کہانی کی کہانی:’’طبقاتی کشمکش کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ چھٹکی جو ایک فقیر کی بیٹی تھی لیکن اسے یہ پیشہ کبھی پسند نہ آیا۔ اسی لئے جب اس کے باوا کا انتقال ہو گیا تو اس نے ایک گھر میں جھاڑو پونچھا کرنے کا کام شروع کر دیا، جہاں معراجو میاں سے اس کی آشنائی ہو جاتی ہے اور اس آشنائی کا نتیجہ نکاح کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جس کا سارا ٹھیکرا چھٹکی کے سر ہی پھوڑا جاتا ہے اور معراجو میاں کو معصوم سمجھ کر بری کر دیا جاتا ہے۔ سارا خاندان جب معراجو میاں کا بائیکاٹ کر دیتا ہے تو وہ چھٹکی کے ساتھ الگ رہنے لگتے ہیں۔ چھٹکی ایک شریف اور عزت دار بیوی کی طرح اپنے حقوق منوانا چاہتی ہے جس کے نتیجہ میں ہلکی پھلکی چپقلش ہوتی ہے۔ ادھر خاندان والوں کا خون جوش مارتا ہے اور ایک تقریب میں معراجو کو چھٹکی سمیت مدعو کیا جاتا ہے لیکن وہاں چھٹکی کو ایک دسترخوان پر بٹھا کر کھانا نہیں کھلایا جاتا ہے جس سے چھٹکی دل برداشتہ ہو جاتی ہے۔ معراجو میاں جو ایک مدت کے بعد اپنے خاندان والوں کے حسن سلوک کے نشے میں ہوتے ہیں، ایک معمولی سی بات پرچھٹکی کو حرام زادی، کمینی کہہ کر گھر سے بے دخل کر دیتے ہیں۔‘‘
شام کے بڑھتے ہوئے اندھیرے میں۔۔۔
’’نکل حرام زادی۔۔۔ نکل تو کمینی۔۔۔ بھاری اور کراری آوازوں کے ساتھ ساتھ شرم و حیا کے بوجھ سے دبی ہوئی مہین مہین آوازیں اسی ایک جملے کو اونچے نیچے سروں میں رٹتے رٹتے بھیانک ہوگئیں۔۔۔ گھر کے اندر سے اس جملے کے علاوہ دھمک دھیا کا شور بھی اٹھ رہا تھا جیسے وہاں سب کے سب مل کر بڑھتی ہوئی سردی کے استقبال کے لیے موٹے موٹے لحافوں سے گرد جھاڑ رہے ہوں۔۔۔ لیکن اصل بات یہ نہ تھی کیونکہ تھوڑی ہی دیر بعد اندھیرے ڈیوڑھی کے پاٹوں پاٹ کھلے ہوئے دروازے میں سےنچے کھچے کپڑوں میں لپٹا ہوا کوئی دھم سے پکی گلی میں آگرا تو چاندی کی موٹی موٹی جھانجھیں اور چوڑیاں بڑی دلچسپ آواز میں بج اٹھیں۔۔۔ بھلا اس محلے میں سوائے چھٹکی کے کس کے زیور یوں بیچ گلی میں بج سکتے ہیں؟
دھڑاک دھڑاک کر کے دروازے کے دونوں پٹ بھنچ گئے۔۔۔ گلی میں دو رویہ مکانوں کے کچھ دروازے کھلے، چھوٹے بڑے چہرے جھانکے، آنکھوں میں حقارت آمیز ہمدردی جھلکی اور پھر کچھ نہیں۔۔۔ اچھا ہوا۔۔۔ اپنی اوقات بھول گئی تھی کمینی۔ بڑی آئی تھی کہیں کی بیگم بن کر گھر میں براجنے۔ پر یہ نہیں جانتی تھی کہ بیگمیں پیدا ہوتی ہیں بنا نہیں کرتیں۔۔۔ اور یہ پیدا بھی ہوتی ہیں تو صرف اونچے گھرانوں میں۔۔۔ مطلب یہ کہ جو ذات پات میں اونچے ہوں اور جن کے ہاں چاندی کے سکے چمکتے کھنکتے ہوں۔ یہ نہیں کہ ذات کے تو فقیر جنہیں اللہ میاں نے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کو دنیا میں اتارا ہو وہاں بیگمیں پیدا ہونےلگیں۔۔۔
