کہانی کی کہانی:’’بے مکانی کے کرب اور انسانی فطرت کی کمینگی کو اس کہانی میں نمایاں کیا گیا ہے۔ گورنمنٹ کی جانب سے مکانوں کی تعمیر کے لئے زمینیں الاٹ کی جاتی ہیں۔ ان زمینوں کے خریداروں کی فہرست میں جہاں ایک جانب پروفیسر سہیل ہیں وہیں دوسری جانب ایک دفتر کا چپراسی چاند خاں ہے۔ مستری اور ٹھیکے دار دونوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتے ہیں۔ بد عنوانیوں کے ایک طویل سلسلے کے بعد پروفیسر سہیل کا مکان جب بن کر تیار ہوتا ہے تو اس قدر بے ڈھنگا ہوتا ہے کہ وہ خود کو کسی طور پر بھی اس میں رہنے کے لئے تیار نہیں کر پاتے ہیں اور ایک جرمن سیاح کو کرایہ پر دے دیتے ہیں۔ کرایہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے ایک نیا گھر تعمیر کر سکتے ہیں۔ پروفیسر سہیل بے عیب مکان بنانے کا عزم کرکے اخبار اٹھا لیتے ہیں او خالی زمینوں کے اشتہار پڑھنے لگتے ہیں۔‘‘
جب سے سرکار نے لوگوں کو مکانات تعمیر کرانے کے لیے زمینیں الاٹ کرنی شروع کی ہیں، اس شہر کی کایا ہی پلٹ گئی ہے۔ آس پاس کے وہ علاقے جو میلوں تک ویران پڑے تھے ، اب ان میں جگہ جگہ کھدائیاں ہو رہی ہیں۔ ان گنت راج مزدور، مستری اور ٹھیکہ دار ایک عجیب بےچینی اور عجلت کی کیفیت کے ساتھ کام کرتے اور ادھر سے ادھر دوڑتے بھاگتے نظر آتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے آثار قدیمہ کا کوئی بہت بڑا محکمہ اپنے پورے لاؤلشکر کے ساتھ آبرا جا ہے اور کسی بھرے پرے قدیمی شہر کو ، جو صدیاں گزریں کسی آفت ناگہانی کے سبب زمین میں دھنس گیا تھا، جوں کا توں باہر نکالنے کی سعی کر رہا ہے۔
مکان بنوانے کی آرزو انسان کی فطرت کا لازمہ ہے۔ یہ وہ آرزو ہے جو بچپن ہی سے، جب وہ گھروندے بنا بنا کر کھیلتا ہے، اس کے دل میں گھر کر لیتی ہے۔ اور پھر عمر بھر کبھی ابھرتی کبھی دبتی رہتی ہے۔ عمر کے کسی دور میں بھی جب کبھی اسے ذرا سی بھی خوش حالی نصیب ہوتی ہے، وہ اپنی اس دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاکہ صاحب جائیداد ہونے کا فخر حاصل کر سکے۔ حکومت کی اس امداد کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر وہ شحص جو تھوڑی سی بھی مقدرت رکھتا تھا، کچھ زیادہ سوچے سمجھے بغیر مکان بنوانے پر کمر بستہ ہو گیا۔ کچھ لوگ بے سہارے ہی کسی لطیفہ غیبی کے بھروسے پر تعمیر کے منصوبے باندھنے لگے۔
