محبت اور۔۔۔

0
184
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’عورت کی مجبوریوں، محرومیوں اور مرد کی بے وفائی کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ بیٹی اپنے گھر کے سامنے رہنے والے لڑکے سے محبت کرتی ہے۔ لڑکا اسے خط لکھتا ہے کہ آج آئی پی ایس کا ریزلٹ آگیا ہے اور میں کامیاب ہوں۔ آج شام کو تمہاری ماں سے بات کرنے آؤں گا۔ وہ خط ماں کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور وہ لڑکی کے سامنے شوہر و سسرال کے مظالم اور مالی مشکلات ایسے پردرد انداز میں بیان کرتی ہے کہ لڑکی اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور شام کو جب لڑکا اس سے ملنے گھر آتا ہے تو وہ اسے ٹھکرا دیتی ہے۔ لڑکی کو ایسا لگتا ہے کہ لڑکا اس سے بچھڑ کر مر جائے گا لیکن جب وہ اگلے دن بالکنی میں اسے کلی کرتے ہوئے دیکھتی ہے تو اس کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ اسے ہسٹیریا کا دورہ پڑا ہے لیکن وہ شدت سے تردید کرتی ہے۔‘‘

باہر خوب زور شور سے آندھی چل رہی تھی۔ لیمپ کی مدھم سی روشنی میں کمرہ خوفناک معلوم ہو رہا تھا۔ ماں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی بند دروازے کی طرف بڑھی لیکن اچانک پلٹ کر لیمپ کی بتی اونچی کر دی۔

’’میری بچی، میرا تو کلیجہ پھٹا جا رہا ہے۔۔۔ تم اس طرح نہ سوچو، میں پھر کہتی ہوں، ہائے مجھ جنم جلی کے منہ سے اپنی باتیں کیوں نکل گئیں۔۔۔‘‘ ماں نے گڑگڑا کر کہا، اس کی آنکھوں میں جوانی کی چمک کے ساتھ ایک بار پھر آنسو امڈ آئے۔ وہ شام سے ہی اپنی بیٹی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی کہ اچانک اس نے دکھوں کی لمبی داستان چھیڑ دی تھی۔ اور اب آٹھ بجنے والے تھے۔ اس داستان کا عروج آٹھ بجے ہونے والا تھا، کیونکہ وہ ٹھیک اسی وقت اس کی بیٹی سے ملنے آنے والا تھا۔ لڑکی ابھی تک برف کی سل کی طرح منجمد بیٹھی تھی مگر جیسے قطرہ قطرہ کر کے پگھل رہی تھی۔ لیمپ کی سونی روشنی میں اسے اپنی ماں کا چہرہ خوبصورت اور جوان لگ رہا تھا، دہانے کے گرد گہری ہوتی ہوئی قوسیں اور کنپٹیوں پر جھریوں کے مہین جال غائب سے تھے۔ کشمشی رنگت کے پپوٹوں تلے کپکپاتے ہوئے آنسو اور خشک ہونٹ۔ اسے اپنی ماں ایک خوبصورت ننھے کی موت پر لکھے ہوئے مرثیے کی طرح نظر آ رہی تھی۔

’’میری بچی، میں کہتی ہوں۔ میں زندہ ہی کیوں رہی۔ میں پیدا ہوتے ہی کیوں نہ مرگئی، جو آج اپنی اولاد کی خوشیوں پر سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھی ہوں۔‘‘ ماں بین کرتے ہوئے آواز سے رونے لگی۔۔۔ اور پھر قریب کی پولیس چوکی پر آٹھ کا گجر سن کر پاگلوں کی طرح بھاگ کر کمرے سے نکل گئی۔

’’ہنھ۔۔۔ پتہ نہیں مجھے آپ کتنا پتھر سمجھتی ہیں، میں اندھی ہوگئی تھی۔ آپ نے مجھے آنکھیں دیں۔ میں آپ پر سے قربان، امی سنیے تو سہی۔‘‘ لڑکی کی مضبوط آواز چیختی غراتی آندھی میں ذرہ ذرہ ہوکر بکھر گئی۔ لیکن ماں واپس نہ آئی۔۔۔ لڑکی نے جیسے ایک دم تھک کر آنکھیں موند لیں۔ آندھی بدستور غرا رہی تھی، بند کھڑکیوں پر ننھے ننھے کنکر بج رہے تھے اور کھلا ہوا دروازہ بھی دھڑ سے بند ہو جاتا اور کبھی اچانک کھل کر خاک، دھول اور سوکھتے پتوں کا ایک ریلا اندر بلا لیتا۔ لڑکی میں ہلنے تک کی سکت نہیں تھی، لیکن اسے اپنا رواں رواں حساس اور بیدار معلوم ہو رہا تھا۔ اسے اپنے تمتماتے ہوئے چہرے پر خاک کے ذرات تک کا لمس محسوس ہو رہا تھا، ٹھنڈے سوندھے، چمکتے ہوئے ذرات اس کے جوان چہرے کو وحشیانہ انداز سے چھوتے اور پھر بے جان ہو کر جلد پر گر جاتے۔

- Advertisement -

پتہ نہیں کیسے تصورات کی کڑیاں جھنجھنا کر ملتی ہی چلی گئیں، تمتمایا ہوا چہرہ نازک سی موم بتی بن گیا اور خاک کے بے وقعت ذرے جیتے جاگتے پتنگے! آندھی کا جوش و خروش بڑھتا ہی گیا اور بجلی تھی کہ پھٹی پڑتی۔

