کہانی کی کہانی:‘‘عورت کی ازلی بے بسی، مجبوری اور استحصال کی کہانی۔ مائی جمی نے بردہ فروشی کا نیا طریقہ ایجاد کیا ہے۔ وہ کسی ایسے بڈھے کو تلاش کرتی جو نوجوان لڑکی کا خواہش مند یا ضرورت مند ہوتا اور پھر ریشماں کو بطور بیوی بھیج دیتی۔ ریشما چند دن میں گھر کے زیور اور روپے پیسے چرا کر بھاگ آتی اور نئے گاہک کی تلاش شروع ہو جاتی۔ لیکن چودھری گلاب کے یہاں ریشماں کا دل لگ جاتا ہے اور وہ وہاں سےجانا نہیں چاہتی ہے۔ مائی جمی انتقاماً پرانے گاہک یا شوہر کرم دین کو اطلاع کر دیتی ہے اور وہ آکر گلاب چند کو ساری صورت حال بتاتا ہے۔گلاب چند آگ ببولا ہوتا ہے۔ حق ملکیت کے لئے دونوں میں دیر تک مقابلہ ہوتا ہے۔ آخر دونوں ہانپ کر اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں کہ آپس میں لڑنے کے بجائے لڑائی کی جڑ ریشماں کا ہی کام تمام کر دیا جائے۔ عین اسی وقت ٹیلے کے پیچھے سے مائی جمی نمودار ہوتی ہے اور دونوں کو اس بات پر راضی کر لیتی ہے کہ دونوں کا لوٹا ہوا پیسہ واپس کر دیا جائے تو وہ ریشماں کو چھوڑ دیں گے۔ دونوں راضی ہو جاتے ہیں اور پھر وہ دونوں جو چند لمحے پہلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، بےتکلفی سے موسم اور منہگائی پر تبصرہ کرنے لگتے ہیں۔’’
پنجاب کے اضلاع میں ایسے کئی چھوٹے چھوٹے قصبے ہیں جن کی آبادی تو چند سو نفوس سے زیادہ نہیں مگر جن کو ریلوے اسٹیشن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان اسٹیشنوں پر عموماً ایک ویرانی کی سی کیفیت رہتی ہے۔ کیونکہ میل اور ایکسپرس کی قسم کی گاڑیاں تو یہاں ٹھہرنا کسر شان سمجھ کر آندھی کے تیز جھکڑ کی طرح گزر جاتی ہیں۔ البتہ سست رفتار گاڑیاں چار چار پانچ پانچ گھنٹے کے بعد ان اسٹیشنوں پر آکے رکتی اور گھڑی دو گھڑی کے لیے ان کی رونق بڑھا جاتی ہیں، مگر ان کے جاتے ہی یہاں پرالو بولنے لگتا ہے۔
جمال پورہ پنجاب کا ایک ایسا ہی ریلوے اسٹیشن ہے۔ اسوج کا مہینہ۔ سہ پہر کا وقت۔ چار پانچ بجے ہیں۔ ٹھیک سینتالیس منٹ کے بعد ایک ڈاؤن پسنجر ٹرین آنے والی ہے۔ اسٹیشن پر چہل پہل شروع ہو گئی ہے۔ اسٹیشن کا بابو جودیر سے نہ جانے کہاں غائب تھا، اب بار بار اپنے کمرے سے نکلتا اور اندر جاتا ہوا دکھائی دینے لگا ہے۔ آس پاس کے گاؤں کے مسافر جو گاڑی سے گھنٹوں پہلے آکے اسٹیشن کی ڈیوڑھی میں یا ٹکٹ گھر کی کھڑکی کے آس پاس لمبی تانے پڑے تھے، انگڑائیاں لیتے ہوئے اٹھ بیٹھے ہیں اور اسٹیشن کے نل کے اردگرد بڑی فراغت کے ساتھ جو شاید صرف دیہاتیوں ہی کو نصیب ہوتی ہے، ہاتھ منہ دھونے میں مصروف ہیں۔ ایک خوانچے والا بھی پلیٹ فارم پر ہانک لگاتا ہوا پھرنے لگا ہے۔ ایک سوکھا ہوا کھجلی کا مارا کتا اس کی جھلنی کی زد سے دور دور رہ کے اس کا تعاقب کر رہا ہے۔ جس جگہ وہ خوانچہ لگاتا ہے کتا بھی وہیں اس سے گز سوا گز پرے ہٹ کے بیٹھ جاتا ہے۔
اسٹیشن ماسٹر کے کمرے کے باہر پلیٹ فارم کی واحد بنچ پر دوعورتوں نے قبضہ جما رکھا ہے۔ ان میں سے ایک ادھیڑ عمر ہے اور ایک جوان۔ ادھیڑ ایک گٹھری سر کے نیچے رکھے لیٹی ہوئی ہے اور جوان اس کے پائنتی بیٹھی ہے۔ ادھیڑ عمر اپنی سیدھی سادی وضع اور کپڑوں سے صاف دیہاتن معلوم ہوتی ہے۔ مگر جوان کا لباس نچلے طبقے کی شہری لڑکیوں کا سا ہے جو کسی میلے یا شادی بیاہ میں آئی ہوں۔ ہاتھ پاؤں میں مہدی رچی ہوئی۔ بڑے بڑے پھولوں والی اودے رنگ کی چھینٹ کی شلوار اور قمیص۔ سر پر ململ کا دوپٹہ سرخ رنگا ہوا جس کے کناروں پر جھوٹا سنہری گوٹا ٹکا ہوا۔ ناک میں سونے کی کیل۔ کان میں چاندی کی بالیاں۔ ہونٹوں پر دنداسے سے سیاہی مائل گہرا سرخ رنگ چڑھا ہوا۔ تیکھے نقش۔ نظر میں حد درجے کی شوخی اور بے باکی۔ جوانی اس کے انگ انگ سے امڈی پڑتی ہے۔ وہ بازو پھیلائے دونوں ہتھیلیوں کو گدی کے نیچے رکھے بنچ سے ٹیک لگائے بیٹھی ہے اور ہر آتے جاتے کو غور سے دیکھ رہی ہے۔ لیکن چونکہ پلیٹ فارم پر سواریاں کم ہیں، اس لیے اسٹیشن کے کوے اور کتے ہی ہر پھر کر اس کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔
اسٹیشن کا بابو سر پر تیل چپڑے پٹیاں جمائے منہ میں سگرٹ دبائے اپنے کمرے سے باہر نکلا اور جوان لڑکی پر ایک چھچھلتی ہوئی نظر ڈال کے پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگا۔ لڑکی اسے دیکھتے ہی بنچ سےاٹھ کھڑی ہوئی اور گنوار پنے سے مسکراتی ہوئی اس کے پاس پہنچی۔
