کہانی کی کہانی:’’تنہا زندگی گزارتی فرخ بھابھی کی کہانی ہے، جن کے یہاں ہر روز ان کے دوستوں کی محفل جمتی ہے۔ وہ اس محفل کی رونق ہیں اور ان کے دوست ان کی بہت عزت کرتے ہیں۔ اس محفل میں ایک دن ایک اجنبی بھی شامل ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ دو تین بار اور آتا ہے اور پھر آنا بند کر دیتا ہے۔ اس کے نہ آنے سے باقی دوست خوش ہوتے، مگر تبھی انھیں احساس ہوتا ہے کہ اب فرخ بھابی گھر سے غائب رہنے لگی ہیں۔‘‘
(۱)
نام تو تھا اس کا فرخندہ بیگم مگر سب لوگ فرخ بھابی فرخ بھابی کہا کرتے تھے۔ یہ ایک طرح کی رسم سی پڑگئی تھی۔ ورنہ رشتہ ناتہ تو کیا، کسی نےاس کے مرحوم شوہر کو دیکھا تک نہ تھا۔ وہ کسی کی بھابی تھی یا نہ تھی۔ مگر اس کی خدمت گزاریوں کو دیکھتے ہوئے یہ نام اس پرپھبتا خوب تھا، اور وہ خود بھی اسے ناپسند نہیں کرتی تھی۔ وہ ان عورتوں میں سے تھی جو مروں کی خدمت کاخاص جذبہ لے کر دنیا میں آتی ہیں۔ بچپن میں بھائیوں پر جان چھڑکتی ہیں۔ کنوارےپن میں باپ کو سکھ پہنچاتی ہیں۔ شادی کے بعد شوہر کی تابع داری کرتی ہیں اور بڑھاپے میں بیٹوں کے ناز اٹھاتی ہیں۔
وہ چھوٹے سے قد کی ایک چھوٹی سی عورت تھی مگر اس کا چہرہ اس کے قد کے تناسب سے کافی بڑا تھا۔ اگر کبھی وہ آپ کے سامنے فرش پر سر سے پاؤں تک چادر اوڑھے بیٹھی ہو اور آپ نے اسے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو اور اسے کسی ضرورت سے اٹھ کر کھڑا ہونا پڑےتو آپ کی آنکھیں یہ انتظار ہی کرتی رہ جائیں گی کہ ابھی وہ اور اونچی ہوگی۔
اس کی عمر اٹھائیس برس کے لگ بھگ تھی۔ مگر دیکھنے میں وہ اس سے کہیں کم عمر معلوم ہوتی تھی۔ پہلی ہی نظر میں جو چیز دیکھنے والے کو اپنی جانب متوجہ کرتی وہ اس کی آنکھوں کی غیر معمولی چمک تھی۔ جس نے اس کے چہرے کے سادہ خدوخال کو حددرجہ جاذب بنادیاتھا۔ علاوہ ازیں یہ بڑے بڑے دقیق مسائل کی گفتگو میں بھی اس کی کم علمی کو چھپائے رکھتی تھی۔ اس کارنگ کھلتا ہوا گندمی تھا اور پیشانی پر بال کچھ ایسے گپھے دار تھے کہ اسے مانگ نکالنے میں بہت دقت پیش آتی۔ چنانچہ وہ اکثر اپنے بالوں کو مردوں کی طرح پیچھے الٹ دیا کرتی۔ سفید کرتا، سفید شلوار اور اس کے ساتھ سفید ہی دوپٹہ۔ یہ سادہ ہندوستانی لباس اسے بے حد مرغوب تھا۔ اس لباس کے ساتھ جس وقت وہ شام کے جھٹپٹے میں مصلے پر اپنے سامنے موتیا کی ادھ کھلی کلیاں رکھ کر نماز میں مشغول ہوتی تو دیکھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا۔
کبھی کبھی اپنے دوستوں کے اصرار پر وہ ساری بھی پہنا کرتی۔ مگر اس میں بھی بھڑکیلے رنگوں سے گریز کرتی۔ ساری کے ساتھ وہ ایک خاص بلاؤز پہنتی جس کا گلا بند ہوتا اور آستینیں پوری۔ یہ اس کی اپنی ایجاد تھی۔ ایسے موقع پر بربط کی شکل کا ایک ننھا سا طلائی زیور جس میں نگینے جڑے ہوئے تھے، ایک سیاہ ربن کے ساتھ اس کے گلے میں بندھا ہوا نظر آیا کرتا۔
شہر کی فصیل کے پاس ایک بدبودار احاطے میں اس کا مکان تھا۔ مکان کی سیڑھیوں تک پہنچنے کے لیے ایک لمبی اور تنگ ڈیوڑھی میں سے گزرنا پڑتا تھا۔ بارہ تیرہ ٹوٹی پھوٹی بے ڈھنگی سیڑھیوں کا زینہ چڑھنے پر ایک وسیع دالان آتا تھا۔ آدھا کھلا ہوا آدھے پر چھت، کھلے ہوئے حصے کے ایک کونے میں بیت الخلا تھا، اور چھت والے حصے میں دیوار سے ملا ہوا مٹی کا چولہا، چولہے کے اغل بغل دو کوٹھریاں تھیں۔ یہ تھیں اس مکان کی مختصر کیفیت جس میں فرخ بھابی رہتی تھی۔
یہ ان مکانوں میں سے تھا جن میں سفیدی وغیرہ یا تو اس وقت ہوتی ہے، جب وہ بنائے جاتے ہیں، اور یا پھر اس وقت جب ان کی خرید و فروخت کی بات چل رہی ہوتی ہے۔ اس مکان کی دیواروں کو دیکھ کر، جن پر سے چونے کا پلستر اکھڑ کر کراینٹیں نظرآنے لگی تھیں، گماں ہوتا تھا کہ کم سے کم پچھلے بیس برس میں اس کے مالکوں کے ساتھ اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ دیواروں میں جگہ جگہ کوب نکل آیا تھا۔ دھوئیں نے دروازوں اور چھت کی کڑیوں پر سیاہی پھیر کر ان کے کئی عیبوں کو چھپا لیا تھا۔ دونوں کوٹھریوں میں ایک ایک طاق تھا۔ قرائن سے معلوم ہوتا تھا کہ شروع شروع میں یہ طاق بہت چھوٹے چھوٹے ہوں گے، جیسے پرانی وضع کے غریب ہندوستانی گھروں میں دیا رکھنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ مگر کرایہ داروں نے اپنی اپنی ضرورت کے مطابق اینٹیں نکال نکال کے انہیں کافی فراخ کرلیا تھا، اور اب وہ اس نقب کی طرح معلوم ہوتے تھے جسے چور کھڑکاسن کر ادھ بیچ ہی میں چھوڑ گئے ہوں۔۔۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود اس مکان کی شان میں کیا کیا قصیدے نہ کہے گئے۔ کن کن خوب صورت ناموں سے اسے موسوم نہ کیا گیا۔ اور وہ کون سے زاویے رہ گئے جن سےاس کے در و دیوار کی تصویر کشی نہ کی گئی!
مکان کی ظاہری خستہ حالی سے قطع نظر جہاں تک اس کی اندرونی صفائی اور رکھ رکھاؤ کاتعلق تھا، کوئی شخص فرخندہ کی نفاست پسندی اور سگھڑاپے پر حرف نہ رکھ سکتا تھا۔ وہ صبح شام دالان اور کوٹھریوں میں جھاڑودیتی اور ہنڈیا چولہے اور دوسرے کاموں سے جو وقت بچتا اسے مکان کی لیپ پوت ہی میں گزارا کرتی تھی۔ دونوں کوٹھریوں میں سے جس کی حالت نسبتاً بہتر تھی، اس نےاس میں چاندنی کافرش کرکے اور گاؤتکیے لگاکے اسے بیٹھنے کا کمرہ بنا لیا تھا۔ دیواروں پر گز گز بھر اونچی سیتل پاٹی لگوادی تھی تاکہ ٹیک لگانے میں دیوار کی مٹی کپڑوں میں نہ لگنے پائے۔ دوسری کوٹھری اس کی خواب گاہ، غسل خانے اور سنگھار کے کمرے کاکام دیتی تھی۔ اسی کوٹھری میں وہ تخت بھی تھا جس پر وہ فرائض پنجگانہ ادا کیا کرتی تھی۔ علاوہ ازیں اس کے کپڑوں کا صندوق، روز مرہ کے استعمال کے برتن اور دوسرا چھوٹا موٹا سامان بھی اسی میں رہتا تھا۔
ہرچند اس نے اپنی گزشتہ زندگی کا ذکر کرنا کبھی پسند نہیں کیا، تاہم اس سے ملنے والا اس کی چال ڈھال اور طرز گفتگو سے پہلی ہی ملاقات میں جان لیتا تھا کہ وہ اس غریبانہ ماحول میں رہنےکی عادی نہیں ہے۔ اس کا مکان حقیر اور چھوٹا سا سہی، مگر اس کا دروازہ ہر اس شخص کے لیے کھلا رہتا جسے رات سر چھپانے کو کہیں جگہ نہ ملی ہو۔ اسی طرح اس کا دسترخوان جس پر خواہ دونوں وقت دال یا بھجیا ہی چنی جاتی ہو، ہر بھوکے کو اس کے حصے کا بھورا دینے میں کبھی بخل نہ کرتا تھا۔
کسی کسی روز اس کے دوست بھی اپنی اپنی بساط کے مطابق دسترخوان کی آرائش میں اس کا ہاتھ بٹاتے۔ مثلاً کوئی صاحب شام کو کام سے لوٹتے ہوئے ڈبل روٹی خرید لاتے۔ ڈبل روٹی اپنی اور دال بھاجی فرخ بھابی کے ہاں کی۔ کوئی صاحب نصف درجن کیلے یا پاؤ بھر مونگ پھلی لفافے میں لیتے آتے۔ کوئی صاحب تیسرے پہر چھوکرے کے ہاتھ سالم کلیجی بھجواکر کہلوادیتے، ’’میاں نے سلام کہا ہے اور کہا ہے کہ رات کو کھانا وہ اور ان کے ایک دوست یہیں کھائیں گے۔‘‘
کبھی دسترخوان پر کھانے والے زیادہ ہوتےاور کھانا کم تو کوئی صاحب جیب سے جھٹ چونی نکال کر چھوکرے کو دیتے، کہ جا جھٹ پٹ بازار سے چار گرم گرم روٹیاں اور چار کباب لے آ۔ وہ ان باتوں کا کبھی برا نہ مانتی بلکہ ایسی نظروں سے ان صاحب کی طرف دیکھتی گویا ان دونوں میں پوری پوری مفاہمت ہے۔
اس کو کمتری کا کبھی احساس نہیں ہوا۔ جو موجود ہے وہ حاضر ہے۔ جو موجود نہیں اس کی توفیق نہیں۔ نہ اس نےاپنی حیثیت کو کبھی چھپانےکی کوشش کی نہ کسی خشک دعوت پر اگلی پچھلی کسی تر دعوت کے ذکر سے کمی پوری کرنی چاہی۔ اگر کسی نے اس کی کچھ مدد کی تو مسکراکر قبول کرلی۔ مگر خود کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ کھانے پینے ہی پر موقوف نہیں وہ اور طرح سے بھی اپنے دوستوں کی خدمت کرنے سے دریغ نہیں کرتی تھی۔ مثلاً صبح کو دس بجنے سے کچھ ہی منٹ پہلے کوئی صاحب آدھمکتے،
’’بھابی میری پتلون کا بٹن اکھڑ گیا ہے۔ کم بخت ابھی ابھی راستے ہی میں اکھڑا ہے۔ میں ویسے ہی دفتر چلاجاتامگر راستے میں تمہارا گھر پڑتا تھا۔ خیال آیا تمہیں سے ٹنگواتا چلوں۔ اور کہیں سے اکھڑا ہوتا تو گزارہ ہو جاتا، کم بخت سامنے ہی سے اکھڑا ہے۔‘‘
اور وہ ایک شفیق بہن کی طرح پیار اور ملامت کی ملی جلی نظروں سے ان صاحب کی طرف دیکھتی جو گویا کہہ رہی ہوتیں تم بہت شریر ہو۔ تم اپنے کپڑے سنبھال کر کیوں نہیں رکھتے۔ اور وہ جلدی جلدی بٹن ٹانک دیتی۔ یا مثلاً کوئی صاحب اچانک رات کے دو بجے آکر اس کے مکان کا دروازہ پیٹنا شروع کردیتے، ’’فرخ بھابی۔ فرخ بھابی۔ میری بیوی کنڈی نہیں کھولتی۔ کہتی ہے وہیں جاؤ جہاں رات رات بھر غائب رہتے ہو۔ خدا کے لیے تم چل کر اسے سمجھاؤ۔‘‘ اور وہ اسی وقت آنکھیں ملتی اور دوپٹہ سنبھالتی ہوئی ان صاحب کے ہمراہ ہولیتی۔ یہ اور بات ہے کہ اس قسم کی مہموں سے عموماً اسے ناکام اور خفیف ہوکے لوٹ آنا پڑتا۔
اس کے ہاں یوں تو کبھی کبھی دن کو بھی نگامہ برپا رہا کرتا۔ مگر اصل محفل رات کو آٹھ بجے کے بعد ہی سجا کرتی تھی۔ سب سے پہلے عموماً محسن عدیل آیا کرتا۔ وہ درمیانے قد کا دبلا پتلا نوجوان تھا۔ تیس کے قریب عمر۔ زرد چہرہ۔ آنکھیں بڑی بڑی اداس اور ایسی لبریز کہ معلوم ہوتا بوند ٹپکا ہی چاہتی ہے۔ اگر وہ اپنے کو ذرا سنبھالے ہوئے رکھتا تو خاصہ معقول آدمی معلوم ہوتا۔ مگر اس کے بال اکثر وحشیوں کی طرح بڑھے ہوئے ہوتے۔ داہنے ہاتھ کی انگلیاں نکوٹین سے مستقل طور پر پیلی ہوگئی تھیں۔ جیسے ٹنکچر آیوڈین پینٹ کیاگیا ہو۔ ناخنوں میں نیلا نیلا سا میل بھرا ہوا۔ اگر کبھی چلتے چلتے انگلیوں پر نظر پڑ جاتی تو دیا سلائی یا سگرٹ کی ڈبیا کے کنارے سے اوپر اوپر سے میل کرید لیتا۔ سردی گرمی ہر موسم میں ایک سیاہ بوسیدہ سی شیروانی پہنے رہتا۔ اور ایک سرخ سوتی مفلر جس میں جابجا سوراخ ہوگئے تھے، ہر وقت گلے میں ڈالے رکھتا۔ جب اس کی حالت بہت ناگفتہ بہ ہوجاتی تو کسی شام وہ اس سے کہتی، ’’عدیل میاں۔ ایک بہت ضروری کام میں آپ سے مشورہ لینا ہے۔ کل دوپہر کو میرے ہاں تشریف لائیے۔ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ دیکھیے بھولیے گا نہیں۔ بڑا ہی ضروری کام ہے۔‘‘
اور جب عدیل اگلے روز دوپہر کو اس کے ہاں پہنچتا تو وہ ادھر ادھر کی باتوں میں اس سے کہتی، ’’عدیل میاں کچھ اپنے کپڑوں کی بھی فکر ہے۔ دیکھیے آپ کی شیروانی میں کھونچ لگ رہی ہے۔ لائیے میں سی دوں۔ ورنہ شیروانی زیادہ پھٹ جائے گی۔‘‘ عدیل کے سوکھے ہوئے زرد کلوں پر ہلکی سی سرخی دوڑ جاتی۔ اور وہ اپنی گھبراہٹ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہتا، ’’نہیں نہیں رہنے دو تکلیف نہ کرو۔ پھر کبھی سہی۔‘‘ مگر وہ اس کی ایک نہ سنتی۔ اور شیروانی اترواہی لیتی۔ پھر بجائے سینے کے وہ اسے لے جاکر پانی کے ٹب میں ڈال دیتی۔ عدیل اس کا منہ تکتا کاتکتا رہ جاتا۔ ادھر وہ جھٹ شیروانی کو ٹب سے نکال تسلے میں ڈال اس پر صابن رگڑنا شروع کردیتی۔ تھوڑی دیر میں چھوکرا حجام کو لیے ہوئے آجاتا۔