’’اب شاید ہی وہ اس وقت گھر سے نکل سکے، آندھی بھی تو غضب کی ہے۔‘‘ لڑکی نے افیونیوں کی طرح بے دلی سے سوچا، اور پھر خود کو آندھی کے طلسم میں کھو دیا۔ اسے آندھیوں میں چلتی ہوئی تیز ہواؤں سے عشق بھی تو تھا۔ وہ ہمیشہ ایسے گونجتے گرجتے، بولتے گاتے موسم میں بہک کر سوچا کرتی، بس ایسے ہی سہانے سمے میری زندگی میں کوئی بڑی خوبصورت، کوئی بڑی غیرمعمولی بات ہوگی! اور اس وقت ایک غیر معمولی بات ہوگئی۔ تیزی سے بند ہوتے ہوئے دروازے کے پٹ بیچ ہی میں ٹھہر گئے اور وہ زور کرتے ہوئے پٹوں کے درمیان تنا ہوا کھڑا تھا۔ گلابی سا چہرہ اور دھول سے اٹے ہوئے بال۔

’’آندھی، طوفان، جنگل، مندر، موت اور زندگی۔ میں اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو ٹھکراتا تیری آواز کی بازگشت بن کر تجھ تک پہنچوں گا۔‘‘ ایک بھولی بسری نظم کے چند مصرعے لڑکی کی یادداشت سے ابھر کر کمرے کی فضا پر چھا گئے۔ لڑکی نے جلدی سے اپنے چہرے پر نثار ہو کر مرنے والے خاک کے ذروں کو رگڑ کر آنچل میں دفن کر لیا۔ لیکن فضول ہی تو؟ ذرا دیر پہلے اس نے اپنی ماں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے چہرے پر لڑکے کی نظر بھی نہ پڑنے دے گی۔ لڑکی کے دانتوں تلے ریت سی آگئی۔ لڑکے نے اپنی پیٹھ کواڑوں سے لگائے لگائے ہاتھ اونچا کر کے دروازے کی چٹخنی چڑھا دی۔ اور اس کا چوڑا تندرست سینہ اس ادا سے اور بھی جاذب معلوم ہونے لگا۔ لڑکی کے سینے پر جیسے کسی نے انگلی رکھ دی۔ وہ تیزی سے پیٹھ موڑ کر کھڑی ہوگئی۔ آندھی بھپر بھپر کر دروازہ کھٹکھٹانے لگی۔ کمرے میں خاک کے ذرے ناچ رہے تھے، لیمپ کی بتی بس یوں ہی لرز رہی تھی۔

’’میں آ گیا‘‘ لڑکے نے سیاہ روؤں سے بھرا ہوا مضبوط ہاتھ لڑکی کے کندھے پر رکھ دیا۔ بھاری آواز، اتنی نرم، اتنی گداز اور اتنی دھیمی بھی ہوسکتی ہے؟ لڑکی سے جیسے کسی اور نے پوچھا اور یہ بھی تو پوچھا کہ کیا تو یہ ہاتھ سچ مچ جھٹک سکتی ہے؟

’’چپ رہو۔ چپ رہو بھئی۔‘‘ لڑکی نے خود کو ڈپٹ دیا۔

’’ارے کیا ہوا بھئی۔‘‘ لڑکا گھبرا کر ہکلانے لگا۔

لڑکی گھوم کر تیزی سے کرسی پر بیٹھ گئی۔ کمرے میں ذرا دیر کو غیر متوقع سی خاموشی چھاگئی، ’’میں تم سے شادی نہیں کر سکتی، میں تم سے سچی محبت نہیں محسوس کرتی، اس لیے تم مجھ سے کوئی امید مت رکھو، سمجھے!‘‘ لڑکی نے پورے سکون سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔

’’میں۔۔۔ میں۔۔۔‘‘ لڑکے کی زبان اینٹھ اینٹھ گئی، وہ کانپ رہا تھا۔

’’میں کہہ چکی، اب تم جاؤ۔‘‘ لڑکی نے مضبوط آواز میں پھر کہا، اور منہ پھیر کر لیمپ کی طرف دیکھنے لگی، جس کی بتی کسی خرابی کے باعث موہوم طریقے پر لرز رہی تھی۔

’’تمہیں کیا ہوگیا ہے، میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، تمہیں میرے خلاف کسی نے بھڑکایا ہے؟ بتاؤ آخر بات کیا ہے۔ میرا دماغ پھٹ جائے گا۔ تم سے چھٹ کر میں اپنی جان دے دوں گا، اگر ایسی ہی بات ہے تو میں ایک لمحہ زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘ لڑکے نے بے قرار ہو کر گھٹنے ٹیک دیے اور اپنا سر لڑکی کی گود میں ڈال دیا۔ اچانک وہ بچوں کی طرح سسکنے لگا۔

’’میں کہہ چکی بھئی۔‘‘ وہ بیزاری سے اٹھ کر دیوار کی دھندلی سفیدی میں کوئی نہایت اہم تحریر پڑھنے کی کوشش کرنے لگی۔ اور یہ انہماک اس وقت تک رہا جب تک کہ آندھی کے ایک بھیگے ہوئے جھونکے نے اسے دیوار کی طرف ایک پینگ سانہ دے دیا۔ کھلے دروازے کے پٹ کبھی دھڑا کے سے کھل جاتے اور کبھی پر اسرار طریقے پر بند ہو جاتے۔

