کہانی کی کہانی:‘‘مرد اساس معاشرے میں طوائف کو کن کن مورچوں پر لڑنا پڑتا ہے۔ اس کی ایک جھلک اس افسانہ میں پیش کی گئی ہے۔ ننھی جان کی غیر موجودگی میں تین پٹھان اس کے کوٹھے پر آتے ہیں اور اس کے دو ملازمین سے چاقو کے دم پر زور زبردستی اور بدتہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ ننھی جان کی ناک کاٹنے کا عندیہ ظاہر کرتے ہیں۔ کافی دیر انتظار کے بعد وہ تھک ہار کر واپس چلے جاتے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد ہی ننھی جان لوٹتی ہے۔ ننھی جان اپنے ملازمین کو تسلی دے کر سونے چلی جاتی ہے اور اس کے ملازم آپس میں قیاس آرائی کرتے رہتے ہیں کہ فلاں یا فلاں نے رقابت اور حسد میں ان غنڈوں کو بھیجا ہوگا۔’’
تین شخص چغے پہنے سر پر آڑی ترچھی پگڑیاں باندھے، ننھی جان کے کمرے میں داخل ہوئے اور چاندنی پر گاؤ تکیوں سے لگ کر بیٹھ گئے۔
’’مزاج تو اچھے ہیں سرکار!‘‘ رنگ علی نے کہا۔ ان تینوں میں سے کسی نے اس کی مزاج پرسی کی رسید نہ دی۔ گلابی جاڑوں کے دن تھے۔ باہر ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ رات خاصی جا چکی تھی۔ ایک منٹ تک خاموشی رہی۔ جس کے دوران میں تینوں آدمی تیز تیز نظروں سے کمرے کا جائزہ لیتے رہے۔ اس کمرے سے ملا ہوا ایک چھوٹا کمرہ تھا، جو خواب گاہ کا کام دیتا تھا۔ انہوں نے اپنے کیچڑ بھرے چپل نہیں اتارے تھے۔ جس کی وجہ سے اجلی چاندنی پر دھبے ہی دھبے پڑ گئے تھے۔
’’جبار خانا۔‘‘ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا، ’’پتوس دو کہ پوچھو تمہارا رنڈی لوگ کدھر ہے۔‘‘
’’تمہارا رنڈی لوگ کدھر ہے؟‘‘ جبار خاں نے رنگ علی سے پوچھا۔
’’باہر گیا ہے۔‘‘ رنگ علی نے کہا۔ جس وقت وہ آئے تو یہ پان بنا رہا تھا۔
’’باہر کدھر؟‘‘ جبار خاں نے پوچھا۔
’’سینما دیکھنے سینما، بائیسکوپ۔‘‘ رنگ علی نے کہا۔
’’کیا کہتا ہے؟‘‘ پہلے آدمی نے جبار خاں سے پوچھا۔
’’کہتا ہے باہر گیا ہے بائیسکوپ کا تماشہ دیکھنے۔‘‘
’’خو تماشہ دیکھنے جاتا ہے!‘‘ پہلے آدمی نے کہا۔
’’بائی جی تو جاتی بھی نہیں تھیں۔‘‘ رنگ علی بولا، ’’وہ تو چشتی صاحب زبردستی لے گئے۔‘‘
’’کیا کہتا ہے؟‘‘ پہلے آدمی نے جبار خاں سے پوچھا۔
’’کہتا ہے چشتی صاحب زبردستی لے گیا۔‘‘
’’خو چشتی کے ساتھ جاتا ہے!‘‘ پہلے آدمی نے کہا۔ وہ ڈیل ڈول میں اپنے دونوں ساتھیوں سے کم تھا۔ مگر اس کے خدوخال دونوں سے زیادہ درشت تھے۔ گلے میں سیاہ دھاریوں والے سرخ گلوبند کے دوبل دے کر، سرے چغے کے اندر کر رکھے تھے۔ اس کے دانت پیلے پیلے تھے۔ چوڑا دہانہ۔ بائیں رخسار پر آنکھ سے ذرا نیچے ایک گہرے زخم کا نشان تھا۔
