جواری

0
216
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:‘‘یہ ایک معلوماتی اور مزاحیہ انداز میں لکھی گئی کہانی ہے۔ جواریوں کا ایک گروہ بیٹھا ہوا تاش کھیل رہا تھا کہ اسی وقت پولیس وہاں چھاپا مار دیتی ہے۔ پولیس کے پکڑے جانے پر ہر جواری اپنی عزت اور کام کو لے کر پریشان ہوتا ہے۔ جواریوں کا سرغنہ نکو انھیں دلاسہ دیتا ہے کہ تھانیدار اس کا جاننے والا ہے اور جلد ہی وہ چھوٹ جائیں گے۔ لیکن جواریوں کو چھوڑنے سے قبل تھانیدار انھیں جو سزا دیتا ہے وہ کافی دلچسپ ہے۔’’

پولیس نے ایسی ہوشیاری سے چھاپہ مارا تھا کہ ان میں سے ایک بھی بچ کر نہیں نکل سکا تھا اور پھر جاتا تو کہاں، بیٹھک کا ایک ہی زینہ تھا جس پر پولیس کے سپاہیوں نے پہلے ہی قبضہ جما لیا تھا۔ رہی کھڑکی، اگر کوئی منچلا جان کی پروانہ کر کے اس میں سے کود بھی پڑتا تو اول تو اس کے گھٹنے ہی سلامت نہ رہتے اور بالفرض زیادہ چوٹ نہ آتی تو بھی اسے بھاگنے کا موقع نہ ملتا کیونکہ پولیس کے نصف درجن سپاہی نیچے بازار میں بیٹھک کو گھیرے ہوئے تھے اور یوں وہ سب کے سب جواری، جن کی تعداد دس تھی پکڑ لیے گیے تھے۔

اتفاق سے اس دن جو جواری اس بیٹھک میں آئے تھے ان میں دو ایک پیشہ وروں کو چھوڑ کر باقی سب کبھی کبھار کے شوقیہ کھیلنے والے تھے اور یوں بھی عزت دار اور آسودہ حال تھے۔ ایک ٹھیکہ دار تھا، ایک سرکاری دفتر کا عہدہ دار، ایک مہاجن کا بیٹا تھا، ایک لاری ڈرائیور تھا اور ایک شخص چمڑے کا کاروبار کرتا تھا۔

ان میں دو شخص ایسے بھی تھے جو بے گناہ پکڑ لیے گیے تھے۔ ان میں ایک تو من سکھ پنواڑی تھا۔ ہر چند وہ کبھی کبھی کھیل بھی لیا کرتا تھا مگر اس شام وہ قطعاً اس مقصد سے وہاں نہیں گیا۔ وہ دکان پر ایک دوست کو بٹھا کر دس کے نوٹ کی ریزگاری لینے آیا تھا۔ ریزگاری لے چکا تو چلتے ایک کھلاڑی کے پتوں پر نظر پڑ گئی، پتے غیر معمولی طور پر اچھے تھے۔ یہ دیکھنے کو کہ وہ کھلاڑی کیا چال چلتا ہے یہ ذرا کی ذرا رکا تھا کہ اتنے میں پولیس آ گئی۔ بس پھر کہاں جا سکتا تھا!

دوسرا شخص ایک عمر رسیدہ وثیقہ نویس تھا جو ٹھیکہ دار کو ڈھونڈتا ڈھونڈتا اس بیٹھک میں پہنچ گیا تھا۔ ٹھیکہ دار سے اس کی پرانی صاحب سلامت تھی اور وہ چاہتا تھا کہ ٹھیکہ دار اس کے بیٹے کو بھی چھوٹا موٹا ٹھیکہ کا کام دلا دیا کرے۔ وہ کئی دن سے ٹھیکیدار کی تلاش میں سرگرداں تھا اور آخر ملا بھی تو کہاں، جہاں نہ تو ٹھیکہ دار کو کھیل سے فرصت اور نہ اسے اتنے آدمیوں کے سامنے مطلب کی بات کہنے کا یارا۔ ٹھیکہ دار کھیل میں منہمک تھا اور وثیقہ نویس اس سوچ میں کہ وہ کون سی ترکیب ہو سکتی ہے جس سے یہ کھیل گھڑی بھر کے لیے تھم جائے اور دوسرے سب لوگ اٹھ کر باہر چلے جائیں۔ مگر اس قسم کی کوئی صورت اسے نظر نہ آتی تھی۔ اِدھر ٹھیکہ دار تھا کہ گھنٹوں سے برابر کھیلے جارہا تھا۔ آخر وثیقہ نویس مایوس ہو کر چلنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں پولیس آ گئی اور جواریوں کے ساتھ اسے بھی دھر لیا گیا۔