’’وہ چلا گیا۔۔۔ وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا؟‘‘ لڑکی ہونٹوں کے زاویے بگاڑ کر منمنائی۔ ٹھوڑی سمٹ گئی، جسم کپکپایا، اور وہ ٹھنڈی ٹھنڈی مٹھیوں سے اپنی آنکھیں ملنے لگی، گرم گرم آنسوؤں سے انگلیاں تر ہوگئیں۔ تب وہ ایک ہلکی سی آواز میں رونے لگی۔ تیز ہواؤں کے ساتھ پانی کی موٹی موٹی بوندیں دروازے کے اندر پختہ فرش پر بج رہی تھیں۔ لڑکی کا کلیجہ کٹا جا رہا تھا اور وہ بس روئے چلی جا رہی تھی۔ ایسے خوبصورت پر شور رومینٹک موسم میں یہ کچھ بھی ہونا تھا؟ اس خیال سے اس کے صبر و ضبط کا بند پارہ پارہ ہوا جا رہا تھا۔

ایک ایسے ہی پرشور موسم اور سرمگیں شام کو لڑکی نے لڑکے کی طرف پہلی بار غور سے دیکھا تھا۔ لڑکا اپنی بالکنی کی جالی پر جھکا ہوا پیتل کی لٹیا سے چلوؤں پانی کی کلیاں کیے جا رہا تھا اور رہ رہ کر منہ دھوئے جا رہا تھا۔ اور اتنی گونج گرج سے کھنکار اور تھوک رہا تھا کہ وہ اپنے کمرے کی کھلی کھڑکی پر جھومتے ہوئے بوندوں کے سہرے میں سے جھانک کر اسے دیکھنے لگی۔

’’کیسا احمق بور آدمی ہے۔ بھلا ایسے پیارے ٹھنڈے سمے میں بالکنی میں کھڑے ہو کر بارش کا تماشہ دیکھنے کے بجائے کوئی یہ حرکت کرتا ہے۔‘‘ اور وہ اپنے ننھے بھائی کو گود میں اٹھا کر ہنسی تو ننھا بھی تالیاں بجا بجا کر لڑکے کی نقل کرنے لگا۔ لڑکے نے اٹھا ہوا چلو گرا دیا، اور دو ہنستے ہوئے چہرے دیکھ کر بوکھلا یا ہوا اندر بھاگ گیا۔ لڑکی کو اس کے بھاگ جانے سے موسم کچھ سونا سا لگنے لگا۔ مگر نہیں، اس ہلکے سے واقعے کے بعد مطمئن اور آسودہ حال بھولا نوجوان اس سے بھاگ کر نہ جا سکا۔ بھلا ایسے گرم ملک میں، ایسے بھیگے بھیگے خنک موسم میں ملی ہوئی نظروں کو دل کے پار ہونے میں دیر ہی کیا لگتی ہے۔ لڑکا شرمیلا اور کنوارا تھا اور اپنے اونچے افسر قسم کے چچا کی وجہ سے ایک بڑی ملازمت کا امیدوار۔ لڑکی نوعمر تھی اور گھر کا ماحول اداس اداس۔ اس نے مارا ماری میں بی۔ اے کرنا چاہا مگر فیل ہوگئی اور اب ایک سڑے سے پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی تھی۔ اور اسکول کو ترقی کرتے دیکھ کر ہمیشہ اس ڈر سے کانپتی رہتی کہ دیکھو کب نکالی جاؤں۔۔۔

لڑکی کے ابا نے ننھے میاں کی پیدائش سے پہلے ہی اس کی ماں کو طلاق دے کر ایک موٹی سی بیوہ عورت سے شادی رچا لی تھی اور اب ایک بہت معمولی سی رقم اپنے بچوں کے گزارے کے لیے ہر ماہ بھجوا دیتے۔ جسے لڑکی کے چھوٹے بیکار ماموں اپنے پاس رکھتے اور ہر اتوار کو سینما سے آکر سب کو فضول خرچی کے خلاف لیکچر دیا کرتے اور ساری مصیبت کا ذمہ دار بچوں کی بدقسمتی کو قرار دیتے۔ لڑکی کے بھائی بہن جب اسکول چلے جاتے اور جب وہ اپنے محلے کے سڑے سے پرائیویٹ اسکول پہنچنے کے لیے برقعے کی ڈوریاں کسنے لگتی، تو وہ دیکھتی کہ ماں باورچی خانے سے اٹھ کر تخت پر رکھی ہوئی سلائی کی مشین پر جا بیٹھتی، اور دن بھر شہر کے درزیوں کے توسط سے آئے ہوئے کپڑے سیتی رہتی۔ اور رہ رہ کر ہونٹ بھینچ کر زمین پر تھوک دیتی اور شام کو جب وہ اسکول سے بھیجا پچی کر کے گھر آتی تو ماں سلائی کی مشین سے اٹھ کر باورچی خانے میں پہنچ جاتی۔ یہ سارے حالات، یہ اتنے بہت سے دکھ لڑکی کو جیسے جنم جنم کے لیے چلچلاتی دھوپ میں کھڑا رکھتے اور اسے ہر وقت اپنے گلے پر ایک گرفت سی اور آنکھوں میں نمی سی محسوس ہوتی رہتی۔

مگر جب یکساں سے عام دنوں سے الگ کسی دن سورج نہ دکھتا اور رات، ستاروں کا غبار نہ پھیلتا۔ تیز تیز ہوائیں چلتیں یا آسمان سے زمین تک نمی ہی نمی پھیل جاتی، بوندیا ں گاتیں، کواڑ بجتے اور دن سرمگیں ہوتا یا رات گھور اندھیری، گونجتی گرجتی ہوئی تو وہ جیسے اپنے گلے کی گرفت کو جھٹک کر ایک لمبی سانس لے سکتی۔ اس کی مٹھیاں کس جاتیں اور جلتے ہوئے چہرے پر تیز اور ٹھنڈی پھوار اتنی اچھی لگتی کہ بس۔۔۔ وہ خوابوں کی جھیلوں پر کنول کی طرح کھل کرانگڑائیاں لیتی۔۔۔ وہ پہاڑوں پر ہرنیوں کی طرح کودتی ان کی چوٹیوں تک پہنچ جاتی، جہاں بارہ ماہ برف جمی رہتی۔ وہ گھنے جنگلوں میں جا کر گم ہو جاتی، جہاں اونچے اونچے درختوں کی جھکی جھکی شاخوں تلے ٹھٹک کر کچھ مزے کی باتیں سوچنے لگتی۔۔۔