ابھی چند سال پہلے کی تو بات ہے کہ انہی گلیوں میں یہی چھٹکی مزے سے ’’اللہ بھلا کرے‘‘ کی روٹی کھاتی تھی۔ باوا نے اس ایک صدا پر اتنا پایا کہ مرتے وقت قصبے کے قبرستان کے قریب اپنی زمین چھوڑی اور اس پر کھنچی ہوئی کچی چہار دیواری۔۔۔ بھلا کوئی ایم، اے۔ بی اے تو اس زمانے میں تمام عمر نوکری بجانے کے بعد اپنی قبر بنوانے کے لیے دو گز زمین خرید چھوڑے؟ مگر جب کسی کی شامت آنا ہوتی ہے تو عقل پر پتھر پڑ جاتے ہیں۔ یہی ہوا چھٹکی کے ساتھ، کہ باوا کی آنکھ بند ہوتے ہی ’’چھٹکی‘‘ سے ’’بڑکی‘‘ بننے کا خبط ہو گیا۔ وہی بات کہ جب چیونٹی کی موت آتی ہے تو اس کے پر نکل آتے ہیں۔۔۔ نہ جانے کم بخت کے گول مول سر میں یہ بات کدھر سے گھس گئی کہ بھیک مانگنا اچھا نہیں۔
فرض کیا کہ اکثر لوگ بجائے بھیک دینے کے اسے جھڑک دیتے تو کوئی اور حرکت کرتے، تو اس میں برا ماننے کی کون سی بات تھی؟ جب پیشہ ہی ایسا ٹھہرا تو اتنی اونچی ناک لے کر چلنے سے فائدہ۔۔۔ اور رہا جمن کا۔۔۔ وہی جمن بھکاری۔۔۔ اگر اس پر جان دیتا تھا تو اس میں گھبرانے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ بے چارہ جب دیکھو جب اپنی سدا بہار پھڑیوں سے بھرا ہوا لمبا سا جسم لہراتا صدقے ہوا جا رہا ہے۔
’’اری دیکھ نا چھٹکی!‘‘ وہ گھگھیا کر کہتا، ’’اکیلی رہتی ہے گھر پر، تجھے ڈر نہیں لگتا۔ سالا جمانہ کھراب ہے جو کبھی کوئی، آڑی بیڑی، پڑگئی تو تیرے ابا کی روح گور میں کلبلائے گی۔ تو میرے ساتھ رہ۔۔۔ میں سالی عیدن کو چٹیا پکڑ کر نکال دوں گا اپنے گھر سے، جو اس نے بیاہتا ہونے کے گرور میں کبھی تجھ سے جرا بھی چیں چپڑ کی، تو بلا کھٹکے آ کے رہ۔۔۔ مچے میں ہم اکٹھے بھیک مانگنے نکلا کریں گے۔ پھر تو کوئی تجھے نجر بھر کر دیکھ جائے، اللہ کسم چھٹکی! یوں آنکھیں نکال لوں یوں۔۔۔‘‘ اور یہ کہتے کہتے جمن کا ہاتھ جس پر یہاں سے وہاں تک سرخ سرخ پھڑیاں سلسلہ کوہ کے مانند پٹی پڑی تھیں، بڑھ کر کچھ ایسی، آڑی بیڑی، ڈالتا کہ چھٹکی کے چھکے چھوٹ جاتے اور پھر وہ دل ہی دل میں ہزاروں قسمیں کھاتی کہ ’’اب جو گھر سے قدم نکالوں تو کوڑھی ہو جاؤں، اللہ کرے، بھلے ہی مرجاؤں بے دانہ پانی گھر میں بند پڑے پڑے۔‘‘
اب بھلا کوئی سوچے کہ کم بخت بیٹھ جاتی جمن کے گھر تو کیا برا تھا۔ نہیں تو کیا اسے کوئی دھلا دھلایا جوان مل جاتا برادری میں؟ مزے سے باپ دادا کے پیشے سے کھاتی اور جمن کو بھی کھلاتی لیکن وہاں تو ’’بڑکی‘‘ بننے کی سوجھ رہی تھی۔ دو دن اپنے گھر میں بند پڑی رہی۔ جمن دن بھر میں بیسیوں پھیرے کرتا اور آخر کواڑ پیٹ کر چلا جاتا۔۔۔ ایسی تو خوب صورت بھی نہ تھی کم بخت، بس ذرا جوانی تھی۔ کھلتی ہوئی کلی مگر گھورے کی۔ اس پر یہ دماغ، جمن اچھا نہیں، بھیک مانگنا اچھا نہیں، تو پھر اچھا کیا تھا؟ اے لو! بس ایک دن جمن کے کان پڑی کہ چھٹکی نے چار روپیہ مہینہ اور کھانے کپڑے پر ایک کھاتے پیتے گھرانے میں دن رات کی نوکری کر لی ہے۔