سہیل ایک سرکاری کالج میں فلسفہ کا پروفیسر ہے۔ وہ دبلا پتلا، کم آمیز اور خاموش طبع انسان ہے۔ وہ شہر کے بیچوں بیچ ایک کمرے والے فلیٹ میں اپنی بیوی اور دو بچیوں کے ساتھ رہتا ہے۔ جب تک بچیاں چھوٹی چھوٹی تھیں، جیسے تیسے گزر ہوتی چلی جاتی تھی، مگر اب جب کہ لڑکیاں بڑی بڑی ہو گئی ہیں، سب کے ایک کمرے میں سونے سے قباحتیں پیدا ہونے لگی ہیں۔ آخر سہیل نے ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کی وساطت سے چھ سو مربع گز زمین شہر سے باہر ایک وسیع علاقے میں خرید لی۔ پندرہ ہزار روپیہ حکومت سے قرض مل گیا۔ کوئی تین ہزار روپیہ پاس تھا۔ کالج سے دومہینے کی چھٹی لی اور مکان کی تعمیر میں مصروف ہو گیا۔
بدقسمتی سے بسم اللہ ہی غلط ہوئی۔ جس ٹھیکہ دار کو مکان کا ٹھیکہ دیا گیا، وہ تعمیر شروع کرنے سے قبل دوتین مرتبہ پلاٹ پر آیا اور زمین پر اکڑوں بیٹھ کر مختلف زاویوں سے اس کا جائزہ لیتا رہا۔ پھر ایک دن اس نے مکان کے نقشے کو دیکھ دیکھ کر زمین پر چونے سے کچھ نشانات لگائے۔ اس موقع پر اس نے نیک شگون کے طور پر بازار سے کچھ شیرینی منگوا کر آس پاس کے راج مزدوروں میں بانٹی۔ اس کام سے فارغ ہو کر اس نے سہیل سے پانچ سو روپے پیشگی مانگے جو اسی وقت دے دیے گئے۔ دوسرے روز ٹھیکہ دار کچھ ایسا گم ہوا کہ نہ جانے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ پروفیسر سہیل کو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ شخص کئی بھولے بھالے آدمیوں کو اسی طرح جل دے چکا ہے۔ اس کی بیوی نے یہ ماجرا سنا تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل پڑے۔ آخر سہیل نے فیصلہ کیا کہ آئندہ تعمیر کا کام ٹھیکے پر نہ دیا جائے بلکہ امانی پر کرایا جائے۔
چاند خاں کسی دفتر میں چپراسی ہے۔ وہ ہے تو ادھیڑ عمر مگر اس کا جسم خوب گٹھا ہوا ہے۔ دن بھر سائیکل چلا چلا کے اس کی ٹانگیں خوب مضبوط ہو گئی ہیں، گو رنگ زیادہ کالا پڑ گیا ہے۔ وہ اپنی بڑھیا ماں، بیوی، دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ پھونس کے جھونپڑوں کی ایک کالونی میں رہا کرتا تھا۔ بڑا لڑکا علی الصباح اخبار بانٹتا، چھوٹا لڑکا اسکول جاتا، بیٹی پڑوس کے ایک بابو کے گھر میں دس روپے ماہوار پر صبح شام برتن مانجھنے جایا کرتی۔ اچانک چاند خاں کا نصیبہ کھلا۔ اسے ستر مربع گز زمین الاٹ ہو گئی، اور ڈیڑھ ہزار روپیہ گورنمنٹ سے قرض بھی مل گیا۔ اس کی بیوی نے چاندی کے کڑے اور پازیبیں اتار کر میاں کو دیں کہ انہیں بیچ کر مکان پر لگا دو۔ وہ تو کانوں سے چاندی کی بالیاں بھی اتارنا چاہتی تھی مگر میاں نے یہ کہہ کر روک دیا کہ ان کے تو کوئی آٹھ آنے بھی نہ دےگا۔
شام کو چاند خاں کی بیوی نے کالونی کے گوالے سے، جو سائیکل پر دودھ بیچنے جایا کرتا تھا، بڑی لجاجت سے کہا، ’’تمہارے بھیا مکان بنوا رہے ہیں۔ آگے دالان، پیچھے دو کمرے، غسل خانہ۔ کوئی کرایہ دار ہو تو ذرا نظر میں رکھیو۔‘‘