وہ دارجلنگ پہنچ جاتی جہاں چائے کے ڈھلوان باغوں کو زرد رو آسامی لڑکیوں کو، اور بازاروں میں پڑے ہوئے انناسوں کے ڈھیروں کو بادل اترا تر کر چھوتے اور راہیوں کے ساتھ ساتھ بے تکلف دوستوں کی طرح چلتے۔۔۔ اور وہ جغرافیہ کی لگائی بجھائی سے متاثر ہو کر اپنی زندگی کی سب سے پرانی آرزو کے مطابق چراپونجی بھی پہنچ جاتی۔ جہاں کی خاک میں بادل دنیا کے سارے بادلوں سے زیادہ پانی ٹپکاتے رہتے۔ جہاں یہ بادل بانس کی جھونپڑیوں میں گھس کر دند مچا دیتے۔ ہاتھ کو ہاتھ نہ سوجھتا۔ اور پھر کوئی مضبوط سا ہاتھ بڑھ کر اس کی بھینچی ہوئی مٹھیاں کھول دیتا۔ اور وہ خواب ہی خواب میں یوں محسوس کرتی جیسے اس کا وجود پھیل رہا ہے اور بہہ رہا ہے۔

لیکن آج تو جیسے لڑکی کا سارا وجود ہمیشہ کے لیے سمٹ سکڑ کر میدانوں میں پڑی ہوئی ایک چھوٹی سی تنہا چٹان میں تبدیل ہوگیا تھا، اور اب وہ اس حادثے پر سسک سسک کر بچوں کی طرح رو رہی تھی۔ اور اس کا خوابوں بھرا موسم اپنے شباب پر تھا۔ آج شام ہی کی تو بات ہے کہ لڑکی کے چھوٹے بھائی کے ہاتھ لڑکے نے کتاب میں ایک پرچہ رکھ کر بھجوایا۔ اس میں لکھا تھا، ’’اب ہمیں ہمیشہ اکٹھے رہنے کے متعلق سوچنا ہے، آج پی، سی، ایس کا نتیجہ آ گیا ہے، میں کامیاب ہوں۔ میں آج آٹھ بجے تم سے اور تمہاری امی سے ملنے آؤں گا۔‘‘

لڑکی اسکول سے آکر غسل خانے میں گنگنا کر نہا رہی تھی۔ چھوٹے بھائی نے گھر میں آکر آپا آپا کا شور مچا دیا۔ اور جب آپا نظر نہ آئی تو لڑکے کی دی ہوئی کتاب ایک طرف ڈال کر اماں کی مشین میں انگل بید کرنے لگا اور جب کافی دیر بعد لڑکی غسل خانے سے سیپ کی طرح نکھری ستھری بالوں سے پانی ٹپکاتی نکلی تو ماں نے سلائی کی مشین سے اٹھ کر کتاب اور پرچہ الگ الگ اسے پکڑا دیا۔ لڑکی پرچہ پڑھتی رہی اور اس کے بھورے بالوں سے ٹپکتا ہوا پانی نیلی تحریر کو کاغذ پر پھیلاتا رہا، ماں سکون سے سلائی کرتی رہی اور بیٹی اس ننھی سی تحریر کو پڑھ ہی نہ سکتی تھی۔

اور تانبے کی طرح تپتے ہوئے آسمان پر رینگتے ہوئے سفید سفید بادل کبھی ڈوبتے سورج سے دست و گریبان ہو جاتے، کبھی شعاعوں کے دھکے کھا کر افق سے بھی پرے لال لال ہوکر دھنس جاتے۔ چھوٹی سی انگنائی کی دیوار پر اچکتے ہوئے کوے کے پروں پر کبھی سونے کی چمک پھر جاتی اور کبھی کاجل سے بھی گہری سیاہی۔

اور جب لڑکی اپنے کمرے میں پہنچ کر پلنگ پر چپ چاپ پاؤں لٹکائے بیٹھی تو ماں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اس کا چہرہ شرم سے لال ہوگیا۔ لمبی لمبی انگلیاں گدگدی ہتھیلی میں پیوست ہوگئیں۔ لڑکی کا جی چاہا کہ رخصت ہوتی ہوئی دلہنوں کی طرح وہ بھی ماں کے پہلو میں منہ چھپا کر ہولے ہولے رونے لگے۔ ماں ناراض بھی تو نظر نہ آتی تھی۔ آخر اس نے اتنی اچھی ماں کو یہ بات خود ہی کیوں نہ بتا دی؟ ماں نے لڑکی کے قریب بیٹھ کر اسے کندھے سے لگا لیا اور لڑکی سرخ پڑ کر رونے لگی تھی۔

’’وہ سامنے والے گھر کا لڑکا ہے نا؟‘‘ ماں نے پوچھا تھا۔ لڑکی نے جھجکتے ہوئے اثبات میں گردن ہلا دی۔

’’میں نے اسے کئی بار دیکھا ہے، بہت پیارا لڑکا معلوم ہوتا ہے۔ تم رو مت، اس میں رونے کی کیا بات ہے، ساری لڑکیاں ایک دن ماں کو چھوڑ کر چلی جاتی ہیں، میں تو بہت خوش ہوں، بیٹی تو پرایا مال ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر ماں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، وہ ہونٹ بھینچ کر، کانپتی ہوئی انگلیوں سے آنسو پونچھنے لگی، جن کی پوریں سوئی کی نوک نے ادھیڑ کر رکھ دی تھیں۔

