کہانی کی کہانی:‘‘ذہنی طور پر معذور ایک یتیم لڑکی کی کہانی جو گاؤں کے لوگوں کی خدمت کر کے اپنا پیٹ پالتی ہے۔ گاؤں کے پاس ہی چن شاہ کی مزار تھی جہاں ہر سال عرس لگتا تھا۔ اس سال وہ بھی چن شاہ کے عرس کے میلے میں گئی تھی اور وہاں اسے حمل ٹھہر گیا۔ گاؤں والوں کو اس کے حمل کے بارے میں پتہ چلا تو انھوں نے اسے گاؤں سے باہر نکال دیا۔ اگلے سال وہ اپنے نوزائیدہ بچے کے ساتھ پھر چن شاہ کی مزار پر نمودار ہو گئی۔’’
اس کا اپنا گھر تو کوئی تھا ہی نہیں مگر گاؤں کے ہر گھر کو وہ اپنا ہی گھر سمجھتی تھی۔ دن میں وہ کبھی کسی گھر میں دکھائی دیتی کبھی کسی گھر میں۔ کبھی ذیل دار کے ہاں تمباکو کوٹ رہی ہوتی کبھی شمے گوجر کے ہاں چھاچھ بلورہی ہوتی۔ کبھی مائی تاباں کے ساتھ اس کچی دیوار پر جس نے سارے گاؤں کا احاطہ کر رکھا تھا، اپلے تھاپتی دکھائی دیتی۔ غرض جب دیکھو وہ گاؤں والوں کے کسی نہ کسی کام میں جٹی ہی نظر آتی۔
کسی کسی روز وہ گاؤں والوں کی بکریاں اس پہاڑی پر چرانے لے جاتی جس پر چن شاہ ولی کا مزار تھا۔ اور جہاں پیڑوں اور جھاڑیوں پر رنگ برنگے جھنڈے بارہ مہینے لہرایا کرتے۔ یہ جھنڈے آس پاس کے دیہات کے ان زائرین نے باندھے تھے جن کی مرادیں چن شاہ ولی کے فیض سے پوری ہوگئی تھیں۔
یہ وہ سارے کام ہنسی خوشی کیا کرتی، اور صلے کا کبھی خیال تک اس کے ذہن میں نہ آتا۔ کسی نے کچھ روکھا سوکھا دے دیا تو کھا لیا۔ کہیں سے کوئی پھٹا پرانا کپڑا مل گیا تو پہن لیا، ور نہ اپنے حال میں مست رہاکرتی۔ اس کی اوڑھنی میں جگہ جگہ چھید تھے جن میں سے اس کے لمبے بھورے بال دھول اور تنکوں سے اٹے ہوئے کسی سادھو کی جٹا کی طرح دکھائی دیتے۔
وہ اسی گاؤں کی ایک نائن کی بیٹی تھی۔ با پ کی اس نے صورت نہیں دیکھی تھی۔ چار برس کی ہوئی تو ماں بھی چل بسی۔ اور کوئی رشتے دار تھا نہیں، بس گاؤں ہی میں رل رلا کر پل گئی۔ گاؤں کی ہر عورت خواہ وہ ذیل دارنی ہوتی یا مہترانی اس کی ’’چاچی‘‘ تھی۔ اور گاؤں کا ہر مرد اس کا ’’چاچا۔‘‘
پندرہ برس کی عمر کو پہنچ کر اس نے خوب ہاتھ پاؤں نکالے، روپ بھی نکھر آیا۔ آنکھیں بڑی بڑی اور رسیلی جیسی ہرنیوں کی۔ شروع شروع میں جس کسی نے دیکھا حیران رہ گیا اور دل میں کہنے لگا، ’’ارے یہ وہی نائن کی چندھی لونڈیا کاکی ہے جو چھ سات برس ادھرننگ دھڑنگ نالیوں میں لوٹا کرتی تھی!‘‘
کاکی کی عمر چار پانچ برس ہی کی تھی کہ اس میں مجذوبیت کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ اگر ماں باپ زندہ ہوتے تو شاید اس کے علاج کی کچھ فکر کرتے۔ یا کم سے کم اسے شعور کی کچھ باتیں ہی سکھاتے۔ گاؤں والوں کو تو اس کی پروا تھی نہ ضرورت۔ ان کی ہمدردی تو بس یہیں تک تھی کہ کبھی کبھی اس کے ہاتھ میں گڑ کی بھیلی یا گاجر پکڑادی۔ وہ جوں جوں بڑی ہوتی گئی اس کے اور اعضاء تو نشوونما پاتے رہے مگر دماغ کمزور ہی رہا۔ جوانی کو پہنچ کر بھی وہ مجذوب کی مجذوب ہی رہی۔ مگر اس کا یہ مرض گاؤں والوں کے لیے بڑے فائدے کاموجب تھا۔ کیونکہ وہ دن بھر اس سے طرح طرح کے کام لیتے رہتے، جنہیں وہ ناسمجھی میں بے تکان کرتی رہتی۔
کاکی نے اپنے دماغ کی کمزور کی باوجود ایک بات میں بڑی ترقی کی تھی وہ یہ کہ اس کی زبان خوب چلنے لگی تھی۔ جس گھر میں بھی جاتی اپنی اوٹ پٹانگ باتوں سے اس کے مکینوں کا دماغ چاٹ جایا کرتی۔ جب بات کرنے کو کوئی نہ ملتا تو آپ ہی آپ بولتی رہتی۔ کبھی کبھی اسے مارا پیٹا بھی جاتا۔ مگر جلد ہی گھر کی کوئی بڑی بوڑھی اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے اسے بہلا لیتی، اور یہ خطرہ دور ہوجاتا کہ کہیں وہ ناراض ہوکر اس گھر کاآنا جانا ہی بند کردے۔
جب کاکی کے کپڑے بہت میلے ہوجاتے تو پٹواری کی بیوی اسے صابن کا ایک ٹکڑا دے کر کہتی، ’’کاکی تیرے کپڑوں سے بڑی بدبو آنے لگی ہے۔ جا انگنائی میں بیٹھ کر انہیں دھولے۔‘‘ کاکی انکار کرتی تو پٹوارن زبردستی اس کے کپڑے اترواکر اس سے دھلواتی۔ شلوار یا کرتاکہیں سے پھٹا ہوتا تو اسے سوئی دھاگا دیا جاتا مگر کاکی سینا پرونا نہ جانتی تھی۔ اس پر پٹوارن کو خود ہی اس کے پھٹے ہوئے کپڑے سینے پڑتے۔ مگر اس کے عوض کاکی کو گھنٹوں پٹوارن کی کمر دابنی پڑتی۔