ایک فوجی افسر کو جس کی لمبی لمبی اکڑی ہوئی مونچھیں ہیں، چار سو مربع گز زمین ملی ہے۔ وہ ہر روز ڈیوٹی سے فارغ ہوتے ہی وردی پہنے ٹرک پر سیدھا اپنے زیر تعمیر مکان پر پہنچ جاتا ہے۔ اور پیٹی میں پستول لٹکائے گھنٹوں کڑی دھوپ میں راج مزدوروں کے درمیان پھرتا اور ان کے کام کی نگرانی کرتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی وہ ان سے اپنے جنگی کارنامے بھی بیان کرتا ہے۔ اس کے پاس جو پستول ہے وہ اس نے بقول خود ایک جرمن افسر کو قتل کر کے حاصل کیا ہے۔
پروفیسر سہیل کے مکان کی نیو رکھی جا چکی ہے۔ چونکہ اس نے کسی کتاب میں پلر اسٹائل کی تعمیر کی بڑی تعریف پڑھی تھی، اس لیے اس نے اسی طرز پر مکان بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اب لوہے کے سریے کھڑے کرکے ستونوں کی بھرائی ہو رہی ہے۔ وہ ہر روز ایک کاپی میں معماروں اور مزدوروں کی حاضری درج کرتا، اور ہفتے کے ہفتے سب کا حساب چکتا کر دیتا ہے۔ سہیل نے ایک مستری کو ، جو شکل و صورت سے خاصا تجربہ کار معلوم ہوتا تھا، اس کی روزانہ اجرت کے علاوہ پچاس روپے ماہوار زائد دینا منظور کر رکھا ہے تاکہ وہ اپنے کام کے ساتھ ساتھ دوسروں کے کام کی نگرانی بھی کرتا رہے۔ سہیل نے یہ انتظام اس لیے کیا کہ ایک تو وہ تعمیری کام کی کچھ عملی واقفیت نہ رکھتا تھا۔ گو اس نے کتابی معلومات کافی حاصل کر لی تھیں۔ دوسرے دوماہ کی رخصت ختم ہونے کے بعد وہ وہاں نگرانی کے لیے موجود بھی نہ رہ سکتا تھا۔ مگر اس مستری کی نگرانی کے باوجود کام بہت آہستہ آہستہ ہو رہا تھا۔ اس سلسلے میں چوکیدار اور دوسرے ذریعوں سے جو اطلاعات پروفیسر سہیل کے کانوں تک پہنچیں ان کا لب لباب یہ تھا،
(الف) جب سے اس مستری کو دوسروں کے کام کا نگراں مقرر کیا گیا ہے، اس نے اپنے ہاتھ سے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔
(ب) یہ مستری صرف ان ہی کاری گروں اور مزدوروں کو کام پر لگاتا ہے جو اپنی اجرت کا چوتھائی حصہ اس کو بطور کمیشن دینا منظور کرتے ہیں۔
(ج) چونکہ مزدوروں کو پوری مزدوری نہیں ملتی، اس لیے وہ دل لگا کے کام نہیں کرتے۔
علاوہ ازیں آئے دن جھگڑے بھی ہوتے رہتے اور سیمنٹ کی بوریوں کی گنتی میں تو ہر روز کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہو ہی جاتی۔ سہیل سب کچھ دیکھتا ، سنتا مگر زبان نہ ہلاتا۔ ایک دن شام کو جب راج مزدور چھٹی کر گئے اور چوکیدار نماز پڑھنے میں مشغول ہوگیا تو پروفیسر سہیل کا ایک ہمسایہ، جس کا مکان دو تین پلاٹ چھوڑ کر بن رہا تھا، اس کے پاس آیا اور کہنے لگا، ’’پروفیسر صاحب! کیا آپ سچ مچ اپنا سیمنٹ بیچنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’نہیں تو! کیوں کیا بات ہے؟‘‘