’’امی اب آپ کیوں رو رہی ہیں؟‘‘ لڑکی نے پوچھا۔

’’میں تو یوں ہی رو رہی ہوں، آنکھوں کو، آنسو بہانے کی عادت جو ہے، میں تو بہت خوش ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر ماں اور بھی پھوٹ پڑی۔ اس کا چھریرا جسم سسکیوں سے لرز لرز گیا، ’’سب مرد تمہارے ابا جیسے تھوڑی ہوتے ہوں گے۔ وہ لڑکا تو بہت معصوم معلوم ہوتا ہے، وہ تم سے محبت کرے گا، تمہارا دل نہیں دکھنے دے گا۔ میں تو یہ سوچ کر پھولے نہیں سماتی۔ وہ تمہیں اپنے ساتھ لے جائے گا، تمہیں ہر قسم کا سکھ دے گا۔ اللہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہی ہوگا۔‘‘ ماں نے رک رک کر یہ سب کہا اور پھر ہلکی ہلکی آواز سے رونے لگی۔

’’امی جب آپ خوش ہیں تو پھر رو کیوں رہی ہیں۔‘‘ لڑکی نے حد درجہ پریشان ہوکر ماں سے پوچھا تھا اور ماں کے ’’کچھ نہیں‘‘ پر مصر رہنے کے باوجود وہ ماں سے لپٹی رہی اور اس کے رونے کی وجہ سے پوچھتی رہی۔ اور آخر بڑی دیر بعد ماں نے اندھیرے ہوتے ہوئے کمرے میں ایک حنوط شدہ لاش کی طرح بیٹھ کر اپنے دکھوں کی لمبی گمبھیر داستان چھیڑ دی۔ دھندلکے میں لپٹے ہوئے کمرے میں اس کی کانپتی ہوئی آواز بڑی پرسوز اور گہری معلوم ہو رہی تھی۔ اس نے اپنی نوعمر بیٹی کو بتایا کہ وہ پیدا ہی بدنصیب ہوئی تھی۔ اس کی ماں اسے جنم دیتے مرگئی اور اس نے باپ کی سختیوں اور سوتیلی ماں کی نفرتوں کے سائے میں بارہ تیرہ سال پورے کیے۔ ابھی اسے مرد کے متعلق سوچنا بھی نہ آیا کہ وہ ایک اٹھائیس سال کے مرد سے بیاہ دی گئی۔۔۔ وہ اٹھائیس سال کا مرد جس نے اتنی عمر عورت کو صرف کنکھیوں سے دیکھا تھا۔ اس کا شوہر تنہائیوں میں ایک خودغرض وحشی کے روپ میں نظر آتا۔ ساس نند اسے کم جہیز لانے کے طعنے اٹھتے بیٹھتے دیتیں۔ اور یہ جلوتیں، یہ خلوتیں آہستہ آہستہ اس کے دل و دماغ پر ایک کنکھجورے کی طرح اپنے بے شمار پاؤں ڈبوتی ہی چلی گئیں اور بچوں پر بچے ہوتے چلے گئے۔ ماں نے ٹھنڈی ٹھنڈی سانسوں کے درمیان یہ ساری باتیں بڑی دردناک تفصیل سے بتائیں۔ اور پھر مجرموں کی طرح آنکھیں جھکا کر بیٹی سے ایک اعتراف کیا!

’’مجھے یہ نفرتوں اور حقارتوں کی پیداوار گندے کیڑوں کی طرح نالیوں میں بہا دینا چاہیے تھی۔ مگر میں ایسا نہ کر سکی۔ میں نے ہر طرف سے محروم ہو کر اپنے بچوں سے محبت کی اور صرف ان کی خاطر سب کچھ سہا لیکن اتنی عاجزی، صبر و شکر کے باوجود تمہارا باپ مجھ سے دامن چھڑاکر بھاگ گیا۔‘‘ خاموش بیٹھے بیٹھے لڑکی کا جی چاہا کہ وہ اپنے باپ کی گردن مروڑ ڈالے، اسے اپنا محبوب بھی اپنے باپ کی صوت میں نظر آنے لگا تھا۔۔۔ اورماں بولتی گئی تھی۔

’’لیکن اتنی طویل اذیت ناک زندگی گزارنے کے بعد مجھے تمہارے باپ کی یادگار میں پانچ بچے اور سو روپے ماہوار کی رقم ملتی ہے۔۔۔ سو روپے۔۔۔‘‘ ماں نے اپنی ادھڑی ہوئی انگلیاں اپنے رخساروں پر پھیریں اور آنکھیں پھیلا کر کہا، ’’اب یہی رقم ملے گی، اس میں تمہارے ماموں سینما دیکھیں گے، اتنے ہی پیسوں سے پانچ پیٹوں کی آگ بجھے گی اور اسی سے تمہارے تینوں بھائیوں اور تمہاری بہن کے مستقبل کے سارے گھروندوں کے لیے اینٹ گارا مہیا کیا جائے گا۔۔۔‘‘ یہ ساری باتیں ماں نے اسی طرح بتائیں تھیں جیسے کوئی قریب المرگ اپنی اولاد کو اپنے پوشیدہ خزانوں کا پتہ دے رہا ہو، اس کے آنسو خشک ہو چکے تھے، پھٹی پھٹی آنکھوں، خشک ہونٹوں اور ادھڑی ہوئی انگلیوں سمیت وہ اندھیرے ہوتے ہوئے کمرے میں ایک آسیب کی طرح نظر آرہی تھی۔