جس روز کاکی گاؤں والوں کی بکریاں چرانے لے جاتی، اسے کسی نہ کسی گھر سے بیسن کی دو روٹیاں اور تھوڑا سا مکھن ایک پوٹلی میں باندھ کر دے دیا جاتا۔ پہاڑی پر پہنچ کر بکریا ں اپنے آپ چرتی رہتیں اور وہ خود بھی ان ہی کی طرح ادھر ادھر گھومتی رہتی۔ وہ اونچے اونچے سپاٹ ٹیلوں پر بے دھڑک چڑھ جاتی۔ کبھی کسی درخت کی اونچی ڈال پر چڑھ بیٹھتی، کبھی کسی جھاڑی کے نیچے ٹھنڈی ٹھنڈی زمین پر لیٹ جاتی اور آپ ہی آپ باتیں کرنے لگتی، یا دور سے آتی ہوئی رہٹ کی گھوں گھوں سنتی رہتی۔ کبھی پہاڑ کی چوٹی پر جاپہنچتی، جہاں سے ایک طرف چن شاہ ولی کے مقبرے کا سبز گنبد نظر آتا اور دوسری طرف گاؤں کابڑا سہانا منظر دکھائی دیتا۔
منالی کی آبادی چار پانچ سونفوس سے زیادہ نہ تھی۔ یہ ویسا ہی کچے گھروندوں کا بے ترتیب مجموعہ تھاجیسے پنجاب کے اور گاؤں ہوتے ہیں۔ گرداگرد کچی دیوار جس پر اپلے تھپے ہوئے، بیچوں بیچ بے ڈھنگی سڑک کہیں سے تنگ کہیں سے کشادہ، پیچ کھاتی اور قریب قریب ہر گھر کے آگے سے گزرتی ہوئی۔ سڑک کے دونوں طرف بیل گاڑیوں کے پہیوں نے مستقل طور پر نالیاں سی بنادی تھیں۔ جب کیچڑ نہ ہوتی تو ان نالیوں میں پہیے بڑی روانی سے چلتے اور بیلوں کو زور نہ لگانا پڑتا۔ گاؤں کی دیوار پر صبح ہی سے بہت سے کوے آبیٹھتے اور دن بھر کائیں کائیں کا شور برپا رکھتے۔ ان کے علاوہ گاؤں کے لڑکے بھی کھدر کے میلے کچیلے کرتے پہنے، ننگی ٹانگیں، بعض لنگوٹی اور بعض صرف ایک دھاگا سا کمر پر باندھ کر دیوار پر ایک ٹانگ ادھر ایک ٹانگ ادھر گھوڑے کی سی سواری کرتے نظر آتے۔
منالی میں دو تین مکان پختہ اینٹوں کے بنے ہوئے بھی تھے۔ مگر یہ گاؤں کی دیوار سے باہر کھیتوں کے بیچ میں تھے۔ ان میں ایک بڑا مکان تو ذیل دار کا تھا، اور دوسرا اس سے ذرا فاصلے پر چھوٹا مکان پٹواری کا۔ کاکی کا آنا جانا زیادہ تر انہیں دو مکانوں میں رہتا تھا۔ منالی تھا تو چھوٹا ساگاؤں مگر چن شاہ ولی کے مزار کے باعث اس کی شہرت دور دور پھیلی ہوئی تھی۔ ہرسال چیت کی پچیسویں تاریخ کو بڑی دھوم دھام سے عرس منایا جاتا، جس میں شامل ہونے کے لیے پچاس پچاس کوس سے زائرین بچوں سمیت آیا کرتے تھے۔
چن شاہ بڑے زبردست ولی مانے جاتے تھے۔ مشہور تھا کہ جو کوئی عرس کے روز ان کے مزار پر آکر مراد مانگے، خاص کر اولاد کی مراد، تو وہ جلد ہی یا کچھ عرصے بعد پوری ہو کے رہتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ دیہاتی عورتیں خاص طور پر چن شاہ ولی کی بڑی معتقد تھیں۔ ان کی ایک کرامت یہ بھی تھی کہ مراد مانگنے والی کو پہلے ہی سے معلوم ہو جاتا کہ میری تمنا برآئے گی یا نہیں۔ اگر برآنے والی ہوتی تو چن شاہ ولی خود سائلہ کے خواب میں آکر اس کی بشارت دیتے۔ یہ بشارت کیا تھی سرخ گلاب کا ایک پھول۔ ولی سفید گھوڑے پر سوار ہاتھ میں پھول تھامے، جسے وہ بار بار سونگھتے، سائلہ کے پاس سے گزرتے، اور وہ پھول اس کی جھولی میں پھینک دیتے۔ آنکھ کھلنے پر جب سائلہ گھر کے لوگوں کو یہ مژدہ سناتی تو سب اسے مبارک باد دینے لگتے۔ چن شاہ ولی کی ان کرامتوں کے تذکرے گاؤں کے ہر گھر میں اکثر ہوتے رہتے تھے۔ کاکی بڑے غور سے ان باتوں کو سناکرتی۔ کبھی کبھی وہ خود بھی کوئی بات پوچھنے لگتی،
’’اچھا چاچی! جب چن شاہ ولی نے تیری جھولی میں پھول پھینکا تو وہ پیدل تھا یا گھوڑے پر؟‘‘
’’گھوڑے پر۔‘‘
’’وہ شکل و صورت کا کیسا تھا؟ بڈھا تھا یا جوان؟‘‘
’’چپ کر پگلی، کنواری لڑکیاں ایسی باتیں منہ سے نہیں نکالتیں۔‘‘
’’کیوں کنواری لڑکیوں کو کیا ہوتا ہے؟‘‘
گھر کی مالکہ کے پاس اس کاکوئی جواب نہ ہوتا۔ اور ادھر کاکی جواب کا انتظار کیے بغیر چن شاہ کے بارے میں کوئی اور بات پوچھنے لگتی اور مالکہ کو خواہ مخواہ کوئی کام پیدا کرکے کاکی کو اس میں الجھا دینا پڑتا۔