بس غریب جمن منہ پیٹ کر رہ گیا۔ غصہ اتنا ضبط کیا کہ رات بھر میں اس کے جسم کی ساری پھڑیاں خون پیپ سے پچپچا گئیں۔ مگر چھٹکی تو ایسی خوش تھی کہ جیسے سارے جہان کی دولت پاگئی ہو۔ بات بات پر دانت نکلے پڑتے تھے اور زمین پر تو جیسے قدم رکھ ہی نہ رہی تھی۔ صبح سے لے کر شام تک کولہو کے بیل کی طرح کام میں جٹی رہتی۔ رات کو کہیں گیارہ بجے اپنے کھٹولے پر جانے کی نوبت آتی اور پھر صبح اذان کے وقت سے وہی دھندا۔ سانس لینے کی بھی مہلت نہ تھی۔ اس پر بھی کم بخت کی خوشی کاعالم یہ کہ چلو در در صدا لگانے سے تو یہی اچھا ہے۔ اب گھر کی بیبیوں کے علاوہ تو کسی کی کڑوی کسیلی سننے کی نوبت نہیں آتی اور سب سے بڑی بات تو یہ کہ اس گھٹلی دار جمن کے چونچلوں سے جان بچی۔ مزے سے گھر میں بیٹھی ہوں۔ اب جمن کی ہمت نہیں کہ ادھر جھانک بھی لے۔
چند مہینے تو وہ اس خوشی کے چکر میں پھنس کر خود کو بھی بھولی رہی۔ لیکن پھر ایک سمجھی بوجھی چبھن نے اسے خطرناک طریقے پر ستانا شروع کر دیا۔ جب وہ بھیک مانگا کرتی تھی تو ’’اللہ بھلا کرے گا ایک روٹی یا ایک پیسہ مل جائے۔‘‘ کی صدا لگاتے ہی اکثر گھروں سے اور چیز بھی بلا مانگے ہی مل جایا کرتی تھی۔ وہ چیز جس سے کبھی تو وہ نفرت کرتی اور کبھی محبت۔۔۔ سنسان گلیوں کی بیٹھکوں میں لیٹے بیٹھے یا حقے سے شوق فرماتے ہوئے کوئی بزرگوار اگر اسے دیکھ کر عاشقانہ تبسم کے ساتھ اس کی ہتھیلی پر پیسہ رکھتے ہوئے اس کے گول مول ہاتھ کو سہلا دیتے تو اسے ایسا لگتا کہ اس کے تلوؤں کے نیچے آتش بازی کے دو انار چھوٹ رہے ہیں۔ سررر سررر۔۔۔ اور چنگاریاں ہیں کہ سیدھی دماغ میں جاکر بجھ رہی ہیں۔۔۔ اس موقع پر اس کا جی چاہتا کہ دوچار ننگی ننگی گالیاں دے کر پسیجا ہوا پیسہ تاک کر اس طرح مارے کہ مچی ہوئی آنکھ ہمیشہ کے لیے مچ جائے۔ مزا آ جائے جو میاں جی اپنی مچی ہوئی آنکھ کی وجہ سے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے لیے بھی ایک بڑا سا اشارہ بن کر رہ جائیں۔
لیکن وہ کچھ نہ کر پاتی سوائےاپنے پیشے سے نفرت کرنے کے۔۔۔ برعکس اس کے جب کسی گھر سے اس کی صدا پر کوئی لڑکا نکل کر یونہی آنکھیں مٹکا دیتا تو چھٹکی کو ایسا محسوس ہوتا کہ سر میں ایک میٹھی میٹھی گھمری سما گئی ہے۔ ہلکا ہلکا بخار ہوگیا ہے اور ٹانگیں ہیں کہ مفلوج ہوئی جا رہی ہیں۔۔۔ بس جی چاہتا کہ دھڑام سے زمین پر گر پڑے اور آنکھیں بند کر کے اس گھمری کے مزے لیے جائے۔۔۔ پر نوبت یہاں تک پہنچنے ہی نہ پاتی۔ کیونکہ ایک آنکھ میچنے والے بزرگوار دوسری کھلی ہوئی آنکھ سے اپنے بال بچوں اور اڑوس پڑوس والوں کی نگرانی کرتے ہیں۔
’’اوری فقیرنی۔۔۔ دوسرادروازہ دیکھ۔‘‘ کسی نہ کسی طرف سے پھٹکار، بلغم آلود دھنستی ہوئی آواز میں اس طرح پڑتی کہ اس کی گھمری تو ہوا ہو جاتی۔ لیکن غصہ بھبھک اٹھتا۔
’’برا پیشہ ہے۔۔۔‘‘ وہ بڑی نفرت سےاپنے پیشے کو چن چن کر گالیاں دیتی۔۔۔ یہاں تک کہ اس نے نوکری بھی کر لی اس کارن۔۔۔ مگر اب پھر۔۔۔ مصیبت ہے۔