’’میاں حجام آگیا ہے۔ خط بنوا لیجیے۔‘‘
اور اب عدیل سمجھ جاتا۔ اس کے ہونٹوں پر مہر لگ جاتی۔ اور وہ ان باتو ں کو دل ہی دل میں سخت ناپسند کرتے ہوئے بھی چپ چاپ اس کا ہر حکم مانے جاتے۔ جیسے کوئی بھیڑ بال کٹائی کے وقت دوچار دفعہ بھیں بھیں کرنے کے بعد اپنی قسمت کو اپنے مالکوں کے ہاتھ سونپ چپ سادھ لیتی ہے۔ وہ کپڑے اتار کر میلی سی چادر باندھ لیتا اور حجامت کرانے بیٹھ جاتا۔ ادھر شیروانی کے بعد فرخندہ اس کا کرتا پاجامہ اور مفلر دھوتی۔ ساتھ ساتھ حجام کو تاکید بھی کرتی جاتی، ’’خلیفہ جی۔ بال کافی چھوٹے ہوں گے۔ دیکھنا ہاتھوں اور پیروں کے ناخن لینا نہ بھول جانا۔‘‘
حجامت کے بعد عدیل کو گرم پانی سے نہلایا جاتا۔ وہ خود اس کی پیٹھ اور سر میں صابن ملتی۔ اس کے بعد وہ اپنے صندوق میں سے پلنگ کی ایک اجلی چادر نکال کر اسے دیتی، ’’لیجیے عدیل میاں۔ اسے لپیٹ کر دھوپ میں چارپائی پر بیٹھ جائیے۔ ذرا سی دیر میں کپڑے سوکھا چاہتے ہیں۔ میں اتنے میں استری گرم کرآتی ہوں۔‘‘ عدیل دھوپ میں چارپائی پر بیٹھا پہلے سے بھی زیادہ اداس نظروں سے اسے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آتے جاتے دیکھتا رہتا۔ اور اس کی لبریز آنکھوں سے بوند ٹپکنے کے بالکل قریب ہوجاتی۔ غرض اس طرح دوتین گھنٹے میں اسے آدم صورت بنادیا جاتا۔
محسن عدیل ایک ناول نویس تھا مگر بدقسمتی سے ابھی اس کا جوہر اہل وطن پر نہیں کھلا تھا۔ اسے اپنا پہلا ناول لکھے پانچ برس ہوچکے تھے۔ مگر ابھی تک اس کے چھپنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔ اس طویل قصے میں مصنف نےحیرت انگیز واقعیت اور جامعیت کے ساتھ جنسی لذتوں کاکھوج لگانے کی سعی کی تھی۔ خیر یہ تو کچھ زیادہ قابل اعتراض بات نہ تھی۔ مشکل یہ تھی کہ اس کے ساتھ ہی ساتھ اس نے اپنے نظریوں کے جواز میں پیغمبروں اور اوتاروں کی خانگی زندگیوں کو تختہ مشق بنایا تھا۔ اور یہ ایسی بات تھی کہ کتاب کا شائع ہوتے ہی ضبط ہو جانا یقینی امر تھا۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ کوئی ناشر اسے چھاپنے کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔
کتب فروشوں نے عدیل کو معقول معاوضہ پیش کرتے ہوئے مشورہ دیا تھا کہ ناول میں سے قابل اعتراض حصوں کو حذف کر دو۔ مگر وہ مسودے میں سے ایک نقطہ بھی کاٹنے کو تیار نہ تھا۔ وہ کہا کرتا، ’’ایک سچا فن کار ہمیشہ اپنی روح کو تخلیقات میں منتقل کیا کرتا ہے۔ میری روح اچھی ہو یا بری ، میں مادی منفعت کے لیے اسے بدلنے کو ہرگز تیار نہیں ہوں۔‘‘
عدیل کو اپنی اس ضد کے طفیل کافی تنگ دست ہونا پڑا تھا۔ اور وہ رفتہ رفتہ تصنیف و تالیف کے کام ہی سے بددل ہوگیا تھا۔ جب اس کی ناداری حد سے بڑھ جاتی تو ایک دوست اسے کسی چھاپے خانےسے زیر طبع کتابوں کے کچھ پروف پڑھنے کے لیے لادیا کرتا۔ اور اس طرح اسے دو چار روپے مل جایا کرتے۔
عدیل سے فرخندہ کی دوستی سب سے پرانی تھی۔ اب سے کوئی سال بھر پہلے جب وہ اپنے شوہر کی جواں مرگی کے بعد سسرال والوں کی سختیوں سے تنگ آکر بھاگ آئی تھی، تو ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر سب سے پہلے اس کی ملاقات عدیل ہی سے ہوئی تھی۔ اور عدیل ہی نےاسے اس مکار بڑھیا کے پنجے سے چھڑایا تھا جو اسے کسی کھاتے پیتے گھر میں استانی کی جگہ دلوانےکا لالچ دے کر نکال لائی تھی۔ پھر چونکہ اس کے میکے میں اس کا کوئی حقیقی رشتہ دار زندہ نہیں تھا، جو اس کی معاش کا کفیل ہوتا۔ یہ عدیل ہی تھا جس نےاس کے رہنے سہنے کا انتظام کیا تھا۔ اور اسی کے مشورے سے اس نے قسطوں پر سلائی کی مشین لے کر نکٹائیاں بٹوے وغیرہ سینے کا کام شروع کیا تھا، جو اس نے اسکول میں اپنی ایک شفیق استانی سے سیکھا تھا۔ عدیل ہی نے نہ معلوم کہاں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر بارہ چودہ برس کا ایک ہوشیار سا لڑکا لادیا تھا، جو نہ صرف گھر کااوپر کا کام ہی کیا کرتا بلکہ ہر روز تیسرے پہر اس کی تیار کی ہوئی نکٹائیاں وغیرہ بیچنے بھی جایا کرتا۔ غرض وہ عدیل کی بڑی قدر کرتی اور اسے ملک کا بہت بڑا صناع سمجھتی تھی۔
محسن عدیل کے بعد یا تو بیمہ ایجنٹ بھٹناگر آتا، اور یا ڈاکٹر ہمدانی یا دونوں ساتھ ساتھ آتے۔ بھٹناگر ادھیڑ عمر کا بھاری بھرکم آدمی تھا۔ گندمی رنگ۔ مٹیالے رنگ کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں جو ہر وقت کھوئی کھوئی سی رہا کرتیں۔ ان کو دیکھ کر ایسا گماں ہوتا گویا کسی حاصل نہ ہوسکنے والے مطلب کے برلانے کے لیے نت نئی چالوں کا تصور پیش رہتا ہے۔ فرخ بھابی کے ہاں آتے ہی وہ اپنی بادامی رنگ کی پتلون اتار کے اور تہہ کرکے ایک کونے میں رکھ دیتا۔ اور ایک پرانی سی دھوتی باندھ لیتا جو اسی مقصد کے لیےاس نے وہاں لا کر رکھ دی تھی۔ جس روز وہ معمول سے کچھ سویرے آجاتا اور فرخندہ ابھی ہنڈیا چولہے ہی میں لگی ہوتی تو وہ کسی سے بات نہ کرتا۔ بس جیب سے تاش کا پیکٹ نکال کر اکیلا ہی فرش پر بازی لگاتا رہتا۔
انشورنس والے عموماً ہر اس جگہ جانے کےآرزومند رہا کرتے ہیں جہاں دوچار صورتیں مل بیٹھتی ہوں کہ شاید وہاں کوئی شکار ہاتھ آئے۔ اور بھٹناگر بھی فرخ بھابی کے ایک دوست کے ذریعے اس کے ہاں یہی مقصد لے کر پہنچا تھا، مگر یہاں اسے اپنے ڈھب کی کوئی آسامی تو نظر نہ آئی البتہ یہاں کاماحول اسے ایسا راس آگیا کہ یہ جگہ شام گزارنے کے لیے مستقل طور پر اس کاٹھکانہ بن گئی۔
ڈاکٹر ہمدانی کی عمر پچاس کے لگ بھگ تھی، مگر دیکھنے میں وہ چالیس سےزیادہ کانہیں معلوم ہوتا تھا۔ گٹھا ہوا جسم، سرخ و سفید چہرہ، ڈارھی مونچھ صاف۔ سرکے بال تقریباً غائب۔ ایک آنکھ پر سنہری زنجیر والا چشمہ لگایا کرتا۔ ململ کا کرتا۔ بوسکی کا تہمد۔ پاؤں میں سلیپر۔ ہاتھ میں ایک موٹی سی چھڑی چاندی کی موٹھ والی۔ سردیوں میں اس لباس میں فقط اس قدر اضافہ ہوتا کہ پشمینے کی ایک خود رنگ چادر کو ایک خاص ڈھب سے تہہ کر، چھاتی پر لپیٹ، بغل سے نکال شانے پر اس طرح ڈال لیتا کہ اس میں ایک بارعب سیاسی لیڈر کی سی ادا پیدا ہو جاتی۔
وہ طب یونانی، ایلو پیتھی اور ہومیو پیتھی تینوں میں ماہر سمجھا جاتا تھا۔ گو باقاعدہ طور پر ان میں سے کسی کی سند بھی اس کے پاس نہ تھی۔ اس نے شوقیہ طور پر انسانی روگوں کا مطالعہ کیا تھا اور علاج کے تمام قدیم و جدید اصولوں کو ملاکر ایک نیا طریقہ نکالا تھا۔ جس کے باعث غیرطبی حلقوں میں اس کی کافی شہرت تھی۔ وہ اپنی چھوٹی سی دارالتجارب میں اپنے کو بند کرکےعجیب و غریب اور پر اسرار تجربے کیا کرتا۔ جن کاحال کسی کو معلوم نہ تھا۔ فرخ بھابی ایک مرتبہ اس کے زیر علاج رہ چکی تھی، اور یہی ان کی دوستی کی بنا تھی۔
سیڑھیوں میں ہلکے قدموں کی چاپ سنائی دیتی، اور سب جان لیتے کہ دیپ کمار آ رہا ہے۔ وہ ایک بائیس سالہ خوش رو شرمیلا نوجوان تھا۔ چمپئی رنگ، گھنگھریالے بال، وہ ایک امیر زمیندار کا بیٹا تھا اور اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالسلطنت میں آیا تھا۔ مگر ایم۔ اے میں فیل ہونے کے بعد ایسا دل برداشتہ ہوا کہ نہ تو باپ کے بے شمار خطوں اور تاروں کا کوئی جواب دیا اور نہ گھر جانے کانام ہی لیا۔ اس کا مخصوص لباس یہ تھا۔ کھدر کاکرتا، کھدر کاپاجامہ، پیروں میں چپل اور سر سے ننگا۔ سردیوں میں ایک سیاہ کمبل جس کے حاشیے پر سرخ سرخ ڈورے تھے، اوڑھ لیا کرتا۔ باپ کی نشانی یہی ایک کمبل اس کے پاس رہ گیا تھا۔
اسے فرخندہ کے ہاں عدیل لایا تھا۔ فرخندہ نے پہلی ہی ملاقات میں اس سے کہاتھا، ’’آپ کے لیے فلم لائن بہت موزوں رہے گی۔‘‘ یہ سن کر اس کے رخسار کانوں تک تمتما اٹھے تھے۔ کوئی مہینے بھر کے بعد وہ فرخندہ سے کسی قدر بے تکلف ہوگیا تو ایک دن جھجکتے ہوئے پوچھا، ’’فرخ بھابی کیا میں سچ مچ فلم لائن کے لیے موزوں ہوں؟‘‘
فرخندہ مسکرادی، ’’تو کیا اس دن آپ کو میری بات کا یقین نہیں ہوا تھا؟‘‘ دیپ کمار یہ جواب سن کر خاموش ہوگیا۔ اور پھر کبھی اس موضوع پر گفتگو نہیں کی۔
عدیل، بھٹناگر، ڈاکٹر ہمدانی اور دیپ کمار کے آجانےسے اب محفل خاصی سج جاتی۔ ادھر فرخندہ بھی عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر محفل میں آبیٹھتی۔ علاوہ ازیں ’مولانا‘ جو آٹھوں پہر فرخندہ ہی کے ہاں پڑے رہتے تھے اور زیادہ تر وقت سونے میں گزارتے تھے۔ اپنی کملی سنبھالتے ہوئے آکر شریک محفل ہوجاتے۔ نام تو خدا جانے ان کاکیا تھا مگر سب انہیں ’’مولانا‘‘ کہا کرتے تھے۔ یہ مقدس خطاب دلوانے میں ان کی بزرگی یا دین داری سے کہیں زیادہ ان کی چھوٹی سی کڑبڑی ڈاڑھی نے حصہ لیاتھا۔ کلوں پر تو بال خال خال تھے۔ البتہ ٹھوڑی خوب بھری ہوئی تھی۔ چھوٹی چھوٹی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی، ناک پتلی اور سوتواں، کان بڑے بڑے، کہتے تھے مسجد کے ملا نے کھینچ کھینچ کر بڑے کردیے تھے۔
یہ حضرت دیہات کے رہنے والے تھے۔ ادھیڑ عمر میں علم دین کی تکمیل کا شوق چرایا اور یہ اپنے گاؤں کو خیرباد کہہ کر شہر پہنچے۔ کچھ دنوں مختلف مسجدوں میں فقہ حدیث وغیرہ کا درس لیتے رہے۔ پھر ایک مسجد کے امام بنادیے گئے۔ جو ٹوٹی ہوئی اور شہر سے دور ایک اجاڑ سے مقام میں تھی۔ مسجد کے قریب ہی سے ریل کی لائن گزرتی تھی۔ نماز ی تو اس مسجد میں شاذ ہی کبھی آتا۔ البتہ ریل گاڑیاں دن رات گزرا کرتیں۔ مولانا دن بھر حجرے میں اپنی جھلنگی چارپائی پر پڑے حجرے کے شگاف میں سے آنےجانے والی گاڑیوں کی سواریوں کو اداسی سے دیکھتے رہتے۔ ان کامعمول تھا کہ جمعہ کے جمعہ کپڑے دھوکر شہر کی جامع مسجد میں جایا کرتے۔ جہاں ایک مشہور عالم دین جمعہ کی نماز کے بعد وعظ کیا کرتے۔ ایک دن وہ وعظ کو جانے لگے تو اپنی ساری درسی کتابیں بھی ساتھ لیتے گئے۔ پورے دوگھنٹے تک وہ حضوری قلب کے ساتھ عالم صاحب کا وعظ سنتے رہے۔ جب وعظ ختم ہوا تو وہ زار و قطار رو رہے تھے۔ روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی تھی۔ مسجد سے نکل کر انہوں نے اپنی ساری کتابیں ایک نادار طالب علم کو دے دیں۔ اس کے بعد پھر کسی نے ان کو کسی مسجد یا درس میں نہیں دیکھا۔
فرخندہ سے ان کی ملاقات یوں ہوئی کہ پچھلے سال جاڑوں کی ایک شام کو وہ ایک بازار سے گزر رہی تھی کہ اس نے دیکھا ایک شخص کمبل اوڑھے سرکاری نل کے کنارے بیٹھا زور زور سے کانپ رہا ہے۔ وہ ٹھہر گئی۔ اس پر اس شخص نےلرزتی ہوئی آواز میں کہا، ’’میں بیمار ہوں۔ اس شہر میں میرا کوئی نہیں۔ میں بچوں کو کلام مجید پڑھا سکتا ہوں اگر کہیں کام مل جائے۔۔۔‘‘