تیسرے پہر وہ بکریوں کو ہانکتی ہوئی پہاڑی پر سے اترتی۔ گاؤں میں پہنچ کر بکریاں تو اپنے اپنے ٹھکانے پر خود بخود چلی جاتیں اور وہ سیدھی مولے گنڈیری والے کی دکان پر پہنچتی اور اس سے گانٹھیں مانگتی۔ مولا گنڈیریاں توگنے کے موسم ہی میں بیچا کرتا تھا مگر سارا سال وہ اسی نام سے یاد کیاجاتا تھا، خواہ اس نے گڑ کی ریوڑیوں، میٹھے چنوں اور دال مونٹھ کا خوانچہ ہی کیوں نہ لگارکھا ہو۔ یہ شخص سیاہ فام اور بدرو تھا۔ اس پر چیچک میں اس کی ایک آنکھ بھی جاتی رہی تھی۔ چالیس کے قریب عمر تھی۔ دس سال ہوئے اس کی بیوی مرگئی تھی مگر اس نے دوسری شادی نہیں کی تھی۔ بس دن بھر اپنی ایک آنکھ سے گاؤں کی لڑکیوں کو گھورا کرتا۔
وہ کاکی کو اس وقت سے جانتا تھاجب وہ پانچ چھ برس کی بچی تھی اور عموماً ننگی پھرا کرتی تھی۔ اسی وقت سے وہ اس کے پاس گانٹھیں مانگنے آنے لگی تھی۔ کاکی کو دیکھ کر وہ حیران ہوتا کہ لڑکیاں کتنی جلدی جوان ہوجاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس کی نگاہیں کاکی کے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے کپڑوں پر پڑتیں، جن میں سے اس کے سڈول گھٹنے یا سفید سینے کاکچھ حصہ دکھائی دے رہا ہوتا اور اس کا دل خواہ مخواہ کاکی سے حجت بازی کرنے کو چاہتا،
’’گانٹھیں نہیں ہیں، پھر آنا۔‘‘
’’وہ جو پڑی ہیں چاچا تیرے گھٹنے کے نیچے۔‘‘
’’یہ میں نے اپنے لیے رکھی ہیں۔‘‘
’’تو گنڈیریاں کیوں نہیں چوستا چاچا؟‘‘
’’واہ۔ گنڈیریاں چوسوں تو بیچوں کیا۔۔۔! میں کہتا ہوں کاکی، تو دن بھر جن لوگوں کے کام کرتی رہتی ہے، ان سے پیسے کیوں نہیں مانگتی۔ پھر تو جتنی چاہے گنڈیریاں چوس سکتی ہے۔ گانٹھوں سے تیرے دانت نہیں دکھتے۔‘‘
’’نہیں اللہ کی سوں۔ مجھے گانٹھیں ہی اچھی لگتی ہیں۔۔۔ لا چاچا جلدی گانٹھیں دے دے۔ دیر ہو رہی ہے۔‘‘
اور مولا دوچار گانٹھیں اسے دے ہی دیتا۔
چیت کا مہینہ نصف سے زیادہ گزر چکاتھا۔ چن شاہ ولی کے عرس کی تاریخ قریب آرہی تھی۔ چونکہ یہ عرس ایسے زمانے میں ہوتا جب دیہاتی فصل کی کٹائی سے فارغ ہوچکے ہوتے اور اپنی محنتوں کا صلہ پاکر خوش حالی کی ایک ہلکی سی جھلک ان کی زندگیوں میں نظر آنے لگتی۔ اس لیے وہ خوشی خوشی اپنی اپنی بساط کے مطابق عرس کی تیاریاں کرنے لگتے۔
چن شاہ کے مزار کا پرانا مجاور جس کانام جیون سائیں تھا، مزار کے آس پاس کی زمین کو جھاڑ جھنکار سے صاف کرتا نظر آنے لگا۔ اس نے گاؤں والوں سے دو جوان مانگے اور ان کی مدد سے مزار کی دیواروں اور برجیوں پر سفیدی کی اور گنبد پرسبز رنگ کیا۔ ادھر گاؤں کی عورتوں میں ہر وقت چن شاہ ولی ہی کا ذکر رہنے لگا۔ وہ ہر روز پہلے سے بھی زیادہ بے تابی کے ساتھ عرس کے دن کا انتظار کرنے لگیں۔
اب کے جن عورتوں کو مراد مانگنی تھی، ان میں گاؤں کے ذیل دار کی بیوی بھی تھی، جس کانام خیر النساء تھا۔ وہ ایک موٹی پھپھس بدمزاج اور غصہ ور عورت تھی۔ چند مہینوں سے وہ کاکی کو بہلاپھسلا کر زیادہ تر اپنے پاس ہی رکھنے لگی تھی۔ وہ اس سے طرح طرح کی محنت مشقت کے کام لیا کرتی۔ جب عرس کے دن قریب آئے تو اس نے کچھ تو کاکی کی خدمت گزاریوں کے صلے میں اور کچھ مراد انگنے کی خوشی میں اسے گھٹیا جاپانی ریشم کاایک سوٹ سلوادیا، جس پر گلاب کے بڑے بڑے پھول چھپے ہوئے تھے۔
جب عرس کا دن آیا تو خیرالنساء نے کاکی کو گرم پانی سے خوب نہلوایا۔ گھر کی ایک بوڑھی عورت نے اس کے سر میں سرسوں کا تیل ڈال کر کنگھی کی اور ایک سرخ چٹلا اس کی چوٹی میں گوندھا گیا، جو اس کے بھورے بالوں پر خوب سجنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں کاجل ڈالا گیا۔ ریشمی کپڑوں اور بناؤ سنگھار سے اس کا روپ کئی گنا بڑھ گیا اور وہ کسی زمیندار کی بہو بیٹی معلوم ہونے لگی۔
’’کاکی!‘‘ ذیل دارنی نے کہا، ’’تو میرے ساتھ ساتھ ہی رہیو۔‘‘
’’اچھا چاچی۔‘‘
’’جانے کن کن گاؤں سے لوگ آئیں گے۔ ان میں شریف بھی ہوں گے، بدمعاش بھی۔ اور کہیں کوئی تجھے بھگالے جائے۔‘‘
’’نہیں چاچی۔‘‘
’’اور جب میں مزار پر دعا مانگنے بیٹھوں، تو تو بھی میرے پاس ہی بیٹھ جائیو۔‘‘
’’چاچی تیری تو اولاد ہے تو مراد کیوں مانگے گی؟‘‘
’’میرے اب تک لڑکیاں ہی ہوئی ہیں۔ میری تمنا ہے چن شاہ ولی مجھے ایک چاند سا بیٹا بھی دیں۔‘‘
کاکی کسی گہری سوچ میں ڈوب گئی۔