’’چاہے کچھ ہو جائے، اب بھیک مانگنے سے تو رہی۔۔۔ دوسرے وہ جمن پھر پیچھا پکڑے گا۔‘‘ وہ بہت دیر الجھنے کے باوجود ہمیشہ یہی فیصلہ چپکے سے صادر کر دیا کرتی۔ لیکن یہ شیطانی خواہشیں تو بس بالکل سیلولائڈ کا جاپانی ببوا ہوتی ہیں۔۔۔ وہی ببوا جس کے پیندے میں رانگے کی ٹکلی چپکی ہوتی ہے اور جسے ضدی بچے لٹانے کی لاکھ کوشش کرتے ہیں مگر وہ جھٹ بیٹھ جاتا ہے۔ کیا کیا جائے؟ اس کی تو بناوٹ ہی ایسی ہوتی ہے۔۔۔ پھر چھٹکی کی تو یہ حالت تھی کہ میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو۔۔۔ بھیک مانگنا برا، جمن برا، آنکھ میچنے والے برے۔۔۔ نوکری کرنا اچھا، گھر میں بیٹھنا اچھا۔۔۔ اب ایک اور ایسی اچھائی کی چاہت ہوئی جو جمن کی برائی کے مقابلے پر خم ٹھونک کر آجائے۔۔۔ لیکن اس کے لیے تو چراغ رخ زیبا چاہیے کہ دیکھ کر چوندھیا جائے اچھا بھلا، اور یہاں چھائی تھی سنولائی ہوئی بدلی، جس کے سائے میں چیچک کے کئی گہرے کھڈ اور موٹے موٹے مہاسوں کے ٹیلے۔۔۔ مگر یہ سب برائیاں بھی دب جایا کرتی ہیں دبائے سے۔
چھٹکی جیسی گلی گلی گھومنے والی، دنیا کو دیکھ ہی دیکھ کر بہت تاڑ چکی تھی۔ بس اب گھر کے کام کاج کے مقابلے میں اپنی بھی فکر پڑگئی۔۔۔ یا تواٹھواروں کنگھی کرنے کا ہوش نہ تھا۔ موٹی موٹی جوئیں سارے سر میں بلبلاتی پھرتیں اور چھوٹی چھوٹی الجھی ہوئی لٹیں جو موٹے دوپٹے کے ذرا ادھر ادھر ہونے سے کانوں کے پیچھے سے یوں جھانکتیں جیسے موٹے موٹے چوہے اپنےبلوں سے نکلنےکا موقع تاک رہے ہوں۔۔۔ اب وہی لٹیں چلوؤں سرسوں کے تیل سے بھگو کر دن میں دوبار چوٹی میں جکڑی جاتیں۔ کپڑے جن میں پسینے اور سانسوں کی بو اس طرح بسی رہی کہ دور ہی سے اچھے بھلے دماغ اڑنے لگیں۔ اب وہی جمعہ جمعہ نل کے نیچے بٹیوں صابن سے صاف کیے جاتے اور پھر چوڑی دار پاجامے کو پنڈلیوں پر کس کے اتنے ٹانکے دیتی کہ گھٹی ہوئی پنڈلیوں کا گوشت جیسے بوٹی بوٹی ہو کر ابل پڑتا۔
مالکن نےکچھ بھانپا تو باتوں ہی باتوں میں لتے بھی لیے چھٹکی کے۔ کیونکہ انہیں اپنے بوڑھے میاں کے جھپٹ لیے جانے کا اندیشہ پیدا ہوگیا تھا۔ لیکن چھٹکی نے نہایت بھولے پن سےاللہ رسول کی قسمیں کھا کر ان کے دل کا سارا میل دھو دیا اور چلتی رہی اپنے رخ پر۔۔۔ گھر کے مردوں میں سے جہاں کسی کی نظر باورچی خانے کی طرف اٹھی تو بس چھٹکی کی رگ رگ میں بجلی سمائی۔ نچلی بیٹھ ہی نہ پاتی۔۔۔ اگر ہنڈیا بھونتی ہوئی تو چمچہ اتنے زور سے چلاتی کہ ہاتھ کی بے تحاشہ حرکت سے دوپٹہ غریب سہم کر گلے میں لپٹنے لگتا۔۔۔ کوئی چیز اٹھانے دھرنے اٹھتی تو ا یسے قدم رکھتی کہ دیکھنے والے کا دل دہلے تو دہلے زمین بھی ہل اٹھے۔۔۔ یا کچھ نہیں تو پلی ہوئی مرغیوں کو ہنکانے کے بہانے فقرے چست کرنے لگتی۔۔۔ اور کبھی گھر کے کتے ٹامی سے باتوں ہی باتوں میں پتے کی باتیں کہنے لگتی۔۔۔ بس باورچی خانہ کیا تھا کسی تالاب کا کنارہ، جس پر چھٹکی اپنی ڈور ہنسی سنبھالے مچھلی کا شکار کھیل رہی تھی۔ اپنے کانٹے میں جوانی کا چارہ پھنسائے۔ کئی ہوشیار مچھلیاں لپکیں کہ لاؤں چارہ صفائی سے اڑا جائیں لیکن چھٹکی بھی کچی گولیاں نہیں کھیل رہی تھی۔ اسے تو ایسی موٹی مچھلی چاہیے تھی جو چارہ کھانے کے بعد ایسی پھنسے کہ وہ تمام عمر اسی کا گوشت نوچ نوچ کر پیٹ بھرتی رہے۔۔۔