غرض فرخندہ انہیں گھر لے آئی۔ چھ سات روز میں وہ بالکل تندرست ہوگئے مگر وہ دن اور آج کا دن۔ نہ تو انہوں نے بچوں کو کلام مجید پڑھانے کا کبھی ذکر کیا اور نہ فرخندہ کے ہاں سے جانے کا نام ہی لیا۔ وہ گھر کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹادیا کرتے مثلاً برتن مانجھ دیے۔ چولہے میں آگ سلگا دی۔ کنوئیں سے پانی بھر لائے۔ اور اگر کبھی فرخندہ کے سر میں درد ہوتا تو دیر تک اس کی پیشانی کو دباتے اور آیات قرآنی پڑھ پڑھ کر دم کرتے رہتے۔ علاوہ ازیں کبھی کبھی فرخندہ کے دوستوں کا چھوٹا موٹا کام بھی کردیا کرتے۔ مگر ہمیشہ ناخوشی کے ساتھ۔ وہ سب کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھاتے تھے۔
زیادہ دیر نہ ہونے پاتی کہ نوجوان انقلابی شاعر شکیبی بھی آ پہنچتا۔ وہ تھا تو جلد ساز مگر طبع موزوں رکھتا تھا۔ نفسیات کے ایک پروفیسر کی صحبت نے جو اس سے جلدیں بندھوایا کرتا تھا اسے شاعر بنادیا تھا۔ شکیبی کا تخلص اسی کارہین منت تھا۔ چیچک روتھا مگر آواز خدا کی دین ہے۔ جس وقت لہک لہک کر اپنا کلام سناتا، تو اپنی کم روئی اور خستہ حالی کے باوجود ایک خاص طرح کا حسن اور بھول پن اس کے چہرے پر برسنے لگتا۔ اس نے مزدوروں کے متعلق متعدد نظمیں لکھی تھیں۔ ہرچند ان میں عروض و محاورہ کی غلطیاں جابجا پائی جاتی تھیں۔ پھر بھی ان میں سے بعض واقعی معرکہ کی تھیں۔ خصوصاً وہ نظم جس میں ایک مزدور اپنی شادی کے روز حجام سے خط بنوانے جاتا ہے۔ اس کی بیتابی کا یہ عالم ہے کہ پے درپے استرے کے زخم کھاتا ہے۔ اور بالآخر اپنا نصف نچلا ہونٹ ہی کٹوا بیٹھتا ہے۔ حقیقت نگاری اور انقلابی مزاح کی عمدہ ترین مثال تھی۔
یہ محفل اپنے عروج پر نہیں پہنچتی تھی جب تک کہ قاسم نہ آ چکتا۔ وہ ٹرام کمپنی میں کرایہ اگاہنے پر ملازم تھا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ وہ ایک افسانہ نویس بھی تھا۔ اس نے ٹرام کی نوکری محض بیکاری کی وجہ سے کی تھی۔ مگر دوچار ہی روز میں جب اس نے دیکھ لیا کہ اس کے ذریعے اسے انسانی کردار کے مطالعہ کا، جواس کی افسانہ نویسی کے لیے ازبس ضروری تھا، کس قدر نادر موقع ملتا ہے، تو اسے اس کام سے بے حد دل بستگی ہوگئی۔ چنانچہ جب بعد میں ایک دوست نے اس کے لیے کسی اور جگہ بہتر ملازمت تلاش کی تو اس نےجانے سے انکار کردیا۔ سچ یہ ہے کہ ٹرام میں اس کی مڈبھیڑ اس قدر گوناگوں انسانوں سے ہوتی تھی کہ نہ تو ریل میں ممکن ہے اور نہ جہاز میں۔ کیونکہ ان کے مسافر عموماً لمبے لمبے سفر کرتے ہیں۔ مگر ٹرام میں ہر پاؤ میل کے بعد پوری کھیپ کی کھیپ نئےمسافروں کی لے لیجیے۔
وہ دراز قامت اور خوش شکل نوجوان تھا۔ ٹرام کی میلی اور پھٹی ہوئی وردی میں بھی وہ ایک فوجی کی سی شان رکھتا تھا۔ دنیا میں اس کا کوئی عزیز یا رشتہ دار نہ تھا۔ دوپہر کو تنور پر کوچوان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھالیتا، اور شام کو ٹرام کے ایک اسٹیشن کے قریب سے نان کباب خرید لاتا اور چلتی گاڑی میں کھڑے کھڑے کھا لیتا۔ اگلے اسٹیشن پر ٹرام رکتی۔ تو سرکاری نل سے پیٹ بھرکر پانی پی لیتا۔ غرض بہت مرنجاں مرنج آدمی تھا۔
قاسم اور شکیبی، محسن عدیل کے دوستوں میں سے تھے اور پہلے پہل اسی کے ذریعے فرخ بھابی کےہاں آئے تھے۔ یہ سب لوگ محفل کے خاص رکن تھے اور قریب قریب ہر روز کے آنے والے۔ ان کے علاوہ کچھ اور اصحاب بھی تھے۔ مگر ان کے آنے کا کچھ ٹھیک نہ تھا۔ جب آنےلگتے تو متواتر کئی کئی دن آتے رہتے۔ اور جب نہ آتے تو مہینوں شکل نہ دکھاتے۔
ان میں ایک صاحب تھے مسٹر سنگھا، جو ایک باکمال مصور اور فوٹو گرافر تھے۔ مگر اپنے فن سے فائدہ اٹھانا ان کی قسمت میں نہ تھا۔ کیونکہ نہ کبھی کوئی اسٹوڈیو نصیب ہوا اور نہ کبھی کوئی کوئی بڑھیا سا کیمرہ خریدنے کی توفیق ہوئی۔ چنانچہ کبھی ادنیٰ تھیٹریکل کمپنیوں کے پردے رنگ کر تو کبھی دکانوں کے سائن بورڈ لکھ کر گزارہ کرتے۔ ان کی یہ بڑی تمنا تھی کہ وہ فرخ بھابی کی ایک ایسی تصویر کھینچیں جس میں وہ فوجی وردی پہنے گھوڑے پر سوار ہو، اور کئی مرتبہ اس کا اظہار بھی کرچکے تھے۔ مگر یہ تمنا پوری ہونے میں نہ آتی تھی۔
کبھی کبھی ایک خان صاحب بھی، مان نہ مان میں تیرا مہمان کے مصداق آ جایا کرتے۔ وہ کبھی تھانے دار رہ چکے تھے مگر کسی بے اعتدالی کے باعث معطل کردیے گئے تھے۔ شملے دار پگڑی کلاہ پر بندھی ہوئی، مونچھوں کو بل دیا ہوا، سرخ سرخ آنکھیں، ہاتھ میں پتلی سی بید کی چھڑی جسےعادتاً لرزاتے رہتے۔ پاؤں میں پشاوری چپل۔ خدا ہی جانتا تھا کہ وہ کس طرح گزر کیا کرتے تھے۔ مگر جب آتے پیے ہوئے آتے، اور آتے ہی فرمائش شروع کردیتے، ’’فرخندہ خانم۔ کبھی گانا نہ سنایا تم نے!‘‘
’’ایلو اور سنو۔‘‘ فرخندہ جواب دیتی۔ ’’یہ کس نے کہہ دیا آپ سے کہ میں گاتی ہوں۔‘‘
’’واللہ تم ضرور گاتی ہو۔ اور آج ہم بے سنے نہ جائیں گے۔‘‘
’’خان صاحب۔ آپ باور کریں۔ میں گانا بالکل نہیں جانتی۔‘‘
’’فرخندہ خانم۔ تمہاری آواز واللہ بے حد رسیلی ہے۔ تم گایا کرو۔ سکھانے کا بندوبست ہم کردیں گے۔‘‘
’’جی شکریہ!‘‘
’’بہت اچھا گویا ہے آج کل ہمارے ہاتھ میں۔‘‘
’’لو بھلا اس عمر میں میں کیا سیکھوں گی گانا۔‘‘
’’سنیما کے پاس ہیں ریزور کلاس کے۔ چلتی ہو فلم دیکھنے۔ چاہو تو مولانا کو بھی ساتھ لے چلو۔‘‘
’’جی مجھے تو معاف ہی رکھیے۔ ہاں مولانا جانا چاہیں تو انہیں شوق سےلے جائیے۔‘‘
پھر وہ لمحہ بھر تامل کرکے حاضرین پر ایک نظر ڈالتے ہوئے فرخندہ سے دبی آواز میں پوچھتے، ’’کھانا تو تم لوگ کھا چکے ہوگے؟‘‘
’’ہاں مدت ہوئی۔‘‘
’’اچھا تو ایک پان کھلاؤ اور ہم چلیں۔‘‘
ان خاں صاحب کا آنا فرخندہ کے سب دوستوں کو برا لگتا۔ مگر وہ خاموش اور الگ تھلگ رہنے ہی میں مصلحت سمجھتے۔ آخر خدا خدا کرکے جب وہ رخصت ہوتے تو سب لوگ اطمینان کا سانس لیتے۔
جب یہ محفل بھر جاتی تو گفتگو کا سلسلہ شروع ہوتا۔ اس کے لیے کسی خاص موضوع کی پابندی نہ تھی۔ عام طور پر کسی اخبار کے ضمیمہ کی خبر، قتل یا لوٹ مار کا کوئی واقعہ، کسی مغنیہ کی آمد یا کسی لیڈر کا اغوا، مچھر وغیرہ گفتگو کےآغاز کاباعث ہوتے۔ شروع شروع میں بات چیت دو ایک آدمیوں ہی تک محدود رہتی۔ مگر جلد ہی کوئی صاحب موضوع میں تھوری سی ترمیم کرکےشریک ہوجاتے۔ باتوں باتوں میں کوئی واقعہ مثال کے طور پر سنایا جا رہا ہو تا تو سامعین میں سے کسی اور صاحب کو ویسا ہی یا اس سے ملتاجلتا واقعہ یاد آ جاتا، جسے وہ سنائے بغیر نہ رہتے۔ اسی طرح کسی صاحب کو بات کا کوئی پہلو کھٹکتا جس کی تردید کرنا وہ ضروری سمجھتے۔ غرض یوں رفتہ رفتہ سبھی لوگ گفتگو میں حصہ لینے لگتے۔
بعض اوقات گفتگو شروع ہی سے عالمانہ رنگ اختیار کرلیتی۔ ایسے موقعوں پر قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں دہرائی جاتیں۔ تاریخ کے لا ینحل عقدوں کی گرہ کشائی کی جاتی۔ حکمرانوں اور جہاں بانوں کی حکمت عملیوں پر روشنی ڈالی جاتی۔ اقتصادیات، عمرانیات، نفسیات او رحیات بعد الممات پر خیال آرائیاں ہوتیں۔ اور فرخندہ انتہائی غور و خوض کے ساتھ اپنے رفیقوں کی تقریروں کو سنتی رہتی۔ ہر چند بہت سی باتیں اس کی سمجھ سے بالا ہوتیں، مگر اس سے اس کے انہماک میں ذرا فرق نہ آتا۔ وہ دل ہی دل میں ان کی قابلیت اور وسعت معلومات پر عش عش کراٹھتی۔ ۔ اور جب اسے یہ خیال آتا کہ علم و فضل کے یہ دریا اس کے چھوٹے سے ناچیز گھر میں بہائے جارہے ہیں تو اس کی آنکھوں کی قدرتی چمک دوچند ہوجاتی اور اس کا سانس تیز تیز چلنےلگتا۔
کبھی کبھی جادو اور دوسرے سفلی علوم پر بھی اظہار خیال کیا جاتا۔ صرف یہی ایک موضوع ایسا تھا جسے وہ پسند نہیں کرتی تھی۔ بلکہ اس کے ذکر سے اسے وحشت ہونے لگتی تھی۔ اس گفتگو میں سب سے زیادہ جوش و خروش سے حصہ مولانا لیا کرتے۔ ان کا قول تھا کہ موجودہ تہذیب کی بے چینیوں اور نا انصافیوں کو دور کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ انسان سے بالا و برتر قوتوں پر قابو حاصل کیا جائے اور ان کی مدد سے دنیا میں انصاف، بھائی بندی اور امن قائم کیا جائے۔ وہ یہ بھی کہا کرتے، خدا جانے اس میں کہاں تک سچ ہے کہ کم و بیش تمام قدیم تہذیبوں کے عروج و ترقی میں سفلی علوم کو بہت دخل رہا ہے۔
’’مولانا صاحب!‘‘ ڈاکٹر ہمدانی پوچھتا، ’’کیا جن و ملک آج بھی دنیا میں موجود ہیں؟‘‘
’’ہیں کیوں نہیں؟‘‘
’’پھر وہ نظر کیوں نہیں آتے؟‘‘
’’اس لیے کہ انسان کے حوس کا ارتقا اس قدر کامل نہیں ہوتا کہ وہ جن و ملک کا، جن کی روح انسان کی روح سے ارفع و اعلیٰ ہوتی ہے، ادراک کرسکے۔‘‘
’’حواس کا کامل ارتقا کیسے ہوتا ہے؟‘‘ محسن عدیل دریافت کرتا۔
’’سخت ریاضت اور قوت ارادی سے۔‘‘ مولانا جواب دیتے۔
’’کیا کبھی آپ کو بھی جن نظر آیا؟‘‘ بھٹناگر پوچھتا۔
’’آیا کیوں نہیں۔‘‘ مولانا شگفتگی سے فرماتے۔ ’’لیکن بھئی صرف ایک بار۔‘‘
اس کے بعد وہ مزے میں آکر اس زمانے کا ایک واقعہ سنانا شروع کرتے جب وہ ریلوے لائن کے پاس ٹوٹی ہوئی مسجد میں رہتے تھے، اور انہیں سفلی علوم کا نیا نیا شوق ہوا تھا۔ ابھی ان کاجن طہارت کے لوٹے میں سے آدھا ہی نکلنے پاتا کہ فرخندہ جو کچھ لمحے پہلے چپکے سے اٹھ کر چلی گئی تھی، واپس آجاتی اور مولانا کے شانےپر ہاتھ رکھ کر کہتی: ’’اجی مولانا صاحب قبلہ۔ یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی۔ ذرا جاکر مسجد سے گھڑا تو بھرلائیے۔‘‘
’’لیکن وہ پانی کیا ہوا جو شام کو بھر کر لایا تھا؟‘‘ مولانا پوچھتے۔
بھٹناگر بول اٹھتا، ’’آپ کا کوئی یار غار جن آکر پی گیا ہوگا۔‘‘ اور اس پر ایک فرمائشی قہقہہ پڑتا۔
’’بات یہ ہے کہ مولانا صاحب۔‘‘ فرخندہ بیان کرتی، ’’اس میں جھینگر مرا پڑا تھا۔ میں نے لے کے سارا پانی لنڈھا دیا۔ جائیے جائیے میرے اچھے مولانا صاحب۔ ابھی تو مسجد کا دروازہ کھلا ہوگا۔ بند ہوگیا تو رات بھر سب کے سب پیاسے مریں گے۔‘‘
اس وقت جب کہ وہ ایک محیر العقول چشم دید واقعہ سنارہے ہوتے، انہیں یوں بات کو ادھ بیچ میں چھوڑ کے جانا سخت ناگوار گزرتا۔ گھڑے تک پہنچنے اور پھر اسے اٹھاکر سیڑھیاں اترنے میں تو انہیں خاصا وقت لگ جاتا۔ مگر ڈیوڑھی سے باہر قدم رکھتے ہی ان میں یک لخت چستی پیدا ہوجاتی۔ یہ امید کہ شاید وہ واپس آکر قصے کاسلسلہ اسی جگہ سے دوبارہ شروع کرسکیں، جہاں اچانک اسے منقطع کردیا گیا تھا، انہیں تیزی سے مسجد میں پہنچا دیتی اور وہ جلد جلد کنوئیں سے پانی نکالنا شروع کردیتے مگر آخر جب وہ گھڑا بھر کر گھر پہنچے تو وہاں کا نقشہ ہی بدلاہوا پاتے۔ جہاں پہلے روحانیت کے اثر سے فضا میں پروں کی پھڑپھڑاہٹ کاسا گماں ہونے لگاتھا، وہاں اب نغمے لرز رہے تھے۔
نوجوان انقلابی شاعر شکیبی اپنی نظم ’’سرخ برکھا‘‘ سینتالیسویں بار ترنم سے سنا رہاتھا۔ یہ نظم کافی طویل تھی اور فرخ بھابی کو حد سے زیادہ مرغوب۔ مولانا کا دل ٹوٹ جاتا اور اس رات وہ پھر کسی سے بات نہ کرتے اور جلد ہی کملی تان کے پڑ رہتے۔