’’بابو صاحب۔ ایک سگرٹ اور پلا دو۔‘‘ بابو نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا کہ کوئی سن تو نہیں رہا۔
’’بھاگ جاؤ۔ سگرٹ نہیں ہے۔‘‘
’’پلا بھی دو بابو صاحب۔ ابھی ابھی سو کے اٹھی ہوں۔ اللہ کی سوں بڑی طلب لگی ہے۔‘‘ مگر بابو نے کچھ جواب نہ دیا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا پلیٹ فارم پر دور نکل گیا۔ لڑکی کھسیانی سی ہوکر کچھ دور اس کے پیچھے پیچھے چلی۔ راستے میں اسے ایک کتا لیٹا ہوا نظر آیا اور اس نے شرارت سے اس کی دم پر پاؤں رکھ دیا۔ کتا ہڑبڑا کر بھونک پڑا اور لڑکی خوانچے والے پر گرتے گرتے بچی۔ پل بھر کے بعد وہ خوانچے والے سے کہہ رہی تھی، ’’خوانچے والے کیا ہے تیرے پاس؟‘‘
’’پکوڑے۔ گڑ کی ریوڑیاں۔‘‘
’’ہشت!‘‘
’’جھاڑی بوٹی کے بیر۔‘‘
’’ہشت!‘‘
’’مونگ پھلی۔ میٹھے چنے۔‘‘
’’لا ایک آنے کی مونگ پھلی دے۔‘‘
مونگ پھلی اپنے دوپٹے کے پلو میں ڈلوا کے وہ واپس چل دی۔
’’بی بی پیسے تو دیتی جاؤ۔‘‘
’’کیسے پیسے؟‘‘
’’مونگ پھلی جو دی ہے اکنی کی۔‘‘
’’اکنی تو میرے پاس نہیں ہے۔‘‘
’’تو لاؤ روپے کا ناواں دے دو۔‘‘
’’روپیہ بھی نہیں ہے۔‘‘
’’تو پھر مونگ پھلی ہی پھیر دو۔‘‘
’’واہ۔ وہ تو میں نہیں پھیرنے کی۔‘‘
خوانچے والے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اور قریب تھا کہ وہ چلا اٹھتا۔ مگر عین اس وقت اس لڑکی کے ساتھ والی ادھیڑ عورت آپہنچی۔ وہ ایک ہی نظر میں معاملے کو تاڑ گئی۔
’’گھبراؤ نہیں بھیا۔ کتنے پیسے ہیں تمہارے؟‘‘
’’چار۔‘‘
’’یہ لو۔‘‘ اور وہ لڑکی کا بازو پکڑ کر اسے وہاں سے لے گئی۔
’’ریشماں!‘‘ اس نے پیار اور ملامت کے ملے جلے لہجے میں کہا، ’’میں نے بہت دفعہ تمہیں سمجھایا ہے کہ پیسہ پاس نہ ہو تو کوئی چیز نہ خریدا کرو۔‘‘
’’اونہہ!‘‘ ریشماں نے الھڑپن سے کہا، ’’دکاندار کو پیسے تو مل ہی جاتے ہیں مائی جمی!‘‘
کوئی گھنٹہ بھر کے بعد وہ دونوں عورتیں تیسرے درجے کے ایک زنانہ ڈبے میں سفر کر رہی تھیں۔ ڈبا سواریوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مگر انہوں نے جیسے تیسے ایک کونے میں جگہ حاصل کر ہی لی تھی۔ دونوں سر جوڑ کر چپکے چپکے باتیں کر رہی تھیں۔ مائی جمی کہہ رہی تھی، ’’اور پھر ریشماں! یہ چودھری ہے بڑا کھاتا پیتا۔ اس کے پاس پہلی بیوی کا بہت سارا زیور ہے، جو اس نے کہیں چھپا رکھا ہے۔ تمہیں الھڑپن کی باتیں چھوڑ کر اس کا دل مٹھی میں لینا ہوگا۔ خوب اس سے پیار محبت کی باتیں کرنا۔ حقہ خوب تازہ کر کے بھرا کرنا۔ رات کو ہاتھ پاؤں داب دیا کرنا۔ بس اس کو تم پر بھروسہ ہو جائےگا۔ اور وہ گھر کی کنجیاں تمہارے حوالے کر دےگا۔ اس طرح جب دو تین مہینے میں ساری چیزیں تمہارے قبضے میں آ جائیں گی تو میں تمہیں اس کے گھر سے نکال لے جاؤں گی۔‘‘
’’اس بڈھے کھوسٹ کرم دین کے بارے میں بھی تو تم یہی کہتی تھیں کہ ہے تو کنجوس مگر بڑا پیسے والا ہے۔ خاک بھی نہ نکلا کم بخت کے گھر سے۔‘‘
’’اس نے سب کو دھوکا دیا۔ بڑا فریبی دغاباز تھا۔ اچھا ہوا میں نے جلد ہی اس کے گھر سے تمہیں نکال لیا۔‘‘
’’کم بخت میری کیسی چوکسی کرتا تھا۔ محلے والوں سے الگ کہہ رکھا تھا ، اور ایک بڑھیا دیکھ بھال کے لیے الگ رکھ چھوڑی تھی۔ ایک دن مجھ پر شک ہوا۔ مجھے کوٹھری کے اندر لے گیا۔ چھوی دکھا کے کہنے لگا، ’’یاد رکھ! تونے کبھی بھاگنے کی کوشش کی تو اس چھوی سے دو ٹکڑے کر دوں گا۔ بس اسی دن سے مجھے اس سے نفرت ہو گئی۔‘‘
’’خیر اس سے تو خدا نے تمہارا پیچھا چھڑا دیا۔ مگر یہ چودھری ہے بڑا نمازی پرہیزگار۔ جب سے بیوی مری ہے، گھر بسانے کے سوا اور کوئی فکر ہی نہیں۔‘‘
’’زیادہ بڈھا تو نہیں؟‘‘
’’نہیں ایسا بڈھا نہیں۔‘‘
’’کیا عمر ہوگی بھلا؟‘‘
’’یہی کوئی پچاس پچپن برس۔‘‘
رات کے کوئی پونے بارہ بجے گاڑی اس قصبے کے اسٹیشن پر رکی جہاں ان عورتوں کو جانا تھا۔ گاڑی سے اترکر اسٹیشن کے مسافرخانے میں پہنچیں، اور رات وہیں گزاری۔ صبح کو ابھی اندھیرا ہی تھا کہ مائی جمی نے ریشماں سے اس کا سرخ دوپٹہ لے لیا، اور اسے اوڑھنے کے لیے ایک سفید چادر دے دی تاکہ وہ بھی دیہاتن معلوم ہو۔ نئے گاؤں کا معاملہ تھا۔ احتیاط شرط تھی۔ جتنے کم لوگوں کی نظر ان پر پڑے اتنا ہی اچھا۔ دونوں نے لمبے لمبے گھونگھٹ نکال لیے اور پیدل قصبے کی طرف چل دیں۔