تو پھنسی ایک بے وقوف مچھلی کے کانٹے میں۔۔۔ معراج میاں۔۔۔ صاحب خانہ کے بھانجے۔ نک سک سے درست، لیکن مزاج کے کڑوے اور پرلے درجے کے ضدی اور کاہل۔ انہی عیبوں کی وجہ سے وہ سارے کنبے میں بدنام تھے۔ لوگ اپنی لڑکیاں ان سے بیاہنے کے نام سے کانوں پر ہاتھ رکھتے کہ ’’نہ بابا! اپنی لونڈیا کو خون تھوڑی تھکوانا ہے جو معراجو کو بیاہ دیں۔‘‘ گھر میں بھی ان کی کوئی وقعت نہ تھی۔ جسے دیکھو ان سے کھنچا ہی رہتا۔ لیکن وہ تھے کہ سارے گھر کو جوتی کی نوک پر رکھے، باورچی خانے کے سامنے والے دالان میں چارپائی پر اوندھے پڑے ٹانگے ہلایا کرتے یا پھر دوپیسے روز پر کرائے کی لائی ہوئی ناولیں پڑھاکرتے۔ لیکن جب پلے کوڑی نہ ہونے کی وجہ سے ناولیں نہ لا سکتے اور نہ سگریٹ ہی خرید سکتے تو تھوڑی بہت جماہیاں اور انگڑائیاں لینے کے بعد ان پر خود داری کا دورہ پڑ جاتا کہ جب تک وہ خود نہ دیں گے خرچ میں بھی نہ مانگوں گا۔
یہ فیصلہ کر کے ان کی طبیعت ایسی موزوں ہوتی کہ مرغیوں، کتوں، بچوں اور نوکروں کو جما جما کر میٹھی میٹھی گالیاں دینے لگتے۔۔۔ بس خاصی مزے سے بسر ہو رہی تھی کہ چھٹکی نے پچکارا دیا۔۔۔ معراجو میاں کے لیے چھٹکی سب کی نظر بچا کر بھنا ہوا گوشت اور گھی میں تر روٹیاں کیا رکھنے لگی اور وقت بے وقت اپنی تنخواہ میں سے روپیہ دو روپیہ سگریٹ پان کے خرچ کے لیے ان کی جیب میں کیا ڈالنے لگی کہ بس وہ اسی کے ہو رہے۔ بالکل اس منحوس کنویں کی طرح جس میں کوئی گندی چیز پڑی اور وہ ابلا۔
ایک دوپہر کو چھٹکی نے مالکن سے اپنے گھر کی دیکھ بھال کے لیے چھٹی لی اور چلتی بنی۔ اس کے بعد معراجو میاں کا دل گھر میں کیسے لگتا؟ بس دھلی ہوئی شیروانی پہنی۔ بالوں میں تیل ڈالا اور اپنے ایک دوست سے ملنے چلے گئے۔ شام کو جب وہ دونوں لوٹ کر آئے تو خوب منہ رچائے اور کسی سستی سی خوشبو میں بسے ہوئے۔
’’رنڈی۔‘‘ مالکن منہ بچکا کر صرف اتنا ہی چپکے سے کہہ سکیں۔ لیکن دوسری صبح مالکن نے رات چھٹکی کے کھٹولے سے غائب ہونے پر جو باز پرس کی تو معراجو میاں نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا کہ ’’انہوں نے کل چھٹکی سے نکاح کرلیا ہے۔‘‘ ایک لمحے کے لیے جیسے سارا گھر حق دق رہ گیا۔ لو بھلا اتنا بھی ندیدہ پن کیا؟ مانا کہ کنبے کی لڑکی نہیں مل رہی تھی تو اس کا یہ مطلب تھوڑی تھا کہ کمینی کو سر چڑھا لیتے؟ اور پھر اگر ایسی ہی کوئی مجبوری تھی تو یونہی کام چلا لیتے، نکاح کی کیا ضرورت تھی؟ اب جو گھر والے بگڑے اور ذرا چھٹکی کے بال پکڑ کر دس پانچ ہاتھ مار دیے تو معراجو میاں، وہی معراجو میاں جو اپنے باپ کے مرنے کے بعد سے ماموں کی روٹیاں توڑ رہے تھے مقابلے پر آ گئے۔
بوڑھے ماموں، کو ان کی لغزشوں کا طعنہ دیا اور کنبے بھر کی ڈھکی چھپی کھولنے پر اتر آئے۔ اللہ کی شان کہ ایک بھک منگی کی خاطر ایسا ایسا کہا کہ کتے کوے بھی گھن کھائیں۔ یوں ناک کٹانے کے بعد چھٹکی کو لے کر اسی گلی کے ایک چھوٹے سے مکان میں بس گئے۔۔۔ کنبے والے ایسے شخص کے منہ کیا لگتے؟ جس پر عورت کی جوانی کا جادو چل گیا ہو۔ بس موت و زندگی کے لیے انہیں چھوڑ دینے کا عہد کرکے بیٹھ رہے۔