’’چاچی میں بھی مرادمانگوں گی،‘‘
’’ہٹ پگلی! تیرا ابھی بیاہ ہی کب ہوا ہے۔‘‘
’’تو میرا بیاہ کب ہوگا؟‘‘
’’چپ کمبخت! کیسی باتیں منھ سے نکالتی ہے۔‘‘
کاکی کچھ اور پوچھنا چاہتی تھی کہ خیرالنساء نے زور سے اس کی چٹیا کھینچ کر اسے چپ کرادیا۔
چن شاہ ولی کامزار زیادہ دور نہیں تھا۔ اس لیے ذیل دارنی، کاکی اور چند رشتہ دار عورتوں کے ساتھ پیدل ہی پہاڑی کی طر ف روانہ ہوگئی۔ اس روز ابھی تڑکا ہی تھا کہ دور دور کے گاؤں سے عورتوں اور بچوں سے بھری ہوئی بیل گاڑیاں آنی شروع ہوگئی تھیں۔ مرد ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ ان میں کچھ گھوڑوں پر بھی سوار تھے یہ گاؤں کے بانکے سجیلے نوجوان تھے۔ رنگ دارلنگیاں باندھے، بوسکی کی قمیصیں پہنے، چاندی کے بٹن لگائے خواہ مخواہ گھوڑے کو ایڑبتاتے اور ٹخ ٹخ کرتے چلے آتے تھے۔ کبھی یہ بھی دیکھنے میں آتا کہ میاں آگے گھوڑے پر بیٹھا ہے، بیوی پیچھے بیٹھی ہے۔ بیوی نے ایک ہاتھ سے میاں کی کمر پکڑ رکھی ہے اور دوسرے ہاتھ سے بچے کو سہارا دے رکھا ہے جو ان دونوں کے بیچ ماں کی چھاتی سے چمٹا دودھ پی رہا ہے۔
بہت سی عورتیں جن کے گاؤں قریب ہی تھے، ٹولیاں بناکر پیدل آرہی تھیں۔ ان میں ہر عمر کی عورتیں تھیں۔ نئی نویلیاں پور پور مہندی رچی ہوئی، سرخ جوڑا سرخ دوپٹہ جس میں چنٹیں پڑی ہوئیں، کناروں پر گوٹا ٹکا ہوا، ہونٹ کثرت سے دنداسہ ملنے کی وجہ سے سیاہی مائل پیازی ہوگئے تھے اور آنکھوں سے کاجل بہا جاتا تھا۔ ادھیڑ عمر کی دیہاتنیں، لمبی تڑنگی، ان کی اور ہی وضع تھی۔ موٹی ململ کے کرتے، کھدر کی شلواریں جنہیں ہلکا ہلکا نیل دیا ہوا۔ سر اور سینے کولٹھے کی چادر میں چھپائے۔ چلتے وقت ان کی گردن سیدھی اور نگاہیں سامنے رہتی تھیں۔ یہ عادت انہیں سالہا سال سر پر بدنے اورمٹکے یا اناج کی گٹھریاں بغیر ہاتھوں کے سہارے اٹھاکر چلنے کے باعث آپ ہی آپ پڑگئی تھی۔
مزار سے ذرا فاصلے پر ایک جگہ کو ہموار کرکے میدان سا بنالیا گیا تھا، جہاں لنگر کی دیگیں چڑھا دی گئی تھیں۔ آس پاس کے چھوٹے چھوٹے قصبوں سے کچھ دکاندار سستے کھلونے لے آئے تھے اور زمین پر چادریں بچھاکر دکانیں سجادی تھیں۔ کچھ لوگ بانس کی چھتریوں پر غبارے، پھرکیاں، پہیے، ببوے وغیرہ دھاگوں سے لٹکائے خود بین باجا بجاتے ہوئے میلے کی رونق بڑھا رہے تھے۔
ایک طرف پہاڑی کے نیچے چرخ اور گنڈولے گڑے تھے۔ جن کی چرخ چوں سے پیہم ایک گونج سی سنائی دے رہی تھی۔ بچوں کے علاوہ خاصی بڑی عمر والے مرد بھی چرخ پر بیٹھے شور غل مچا رہے تھے۔ کبھی کبھی دوچار منچلی عورتیں بھی ہنڈولوں میں بیٹھ جاتیں اور جب ہنڈولا اوپر آسمان کی طرف جاتا تو وہ ڈر کر چیخنے لگتیں اور اپنے بچوں کو اور بھی بھینچ کر سینوں سے چمٹالیتیں۔ کئی پیڑوں میں جھولے پڑے تھے۔ جن میں کہیں عورتیں اور کہیں مرد پینگیں بڑھا رہے تھے۔
سہ پہر ہوتے ہوتے اتنی مخلوق جمع ہوگئی کہ پہاڑی پر چلنا پھرنا مشکل ہوگیا۔ زمین کے علاوہ پہاڑی کے سب پیڑوں کی ڈالوں پر بھی آدمی ہی آدمی نظر آنے لگے۔ جوزائرین مراد مانگنے آئے تھے وہ پہاڑی پر چڑھ کر مزار کے اندر پہنچتے اور قبر کر سرہانے یا پائنتی جہاں بھی جگہ مل جاتی، بیٹھ کر خضوع و خشوع کے ساتھ دعا میں مشغول ہوجاتے۔ قبر پر سبز رنگ کی نئی ریشمی چادر ڈال دی گئی تھی۔ زائرین پھول اور چڑھاوے اسی پر چڑھاتے تھے۔
ذیل دارنی نے اپنے قافلے کے ساتھ ایک گھنے پیڑ کے نیچے ڈیرا جمایا تھا۔ وہ شام کے قریب پھولوں کی چادر، لڈو اور نذر کی دوسری چیزیں لے کر مراد مانگنے گئی۔ کاکی اور دو ایک عورتیں اس کے ہم راہ تھیں۔ قبر کے سرہانے تھوڑی سی خالی جگہ دیکھ کر انہوں نے جلدی سے اس پر قبضہ جما لیا اور ٹھنس ٹھنساکر وہیں بیٹھ گئیں۔ پھر ذیل دارنی اور دوسری عورتوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ کاکی نے بھی ان کی پیروی کی اور منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگی۔ آخر دعا ختم ہوئی اور یہ عورتیں مزار سے نکل کر پھر اسی پیڑ کے نیچے اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئیں۔