ریشماں کو چودھری گلاب کے گھر میں رہتے ہوئے پندرہ بیس روز ہو چکے تھے، مگر وہ ابھی تک نہیں سمجھ سکی تھی کہ اس نئے گھر میں اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ پہلے دن جب وہ آئی تھی تو اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ نہ جانے اسے کن حالات سے واسطہ پڑےگا۔ چودھری کس قماش کا آدمی ہے۔ کرم دین کی طرح ظالم تو نہیں۔ اس سے زیادہ کام تو نہیں لےگا۔ اسے مارے پیٹےگا تو نہیں۔ اس کی رکھوالی کون لوگ کریں گے۔ تاہل کی قربتیں کن ناخوشگوار فرائض کی حامل ہوں گی اور کیا ایک مرتبہ پھر وہ زندگی کو مسلسل فریب بنائے رکھنے میں کامیاب ہو سکےگی؟ مگر چند ہی روز میں اس کے یہ سارے اندیشے غلط ثابت ہوئے، اور اس میں پھر اس کی فطری چونچالی اور الھڑپن پیدا ہو گیا۔
چودھری گلاب ایک سیدھا سادہ، کم گو اور بےآزار انسان تھا۔ اس میں شک نہیں کہ اس کی عمر ساٹھ برس سے کم نہ تھی، مگر وہ دیہاتی زمینداروں کی طرح لمبا چوڑا تھا، اور ابھی اس کے ہاتھ پاؤں خوب مضبوط تھے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی عمر کا وہ دور شروع ہو گیا تھا جب جوش سرد پڑ جاتا ہے اور احساس کو بیدار کرنے کے لیے کچوکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ عمل کی جگہ ذہنی آسودگی اور اطمینان قلب لے لیتے ہیں اور لذت کشی میں کوئی کمی رہ جاتی ہے تو اسے تخیل پورا کر دیتا ہے۔
پھر چونکہ وہ نمازی اور پرہیزگار تھا، اس لیے ہمیشہ صاف ستھرا رہتا تھا۔ ریشماں کو اس کے کپڑوں اور جسم کے کسی حصے سے بدبو نہیں آتی تھی۔ اس کی سفید لمبی داڑھی تھی، جس میں وہ ہر روز کنگھی کیا کرتا تھا۔ سر پر اکا دکا ہی بال رہ گئے تھے۔ آنکھوں میں صبح شام سرمہ لگاتا۔ اس کے طور طریقوں میں ایک عجیب طرح کا بھولا پن تھا، جس نے اسے ایک پیارا پیارا بڈھا بنا دیا تھا۔ پہلی بیوی سے اس کی دو بیٹیاں تھیں جو مدت ہوئی بیاہی جا چکی تھیں۔ اولاد نرینہ کوئی نہ تھی جس کی اسے آج بھی حسرت تھی۔ ریشماں اکثر اس سے الھڑ پن میں پوچھتی، ’’چودھری تم نماز کے بعد کیا دعا مانگا کرتے ہو؟‘‘ چودھری مسکرانے لگتا۔
’’اللہ سے بیٹا مانگتے ہو؟‘‘ چودھری ہنس پڑتا۔
’’یہ بھی تو دعا مانگا کرو کہ ریشماں کی بڑی سی عمر ہو۔‘‘ اس کے جواب میں چودھری گلاب بڑے پیار سے اس کا گال تھپتھپا دیتا۔ ریشماں کو دو وقت کی ہنڈیا کے سوا گھر کا اور کوئی کام نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اپلے تھاپنا، جھاڑو بہارو، گائے بھینسوں کی سانی، دودھ دوہنا، یہ سب کام گاؤں کی ایک بڑھیا کیا کرتی تھی، جسے چودھری معاوضے میں اجناس اور سبزیاں دیا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ کئی کسان تھے جو چودھری کے کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ خود چودھری بھی زیادہ تر کھیتوں ہی پر رہا کرتا۔ اس نے پہلے ہی دن سے گھر کا سارا انتظام ریشماں کے سپرد کر دیا تھا۔ چنانچہ وہ ہنڈیا روٹی سے فارغ ہو کر دن بھر مزے سے پلنگ پر پڑی بڑھیا پر حکم چلایا کرتی۔ کرم دین کے گھر میں اور اس گھر میں کتنا فرق تھا۔ وہاں وہ سچ مچ زرخرید لونڈی تھی اور یہاں گھر کی مالکہ۔ وہاں وہ خود اپنی نظروں میں ذلیل تھی اور یہاں سب لوگ اس کا ادب کرتے تھے۔ یہاں تک کہ خود چودھری بھی اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔
ریشماں کی عمر پانچ برس کی تھی کہ کوئی شخص اسے شہر کے ایک محلے سے اٹھالے بھاگا تھا۔ اس نے مختلف دیہات میں پرورش پائی تھی۔ یہاں تک کہ اس کی عمر شادی کے لائق ہو گئی۔ ایک عورت نے اپنے کو اس کی چچی ظاہر کرکے ایک کھاتے پیتے گھر میں اچھی قیمت پر اسے بیچ ڈالا۔ پہلے پہل وہ جس شخص کے پلے پڑی، وہ تھا تو کم عمر مگر بالکل سودائی تھا، جس سے کوئی باپ اور بیٹی بیاہنے کو تیار نہ تھا۔ سودائی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ حد درجہ ظالم بھی تھا۔ جب وحشت اٹھتی تو بلا قصور ریشماں کو مارنے پیٹنے لگتا۔ ایک دفعہ اس زور سے ریشماں کا گلا گھونٹا کہ اس کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔ قریب تھا کہ ریشماں دم توڑ دے ، مگر عین اس وقت ایک نوکرانی نے دیکھ کر شور مچا دیا اور وہ ڈر کر بھاگ گیا۔