اس محفل میں آئے دن اہم ملکی و معاشرتی مسائل پر گرما گرم بحثیں تو ہوا ہی کرتی تھیں۔ مگر اس شام اہل مجلس کاجوش و خروش خاص طور پردیکھنے کے قابل ہوتاجب کوئی صاحب کوئی نئی تجویز لے کر آتے۔ مثلاً ملک کی صحافت روز بروز گرتی جارہی ہے۔ ضرورت ہے کہ صحیح معنوں میں کوئی معقول روزانہ اخبار نکالا جائے۔ مگر معقولیت کے لیے چونکہ مالی ذرائع کا وسیع ہونا ضروری تھا، اس لیے فی الحال صرف ایک پیسے والے ضمیمہ ہی پر اکتفا کیا جاتا۔ اس کاکچھ زیادہ خرچ بھی نہ ہوگا۔ یہی بیس پچیس روپے روز۔ اتنے کے تو صرف سنیما ہی کے اشتہار فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ مگر نہ معلوم کام کی زیادتی کی وجہ سے یا ہر روز کی ذمہ داری کے خیال سے اس تجویز کا خیرمقدم زیادہ گرم جوشی سے نہ کیا جاتا۔ اور روزانہ اخبار کی اسکیم جلد ہی ہفتہ وار اور ہفتہ وار سے ماہانہ رسالے میں بدل جاتی۔ اس پر نئے سرے سے خرچ کی میزان جوڑی جاتی۔ رسالے کا نام اور اس کے اغراض و مقاصد تجویز کرنے پر کافی بحثا بحثی ہوتی۔ رسالے کی ادارت کسی ایک صاحب کے سپرد نہیں کی جاسکتی۔ بلکہ ایک پورا بورڈ اس کام کے لیے مقرر کرناپڑے گا۔
بھٹناگر اپنے انشورنس کے کام کے ساتھ ساتھ رسالے کے لیے کنونسنگ بھی کرتا رہےگا۔ ڈاکٹر ہمدانی اپنے مریضوں میں توسیع اشاعت کی کوشش کرے گا۔ نیز رسالے کے خریداروں کو اس کے ہاں کی ادویہ رعائتی قیمت پر دستیاب ہوسکیں گی۔ مقامی پروپگنڈے کاکام ٹرام کے کنڈکٹر قاسم اور نوجوان انقلابی شاعر شکیبی کے سپرد ہوگا۔ رسالے کے سرورق اور اس کی ظاہری زیبائش کے لیے مسٹر سنگھا کی خدمات لی جائیں گی۔ رسالے کے دفتر کے لیے کچھ زیادہ تردد کی ضرورت نہیں۔ اس مطلب کے لیے بھلا فرخ بھابی کے گھر سے زیادہ موزوں جگہ اور کون سی ہوسکتی ہے۔۔۔ غرض یہ سارے مرحلے طے ہوجاتے، اور اراکین مجلس کے شوق و گرم جوشی کو دیکھ کر گماں ہونے لگتا کہ بس ہفتے عشرے تک رسالہ نکلاہی چاہتا ہے۔ مگر آخر میں ڈکلریشن داخل کرنے کا کام کچھ ایسا بے ڈھب ثابت ہوتا کہ رسالے کی اشاعت برابر معرض تعویق میں پڑجاتی اور کچھ دنوں کے بعد یہ تجویز پرانی ہوکر اپنی ساری دلکشی کھو بیٹھتی۔
اسی طرح کبھی اس قسم کی تجویز ہوتی کہ اہل وطن کی صحت ناقص غذا کے باعث روزبروز گرتی جارہی ہے۔ ضرورت ہے کہ ان کے لیےوسیع پیمانے پر خالص دودھ اور گھی مہیا کیا جائے۔ یعنی ایک ڈیری فارم کھولا جائے۔ مگر سرمائے کی کمی اور فارم کی اہم ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے اس اسکیم میں بھی برابر ترمیمیں ہوتی رہتیں۔ یہاں تک کہ گائیں بھینسیں چھوٹی ہوتے ہوتے مرغیوں کی شکل اختیار کرلیتیں، اور آخر میں کوئی صاحب مرغیوں کی کسی متعدی بیماری کاذکر کرکے سب کو ہمیشہ کی نیند سلادیتے۔
ایسا ہی حشر ٹکا لانڈری، کھادی بھنڈار اور غریبوں کے ہوٹل کاہوا۔
کسی کسی روز خصوصاً سخت سردی کی راتوں میں یہ مجلس خالص تفریحی بھی ہواکرتی۔ اس شب تمام گفتگوؤں اور بحث مباحثوں کو بالائے طاق رکھ کر تاش کھیلا جاتا۔ عموماً ایک ہی کھیل غلام چور۔ جس میں ہر دفعہ چور کے لیے نرالی سے نرالی سزا تجویز کی جاتی۔ اس کھیل کی ابتدا عموماً یوں ہوتی کہ محفل میں یک بارگی کسی صاحب کو سخت جاڑا لگنےلگتا۔ چنانچہ فرخ بھابی کے بسترسے اس کا ریشمی لحاف منگوایا جاتا۔ جسے چاروں طرف پھیلا کر سب لوگ اپنی اپنی ٹانگوں پر لے لیتے۔ پھر کوئی صاحب چپکے سے بھٹناگر کے کوٹ کی جیب میں سے تاش نکال لیتے۔ اور کسی سے پوچھے گچھے بغیر لحاف ہی پر سب کو پتے بانٹنےشروع کردیتے۔ چنانچہ اس طرح بغیر کسی تمہید کے کھیل شروع ہوجاتا اور جب تک لالٹین میں تیل ختم نہ ہوجاتا، برابر جاری رہتا۔ بعض دفعہ اذانیں تک سنائی دے دے گئیں۔ اس رات تاش کے ساتھ ساتھ مونگ پھلی بھی خوب کھائی جاتی۔ چنانچہ فرش پر، لحاف پر، پتلون کی جیبوں میں، پاجامے کے نیفے میں غرض جس جگہ دیکھو، مونگ پھلی کے چھلکے ہی چھلکے ہاتھ آتے۔
یہ عجیب بات تھی کہ ہر چند فرخ بھابی کے دوستوں کی بے دینی کفر والحاد کےدرجہ تک پہنچی ہوئی تھی، یہاں تک کہ مولانا بھی اپنے بعض عقائد کی بناپر سخت گمراہ سمجھے جاتے تھے۔ مگر وہ دینی معاملوں میں بڑی کٹر تھی۔ یہ ایک ایسا امر تھا جس میں اس کے دوستوں کے فعل اور کردار اس پرکچھ اثر نہیں ڈال سکتے تھے۔ وہ سختی سے صوم و صلوٰۃ کی پابند تھی۔ ایسا تو کبھی ہوا کہ اس نے کسی وقت کی نماز قضا پڑھ لی ہو مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ مطلق چھوڑ ہی دی ہو۔ جب نماز کا وقت ہوتاتو وہ چپکے سے اٹھ کر اپنی کوٹھری میں چلی جاتی اور فریضہ ادا کرکے چلی آتی۔ کبھی کبھی وہ محفل ہی میں بیٹھی دوپٹے کے نیچے تسبیح بھیرتی رہتی۔ اور ساتھ ہی ساتھ دلچسپی سے کھیل اور کھلاڑیوں کو بھی دیکھتی اور مسکراتی رہتی۔
(۲)
کہتے ہیں جب کسی پر برا وقت آتا ہے تو خودبخود ایسے اسباب پیدا ہوجاتے ہیں کہ ان کا سان گمان بھی نہیں ہوتا۔
جنوری کی ایک صبح کو ابھی اندھیرا ہی تھا کہ فرخندہ کی آنکھ کھل گئی۔ یوں تو وہ نماز کے لیے ہر روز منہ اندھیرے اٹھنے کی عادی تھی، مگر اس روز ابھی کچھ زیادہ ہی رات باقی تھی۔ دراصل اسے سوتے سوتے ایسا محسوس ہواتھا جیسے اس نے اپنی کوٹھری کے باہر دالان میں کچھ کھڑکا سنا ہو، اور وہ چونک اٹھی تھی۔ پہلے تو اس نے سوچا ممکن ہے یہ میرا وہم ہی ہو۔ پھر اسے مولانا اور ملازم لڑکے کا خیال آیا، جو ساتھ والی کوٹھری میں سویا کرتے تھے۔ ممکن ہے ان میں سے کوئی کسی ضرورت سےباہر نکلا ہو۔ یہ سوچ کر اس نے آنکھیں بند کرلیں مگر نیند نہ آئی۔ اس نے دل میں کہا کیوں نہ آواز دے کر ان لوگوں سے پوچھ لوں۔ چنانچہ اس نے لیٹے ہی لیٹے پکار کر کہا، ’’مولانا صاحب۔ اجی مولانا صاحب۔۔۔ غفار ارے او غفار!‘‘
مگر دونوں میں سے کسی نے رسید نہ دی۔ اس نے سوچا کوٹھری کا دروازہ بند ہے۔ اس پر یہ لوگ گہری نیند سو رہے ہوں گے۔ میری آواز بھلا کہاں سنائی دی ہوگی پھر خیال آیا ان میں سے اگر کوئی باہر نکلا تھا تو ظاہر ہے کہ وہ اتنی جلدی دوبارہ سو نہیں گیا ہوگا۔ جی تو ابھی گرم گرم بستر سے نکلنے کو نہیں چاہتا تھا مگر دل میں ظن جو بیٹھ چکا تھا۔ مجبوراً اٹھی۔ سرہانے کی کھونٹی پر سے گرم چادر اتار اوڑھ لی۔ پھر لالٹین روشن کی۔ اسے ہاتھ میں تھام کر کوٹھری کی کنڈی کھول باہر نکلی۔ باہر اس وقت کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی۔ اور ہوا تھی کہ زناٹے سے چل رہی تھی۔ دانتوں کوبھینچ کپکپاہٹ پر قابو پانے کی کوشش کرتی، سمٹتی سمٹاتی دوسری کوٹھری کے دروازے پر پہنچی۔
’’مولانا صاحب۔ اجی مولانا صاحب۔‘‘ اس نے پکار کر کہا۔ مگر مولانا نےاب بھی کوئی جواب نہ دیا۔ دروازے کو ہاتھ لگانا تھا کہ کواڑ ایک دم سے ’’چی پوں‘‘ کرکے کھل گئے۔ وہ کچھ ڈر سی گئی۔ مگر پھر اس نے دل کو مضبوط کیا۔ اور جس ہاتھ میں لالٹین تھی اسے اونچا کر کوٹھری میں داخل ہوگئی۔ لالٹین کی روشنی میں اس نے دیکھا کہ مولانا تو حسب معمول فرش پر اپنی کملی میں گٹھری سی بنے پڑے ہیں مگر ملازم لڑکا غفار موجود نہیں۔ نہ اس کابسترہی اسے نظر آیا۔ معاً اسے اپنی سلائی کی مشین کا خیال آیا، جو اسی کوٹھری کے ایک کونے میں پڑی رہا کرتی تھی، اور اس کی نظریں آپ سے آپ اس کونے کی طرف اٹھ گئیں۔ اس کادل دھک سے رہ گیا۔۔۔ مشین وہاں نہیں تھی۔
’’مولانا صاحب۔ مولانا صاحب‘‘ اس نے مولانا کو جھنجھوڑتے ہوئے پراضطراب لہجہ میں کہا، ’’اٹھیے اٹھیے چوری ہوگئی۔‘‘
’’ایں چوری ہوگئی؟‘‘ مولانا آخر ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھے۔ ’’کب؟ کس کے ہاں؟‘‘ اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے فرخندہ کا منہ تکنے لگے۔
’’ہمارے ہاں اور کس کے!‘‘ فرخندہ نے کہا۔ ’’غفار میری سلائی کی نئی مشین چراے گیا۔‘‘
’’غفار؟‘‘
’’ہاں وہی۔‘‘
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے بھلا!‘‘
’’تو پھر کہاں ہے وہ؟ بستر بھی تو نہیں ہے اس کا۔‘‘ اس کے جواب میں مولانا نے اپنی آنکھوں کی پتلیوں کو پھرا کر کوٹھری کاجائزہ لیا۔ لمحہ بھر خاموش رہے پھر وہ بڑبڑائے، ’’ہات تیرے مردود کی!‘‘
’’ابھی اس کی آدھی قسطیں بھی تو میں نے ادا نہیں کی تھی۔ ہائے اب کیا ہوگا۔ مجھے کئی دنوں سے اس کے طور بدلے ہوئے نظر آرہے تھے۔ دو ایک بار خیال بھی آیا کہ رات کومشین اپنے کمرے میں رکھوا لیا کروں۔ مگر ایک تو اس میں جگہ ہی کہاں تھی۔ دوسرے آپ پر بھروسہ تھا کہ آپ یہاں سوتے ہیں۔ دیکھ بھال کرتے رہیں گے۔‘‘ مولانا کچھ دیر قصورواروں کی طرح گردن جھکائے چپ بیٹھے رہے۔ علاوہ ازیں ابھی اعضا پر نیند کا کچھ کچھ اثر باقی تھا۔ اچانک انہوں نے جھرجھری لی اور بولے، ’’فرخ بھابی۔ فکر نہ کرو۔ مشین کہیں نہیں جاسکتی۔ اللہ نےچاہا تو کل ہی پکڑا جائے گا مردود۔‘‘
’’میں سو رہی تھی کہ کھڑکا سن کر میری آنکھ کھل گئی۔ وہ ابھی ابھی لے گیا ہے۔ کچھ دور نہیں گیا ہوگا۔ ہائے ہوتا کوئی ہمت والا۔ ابھی جاکر اسے پکڑلاتا۔‘‘
’’گھبراؤ نہیں۔ میں ابھی اس کے پیچھے جاتا ہوں۔‘‘ اچانک مولانا کی مردانگی نےجوش مارا۔ مگر باہر اس وقت ایسی ہمت شکن سردی پڑ رہی تھی کہ فوراً ان کو اپنے اس ارادے میں ترمیم کرنی پڑی۔
’’پکڑ تو میں اسے ضرور لاؤں گا۔‘‘ وہ بولے۔ ’’پاتال میں ہوگا۔ پاتال سے بھی کان پکڑ کر کھینچتا ہوا لے آؤں گا۔ مگر ذرا دن نکل آئے۔ اس وقت اندھیرے میں کہیں چھپ گیا تو نظر تھوڑا ہی آئے گا سور کابچہ۔‘‘
’’بس رہنے دو مولانا صاحب۔‘‘ فرخندہ نے کسی قدر تلخی سے کہا۔ ’’اس وقت آپ کے جانے کی ضرورت نہیں۔ صبح کو میں خود ہی کسی کو تھانے بھیج کر رپٹ لکھوادوں گی۔‘‘
مولانا کو اپنے معقول عذر کے جواب میں یہ سرد مہرانہ کلام سننے کی توقع نہ تھی۔ وہ کچھ دیر تک سر جھکائے سوچتے رہے۔ پھر جانے کیا خیال آیا کہ انہوں نے تکئے کے نیچے سے اپنی پگڑی نکال دو ایک دفعہ اسے پھٹکا اور پھر سر پر باندھ لیا۔ پھر کملی جھاڑ اس کی بکل ماری اور جوتی پہن کر کوٹھری سے باہر نکل گئے۔ کوئی آدھ گھنٹے کے بعد وہ ٹھٹھرتے ہوئے واپس آئے۔ اس اثنا میں فرخندہ غم سے نڈھال اپنی کوٹھری میں جاکر لیٹ رہی تھی۔
’’میں سارے میں دیکھ آیا مردود کو۔‘‘ وہ فرخندہ کے پلنگ کے پاس آکر کہنے لگے۔ ’’پہلے اسٹیشن پہنچا۔ وہاں سارے مسافرخانے دیکھ ڈالے۔ ایک ایک قلی سے پوچھا۔ جب کہیں نظر نہ آیا تو وہاں سےسیدھا لاریوں کے اڈے پر پہنچا۔ ایک لاری میں دومسافر سو رہے تھے۔ باقی سب خالی پڑی تھیں۔ پھر ادھر سے باغ میں دیکھتا بھالتا پتھر والی سرائے میں آیا۔ مگر وہاں بھی اس مردود کا کھوج نہ ملا۔۔۔ بی بی تم فکر نہ کرو۔ تمہاری مشین کہیں نہیں جاسکتی۔ راستے میں مجھے جتنے سپاہی اور چوکیدار ملے، میں نے سب کو اس کا حلیہ بتادیا ہے۔ میرے مولیٰ نے چاہا تو آپ ہی آپ پکڑا ہواآئے گا نامراد۔‘‘ فرخندہ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ ادھر اب مولانا نے بھی اس کی ضرورت نہ سمجھی۔ اور وہ اپنی کوٹھری میں آکر پھر پہلے کی طرح دراز ہوگئے۔
