کئی روز کی مسلسل مصروفیتوں کے بعد ورما ایشیاٹک کمپنی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹرمکرجی بابو کوفراغت کی ایک شام نصیب ہوئی تو انہوں نےسوچاکہ اسے یونہی نہیں گنوانا چاہیے۔ لندن کی ایک تنگ اور پرپیچ گلی میں جو پکاڈلی سرکس سے زیادہ دور نہ تھی، ایک پرانے مکان کی چوتھی منزل پر ان کا ایک چھوٹا سا دفتر تھا۔ دفتر کیا تھا ایک مختصر سا بیڈ سٹنگ روم تھا۔ جس کو دوتین چھوٹی چھوٹی میزوں، کرسیوں، ٹائپ رائٹر، میز پر رکھے ہوئے ٹیلیفون اور فائلوں کی کثرت نے، جنہیں کمرے کے گوشوں میں تلے اوپر بڑی ترتیب سے چنا گیا تھا، اچھاخاصا کاروباری رنگ دے دیا تھا۔
مکرجی بابو آج دفتر میں اکیلے ہی تھے، کیونکہ ڈائریکٹر پچھلے روز، پیرس کے ہفتہ بھر کے دورے پر چلا گیا تھا۔ اور سوس ٹائپسٹ لڑکی نے، جس کاکام دفتر کی دیکھ بھال اور جھاڑپونچھ بھی تھا، دانت کے درد کی وجہ سے چھٹی لے لی تھی۔ چنانچہ وہ خود کو بہت آزاد محسوس کر رہے تھے۔
مکرجی بابو کو لندن آئے پندرہ برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا تھا۔ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ باپ نے انجینئری کی تعلیم کے لیے بھیجا تھا۔ مگر تعلیم ختم نہ ہوئی تھی کہ جنگ چھڑ گئی۔ انہوں نے انجینئری کو توخیرباد کہا اور اے۔ آر۔ پی میں بھرتی ہوگئے۔ اسی دوران میں باپ کا انتقال ہوگیا۔ بڑے مکرجی نے کچھ زیادہ جائداد نہیں چھوڑی تھی اور حقدار کئی تھے۔ چارتو بیٹے ہی تھے۔ چنانچہ انہوں نے وطن کو لوٹنا زیادہ سود مند نہ سمجھا، اور روزی کمانے کے لیے یہیں ہاتھ پاؤں مارنےلگے۔ شروع شروع میں انہوں نےکئی دھندے کیے مگر کام نہ چلا۔ آخر ایک ہم وطن بھائی کے ساتھ مل کر ایک کمپنی کھول لی۔ اس کام میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی۔ مگر وہ خود درآمد برآمد کے چکر میں ایسے پھنسے کہ یہیں کے ہو کے رہے۔
مکرجی بابو خاصے بھاری بھرکم خوش وضع آدمی تھے۔ ٹھنڈے ملک میں عرصہ دراز کی بود و باش سے ان کا سانولا رنگ نکھر آیا تھا۔ چالیس کے لگ بھگ عمر تھی۔ کن پٹیوں پر بالوں نے سفید ہونا شروع کردیا تھا۔ مگر اس کے باوجود چہرے پر نوجوانوں کی سی شادابی تھی۔ آنکھیں دائمی مسکراہٹ لیے ہوئے۔ انہوں نے مغربی اطوار و خصائل کا مطالعہ نفسیات کے ایک طالب علم کی طرح کیا تھا، اور وہ انگریزوں کے مزاج کو خوب سمجھتے تھے۔ علاوہ ازیں ان کے میل جول میں ایک کاروباری بے لاگ پن بھی ہوتا تھا، ان ہی خصوصیات کی وجہ سے لندن کے نچلے متوسط طبقوں میں ان کی بڑی آؤبھگت ہوتی تھی۔