’’کل آپ کا مستری دو مزدوروں کی پیٹھ پر دو بوریاں اٹھوائے میرے پاس آیا تھا اور میرے ہاتھ سیمنٹ فروخت کرنا چاہتا تھا۔ مجھے کچھ شک گزرا اور میں نے لینے سے انکار کر دیا۔ اس پر وہ مزدوروں کو لیے ہوئے کسی اور سمت چل دیا۔‘‘ سہیل نے مستری کو موقوف کردیا مگر بدقسمتی سے اس کے ساتھ ہی تعمیر کا کام رک گیا اور نئے مستری کی جستجو ہونے لگی۔
چاند خاں چپراسی نے ایک ٹھیکہ دار سے دوستی گانٹھی۔ وہ سگرٹ پان اور چائے سے اس کی تواضع کرتا اور اس کو خوش کرنے کے لیے بڑی چاپلوسی کی باتیں کرتا۔ بڑے بڑے افسروں کی گھریلو زندگی کے خفیہ حالات مزے لے لے کر بیان کرتا۔ آخر ٹھیکہ دار نے اس کا مکان رعایتاً بنا دینے کی ہامی بھرلی۔ جس دن دفتر میں چھٹی ہوتی، چاند خاں اور اس کے بیٹے خود مزدوروں کی طرح کام کرتے۔
اس کے گھر کی دیواریں کھڑی ہوگئیں اور دروازوں اور کھڑیوں کی چوکھٹیں بھی چنائی میں لے لی گئیں۔ مگر چھت تک پہنچتے پہنچتے چاند خاں کے پاس دام ختم ہو گئے۔ اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو جو کسی دوسرے شہر میں آڑھت کی دکان کرتا تھا لکھا کہ میں سخت بیمار ہوں، ہسپتال میں پڑا ہوں، مرنے کے قریب ہوں۔ اگر تم میری جان بچانا چاہتے ہو تو فوراً دو سو روپے بھیج دو۔ دو ہفتے گزر گئے مگر بھائی نے کچھ جواب نہ دیا۔ اس پر چاند خاں نے بھائی کو بھاری بھاری مغلظات سنائیں، جو چاند خاں ہی سنا سکتا تھا اور سود پر قرض دینے والے پٹھانوں کی تلاش شروع کر دی۔
ایک دن ایک عورت جو سیاہ برقع پہنے ہوئے تھی، ہر اس جگہ جاتی ہوئی دیکھی گئی جہاں مدد لگ رہی تھی۔ وہ بڑے دردناک لہجہ میں راج مزدوروں سے یوں خطاب کرتی، ’’اے مسلمان بھائیو! میں ایک بیوہ ہوں۔ میرا شوہر فلاں دفتر میں ہیڈکلرک تھا کہ اچانک اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کے مرنے سے میں بے یار و مددگار رہ گئی ہوں۔ للہ میرے یتیم بچوں پر ترس کھاؤ اور مجھے کوئی ایمان دار مستری دلواؤ۔‘‘ مستری اور راج مزدور اپنا کام چھوڑ، بڑی توجہ سے اس کی تقریر سنتے اور جب وہ اپنا مدعا کہہ چکتی تو اسے کوئی جواب دیے بغیر پھر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے۔
دو باپ بیٹے اپنی نگرانی میں چار سو گز کے ایک پلاٹ پر مکان بنوا رہے تھے۔ باپ کو تعمیر کے کام کی خاصی سوجھ بوجھ تھی۔ بیٹا حساب کتاب اور لین دین کے کاموں میں ہوشیار تھا۔ جب لوہا بندھ چکا اور سنٹرنگ ہو چکی تو ایک خاص دن چھت ڈالنے کے لیے مقرر کیا گیا۔ مگر اس دن نہ تو مستری ہی پہنچا اور نہ بھرائی والے ہی آئے۔ آخر باپ بیٹوں نے ادھر ادھر سے دو چار مزدور پکڑے اور ان کی مدد سے خود ہی چھت ڈالنے پر تیار ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ یہ چھت دس روز میں جاکے پڑی۔ ایک ایک کمرے پر دو دو دن صرف ہوئے۔ اس واقعہ کا اس نواح میں کئی روز تک چرچا رہا۔
