کہانی کی کہانی:’’مرزا برجیس قدر مالی طور پر زوال پذیر خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ گرچہ وہ اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں لیکن سماجی طور پر اپنی برتری برقرار رکھنے کے لئے ظاہری آرائش و نمائش اور درشت مزاجی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی کار میں بیٹھ کر جوتوں کی خریداری کرنے جاتے ہیں اور دکان کے ملازم کو خواہ مخواہ ڈانٹتے پھٹکارتے ہیں۔ اسی درمیان ایک اندھا بوڑھا فقیر بھیک مانگنے آتا ہے جسے مرزا برجیس قدر ڈپٹ کر بھگا دیتے ہیں، کیونکہ ان کی جیب میں پیسے ہی نہیں ہوتے ہیں۔ ایک دن جب وہ ایک فلم دیکھ رہے ہوتے ہیں جس میں بھیک مانگنے کا سین آتا ہے تو مرزا برجیس قدر کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔‘‘
مرزا برجیس قدر کو میں ایک عرصے سے جانتا تھا۔ ہرچند ہماری طبیعتوں اور ہماری سماجی حیثیتوں میں بڑا فرق تھا، پھر بھی ہم دونوں دوست تھے۔ مرزا کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جو کسی زمانے میں بہت معزز اور متمول سمجھا جاتا تھا، مگر اب اس کی حالت اس پرانے تناور درخت کی سی ہو گئی تھی جو اندر ہی اندر کھوکھلا ہوتا چلا جاتا ہے، اور آخر ایک دن اچانک زمین پر آ رہتا ہے۔
مرزا کو اپنے خاندان کےاس زوال کا پورا احساس تھا، مگر اس کو روکنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ البتہ جہاں تک ظاہری رکھ رکھاؤ کا تعلق تھا، مرزا اس میں ذرا سی کوتاہی بھی نہ ہونے دیتا تھا۔ اس کے دل میں نہ جانے کیوں یہ خیال بیٹھ گیا تھا کہ خاندان کا وقار قائم رکھنے کے لیے درشت مزاجی اور تحکم لازمی ہیں۔ اس خیال نے اسے سخت دل بنا دیا تھا، مگر یہ درشتی اور سختی اوپر ہی اوپر تھی۔ اندر سے مرزا بڑا نرم تھا اور یہی ہماری دوستی کی بنا تھی۔
ایک دن سہ پہر کو میں اور مرزا برجیس قدر انار کلی میں اس کی شاندار موٹر میں بیٹھے ایک مشہور جوتے والے کی دکان سے سلیم شاہی جوتا خرید رہے تھے۔ مرزا نے اپنا ٹھاٹھ دکھانے کے لیے یہ ضروری سمجھا تھا کہ وہ موٹر میں بیٹھے بیٹھے دکان کے مالک کو پکارے اور جوتے اپنی موٹر ہی میں ملاحظہ کرے۔ شہر میں ابھی مرزا کی ساکھ قائم تھی اور دکاندار عام طور پر اس کی ان اداؤں کو سہنے کے عادی تھے۔ چنانچہ جوتے والے نے اپنے دو کارندے مرزا کی خدمت پر مامور کر دیے۔ مگر مرزا کو کوئی جوتا پسند نہیں آ رہا تھا اور وہ بار بار ناک بھوں چڑھا کر ان کارندوں کو سخت و سست کہہ رہا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے مرزا کو در اصل جوتے کی ضرورت ہی نہیں، اور یہ جھوٹ موٹ کی خریداری محض بھرم رکھنے کے لیے ہے۔
عین اس وقت ایک بڈھا بھکاری ایک پانچ سالہ لڑکی کےکندھے پر ہاتھ رکھے مرزا کی موٹر کے پاس آ کھڑا ہوا۔ یہ بڈھا اندھا تھا۔ لڑکی کے بالوں میں تنکے الجھے ہوئے تھے۔ معلوم ہوتا تھا مدت سے کنگھی نہیں کی گئی۔ دونوں کے تن پر چیتھڑے لگے تھے۔