- Advertisement -

ان دونوں نے اپنی بے گناہی کے بہتیرے ثبوت کیے مگر پولیس نے ایک نہ سنی۔ باقی کے لوگ پولیس کے اس اچانک دھاوے سے ایسے دم بخود رہ گیے تھے کہ کسی کے منہ سے ایک لفظ تک نہ نکلا۔ سپاہیوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ پہلے سب کو بیٹھک سے نیچے اتارا، پھر ان کے گرد گھیرا ڈال کر انہیں پیدل تھانے لے چلے۔ یہ بھی غنیمت ہوا کہ جھپٹٹا وقت تھا۔ دھند لکے میں زیادہ لوگوں کی نظر نہ پڑی اور یہ لوگ کوٹ کے کالر یا پگڑی کے شملے میں منہ چھپائے، تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے جلد ہی تھانے پہنچ گیے جہاں تھانے دار کے حکم سے ان سب کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔

حوالات کی یکسوئی میں جب ان لوگوں کو تماشائیوں کی استہزا بھری نظروں اور سپاہیوں کے کڑے تیوروں اور کرخت لہجوں سے امان ملی اور جان پہچان کے لوگوں سے مڈ بھیڑ کا خوف بھی نہ رہا تو قدرتی طور پر سب سے پہلے ان کا دھیان بیٹھک کے مالک کی طرف گیا جو ان سب کے ساتھ ہی حوالات میں بند تھا۔ ہر شخص اس کو اپنی بربادی کا باعث سمجھتا تھا۔ چنانچہ سب کو اس پر سخت غصہ آ رہا تھا۔ اگر یہ شخص احتیاط سے کام لیتا، مکان کو سرائے نہ بنا لیتا کہ ہر ایرا غیرا منہ اٹھائے چلا آ رہا ہے، بیٹھک کے باہر کسی مخبر کا انتظام کرتا، نیز پولیس والوں سے اپنے تعلقات خوشگوار رکھتا تو ان لوگوں پر یہ برا وقت کبھی نہ آتا۔

بیٹھک کے مالک کا نام تو خد اجانے کیا تھا مگر سب لوگ اسے نکّو نکّو کہا کرتے تھے۔ یہ شخص درمیانے قد اور چھریرے بدن کا تھا۔ شربتی آنکھیں جن میں سرمے کے ڈورے۔ سفید رنگت، چھوٹی چھوٹی مونچھیں، چہرے پر چیچک کے مٹے مٹے سے داغ، دانت پانوں کے کثرتِ استعمال سے سیاہی مائل سُرخ ہو گیے تھے۔ گھنگھریالے بال جو ہر وقت آنو لے کے تیل میں بسے رہتے۔ بائیں طرف سے مانگ نکلی ہوئی۔ دائیں طرف کے بال ایک لہر کی صورت میں پیشانی پر پڑے ہوئے، ململ کا کرتا جس میں سونے کے بٹن لگے ہوئے۔ گلے میں چھوٹا سے سونے کا تعویذ سیاہ ڈورے میں بندھا ہوا۔ اس کا کرتا ہمیشہ اجلا ہوتا مگر دھوتی عموماً میلی۔ سردیوں میں اس لباس پر ایک پرانا سرخ دوشالہ زری کے حاشیے والا اوڑھ لیا کرتا۔ اس کی حرکات میں بلا کی پھرتی تھی۔ جتنی دیر میں کوئی مشاق سے مشاق جواری ایک دفعہ تاش پھینٹے اور بانٹے یہ اتنی دیر میں کم سے کم دو دفعہ تاش پھینٹتا اور بانٹ لیتا تھا۔

نکو پہلے ہی اس حملے کے لیے تیار تھا۔ پولیس کے چھاپے مارنے سے لے کر اس وقت تک تو اس نے چپ سادھے رکھی تھی اور اس سارے قضیے میں اس کا رویہ ایک بیگانے کا سارہا تھا مگر اب جب کہ سب طرف سے اس پر تیز نظروں کے حملے شروع ہوئے تو اس نے ایک جھر جھری لی اور اپنی مدافعت میں ایک لطیف مسکراہٹ، جس میں خفیف سی شوخی ملی ہوئی تھی، اپنے ہونٹوں پر طاری کی۔ یہ مسکراہٹ چند لمحے قائم رہی پھر اس نے نہایت اطمینان کے ساتھ سب پر ایک نظر ڈالی اور بڑی خود اعتمادی کے لہجہ میں کہا، ”آپ لوگ بالکل بھی فکر نہ کریں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ میں سے کسی کا بھی بال بیکا نہ ہو گا۔ میرے ہاں پچھلے پانچ برس میں آج تک ایسا نہیں ہوا تھا۔ اسے تو، کیا کہنا چاہیے، مذاق سمجھو مذاق۔“