مکرجی بابو نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے کھلی ہوئی کھڑکی سے باہر نظر دوڑائی۔ گرجا گھر کی مخروطی چوٹی کے پیچھے ملگجا سا آسمان نظر آرہاتھا۔ یہ جولائی کی ایک نسبتاً گرم سہ پہر تھی۔ صبح کو سورج خاصاتیزی سے چمکا تھا۔ مگر بارہ بجتے بجتے بادل گھر آئے تھے، جواب چھٹنے شروع ہوگئے تھے۔ غرض موسم کی طرف سے زیادہ اندیشہ نہ تھا اور ایک دلچسپ شام گزارنے کی توقع کی جاسکتی تھی۔
لندن میں سنیما، تھئیٹر اور راگ رنگ کی محفلوں کو چھوڑ کر تفریحات کے بیسوں اور ذریعے ہیں، جو ندرت، رومان، لذت پرستی اور مہنگائی کے مختلف درجے رکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض بہت گراں ہیں اور خطرناک نتائج کے حامل بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً مے فیر کے کسی کلب کو رونق بخشنا ا ور کسی پری کوشیشے میں اتارنے کی کوشش کرنا اور بعض بالکل معصوم جن پر کچھ بھی خرچ نہیں آتا۔ مثلاً ٹرافا لگر سکئیر میں کبوتروں کو دانہ کھلانا، عین بھیڑ بھاڑ کے وقت خود کو لندن کی ٹیوب کے ہجوم میں گم کردینا۔ مکرجی بابو کا تفریح کاطریق اوروں سےکسی قدر مختلف تھا۔ وہ پہلے کسی ہم صحبت سے ملاقات کی ٹھہراتے اور پھر باقی پروگرام اس کی مرضی پر چھوڑ دیتے تھے۔ چنانچہ آج بھی انہوں نے اسی پر عمل کرنےکافیصلہ کیا۔
انہوں نےمیز کی دراز سے ایک پرانی، سیاہ جلد والی کتاب نما ڈائری نکالی اور اس کی ورق گردانی کرنےلگے۔ ڈائری کے کنارے پر انگریزی کے حروف تہجی مرقوم تھے اور ان ہی کے مطابق وہ مختلف جزوں میں بٹی ہوئی تھی۔ اس پندرہ سال کے عرصے میں جو انہوں نے لندن اور اس کے گرد و نواح میں گزارا تھا، ان کی ملاقات طبقہ اناث کی جن جن دل چسپ ہستیوں سے ہوئی تھی، وہ ان کانام پتہ، ٹیلی فون نمبر، ابتدائی ملاقات کاحال اور کئی اور ضروری اور کارآمد باتیں اس ڈائری میں درج کرتے گئے تھے۔ یہ ڈائری ان کی برسوں کی رفیق تھی اور ہر قسم کی تفریحی مہمات میں مشعل ہدایت کا کام دیتی تھی۔
مکرجی بابو کو اے کے جزو میں سب سے پہلے جو نام نظر آیا وہ تھا ایڈمزمس پٹریشیا ایڈمز۔ اس کے ذیل میں پتہ اور ٹیلیفون نمبر کے بعد یہ باتیں بطور یادداشت لکھی تھیں:
سکاٹ لینڈ کی رہنے والی عمر ستائیس برس۔ ریڈ کراس کے دفتر میں سکریٹری۔
روپہلے بال، لمبا قد، دانت خراب، وعدے کی پابند، صرف شیری پیتی ہے۔ پہلی ملاقات ہمپٹن کورٹ میں۔
دوگھنٹے کی تفریح میں جس میں ہندوستانی کھانا شامل ہے۔ کل خرچ تین پونڈ۔
مکرجی بابو نے ٹیلی فون اٹھایا۔