’’اندھے پر ترس کھاؤ رے بابا!‘‘ بڈھے نے ہانک لگائی۔
’’بابو جی میں بھوکی ہوں پیسہ دو۔‘‘ لڑکی نے لجاجت سے کہا۔ مرزا نے ان لوگوں کی طرف توجہ نہ کی۔ وہ بدستور جوتوں پر تنقید کرتا رہا۔ اندھے فقیر اور لڑکی نے اپنا سوال دہرایا۔ اس پر مرزا نے ایک غلط انداز نگاہ ان پر ڈالی، اور کہا، ’’معاف کرو۔ معاف کرو۔‘‘ بھکاری اب بھی نہ ٹلے۔
’’بابو جی رات سے کچھ نہیں کھایا ہے۔‘‘ اندھے نے کہا۔
’’بابوجی بڑی بھوک لگ رہی ہے۔ پیٹ میں کچھ نہیں ہے۔ لو دیکھو۔‘‘ بچی نے کہا، اور جھٹ میلا کچیلا کرتا اٹھا اپنا پیٹ دکھانے لگی۔ لاغری سے بچی کی پسلیاں باہر نکلی ہوئی تھیں اور گنی جا سکتی تھیں۔
’’بس ایک پیسے کے چنے بابو جی۔‘‘
مرزا کو اس لڑکی کا میلا میلا پیٹ دیکھ کر گھن سی آئی۔
’’توبہ توبہ۔‘‘ اس نے بیزاری کے لہجہ میں کہا، ’’بھیک مانگنے کے لیے کیا کیا ڈھونگ رچائے جاتے ہیں۔ جاؤ جاؤ بابا خدا کے لیے معاف کرو۔‘‘ مگر فقیر اب بھی نہ گئے۔ قریب تھا کہ مرزا غصے سے بھنا جاتا، مگر یہ تماشہ اس طرح ختم ہو گیا کہ مرزا کو اس دکاندار کا کوئی جوتا پسند نہ آیا، اور وہ اپنی موٹر کو وہاں سے بڑھا لے گیا۔
اس واقعہ کے چند روز بعد میں اور مرزا برجیس قدر شہر کے ایک بڑے سینما میں ایک دیسی فلم دیکھ رہے تھے۔ فلم بہت گھٹیا تھی۔ اس میں بڑے نقص تھے، مگر ہیروئن میں بڑی چٹک مٹک تھی اور وہ گاتی بھی خوب تھی۔ اس نے فلم کے بہت سے عیوب پر پردہ ڈال دیا تھا۔ کہانی بڑی دقیانوسی تھی۔ اس میں ایک واقعہ یہ بھی تھا کہ بنک کے ایک چپراسی کو اس الزام میں کہ اس نے بنک لوٹنے میں چوروں کی مدد کی، پانچ سال قید کی سزا ہو جاتی ہے۔ اس چپراسی کی بیوی مر چکی ہے۔ مگر اس کا ایک چار سالہ بیٹا ہے جو اپنی بوڑھی دادی کے پاس رہتا ہے۔ چپراسی کے قید ہو جانے پر یہ دادی پوتا بھوکوں مرنے لگتے ہیں۔ ادھر کوٹھری کا کرایہ نہ ملنے پر مالک مکان انہیں گھر سے نکال دیتا ہے۔ بڑھیا پوتے کا ہاتھ پکڑ بازار میں بھیک مانگنے لگتی ہے۔ وہ ہر راہ گیر سے کہتی ہے، ’’بابو جی ہم بھوکے ہیں۔‘‘
’’ایک پیسے کے چنے لے دو بابو جی۔‘‘ لڑکا کہتا۔ جب فلم اس مقام پر پہنچی، تو مرزا برجیس قدر نے اندھیرے میں مجھ سے کہا، ’’بھیا ذرا اپنا رومال تو دینا۔ نہ جانے میرا کہاں گیا۔‘‘ میں نے اپنا رومال دے دیا۔ جب تک تماشہ ہوتا رہا، میں نے مرزا کو سخت بے چین دیکھا۔ وہ بار بار کرسی پر پہلو بدلتا اور ہاتھ چہرے تک لے جاتا۔ خدا خدا کر کے فلم ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ وہ جلدی جلدی اپنی آنکھیں پونچھ رہا ہے۔
’’ایں! مرزا صاحب!‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا، ’’آپ رو رہے تھے؟‘‘
’’نہیں تو۔‘‘ مرزا نے بھرائی ہوئی آواز جھوٹ بولتے ہوئے کہا، ’’سگرٹ کے دھوئیں سے آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔۔۔ ار بھئی۔۔۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ سرکار ایسے دردناک فلم دکھانے کی اجازت کیوں دیتی ہے۔‘‘
مأخذ : کلیات غلام عباس
مصنف:غلام عباس