رفتہ رفتہ ریشماں نے اس وحشی سے بچاؤ کی ایک ترکیب سوچ لی۔ جس دن ریشماں کو اس کے تیور ذرا بھی بدلے ہوئے نظر آتے وہ خود بھی سودائی بن جاتی اور پھکنی، چمٹا، گڑوی جو بھی ہاتھ لگتا میاں کے دے مارتی۔ یہ حربہ کار گر ثابت ہوا، اور وہ فوراً ٹل جاتا۔ یوں ہی چار سال گزر گئے۔ لیکن اس قسم کی زندگی جس میں ہر وقت جان کا خوف لگا رہتا ہو، آخر کب تک گزاری جا سکتی تھی۔ چنانچہ وہ بھاگنے کی ترکیبیں سوچنے لگی۔ اس کی جان پہچان ایک بڑھیا سے ہو گئی جس کا تعلق بردہ فروشوں کے ایک گروہ سے تھا، یہ بڑھیا ریشماں کو تھوڑے ہی دنوں میں وہاں سے بھگا لے جانے میں کامیاب ہو گئی اور اس نے اسے مائی جمی کے ہاتھ بیچ ڈالا۔
سودائی کے ساتھ چار سال گزار کے وہ خود بھی نیم وحشی ہو چکی تھی۔ اس میں اچھے برے کی تمیز نہ رہی تھی۔ مگر مائی جمی نے تین چار مہینے اپنے ساتھ رکھا۔ اسے خوب کھلایا پلایا، اور آخر پیار محبت سے اسے رام کر لیا۔ اب اس نے اسے اپنے پیشے کی تعلیم دینی شروع کی۔ مائی جمی کا بردہ فروشی کا طریقہ سب سے جدا تھا، اور ایک فن کی سی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ ہمیشہ بڈھوں بڈھوں کو پھانسا کرتی، جو خاص کر جوان لڑکیوں کے آرزومند رہتے، اور جن سے ان کی اچھی قیمت مل جاتی۔ پھر جب لڑکیاں زیور اور روپیہ لے کر بھاگ جاتیں تو وہ بدنامی اور جگ ہنسائی کی وجہ سے اس کا زیادہ چرچا نہ کرتے اور بڑھاپے کی وجہ سے دوڑ دھوپ اور پیچھا کرنے کی بھی ان میں ہمت نہ ہوتی۔ اس طرح چند ہی ماہ میں یہ واقعہ رفت گزشت ہو جاتا اور پھر کہیں دور نئے شکار کی تلاش ازسرنو شروع ہو جاتی۔
ریشماں نے جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ جس قسم کی زندگی گزاری تھی، اس سے وہ زندگی کو ایک خوفناک کھیل سمجھنے لگی تھی، جس میں کھلاڑی ہر وقت جان کی بازی لگائے رکھتا ہے اور آخر ایک دن اسے جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ ریشما ں کی مہم پسند طبیعت کو یہ کھیل، جس میں ایک طرح سے مردوں سے انتقام لینے کا جذبہ بھی شامل تھا، بھاگیا تھا۔ مگر بدقسمتی سے اب تک اسے تکلیفیں ہی تکلیفیں اٹھانی پڑی تھیں اور وہ لذت نہ مل سکی تھی جو کسی خوفناک کھیل کی کامیابی پر کھلاڑی کو حاصل ہوتی ہے۔ چودھری گلاب کے گھر بس کر اسے پہلی مرتبہ زندگی کی قدر و قیمت معلوم ہوئی۔ اس گھر میں کیسی عافیت تھی اور باہر کیسے کیسے خطرے۔ جن لوگوں کو فریب دیا گیا، ان کے غضبناک چہروں کا ہر وقت آنکھوں کے سامنے پھرتے رہنا، اجنبی شکلوں پر خواہ مخواہ ان کا دھوکا ہونا، رہ رہ کے چونک پڑنا، سوتے سوتے چیخ اٹھنا۔
دن گزرتے گئے۔ یہاں تک کہ ریشماں کو چودھری گلاب کے گھر میں بسے تین مہینے ہو گئے۔ اس دوران میں وہ آرام اور عافیت کی اور بھی زیادہ عادی ہو گئی۔ ادھر چودھری روز بہ روز اس کا پہلے سے زیادہ گرویدہ ہوتا جا رہا تھا۔ اور آئے دن اس کے لیے چھوٹے چھوٹے زیور لانے لگا تھا۔ ایک دن وہ گھر میں اکیلی تھی کہ ایک بڑھیا بھیک مانگنے آئی۔ جب ریشماں آٹے کی مٹھی فقیرنی کی جھولی میں ڈال رہی تھی تو اس نے چپکے سے کہا، ’’مجھے پہچانا؟ مجھے مائی جمی نے بھیجا ہے۔ کہو کب چلنا ہے؟‘‘ اس نےبڑھیا کو پہچان لیا اور یک بارگی کانپ اٹھی۔ چہرے کا رنگ فق ہو گیا مگر پھر جلد ہی سنبھل گئی۔ بولی، ’’مائی جمی سے کہنا ابھی نہیں۔ ابھی مجھے زیوروں کا پتہ نہیں لگا، ایک مہینہ اور ٹھہر جائے۔‘‘ فقیرنی بڑبڑاتی ہوئی چلی گئی۔
ایک مہینہ اور گزر گیا۔ اب کے مائی جمی خود آئی اور صبح کو ایسے وقت آئی جب چودھری گھر میں موجود تھا۔ وہ اسے ریشماں کی خالہ سمجھتا تھا، جو غربت کی وجہ سے اپنی بہن کی نشانی کو بیچ دینے پر مجبور ہو گئی تھی۔ اس نےمائی جمی کو عزت سے گھر میں بٹھایا۔ اس کی مزاج پرسی کی۔ پھر دونوں کو تنہا چھوڑ کر کھیتوں پر چلا گیا۔
’’کہو زیوروں کا پتہ لگا؟‘‘ مائی جمی نے پوچھا۔
’’مجھے کچھ کہنے سننے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ وہ ایک ایک کر کے خود ہی مجھے زیور دے رہا ہے۔ لو دیکھو۔‘‘
’’اری ان دو انگوٹھیوں اور کان کے بندوں کو تو زیور کہہ رہی ہے۔ پگلی زیور تو ہوتا ہے۔ ست لڑا مالا۔ کڑے۔ جھومر۔ چمپا کلی۔ لیکن بس اب ہمیں کچھ نہیں چاہئے۔ میں تجھے لینے آئی ہوں۔ آج رات کو تیار رہیو۔ میں نے گھوڑی کا انتظام کر لیا ہے۔‘‘
’’نہیں مائی جمی ابھی نہیں۔‘‘ اس نے سہم کر لجاجت سے کہا، ’’مجھے اس گھر میں بہت آرام مل رہا ہے۔ میں ابھی نہیں جانا چاہتی۔‘‘