ایک وکیل صاحب نے زمین کا ٹکڑا تو خاصا بڑا خرید لیا، مگر اتنا بڑا مکان بنوانے کی استطاعت نہ رکھتے تھے۔ انہوں نے وسط میں صرف ایک کمرہ اور ایک باورچی خانہ بنوا لیا اور دیواروں پر پلستر، سفیدی یا رنگ روغن کرائے بغیر باقاعدہ طور پر رہنا شروع کر دیا۔ ان کا کنبہ خاصہ بڑا تھا۔ رات کو یہ لوگ لالٹین جلاتے۔ چونکہ یہ پلاٹ سرراہ تھا جس پر آنے جانے والے کی نظر پڑتی تھی، اس لیے انہوں نے پلاٹ کے گرد گرد چاردیواری کی جگہ پودے اگا دیے۔ اس سے چند ہی ہفتوں میں باڑھ بن گئی جس سے اچھا خاصا پردہ ہو گیا۔ مگر ایک دن مٹی ڈھونے والوں نے بہت سے گدھے اس طرف سے گزارے۔ صحرا میں وہ اس ہریالی کو دیکھ کر بری طرح اس پر ٹوٹ پڑے اور جب تک گھر کے زن و مرد ہاتھوں میں ڈنڈے لیے شور مچاتے ان کو ہنکانے کے لیے پہنچے، انہوں نے آدھی سے زیادہ باڑھ صاف کر دی۔
پروفیسر سہیل کے ہاں تعمیر کا کام پھر شروع ہو گیا تھا۔ اپنے پچھلے تلخ تجربے کے بعد ، جس میں اس کی نصف سے زیادہ چھٹی یوں ہی برباد ہو گئی تھی، اس نے مستریوں کی بے ایمانیوں پر چشم پوشی شروع کر دی تھی۔ وہ دیکھتا کہ بعض کاریگر دوپہر کو کھانا کھانے کے بعد اپنے ٹفن کے خالی ڈبوں کو سیمنٹ سے بھر لیتے ہیں۔ وہ دیکھتا کہ لوہار لوہا باندھنے والے تار کے پونڈ کے پونڈ غائب کر دیتا ہے۔ وہ دیکھتا کہ بڑھئی پیمائش کرکے اس سے جتنی لکڑی منگواتا ہے اس سے آدھی بھی دروازے اور کھڑکیاں بنانے میں صرف نہیں کرتا۔ وہ ہر روز چھٹی کے وقت لکڑی کے کئی کارآمد ٹکڑے سیمنٹ کی خالی بوری میں برادے کے ساتھ بھر کر سائیکل کے پیچھے باندھ لے جاتا۔ وہ دیکھتا کہ چوکیدار مستریوں کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ مستری اکثر کام سے غائب رہتے ہیں مگر وہ ان کی رپورٹ نہیں کرتا۔ وہ یہ سب کچھ دیکھتا مگر دم نہ مارتا۔ رات کو وہ اپنی بیوی سے ان لوگوں کی دغابازیاں بیان کرتا۔ بیوی سن سن کر آنسو بہاتی رہتی۔
اس کے دو مہینے کی چھٹی ختم ہوگئی اور وہ پھر کالج جانے لگا۔ مگر درس و تدریس میں اس کا مطلق دل نہ لگتا۔ اس کا دوپہر کا کھانا بالکل چھوٹ گیا تھا۔ وہ کالج سے گھر جانے کے بجائے پلاٹ کا رخ کرتا اور وہاں سے شام کو بڑی دیر میں گھر پہنچتا۔ غضب یہ ہوا کہ ابھی مکان کا بہت سا کام باقی تھا کہ مستریوں کی بے ایمانی، عمارتی سامان کی نایابی اور بلیک مارکیٹ سے اس کی خرید کے باعث اس کا سرمایہ ختم ہو گیا۔ رفتہ رفتہ بیوی کے زیورات، ریڈیو، بائیسکل، کپڑا سینے کی مشین، کیمرا، گھڑیاں اور کئی اور مفید اشیاء مکان کی بھینٹ چڑھنے لگیں۔ اس کے پاس نایاب کتابوں، قلمی تصویروں اور پرانے بادشاہوں کے سکوں کابہت نادر ذخیرہ تھا، وہ سب کوڑیوں کے مول بک گیا۔ اس کی آدھی سے زیادہ تنخواہ مکان کی تعمیر میں اٹھ جاتی۔ اس نے سگرٹ پینا چھوڑ دیا۔ گھر میں دونوں وقت دال بھاجی پکنے لگی۔ کسی کے پاس پہننے کے لیے ڈھنگ کا کپڑا نہ رہا۔ کالج میں پرنسپل سمیت کوئی پروفیسر یا لکچرار ایسا نہ تھا جس کا وہ سو پچاس کا مقروض نہ ہو۔ وہ شب و روز غموں، فکروں میں گھلنے لگا۔ اس کی صحت جواب دینے لگی۔
جس علاقے میں پروفیسر سہیل کا مکان بن رہا تھا، اس کے قریب ہی چار سو گز کے ایک پلاٹ پر کسی دفتر کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا مکان بھی زیر تعمیر تھا۔ اس شخص نے اپنے محکمانہ اثر و رسوخ کو کام میں لاتے ہوئے ہر چیز سستے داموں خریدی تھی اور ہر کام رعایت سے کرایا تھا۔ پھر بھی مکان کی تیاری میں چار پانچ ہزار روپے کی کسر رہ گئی۔ یہ رقم اس نے ایک ڈاکٹر سے جسے رہائش کے لیے مکان کی تلاش تھی، دو سال کے پیشگی کرائے کے طور پر حاصل کر لی۔ جب مکان بن کر تیار ہوا تو اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی بیوی جو مصری برقع پہنے ہوئے تھی، اپنے نصف درجن بچوں کو لے کر آ گئی اور مکان پر قابض ہو گئی۔ ڈاکٹر یہ دیکھ کر بہت سٹپٹایا۔ مگر اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے بڑی لجاجت سے اس سے کہا کہ چند روز میرے بیوی بچوں کو اپنے مکان کا چاؤ پورا کر لینے دو، پھر ہم اسے خالی کر دیں گے۔
مگر یہ چند روز ہفتوں میں بلکہ مہینوں میں تبدیل ہو گئے۔ اب اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے ڈاکٹر کی خوشامدیں شروع کر دیں کہ مجھے اسی مکان میں رہنے دو۔ میرے پاس رہنے کو کوئی جگہ نہیں۔ کچا ساتھ ہے۔ میں آپ کا روپیہ جو میں نے پیشگی وصول کیا تھا، ماہانہ قسطوں کی صورت میں ادا کر دوں گا۔ اس پر ڈاکٹر نے وکیل کے ذریعے سے اسے نوٹس دیا اور قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دی۔ آخر اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے مکان خالی کر دینے ہی میں مصلحت سمجھی۔ مکان سے نکلتے وقت اس کی بیوی بچے زار و قطار رو رہے تھے۔
ایک اونچے عہدہ دار نے دو ہزار مربع گز زمین پر ایک عالی شان بنگلہ تعمیر کروایا اور اس میں خوش نما باغیچہ بھی لگوایا۔ اس کا نام ’’رین بسیرا‘‘ تجویز ہوا۔ ایک دوست نے مشورہ دیا کہ اس پر ’’ھذا من فضل ربی‘‘ بھی لکھوا دیا جائے۔ عہدہ دار نے اس رائے کو پسند کیا اور جلی خط نسخ میں یہ الفاظ بنگلے کی پیشانی پر کندہ کرا دیے۔ دوہفتے بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ یہ بنگلہ جس پر کوئی نوے ہزار روپے لاگت آئی تھی، ڈیڑھ لاکھ میں بک گیا۔