جواریوں نے نکّو کی اس بات کو سنا، پر اس سے ان کے غصے میں ذرا بھی کمی نہ ہوئی بعض نے گردن ہلائی، بعض نے بازو جھٹک دیے۔ ”ہوں۔ مذاق سمجھیں۔ یہ اچھی رہی!“ ٹھیکہ دار نے کہا۔

”لا حول و لا قوة۔“ چمڑے کے سودا گرنے ذرا چمک کر کہا، ”عجیب آدمی ہو یا ر، یہاں لاکھ کی عزت خاک میں مل رہی ہے اور تم اسے مذاق بتا رہے ہو!“

”ناراض کیوں ہوتے ہو شیخ جی، میں نے جو کہا، آپ کا بال بھی بیکا نہ ہو گا۔ مونچھوں پر تاؤ دیتے نکلو گے مونچھوں پر تاؤ دیتے!“

”چل ہٹ لپاڑیا کہیں کا۔“ ٹھیکہ دار نے کہا۔

”لپاڑیا کون۔ میں؟“ نکّو نے تنک کر کہا، ”خیر جو جی میں آئے کہہ لو مگر میں پھر کہتا ہوں کہ تم میں سے کسی پر آنچ تک نہ آئے گی۔“

وہ جواری جو کسی سرکاری دفتر میں اکاؤنٹنٹ تھا اسے جوئے سے سخت نفرت تھی مگر جب کبھی اس کی بیوی، بچوں کو لے کر میکے جاتی تو اس کو بیٹھک ہی کی سوجھتی۔ دفتر سے اٹھ کر سیدھا وہیں کا رخ کرتا۔ ہر بار ہارتا اور اپنے کو کوستا۔ عہد کرتا پھر کبھی نہ آؤں گا۔ اگلے روز سب سے پہلے پہنچتا، اس شخص نے نکّو کی یہ بات اَن سنی کر کے فریاد کے لہجے میں کہنا شروع کیا، ”ارے بھائی میں لٹ گیا، میں سرکاری آدمی، میر ی عزت دو کوڑی کی ہو گئی، ہائے میری بیوی بچے، نکّو نے مجھے برباد کر دیا، ہائے۔۔۔“

”سنو تو سہی ملک صاحب۔“

”ارے کیا خاک سنوں، ہائے وہ کون سا منحوس دن تھا جب میں نے تیری صورت دیکھی، ارے یارو میں سرکاری ملازم۔ اگر دفتر والوں کے کان میں بھنک بھی پڑ جائے تو بد نامی۔۔۔ ارے بدنامی کو تو گولی مارو یہاں پندرہ برس کی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑیں ہائے میرے بیوی بچے۔“

مہا جن کا بیٹا جس نے دولت کمانے کا یہ سہل اور دلچسپ طریقہ نیا نیا سیکھا تھا اب تک تو بڑے ضبط سے کام لے رہا تھا مگر ملک کا یہ واویلا سن کر یکبارگی دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہو گیے۔

”صبر کرو چھوٹے شاہ جی صبر کرو۔“ نکّو نے کہا، ”تم تو یار عورتوں کی طرح رونے لگے۔ مرد بنو۔ ارے بھائی یہ تو بات ہی کچھ نہیں ہے۔“

”میرے پتا جی کو پتہ چل گیا۔“ مہا جن کے بیٹے نے سسکیاں لے لے کر کہا، ”تو وہ ایک دم مجھے گھر سے نکال دیں گے۔“

”ارے یار چھوڑ بھی، کوئی گھر سے نہ نکالے گا۔“ نکّو نے کہا۔

”نکّو“ ملک نے کہا، ”یہ سب تیرا کیا دھرا ہے۔“

”ملک صاحب۔“ نکّو نے پر زور لہجہ میں کہا، ”آپ بالکل بھی پریشان نہ ہوں۔ آپ میری بات مانیں، جو میں کہہ رہا ہوں کہ آپ پر ذرا آنچ نہ آئے گی۔ یوں نکال لاؤں گا جیسے مکھن میں سے بال نکالتے ہیں۔“