’’خورنڈی منڈی کوئی نہیں تو اتنا روشنی کس واسطے کیا؟‘‘ اس نے رنگ علی سے پوچھا۔ جب وہ بات کرتا تو اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کو فقرے کے ادھ بیچ میں آدھا بند کر لیتا۔ رنگ علی نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’بولو۔‘‘ جبار خاں نے کہا، ’’ہم تم سے کیا کہتا ہے؟‘‘ اس کا رنگ سانولا تھا۔ عمر میں وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے کافی بڑا تھا۔ اس کے اوپر کے ایک دانت پر پلیٹینم کا خول چڑھا تھا جو کافی گھس چکا تھا۔ اور ہڈی نظر آنے لگی تھی۔ رنگ علی اب بھی خاموش رہا۔
’’ہم اتنا سیڑھی کس واسطے چڑھ کے آیا؟‘‘ تیسرے آدمی نے پوچھا۔ اپنے دونوں ساتھیوں کی طرح اس نے بھی گلے میں گلوبند لپیٹ رکھا تھا۔ اس کی پیشانی تنگ تھی اور ناک پر ایک بڑا سا مسا۔ اس کی آنکھوں میں سرخی اس طرح نظر آتی تھی جیسے لہو کی چھینٹ پڑ گئی ہو۔ ان میں سے کسی کی داڑھی بھی ہفتے بھر سے کم کی منڈی ہوئی نہیں تھی۔ رنگ علی بےوقوفوں کی طرح ایک ایک کا منہ تک رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا جواب دے۔
’’خو تمہارا منہ میں زبان نہیں ہے؟‘‘ تیسرے آدمی نے کہا۔ پھر وہ پہلے آدمی کی طرف متوجہ ہوا، ’’صحبت خاں اس کا منہ میں زبان نہیں ہے!‘‘
’’سرکار کیا عرض کروں۔‘‘ رنگ علی نے کہا، ’’بائی جی تو جاتی بھی نہیں وہ۔۔۔‘‘
’’جبار خاں۔‘‘ صحبت خاں نے کہا، ’’اس سے پوچھو کب آئےگا؟‘‘
’’تمہارا رنڈی لوگ کب آئےگا؟‘‘ جبار خاں نے رنگ علی سے پوچھا۔
’’شو ساڑھے بارہ بجے ختم ہوتا ہے سرکار۔ بس کوئی گھنٹے پون گھنٹے تک آ جائےگا۔‘‘
’’کیا کہتا ہے؟‘‘ صحبت خاں نے جبار خاں سے پوچھا۔
’’کہتا ہے تین پاؤ گھنٹے میں آ جائےگا۔‘‘
’’چشتی صاحب کئی دنوں سے سر ہو رہے تھے۔‘‘ رنگ علی بولا، ’’بائی جی ہر بار نہیں نہیں کرتی رہیں۔ آج تو بہت ہی سر ہوئے۔ کہنے لگے فلم ایک نمبر ہے۔ بڑی مشکلوں سے سیٹیں ریزرو کرائی ہیں۔ قسمیں دینے لگے۔۔۔‘‘ عین اس وقت سیڑھیوں پر کچھ آہٹ ہوئی، تینوں آدمی چوکنے ہوکر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
’’جبار خاں۔‘‘ صحبت خاں نے کہا، ’’اس پدرسگ کو کہو چپ ہو جاؤ۔‘‘
’’چپ ہو جاؤ۔‘‘
کچھ لمحے خاموشی میں گزرے۔ پھر حسین بخش دھسے کی بکل مارے باگیشوری کی دھن گنگناتا دہلیز پر نمودار ہوا، ان تینوں کو دیکھ کر وہ ٹھٹکا۔ پھر جوتی اتار کر کمرے میں داخل ہوا اور ان سے ذرا ہٹ کر چاندنی کے ایک سرے پر جہاں سارنگی غلاف کی ہوئی رکھی تھی، بیٹھ گیا۔
’’سلام سرکار۔‘‘ حسین بخش نے کہا۔
’’یہ کون ہے؟‘‘ صحبت خاں نے رنگ علی سے پوچھا۔
’’یہ حسین بخش ہیں۔‘‘
’’کیا کرتا ہے؟‘‘
’’یہ سارنگیے ہیں۔‘‘
’’سارنگیے کیا؟‘‘
’’سارنگی بجاتے ہیں۔ سارنگی جو ساز ہے۔‘‘
’’خو تو سازندہ کیوں نہیں کہتا۔‘‘
’’ہاں ہاں وہی۔‘‘
’’اور تم خود کیا کرتا ہے؟‘‘ جبار خاں نے رنگ علی سے پوچھا۔
’’میں طبلہ بجاتا ہوں۔‘‘ رنگ علی نے کہا۔
’’خو تو تم بھی سازندہ ہے؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
لمحہ بھر خاموشی رہی۔