’’کیا میں مس ایڈمز سے بات کرسکتا ہوں۔۔۔؟ شکریہ۔۔۔ ہیلو پیٹ، کہو کیسی ہو؟ مدت سے ملاقات نہیں ہوئی، کہو چوٹ کاکیا حال ہے۔ کون سی چوٹ؟ ارے بھول گئیں۔ اس دن سرپنٹائن میں کشتی چلاتے چوٹ آگئی تھی نا کہنی میں۔۔۔ ! اب یاد آیا اچھی ہوگئی، مجھے سن کر خوشی ہوئی۔ سنو آج شام فارغ ہو۔۔۔؟ نہیں۔۔۔؟ ارے یہ کیوں۔۔۔؟ سر میں درد ہے؟ خیر تو نہ سہی، میں نے سوچاتھاہم تم اکٹھے شام گزاریں گے۔ کھانا بھی ساتھ ہی کھائیں گے، خیر نہیں تو نہ سہی۔۔۔ کیا کہا۔۔۔ کل آسکتی ہو، بھئی کل شاید مجھے فرصت نہ ہو۔ بہرحال ٹیلی فون کرلینا۔۔۔ ہاں موسم برانہیں، بادل چھٹ رہے ہیں، اچھا خدا حافظ پیٹ!‘‘
اے میں انہیں جین اینڈرسن، شیلا آرنلڈ، ریٹا ایٹکن سن کے نام نظر آئے مگر انہوں نے درخور اعتنا نہ سمجھا اور ورق الٹتے چلے گئے۔
بی کے جزو میں ان کی نظر مس مار جری بلس پر پڑی اور وہیں اٹک کر رہ گئی:
عمر بائیس برس۔ قومیت خالص انگریز، برٹش میوزیم میں ملازم ہے۔ وہیں پہلی ملاقات ہوئی تھی۔
سیاہ چمکدار بال، خوب صورت آنکھیں جو کبھی نیلی معلوم ہوتی ہیں۔ کبھی سبز الہڑ حسینہ، غم ناک فلم دیکھنے کا شوق، فلم دیکھ کر بسورتی رہتی ہے۔۔۔ رات کو ایسٹ اینڈ کی سیر کی شوقین۔ کریم دماں نوئی پراخصوصیت سے پسند کرتی ہے۔ اصرار سے جن بھی پی لیتی ہے۔ مگر بٹر ہرگز نہیں پیتی۔
عام طور پر مہنگی رہتی ہے۔ جیب میں احتیاطاً پانچ پونڈ رکھنے چاہئیں۔
’’ہیلو مارجری۔۔۔ کہو کیسی ہو۔۔۔ نہیں بتاتے۔۔۔ بوجھو تو جانیں، ارے پگلی میں ہوں تمہارا مکو۔ کہو آج شام آسکتی ہو۔۔۔؟ کیا کہا نسبت ٹھہر گئی تمہاری؟ سگائی ہوگئی، ارے کس کے ساتھ؟ ارے بتادو ہم نہیں بتائیں گے کسی کو، وہ کون خوش قسمت شخص ہے۔۔۔؟ اچھا نہ سہی، لیکن مبارک باد قبول کر لو۔۔۔ شادی کے بعد مجھ سے ضرور ملانا۔۔۔ ہاں صبح کو سورج نکلا تھا بڑا پیارا پیارا، بھر بادل چھا گئے۔ لو اب بادل پھر چھٹ رہے ہیں۔ اچھاماج، خدا خافظ، بہت بہت مبارک باد۔۔۔‘‘
مکرجی بابو نےدل میں کہا، ’’یہ بھی ٹھیک ہی رہاکہ وہ نہ آسکی۔ کیونکہ جیب میں تو صرف تین پونڈ اور کوئی سات شلنگ ہی ہیں۔‘‘ اور انہوں نے ڈائری کے اس ورق کے کونے پر جس پر مارجری بلس کا حال مرقوم تھا۔ کانٹے کانشان بنادیا اور پھر ورق الٹنےمیں مصروف ہوگئے۔ اب کے وہ بی کے بقیہ اور سی ڈی ای کے تمام ناموں کو چھوڑتے ہوئے ایف پر رکے اور میڈ موازیل سیمن فے ایٹ کے نام کے نیچے یہ عبارت پڑھنے لگے:
فرانسیسی نژاد، سنہرے بال، بڑی بڑی آنکھیں، چنچل، فربہ جسم، ہنستی ہے تو گال میں گڑھا پڑتا ہے۔
میڈ اویل میں ایک انگریز خاندان کے بچوں کی معلمہ ہے۔