اب وہی معراجو میاں تھے کہ جنہیں پڑے پڑے روٹی کھانے کا چسکا تھا، کمانے کی فکر کرنے لگے۔ نوکری تو خیر ڈھونڈے نہ ملی، کیونکہ خدا کی مہربانی سے انہوں نے کوئی ڈگری تو لی نہ تھی۔ بھلا کوئی معمولی پڑھے لکھے سے غلامی کیوں کروانے لگے؟ بس انہوں نے چھٹکی کے سکھانے پڑھانے سے واشنگ کمپنی کھول لی۔ اس کے لیے چھٹکی نے اپنا گھر بیچ کر روپیہ ان کے ہاتھ پر رکھ دیا اور رفاقت جتانے کے مارے ایک سال تک گٹھریوں میلے کپڑے گھر کے نل تلے دھوتی رہی۔۔۔ یہاں تک کہ کام خوب چمک اٹھا۔ اب چھٹکی کے پوبارہ تھے۔ وہی جو کبھی لتے لگائے بھیک مانگا کرتی تھی، اب گھر میں مہین ململ کی ساریاں باندھ کر گھومتی، چاہے کم بخت کو ساری باندھنے کی تمیز نہ ہو۔ ٹخنوں سے بالشت بھر اونچی۔ سامنے سے دیکھو تو ایسا معلوم ہو کہ بس ایک بچے کی صورت میں معراجو میاں کے کھرے خاندان پر کلنک کا ٹیکہ لگا کر رہے گی۔۔۔
مگر رذیل چھپتا نہیں۔۔۔ اب یہی کہ زیور بھی بنوایا تو وہی چاندی کا۔۔۔ موٹی موٹی جھانجھیں، گلے میں سیر بھر کا چندن ہار اور کلائیاں بھر بھر کڑے چوڑیاں۔ گھر میں جب اترا کر چلتی تو سارا محلہ جھانجھوں کی جھن جھن سے گونجتا۔ سبھی تو معراجو میاں کی طبیعت پر تھڑی تھڑی کرتے کہ جانے کیسے اسے بیوی کی حیثیت سے برداشت کرتے ہیں، مگر معراجو میاں تو مارے خوشی کے اینڈتے پھرتے کہ چھٹکی جیسی عورت کسے نصیب ہوگی؟ وہی چڑیا والی کہانی کہ اس نےگھورے پر دانہ چگتے چگتے ایک ٹوٹا ہوا جھوٹا موتی پالیا۔ بس چونچ میں دبا کر راجہ کے محل کے کلس پر بیٹھ کر کہنے لگی، ’’جو میرے پاس وہ راجہ پاس نہیں۔‘‘
لو بھلا چھٹکی میں رکھا ہی کیا تھا؟ میاں کی خدمت کرنا، بیمار ہوں تو دن رات ایک کردینا، رات گئے تک روزانہ پاؤں دبانا، یا میاں کے بے پناہ غصے کی جھپٹ میں آکر دوسرے تیسرے دن پٹ لینا اور منہ سے اف نہ کرنا۔ یہی تو سب ایک جال تھا جس میں اس نےمعراجو میاں کو بے طرح پھانس رکھا تھا۔۔۔ بس یہی بات تو معراجو میاں کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔ باقی تو ہر شخص اچھی طرح سمجھ رہا تھا اور اس لیے کڑھتا۔۔۔ لاکھ کنبے برداری کے لوگ انہیں چھوڑ چکے تھے لیکن آخر اپنے خون کے جوش کو کیسے دباتے کہ معراجو میاں کے کاروبار کا سارا نفع اپنے خاندان کی کسی لڑکی پر صرف ہونے کے بجائے چھٹکی کے نیگ لگ رہا تھا۔ ایک رذیل عورت کے۔۔۔ جس نے خود کو بنانے کے لیے ایک بنا بنایا خاندان بگاڑا تھا۔
ایک دن جو معراجو میاں کی حالت زار کا گھر میں تذکرہ ہوا تو معراجو کے ماموں کا دل بھر آیا اور پھر اس وقت تک بھرا رہا جب تک کہ دو گھنٹے انتظار کرلینے کے بعد معراجو میاں کی صورت نہ دکھائی دے گئی۔ بس بڑھے اور انہیں کلیجے سے لگا لیا۔ کیسے ہمدرد ہیں یہ اگلے وقت کے لوگ۔۔۔ کہنےلگے، ’’میاں کچھ ہو، خون کی محبت مارے نہیں مرتی، اپنے جسم کا کوئی حصہ سڑ جائے تو اسے کاٹ کے تھوڑی پھینکا جاتا ہے۔۔۔ تم نے جو کچھ کیا۔۔۔ خیر تم نے تو کیا کیا؟ یہ سب اسی مردار، حرام خور چھٹکی کے لچھن ہیں۔ ورنہ تم تو خاصے بھولے بھالے تھے پھر ہائے۔۔۔‘‘ مارے رقت کے ان کی تقریر ادھوری رہ گئی اور معراجو میاں کے بھی آنسو نکل آئے۔ عرصے تک خاندان سے الگ رہ کر بڑی کمی سی محسوس کر رہے تھے۔ اب جو ماموں نے پہل کر ڈالی تو سوچا خیر اپنےماموں ہیں۔۔۔ پہلے میری عورت کے ساتھ جو برا سلوک کیا۔ اب اسے کیا کہا جائے۔