اور اس وقت لڑکی نے پلنگ سے اٹھ کر لیمپ جلاتے ہوئے بڑے عزم سے کہا تھا، ’’مجھے معاف کر دو امی، میں سب دیکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں سمجھی تھی، میں اب عمر بھر شادی نہیں کروں گی، مجھے مرد ذات سے نفرت ہوگئی۔۔۔‘‘ اماں ایک دم گھبرا کر چیخنے لگی، ’’نہیں نہیں، پاگل نہ بنو۔‘‘ لیکن وہ کہتی رہی، ’’میں اپنی اتنی بے کس، اتنی دکھی امی سے جدا ہو کر کہیں نہیں جا سکتی، میں اپنے بھائیوں اور بہن کے لیے سب کچھ کروں گی۔۔۔ میں اب تک جھوٹے خواب دیکھتی رہی، میں ایسے خوابوں پر تھوک دوں گی۔‘‘

اور ابھی ذرا دیر پہلے جب رسیلے خوابوں سے لدی ہوئی زناٹے دار ہوائیں اس کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا رہی تھیں، تو اس نے اپنی زندگی کی سب سے زیادہ خوابناک حقیقت پر سچ مچ تھوک دیا۔ ایک ٹھوکر مار دی، اور وہ بھولا سا لڑکا دل شکستہ ہوکر ایک دم چلا گیا، گونجتے ہوئے اندھیرے کے سارے خواب دردناک چیخیں مارتے اس سے دور بھاگ گئے اور اس کی محبت جو زندگی کی سب سے بڑی حقیقت تھی، ایک بھیانک خواب بن گئی اور اب وہ اس شیخی خور بچی کی طرح رو رہی تھی جس نے اپنی گڑیا کو ادھیڑ کر اس کی روئی بکھیر دی ہو۔

’’پانی اسی دھڑاکے سے برس رہا ہے اور اب شاید وہ میری زندگی میں کبھی واپس نہ آئے گا۔‘‘ لڑکی نے اپنی بھیگی ہوئی مٹھیاں گالوں سے لگا کر کمرے سے باہر اندھیرے میں گھورتے ہوئے بلک کر سوچا۔ اور دوڑ کر بے تابی سے پلنگ پر گرپڑی جیسے یوں پڑ کر، سوچنے کی ساری قوتیں معطل ہی تو ہو جائیں گی۔ میلے تکیے میں اس نے اپنا چہرہ ڈبودیا اور گھٹنے چھاتی سے لگالیے۔

’’چھماچھم برستا پانی آنگن کے پختہ فرش پر کیسے چٹاچٹ بج رہاہے، ساتھ کے کمرے میں تینوں بھائی بے فکری سے بہن کے ساتھ شور مچارہے ہیں۔ چھوٹا بھائی مصر ہے کہ سب کو مل کر کوئی اچھا سا گیت گانا چاہیے۔ ماموں شاید ابھی تک گھر نہیں پہنچے، ورنہ وہ بچوں کو اس طرح خوش ہونے پر ضرور ڈانٹتے۔۔۔ مشین کی آواز نہیں آ رہی۔ امی شاید باورچی خانے میں چولہے کے پاس پیڑھی پر بیٹھی کچھ سوچ رہی ہوں گی۔ وہ ہر وقت کچھ سوچتی رہتی ہیں۔ کہیں وہ رو نہ رہی ہوں۔۔۔ میں انہیں رونے نہیں دوں گی۔۔۔‘‘ خیالات دبے قدموں اس کے دماغ میں گھسنے لگے۔

’’اور میں جو رو رہی ہوں۔‘‘ وہ خود اپنی سوچ کے بیچ میں اکڑ کر کھڑی ہوگئی!

’’تو رو، منع کون کرتا ہے۔‘‘ حالات نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اس سے کہا۔

’’اور جو وہ مرگیا تو پھر۔‘‘ لڑکی نے بسور کر سوچا، ’’وہ میرا آخری جواب سن کر چپ چاپ چلا گیا۔ وہ کہتا تھا کہ میرے بغیر مرجائے گا، اسے مجھ سے محبت تھی، وہ مجھ سے مایوس ہو کر مر جائے گا۔ سب مرد، ابا جیسے تھوڑی ہو سکتے ہیں۔‘‘

لڑکی کا کلیجہ جیسے پھٹنے لگا، اور وہ تکیہ نوچ نوچ کر اپنی سسکیاں ضبط کرنے لگی۔ وہ بار بار کرب سے اپنے پاؤں بستر پر رگڑ رہی تھی۔ اچانک بجلی زور سے چمکی اور پھر دیر تک کڑاکے کی آواز سنائی دیتی رہی۔۔۔ لڑکی کے کان میں جیسے کوئی پھنکارا، ’’ہوسکتا ہے تیرے ٹھکرائے ہوئے نے اسی وقت تیسری منزل سے چھلانگ لگادی ہو یا کچھ کھا لیا ہو۔۔۔ بڑی بوڑھیاں کہتی ہیں کہ جب اتنی زور سے بجلی کڑ کے تو سمجھو کہیں گری ضرور ہے۔ اور بجلی اس دھرتی پر جبھی گرتی ہے جب کسی مظلوم کی آہ عرش کو ہلا دے۔۔۔‘‘