ڈی ایپ سے پیرس کے سفر میں ملاقات ہوئی تھی، اور اس نے سیب کھانے کو دیا تھا۔
فرانسیسی ادب کی تعریف کرو تو خوش ہوتی ہے۔ شیری کے ساتھ ساتھ لائٹ ایل بھی پی لیتی ہے۔ ہندوستانی سالن اور پلاؤ سے رغبت ہے۔
وقت مقررہ سےآدھ پون گھنٹہ زیادہ انتظار کراتی ہےمگر پہنچ جاتی ہے۔
خاصی مہنگی ہے۔
’’ہیلو کون سیمن تم ہو۔ بھئی شکر ہے اس وقت تم گھر پر مل گئیں۔ کہو کیا کر رہی ہو آج شام۔۔۔ ؟کیا کہا پیرس سے بہن آئی ہے اور اس کا میاں بھی؟ تب تو تمہیں بہت مصروفیت ہوگی۔ کہو تو میں بھی آجاؤں۔۔۔ ارےتم تو پریشان ہوگئیں۔۔۔ نہیں نہیں میں نے تو یونہی دل لگی سےکہا تھا، پھر کبھی سہی۔ ایلو سورج نکل آیا۔ موسم بہت سہانا ہو رہاہے، خدا حافظ۔‘‘
اتنی ناکامیوں کے بعد بھی کیا مجال جو مکرجی بابوکی پیشانی پر شکن تک پڑی ہو۔ جن حرفوں کے ناموں پر قسمت آزمائی کیے بغیر وہ آگے بڑھ گئے تھے اگر انہیں چھوڑ دیا جائے، تو بھی ابھی ڈائری میں بے شمار نام اور باقی تھے۔
مونیکا ہیزل ۔۔۔ عمر ۲۵ برس، ماں اطالوی، باپ انگریز نائٹس برج کی ایک ملبوسات کی دکان میں موڈل ہے۔ کچھ کچھ مصوری بھی جانتی ہے۔
سیاہ بال، سیاہ چشم، بالکل مشرقی حسن کا نمونہ، خوش مذاق، بذلہ سنج، کسی بات پر اصرار نہیں کرتی۔ زیادہ خرچ نہیں کراتی۔
ٹونٹم کورٹ روڈ کے ایک حبشی ناچ گھر میں ملاقات ہوئی تھی۔
تین سےچار تک ٹیلی فون کے قریب رہتی ہے۔
انہوں نےکلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر نظر ڈالی اور پھر نمبر ملانے لگے:
’’ہیلو۔۔۔ ہیود بے بی، پہچانا تم نے؟ میں ہوں میں۔ اس رات آخری سیمبا کے بعد تم اچانک کہاں گم ہوگئی تھیں۔۔۔؟ اوہو معاف کیجیے گا میڈم۔ کیا میں مس مونیکا ہیزل سے بات نہیں کر رہا؟ مجھے مغالطہ ہوا میڈم۔ میں سخت شرمندہ ہوں میڈم، کیا کہا آپ نے؟ مس ہیزل نےنوکری چھوڑدی، آپ ان کی جگہ کام کرتی ہیں۔ میں اپنی غلطی پر دوبارہ معافی کا خواستگار ہوں۔ کیا فرمایا آپ نے؟ میں دلچسپ آدمی معلوم ہوتاہوں؟ شکریہ۔ بہت بہت شکریہ۔۔۔ ہاں ہاں شاید کبھی ملاقات ہوجائے۔ خداحافظ۔‘‘
ٹیلی فون بند کرکے مکرجی بابو مسکرائے اور دل میں کہنے لگے، ’’لیجیے ان خاتون سےآج ہی ملاقات ہوسکتی تھی۔ بس ذرا دعوت دینے کی دیر تھی۔ مگر بلا جانے پہچانےدیکھے بھالے دعوت دینا شاید ٹھیک نہ رہتا۔ ارے اس سے مونیکا کاپتہ تو پوچھ ہی لیا ہوتا! فی الحال اس نام کو خارج ہی سمجھنا چاہیے۔‘‘
وہ حروف جے، کے اور ایل کے ناموں سےگزرتے ہوئے ایم کے جزو میں ہیلن مگے خی کے نام کے نیچے یہ عبارت پڑھنے لگے:
عمر چھبیس برس۔ سکاٹ لینڈ کی رہنےوالی۔ ماربل آرچ کارنر ہاؤس میں خادمہ ہے۔
نیلی آنکھوں کے سواچہرے میں اور کوئی جاذبیت نہیں، مگر جسم خوب گداز ہے۔
تند خو۔ مگر شادی کی بات چیت کرو تو نرم پڑجاتی ہے۔
گھر بنانے کی آرزو کا پے بہ پے اظہار۔ زیادہ میل جول خطرناک۔
کم خرچ بالانشین۔ دس شلنگ بھی پاس ہوں تو شام گزاری جاسکتی ہے۔
سہ پہر کو کام سے واپس آجاتی ہے۔ گھر پر ٹیلی فون کرنا چاہیے۔
لینڈ لیڈی سے ہوشیار۔
یہ یادداشت پڑھ کر مکرجی بابو کچھ سوچ میں پڑگئے۔ مگر آخر کار انہوں نےنمبر ملا ہی ڈالا۔
’’ہیلو میڈم۔ کیا میں مس مگے خی سے بات کر سکتا ہوں؟ بڑی نوازش ہوگی۔ کیا فرمایا آپ نے؟ کام میں مصروف ہیں اس وقت نہیں مل سکتیں؟ خیر کوئی بات نہیں۔ میں دوبارہ ٹیلی فون کرلوں گا۔ آپ کوزحمت ہوئی۔ معافی چاہتا ہوں شکریہ، بادل چھٹ رہے ہیں، بہت بہت شکریہ!‘‘
لینڈلیڈی کے درشت لہجہ سے نجات حاصل کرکے مکرجی بابو نےاطمینان کاسانس لیا۔ پھر دل میں کہنے لگے، ’’اچھا ہی ہوا وہ نہ ملی۔ ورنہ اپنی جانب سےتو میں نے خطرہ مول لینے میں کسر نہ اٹھارکھی تھی۔‘‘
اب وہ ڈائری میں حرف ٹی کے ناموں کی سیر کر رہے تھے۔
مس نوراٹریک
عمر اٹھائیس برس۔ کیمڈن ٹاؤن کے چاکلیٹ فروش کی بیٹی۔ کاروبارمیں باپ کا ہاتھ بٹاتی ہے۔
فربہ اندام، نک سک سےدرست مگر ذرا ڈھل گئی ہے۔
’’ہیلو مہربانی کرکے ذرا مس نوراٹریک سے ملوا دیجیے۔ ارے یہ تم ہی ہو۔ کہو کیا حال ہے۔ میری آنکھوں کی پتلی، میری راحت جان۔ میں نےآواز تو پہچان لی تھی مگر ابھی ابھی ایک مغالطہ ایسا ہوا کہ مجھےمحتاط ہونا پڑا۔۔۔ کیا کہا؟ تم خود مجھے ٹیلی فون کرنے کی سوچ رہی تھیں؟ سچ؟ پھر تو میں تمہارا شکر گزار ہوں، کہاں ملاقات ہو؟ پکا ڈلی ٹیوب اسٹیشن پر؟ وقت عالم کے نقشے کے سامنے؟ باکل ٹھیک! ہاں ہاں ٹھیک چار بجے۔ اس وقت تین بج کر پینتیس منٹ آئے ہیں۔ بس میں بھی ٹہلتا ٹہلتا پندرہ بیس منٹ میں وہیں پہنچ جاؤں گا، اور پھر ہم تم پروگرام بنائیں گے۔ واللہ سچ ہے دل سے دل کو راہ ہوتی ہے۔ اوہ سویٹ ہارٹ تم اس مثل کو نہیں سمجھتیں۔ یہ خالص مشرقی مثل ہے۔ میں آج تمہیں اس کا مطلب سمجھاؤں گا۔ دیکھو بادل چھٹ گئے ہیں۔ پیارا پیارا سنہرا سورج پھر نکل آیا ہے۔ انتظار نہ کرانا۔۔۔ اچھاخدا حافظ میری جان!
اور مکرجی بابو نے وہیں ڈائری بند کردی۔ پھر ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر وہ کرسی سےاٹھے، کھونٹی سے ہیٹ، مفلر اور بارانی اٹھائی اور دفتر سے نکل پکا ڈلی سرکس کو ہولیے۔
مأخذ : کلیات غلام عباس
مصنف:غلام عباس