اس شام جب فرخندہ کے دوستوں نے اس چوری کا حال سنا تو سب کو انتہائی افسوس ہوا۔ خاص طور پر محسن عدیل کو سخت رنج اور غصہ تھا۔ کیونکہ اس لڑکے کو لانے اور فرخندہ کے ہاں رکھوانے کی ذمہ داری اسی کی تھی۔ اس نے فرخندہ کو تسکین دیتےہوئےکہا، ’’بھابی، فکر نہ کرو۔ میں غفار کے باپ کو جانتا ہوں۔ اور مجھے اس گاؤں کا بھی پتہ ہے جہاں وہ رہتا ہے۔ اگر دوچار دن میں اس کاسراغ نہ ملاتو میں خود اس گاؤں میں جاؤں گا اور اس کا کھوج نکالوں گا۔‘‘
دن میں تھانے میں رپٹ لکھوادی گئی تھی۔ چنانچہ ضابطے کی کارروائی پوری کرنے کے لیے ایک بے وردی حوالدار ایک سپاہی کو ساتھ لے کر موقع واردات کا معائنہ کر گیا تھا۔ فی الحال اس کے سوا اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔ چنانچہ سب نے فرخ بھابی کو صبر کی تلقین کی اور یقین دلایا کہ ہم میں سے ہر ایک ہر روز شہر کے مختلف حصوں کا چکر لگائے گا۔ اور جہاں جہاں درزیوں کی دکانیں ہیں ان سب سے پوچھ گچھ کرے گا۔ فرخندہ کے دوستوں کی یہ متفقہ رائے تھی کہ غفار مشین لے کر شہر سے باہر نہیں جاسکتا۔ کیونکہ خفیہ پولیس والے اسٹیشن اور شہر کے ناکوں کی کڑی نگرانی کرتے ہیں۔ اور جہاں کسی مشتبہ آدمی کو کوئی قیمتی چیز لے جاتے دیکھتے ہیں، وہیں روک لیتے اور تحقیقات کرنا شروع کردیتے ہیں۔ گمان غالب یہی ہے کہ اس نے چوری سے پہلے ہی کسی درزی سے بات طے کر رکھی ہوگی۔
فرخندہ گم سم بیٹھی ان کی باتیں سنتی رہی۔ اس چوری سے اسے سخت دھکالگاتھا۔ مشین کیا گئی گویا روزی کا دھندا ہی جاتا رہا تھا۔ اب نکٹائیاں اور بٹوے سیے تو کس سے۔ علاوہ ازیں جو کچھ اسٹاک پہلے کا اس کے پاس تیار تھا اس کے نکاس کی بھی کوئی صورت نہیں رہی تھی۔ مستقبل کےخیال نےاسے دن بھر ایسا مغموم اور پریشان رکھا تھا کہ اس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ جب اس کے دوستوں کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ اسے سمجھانے لگے۔
’’واہ فرخ بھابی واہ۔‘‘ قاسم نےکہا، ’’تم نے تو حد کردی۔ میں تمہیں اتنے کمزور دل کی نہ سمجھتا تھا۔ ایسے واقعات تو پیش آتے ہی رہتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب تھوڑا ہی ہے کہ انسان اپنے کو بھوکوں مار ڈالے۔‘‘
’’فرخ بھابی۔‘‘ انشورنس ایجنٹ بھٹناگر نے کہا، ’’اول تو پوری امید ہے کہ تمہاری مشین تمہیں مل جائےگی لیکن فرض کرو اگر نہ ملی تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہفتہ بھر میں کسی اور مشین کا انتظام کردوں گا۔ بس اب مطلق غم نہ کرو۔ اٹھو کھانا کھاؤ۔ مولانا صاحب دسترخوان بچھائیے۔‘‘
’’دسترخوان بچھ کر کیا کرے گا۔ کچھ پکا بھی ہو۔‘‘ مولانا نے کہا۔
’’ارے بھئی گھر میں کچھ نہیں پکا تو بازار تو نہیں اجڑ گیا۔‘‘ بھٹناگر نے یہ کہتے کہتے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال ایک نئی چمکدار اٹھنی نکالی۔
’’بھئی کچھ ٹوٹے ہوئے پیسے میرے پاس بھی ہیں۔‘‘ قاسم نے کہااور اپنی قمیص کی جیب سے ریزگاری نکالی۔ اس میں ایک دو انی، دو اکنیاں، چار ادھنے اور تین پیسے تھے۔
’’ایک دونی میرے پاس بھی ہے۔‘‘ نوجوان انقلابی شاعر شکیبی نے اپنی شیروانی کی جیب ٹٹولتے ہوئے کہا، ’’اگر گر نہیں گئی تو۔۔۔ نہیں گری نہیں۔ یہ رہی۔‘‘
غرض بازار سے سالن روٹی اور کباب وغیرہ منگوائے گئے۔ اور روز کی طرح دسترخوان سجایاگیا۔ اور سب کھانے میں شریک ہوئے۔ مگر فرخ بھابی نے بڑے اصرار اور قسمیں دلانے کے بعد صرف چند لقمے کھائے اور اٹھ گئی۔ اس شام محفل اداس اور بے رونق رہی۔ اور سب لوگ جلد ہی اپنے اپنےگھر چلے گئے۔
اس واقعہ کو چار دن گزر گئے۔ اس دوران میں نہ تو غفار ہی کا کچھ پتہ چلا، اور نہ نکٹائیاں اور بٹوے وغیرہ بیچنے کے لیے کسی دوسرے آدمی کا انتظام ہی ہوسکا۔ علاوہ ازیں بھٹناگر نے دوسری مشین لانے کاجو وعدہ کرلیا تھا وہ بھی کسی وجہ سے پورا نہ ہوسکا۔ فرخندہ نے اپنی پہلے دن کی کمزوری کے بعد اپنا غم پھر کسی پر ظاہر نہ ہونے دیا۔ دوسرے روز سے اس کے ہاں پھر سے دونوں وقت چولہا جلنےلگا تھا۔ کچھ تو وہ پکا لیتی اور کچھ ا س کے دوست لے آتے۔ اور وہ پہلے کی طرح سب کے ساتھ مل کر کھالیتی۔ کبھی کبھی وہ ہنس بول بھی لیتی مگر دل ہی دل میں خوب سمجھتی تھی کہ اس حالت میں کے دن گزر ہوسکے گی۔
ساتویں روز سہ پہر کو جب گھر میں اس کے اور مولانا کےسوا اور کوئی نہ تھا تو اس نے مولانا سے بڑی لجاجت سے کہا، ’’مولانا صاحب، مجھے ابھی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ جب تک دوسرے لڑکے کا انتظام نہیں ہو جاتا، میری نکٹائیاں اور بٹوے آپ بازار لے جائیں تو کیسا رہے؟‘‘ مولانا نے ایسی نظروں سے فرخندہ کی طرف دیکھا گویا یہ بات ان کی سمجھ میں مطلق نہیں آئی۔
’’میرے اچھے مولانا صاحب آپ لے جائیں گے نا؟‘‘
’’بھئی بات یہ ہے۔ میں نے ایسا کام کبھی کیا نہیں۔‘‘
’’واہ۔ اس میں کون مشکل بات ہے۔ نکٹایئاں لے کر نکڑ پر کھڑے ہوجائیے۔ بولنے کی بھی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی دیکھنے کو ٹھہرجائے اور دام پوچھے تو بتادیجیے۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے مگر۔۔۔‘‘
’’مگر کیا؟‘‘
’’مجھے شرم آتی ہے۔‘‘
’’واہ۔ محنت میں بھلا کیا شرم۔ کیا محنت کوئی عیب کی بات ہے؟‘‘
’’نہیں یہ بات تو نہیں مگر۔۔۔‘‘
غرض بڑی ہچکچاہٹوں کے بعد مولانا بادل ناخواستہ نکٹائیاں اور بٹوے لے کر بازار گئے۔ فرخندہ دل ہی دل میں دعائیں مانگتی اور بے تابی سے ان کا انتظار کرتی رہی۔ آخر کوئی ساڑھے آٹھ بجے کے قریب وہ واپس آئے۔ ان کے چہرے سے ایسی پریشانی اور تکان ظاہر ہو رہی تھی کہ معلوم ہوتا تھا وہ کسی سخت آزمائش میں سے گزر کر آ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ صرف ایک بٹوا چونی میں بیچ سکے۔ فرخندہ نے جب ان سے نکٹائیاں واپس لے کر گنیں تو دو درجن میں سے پانچ غائب تھیں۔ وہ ہزار ہزار قسمیں کھانے لگے کہ انہیں ان کا کچھ علم نہیں۔ بار بار یہی کہتے تھے کہ اصل میں وہ تھیں ہی اتنی اور فرخندہ سے گننے میں غلطی ہوگئی تھی۔ بہرحال یہ ظاہر تھا کہ یا تو راستے میں ان سےکہیں گر پڑی تھیں اور یا دیکھنے دیکھنے میں یار لوگ اڑا لے گئے تھے۔
پورے دو ہفتے گزر گئے۔ محسن عدیل ابھی تک اس گاؤں میں نہیں جاسکا تھا جہاں غفار کا باپ رہتا تھا۔ اس نے فرخ بھابی سے وعدہ تو کر لیا تھامگر ہر روز کچھ ایسا کام نکل آتا کہ اس کا جانا معرض التوا میں پڑ جاتا۔ اس کے دوسرے دوستوں نے تھانے، اسٹیشن اور شہر کے گلی کوچوں کے بہیترے چکر کاٹ لیے تھے، مگر نہ تو انہیں غفار ہی کہیں نظر آیا تھا اور نہ مشین ہی کا کچھ سراغ مل سکاتھا۔
فرخندہ نے یہ زمانہ بڑے صبر اور حوصلےسے گزارا اور اپنی ظاہری حالت کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی جدوجہد کی۔ وہ اپنے دوستوں کو اپنی پریشانیوں میں شریک کرنا نہیں چاہتی تھی۔ چنانچہ نہ تو اس نے کسی دوست سے کوئی فرمائش کی اور نہ اشارے کنائے ہی سے کچھ امداد چاہی۔ اس کے دوست اپنی خوشی سے شام کو کھانے کے لیے کچھ لے آتےتو اپنے ہاں کی دال بھاجی کے ساتھ اسے بھی دسترخوان پر چن دیتی۔ اور پھر ہنسی خوشی سب کے ساتھ مل کر کھا لیتی۔ محفل برخاست ہونے پرجب اس کے دوست اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے تو وہ دیر تک بستر پر پڑی اپنی حالت پر غور کرتی رہتی۔ اس مصیبت میں اسے اپنے کسی دوست سے گلہ یا شکایت نہ تھی کیونکہ وہ خوب جانتی تھی کہ خود ان میں سے کسی کی حالت بھی اطمینان بخش نہ تھی۔ اگر دس روز کام کرتے تھے تو بیس روز بیکار پھرتے تھے۔ پھر جو مستقل طور پر کسی دھندے میں لگے تھے ان کی آمدنی اس درجہ قلیل تھی کہ وہ اس میں بمشکل اپنا اور متعلقین کا پیٹ ہی بھر سکتے تھے۔ کسی دوسرے کی امداد تو کیا کرسکتے۔ ان ہی غموں فکروں میں پڑی رات رات بھر جاگاکرتی۔ یہاں تک کہ مؤذن کی آواز سنائی دینے لگتی اور وہ جلدی سے اٹھ کر نماز کی تیاری میں لگ جاتی۔
اس نےاپنی کفایت شعاری اور سلیقہ مندی سے جو تھوڑی سی پونجی آڑے وقت کے لیے بچا رکھی تھی وہ تو بیکاری کے پہلے ہی ہفتے کی نذر ہوچکی تھی۔ اس کے بعد گھر کی چھوٹی چھوٹی چیزوں اور ان برتنوں کی باری آئی جو بہت ضروری نہیں تھے۔ وہ چپکے چپکے مولانا کی معرفت انہیں بیچتی رہی۔ مولانا کو سخت تاکید تھی کہ کسی سے کہنا نہیں۔ جب مہینہ ختم ہوا اور مکان دار کا آدمی کرایہ اور مشین والا قسط اگاہنے آیا تو مولانا کو ساتھ لے کر بازار گئی اور اپنا وہ ننھا منا طلائی بربط جسے وہ کبھی کبھی سیاہ ربن کے ساتھ گلے میں باندھا کرتی تھی، سنار کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ اور اس طرح کسی کو کانوں کان خبر ہوئے بغیر اس نے مکان کا کرایہ بھی ادا کردیا اور مشین کی قسط بھی دے دی۔
اسی زمانے کا ذکر ہے۔ ایک شام ابھی فرخ بھابی کی محفل میں چار پانچ ہی آدمی آئے تھےکہ مولانا ایک اجنبی کولیے ہوئے آگئے۔ وہ دوپہر کے بعد سے نہ جانے کہاں غائب رہے تھے۔ دالان سے گزرتے ہوئے انہوں نے بڑی گرم جوشی سے اپنے ساتھی سے کہا، ’’بلاتکلف اندر تشریف لے چلیے میر صاحب۔ اپنا ہی گھر ہے۔‘‘ ان کے لہجے سے بڑی چونچالی ٹپک رہی تھی۔ سب لوگ ایک دوسرے کامنہ تکنے لگے۔ کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ شخص کون ہے اور کیوں آیا ہے۔ فرخندہ نے جلدی سے سرپر دوپٹےکو درست کیا۔ وہ بار بار مولانا کی طرف مستفسرانہ نظروں سے دیکھتی تھی۔ مگر مولانا تھے کہ ملتفت ہی نہ ہوتے تھے۔
’’آئیے آئیے۔ غریب خانہ میں تشریف لے آئیے۔۔۔ ائے آمدنت باعث آبادیٔ ما۔۔۔ ٹھہریے میں ذرا فرش جھاڑدوں۔‘‘
کھونٹی پر ایک میلا سا تو لیا ٹنگا ہوا تھا۔ مولانا نے جلدی سے اتار فرش کے ایک کونے کو جھاڑا۔ چاندنی کی سلوٹیں نکالیں اور اجنبی کو اس جگہ بٹھادیا۔ سب لوگ اس دوران میں آپ ہی آپ ذرا ذرا پرے سرک گئے تھے۔ ہر شخص نقادانہ کنکھیوں سے نو وارد کو دیکھ رہا تھا۔ اور واقعی وہ شخص تھا بھی نقادوں ہی کے دیکھنے کی چیز۔ بلند و بالاقد۔ چوڑا سینہ۔ لمبے لمبے ہاتھ پاؤں۔ عمر تقریبا چالیس برس۔ گندمی رنگ۔ آنکھیں چھوٹی چھوٹی جن میں سرمے کے ڈورے۔ چھوٹی چھوٹی مونچھیں۔ ان کو بل دیا ہوا سر سے پیر تک دیہاتی امارت اور بانکپن کا نمونہ۔ کرتے میں سونے کے بٹن لگے ہوئے۔ اس پر سرخ بانات کی واسکٹ اور اس پر سیاہ شیروانی۔ شیروانی کے سینے سے اوپر کے بٹن کھلے ہوئےجس کی وجہ سےنیچے کی واسکٹ اور کرتا دکھائی دے رہا تھا۔ شیروانی کی جیب میں گھڑی جس کی طلائی زنجیر شیروانی کے کاج سے اٹکی ہوئی۔ زنجیر کے ساتھ ایک ننہاسا طلائی قطب نما آویزاں۔ ایک گھڑی کلائی پر بندھی ہوئی اس کے سنہرے رنگ کی حفاظت کے لیےاس پر سفید سلولائڈ کا خول چڑھا ہوا۔ شیروانی کے بٹن چاندی کے بڑے بڑے چوکور جن پر نیلا نیلا چاند تارا بنا ہوا۔ ایک ریشمی رومال شیروانی کی بائیں آستین کے اندر ٹھنسا ہوا، داہنے ہاتھ کی چھنگلیاں میں سونے کی انگوٹھی جس میں بڑا سا ہلکے آسمانی رنگ کا نگینہ جڑا ہوا، چوڑی دار پاجامہ۔ پاؤں میں سرخ ریشمی جرابیں۔ سرپر رامپوری وضع کی اودے رنگ کی مخملی ٹوپی۔