اس دن وہ بڑے خوش رہے اور اس خوشی کے سلسلے میں کئی روز تک غصہ ان کے پاس نہ پھٹکا۔۔۔ چھٹکی نےسنا تو بہت خوش ہوئی۔ خاندان والوں نے اس کا اور معراجو میاں کا بائیکاٹ کر کے اسے سخت احساس کمتری میں مبتلا کردیا تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ شریف آدمی کی منکوحہ بن کر وہ بھی شریف بی بی کہلائے گی۔ لیکن گھر والوں اور محلے والوں نے چھٹکی جیسے ذلیل سےنام کو ’’چھٹکیا‘‘ کر کے اور بھی ذلیل کر دیا تھا۔ اس نے سوچا کہ اب گھر سے میل ہو جائے گا تو سب کو رام کر لوں گی۔ خدمت کر کے۔
اس کے بعد ہی خاندان میں ایک تقریب ہوئی تو معراجو میاں کو بلاوا آیا۔ وہ خوش تو بہت ہوئے لیکن انہوں نے شرکت سے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ میری عورت کو کیوں نہیں بلایا گیا۔ اس بار تو خیر، لیکن جب خاص معراجو میاں کے ماموں کے ہاں تقریب ہوئی اور چھٹکی کو بلاوا بھی سرسری طور پر آیا تو چھٹکی اترا کر پہنچی۔۔۔ بالکل نئی دلہنوں کی طرح جو پہلی مرتبہ سسرال جاتی ہیں۔ وہی ٹخنوں سے اونچی سرخ جارجٹ کی ساری اور سرخ جالی کا جمپر کڑکڑاتے جاڑے میں زیب تن کیے، بڑا سا گھونگھٹ نکالے، جھن جھن کرتی گھر میں جا اتری۔ سب بیبیوں کو جھک جھک کر سلام کیا، ممانی اماں سے جنہیں وہ کبھی مالکن کہہ کر پکارتی تھی، بہوؤں کی طرح زبردستی گلے لگی اور بدلے میں کئی کوسنوں سے بسی ہوئی آہیں لے کر سیدھی باورچی خانے میں پہنچ گئی۔ جہاں تقریب کا کھانا تیار ہو رہا تھا۔ بس جھٹ پٹ سارا کام نبٹا لیا۔ خوش ایسی جیسے اپنے باپ کے گھر آئی ہو۔
لیکن جب رات کو بجائے سب کے ساتھ دسترخوان پر کھانا دینے کے الگ تھلگ دیا گیا تو بس اس کا منہ پھول گیا۔۔۔ گویا اسے شریف بیبیاں اپنے دسترخوان پر کھلاتیں؟ بڑی چوکھی تھی نا۔۔۔ اس بات پر جل کر اس نے گھر کی نئی ماما سے اس گھر کی کئی کنواری لڑکیوں کے بارے میں بری بری باتیں کہیں، لیکن جب رخصت ہوتے وقت اس نے دیکھا کہ معراجو میاں کو ممانی اماں گلے سے لگائے ہچکیاں بھر رہی ہیں تو جیسے اس کے سارے جسم میں مرچیں لگ گئیں۔۔۔ اپنے گھر پہنچتے ہی اس نے بیر ڈلوانے کے لئےالگ کھانا دیے جانے کی شکایت کی۔۔۔ اور معراجو میاں جو بڑی دیر سےکھوئے کھوئے سے تھے بپھر گئے۔۔۔
’’اور نہیں تو کیا تجھے سر پر بٹھا لیتے وہ لوگ؟‘‘ انہوں نے آنکھیں نکال کر کہا تو چھٹکی کے حلق میں کوئی خشک سی شے اس طرح پھول کر چھا گئی کہ اس کے منہ سےایک لفظ بھی نہ نکل سکا۔ اس کے بعد معراجو میاں کے رشتےدار ان سے اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر ملتے جلتے رہے اور چھٹکی کے حلق میں کوئی خشک سی شے دن میں کئی کئی بار اس طرح پھولتی رہی کہ وہ منہ سےایک لفظ بھی نہ نکال پاتی۔۔۔ اور وہ کہہ ہی کیا سکتی تھی۔ اسےحق ہی کون سا تھا منہ کھولنے کا؟ کیا نہیں جانتی تھی کہ غلاظت کا کیڑا غلاظت کے ڈھیر سے نکل کر اپنی موت آپ بلاتا ہے۔۔۔؟ اب وہ تمام تمام دن معراجو میاں کے رشتے داروں کو زیر لب گالیاں کوسنے دے دے کر رہ جاتی۔۔۔