”بس رہنے دے بھائی۔“ ملک نے ملامت آمیز لہجہ میں کہا، ”اگر یہی دم خم تھا تو پولیس کو آنے ہی کیوں دیا ہوتا!“

”ملک صاحب آپ میری با ت مانیں۔ میں آپ سے سچ کہتا ہوں آپ کا بال بھی بیکا نہ ہو گا۔ بات اصل میں یوں ہے کہ تھانے دار اپنا ہی آدمی ہے۔ سمجھے آپ، وہ بڑا مہربان ہے۔ وہ آ پ کو کچھ نہیں کہے گا۔ میرے منہ پر تھوک دینا اگر کچھ کہا۔“

نکّو کی یہ بات سن کر سب جواری پَل بھر کو خاموش کچھ سوچتے رہے۔ بعض تو ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق اس کی بات کا یقین کر لینا چاہتے تھے اور بعض کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا جیسے وہ کچھ فیصلہ نہیں کرسکے کہ انہیں نکّو پر بھروسہ کرنا چاہیے یا نہیں۔ البتہ یہ ظاہر تھا کہ رفتہ رفتہ ان کا غصہ اترتا جا رہا تھا۔

”دیکھو نکّو!“ چمڑے والے شیخ جی نے کہا، ”میں سو پچاس کی پرواہ نہیں کرتا، مگر میری عزت بچ جائے۔ ویسے بات تو کچھ بھی نہیں ہے اور یوں میرا بہنوئی خود سب انسپکٹر پولیس ہے، مگر توبہ توبہ یہ کسی سے کہنے والی بات ہے!“

”کون؟ من سکھ پنواڑی کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔ وہ اتنے بڑے بڑے آدمیوں کو اس مصیبت میں اپنا ساجھی دیکھ کر اپنا دکھڑا بھول گیا تھا۔“

”اجی یہی آپ کے تھانے دار صاحب بہادر۔“ یہ کہہ کر نکّو ہنس پڑا۔

وہ جواری جو لاری چلا تا تھا کونے میں کھڑا کچھ دیر نکّو کو بہت غور سے دیکھتا رہا، پھر اس کے قریب آیا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہایت سنجیدگی کے ساتھ کہنے لگا، ”دیکھ نکّو! مجھے صبح سویرے لاری میں خشک میوہ بھر کے دور لے جانا ہے ٹھیکہ دار میرا انتظار کر رہا ہو گا۔ اگر تیری واقعی یہاں کسی سے واقفیت ہے تو کوئی ایسی ترکیب کر کہ میں صبح سے پہلے پہلے یہاں سے خلاصی پا جاؤں۔“

یوں تو دھیرے دھیرے سبھی لوگ آخر کار نکّو کی باتوں پر کان دھرنے لگے تھے مگر اس لاری ڈرائیور نے جس لہجہ میں نکّو سے خطاب کیا اس نے قطعی طور پر نکّو کے ساتھیوں میں اس کا اقتدار قائم کر دیا۔ نکّو نے بھی اسے محسوس کیا اور اپنی اس کامیابی پر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں، البتہ لاری ڈرائیور نے جماعت سے علیحدہ ہو کر تنہا اپنی ذات کے لیے جو سفارش کی تھی اس کو سب نے نا پسند کیا اور اسے لاری ڈرائیور کی خود غرضی اور کمینگی پر محمول کیا گیا۔ نکّو نے، جس کے لہجہ میں، اب اور بھی خود اعتمادی پیدا ہو چکی تھی، لاری ڈرائیور سے بڑے سرپرستانہ انداز میں کہا،

”مرزا جی! میری جان گھبراؤ نہیں۔ اس کا بھی انتظام ہو جائے گا۔“

”انتظام و نتظام خاک نہیں ہو گا۔“ اچانک وثیقہ نویس نے جھلّا کر کہا، ”مرزا تم بھی اس ڈینگئے کی باتوں میں آ گیے۔ جو سرپر پڑی ہے اسے خود ہی بھگتو۔“

نکّو نے وثیقہ نویس کے اس غیر متوقع حملے کو بڑی چابک دستی سے روکا، وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔

”لو بڑے میاں کی بات سنو۔“ اس نے کہا، ”ہوں، انتظام نہیں ہو گا اور یہاں مال جو کھلایا جاتا ہے ہر مہینے۔ بھائیو میں پھر کہتا ہوں کہ اسے مذاق ہی سمجھو۔ میں ہندو مسلمان والی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ کسی کا بال بھی بیکا نہ ہو گا۔ وہ یوں کہ تھانیدار۔۔۔ اب کیا بتاؤں تمہیں۔“ وہ ہنس پڑا، ”کہہ جو دیا اپنا ہی آدمی ہے۔۔۔ اب تم کہلوا کے ہی رہو گے پر ذکر وِکر نہ کر بیٹھنا کسی سے ورنہ پھنس جاؤ گے، میرا دوش نہیں ہو گا۔ وہ بات یوں ہے کہ تھانے دار۔۔۔ اب تم سے کیا چھپانا۔۔۔ بھئی میری اس کی رشتہ داری ہے۔ سن لیا؟ کیوں بڑے میاں اب تو ہو گئی تسلی۔ اتنا نہیں سمجھتے کہ اگر ایسی بات نہ ہوتی تو پچھلے پانچ برس سے اتنے بڑے شہر میں یہ دھندا بھلا کیسے چلتا رہتا۔“

نکّو نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ اقتدار کی عمارت پہلے سے کہیں زیادہ مستحکم ہو چکی تھی۔ ان جواریوں میں ایک شخص تھا جس کے چہرے سے کوئی صدمہ یا رنج ظاہر نہیں ہوتا تھا وہ اس سارے واقعہ کے دوران بالکل خاموش رہا تھا۔ وہ اٹھائیس برس کا ایک دبلا پتلا نوجوان تھا، لباس اور وضع قطع کی طرف سے خاصا بے پروا معلوم ہوتا تھا۔ مدت ہوئی اس شخص نے نا تجربہ کاری کی وجہ سے ایک خاصی معقول رقم ہار دی تھی بس اسی دن سے یہ عہد کر رکھا تھا کہ جس روز ہاری ہوئی رقم کو واپس جیت لوں گا جوئے کا پھر کبھی نام نہ لوں گا۔ اس بیٹھک میں آنے سے گھنٹہ دو گھنٹے پہلے کسی باغ میں بیٹھ کر کھیل کا ایک پروگرام سا بنا لیا کرتا۔ چالیں تک سوچ رکھتا۔ بے حد احتیاط سے کھیلتا۔ نہ تاؤ کھاتا نہ جوش، مگر بدقسمتی سے ہاری ہوئی رقم روز بروز بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا قرض بھی۔ اس شخص کو رسوائی یا قید اور جرمانے کا ذرا غم نہ تھا، البتہ اس بات کی فکر ضرور تھی کہ یہ سب کے سب ڈرپوک ہیں۔ بچ گیے جب بھی اور پھنس گیے جب بھی اس بیٹھک کا رخ نہ کریں گے۔

ادھر نکّو نے اب حالات پر قابو پالیا تھا۔ اگرچہ وہ رات رات میں کسی مخلصی کا انتظام بھی نہیں کرسکا تھا تاہم اس نے کسی نہ کسی طرح ہر شخص کو یہ یقین دلایا تھا کہ تھانے دار اگر اس کا قریب کا نہیں تو دور کا قرابت دار ضرور ہے اور صبح ہوتے ہی انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ چنانچہ سب لوگ زمین پر وہ پھٹے پرانے بدبو دار کمبل بچھا کر جو سپاہیوں نے لادیے تھے نخپت سے ہو کر پڑے رہے۔

”اوہو۔ غضب ہو گیا!“ اچانک نکّو نے کہا اور لیٹے لیٹے اٹھ کر بیٹھ گیا۔

”کیوں، کیوں، خیر تو ہے؟“ اندھیرے میں جواریوں نے پوچھا۔

”بھئی اگر پتا ہوتا کہ یہاں رات کاٹنی پڑے گی تو تاش ساتھ لیتے آتے اور مزے سے ساری رات کھیلتے۔۔۔ کہو تو ابھی کسی سپاہی کو بھیج کرتا ش اور موم بتی منگا لوں؟“

”نہ نہ بابا معاف کرو۔“ کئی آوازیں ایک ساتھ سنائی دیں۔

”تم جانو۔“ نکّو نے بے پروائی سے کہا گویا ایسا نہ کرنے میں انہی کا نقصان ہے۔ ”ورنہ اچھی خاصی دل لگی رہتی۔ صبح کو تھانے دار کو سناتے تو وہ بھی خوب ہنستا۔“