دوتین لمحے خاموشی رہی۔ جس کے دوران میں مولانا کے سوا ہر شخص بے چینی محسوس کرتا رہا۔
’’آپ ہیں۔‘‘ بالآخر مولانا نےزبان کھولی، ’’میرے خاص کرم فرما اور ہم وطن میر نوازش علی۔ ہمارے قصبے کے سب سے بڑے تعلقہ دار قبلہ میر حشمت علی کے بڑے صاحب زادے۔ مجھے بچپن سے آپ کی دوستی کا فخر حاصل ہے۔۔۔ اور میر صاحب یہی ہیں ہماری فرخ بھابی۔ اور یہ ہیں ان کے وہ دوست جن کا حال میں رستے میں آپ سے عرض کرچکاہوں۔‘‘ تعارف کا یہ طریقہ فرخندہ کے دوستوں کو کچھ بے تکا معلوم ہوا۔ چنانچہ بعض نے منھ پھیر کر تو بعض نے ناک سکوڑ کر اظہار ناپسندیدگی کیا۔
’’ہمارے میر صاحب کو شعر و شاعری سے خاص لگاؤ ہے۔‘‘ مولانا نےسلسلہ کلام جاری رکھا۔ ’’ماشا اللہ بچپن ہی سے ذہین تو ایسےتھے کہ سات برس کی عمر میں کلام مجید ختم کیا۔ دس برس کی عمر میں گلستاں اور بوستاں پڑھ لی۔ گیارہ برس کی عمر میں دیوان حافظ ختم کرلیا۔‘‘
’’بارہ برس کی عمر میں بھئی۔‘‘ میر صاحب نے دبی آواز میں قطع کلام کرتے ہوئے کہا۔
’’چلیے بارہ برس ہی میں سہی۔‘‘ مولانا نےخندہ پیشانی سے اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن بارہ برس کا سن بھی کوئی سن ہے۔ آج کل کے نئی روشنی کے زمانے کے کسی پڑھے لکھے سے کہیے تو حافظ کا ایک مصرع بھی صحیح پڑھ دے۔ بس بغلیں جھانکنے لگے گا وہیں۔ البتہ انگریزی انہوں نے نہیں پڑھی۔ وہ یوں کہ خاندانی وضع داری کے خلاف تھا اور پھر ضرورت بھی کیا تھی۔ خدانخواستہ کسی انگریز کی نوکری تھوڑا ہی کرنی تھی۔ اللہ رکھے اپنی لاکھوں کی جاگیر ہے۔ ہم جیسے بیسیوں جوتیاں چٹخاتے ان کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں۔۔۔‘‘
’’اربھئی چھوڑو بھی ان باتوں کو۔‘‘ میر صاحب بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے بولے۔ دراصل وہ حاضرین کے چہروں سے بھانپ گئے تھے کہ وہ اس ذکر سے اکتا گئے ہیں۔ انہوں نے شیروانی کی جیب سے پانوں کی مرادآبادی منقش ڈبیا نکالی۔ اور اسے کھولتے ہوئے محسن عدیل کی طرف بڑھادیا، جو ان کے قریب ہی بیٹھا تھا، ’’شوق فرمائیے۔‘‘
’’تسلیم۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اس نعمت سے محروم ہوں۔‘‘
’’آپ لیجیے۔‘‘ میر صاحب نےڈبیا دیپ کمار کو پیش کی۔
’’معاف کیجیے گا۔ پان تو میں بھی نہیں کھایا کرتا۔‘‘
’’ارے کھا بھی لو میرےیار۔‘‘ مولانا بولے۔ ’’ایسا ہی ہے تو تھوک دینا۔‘‘ مگر دیپ کمار نے ڈبیا کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا۔ دو آدمیوں کےانکار کردینے پر میر صاحب کو پھر کسی کو پان پیش کرنےکی جرأت نہ ہوئی۔
’’لائیے، مجھے دیجیے۔‘‘ فرخندہ کو میر صاحب پر رحم آگیا۔ اور وہ بولی، ’’اگرچہ یہ نہایت نازیبا بات ہوگی کیونکہ پان پیش کرنے کا فرض تو میرا تھا۔‘‘ اور ایک خاص ادا کے ساتھ مسکراتے ہوئے اس نے میر صاحب سے ڈبیا لے لی۔ میر صاحب نے خوش خوش شیروانی کی دوسری جیب سے چھالیا کا بٹوا، جو کمخواب کا بنا ہوا تھا، نکالا اور بڑے تکلف سے پیش کیا۔
’’میر صاحب یہ بٹوا تو بہت نفیس ہے۔‘‘ فرخندہ نے بٹوے کو ایک ماہر کی طرح پرکھتے ہوئے کہا۔
’’آپ کی نذر ہے۔ گر قبول افتدز ہے عزوشرف۔‘‘
’’تسلیم۔‘‘ فرخ بھابی نےمسکراکر کہا۔ مولانا کی باچھیں کھل گئیں۔
’’فرخ بھابی خود بہت اچھے بٹوے بنانا جانتی ہیں۔‘‘ وہ میر صاحب سے بولے۔ ’’کپڑا آپ لادیجیے، سلوا ہم دیں گے۔‘‘
بھٹناگر دیر سے ضبط کیے بیٹھا تھا۔ مگر اب اس سے نہ رہا گیا۔ اس نے اچانک بڑے زور سے جمائی لی، اور میر صاحب کو اس انداز سےمخاطب کرتے ہوئے گویا برسوں سےشناسائی ہے، کہنے لگا: ’’کہیےمیر صاب۔ دلی کیسے آناہوا؟ تفریح یا کوئی اور مقصد تھا؟‘‘
قبل اس کے کہ میر صاحب جواب دیتے۔ مولانا فوراً بول اٹھے، ’’اجی تفریح کی ان کو اپنے وطن میں کیا کمی ہے۔ یہاں تو ایک مقدمے کے سلسلے میں آئے ہیں۔‘‘
’’آپ کو یہ مل کیسے گئے؟‘‘ بھٹناگر نےپوچھا۔
’’یہ بھی حسن اتفاق تھا۔‘‘ مولانا بولے۔ ’’میں گھنٹہ گھر سے گزر رہا تھا کہ میری نظر ایک بزاز کی دکان پر پڑی۔ دیکھا کہ زربفت کے تھانوں کے ڈھیر سامنے لگے ہیں۔ اور حضرت ہیں کہ سب کو ناپسند کرتے چلے جاتے ہیں۔ مجھے دیکھا تو پہچانا تھوڑا ہی۔۔۔‘‘
’’بھئی مولانا صاحب۔‘‘ میر صاحب قطع کلام کرکے بولے، ’’میں پھرکہتا ہوں معاف کرنا۔ میں پہلے واقعی آپ کو نہیں پہچان سکا تھا۔‘‘
’’خیر وہ پہلے نہ سہی۔ بعد میں سہی پہچان تو لیا نا۔ بس پھر میں اصرار کرکے انہیں ساتھ ہی لیتا آیا۔‘‘
چند لمحے خاموشی رہی۔ جس میں اس بے کیف بات چیت کے بجائے سب کوایک طرح کا سکون نصیب ہوا۔ محسن عدیل کے بشرے سےظاہر ہورہا تھا کہ اسے ان میر صاحب کا آنا اور سب کے درمیان یوں بے تکلف بیٹھنا اور فرخ بھابی سے باتیں کرنا سخت ناگوار گزر رہاہے۔ اس کے ساتھ ہی اسے مولانا پر بھی بے حدغصہ آرہاتھا، جس نے بغیر بتائے بغیر صاحب خانہ سے اجازت لیے ایک اجنبی کو ان سب کے سرپر مسلط کیا تھا۔
’’کیوں تعلقہ دارصاحب۔‘‘ عدیل نے استہزاآمیز سنجیدگی سےمیر صاحب کو مخاطب کیا، ’’آپ کے ہاں تو سب خیریت ہے نا؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میر صاحب نے متعجب ہوکر پوچھا۔
’’مطلب یہ کہ گڑبڑ تو نہیں کچھ؟‘‘
’’معاف کیجیےگا۔ میں اب بھی آپ کا مطلب سمجھنے سے قاصر رہا۔‘‘
’’اجی وہ نئی تحریک چلی ہے نا آج کل کسانوں میں۔‘‘
’’کیسی تحریک؟ واللہ مجھے تو اس کا مطلق علم نہیں۔‘‘
’’اجی یہی کسان کہتےہیں نا۔ زمین میں ہل ہم جوتتے ہیں۔ کھیتی کسانی ہم کرتے ہیں۔ جاڑے گرمی کی سب تکلیفیں ہم سہتے ہیں۔ مگر جب فصل پک کر تیار ہوتی ہے تو زمیندار سارے اناج کادعوے دار بن جاتا ہے۔ اور ہمارے لیے اتنا بھی نہیں چھوڑتا کہ ہمارے بیوی بچے دو وقت اپنا پیٹ بھر سکیں۔ وہ کہتے ہیں، یہ سچ ہے کہ زمیندار زمین کا مالک ہے۔ وہ اتنی سی بات کا ہم سےبدرجہا زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنی محنت کا پورا پورا حصہ ملناچاہیے۔ یہ تحریک رفتہ رفتہ مختلف صوبوں میں پھیلتی جارہی ہے۔ اور وہ دن دور نہیں کہ سارے ملک کے کسان ایک جھنڈے تلے جمع ہوجائیں اور تمام تعلقہ داروں اور زمینداروں کے خلاف بغاوت کردیں۔‘‘
’’الحمدللہ۔‘‘ میر صاحب نےکہا، ’’میرا علاقہ اس قسم کی لغویات سے پاک ہے۔ اور بفضلہ میرےہاں کےکسان سب کے سب خوش اورمیرے وفادار ہیں۔‘‘
’’آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ وہ خوش ہیں۔‘‘
’’بس ہیں خوش۔‘‘
’’آخر اس کاکوئی ثبوت بھی؟‘‘
’’ثبوت؟ یہی کیا کم ثبوت ہےکہ ان میں سےکسی نے آج تک مجھ سے کوئی شکایت نہیں کی۔‘‘
’’ممکن ہے وہ آپ کے پاس آتے ہوئے ڈرتے ہوں۔ یا ممکن ہے کہ وہ آپ کے سنگ دلانہ نظام سے اس قدر مایوس ہوچکے ہوں کہ وہ اس سے کسی انصاف یا رحم و کرم کی توقع ہی نہ رکھتے ہوں۔‘‘
’’اجی چھوڑیے بھی۔‘‘ مولانا جنہیں اب صبر کی تاب نہ رہی تھی، اچانک بیچ میں بول اٹھے۔ ’’کیا قصہ لے بیٹھے ہم تو میر صاحب کو لائے تھے کہ کچھ شعر و شاعری کی باتیں ہوں گی۔ کچھ گل و بلبل کے قصے دہرائے جائیں گے۔ کچھ میر صاحب کادل بہلے گا، کچھ میر صاحب آپ کا دل بہلائیں گے۔ گھڑی دوگھڑی کے لیے پرلطف صحبت رہے گی مگر یہاں خشک سیاسیات کی بحث چھڑ گئی۔ لاحول ولاقوۃ۔ ہاں شکیبی صاحب کوئی ہلکا پھلکا گیت نہ ہوجائے۔‘‘
’’مجھے تو اس وقت معاف ہی رکھیے۔‘‘ شکیبی نےجواب دیا، ’’صبح سےمیرے سر میں درد ہے۔‘‘
مولانا نے دیکھا کہ یہ تیر کارگرنہیں ہوا تو وہ فرخندہ کی طرف متوجہ ہوئے، ’’فرخ بھابی۔ آج کچھ کھلاؤگی نہیں۔ بھوکا ہی ماروگی؟‘‘
اس غیرمتوقع فرمائش پر فرخ بھابی اچانک جھینپ کر رہ گئی۔ مولانا نے آج شام جو رویہ اختیار کیا تھا اس نے سب کو محو حیرت کردیا تھا۔ اگر ان کا دماغ چل نہیں گیا تھا تو وہ آج ضرور کوئی نشہ کرکے آئے تھے۔ جس نے ایک ہی دم ان کی سوئی سوئی نامعلوم قوتوں کو بیدار کر دیا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ فرخندہ کے ہاں ان کی حیثیت اگر نوکر کی نہیں تو ایک ایسے غریب اور لاچار رشتہ دارکی ضرور تھی جو اپنے نسبتاً خوش حال عزیزوں کے ٹکڑوں پر پڑا ہو۔ اور نوکر سے زیادہ کام کرتا اور اس سے بدتر حال میں رہتا ہو۔ یا تو وہ عام تضحیک کا شکار ہو کر ہر وقت دبے دبے اور چپ چپ رہنا اور کسی نےکوئی کام کرنےکو کہا تو جل کڑھ کر کرنا، اور یا آج یہ حالت تھی کہ وہ خود صاحب خانہ بنے ہر ایک پر حکم چلا رہے تھے۔ پھر دنیا بھر کی زندہ دلی ان میں بھر گئی تھی۔
فرخندہ جو طبعاً حلیم تھی، ان کی اس کایا پلٹ پر دل ہی دل میں محظوظ ہو رہی تھی۔ مگر جب انہوں نے کھانے کی فرمائش کی تو وہ بلبلا ہی تو اٹھی۔ کم بخت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان دنوں کس قدر تنگی ترشی میں گزر رہی ہے۔ اس کے باوجود یہ ایک غیرآدمی کے سامنے رسوا کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ادھر فرخندہ کے دوست بار بار تیز تیز نظروں سے مولانا کو گھور رہے تھے۔ ان نظروں سے جو مستقبل قریب میں نہایت ناخوشگوار نتائج کی طرف کھلے بندوں اشارے کر رہی تھیں، مگر مولانا کو آج کسی کا ڈر نہ تھا۔
’’ار بھئی فرخ بھابی۔‘‘ وہ اپنی چونچالی کو بدستور قائم رکھے ہوئے کہہ رہے تھے۔ ’’تم سونچ میں پڑگئیں۔ جو کچھ دال دلیا موجود ہے۔ لے آئیے۔ میر صاحب سے کیا پردہ یہ تو اپنے ہی آدمی ہیں۔۔۔ ہاں بھٹناگر صاحب کچھ ریزگاری ہو تو نکالیے کباب وباب کے لیے۔‘‘ بھٹناگر کے چہرے کا رنگ اچانک متغیر ہوگیا۔ اس کا ہاتھ کوٹ کی اندرونی جیب تک گیا اور وہیں رہ گیا۔ اس پرمیر صاحب نے کھنکھارا، اور حاضرین پر ایک نظر ڈالتے ہوئے بڑی ملائمت سےکہا، ’’حضرات میری گستاخی معاف فرمائیے گا۔ مجھے اس محفل کی بے تکلفی کا پوراپورا حال مولاناصاحب سے معلوم ہوچکا ہے۔ اور اسی لیے مجھے جرأت ہوئی ہے کہ دسترخوان میں کچھ میرا بھی حصہ ہو۔ یہ حقیر رقم اس خاکسار کی طرف سے قبول کیجیے۔‘‘
قبل اس کے کہ فرخ بھابی یا محفل کاکوئی رکن احتجاج کرنے پاتا، انہوں نےجھٹ بٹوے میں سے دس روپے کا ایک نوٹ نکال فرش پرڈال دیا۔ لمحہ بھر کے لیے ایسا معلوم ہوا جیسےذلت، غصے، نفرت اور بیزاری کے ملے جلے جذبات کا وہ طوفان جو آدھ گھنٹے سے دلوں میں بڑھتا ہی جاتا تھا، یک لخت اپنے بند توڑ کر پھوٹ پڑے گا۔ مگر میرصاحب کے چہرے سے ایسا خلوص اور نیک نیتی برس رہی تھی کہ کسی کے منہ سے ایک لفظ نہ نکلا اور وہ سب دم بخود رہ گئے۔ لمحہ بھر تک خاموشی رہی۔ اس کے بعد میرصاحب نےمولانا سے کہا،