’’جبار خاں۔‘‘ صحبت خاں نے جبار خاں سے کہا، ’’پوچھو ادھر کون کون رہتا ہے؟‘‘
’’بائی جی۔ ہم دو استاد اور ایک نوکر جمن۔‘‘ رنگ علی نے جواب دیا۔
’’خو نوکر کدھر ہے؟‘‘ صحبت خاں نے پوچھا۔
’’بائی جی کے ساتھ گیا ہے۔‘‘ رنگ علی نے جواب دیا۔
’’ہوں۔ ہوں۔‘‘
باہر بوندیاں کسی قدر تیزی سے پڑنے لگی تھیں۔ نیچے سڑک پر سے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد تانگے کے گھوڑے کی ٹاپ جس میں گھنٹیوں کے سر بھی شامل ہوتے سنائی دے جاتی۔ گیلی سڑک پر گھوڑے کا سم پڑتا تو بڑی پاٹ دار آواز نکلتی۔
’’تم نے بولا ننھی جان تین پاؤ گھنٹے میں آئےگا؟‘‘ صحبت خاں نے رنگ علی سے پوچھا۔ حسین بخش بیزار ہوا بیٹھا تھا۔ اس نے جواب دینا چاہا، ’’کیا پتہ۔۔۔‘‘
’’تم مت بکو۔‘‘ صحبت خاں نے درشتی سے کہا۔ پھر وہ رنگ علی کی طرف متوجہ ہوا، ’’تمہارا بائی تین پاؤ گھنٹے میں آ جائےگا؟‘‘
’’آتو جانا چاہیے۔‘‘ رنگ علی نے کہا۔
’’چاہئے نہیں جانتا۔‘‘ صحبت نے کہا، ’’ہاں کہو یا نہ۔‘‘
’’دیکھیے سرکار۔‘‘ رنگ علی نے کہا، ’’تماشہ ساڑھے بارہ بجے ختم ہوتا ہےاور اس وقت ہوئے ہیں گیارہ بج کر پچاس منٹ۔ اگر بائی جی سیدھی گھر کو آئیں۔۔۔‘‘
’’اگر مگر نہیں جانتا۔‘‘ صحبت خاں نے کہا، ’’صاف بولو۔‘‘
’’آخر بات کیا ہے خان صاحب؟‘‘ حسین بخش سے چپ نہ رہا گیا، ’’کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے۔‘‘ اس کے جواب میں تیسرے آدمی نے یکبارگی آگے بڑھ کر زور کا ایک مکا اس کے منہ پر مارا۔ اس ناگہانی ضرب پر حسین بخش کی آنکھوں کے آگے اندھیرا آ گیا۔ آنسو اس کی آنکھوں میں جھلکنے لگے۔ اس نے سر جھکا لیا۔ تھوڑی دیر تک گم سم بیٹھا رہا۔ پھر اٹھ کر دہلیز کی طرف جانے لگا۔ جہاں اس کا جوتا پڑا تھا۔
’’او خنزیر۔‘‘ جبار خاں نے کہا، ’’ٹھہرو کدھر جاتا ہے؟‘‘ حسین بخش نے ایک پاؤں جوتی میں ڈال لیا تھا۔ وہ ٹھہر گیا۔
’’ادھر دیکھو۔‘‘ جبار خاں نے ڈپٹ کر کہا۔ اس کے ہاتھ میں ایک کمانی دار چاقو تھا جس کا پھل آٹھ انچ سے کم لمبا نہ تھا۔ بجلی کی روشنی میں اس سے شعاعیں سی نکل رہی تھیں۔ ’’اگر تم نیچے جانے کی کوشش کرےگا تو ہم تمہارا پیٹ چاک کر دےگا۔ سن لیا۔ دروازے میں کنڈی لگاؤ اور ادھر ہمارے پاس آکر بیٹھو۔‘‘ حسین بخش لمحہ بھر کھڑا رہا۔ پھر اس نے جوتی سے پاؤں نکال لیا اور دروازے میں کنڈی لگا کے اپنی جگہ پر آبیٹھا۔
’’شاباش۔ شاباش۔‘‘ صحبت خاں نے کہا۔ پھر وہ تیسرے آدمی سے کہنے لگا، ’’گلباز خاں یار۔ تم نے تان سین کے بیٹے کو ناراض کر دیا۔ اب وہ ہم کو گانا نہیں سنائےگا۔‘‘
’’ہم اس کو منائےگا۔‘‘ گلباز خاں نے کہا، ’’ہم اس کے گدگد کرےگا۔ تان سین کا بیٹا ہنسےگا۔ تان سین کا بیٹا پھر قوالی سنائےگا۔‘‘
’’جبار خاں۔‘‘ صحبت خاں نے کہا، ’’اس سے بولو ہم گانا سننے نہیں آیا۔‘‘
’’پھر کیسے آنا ہوا سرکار؟‘‘ رنگ علی نے پوچھا۔