اگلے روز صبح نو بجے کے قریب ایک سپاہی حوالات کے سلاخ دار دروازے کے باہر آ کر کھڑا ہوا اور بلند آواز سے پکار کر کہنے لگا،

”او جوار یو اٹھو۔ تمہاری داروغہ صاحب کے سامنے پیشی ہے۔“

جواری دیر سے اس حکم کے منتظر تھے۔ سب کی نظریں بے اختیار نکو کی طرف اٹھ گئیں۔ نکو نظریں ترچھی کر کے ایک خاص ادا سے مسکرادیا۔

پانچ منٹ کے بعد یہ دسوں آدمی تھانے کے چھوٹے سے میدان میں قطار باندھے کھڑے تھے۔ پانچ، دس منٹ، آدھا گھنٹہ گزر گیا مگر تھانے دار کا کہیں پتہ نہ تھا۔ اس دوران نکّو برابر اپنے لطیفوں، پھبتیوں اور ہنسی مذاق کی باتوں سے اپنے ساتھیوں کا جی بہلاتا رہا، مگر جب ایک گھنٹہ گزر گیا اور تھانے دار نظر نہ آیا تب تو سب جواری بہت گھبرائے، ہنسی ان کے ہونٹوں سے غائب ہو گئی، سب کے چہرے اتر گیے اور ایک بدگمانی کی لہر اُن میں پھیل چلی۔ وہ بار بار فکری مندی کے ساتھ نکو کی طرف مستفسر انہ نظروں سے دیکھتے اور نکّو جواب میں ہر ایک کو ہاتھ سے صبر کا اشارہ کر دیتا۔ اس عرصے میں دو تین سپاہی ان جواریوں کے پاس سے گزرے اور نکّو نے ہر ایک کو خان صاحب جی، خان صاحب جی کہہ کر اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا، مگر نہ تو انہوں نے نکو کی بات کا کوئی جواب دیا اور نہ پلٹ کر ہی اس کی طرف دیکھا۔

آخر جب انہیں کھڑ ے کھڑے پورے دو گھنٹے گزر گیے اور ان کی ٹانگیں تھک کر چور ہو گئیں تو ایک سیاہ لاری تھانے کے اندر داخل ہوئی۔ اس میں سے تھانے دار اور کئی سپاہی نکلے۔ تھانے دار کے ہاتھ میں کچھ کاغذات تھے اور سپاہیوں کے کندھوں پر بندوقیں۔ انہیں خالی ہاتھ لوٹتے دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ جس مہم پر وہ صبح ہی صبح گئے تھے اس میں انہیں کامیابی نہیں ہوئی اور یہ مہم ضرور کچھ بڑی ہی اہم مہم ہو گی، جبھی تو تھانے دار پریشان پریشان سا نظر آ رہا تھا۔ نکو دور ہی سے تھانے دار کو دیکھ کر اچھل پڑا، ”وہ آگیا میرا موتیوں والا۔“ اس نے کہا، ”بس اب گھبراؤ نہیں۔ دو تین ہی منٹ میں بیڑا پار ہوا چاہتا ہے۔“

یہ کہہ کر نکو نے دور ہی سے تھانے دار کو ایک فرشی سلام کیا۔ تھانے دار کی یا تو اس پر نظر نہیں پڑی یا پھر اس نے دانستہ نظریں پھیر لیں اور وہ سپاہیوں کی بیرکوں میں چلا گیا۔

”نکّو۔“ وثیقہ نویس نے طعن آمیز لہجہ میں کہا، ”میں جانوں تھانے دار کی تم پر نظر نہیں پڑی ورنہ وہ تمہارے سلام کا جواب ضرور دیتا۔“

”اجی توبہ کرو۔“ نکو نے کہا، ”تھانے دار میرے سلام کا جواب کبھی نہیں دے گا۔ بھائی وہ اس وقت رعب میں ہے، رعب میں، کیا سمجھے!۔ تھانیداری ہے کچھ مذاق تھوڑا ہی ہے۔ ہم سے سیدھے منہ بات کرے تو سپاہیوں پر رعب کیسے جما رہے۔ کل کو یہی سپاہی اس کے ناک چنے نہ چبوا دیں اور سپاہی تم جانو مداری کے بندر کی طرح ہوتے ہیں کہ جب تک لاٹھی نظر آتی رہے ڈگڈگی پر ناچتے رہتے ہیں، جہاں مداری نے ذرا ڈھیل دی بس لگے اینٹھنے، سر پر سوار ہونے۔۔۔“