’’حضرت جائیے۔ آپ ہی ہمت کیجیے۔‘‘
’’بسروچشم۔‘‘ یہ کہہ کر مولانا نے فرش سے نوٹ اٹھا لیا۔ اور کسی سے کچھ کہے سنے بغیر وہ سیڑھیوں سے اتر گئے۔
وہ وقت جو ان کے جانے کے بعد محفل میں گزرا، انتہادرجہ کاتکلیف دہ تھا۔ ہر چند بظاہر خاموشی رہی مگر اندر ہی اندر ہر شخص بے کلی محسوس کر رہا تھا۔ فرخندہ میر صاحب سے معذرت کرکے عشاء کی نماز کے لیے اپنی کوٹھری میں اٹھ آئی۔ محسن عدیل جو گاؤ تکیے کے سہارے بیٹھا تھا، اس نے پہلو بدل کر اپنا سرگاؤ تکیےپرڈال دیا تھا اور آنکھیں بند کرلی تھیں۔ دیپ کمار انگریزی اخبار کا ضمیمہ پڑھنے لگا تھا۔ حالانکہ لالٹین کی روشنی اس کے لیے ناکافی تھی اور اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا تھا، جسے وہ بار بار انگلیوں سے پونچھ لیتا تھا۔ بھٹناگر نے کوٹ کی جیب سے تاش نکال کر فرش پر بازی لگانی شروع کردی تھی۔ ادھر میر صاحب نےبھی کسی کو قابل اعتنا نہ سمجھا تھا۔ وہ اس عرصے میں بڑی دل جمعی کے ساتھ پانوں کی ڈبیا سے پان نکال نکال کر کھاتے رہے۔ جب فرخندہ نماز سے فارغ ہوکر آئی تو انہوں نے ایک پان اسے بھی پیش کیا، جسے اس نےتسلیم کرکے لے لیا۔
کوئی پون گھنٹے کے بعد مولانا کی آواز سیڑھیوں میں سنائی دی۔ وہ کسی کو سنبھل سنبھل کر آنے کی تاکید کر رہے تھے۔ یہ ہوٹل کا ایک بیراتھا۔ جوایک بڑا سا خوان اپنے کندھے پر اٹھائے ان کے پیچھے پیچھے آرہا تھا۔
’’ادھر لے آؤ بھئی اس کمرے میں۔ شاباش۔‘‘ مولانا پر اعتماد لہجہ میں بیرے سے کہہ رہے تھے، ’’تمہیں خوش کردیں گے۔‘‘
کمرے میں ابھی دسترخوان بچھایا ہی جارہا تھا کہ دالان میں سے ٹرام کے کنڈکٹر قاسم کی آواز سنائی دی، ’’آہاہا ہو ہو ہو! فرخ بھابی! آج کیا بات ہے، بڑی بڑی ضیافتیں اڑ رہی ہیں یہاں۔ واللہ پلاؤ کی خوشبو نے بے چین کردیا۔‘‘ مگر جیسے ہی اس نے کوٹھری کے اندر قدم رکھا، اور ایک اجنبی کی صورت دیکھی، اس کی ساری شوخی اور زندہ دلی کافور ہوگئی اور وہ کھسیانا ہوکر رہ گیا۔
’’آؤ بھئی قاسم۔‘‘ مولانا نے بڑے سرپرستانہ لہجہ میں قاسم سے کہا، ’’خوب وقت پر آئے۔ ان سے ملو۔ یہ میرے خاص کرم فرما میر نوازش علی ہیں۔‘‘ قاسم کو اس غصے اور ملال کا کچھ علم نہ تھا جو اس ناخواندہ مہمان کے خلاف اس کے دوستوں کے دلوں میں تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی جھینپ مٹانے کے لیے ضرورت سےزیادہ گرم جوشی کے ساتھ میر صاحب سے مصافحہ کیا۔
اب دسترخوان بچھ چکا تھا۔ محسن عدیل اور دیپ کمارتو کھانا کھاکر آنےکا عذر کرکے الگ ہوگئے۔ مگر مولانا، فرخ بھابی، میر صاحب اور قاسم کی متفقہ کوششیں بھٹناگر اور شکیبی کو دسترخوان پربٹھانے میں کامیاب ہوگئیں۔ اس عرصے میں میرصاحب ان لوگوں سے کسی قدر اور بے تکلف ہوگئےتھے۔ کھانا کھانے کے دوران میں انہوں نےسعدی کے دو ایک شعر بھی پڑھے۔ جوتھےتو فرسودہ مگر چونکہ طعام ہی کے متعلق تھے، اس لیے پسند کرلیے گئے۔ کھانے کے بعد مولانا نے پھر شکیبی سے شعر کی فرمائش شروع کردی۔ اب کے میر صاحب نے بھی اصرار کیا۔ اور فرخ بھابی نےبھی ان کاساتھ دیاکہ ہاں ہاں بھئی ہوجائے وہی نظم۔ چنانچہ شکیبی کو ’’سرخ برکھا‘‘ ایک مرتبہ پھر سناتے ہی بنی۔
رات کے کوئی دس بجےکاعمل ہوگا کہ یہ محفل برخاست ہوئی۔ میر صاحب نےرخصت ہوتے وقت بڑی گرم جوشی سے فرخ بھابی اور اس کے دوستوں کاشکریہ ادا کیا۔ پھر وہ ان سےاجازت لے کر مولانا کو بھی اپنے ساتھ ہی لیتے گئے۔ اگلے روز صبح کو کوئی نو ساڑھے نو بجے مولانا واپس آئے۔ مگر اس شان سے کہ آگے آگے یہ دونوں بغلوں میں دومرغ دبائے تھے۔ اور ان کے پیچھے پیچھے ایک جھلی والا تھا جس کاٹوکرا قسم قسم کی اجناس، ترکاریاں اور پھل پھلاری سےلبالب بھرا ہواتھا۔
’’حضت خیر باشد۔‘‘ فرخندہ نےمولانا اور جھلی والے کو تعجب سے دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’یہ سب کہاں سے اٹھا لائے؟‘‘
’’ذرا دم تو لینے دو فرخ بھابی۔ ابھی بتاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر مولانا مسکرائے۔ پھر دم لیے بغیر خود ہی کہنا شروع کیا، ’’میرصاحب نے تم کو سلام کہا ہے۔ وہ تمہارے حسن سلوک اور تمہاری طبیعت داری کی بے حد تعریف کرتے تھے۔ پھر کہنےلگے۔ رات ہوٹل کا کھانا سخت بدمزہ تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ آج محفل کے جملہ اراکین کی دعوت کروں۔ مگر چونکہ پردیس کامعاملہ ہے اور میں ہوٹل میں مقیم ہوں۔ جہاں دعوت کاخاطر خواہ انتظام نہیں ہوسکتا۔ اس لیے آپ کو یہ زحمت دی گئی ہے۔ میں اس کے لیے سخت شرمندہ اور معافی کا خواستگار ہوں۔‘‘
شام سے پہلے ہی سب کھانے پک کر تیار ہوگئے۔ ادھر میر صاحب بھی وقت سے کچھ پہلے ہی آگئے۔ اس وقت گھر میں فرخندہ اور مولانا کے سوا، جو چولہے کے پاس بیٹھے تھے اور کوئی نہ تھا۔ میر صاحب کل کی نسبت آج کافی سادہ لباس پہن کر آئے تھے۔
’’معاف کیجیےگا۔‘‘ وہ کہنے لگے، ’’میں ابھی سے حاضر ہوگیا ہوں تاکہ انتظام میں میں بھی آپ لوگوں کا ہاتھ بٹاؤں۔‘‘ یہ کہتے ہی انہوں نے بڑی بے تکلفی سے اپنی شیروانی اور ٹوپی اتارکر کھونٹی پر ٹانگ دی، اور صرف کرتا پاجامہ پہنےہوئے اپنے کو بڑی معصومیت کے ساتھ فرخ بھابی کے سامنے پیش کردیا۔ فرخندہ نے میر صاحب پر سر سے پیر تک ایک نظر ڈالی۔ اس لباس میں وہ بڑے وجیہہ اور گھریلو معلوم ہو رہے تھے۔ پھر اس نےلمحہ بھر کے لیے تامل کیا۔ گویا دل ہی دل میں سوچ رہی ہے ان سے کیا خدمت لوں۔ دھیرے دھیرے ایک دلآویز مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پرپھیلتی گئی۔
’’آپ کی ہمدردی کا شکریہ۔‘‘ آخر وہ بولی، ’’اب آپ کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں نے دن میں ایک کھانا پکانےوالی منگوالی تھی۔ قریب قریب سب کھانے پک چکے ہیں۔ آپ چل کر آرام سےاندر بیٹھیے۔‘‘
اس شام جب فرخندہ کے دوستوں کو اس دعوت کا حال معلوم ہوا تو انہیں بہت تعجب ہوا۔ بعض نےتو اس بات کو سخت ناپسند کیا۔ مگر زیادہ تر نے اسے خوش طبعی میں اڑانا چاہا کہ اچھا کاٹھ کا الو پھنسا ہے۔ بہرحال اس دعوت میں دیپ کمار کے سواجو ایک ضروری کام کا بہانہ کرکے محفل ہی سے اٹھ گیا تھا، اور سب لوگ شریک ہوئے۔ کھانا بے حد لذیذ تھا۔ فرخ بھابی نے بڑی محنت اور جاں فشانی سے پکایا تھا۔ چنانچہ ہرشخص نے پیٹ بھر بھر کر کھایا۔ میر صاحب بار بار کھانے کی تعریفیں کرتے تھے۔ اب وہ سب لوگوں سے کافی گھل مل گئے تھےاور ہر ایک سے ہنس ہنس کر باتیں کرتے تھے۔ اہل محفل کو بھی اب ان سے وہ کل والا عناد نہیں رہا تھا، یا کم سے کم وہ اس کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔ محسن عدیل نے البتہ دو ایک دفعہ اشاروں کنایوں میں ان پر چوٹ کی۔ مگر وہ ایسی گہری تھی کہ ڈاکٹر ہمدانی اور ایک آدھ اور کے سوا اسےکوئی نہیں سمجھ سکا۔ ڈاکٹر ہمدانی سے اور میر صاحب سےآج پہلی مرتبہ شناسائی ہوئی تھی۔ اور میر صاحب ڈاکٹر ہمدانی کی بذلہ سنجی سے بہت محظوظ ہوئے تھے۔
اس رات یہ محفل کوئی گیارہ بجے تک جاری رہی۔
اس سے اگلے روز میر صاحب سہ پہر ہی کو فرخندہ کے ہاں آگئے۔ آج پہلے دن کی طرح وہ پھر بن ٹھن کر آئے تھے۔ آتے ہی انہوں نےبغیر کسی تمہید کے فرخندہ سے کہنا شروع کیا، ’’کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ۔ فرخندہ خانم۔ آپ بھی کہیں گی کہ یہ روز روز کی مصیبت اچھی گلے پڑی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مجھے ایک امر میں آپ کی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ دو ایک ماہ میں میری چھوٹی ہمشیرہ کا عقد ہونے والا ہے۔ میں اپنے مقدمے کے سلسلے میں یہاں آنے لگا تو قبلہ والد محترم نے فرمایا، جا تو رہے ہی ہو۔ بچی کے جہیز کے لیے پار چات بھی خریدتے لانا۔ سنا ہے دلی میں پارچات کی بڑی بڑی دکانیں ہیں۔ میں نے حکم عدولی کرنا مناسب نہ سمجھا۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ میں اس معاملے میں جاہل محض ہوں۔ آپ کا مجھ پر بڑااحسان ہوگا کہ آپ میرے ساتھ چل کر مجھے کپڑا دلوادیں۔ مولانا کہتے ہیں کہ آپ ماشاء اللہ اس کام میں بہت ہوشیار ہیں اور پھر عورتوں کی پسند کچھ عورتیں ہی بہتر سمجھتی ہیں۔‘‘
میر صاحب نے یہ درخواست کچھ ایسی سادگی کے ساتھ کی تھی کہ نیک دل اور خدمت گزار فرخ بھابی کو انکار کرتے نہ بنی۔ چنانچہ تھوڑے سے تامل کے بعد وہ مولانا کو ہمراہ لے کرمیر صاحب کے ساتھ ہولی۔ تھوڑی دور پر بازار میں میر صاحب کی ٹیکسی کھڑی تھی۔ تینوں اس میں سوار ہوچاندنی چوک روانہ ہوگئے۔
شام کا اندھیرا خاصا پھیل چکا تھاجب یہ لوگ گھر لوٹے۔ واپسی پر میر صاحب ان کے ہم راہ نہیں تھے۔ وہ اپنے ہوٹل پر اتر گئے تھے اور ٹیکسی والے سے کہہ دیا تھا کہ ان کے گھر پہنچاآئے۔ اس رات جب محفل جمی تو محسن عدیل نےآتے ہی فرخ بھابی اور مولانا سے پوچھنا شروع کیا، ’’یہ آپ لوگ آج شام کو کہاں غائب ہوگئے تھے؟ میں دو دفعہ آیا۔ مگر گھر میں تالا پڑا دیکھ کر چلا گیا۔‘‘
اس پر فرخندہ نے میر صاحب کا حال سنایا کہ کس غرض سے وہ آئے۔ اور پھر کس طرح ان کے ساتھ جاکر اس نے ڈیڑھ ہزار روپے کا کپڑا ان کی ہمشیرہ کے جہیز کے لیے خریدا۔ آخر میں اس نے بتایا کہ جب سب کپڑا وغیرہ خرید چکے تو میر صاحب نے زبردستی ایک بنارسی ساری سو روپے کی اسے بھی خرید دی۔ وہ بہتیرا نہیں نہیں کرتی رہی مگر میر صاحب نے ایک نہ سنی۔ مولانا کو بھی ایک گرم اونی سویٹر لے دیا۔ پھر فرخندہ اپنی کوٹھری میں گئی اور وہ ساری لاکر سب کو دکھائی۔ محسن عدیل کچھ دیر خاموشی سے ساری کو دیکھتا رہا، پھر اس نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا،
’’فرخ بھابی۔ اس میں شک نہیں کہ یہ ساری بہت خوب صورت ہے مگر میں تمہیں مشورہ دوں گا کہ جس قدر بھی جلدی ہوسکے اسے لوٹا دو۔‘‘ یہ سن کر فرخندہ کے چہرے کا رنگ ایک دم متغیر ہوگیا۔ اس نے گردن جھکا لی مگر زبان سے کچھ نہ کہا۔
’’تم خود ہی سوچو۔‘‘ محسن عدیل نے پھر کہنا شروع کیا۔ ’’ایک شخص جس سے ہماری جان نہ پہچان۔ ان دو دنوں سے پہلے ہم نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔۔۔‘‘
’’لیکن میں تو جانتا ہوں۔‘‘ مولانا بیچ میں بول اٹھے۔
’’تم چپ رہو جی۔۔۔ ایک شخص جو پہلی ہی ملاقات میں دوسروں پر اس طرح بے دریغ روپیہ خرچ کرنے لگتا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس کے دل میں کیا ہے۔۔۔‘‘