اب شام کا اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ ہرچند گیسوں کا انتظام کیا گیا تھا مگر ان کی تعداد دوتین سے زیادہ نہ تھی۔ ایک گیس مزار کی کوٹھری کے باہر صحن میں رکھا گیا تھا۔ ایک پہاڑی راستے کے بیچوں بیچ تاکہ زائرین کو ٹھوکر نہ لگے۔ اور ایک اس جگہ جہاں لنگر تقسیم کیا جانا تھا۔ باقی تمام جگہوں پر تیل کی کپیاں، چراغ یا مشعلیں جلائی گئیں تھیں۔ کچھ لوگ گھر سے لالٹین لے آئے تھے، وہ بھی کہیں کہیں روشن تھیں۔ مگر ان سب کی روشنی اتنی مدھم تھی کہ ہر طرف نیم تاریکی چھائی ہوئی تھی۔
رسم کے مطابق سب زائرین کو رات یہیں گزارنی تھی۔ دیہات کے لوگ اور خاص طور عورتیں رات کو جلد ہی سوجانے کی عادی ہوتی ہیں۔ اس پر میلہ دیکھنے اور گھومنے پھرنے سے وہ تھک کر چور ہوگئی تھیں۔ بعض نے تو لنگر کا بھی انتظار نہ کیا اور دریوں اور چٹائیوں پر جہاں جگہ ملی، پڑکر سوگئیں۔ رات کو نو بجے کے قریب لنگر تقسیم کیا گیا اور میلے میں ایک مرتبہ پھر چہل پہل پیدا ہوگئی۔ آخر دس بجتے بجتے یہ ہنگامہ بھی ختم ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی زائرین کی بیشتر تعداد کو نیند نے بے سدھ کر دیا۔
کاکی ذیل دارنی کے پائنتی لیٹی ہوئی تھی۔ عرس کی ریل پیل، ہنگامے، کھیل کود، شورغل، بھانت بھانت کی صورتیں، عورتوں کا چن شاہ ولی کے مزار پر جانا اور اولاد کی مراد مانگنا، دن بھر یہ سب تماشے دیکھ دیکھ کر اس کے کمزور دماغ میں ایک ہیجان پیدا ہوگیا تھا، جس سے اس کی نیند اڑ گئی تھی۔ کچھ دیر تو وہ یونہی پڑی رہی۔ پھر اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پہاڑی پر اب بھی کہیں کہیں لوگ ہنس بول رہے تھے۔ ایک طرف ذرا فاصلے پر ملنگوں کی منڈلی جمی ہوئی تھی اور کچھ لوگ مٹکے کی لے کے ساتھ گارہے تھے،
’’چل سنتاں دے سنگ نی جے توں ہونا سنت نی۔‘‘
اس منڈلی سے بار بار ایک شعلہ اندھیرے میں لپکتا اور لمحہ بھر کو بعض شکلوں کو اجاگر کردیتا۔ کاکی کچھ دیر یہ منظر دیکھتی رہی۔ پھر وہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ اس وقت ذیل دارنی اور دوسری عورتیں نیند میں مدہوش تھیں۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی اس منڈلی کی طرف جانے لگی۔ جب ذراقریب پہنچی تو ایک گرے ہوئے درخت کا تنا نظر آیا اور وہ اس پر بیٹھ گئی۔ یہاں سے اسے وہ شعلہ زیادہ روشن اور اوپر اٹھتا ہوا دکھائی دینے لگا اور وہ پہلے سے بھی زیادہ انہماک کے ساتھ یہ تماشہ دیکھنے لگی۔
تھوڑی دیر میں اس منڈلی میں سے ایک آدمی اٹھا اور زور زور سے کھانستا ہوا اس طرف آنے لگا جدھر کاکی درخت کے تنے پر بیٹھی تھی۔ کاکی نے اسے جھٹ پہچان لیا، ’’چاچا مولا تو یہاں کیا کر رہاہے؟‘‘
’’تو کون ہے؟‘‘
’’واہ مجھے نہیں پہچانا۔‘‘
مولے نے اپنی واحد آنکھ کو ملا اور بے اختیار بول اٹھا، ’’اوہو ہوہو۔ بھئی واہ یہ تو اپنی کاکی ہے۔‘‘ اس نے کاکی کو ہمیشہ برے حال میں دیکھا تھا۔ مگر اب اس کایہ رنگ ڈھنگ دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گیا۔
’’بھئی رب کی سوں کا کی، تو ان کپڑوں میں بڑی خوبصورت لگ رہی ہے۔‘‘
’’چاچا یہ کپڑے ذیل دارنی نے سلوائے ہیں۔‘‘
’’اچھا! شاباش ہے بھئی۔‘‘
’’چاچا تجھے ایک بات بتاؤں۔‘‘
’’بتا۔‘‘
’’جب ذیل دارنی نے لڑکے کی مراد مانگی، تو میں نے بھی لڑکے کی دعا مانگی۔ آہاہاجی۔ چاچا یہ بات ذیل دارنی کو نہ بتانا۔‘‘
مولے نے کچھ جواب نہ دیا۔ اس کا دماغ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ عین اس وقت منڈلی سے پھر ایک شعلہ لپکا۔ کاکی اسے دیکھتے ہی چلا اٹھی،
’’چاچا۔ یہ آگ سی کیا نکلتی ہے؟‘‘
’’کون سی آگ؟‘‘
’’وہ دیکھو پھر نکلی۔‘‘
اس اثنا میں کئی شعلے پے درپے لپکے۔ مولے نے دیکھا تو مسکرانے لگا، ’’اس کو لاٹ کہتے ہیں پگلی۔ تو نے یہ لاٹ پہلے کبھی نہیں دیکھی؟‘‘
’’کبھی نہیں۔ چاچا چل مجھے دکھا۔‘‘
مولا گھبراسا گیا۔
’’آج نہیں پھر کبھی سہی۔‘‘
’’نہیں۔ میں آج ہی دیکھوں گی۔‘‘
’’اچھا ٹھہر!‘‘ اس کے جسم میں ایک کپکپی سی دوڑ رہی تھی۔
’’ایک شرط ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’کسی کو بتائے گی تو نہیں۔‘‘