لڑکی پھڑپھڑا کر کھڑکی کی طرف بھاگی اور اپنے نامراد عاشق کے گھر کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگی جہاں ہر کمرے میں روشنی تھی۔ ’’ارے اس گھر کے سارے لوگ اب تک جاگ کیوں رہے ہیں؟ ہوسکتا ہے سب اسے بچانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ ہوسکتا ہے، سب ابھی خون اور پانی میں بھیگی ہوئی لاش گلی سے اٹھا کر اندر لے گئے ہوں، ہوسکتا ہے، اس نے کوئی تیز زہر پی کر ابھی ابھی کلیجے کے ٹکڑے اگل کر آنکھیں بند کی ہوں۔۔۔ ہوسکتا ہے۔۔۔! ایسا ہی ہوا ہے!‘‘ اس کے روئیں روئیں سے پکار آئی۔ اور اس نے بے تابی سے اپنی کانپتی ہوئی بانہیں کھڑکی سے باہر پھیلا دیں اور جھک کر گلی میں دیکھنے لگی۔ ’’اس وقت نیچے چھلانگ لگادوں تو۔۔۔؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔۔۔ لیکن میری بیکس ماں میرے معصوم بھائیوں اور میری نوعمر بہن کو، میری سجی ہوئی ڈولی کی طرح میری میت بھی تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی!

بجلی کی چمک سے لڑکی کی آنکھیں بند ہو گئیں اور وہ بے چارگی سے کھڑکی کی چوکھٹ پر سر نہیوڑا کی رہ گی۔ اس کے بالوں کو نم آلود ہوا تہہ و بالا کر رہی تھی اور موٹی موٹی بوندیوں کی چھینٹیں ہوا کے تیز جھونکوں میں اس کے جلتے ہوئے چہرے پر پڑ رہی تھیں اور اس کا دماغ ایک دم ماؤف ہو چکا تھا۔ تیز بوچھار پر بجلی پھر چمکی اور کھڑکی کے ماتھے پر جھومتے ہوئے بوندیوں کے سہرے کے پار اس نے اپنے نامراد عاشق کے گھر کا دروازہ کھلتے دیکھا، اور ڈیوڑھی میں بہت سے لوگوں کے ہاتھوں پر سفید سفید کپڑوں سے ڈھکی ہوئی ایک لاش۔

’’یقیناً وہ لاش ہے۔‘‘ اس نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں اور پھر دیوانوں کی طرح دوڑ کر اپنے پلنگ پر گٹھری بن گئی۔

’’آخر وہ مر گیا نا۔ مجھے نہ پا کر اس نے یہ دنیا ہی چھوڑ دی۔ ہائے یہ کیا ہو گیا؟ یہ کیوں ہو گیا۔‘‘ لڑکی پلنگ پر لوٹ لوٹ کر رونے لگی۔ اس کا دماغ پھٹا جا رہا تھا۔ اس کی مٹھیاں بھنچ گئیں، جیسے اس نے اپنے محبوب کا دامن پکڑ رکھا ہو۔ لڑکی بہت دیر تک بے تحاشہ روتی رہی۔

’’ہائے تم کیوں مرگئے۔ تم مجھ سے کیوں چھٹ گئے، میں تمہیں دور سے بھی دیکھ کر جی لیتی۔ اب کیسے کٹے گی یہ عمر۔‘‘ وہ بار بار منہ ہی منہ میں دہرا رہی تھی، وہ کبھی اپنے بال کھسوٹنے لگتی اور کبھی گریبان کو جھٹکے دیتی۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ اپنے جسم کے پرخچے اڑا کر گلی میں اچھال دے، اپنی بوٹیاں کتوں کوؤں کو کھلادے۔ لیمپ کی تھرتھراتی روشنی کم ہو رہی تھی۔ لڑکی کی ماں لیمپ میں تیل ڈالنا بھول گئی تھی۔ لڑکی روتے روتے مضمحل ہوگئی۔۔۔ اس کے آنسو بہنا بند ہوگئے اور ہاتھ پاؤں سن سے ہو کر پڑگئے۔ اور اب اس کے بوجھل دماغ میں وہ خود ابھری۔ ایک خوبصورت نوعمر بیوہ! اس کے کپڑوں میں سیاہ رنگ کی بہتات تھی اور بال کھلے ہوئے۔ ایک ہاتھ سینے پر اور دوسرا اڑتے ہوئے بالوں پر۔

ماں نے سلائی کی مشین سے سر اٹھا کر ڈبڈبائی آنکھوں سے پوچھا، ’’میری بچی، میری لاڈلی میں اور تیرے بہن بھائی تیرے خطاوار ہیں۔۔۔ مگر یہ تو بتا، تجھے مار کر ہم کیوں جئیں؟‘‘

’’نہیں میری جان امی۔۔۔ یہ میرا اور اس کا سودا ہے۔ وہ سچا تھا اور میں بھی جھوٹی نہیں تھی۔ وہ میرے بغیر نہیں رہ سکتا اور میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔ کچھ اس نے مجھے دیا، اب میں بھی تو اسے کچھ دوں، میں مزار محبوب پر ساری مسکراہٹیں نوچ کر چڑھادوں گی، اپنی خوشیاں اپنے آنسو سب اس پر سے نچھاور کردوں گی۔ اب وہی میرا ماضی ہے اور وہی میرا مستقبل!‘‘

اس کی چھوٹی بہن نے زندگی میں غالباً پہلی مرتبہ فکر مند ہوکر روتے ہوئے پوچھا، ’’آپا تم کو کیا ہوگیا ہے؟‘‘ اور لڑکی نے بھی ذرا ہونٹوں کے گوشوں میں مسکرا کر جواب دیا، ’’تم نہیں سمجھتیں۔۔۔ میں قدیم داستان عشق کی ایک اور ہیروئن ہوں۔ میں شیریں بھی ہوں اور لیلی بھی۔ لڑکی کی سہیلیوں نے حیران ہو کر کہا، ’’تم تو جیتے جی مرگئیں، تمہارے بالوں کو کنگھی نہیں چھو سکتی۔ تمہارے جسم کو شوخ رنگ مس نہیں کر سکتے۔ تمہارے ہونٹوں کو مسکراہٹ سے بیر ہے، تمہاری آنکھیں کبھی خشک نہ دیکھیں۔‘‘