’’کیا کہتا ہے؟‘‘ صحبت خاں نے جبار خاں سے پوچھا۔
’’پوچھتا ہے ہم کیوں آیا؟‘‘ جبار خاں نے کہا۔
’’خو پوچھتا ہے ہم کیوں آیا؟‘‘ صحبت خاں نے کہا، ’’اس سے پوچھو ہم کیوں آیا۔‘‘
’’خو تم بتاؤ ہم کیوں آیا؟‘‘ جبار خاں نے رنگ علی سے پوچھا۔ رنگ علی مسکرانے کی کوشش کرنے لگا۔
’’کیا کہتا ہے؟‘‘ صحبت خاں نے جبار خاں سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں کہتا۔‘‘ جبار خاں نے کہا۔
’’کچھ نہیں کہتا؟‘‘
’’مسکراتا ہے۔‘‘
’’مسکراتا ہے؟‘‘ صحبت خاں نے رنگ علی سے کہا، ’’خوتم مسکراتا ہے! مسخری کرتا ہے!‘‘
’’خاں صاحب بھی کمال کرتے ہیں۔‘‘ رنگ علی نے کہا، ’’میری مجال ہے کہ میں آپ سے مسخری کروں!‘‘
’’خوتم اچھا آدمی ہے۔‘‘ صحبت خاں نے کہا۔
’’تان سین کا بیٹا اچھا آدمی نہیں ہے۔‘‘ گلباز خاں نے کہا، ’’وہ روتا ہے۔ تان سین کا بیٹا روتا ہے۔‘‘
کلاک میں گھرر گھرر ہوئی، اور اس نے ٹن ٹن کر کے بارہ بجانا شروع کیا۔ حسین بخش کے سوا سب کی نظریں اس کی طرف اٹھ گئیں تھیں۔ کلاک سے ذرا ہٹ کر دیوار پر ایک بڑا سا رنگ دار فوٹو تھا۔ جس میں چوتھائی صدی پہلے کی کوئی ادھیڑ عمر کی گانے والی، گلے میں اشرفیوں کا ہار ڈالے طنبورا چھیڑ رہی تھی۔ ناک پر بڑی سی لونگ تھی اور سیدھی مانگ نکال کر جوڑا باندھ رکھا تھا۔
’’خو دیکھو۔‘‘ صحبت خاں نے رنگ علی سے کہا، ’’ادھر قلیان ملیان بھی ہے؟‘‘
’’قلیان تو نہیں حقہ ہے سرکار۔‘‘ رنگ علی نے کہا۔
’’ہم حقہ نہیں پئے گا۔‘‘
’’پان پیش کروں؟‘‘
’’ہم پان نہیں کھاتا۔‘‘
’’سگرٹ؟‘‘
’’سگریٹ؟ خیر چرس کا سگریٹ مضائقہ نہیں ہے۔‘‘
’’چرس تو یہاں کوئی بھی نہیں پیتا سرکار!‘‘ رنگ علی نے کہا۔
’’رنڈی منڈی نہیں۔ قلیان ملیان نہیں۔ چرس نہیں۔ یہ تمہارا کیسا طوائف کا مکان ہے؟‘‘ گلباز خاں نے کہا۔
’’اچھا روغن کدو ہے؟‘‘ صحبت خاں نے پوچھا۔
’’روغن کدو تو نہیں۔‘‘ رنگ علی نے کہا، ’’آنولے کا تیل ہوگا۔‘‘
’’خیر وہی لاؤ۔‘‘ صحبت خاں نے کہا۔ رنگ علی ایک الماری کے پاس گیا، جس کے دونوں پٹوں کے چوکھٹوں میں دو لمبے لمبے آئینے جڑے ہوئے تھے۔ اور الماری کھول کر تیل کی بوتل لے آیا۔
’’دیکھو۔ تم بہت اچھا آدمی ہے۔‘‘ صحبت خاں نے کہا، ’’تھوڑا تیل ہمارے سر پر ملو۔ پھر ہم تم کو بتائےگا ہم کس واسطے آیا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی پگڑی اتار دی۔ معلوم ہوتا تھا یہ پگڑی بہت دیر سے اس کے سر پر تھی۔ کیونکہ کلاہ نے اس کی پیشانی پر گہرا نشان ڈال دیا تھا۔ اس کے سر پر بال صرف کنارے کنارے تھے۔ بیچ میں چاند ایسی لگ رہی تھی جیسے انگور آیا ہوا پھوڑا۔ رنگ علی اس کی پیٹھ کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔ تھوڑا سا تیل ہتھیلی پر ڈالا اور سر پر ملنے لگا۔
