوانی کا بوجھ لاد کر بھی یہی سمجھتی تھیں کہ خالی پڑے رہنے سے شیطان پاس آتا ہے۔ اس لیے عقل مندی اسی میں ہے کہ زیادہ سے زیادہ بوجھ لاد دو تاکہ دھیان ہی نہ بھٹکے لیکن بے چاری دادی کو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ زیادہ مار جسم کو بے حس کر دیتی ہے اور پھر وہی مار ایک معمولی بات ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہی حال ننھی کا ہوا۔ ہر وقت کی ہائے اللہ سنتے رہنا اس کی عادت ہوکر رہ گئی۔ پہلے تو وہ اپنے وعدے کا لحاظ کرتے ہوئے صلو بھیا کو نیچی نیچی نظروں سے دیکھنے پر اکتفا کر لیتی تھی لیکن اب دادی کی بڑھتی ہوئی بے اعتمادی نے اسے ضدی بنا دیا اور وہ دادی کے کولھے سے کولھا بھڑا کر صلو بھیا اور ریاضو کو گھورنے لگی۔ وہ کھانے پینے اور پیسے مانگنے کے بہانے پہروں دادی سے الجھتی، انہیں چپکے چپکے کوستی اور دل ہی دل میں ان کی گالیاں دہراتی۔ اسے اب دادی سے سخت نفرت اور ضد ہوگئی تھی۔ اس پر آمنہ آپا کا بھائیوں میں گھل مل کر بیٹھنا اور بھی انگاروں پر لٹا دیتا تھا۔
ادھر ایک ماہ سے تو دادی نے اسے آمنہ آپا سے بولنےچالنے کو بھی منع کر دیا تھا۔ کیونکہ آمنہ آپا نےایک دن محض دادی کو جلانے کے لیے ساری کو سمیٹ کر لنگوٹ کی طرح کسا اور اپنی موٹی موٹی رانیں خوب ہی تو بجائیں، بالکل پہلوانوں کی طرح۔۔۔ بڑی اماں تو مسکرا کر چپ ہوگئیں لیکن دادی نے جو یہ رنگ دیکھا تو خدا یاد آ گیا۔۔۔ ان کے خیال سے آمنہ آپا ہاتھ سے نکل چکی تھیں اور ایسی لڑکی کے ساتھ وہ ننھی کو کیسے دیکھ سکتی تھیں؟ اب ننھی تھی اور دادی کا سوکھا مرنڈا ساتھ۔۔۔
ننھی کی سمجھ میں یہ اب بھی نہ آیا تھا کہ وہ سیانی کیونکر ہوگئی ہے؟ اس کی ہم عمر لڑکیاں تو ابھی تک لڑکوں کے ساتھ مکتب میں پڑھتی تھیں۔ وہ تو کہو اسے پڑھنے سے دلچسپی نہ تھی، ورنہ ابھی تک مکتب میں پڑھتی ہوتی، لیکن اس معصوم بچی کو کیا معلوم تھا کہ دادی ان لوگوں میں سے تھیں جو ہر بیمار کو قریب المرگ سمجھ کر ہائے ہو کرتے ہیں لیکن جب واقعی وہ بیمار مایوس ہو کر مر جاتا ہے تو ان کی آنکھیں ریگستان کی طرح خشک ہو جاتی ہیں۔
گرمی کی دوپہر، ہر طرف سنسان خاموشی، اتفاق کی بات کہ دادی مع اپنی تسبیح کے سو رہی تھیں اور ننھی اپنے کھٹولے پر پسینے میں شرابور پڑی جانے کیا کیا سوچ رہی تھی۔ دادی کی روک ٹوک نے اس کے معصوم احساسات کو یکسر سنجیدہ اور تجسس آمیز بنا دیا تھا۔ اس کے دماغ میں بیک وقت سیکڑوں سوالات کھٹولے کی پھانسوں کی مانند چبھ رہے تھے اور ان کے جواب وہ کسی نہ کسی سے مانگ کر اس خلش سے نجات چاہتی تھی۔ آخر صلو بھیا سے بات چیت کرنے کو کیوں منع کیا گیا ہے؟ اس ایک سوال کے گرد اس کے کل احساسات گھوم رہے تھے۔
اس نے ایک بار پھر دادی کی طرف دیکھا جو بے خبر سو رہی تھیں۔ چلو صلو بھیا سے ہی پوچھیں۔ وہ بڑے اچھے ہیں۔۔۔ وہ اس کی باتوں پر ہنسیں گے۔۔۔ آمنہ آپا تو ہنسوڑ ہیں۔۔۔ بس کھل کھل کرنے لگیں گی۔ وہ یہی سوچ کر اپنے کھٹولے سے اٹھی اور ننگے پاؤں آنگن میں نکل آئی۔ اچانک اندھیرے سے دھوپ میں آنے کے باعث اس کی آنکھیں چندھیا گئیں اور تلوے جلتی ہوئی زمین پر جھلسنے لگے۔ وہ آہستہ آہستہ کبھی پنجوں اور کبھی ایڑیوں کے بل چلتی ہوئی صلو بھیا کے کمرے کی طرف بڑھی۔ ہولے سے بھڑے ہوئے کواڑ کھولے اور اندر داخل ہوگئی۔
صلو بھیا سو رہے تھے۔ وہی بکھرے بکھرے بال اور پسینے میں بھیگی ہوئی مسیں۔ وہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ ان کے پلنگ کی پٹی پر ٹک گئی۔ اتنے دنوں بعد چوری چھپے ان کے پاس آ کر اس کی حالت عجیب سی ہوگئی۔ اسے ان کی وہ تمام ہمدردیاں یاد آگئیں اور پھر دادی کے امتناعی احکام۔۔۔ اس کا دل بھر آیا اور اس نے اپنا سر ان کے سینے پر رکھ دیا۔ وہ چاہتی تھی کہ اس سے صلو بھیا ہمدردی کریں۔ صلو بھیا جاگ پڑے۔ وہ ننھی کو اتنی روک ٹوک کے باوجود اپنے سینے پر جھکا دیکھ کر اسے ننھی سی ننھی نہ سمجھے بلکہ ایک عورت۔۔۔ جو کسی کی انگلی اپنےسینے کی طرف بڑھتے دیکھ کر جسم چراتی ہے۔۔۔ جو کسی کو نیچی نیچی نظروں سے دیکھتی ہے۔ جو تنہائی میں کسی کی مسوں کا پسینہ پونچھنے سے بھی نہیں چوکتی اور جو دوپہر کے سناٹے میں جذبات سے مغلوب ہو کر کسی کے دل کی دھڑکن سننے کی کوشش کرتی ہے۔ صلو بھیا کی عقل پردادی کے قبل از وقت اندیشوں نے پردہ ڈال دیا۔
’’ہائے اللہ!‘‘ دادی نے صلو بھیا کے کمرے میں ہانپتے کانپتے قدم رکھا اور جونہی اپنی چندھیائی آنکھیں کمرے کی نم آلود تاریکی میں کھولیں تو ’’ہائے اللہ‘‘ کا زوردار نعرہ ان کے پوپلے منہ میں پھڑپھڑا کر رہ گیا۔
زمین سے بہت اونچائی پر ہوا میں تیرتی ہوئی کسی چیل نے چچیا کر دادی کو آنکھیں کھول کر لاحول پڑھنےکی یاد دلا دی۔
مأخذ : سب افسانے میرے
مصنف:ہاجرہ مسرور