’’اچھا تو یہ بات ہے۔ مجھ سے کمونے بھی یہی کہا تھا کہ اس کے طور بدلے ہوئے ہیں۔ مگر میں نے یقین نہیں کیا۔‘‘ پھر وہ تحکمانہ لہجے میں کہنے لگی، ’’سن لڑکی۔ بےوقوفی کی بات نہ کر۔ تجھے میرے ساتھ جانا ہے، اور آج ہی رات کو۔ ایک بڑا امیر نمبردار تیرا گاہک پیدا ہوا ہے، جو تجھے سونے سے لاد دےگا اور میں اس سے بات پکی کر آئی ہوں۔‘‘
’’مائی جمی!‘‘ ریشماں نے اور بھی گڑگڑا کر کہا، ’’میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ مجھے اسی گھر میں رہنے دے۔ میں تجھے یہ سارا زیور دے دوں گی۔ اور چودھری اور جو کچھ دے گا وہ بھی تیرا ہی ہوگا۔ مجھے یہیں چھوڑ دے۔‘‘
مائی جمی کے ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’اری ابھی تونے دیکھا ہی کیا ہے۔ بڈھے پر کیا مرنا۔ زندگی کا مزہ لینا ہے تو کسی جوان پر مر۔ اس بڈھے میں رکھا ہی کیا ہے۔‘‘
’’نہیں نہیں مجھے کسی مرد کی ضرورت نہیں۔ مجھے یہ بڈھا بھی نہیں چاہیے۔ میں تو فقط آرام سے زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’دیکھ ریشماں!‘‘ مائی نے بڑے گمبھیر لہجے میں کہا، ’’جو تو چاہتی ہے وہ تو ہونے کا نہیں اور اگر تو سیدھی طرح نہیں مانے گی تو پھر میں دوسرا گر بھی جانتی ہوں۔ تجھے معلوم نہیں کہ کرم دین ابھی تک چھوی لیے تیری تلاش میں پھر رہا ہے۔ اسے یہ معلوم نہیں کہ میں نے تجھے بھگایا تھا۔ اب میں بھی اس کے پاس جا سکتی ہوں اور تیرا پتہ بتا سکتی ہوں۔‘‘ مائی جمی کی زبان سے یہ الفاظ مشکل سے نکلے ہوں گے کہ ایسا معلوم ہوا جیسے یک بارگی بھونچال آگیا ہو۔ ریشماں نے بھپری ہوئی شیرنی کی طرح مائی کو دبوچ لیا، اور ناخنوں سے اس کا چہرہ لہو لہان کر دیا۔ پھر پیٹ پر اس زور کی دو تین لاتیں ماریں کہ تھوڑی دیر کے لیے بڑھیا کا سانس بند ہو گیا۔
’’حرام زادی۔ کٹنی، بدمعاش، ڈائن۔ نکل جا میرے گھر سے۔ نہیں تو خون پی لوں گی تیرا۔‘‘ یہ کہتے کہتے اس نے مارے طیش کے مائی جمی کے منہ پر تھوک دیا۔ ریشماں کے چہرے سے اس وقت ایسا وحشی پن ٹپک رہا تھا کہ معلوم ہوتا تھا جو کچھ کہہ رہی ہے وہ سچ مچ کر گزرےگی۔ اس کے پہلے ہی حملے نے مائی جمی کی ایسی سٹی گم کر دی تھی کہ وہ اپنی مدافعت بھی نہ کر سکی تھی۔ وہ اٹھ کھڑی ہو گئی۔ کپڑے جھاڑے۔ چادر سے چہرہ پونچھا، جو اس وقت نفرت سے سخت گھناؤنا ہو رہا تھا۔ وہ بغیر ایک لفظ منہ سے نکالے چلی گئی۔ اس کے جاتے ہی ریشماں نے خود کو پلنگ پر پٹخ دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ دوپہر کو جب چودھری گلاب کھانا کھانے آیا تو وہ پہلی کی طرح ہشاش بشاش پلنگ سے اٹھی، اور کھانا نکالنے کے لیے چولھے کی طرف گئی۔
’’تمہاری خالہ چلی گئیں؟‘‘ چودھری نے پوچھا۔
’’ہاں!‘‘
’’کھانا تو کھلا دیا ہوتا۔‘‘
’’ان کے پیٹ میں اچانک سخت درد اٹھا اور وہ اپنے گاؤں کے حکیم کے پاس دوا لینے چلی گئیں۔‘‘
اس واقعے کو ایک ہفتہ گزر گیا، مگر اس عرصے میں ریشماں کے دل کا چین مفقود ہو چکا تھا۔ ہر آہٹ پر اسے کسی کے قدموں کا گمان ہونے لگا تھا۔ وہ بار بار دروازے کی طرف جاتی اور واپس آ جاتی۔ دو چار ہی دن میں اس کی آنکھوں کے گرد گڑھے پڑ گئے اور چہرے پر زردی چھا گئی۔ جیسے یک بارگی کسی مہلک مرض نے آ لیا ہو۔ وہ چودھری سے کچھ کہنا چاہتی تو منہ سے بات نہ نکلتی۔ چودھری اس سے کچھ کہتا تو وہ بے خیالی میں کچھ نہ سنتی۔ اور چودھری کو ایک ایک بات تین تین چار چار بار دہرانی پڑتی۔ چودھری نے اس تبدیلی کو محسوس کیا اور کہا، ’’تمہارا جی اچھا نہیں ہے۔ چلو میں تمہیں حکیم کے پاس لے چلوں۔‘‘
’’نہیں مجھے کچھ نہیں ہوا۔‘‘ اس نے کہا، ’’بچپن ہی سے میری حالت کبھی کبھی ایسی ہو جایا کرتی ہے۔ مگر چند ہی دنوں میں آپ ہی آپ ٹھیک ہو جاتی ہوں۔‘‘
دن پر دن گزرتے گئے مگر اس کی حالت میں فرق نہ آیا۔ اس دوران اس کا جی چاہا کہ وہ چودھری سے سارا حال کہہ دے۔ اور اپنے کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دے، مگر اس کا احساس خودی جسے خود چودھری کے حسن سلوک نے اس میں پیدا کر دیا تھا، اس کی اجازت نہ دیتا تھا۔ کیا وہ چودھری کے سامنے اعتراف کر لے کہ وہ پرلے درجے کی مکار اور جھوٹی ہے اور ان چار ماہ میں جو اس نے اس گھر میں گزارے ہیں، اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ فریب سے پر تھا اور پھر اس بات کی کیا ضمانت تھی کہ چودھری پر یہ حقیقت کھلنے پر کہ وہ ایک جرائم پیشہ گروہ سے تعلق رکھتی ہے، جو کئی گھروں کو لوٹ چکا ہے اور عنقریب اس کو بھی لوٹنے والا تھا، اسے بے عزت کرکے گھر سے نکال نہ دےگا۔ چنانچہ اس نے خاموش ہی رہنا مناسب سمجھا اور اپنے معاملے کو تقدیر پر چھوڑ دیا۔