’’شاباش۔ شاباش۔‘‘ صحبت خاں نے کہا، ’’ اب ہم تم کو بتاتا ہے کہ ہم کیوں آیا۔‘‘ مگر وہ کہتے کہتے رہ گیا اور گلباز خاں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا، ’’گلباز خاں۔ خوتم بتاؤ یار ہم تیل ملواتا ہے۔‘‘
’’ہم بتائےگا۔‘‘ گلباز خاں نے کہا، ’’مگر پہلے تان سین کا بیٹا ہمارا ٹانگ دبائے۔‘‘
’’تان سین کا بیٹا۔‘‘ صحبت خاں نے کہا، ’’گلباز خاں کا ٹانگ دباؤ۔‘‘ حسین بخش بدستور سر جھکائے بیٹھا رہا۔ وہ سخت کوشش کر رہا تھا کہ ان کی طرف نہ دیکھے۔
’’تان سین کا بیٹا ہمارا ٹانگ نہیں دباتا!‘‘ گلباز خاں نے جیسے فریاد کرتے ہوئے کہا۔
’’اس کے ایک دھپ لگاؤ۔‘‘ صحبت خاں نے کہا۔
’’ہم دھپ نہیں لگائےگا۔‘‘ گلباز خاں نے کہا، ’’ ہم اس کا کان مروڑےگا۔ تان سین کا بیٹا اپنا کان ادھر کرو۔‘‘ اس نے حسین بخش سے کہا۔
’’حضور معاف کر دیجیے۔‘‘ رنگ علی نے لجاجت سے کہا۔ پھر وہ حسین بخش سے مخاطب ہوا، ’’بھائی حسین بخش ضد نہ کرو۔ اٹھ بیٹھو اور خان صاحب کی ٹانگ دبا دو۔ اٹھو اٹھو بچے نہ بنو۔ موقع محل دیکھا کرو۔‘‘ حسین بخش سخت لاچاری کے ساتھ اٹھا اور گلباز خاں کے پاس بیٹھ کر اس کی ٹانگ دبانے لگا۔ آنسو ابھی اس کی آنکھوں میں خشک نہیں ہونے پائے تھے۔
’’ہاہا۔‘‘ گلباز خاں نے حسین بخش کی پیٹ پر زور سے تھپکی دے کر کہا، ’’تان سین کا بیٹا اب اچھا ہو گیا۔ اب ہم بتائےگا ہم کیوں آیا۔‘‘
چند لمحے خاموشی رہی۔
’’تمہارا ننھی جان ہے نا؟‘‘ گلباز خاں نے رنگ علی سے پوچھا۔
’’ہاں سرکار۔‘‘ رنگ علی نے کہا۔
’’اس کا نام ننھی جان ہے نا؟‘‘ گلباز خاں نے رنگ علی سے پوچھا۔
’’ہاں سرکار۔‘‘ رنگ علی نے کہا۔
’’تو بس ہم اس کا ناک کاٹنے آیا ہے!‘‘ گلباز نے کہا۔
’’اس بچاری کا قصور؟‘‘ رنگ علی نے پوچھا۔ مالش کرتے کرتے اس کے ہاتھ تھم گئے تھے۔ چہرہ زرد پڑ گیا تھا اور آواز گلے میں اٹک اٹک گئی تھی۔
’’قصور مصور کچھ نہیں۔‘‘ صحبت خاں نے کہا، ’’تم اپنا کام کرو۔‘‘
’’پھر کیا بات ہے سرکار؟‘‘ رنگ علی نے گلباز خاں سے پوچھا۔
’’ہم نے سنا اس کا ناک بہت لمبا ہے۔‘‘ گلباز خاں نے کہا، ’’اچھا نہیں لگتا۔ چھوٹا ہو جانے سے خوش رو ہو جائےگا۔‘‘
’’خدا کے واسطے خاں صاحب۔‘‘ رنگ علی نے گڑگڑا کر کہا، ’’ایسا غضب نہ کیجیے گا۔ وہ بچاری تو بہت شریف ہے۔‘‘
’’جبھی تو ہم اس کو خوش رو بنائےگا۔‘‘ گلباز خاں نے کہا۔
’’ہم بہت کو خوش رو بنا چکا ہے۔‘‘ جبار خاں نے کہا۔
گھڑی میں بارہ بج کر ۳۵ منٹ ہوئے تھے کہ سیڑھیوں میں کئی قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ تینوں آدمیوں نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طر ف دیکھا اور اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ رنگ علی صحبت خاں کے قدموں میں گر پڑا۔
’’رسول کے واسطے خاں صاحب۔‘‘ اس نے بسورتے ہوئے کہا، ’’ہم پر رحم کیجیے۔ ہم بہت ہی مسکین لوگ ہیں۔‘‘
دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ گلباز خاں نے رنگ علی کی کلائی مضبوطی سے پکڑ کر اسے اٹھایا اور دروازے کے پاس لے گیا۔ پھر اسے دروازے کے سامنے کھڑا کر کے خود اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔
’’پوچھو کون ہے؟‘‘ گلباز خاں نے رنگ علی کے کان میں کہا۔
’’کون ہے؟‘‘ رنگ علی نے پوچھا۔
’’دروازہ کھولو۔ دروازہ کھولو۔‘‘ کئی آوازیں سنائی دیں۔
’’نام پوچھو۔‘‘ گلباز خاں نے رنگ علی کے کان میں کہا۔
’’ارے بھئی میں ہوں سلیم اللہ۔‘‘ دروازے کے اس طرف سے آواز آئی، ’’جلدی کھولو دروازہ۔‘‘
’’پوچھو آپ کے ساتھ کون ہے۔‘‘ گلباز خاں نے رنگ علی کے کان میں کہا۔
’’اچھا شیخ صاحب ہیں!‘‘ رنگ علی نے کہا، ’’آپ کے ساتھ اور کون لوگ ہیں شیخ صاحب؟‘‘
’’میرے دوست ہیں بھئی۔‘‘ دروازے کے اس طرف سے آواز آئی، ’’آخر تم دروازہ کیوں نہیں کھولتے؟‘‘ رنگ علی نے پلٹ کر گلباز خاں کی طرف دیکھا۔ جس نے سر ہلا کر نہیں کا اشارہ کیا۔
’’شیخ صاحب معاف کیجیےگا۔‘‘ رنگ علی نے کہا، ’’اس وقت دروازہ نہیں کھل سکتا۔ بائی جی مجرے گئی ہیں صبح کو آئیں گی۔ اس وقت خاں صاحب وزیر خاں کے ہاں سے کچھ بہوئیں آئی ہوئیں ہیں۔ ان کی وجہ سے دروازہ نہیں کھل سکتا۔ آپ کو زحمت تو ہوئی مگر مجبوری ہے۔ آپ کل تشریف لائیےگا۔‘‘ اس پر سیڑھیوں میں کچھ دیر کھسر پھسر ہوا کی۔ پھر اترتے ہوئے قدموں کی آوازیں سنائی دیں، جو دھیرے دھریے دھیمی ہوتی ہوئی گم ہو گئیں۔
’’شاباش۔‘‘ صحبت خاں نے گاؤ تکئے سے لگ کر بیٹھتے ہوئے کہا، ’’تم بہت عقلمند آدمی ہے۔‘‘
’’عقل مند اس نے بنایا۔‘‘ گلباز خاں نے چاقو دکھاتے ہوئے کہا، ’’اگر پدر سگ ذرا بھی چوں کرتا تو ہم اس کا نوک اس کی پیٹھ میں اتار دیتا۔‘‘
ایک بج گیا مگر ننھی جان نہیں آئی۔ تینوں آدمیوں نے جمائیاں لینی شروع کر دیں۔ جبار خاں نے چغے کی جیب میں سے نسوار کی ڈبیا نکالی، جس میں سے چٹکی چٹکی تینوں نے لی۔ سوا بجے صحبت خاں نے رنگ علی کو گلے سے پکڑ لیا۔
’’او خنزیر بچہ، سچ بتا۔‘‘ صحبت خاں نے پوچھا، ’’وہ تماشے گیا ہے یا اور جگہ گیا ہے؟‘‘
’’قسم ہے پنجتن پاک کی خاص صاحب۔‘‘ رنگ علی نے اپنا گلا چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’وہ تماشے ہی گیا ہے۔‘‘
’’پھر وہ آیا کیوں نہیں؟‘‘ صحبت خاں نے پوچھا۔
’’اللہ جانے کیوں نہیں آیا۔‘‘ رنگ علی نے کہا۔ پھر وہ لمحہ بھر خاموش رہ کر بولا، ’’میں جانوں چشتی صاحب اس کو اپنی کوٹھی لے گئے ہوں گے۔ اب تو وہ صبح ہی کو آئےگا۔‘‘
’’تم جھوٹ کہتا ہے۔‘‘ گلباز خاں نے کہا۔
’’نہیں میں سچ کہتا ہوں۔‘‘ رنگ علی نے کہا۔
’’ہم نہیں مانتا۔‘‘ گلباز خاں نے کہا۔
’’آپ یہیں رہئے پھر جھوٹ سچ معلوم ہو جائےگا۔‘‘ رنگ علی نے کہا۔
’’پہلے بھی کبھی ایسا ہوا؟‘‘ صحبت خاں نے پوچھا۔
’’کئی بار۔‘‘ رنگ علی نے کہا۔