’’کبھی نہیں۔‘‘
’’قسم کھا چن شاہ ولی کی۔‘‘
’’چن شاہ ولی کی سوں کسی کونہیں بتاؤں گی۔‘‘
’’یاد رکھ تو نے قسم توڑدی، تو چن شاہ ولی تجھ پر غصے ہوگا اور تیری مراد کبھی پوری نہیں کرے گا۔‘‘
’’کہہ جو دیا چاچا نہیں بتاؤں گی۔‘‘
’’اچھا تو ٹھہر۔ میں وہ لاٹ یہاں لاتا ہوں۔۔۔‘‘
علی الصباح ذیل دارنی، کا کی کو، جودری سے ذرا ہٹ کر زمین پر بے ہوش پڑی تھی، جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگا رہی تھی۔ مگر اس کی آنکھ کھلنے میں نہ آتی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ کہتی جاتی، ’’خندی نے ایک ہی دن میں زمین پر لوٹ لوٹ کر کپڑوں کا کیا ناس کردیا۔ اری اٹھتی ہے یا دوں ایک لات۔‘‘
’’اٹھتی ہوں چاچی۔‘‘ آخر بڑی مشکل سے کاکی نے اپنی آنکھیں کھولیں، جو اس وقت بہت سرخ ہو رہی تھیں۔
’’او ناشدنی اٹھ۔ میلہ ختم ہوگیا۔ سب لوگ جارہے ہیں۔ جلدی سے برتن سنبھال۔ دری لپیٹ۔ ذیل دار صاحب انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘
’’کاکی کا سردرد سے پھٹا جاتا تھا۔ پیاس سے حلق سوکھ رہا تھا۔ وہ جیسے تیسے اٹھی۔ مگر کھڑی ہوئی تو ٹانگیں لڑکھڑانے لگیں۔ گرتی پڑتی درخت کے تنے کے پاس پہنچی۔ جہاں پانی کی مٹکی رکھی تھی اور لوٹا بھر کر پانی پیا۔ پھر منہ پر چھینٹے دیے۔ رفتہ رفتہ اس کے حواس درست ہونے لگے۔
چن شاہ ولی کے عرس کو ابھی ایک مہینہ ہی گزرا تھا کہ گاؤں کی عورتوں نے کاکی کے مزاج میں ایک تبدیلی دیکھی۔ وہ یہ کہ اسے کھانے پینے کی رغبت نہ رہی۔ کہاں تو ایسی پیٹو کہ دن میں کئی کئی مرتبہ کھانا کھاتی اور چھاج کے گڑوے کے گڑوے پی ڈالتی۔ یا اب یہ حال کہ کھانا دیکھ کر اسے متلی ہونے لگتی۔ ویسے بھی اسے دن رات ابکائیاں آتی رہتیں۔ یہ کیفیت چار پانچ ہفتے تک رہی۔ اس کے بعد منالی کی عورتیں یہ دیکھ کر دم بخود رہ گئیں کہ کاکی کا پیٹ روز بروز پھولتا جارہا ہے۔
سب سے پہلے ذیل دارنی پر اس حقیقت کاانکشاف ہوا۔
’’اوکاکی کی بچی۔ تجھے تو حمل ہے کمبخت۔‘‘
ذیل دارنی کی بات اس کی سمجھ میں نہ آئی اور وہ حیوانوں کی طرح اس کا منہ تکنے لگی۔
’’کاکی سچ سچ بتا، تو کس آدمی سے ملی تھی؟‘‘
’’کسی سے بھی نہیں چاچی۔‘‘
’’تو پھر رنڈی یہ حرام کا بچہ تیرے پیٹ میں کیسا ہے؟‘‘
’’میرے پیٹ میں بچہ ہے چاچی؟‘‘ یک بارگی کاکی کی آنکھیں روشن ہوگئیں۔ ’’تو سچ کہتی ہے چاچی؟ آہا پھر تو چن شاہ ولی نے میری مراد پوری کردی۔‘‘
دوچار دن میں یہ خبر سارے گاؤں میں پھیل گئی۔ وہ جس طرف بھی جاتی مرد اس کو گھورتے، اور عورتیں اس پر سوالوں کی بوچھاڑ کردیتیں۔ مگر کاکی کو اب نہ جھڑکیوں کا ڈر تھا نہ مارپیٹ کا خوف اس پر ہر وقت اب ایک جذب کی کیفیت طاری رہنے لگی۔ وہ اکثر اپنے آپ سے باتیں کرتی رہتی۔ کبھی اس طرح خطاب کرنے لگتی جیسے کوئی اس کے سامنے کھڑا ہے۔ جس کو وہ تو دیکھ رہی ہے مگر کوئی اور نیں ث دیکھ پاتا۔ کبھی ہنسنے لگتی تو ہنستے ہی چلی جاتی۔ اور رونے لگتی تو گھنٹوں روتی ہی رہتی۔ گاؤں کے اکثر گھروں میں اب بھی اس کا پھیرا رہتا۔ مگر کہیں چند منٹ سے زیادہ نہ ٹکتی۔ کبھی آپ ہی آپ کہہ اٹھتی،
’’ہاں چاچی، میرے پیٹ میں بچہ ہے۔ مجھے چن شاہ ولی نے دیا ہے۔ وہ اس رات میرے پاس آیا تھا۔ اس نے دانتوں میں سرخ گلاب کا پھول داب رکھا تھا۔ مجھے دیکھا تو مسکرانے لگا۔ پھر اس نے وہ پھول میری جھولی میں پھینک دیا۔۔۔‘‘
اور شمے گوجر کی بیوی سے، جو ہمیشہ اس سے شفقت سے پیش آتی تھی اس نے کہا، ’’چن شاہ ولی ہر رات میرے پاس آتا ہے۔ ایک دفعہ وہ اپنے سفید گھوڑے پر سوار تھا۔ میں نے کہا، چن شاہ ولی مجھے سیر کرا۔ اس نے کہا اچھا۔ پھر اس نے مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ اور دور دور کی سیر کرائی۔ اس کاگھوڑا دریاؤں کے اوپر چلتا تھا۔ پہاڑوں پر چڑھتا تھا۔ آسمان پر اڑتا تھا۔ میں نے چن شاہ ولی کی کمر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ رکھا تھا۔ چن شاہ نے کہا، کاکی ڈر نہیں۔ تو گرے گی نہیں۔‘‘