’’میں۔۔۔! میں تو اپنے محبوب کی لوح مزار ہوں۔‘‘

دل و دماغ کے صفحات پر ایک اندوہناک مرثیہ لکھا جاتا رہا۔ اور رات اتنی ہی کالی اتنی ہی خوبصورت اتنی ہی گاتی اور برستی رہی۔ اور پھر جب بجلی ایک بار پھر زور سے کڑکی تو لڑکی نے پلنگ پر بیٹھ کر بلکنا رونا شروع کر دیا۔

’’نہیں نہیں میں نے اسے کیسے ٹھکرا دیا، میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی، وہ میرے نانا اور میرے باپ کے گناہوں کا ذمہ دار کیوں ہو؟ میں بھی مرجاؤں گی، میں دیواروں سے اپنا سر ٹکراؤں گی، میں اپنا گلا گھونٹ لوں گی۔ میں اپنا گلا گھونٹ لوں گی۔‘‘ وہ نم ہوا کو اپنے پھیپھڑوں میں کھینچنے کی کوشش کرنے لگی۔ اسے اپنا گلا بند ہوتا معلوم ہو رہا تھا۔ ہاتھ پاؤں سنسنا رہے تھے اور پھولے پھولے سرخ پپوٹے کھل بھی نہ سکتے تھے۔ اس کے کانوں میں جیسے کہیں بہت دور سے پانی برسنے کی سہانی آواز آ رہی تھی۔ اس نے تقریباً بجھتے ہوئے لیمپ کی مدھم روشنی میں ذرا سی آنکھیں کھول کر اپنے دوپٹے کا ایک حلقہ بنایا اور گردن میں پہن لیا۔ دوسرے لمحے وہ بستر پر گر گئی۔

لیمپ بجھ گیا۔ تیز ہوا سے دروازے اور کھڑکیاں بجتی رہیں اور آنگن کے پختہ فرش پر بوندیاں بجتی رہیں۔۔۔

اس نے لمبا دھندلا، پراسرار سفر طے کرنے کے بعد اللہ میاں کے حضور میں اپنی بوجھل آنکھیں اٹھانے کی کوشش کی۔ وہ اللہ میاں کے سامنے اس کی دنیا کے کروڑوں مجبور انسانوں کی داستان کہنا چاہتی تھی۔ اس کی بھیگی بھیگی پلکیں کپکپا کر اٹھیں اور پھر گر گئیں۔ سامنے نور ہی نور تھا۔ خوب چلچلاتا۔ پسینہ آور نور۔ بارش، نمی اور دھند پر طنز کرتا ہوا مغرور نور۔۔۔

لڑکی کا جی جل گیا کہ واہ اللہ میاں، ہم جس موسم میں مرکر رہ گئے اس سے تو تجھے مس تک نہیں۔ اور اس نے اپنی آنکھیں چندھی کر کے اس نور کو بیزاری سے دیکھا۔ سفید دیوار پر روشنائی سے نور کے بڑے سے چوکھٹے میں ’’انور میاں بقلم خود‘‘ لکھا صاف نظر آیا۔ اس تحریر پر ہی تو اس نے زندگی میں پہلی بار اپنے منجھلے بھائی انور کے منہ پر ایک تھپڑ مارا تھا کہ تونے دیوار کیوں خراب کی۔ برسوں سے تو کمروں میں سفیدی نہیں ہوئی اس پر سے یہ روشنائی کے دھبے!

لڑکی نے اپنی زندگی پر تھوڑا متعجب ہوکر بیزاری سے آنکھیں بند کرلیں۔ اور اس پر بیواؤں جیسا سوگ دوبارہ حملہ آور ہوگیا۔ وہ فوراً ہی ایک سسکی کے ساتھ رونا شروع کرنے والی تھی کہ کھانسنے کھنکھارنے کی گونجتی گرجتی آوازیں سن کر وہ بے تحاشا کود کر کھڑکی کی طرف دوڑی۔ چمکیلی دھلی ہوئی دھوپ میں پیتل کی لٹیا سورج کی طرح چمک رہی تھی اس کا نامراد عاشق کلیوں پر کلیاں کرتے ہوئے اپنی سوجی ہوئی لال لال آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مار رہا تھا۔ لڑکی نے دھڑاکے سے کھڑکی بند کردی اور پھر بند کھڑکی سے لگ کر کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔

اس کے ہونٹ کانپے، بھنچی ہوئی مٹھیاں تھرتھراتی انہیں اور آنکھوں کو بے دردی سے ملنے لگیں اور پھر وہ ہونٹوں کے زاویے بناکر بچوں کی طرح چلائی، ’’کمینہ بے وفا مر جائے اللہ کرے۔‘‘ اور دفعتاً اس کے پیٹ سے کوئی شے جیسے گلے میں آکر پھنس گئی اور وہ دھڑام سے زمین پر کر گئی۔

’’ہسٹریا کا دورہ ہے۔‘‘ کسی اجنبی آواز کے یہ الفاظ سن کر اس نے ایک دم آنکھیں کھول دیں اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اپنی ماں اور بہن بھائیوں اور ڈاکٹر کی موجودگی سے بے پروا۔

’’نہیں نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔‘‘ وہ سسکیوں کے درمیان کہتی رہی اور روتی رہی۔

مأخذ : سب افسانے میرے

مصنف:ہاجرہ مسرور

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here