اسے اس بات کا افسوس نہیں تھا کہ اس نے مائی جمی کے ساتھ ایسا درشت سلوک کیا۔ اگر وہ زمانہ سازی سے کام لیتی تو شاید مائی جمی کو دو تین مہینے تک اور ٹال سکتی تھی، مگر امید و بیم میں رہ کر جینا اس کی آزاد سرشت کے لیے موت سے بدتر تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ جو بات بھی ہونی ہو دو ٹوک ہو جائے۔ اور وہ خوش تھی کہ اس نے مائی جمی سے اپنا بدلہ لے لیا تھا۔ وہ صبر کے ساتھ اس آنے والی گھڑی کا انتظار کرنے لگی۔ اسے زیادہ زحمت نہ اٹھانی پڑی اور وہ گھڑی آ ہی پہنچی۔
شام کا وقت تھا۔ گھروں میں دیے جل چکے تھے۔ وہ چولھے کے پاس بیٹھی چودھری کو کھانا کھلارہی تھی کہ ایک کسان کھانستا ہوا گھر کے آنگن میں داخل ہوا۔
’’چودھری صاحب!‘‘ اس نے کہا ، ’’کوئی شخص آپ سے ملنے آیا ہے۔‘‘
’’کون ہے؟‘‘
’’کوئی بوڑھا زمیندار ہے۔ سفید داڑھی والا۔ نام نہیں بتلا یا۔ کہتا ہے بہت ضروری کام ہے۔ بڑی دور سے آیا ہوں۔‘‘
’’اچھا اسے باہر چارپائی پر بٹھاؤ اور حقہ بھر کے پلاؤ۔ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘
ریشماں کا سر چکرا گیا اور اس نے سہارا لینے کے لیے اپنا ایک ہاتھ زمین پر ٹیک دیا۔ مگر یہ کیفیت لمحہ بھر سے زیادہ نہ رہی۔ وہ سنبھل گئی اور خاموشی سے چودھری کو کھانا کھاتے دیکھنے لگی۔ رفتہ رفتہ اس کے ارادے میں مضبوطی پیدا ہوتی جا رہی تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ ہر خطرے کا مقابلہ کر سکےگی۔ کھانا کھا کے چودھری نے کلی کی۔ داڑھی مونچھ پر ہاتھ پھیرا۔ پھر تہمد کے پلے سے منہ پونچھتا ہوا باہر نکل گیا۔ ایک منٹ، دو منٹ، پانچ منٹ، پندرہ منٹ گزر گئے مگر چودھری نہ آیا۔ ریشماں نے سوچا کہ ابھی وہ ادھر ادھر کی باتیں کر رہے ہوں گے اور اصل واقعہ ابھی نہیں چھڑا ہوگا، کیونکہ وہ برابر حقے کی گڑگڑاہٹ سن رہی تھی۔ آخر کوئی آدھ گھنٹے کے بعد چودھری واپس آیا۔ اس کی حالت انتہائی اضطراب کی تھی۔ اس کی آنکھیں بھنچی ہوئی تھیں۔ ہاتھ کانپ رہے تھے اور داڑھی کف آلود تھی۔
’’کیوں ری!‘‘ اس نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا ، ’’تو کرم دین کو جانتی ہے؟‘‘
ایک ایسی آواز میں جو سرگوشی سے ذرا ہی اونچی تھی، ریشماں نے کہا، ’’ہاں!‘‘
’’تو پھر وہ سب سچ ہے جو وہ کہتا ہے؟‘‘
بغیر یہ جاننے کی خواہش کیے کہ وہ کیا کہتا ہے ریشماں نے کہا، ’’ہاں!‘‘ اور اس کے ساتھ ہی اسےایسا محسوس ہوا جیسے یک بارگی بڑا بھاری بوجھ اس کے سینے سے اٹھ گیا۔
’’بد ذات۔ بے حیا عورت۔‘‘ یہ پہلے سخت لفظ تھے جو چودھری گلاب کی زبان سے اس نے اپنے بارے میں سنے تھے۔ یہ عجیب بات تھی کہ ان لفظوں نے اس کے احساس خودی کو صدمہ نہیں پہنچایا بلکہ اسے مزہ آیا اور ایک خفیف سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلنے لگی۔ چودھری نے غصے سے ایک دو مرتبہ زمین پر پاؤں پٹکے۔ کوٹھری کے اندر گیا۔ آنگن میں گھوما۔ جیسے نہیں جانتا کہ کیا کرے۔ آخر وہ باہر نکل گیا۔ ریشماں اب اپنے کو پہلے کی طرح پھر بے خوف اور آزاد محسوس کر رہی تھی۔ ہر قسم کے بندھنوں سے آزاد جن میں اخلاق ، عزت نفس اور خودداری کے بندھن بھی شامل تھے۔ ان بندھنوں میں اس نے اپنے کو خواہ مخواہ جکڑ لیا تھا مگر اب وہ مسرت کے ساتھ ہر تماشہ دیکھنے کے لیے تیار تھی۔ خواہ وہ انجام کار اس کی اپنی زندگی کا المیہ ہی کیوں نہ ثابت ہو۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی آنگن میں گئی اور دروازے کی اوٹ میں کھڑے ہو کے ان کی باتیں سننے لگی۔ وہ دونوں چارپائی پر آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ چودھری گلاب بڑے جوش میں کہہ رہا تھا، ’’نالش دعوے کرنا، عدالت میں جانا تو نامردوں کا کام ہے۔ مردوں کا طریقہ دوسرا ہے۔ اگر تمہیں منظور ہے تو ابھی چل کے فیصلہ کیے لیتے ہیں۔‘‘
’’مجھے منظور ہے۔‘‘ کرم دین نے تاؤ کھا کے کہا، ’’میں بھی گیدڑ نہیں ہوں۔‘‘