اور پٹواری کی نئی بیوی سے جو عمر میں کاکی سے تین چار سال ہی بڑی تھی اس نے کہا، ’’تجھے پتا نہیں ہے چاچی چن شاہ ولی بڈھا نہیں۔ نہ اس کے داڑھی ہے۔ وہ بڑا گھبرو جوان ہے۔ اس کے لمبے لمبے گھنگریالے بال ہیں۔ جو اس کے شانوں پر لٹکتے ہیں۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگا، کاکی تیرے بال بڑے الجھے ہوئے ہیں۔ لامیں انہیں سلجھادوں۔ اور وہ اپنی انگلیوں سے میرے بالوں میں کنگھی کرنے لگا۔۔۔‘‘
کبھی کبھی وہ مولے گنڈیری والے کی دکان پر بھی جاتی۔
’’چاچامولا دیکھا چن شاہ ولی نے میری مراد پوری کردی۔ لا تھوڑی سی گانٹھیں تو دے۔‘‘ مولے کے چہرے کا رنگ یک بارگی زرد پڑ جاتا۔ اور وہ گھبراہٹ میں بہت سی گنڈیریاں اس کی جھولی میں ڈال دیتا۔
ایک دن وہ ذیل دارنی کے گھر پہنچی تو خیرالنساء نے پہلے تو اسے سینکڑوں گالیاں دیں۔ پھر چٹیا پکڑ کر خوب گھسیٹا، اور بہت سی لاتیں اور تھپڑ بھی رسید کیے۔
’’خبردار رنڈی! اگر پھر کبھی میرے گھر میں قدم رکھا۔‘‘
’’چاچی‘‘ کاکی نے بلک بلک کر روتے ہوئے کہا، ’’تونے مجھے مارا ہے۔ رات چن شاہ آئے گا۔ تو میں اس سے کہوں گی۔ ذیل دارنی بہت بری ہے اس کی مراد کبھی پوری نہ کرنا۔‘‘
اور پھر گاؤں والوں نے پنچایت کی۔ جس میں گاؤں کے سب چھوٹے بڑے شامل ہوئے۔ اور فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ کاکی کی وجہ سے گاؤں کی سخت بدنامی ہو رہی ہے۔ اس لیے اسے گاؤں سے نکال دیا جائے۔ اس فیصلے کو عمل میں لانے کے لے علی الصباح ایک بیل گاڑی کا انتظام کیا گیا۔ اور اس میں کاکی کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے سوار کردیا گیا۔ یہ بیل گاڑی دن بھر نامعلوم راہوں سے گزرتی رہی اور شام کو ایک اجاڑ مقام پرپہنچ کر رک گئی۔ وہاں کاکی کے ہاتھ پاؤں کھول دیے گئے اور اسے زبردستی بیل گاڑی سے اتار دیا گیا۔
منالی میں کچھ دنوں اس واقعہ کا چرچا رہا۔ مگر جب دوتین مہینے گزر گئے اور کاکی کو نہ تو کسی نے دیکھا اور نہ اس کی کوئی خبر ہی آئی تو یہ بات آپ سے آپ گاؤں والوں کے ذہن سے اترگئی۔
دن پر دن گزرتے گئے۔ یہاں تک کہ پھر چیت کامہینہ آگیا۔ زمین سے ہر طرف پھر بہار کی مہک اٹھنے لگی۔ کسان فصلوں کی کٹائی سے فارغ ہوئے اور ایک بار پھر چن شاہ ولی کے عرس کی تیاریاں ہونے لگیں۔
پچھلے برس خیرالنساء کی مراد تو پوری نہیں ہوئی تھی مگر اسی گاؤں کی دو عورتوں پر چن شاہ کی نظر کرم ہوگئی تھی۔ ذیل دارنی کو اپنی محرومی کا رنج تو بہت تھا، مگر وہ مایوس نہیں ہوئی تھی۔ اسے یقین تھا کہ اب کے چن شاہ ولی ضرور خواب میں اپنا دیدار کرائیں گے۔
آخر عرس کادن آپہنچا۔ اس دفعہ پچھلے سال سے بھی زیادہ زور شور سے میلہ بھرا۔ شام کو چن شاہ ولی کی قبر پر مراد مانگنے والی عورتوں کااس قدر جمگھٹ ہو گیا کہ سانس لینا مشکل تھا مگر یہ فرطِ عقیدت سے اور بھی قبر پر پلی پڑتی تھیں۔ ان کاخیال تھا کہ ہم جس قدر زیادہ تکلیف اٹھائیں گے اسی قدر جلد ہماری مراد پوری ہوگی۔
اس ہجوم میں خیرالنساء بھی ولی کی قبر کے سرہانے بیٹھی تھی۔ وہ چڑھاوا چڑھا چکی تھی اور بہت منت وزاری سے بیٹے کے لیے دعا بھی مانگ چکی تھی۔ وہ درگاہ سے اٹھنے ہی کو تھی کہ ایک عورت جس کی وضع فقیرنیوں کی سی تھی، ہجوم کو چیرتی ہوئی قبر کے قریب پہنچنے کی کوشش کرنے لگی۔ اس کی گود میں تین چاہ مہینے کابچہ تھا۔ دبلا پتلا ہڈیوں کامالا۔ وہ یا تو سو رہا تھا یا اس میں اتنی سکت ہی نہ تھی کہ آنکھ کھولے۔
اس عورت کی نظر جیسے ہی خیرالنساء پر پڑی۔ اس کی آنکھیں ایک دم چمک اٹھیں۔
’’دیکھ او ذیل دارنی میرا بیٹا دیکھ۔ یہ مجھے چن شاہ نے دیا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے اپنا بچہ بڑے فخر سے خیرالنساء کو دکھایا۔ ذیل دارنی نے کاکی کو فوراً پہچان لیا۔
’’او بے حیا، بے شرم یہ تو ہے؟ دور ہو یہاں سے حرام کا پلا لے کر۔‘‘
’’آہاہاہا۔ تو مجھ سے جلتی ہے ذیل دارنی۔ کیونکہ چن شاہ نے تجھے بیٹا نہیں دیا۔ اس نے مجھے بیٹا دیا۔ آہاہاہا۔‘‘
کاکی کے چہرے سے وحشیانہ خوشی ظاہر ہو رہی تھی۔ ذیل دارنی غصے سے کانپنے لگی۔ اس نے چاہاکہ آگے بڑھ کر کاکی کا منہ نوچ لے مگر درمیان میں کئی عورتیں حائل تھیں جو حیرت سے کبھی ذیل دارنی کامنہ تکتی تھیں کبھی کاکی کا۔