پانچ منٹ کے بعد تھانے دار چند سپاہیوں کے ساتھ باتیں کرتا ہوا بارکوں میں سے نکلا اور ان جواریوں کے پاس سے گزرتا ہوا تھانے کے پھاٹک پر جا کھڑا ہوا اور وہاں کھڑے کھڑے بدستور سپاہیوں سے باتیں کرتا رہا۔ اتنے میں تھانے دار کے دفتر میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ ذرا سی دیر میں ایک سپاہی دوڑتا ہوا تھانے دار کے پاس پہنچا۔ جب تھانے دار تنہا واپس آ رہا تھا تو نکو نے ایک بار پھر اسے سلام کیا۔ تھانے دار نے گھور کر اس کی طرف دیکھا اور پھر تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا دفتر میں چلا گیا۔

”کہا تھا نا۔“ نکّو نے فتح مندانہ لہجہ میں کہا، ”وہ میرے سلام کا جواب نہیں دے گا۔ کیوں جواب دیا؟“

سب جواری خاموش رہے۔

”ایک دن“ نکو نے پھر کہنا شروع کیا، ”تھانے میں بس وہ اور میں ہی تھے، کوئی سپاہی آس پاس نہیں تھا۔ بس پھر کیا تھا۔ اتنی گدگدیاں کیں کہ ہنسا ہنسا کے برا حال کر دیا۔“

تھانے دار کوئی آدھ گھنٹے تک دفتر کے اندر ہی رہا۔ یہ لوگ پھر بے صبر ہو چلے تھے کہ اتنے میں وہی سپاہی جس نے صبح آ کر پیشی کی اطلاع دی تھی دفتر سے نکلا اور سیدھا ان کے پاس آ کر اپنے اکھڑ لہجے میں کہنے لگا، ’ ’او جواریو! سنو۔ داروغہ صاحب نے حکم دیا ہے کہ تم سب کے سب دھوتی پا جامہ کھول کے زمین پر ایک قطار میں اوندھے لیٹ جاؤ۔ پھر تم میں سے سرے والا آدمی ایک ایک کر کے اٹھے اور ہر ایک کے دس دس جوتے لگا کے خود دوسرے سرے پر اوندھا لیٹ جائے۔ غرض اسی طرح سب کے سب باری باری ہر ایک کے دس دس جوتے لگائیں۔“ تھانے دار کا یہ حکم اتنا غیر متوقع تھا کہ سب جواری ہکا بکا رہ گئے اور سراسیمہ ہو کر سپاہی کا منہ تکنے لگے۔

”الوؤں کی طرح میرا منہ کیا تک رہے ہو۔ اگر حکم سمجھ میں نہ آیا ہو تو پھر سنا دوں؟“ یہ کہہ کر جواب کا انتظار کیے بغیر سپاہی نے وہی الفاظ پھر دہرا دیے۔ اس پر وثیقہ نویس اور من سکھ پنواڑی بے اختیار آگے لپک کر سپاہی کے قدموں سے لپٹ گیے۔

”خان صاحب ہم بالکل بے قصور ہیں۔“ انہوں نے یک زبان ہو کر گڑگڑا کر کہا، ”یہ سب لوگ گواہی دیں گے کہ ہم بالکل بے گناہ ہیں۔ جس وقت پولیس آئی ہم نہ تو کھیل رہے تھے اور نہ اس ارادے سے وہاں گیے تھے۔ ہم بے گناہ ہیں۔ خدا جانتا ہے کہ ہم بالکل بے قصور ہیں۔“

”میں گواہی وواہی کچھ نہیں جانتا۔“ سپاہی نے کہا، ”داروغہ صاحب نے سب کے لیے یہی حکم دیا ہے۔ ہاں اور سنو!انہوں نے کہا ہے اگر یہ لوگ راضی نہ ہوں تو ان سب کو پھر حوالات میں بند کر دیا جائے۔ دیکھو، دیر نہ کرو۔ مجھے داروغہ صاحب کے ساتھ ابھی ابھی باہر جانا ہے۔ لاری تیار کھڑی ہے۔ تم نے دیر کی تو میں پھر سب کو حوالات میں بند کر دوں گا۔“