ڈیڑھ بجےتینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ جمائیاں لیتے لیتے ان کے جبڑے تھک گئے تھے، اور آنکھ اور ناک سے پانی بہنے لگا تھا۔ باہر بوندیاں تھم گئی تھیں۔ تینوں میں آنکھوں آنکھوں میں کچھ اشارے ہوئے۔ پھر وہ اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔
’’اچھا ہم جاتا ہے۔‘‘ صحبت خاں نے کہا۔ جس وقت وہ دہلیز کے پاس پہنچے تو صحبت خاں نے رنگ علی سے کہا، ’’بخدا تمہارا ننھی جان کا قسمت بہت اچھا ہے۔ اچھا سلام۔‘‘
’’تان سین کے بیٹے کو بھی سلام۔‘‘ گلباز خاں نے کہا۔ اور وہ سیڑھیوں سے اتر گئے۔
چند لمحے خاموشی رہی۔
’’یا خدا یہ کیا مصیبت ہے!‘‘ رنگ علی نے کہا۔
’’ایسے کام کی ایسی تیسی۔‘‘ حسین بخش نے کہا، ’’لعنت ہے ایسی کمائی پر۔ میں تو کل ہی یہاں سے چل دوں گا۔ کسی فلم کمپنی یا ریڈیو میں نوکری کر لوں گا۔ اور جو نوکری نہ ملی تو ٹیوشن کروں گا۔ بھیک مانگ لوں گا۔ مگر اس کوچے کا نام نہیں لوں گا۔‘‘
رنگ علی نے کوئی جواب نہ دیا۔
ٹھیک دوبجے مکان کے نیچے ایک موٹر آکے رکی اور پھر موٹر کا دروازہ زور سے بند ہونے کی آواز آئی۔ ذرا سی دیر میں ننھی جان ٹھمک ٹھمک کرتی سیڑھیاں چڑھتی کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کے پیچھے پیچھے جمن تھا جس نے ایک بقچہ اٹھا رکھا تھا۔ ننھی جان نے ساری کے اوپر لمبا کوٹ پہن رکھا تھا۔ جس کا کالر اور کف لومڑی کی کھال کے تھے۔ سرخ ساری کی مناسبت سے پاؤں میں سرخ سینڈل تھے۔ آدھے سر اور کانوں کو ایک سفید باریک سلک کے مفلر سے ڈھک رکھا تھا۔ جس میں سے صرف کانوں کی لوئیں نظر آتی تھیں۔ ان لوؤں میں روپہلی ٹوپ دو ننھے ننھے پورے چاندوں کی طرح دمک رہے تھے۔ اس کے رخساروں پر غازہ سرخ دھول کی طرح معلوم ہوتا تھا۔ اس کے جسم اور لباس سے خوشبوئیں پھوٹ رہی تھیں۔ اس کی عمر بائیس تئیس برس سے زیادہ نہ تھی۔ چال ڈھال سے وہ ایک الھڑ حسینہ معلوم ہوتی تھی۔ آنکھوں سے مسکرانے والی۔ گہرے گہرے سانس لینے والی۔ رنگ علی اور حسین بخش کی نظریں سب سے پہلے بے ساختہ اس کی ناک پر پڑیں۔ جس میں سرخ نگینے والی ایک کیل چمک رہی تھی۔
’’شکر ہے آپ خیریت سےگھر پہنچیں۔‘‘ رنگ علی نے کہا۔
’’سینما کے بعد کم بخت چشتی زبردستی ہوٹل لے گیا۔‘‘ ننھی جان نے کہا۔
’’بہت اچھا ہوا۔‘‘ رنگ علی نے کہا۔
’’تم لوگ اتنے پریشان کیوں ہو؟‘‘ ننھی جان نے پوچھا۔
’’بائی جی۔‘‘ حسین بخش نے کہا، ’’مجھے تو آپ چھٹی ہی دے دیجیے۔‘‘
’’آخر ہوا کیا؟‘‘
’’آپ گھر پر ہوتیں تو قیامت ہی آ جاتی۔‘‘ رنگ علی نے کہا۔
’’کچھ کہو تو آخر ہوا کیا؟‘‘
’’آپ کے پیچھے تین پٹھان آئے تھے۔‘‘ رنگ علی نے کہا، ’’بڑے وحشی سے۔ ان کے پاس لمبے لمبے چاقو تھے۔ ہمیں مارا پیٹا، گالیاں دیں۔ بات بات پر چاقو نکالتے تھے۔ کہتے تھے۔۔۔‘‘
’’کیا کہتے تھے؟‘‘ ننھی جان نے پوچھا۔