’’ٹھہر تو جارنڈی۔ ابھی تجھے اس گاؤں سے پھر نکلواتی ہوں۔ اب کے تیرا سر مونڈھاجائے گا۔ اور تیرا منہ کالا کرکے تجھے گدھے پر سوار کیا جائے گا۔‘‘
مگر کاکی پر ذیل دارنی کی ان دھمکیوں کاکچھ اثر نہ ہوا۔ وہ خیرالنساء کو چڑھانے کے لیے برابر کہے جارہی تھی، ’’تو مجھ سے جلتی ہے ذیل دارنی۔ کیونکہ چن شاہ ولی تیرے پاس راتوں کو نہیں آتا۔ وہ تیرے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی نہیں کرتا۔ وہ تجھے اپنے سفید گھوڑے پر بٹھاکر آسمان کی سیر نہیں کراتا۔ تو ہمیشہ جلتی بھنتی رہے گی ذیل دارنی۔ چن شاہ تجھے کبھی بیٹا نہیں دے گا۔‘‘
وہ عورتیں جو پہلے تعجب سے کاکی کو دیکھ رہیں تھیں، اور جن میں سے بعض کو شاید اس سے کچھ کچھ ہمدردی بھی پیدا ہوگئی تھی۔ اس کی زبان سے اب چن شاہ ولی کی شان میں گستاخانہ باتیں سن کر دانتوں سے اپنی انگلیاں کاٹنے لگیں۔
اتنے میں درگاہ کا متولی جیون سائیں جو باہر دالان میں چٹائی پر بیٹھا تھا، شور سن کر اندر آگیا۔ دیل دارنی نے اسے دیکھتے ہی چلانا شروع کیا، ’’دیکھ سائیں بابا۔ یہ کاکی بے حیانہ جانے کہاں سے حرام کا پلا لے آئی ہے۔ اور درگاہ کی بے ادبی کر رہی ہے۔ اسے چٹیا سے پکڑ کر نکال دے۔‘‘
جیون سائیں تھا تو ادھیڑ عمر مگر تھا خوب ہٹا کٹا۔ وہ آگے بڑھا ہی تھا کہ کاکی نے سہم کر چیخ ماری، ’’چن شاہ۔ یہ لوگ مجھے مار رہے ہیں۔ مجھے بچا مجھے بچا۔‘‘
مگر کوئی اس کی مدد کو نہ پہنچا۔ ادھر جیون سائیں عورتوں کو آگے سے ہٹاتا ہوا قریب آتا جارہاتھا۔ اچانک کاکی نے گود کے بچے کو جو ابھی تک سویا ہوا تھا، چن شاہ ولی کی قبر کے نرم نرم پھولوں پر لٹادیا۔ اور خود ایک ہرنی کی طرح طرارہ بھر درگاہ سے نکل بھاگی۔
اس کی یہ حرکت ایسی غیر متوقع تھی کہ سب لوگ دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ آخر ذیل دارنی اور دوتین عورتوں نے ’’پکڑ لو پکڑ لو‘‘ کاشور مچایا۔ اس پر کچھ دیہاتی کاکی کے پیچھے بھاگے۔ مگر وہ کودتی پھاندگی پہاڑی کے ایک ایسے ٹیلے پر چڑھ گئی جو بالکل سپاٹ تھا اور جس پر چڑھنا سخت خطرناک سمجھا جاتا تھا۔ لوگ کچھ دیر نیچے کھڑے اسے دیکھتے رہے۔ مگر کسی کو اس کے پیچھے جانے کی جرأت نہ ہوئی۔ آخر دو ایک من چلے نوجوانوں نے ہمت کی۔ مگر ابھی انہوں نے آدھا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ کاکی نے ٹیلے کے دوسری طرف پہنچ کر، جس کے نیچے ایک کھائی تھی، بے جھجھک چھلانگ لگادی۔ شاید اسے کچھ چوٹ آگئی تھی۔ کیونکہ وہ کچھ دیر زمین پر بیٹھی رہی۔ آخر وہاں سے اٹھی اور اس طرف کا رخ کیا جہاں سے کھیتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ فصل کی کٹائی کے بعد یہ جگہ اب ایک کھلا میدان بن گئی تھی۔
اب گاؤں سے کئی آدمی اسے پکڑنے کے لیے دوڑ پڑے تھے۔ مگر وہ ان کے آگے آگے ہی رہی۔ ہاں ایک دفعہ دو آدمیوں نے اسے پکڑ ہی لیا ہوتا مگر اس میں نہ جانے کہاں سے ایک منہ زور گھوڑی کی سی طاقت آگئی تھی۔ کہ اس نے جھٹک کر اپنے ہاتھ چھڑا لیے۔ اور پھر تیزی سے بھاگنا شروع کردیا۔ ساری رات اس کا تعاقب جاری رہا۔ صبح کو جب سورج نکل رہا تھا تو وہ ایک میدان میں اپنا پیچھا کرنے والوں میں ایسی گھر گئی کہ فرار کی کوئی صورت نہ رہی۔ جب اسے پکڑا گیا تووہ ایک درندے کی طرح ہانپ رہی تھی۔ خاردار جھاڑیوں میں الجھ الجھ کر اس کے کپڑوں کی دھجیاں اڑ گئی تھیں۔ اور اب اس کے جسم پر ایک تار بھی نہ رہا تھا۔
اسے کئی آدمیوں نے دبوچ رکھا تھا۔ ایک آدمی اپنے سر سے پگڑی اتار کر اس کے ہاتھ باندھنے لگا۔ وہ پہلے تو چپ چاپ اپنے ہاتھ بندھتے دیکھتے رہی پھر یک بارگی جو ش آیا اور اس نے وحشیانہ جدوجہد سے اپنے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ اس پر اس نے اس شخص کی طرف جس نے اس کے ہاتھ باندھے تھے، غضب ناک نظروں سے دیکھا، اور پھر پیشتر اس کے کہ وہ کچھ مدافعت کر سکے، اچک کر اس کا کان اپنے دانتوں میں لے لیا اور چبا ڈالا۔
مأخذ : کلیات غلام عباس
مصنف:غلام عباس