’’لاحول ولاقوۃ‘‘ مولانا سےپھر چپ نہ رہا گیا۔ ’’عدیل میاں آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں۔ خدانخواستہ انہوں نے فرخ بھابی کو یہ ساری کسی بری نیت سے تھوڑا ہی لے کے دی ہے۔ وہ تو ہمیشہ سے ایسے ہی فیاض واقع ہوئے ہیں۔‘‘
’’ہمیں ان کی فیاضی کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ بھٹناگر نے تاؤ کھاکر کہا، ’’آخر کیا مطلب ہے اس کا؟‘‘
محسن عدیل پھر فرخندہ کی طرف متوجہ ہوا، ’’فرخ بھابی۔ میں نے جو کچھ کہا آپ نےسن لیا۔ اب کے وہ آئیں تو یہ ساری انہیں لوٹا دینا۔ کہنا اس میں برا ماننے کی بات نہیں ہے۔ آخر کیا حق ہے ان کو اس قسم کا تحفہ دینے کا۔ اور اگر ہوسکے تو کسی طرح یہ بھی جتادینا کہ ہم سب لوگ ان کے یہاں آنے کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ اگر تم نہ کہو گی تو پھر مجبوراً یہ ناگوار فرض ہمیں ادا کرنا ہوگا اور کون کہہ سکتا ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوں۔۔۔ سمجھ گئیں؟‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘ فرخندہ نے ہلکے سے کہااور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اپنی کوٹھری میں چلی گئی۔ اور اس رات پھر محفل میں نہ آئی۔
اگلے روز محسن عدیل، بھٹناگر اور دیپ کمار سہ پہر ہی سے فرخندہ کے ہاں آدھمکے۔ وہ بڑی دیر تک بھرے بیٹھے میر صاحب کا انتظار کرتے رہے مگر میر صاحب نہ آئے۔ دوسرے روز بھی یہ لوگ سویرے ہی سے آگئے۔ مگر میر صاحب اس دن بھی نہ آئے ۔ معلوم ہوتا تھا کہ یا تو مقدمے کے سلسلے میں انہیں فرصت ہی نہیں ملی کہ ادھر کارخ کرتے اور یا پھر وہ شہر ہی سےچلے گئے ہیں۔ اسی طرح ایک ہفتہ گزر گیا۔ مگر انہوں نےفرخندہ کے ہاں اپنی شکل نہ دکھائی۔
اس قضیے کو بغیر کسی بدمزگی کے یوں آپ ہی آپ ختم ہوتادیکھ کر فرخندہ کے دوستوں نے اطمینان کاسانس لیا۔ اور ان میں پھر وہ پہلی سی خود اعتمادی پیدا ہوگئی۔ یہ سچ ہے کہ شروع کے دوتین دنوں میں فرخ بھابی ان سےاور یہ فرخ بھابی سے کچھ کھنچے کھنچے سے رہے۔ اور فرخ بھابی زیادہ تر اپنی کوٹھری ہی میں رہی۔ مگر پھر آپ ہی آپ ملاپ ہوگیا، اور ان کی محفل میں پھر پہلی سی چہل پہل نظر آنے لگی۔
مگر ان کے دل کا یہ سکون فقط چند روز ہ تھا، کیونکہ اس کے بعد جوں جوں دن گزرنے لگے، فرخ بھابی کے مزاج اور کردار میں تبدیلی پیدا ہوتی گئی۔ انہوں نے دیکھا کہ یا تو وہ سنگھار اور زیب و زینت سے کوسوں کوسوں بھاگتی تھی یا اب وہ اس کا خاص اہتمام کرنے لگی تھی۔ شام کو محفل میں بیٹھتی تو اس کے لباس اور چہرے سے قسم قسم کے عطروں، لونڈروں اور غازوں کی خوشبوئیں پھوٹا کرتیں۔ گھر کا کام کاج اب وہ خود نہیں کرتی تھی بلکہ ایک مہری کو نوکر رکھ لیا تھا۔ جو دونوں وقت آکر کھانا پکا جاتی اور جھاڑو بہارو دے جایا کرتی تھی۔ علاوہ ازیں اس کی حرکات اور نگاہوں سےایک سستی اور آلکس سی بھی ظاہر ہونے لگی تھی۔ اس زمانے میں کسی نےاسے سیتے پروتے نہیں دیکھا تھا۔ البتہ ایک چیز ایسی تھی جس کی باقاعدگی میں اس نے ذرہ بھر فرق نہ آنے دیا تھا اور وہ تھی نماز۔ وہ اب بھی اس فریضہ کو پابندیٔ وقت کے ساتھ ادا کرتی۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کا مذہبی جوش کچھ پہلے سے بھی بڑھ گیا تھا۔
ایک اور تبدیلی جسے فرخ بھابی کے دوستوں نے محسوس کیا، یہ تھی کہ کیا تو پہلے وہ شاذ ہی کبھی گھر سے باہر نکلتی تھی۔ اور کیا اب وہ ہفتے میں دو دو تین تین دن چپکے سے دوپہر کو گھنٹے دو گھنٹے کے لیے غائب ہوجایا کرتی۔ یہ لوگ مولانا سے پوچھتے تو وہ بڑے اکھڑپن سے جواب دیتے، ’’میں کیا جانوں! مجھ سے کہہ کے تھوڑا ہی جاتی ہیں۔‘‘
فرخ بھابی سے پوچھا جاتا کہ کہاں تھیں تو لمحہ بھر کو اس کے رخساروں پر ہلکی سی سرخی دوڑ جاتی مگر وہ جلد ہی سنبھل کر جواب دیتی، ’’کہیں بھی نہیں۔ یہیں قریب ہی میری ایک سہیلی بن گئی ہیں۔ مجھ سے سلائی کا کام سیکھتی ہیں۔ بچاری بڑی اخلاص والی بیوی ہیں۔ میری چوری کا حال سنا تو کہنے لگیں، میرے ہاں ایک مشین فالتو پڑی ہے۔ تم چاہو تو لے جاسکتی ہو۔ مگر مجھے شرم آگئی۔۔۔‘‘ اور یہ لوگ سن کر خاموش ہوجاتے۔
ان ہی دنوں کا ذکر ہے ایک دوپہر کووہ ایسی گھر سے غائب ہوئی کہ رات کےآٹھ بج گئےمگر اس نے صورت نہ دکھائی۔ آج تک کسی شام وہ محفل سے غیرحاضر نہ رہی تھی۔ اس پر جاڑے کا موسم۔ رات کے ساتھ ساتھ سردی بھی بڑھتی جارہی تھی، اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے دوستوں کی تشویش بھی۔ جب نو بج گئے اور وہ نہ آئی تو ان لوگوں کو سخت پریشانی ہوئی۔ مولانا سے دوبارہ پوچھا گیا۔ ان کے پاس ایک ہی جواب تھا، ’’میں کیا جانوں!‘‘ بھٹناگر، قاسم اور دیپ کمار نے ارادہ کیا کہ بازار میں جاکر اسے تلاش کریں مگر ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ جائیں تو کہاں جائیں۔ اور پوچھیں تو کس سے پوچھیں۔ آخر جب د س بج چکے تو سیڑھیوں پر اس کے قدموں کی آہٹ سنائی دی، اور وہ تیزی سے دالان سے گزرتی ہوئی اپنی کوٹھری میں پہنچ گئی۔
محسن عدیل، بھٹناگر اور دوسرے سب لوگ اس کی اس حرکت پر تلملا ہی تو گئے۔ یہاں اس کی راہ دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور اس کے عوض میں یہ بے اعتنائی کہ ان کو یہ جاننے تک کا مستحق نہ سمجھا گیا کہ آخر وہ اتنا عرصہ کہاں رہی۔ خیر تو تھی۔ اس پر کیا بیتی!
’’میں جاکے پوچھتا ہوں۔‘‘ اچانک قاسم بولا۔
’’نہیں۔ مت جاؤ۔‘‘ محسن عدیل نےاسے روکتے ہوئے کہا۔ ’’انہیں غرض ہوگی تو خود آئیں گی۔‘‘
مگر اس رات فرخ بھابی کو غرض نہ ہوئی۔ اور وہ نہ آئی۔ البتہ اس نےآواز دےکر مولانا کو بلایا، ’’مولانا صاحب۔ وہ ذرا پانی کا گھڑا تو اٹھاکے اندر رکھ دیجیے۔‘‘
اس سےاگلے روز فرخ بھابی گھر سے کہیں باہر نہ گئی۔ بلکہ کسی قسم کا سنگھار بھی نہ کیا۔ شام کو جب اس کے دوست آئے تو وہ ہر ایک سے ہنس ہنس کر ملی۔ مگر پچھلی رات کے واقعہ کے متعلق ایک لفظ تک نہ کہا۔ ادھر لوگوں نے بھی مصلحتاً اس کاذکر نہ کیا۔ مگر دل میں سب کے غبار بھرا تھا۔ اس دن اس نے اپنے دوستوں کے لیے دو تین قسم کے کھانے خود پکائے تھے۔ چنانچہ سب کو مجبور کرکے ان کی بھوک سے زیادہ انہیں کھلایا۔ اس رات وہ ذرا دیر کو بھی ان کے پاس سے نہ اٹھی۔ اور جب اس کے دوستوں میں سے کوئی رخصت ہونے لگتا تو ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیتی۔ غرض اس طرح یہ محفل بڑی رات گئے تک جمی رہی۔
اس کے بعد جو چار دن گزرے۔ ان میں بھی اس نے گھر سےباہر قدم نہ رکھا۔ بلکہ بہت سادہ لباس پہنےوہ اپنے دوستوں ہی کی تواضع اور دل جوئی میں لگی رہی۔ اس پر اس کے دوستوں کے دلوں میں جو ملال تھا وہ بڑی حد تک دور ہوگیا۔ انہوں نے خیال کیا گو یہ زبان سے نہ کہے مگر اس میں شک نہیں کہ دل ہی دل میں یہ اپنی حرکتوں پر سخت نادم ہے، اور یہ ساری نوازشیں اس ندامت کو مٹانےہی کےلیے تو ہیں۔ اور یہ کہ صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہنا چاہیے۔۔۔ غرض اس کے دوستوں کے دل اس کی طرف سے صاف ہوگئے۔ اور انہیں پھر سے یقین ہو چلا کہ وہ اپنی پچھلی حرکتوں سے تائب ہوکر پھر ان کی وفا شعار اور اطاعت گزار فرخ بھابی بن گئی ہے۔
مگر پانچویں روز سہ پہر کو وہ پہلے سے بھی زیادہ بناؤ سنگھار کرکےکسی کو بتائے بغیر غائب ہوگئی۔ جب وہ نو بجے تک نہ آئی تو محسن عدیل نےایک لمبی انگڑائی لیتے ہوئے بھٹناگر سے کہا، ’’بھئی بھٹناگر۔ اب تو یہ حالت برداشت سے باہر ہوئی جا رہی ہے۔‘‘
’’اس میں کلام ہی کیا ہے۔‘‘ بھٹناگر نےجواب دیا۔
’’مجھے کئی دنوں سےایک خیال آرہاہے۔‘‘ قاسم نے کہا۔
’’وہ کیا؟‘‘محسن عدیل نے پوچھا۔
’’وہ یہ کہ جس سے کوئی ملنا چاہے۔ کہیں مل سکتا ہے۔ گھر نہ سہی باہر سہی۔‘‘
’’تمہارا اشارہ میر صاحب کی طرف ہے؟‘‘ بھٹناگر نے پوچھا۔
’’میر صاحب ہو یا کوئی اور ہو۔‘‘ قاسم نےکہا۔
لمحہ بھر تک خاموشی رہی۔ اس کے بعد عدیل نے جیسے ایک گہری سوچ میں سےابھرتے ہوئے قاسم سےکہا، ’’شاید تمہارا خیال صحیح ہے۔‘‘
’’پھر آخر اس کا کیا علاج کیا جائے؟‘‘ بھٹناگر نے پوچھا۔
’’علاج اس کاصرف ایک ہی ہے۔‘‘ عدیل نے کہا۔ ’’وہ یہ کہ ہم اس سےقطع تعلق کرلیں۔ اور یہاں کا آناجانا بالکل چھوڑ دیں۔‘‘
مگرفرخ بھابی اور اس کی محفل کے بغیر ان لوگوں کو اپنی زندگیاں اس قدر سونی سونی دکھائی دیں کہ ہر شخص ایک گہری سوچ میں ڈوب گیا اور گفتگو آگے نہ بڑھ سکی۔
جب شہر کے گھڑیال نے دس بجائے تو باہر بڑے زور کا جھکڑ چل رہاتھا۔ یکایک محسن عدیل چونک اٹھا۔
’’مولانا۔ مولانا۔‘‘ اس نے مولانا کو ہلایا۔ جو پاس ہی فرش پر کملی تانے پڑے تھے۔
’’کیا ہے بھئی؟‘‘ مولانا نے منہ سے کملی ہٹاتے ہوئے پوچھا۔
’’مولانا صاحب۔ آپ کو زخمت تو ہوگی۔ مگر ایک بہت ضروری کام ہے۔‘‘
’’سونے نہیں دو گے یار۔ کیا کام ہے؟‘‘ وہ بڑبڑائے۔
’’میں پوچھتا ہوں۔ گھر میں کچھ لکڑیاں ہیں؟‘‘
’’ہاں ہوں گی دوچار۔‘‘
’’تو ذرا مہربانی کرکے چولہے میں آگ تو جلا دیجیے۔‘‘
’’ار بھئی اس وقت آگ کا کیا کام؟‘‘
’’آپ جلائیے تو۔ کام بھی بتادوں گا۔ اٹھیے اٹھیے ہمت کیجیے۔‘‘
فرخ بھابی کی عدم موجودگی میں مولانا محسن عدیل سے دب جایا کرتے تھے۔ وہ نہ جانے منہ ہی منہ میں کیا کہتے ہوئے اٹھے۔ لالٹین کے پاس طاق میں دیا سلائی کی ڈبیا رکھی تھی۔ اسے اٹھایا اور کوٹھری سے باہر نکل آئے۔ تھوڑی ہی دیر میں تڑتڑکی آواز آنے لگی۔ ساتھ ہی مولانا نے للکار کر کہا، ’’لو جل گئی آگ۔ اب کیا ہوگا؟‘‘
’’اب ایک دیگچے میں پانی بھر کر اس پر رکھ دیجیے۔‘‘
مولانا کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوچکا تھا۔ انہوں نےجھنجھلاکر کہا، ’’آخر بتاؤ تو پانی کیا ہوگا؟‘‘
اس کا جواب سننے کے لیے مولانا ہی نہیں بلکہ محسن عدیل کے سارے ساتھی بھی ان ہی جیسا اشتیاق رکھتے تھے۔ چنانچہ بھٹناگر جو اکیلا ہی فرش پر بازی لگا رہا تھا اس کے ہاتھ میں تاش کا پتا پکڑا کا پکڑا رہ گیا۔ دیپ کمار سراغ رسانی کا ایک انگریزی ناول پڑھ رہا تھا۔ اس کی نظریں پڑھتے پڑھتے آخری لفظ پر جم کر رہ گئیں۔ اور اس کے کان محسن عدیل کی آواز پر لگ گئے۔ قاسم اور شکیبی پاس ہی پاس بیٹھے نہ جانے کن تصورات میں غرق تھے۔ دونوں نے چونک کر پرمعنی نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اور پھر نظریں عدیل کے چہرے پر گاڑ دیں۔
’’بھئی تم نہیں سمجھتے۔‘‘ آخر محسن عدیل نے کہا۔ اس کی آواز دھیمی ہوتے ہوتے ایک سرگوشی سی بن گئی تھی۔ ’’بات یہ ہے ۔ اس دن وہ آئی تھیں نا رات کو۔ اور پھر غسل کیا تھا نا ٹھنڈے پانی سے۔ آج سردی بہت زیادہ ہے۔ میں نے سوچا۔ بے کار بیٹھے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو لگے ہاتھوں پانی ہی گرم کردیں۔‘‘
یہ کہتے کہتے اس نے پہلو بدلا۔ اپنا سر گاؤ تکیے پر ڈال دیا اور آنکھیں بند کرلیں۔
مأخذ : کلیات غلام عباس
مصنف:غلام عباس