’’کہتے تھے، ان کے منہ میں خاک۔ ہم ننھی جان کا ناک کاٹنے آیا ہے۔‘‘ لمحہ بھر کے لیے ننھی جان کے چہرے کی رنگت کی ایسی کیفیت ہوئی جیسے کوئی بلب فیوز ہوتے ہوتے دوبارہ روشن ہو جائے۔ پھر اس نے نگاہیں اپنی انگلیوں سے سرخ رنگے ہوئے ناخنوں پر گاڑ دیں۔
’’میں نے کہا بھی۔‘‘ رنگ علی نے کہا، ’’بائی جی رات کو واپس نہیں آئیں گی۔ پھر بھی ڈیڑھ بجے تک ہلنے کا نام نہیں لیا۔‘‘
’’میرے منہ پر اس زور کا تھپڑ مارا کہ دو دانت ہل گئے۔‘‘ حسین بخش نے بسورتے ہوئے کہا۔ ننھی جان نے کچھ جواب نہ دیا۔
’’آخر اب کیا ہوگا؟‘‘ رنگ علی نے پوچھا۔
’’جانے کیا ہوگا!‘‘ ننھی جان نے کہا۔
’’تھانہ میں رپٹ نہ لکھوا دیں؟‘‘
’’کچھ فائدہ نہیں۔ الٹی بدنامی ہوگی۔ پھر پولیس والوں کے ناز مفت کے۔‘‘
’’کہیں اور نہ چل دیں؟‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’کسی اور شہر!‘‘
’’کچھ فائدہ نہیں۔ سب جگہ ایسا ہی حال ہے۔‘‘
’’آخر پھر کیا کریں؟‘‘
’’کیا ہو سکتا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں ہو سکتا؟‘‘
’’کچھ نہیں ہو سکتا!‘‘
پل بھر خاموشی رہی۔ اس کے بعد ننھی جان نے انگڑائی لی۔ اس کے ہونٹوں پر ایک تھکی تھکی سی اداس مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
’’خلیفہ جی۔‘‘ اس نے رنگ علی سے کہا، ’’اس وقت تو تم لوگ آرام کرو۔ صبح دیکھا جائےگا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنی خواب گاہ میں چلی گئی اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ پانچ منٹ کے بعد سب کواڑ بند کر دیے گئے تھےاور روشنی گل کر دی گئی تھی۔ دونوں استاد اور جمن فرش پر پاس پاس بستر بچھا کے لیٹ گئے تھے۔
’’یہ پٹھان ضرور کسی کے بھیجے ہوئے تھے۔‘‘ رنگ علی نے حسین بخش سے کہا۔
’’مگر کس کے؟‘‘ حسین بخش نے کہا۔
لمحہ بھر خاموشی رہی۔
’’ہو نہ ہو یہ چکر والے حاجی کی کارستانی ہے۔‘‘ رنگ علی نے کہا، ’’وہ بڈھا نکاح کے لیے بائی جی کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ حسین بخش نے نحیف آواز میں جواب دیا۔
پل بھر کو پھر خاموشی رہی۔
’’یا شاید یہ نواب صاحب کی بدمعاشی ہے۔‘‘ رنگ علی نے کہا، ’’اس کو یہ چڑ تھی کہ ظفر صاحب کیوں آتے ہیں۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ حسین بخش نے پہلے سے بھی نحیف آواز میں جواب دیا۔
چند لمحے خاموشی رہی۔
’’پھر خیال آتا ہے۔‘‘ رنگ علی نے کہا، ’’کہیں یہ اس فیض آباد کے کنگلے تعلقدار کی شرارت نہ ہو، جس کو بائی جی نے بے عزت کر کے مکان سے اتار دیا تھا۔‘‘ حسین بخش نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے منہ دھسے کے اندر کر لیا تھا اور لمبے لمبے سانس، جو ابھی خراٹے نہیں بنے تھے، لینے شروع کر دیے تھے۔ مگر رنگ علی کی آواز برابر سنائی دے رہی تھی، ’’میں جانوں یہ راؤ صاب کا کیا دھرا ہے۔ وہ کانا مارواڑی جو بائی جی کو بنارس لے جانا چاہتا تھا۔۔۔‘‘
مأخذ : کلیات غلام عباس
مصنف:غلام عباس