اس کے تھوڑی ہی دیر بعد چودھری گلاب، کرم دین اور ریشماں تینوں کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے قصبے کے اس طرف جا رہے تھے جدھر گھنا جنگل تھا اور آبادی کے آثار نہ تھے۔ یہ ماگھ کے آخری دن تھے۔ سردی زوروں پر تھی۔ تیرھویں یا چودھویں کا چاند نکلا ہوا تھا۔ جوں جوں وہ بلند ہوتا جاتا، خنکی بڑھتی جاتی۔ انہوں نے گاڑھے کی چادروں میں اپنے کو لپیٹ رکھا تھا۔ دونوں مرد آگے آگے تھے اور ریشماں پیچھے پیچھے۔ وہ خاموش چلتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ وہ جنگل میں پہنچ گئے۔ مگر ان کے قدم اب بھی نہیں تھمے۔ وہ چاند کی کرنوں کی روشنی میں جو درختوں کے پتوں سے چھن چھن کر پگڈنڈی پر پڑ رہی تھی، برابر چلتے رہے۔ آخر وہ جنگل بھی ختم ہو گیا اور ایک ایسی جگہ آ گئی جہاں ہر طرف ٹیلے ہی ٹیلے تھے، خاردار جھاڑیاں تھیں اور مردہ جانوروں کےپنجر پڑے تھے۔ یہ جگہ ایسی اجاڑ تھی کہ رات تو رات، دن کے وقت بھی کسی انسان کا ادھر گزر نہیں ہوتا تھا۔ ایک اونچا سا صاف اور ہموار قطعہ زمین دیکھ کر چودھری گلاب ٹھہر گیا۔
’’بس یہ جگہ ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ یہ پہلا فقرہ تھا جو پچھلے دو گھنٹے کی مسافت کے دوران ان میں سے کسی کی زبان سے نکلا تھا۔
’’جیسی چودھری صاحب کی مرضی۔‘‘ کرم دین نے جواب دیا۔ دونوں کے چہروں پر تناؤ تھا اور ابرو چڑھے ہوئے۔ دونوں نے اپنی اپنی چادریں، پگڑیاں اور کرتے اتار کر زمین پر رکھ دیے اور تہمد کو لنگوٹ کی طرح کس لیا۔ پھر دو چھویاں چاندنی میں چمکنے لگیں اور دونوں میدان میں اتر آئے۔ ریشماں چلتے چلتے تھک گئی تھی۔ وہ ان سے ذرا فاصلے پر ایک پتھر پر بیٹھ گئی۔ اس کے چہرے پر ایک تحقیر آمیز مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ وہ دل چسپی سے ان کی لڑائی دیکھنے لگی۔ ایسا منظر اس نے اپنی عمر میں پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ اس کے دل میں اب ذرہ بھر بھی خوف باقی نہ رہا تھا۔ نہ اس کی فکر تھی کہ ان دونوں میں سے کون فتح یاب ہوکر اس کی قسمت کا مالک بنتا ہے۔ وہ بڑی مسرت اور چونچالی کے ساتھ ان بڈھوں کی جنگ دیکھ رہی تھی، جیسے بچے ریچھوں کی کشتی کا تماشہ دیکھتے ہیں۔
کچھ دیر تو دونوں چھویاں تانے بے حرکت آمنے سامنے کھڑے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے پینترے بدلے، چاندنی میں ان کی چاندیں چمک رہی تھیں اور سفید داڑھیاں جو اس وقت اور بھی سفید دکھائی دیتی تھیں، ہل رہی تھیں۔ وہ پاؤ گھنٹے تک اسی طرح برابر پینترے بدلا کئے۔ مگر ابھی تک ایک کی چھوی نے دوسرے کے جسم کو نہیں چھوا تھا۔ صرف ایک مرتبہ چودھری گلاب کی چھوی کرم دین کی چھوی سے ٹکرا گئی تھی۔ مگر اس کے بعد دونوں پیچھے ہٹ گئے۔ اسی میں وہ دونوں ہانپنےلگے تھے۔
ریشماں کو اس تماشے سے جلد ہی اکتاہٹ محسوس ہونے لگی تھی۔ اس نے جمائیاں لینی شروع کردیں۔ اسے اب سردی بھی لگنے لگی تھی۔ اس نے ٹیلوں کے اس پار دیکھنا شروع کیا۔ شاید دور کوئی نالہ بہہ رہاتھا جس کا ہلکا ہلکا شور اس ہو کے عالم میں بڑا تسکین بخش معلوم ہوتا تھا۔ اچانک کرم دین نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ ذرا تھم جاؤ۔ اس کے تہمد کا پلو جس کو اس نے لنگوٹ کی طرح پیچھے اڑس رکھا تھا، باہر نکل آیا تھا۔ اسے ایک ہاتھ میں چھوی اور دوسرے میں لنگوٹ تھامے دیکھ کر ریشماں ضبط نہ کرسکی اور اس نے بےاختیار قہقہہ لگا دیا۔ دونوں مرد پلٹ کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔ ریشماں ہنسے جارہی تھی۔ ہرچند اسے احساس تھا کہ ایسے نازک وقت میں اس کا ہنسنا بڑا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے مگر اسے پروا نہ تھی۔
’’اگر میں زندہ بچ رہا۔۔۔‘‘ کرم دین نے کھسیانا سا ہو کر کہا، ’’۔۔۔ تو سب سے پہلے اس چھنال کے ٹکڑے کروں گا۔‘‘
’’اس بےحیا کو تو اب میں بھی گھر میں نہیں بساؤں گا۔‘‘ چودھری گلاب نے کہا، ’’بس ناک کاٹ کے چھوڑ دوں گا۔‘‘
’’تو چودھری آؤ پہلے کیوں نہ اسی کا قصہ پاک کریں۔ ہم بھی کیسے بیوقوف ہیں کہ اس فاحشہ کے پیچھے جانیں دیے دیتے ہیں۔ اس کا کیا ہے کل کسی اور کی بغل گرم کر رہی ہوگی۔‘‘