چاند خاں کو بالآخر ایک ایسا کرایہ دار مل ہی گیا جس نے ہامی بھر لی کہ میں تمہارے ادھورے مکان کو مکمل کرا دوں گا بشرطیکہ تم ابھی سے مجھے اس میں بس جانے دو۔ چاند خاں کو مجبوراً اس کی یہ شرط منظور کرلینی پڑی۔ اس کی بیوی نے مکان کا کرایہ دار مل جانے کی خوشی میں گنے کے رس کی کھیر پکائی اور سارے جھونپڑی والوں کا منہ میٹھا کرایا۔
خدا خدا کر کے پروفیسر سہیل کا مکان تکمیل کو پہنچا۔ مگر وہ اس قدر ناقص بنا تھا کہ اس کے اندر جاتے ہوئے پروفیسر کی جمالیاتی حس سخت مجروح ہوتی تھی۔ دیواروں میں کوب، کھڑیاں اور دروازے ٹیڑھے بینکے، برآمدہ بے ڈھنگا، ایک طرف سے چھوٹا ایک طرف سے بڑھا۔ ماربل چپس کے فرشوں میں ابھی سے دراڑیں پڑ گئی تھیں۔ پھر وہ یہ بھی وثوق سے نہ کہہ سکتا تھا کہ اس کی تعمیر میں مستریوں نے لوہا اور سیمنٹ پوری مقدار میں استعمال کیا ہے یا نہیں۔ اور اس میں رہنے سے جان کا خطرہ تو نہ ہوگا۔ بہت روز تک وہ مکان خالی پڑا رہا۔ آخر ایک دن اس نے جرأت کر کے اخبار میں اشتہار دے ہی ڈالا۔ اس کی توقع کے خلاف تین چار ہی روز میں اسے پچاس ساٹھ خطوط وصول ہو گئے۔ ان میں سے نصف کے قریب غیرملکیوں کے تھے۔ یہ لوگ سفارت خانوں یا تجارتی فرموں سے تعلق رکھتے تھے اور مکان نہ ملنے کے باعث ہوٹلوں میں بھاری کرایے ادا کر رہے تھے۔
پروفیسر سہیل نے چار پانچ اچھی اچھی اسامیوں کو منتخب کیا اور مکان دکھانے کے لیے بلوایا، اس کے اچنبھے اور خوشی کی حد نہ رہی جب ان لوگوں میں سے کسی نے بھی ان نقائص کی طرف اشارہ تک نہ کیا جو وہ اپنی دانست میں اس مکان میں پاتا تھا۔ آخر ایک جرمن کو اس نے اپنا مکان کرائے پر دے دیا۔ اسے اتنی رقم پیشگی کرائے کے طور پر مل گئی کہ وہ اس سے ایک چھوٹا سا نیا مکان بنا سکے۔ اس معاملے کے یوں خوش اسلوبی سے نمٹ جانے کے بعد وہ شاداں و فرحاں گھر پہنچا اور بیوی سے کہنے لگا، ’’اچھا ہی ہوا کہ ہم خود اس مکان میں نہ گئے۔ ایک تو اس کی بناوٹ بڑی ناقص ہے دوسرے اس میں رہنا بھی خطرے سے خالی نہیں۔ مگر اب مجھے مکان بنوانے کا بخوبی تجربہ ہو گیا ہے۔ اب کے میں انتہائی احتیاط سے کام لوں گا اور خدا نے چاہا تو ایسا مکان بنواؤں گا جو بے عیب ہوگا۔ پھر خواہ کوئی مجھے کتنا ہی روپیہ دے، میں اسے کرائے پر نہیں اٹھاؤں گا۔ وہ مکان ہمارے اپنے رہنے کے لیے ہوگا۔ کیوں کہ لڑکیاں بڑی ہو گئی ہیں اور ہم سب کا ایک ہی کمرے میں سونا اخلاقی لحاظ سے اچھا نہیں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے اخبار اٹھایا اور اس کا وہ کالم بڑے غور سے پڑھنے لگا جس میں خالی پلاٹوں کی خرید و فروخت کے اشتہار درج تھے۔
مأخذ : کلیات غلام عباس
مصنف:غلام عباس