وثیقہ نویس اور من سکھ دونوں مایوس ہوکے پھر قطار میں آ کھڑے ہوئے۔ ان کا یہ انجام دیکھ کے کسی جواری کو لب ہلانے کی جرأت نہ ہوئی اور وہ سخت پریشان ہو کر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ کیا کیا جائے۔ ان کی نظریں بار بار نکو پر پڑتیں تھیں جو گویا دیواروں کو چھیدتی ہوئی تھانے دار کو ڈھونڈ نکالنا چاہتی تھیں۔

”دیکھو دیکھو“ سپاہی نے کہا، ”تم لوگ دیر کر رہے ہو مجھے مجبوراً تم سب کو حوالات ہی میں بند کر دینا پڑے گا۔“

اس پر بھی جواری ابھی لیت و لعل ہی کر رہے تھے کہ اچانک کسی کے دھڑام سے زمین پر گرنے کی آواز آئی۔ یہ نکو تھا جو دھوتی کھولے زمین پر اوندھا پڑا تھا۔ اسے اس حال میں دیکھ کر من سکھ کی ہمت بندھی اور اس نے بھی نکو کی پیروی کر ہی دی۔ اکاؤنٹنٹ ملک ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ سپاہی نے پیچھے سے آ، گدّی سے پکڑ کر زبردستی نیچے بٹھا دیا اور اس نے نا چارا پنے نیکر کے بٹن کھول دیے۔ سپاہی کے اس سلوک کو دیکھ کر دوسرے جواری آپ ہی آپ زمین پر لیٹ گیے۔ صرف چمڑے والے شیخ جی کھڑے رہ گیے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور صورت سے انتہا درجہ کی مظلومی برس رہی تھی۔ ان کا ہاتھ بار بار کمر بند پر پڑتا تھا مگر وہیں رہ جاتا تھا۔

ایسے معزز اور شریف صورت آدمی کو ایسی پریشانی میں دیکھ کر سپاہی کا دل پسیج گیا اور وہ جان بوجھ کر وہاں سے ٹل گیا۔ شیخ جی نے دل کڑا کیا، پگڑی کے شملے سے آنسو پونچھے، گردن پھرا کر اپنے اردگرد نظر ڈالی اور پھر انتہائی مجبوری کے ساتھ بالآخر انہوں نے بھی تھانے دار کے حکم کی تعمیل کر دی۔ سرے پر لاری ڈرائیور تھا۔ سب سے پہلے جوتے لگانے کی اس کی باری تھی۔ جس وقت وہ اٹھا تو نکّو زور سے کھنکھکارا، ”مرزا جی سنبھل کے۔“ اس نے کہا، ”سب اپنے ہی آدمی ہیں ہاں۔ دیکھنے میں زور کا ہاتھ پڑے مگر۔۔۔ سمجھ گیے نا۔۔۔“

لاری ڈرائیور نے ابھی پانچ تک ہی گنتی کی تھی کہ وہی سپاہی تھانے کے دفتر سے نکلا اور اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ ”داروغہ صاحب کہتے ہیں۔“ اس نے پاس آ کر کہا، ”اگر تم لوگوں نے ٹھیک طرح سے جوتے نہ لگائے تو میں اپنے سپاہیوں سے جوتے لگواؤں گا۔“ یہ کہہ کر وہ پھر چلا گیا۔

جواریوں نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ خود ہی آپس میں زور زور کے جوتے لگوا لیں چنانچہ کوئی بیس منٹ کے بعد، جب ہر ایک نے ہر ایک کے دس دس جوتے لگائے تو وہ اس کا م سے نمٹ، چنانچہ کپڑے جھاڑ، اٹھ کھڑے ہوئے۔ اتنے میں وہی سپاہی پھر آیا اور کہنے لگا، ”جاؤ اب کے داروغہ صاحب نے تمہارا قصور معاف کر دیا ہے، پھر کبھی جوا نہ کھیلنا“،

یہ لوگ تھانے میں سے یوں نکلے جیسے اپنے کسی بڑے ہی عزیز قریبی رشتہ دار کو دفن کر کے قبرستان سے نکلے ہوں۔ تھانے سے نکل کر کوئی سو گز تک تو وہ چپ چاپ گردنیں ڈالے چلا کیے۔ اس کے بعد نکو نے یکبارگی زور کا قہقہہ لگایا۔ اتنے زور کا کہ وہ ہنستے ہنستے دوہرا ہو گیا۔ ”کیوں دیکھا!“ اس نے کہا، ”نہ چالان، نہ مقدمہ، نہ قید، نہ جرمانہ، میں نہ کہتا تھا اسے مذاق ہی سمجھو!“

مأخذ : کلیات غلام عباس

مصنف:غلام عباس

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here