چودھری گلاب نے کچھ جواب نہ دیا۔ کرم دین نے اس کی خاموشی کو رضا تصور کیا اور وہ یک بارگی چھوی لے کر ریشماں کی طرف جھپٹا مگر جلدی میں کپڑوں کے ڈھیر میں اس کا پاؤں الجھ گیا اور ریشماں کو بھاگنے کا موقع مل گیا۔ وہ تیزی سے دوڑ کر ایک ٹیلے پر چڑھ گئی۔ کرم دین بھی اس کے پیچھے بھاگا۔ اسے دیکھ کر وہ پھر دوڑی۔ کرم دین نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ دونوں دیر تک ٹیلوں پر ادھر ادھر بھاگتے رہے۔ کرم دین دوڑتے دوڑتے بے دم ہوگیا تھا، مگر انتقام کی آگ نے اسے ایسا باؤلا بنا دیا تھا کہ وہ گرتا پڑتا اس کا تعاقب کیے جا رہا تھا۔ یہ سلسلہ آدھ گھنٹے تک جاری رہا۔ بالآخر ریشماں کے کپڑے ایک جھاڑی کے کانٹوں میں الجھ گئے اور دوسرے لمحے کرم دین نے آکے اسے چٹیا سے پکڑ لیا، اور گھسیٹتا ہوا لے چلا۔ ریشماں نے دانتوں سے اس کے ہاتھوں کو کاٹ کاٹ کے لہولہان کر دیا، مگر اس نے چٹیا نہ چھوڑی۔
دونوں اس جگہ پہنچے، جہاں چودھری گلاب ان کا انتظار کر رہا تھا۔ اس دوران میں وہ کپڑے پہن چکا تھا۔ اس بلا کی سردی میں ننگے رہنے پر اس کا جسم اکڑ گیا تھا، مگر اب گاڑھے کی چادر کی بکل مارے وہ بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔ کرم دین نے کہا، ’’بے حیا بھاگنا چاہتی تھی، مگر میں بھی پاتال تک اس کا پیچھا نہ چھوڑتا۔ کیوں چودھری جی لگاؤں ایک ہاتھ۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے چھوی اٹھائی۔ چودھری گلاب جواب نہ دینے پایا تھا کہ ایک آواز ٹیلوں میں گونج اٹھی، ’’او چودھریو ٹھہر جاؤ۔‘‘
یہ مائی جمی تھی جو ان کے پیچھے پیچھے چلتی رہی تھی اور ایک ٹیلے کے کھڈ میں چھپ کے دور سے سارا ماجرا دیکھتی رہی تھی۔
’’او بردہ فروش چڑیل تو کہاں سے آ گئی؟‘‘ کرم دین نے غصے میں کہا، ’’یہ سب تیرے ہی کرتوت ہیں۔ اس کے ساتھ تیری زندگی کا بھی قصہ پاک کریں۔‘‘
چند لمحوں میں مائی جمی ان کے پاس پہنچ گئی۔
’’لو مار ڈالو۔‘‘ اس نے بے خوفی سے اپنا سینہ آگے کرتے ہوئے کہا، ’’ مگر یاد رکھو تم بھی پھانسی سے نہیں بچوگے۔ میرے کنبے والے تھانے میں فوراً اطلاع کر دیں گے۔ اور سپاہی آکے تمہیں ہتھکڑیاں لگا کے لے جائیں گے۔‘‘
’’کیا بکتی ہے کٹنی!‘‘ چودھری گلاب نے کہا۔ وہ اب تک اس قصے میں خاموش رہا تھا مگر جمی کی اس زبان درازی کو برداشت نہ کر سکا۔ کچھ لمحے خاموشی رہی۔ اس کے بعد جمی نے پھر زبان کھولی، مگر اب کے اس کا لہجہ مصالحت آمیز تھا۔
’’سنو!‘‘ اس نے کہا، ’’اگر تمہیں وہ سارا روپیہ مل جائے جو تم نے اس پر خرچ کیا ہے، تو کیا تم اسے مجھے دے دوگے؟‘‘
دونوں شخص کچھ دیر سوچتے رہے۔ اس کے بعد کرم دین نے کہا، ’’اگر میرے چار سو روپے مجھے واپس مل جائیں تو پھر وہ چاہے بھاڑ میں جائے، میری بلا سے۔‘‘
’’تم چار سو چھوڑ پانچ سو لینا۔ اور چودھری گلاب تم کیا کہتے ہو؟‘‘
’’اگر کرم دین کو اعتراض نہیں تو مجھے بھی اعتراض نہیں۔‘‘ چودھری نے دھیمے لہجے میں کہا۔
’’تمہیں بھی تمہارا سات سو روپیہ مل جائےگا چودھری گلاب۔ بات یہ ہے کہ یہاں سے کوئی دس کوس پر ایک نمبردار رہتا ہے جو ریشماں جیسی لڑکی کے دو ہزار روپے دینے کو تیار ہے۔ تم مجھے ایک دن کی مہلت دو اور ریشماں کو بھی اپنے پاس رکھو۔ کل شام کو جب میں تمہارا روپیہ لوٹاؤں گی تو تم اسے میرے حوالے کرنا۔‘‘
ریشماں نے گردن اٹھائی۔ مائی جمی کی طرف دیکھا اور ایک جھرجھری لی۔ چودھری گلاب نے مائی جمی کی بات کا کچھ جواب نہ دیا۔ مائی جمی نے اس کی ضرورت نہ سمجھی۔ اس کے لیے اس کی خاموشی ہی کافی تھی۔ اب کرم دین بھی کپڑے پہن چکا تھا۔ وہ چاروں واپس چل دیے۔ پہلے کی طرح مرد آگے آگے اور عورتیں پیچھے پیچھے۔ سردی اب پہلے سے بڑھ گئی تھی، جس کی وجہ سے اب ان کے قدم آپ ہی آپ تیز تیز اٹھ رہے تھے۔ کچھ دیر تو خاموشی سے چلتے رہے۔ آخر کرم دین نے چودھری گلاب سے کہا، ’’بڑی خشک سردی پڑی ہے اب کے سال۔ ہماری فصلوں کا تو ناس ہی ہو گیا۔ یہاں کیا حال ہے چودھری صاحب؟‘‘
’’یہاں بھی بارش کی ایک بوند نہیں پڑی۔‘‘ چودھری گلاب نے جواب دیا۔
’’پھر یہ خشک سردی بیماریاں بھی تو لاتی ہے۔ خاص کر ڈھورڈنگر کے لیے۔ میری ایک بھینس پالا کھاکے مر گئی۔‘‘
’’اوہو۔۔۔‘‘
کچھ دیر خاموش رہی۔
’’چاول کا کیا بھاؤ ہے یہاں؟‘‘ کرم دین نے پھر پوچھا۔
’’بیگمی سوا دو سیر۔‘‘ چودھری گلاب نے جواب دیا۔
’’ہمارے ہاں ڈھائی سیر کا بھاؤ ہے۔‘‘ کرم دین نے کہا۔
ریشماں اس خنک چاندنی میں ایک خواب کے سے عالم میں چلی جا رہی تھی، نہ تو اس کے کان کچھ سن رہے تھے، نہ آنکھیں کچھ دیکھ رہی تھیں اور نہ یہ خبر تھی کہ قدم کہاں پڑ رہے ہیں۔
مأخذ : کلیات غلام عباس
مصنف:غلام عباس