جس جوانی پر اینٹھتی تھی وہی تین سال کےاندر اندر اسے دغا دے گئی اور جانے کون سی خاموش بیماری نے زور پکڑا کہ چہرہ دیکھ کر گھن آجائے۔۔۔ بس دن کا زیادہ حصہ وہ کھری چارپائی پر اوندھی پڑ کر اور کمر سہلا سہلا کر گالیاں بکتے گزار دیتی۔۔۔ لیکن معراجو میاں کے گھر میں داخل ہوتے ہی جھٹ اپنے بچھائے ہوئے جال کے گھسے پٹے پھندوں میں گانٹھیں دینے لگتی۔ پہلے سے کہیں بڑھ کر خدمت کرتی، پر اب خدا نےمعراجو میاں کے کنبے والوں کی معرفت آنکھیں کھلوانا شروع کردی تھیں۔ اس لیے تو اب چھٹکی کی یہ چلتر بازیاں انہیں زہر لگنے لگتی تھیں۔ اس لیے وہ آئے دن کسی نہ کسی بات پر رکھ کر اس جان و عزت کے روگ کی پٹائی کر دیتے۔۔۔ مگر واہ ری بے حیا چھٹکی۔۔۔ اپنی سی کوشش کیے ہی گئی۔۔۔
آخر ایک دن مہترانی نے چھٹکی کے پاندان سے کھائی ہوئی تمباکو کے نشے میں جھوم کر بتایا کہ۔ ’’معراجو میاں تو دوسرا بیاہ کرنے والے ہیں۔‘‘ بس تڑپ ہی تو اٹھی۔ ڈس کر بھاگتی ہوئی ناگن خود چوٹ کھاکر زہریلے بل کھانے لگی۔
’’اری کس سے؟‘‘
’’وہی جو ہیں نا عزیزہ بیٹا۔۔۔ بڑا مخول کرتی ہیں معراجو میاں سے ان دنوں۔‘‘ مہترانی نے تو یہ پھونک کرجھوا اٹھایا اور چلتی بنی لیکن چھٹکی نے اپنا پھیکا ستا ہوا منہ پیٹ پیٹ کر وہ ہائے توبہ کی کہ سارے محلے کے کان کھڑے ہوگئے۔۔۔ بیچاری عزیزہ کے لیے جانے کہاں سے پچاسوں ننگے ننگے قصے جوڑ کر ذرا ہی دیر میں سارے محلے میں براڈ کاسٹ کر دیے۔ عزیزہ بیٹا نے سنا تو کلیجہ پکڑ کر رہ گئیں۔ ’’افوہ! یہ کمینی اور میرے لیے کہے؟‘‘ ان کی آنکھوں سے آنسو روکے نہ رکتے۔ مانا کہ وہ معراجو میاں سےادھر کچھ دن سے محبت کرنے لگی تھی لیکن اس کا یہ مطلب تھوڑی تھا کہ وہ چھٹکی سے بھی پہلے انہیں چاہتی تھی۔ بھلا وہ اس وقت تھے ہی کیا جو کوئی انہیں منہ لگاتا؟
معراجو میاں نے شام کو عزیزہ کا چہرہ دیکھا جو روتے روتے چقندر بنا ہوا تھا اور بار بار ناک پونچھنے کی وجہ سے تو جیسے ناک سے خون ٹپکتا معلوم ہو رہا تھا۔ بس یہ دیکھ کر ان کا کلیجہ جیسے خون ہو کر رہ گیا۔ اتنے دن بعد تو گھر کی ایک لڑکی نے محبت سے آنکھیں ملائی تھیں۔۔۔ گھر والوں کی زبانی جب انہوں چھٹکی کے خیالات عزیزہ کے متعلق سنے تو آپ میں نہ رہے۔ بس انہیں ایسا محسوس ہوا کہ اب تک وہ اپنے جوتے سر رکھے پھر رہے تھے۔۔۔ تنتنا کر اٹھے۔۔۔ پیچھے سے برقع اوڑھ کر ممانی، عزیزہ اور عزیزہ کی اماں، ساتھ ہی گھر کے دوچارمرد۔۔۔ مجاہدوں کی شان سے۔۔۔
’’نکل حرام زادی۔۔۔ نکل تو کمینی۔۔۔‘‘ دھڑاک دھڑاک کرکے دروازے کے دونوں پٹ بھنچ گئے۔۔۔
شام کے ہلکے سے اندھیرے کو رات کی گہری تاریکی نگل چکی تھی۔۔۔ اور گلی کی ٹھنڈی پختہ زمین پر چھٹکی نالی میں سر ڈالے بے حس و حرکت پڑی تھی۔ درد سےاس کا جسم پھوڑا ہو رہا تھا، سر میں میٹھی میٹھی گھمری تھی اور ہونٹوں پر ننگی ننگی گالیاں۔۔۔
دھت! کمینی۔۔۔!
مأخذ : سب افسانے میرے
مصنف:ہاجرہ مسرور