بابا لوگ

0
188
Urdu Afsana Stories
- Advertisement -

’’بابا لوگ سب کمرے میں آ جاؤ— ام تم کو کہانی سنائے گا!‘‘

پھر بابالوگ یہ سنتے ہی کمرے میں آ گئے اور بڈھ٘ے انکل کے مونڈھے کو یوں گھیر لیا، جیسے اکمس کی ننھی ننھی موم بتیاں ہوں جوبڑ ے سے کیک کے چاروں طرف استادہ کردی گئی ہوں۔

بڈھ٘ے انکل نے ایک بار نگاہ اٹھا کر ساتوں بچ٘وں کا جائزہ لیا۔ پھر جبک سے آ دھ جلا سگار نکالا۔ سگار کو جلانے سے پہلے قریب کھڑے ہوئے سب سے چھوٹے بچے کو گود میں اٹھا لیا، اور اس کے سرخ پھولے ہوئے گالوں کو چومتے ہوئے بولا،

’’ہو ڈولی ڈارلنگ تم کیا ماپھک ہے؟‘‘

’’اچھا ماپھک ہے، ا م کو کہانی سناؤ، ابی… ورنہ ام مارے گا! سنائے گا؟‘‘

- Advertisement -

’’ضرور سنائے گا۔‘‘ بڈھے انکل نے آہستہ سے بچے کو گود سے اتار دیا۔ لبوں سے لگے ہوئے سگار کو جیب میں رکھ لیا۔ پھراس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اور اس کا بجھا بجھا چہرہ چمک اٹھا، جیسے ایکا ایکی چاند پر سے بدلی ہٹ گئی ہو۔

’’بابا، تم لوگ ام کو ایک بات بتائے گا۔ پھر کہانی سنائے گا۔‘‘

’’بتائے گا، بتائے گا۔‘‘ بابا لوگ نے ایک زبان ہو کر کہا۔

’’تو بولو یہ دنیا اتنی بیوٹی فل کیوں ہے؟‘‘

بچ٘ے، جن سے کئی بار یہ سوال دہرایا گیا ہے وہ حسب دستور ایک زبان ہو کر چاند کی طرف اشارہ کرنے لگے، ’’مون سے!‘‘

’’ویری گڈ، مون ایسا چمکتا ہے جیسے۔‘‘ بڈھا انکل ایک لمحہ کے لئے رک گیا ایک نظر اس نے سب بچوں پر ڈالی۔ پھر سب سے خوبصورت بچی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا، ’’جیسے اپنا بے بی ڈولی۔‘‘ پھر اس نے چاند کی طرف نظریں گاڑ دیں، ’’جیسے اپنا بے بی مارگیٹ….!‘‘

سب بچوں نے مل کر تالیاں بجادیں، جس کو سن کو بڈھا انکل جو دور آسمان کے پھیلاؤ میں چمکنے والے چاند پر کمندیں ڈال رہا تھا، اپنی جگہ واپس آ گیا۔

’’بڈھا انکل، کہانی مانگتا…. کہانی مانگتا…..‘‘ بابالوگ تالیاں بجا بجا کر شور کر رہے تھے۔

پھر کہانی شروع ہو گئی۔

’’……. جب کینگ باہر سے شراب پی کر آ تا تو خوب شور کرتا، کو ئین کو گالیاں بولتا، اس کو خوب مارتا، نوچتا؛ کتا ماپھک، اور بولتا۔ ام بے بی مانگتا، سن مانگتا…. کوئین کچھ نہیں بولتا۔ وہ بہوت روتا۔ دھیرے دھیرے روتا، ایسا ماپھک جیسے ٹائم پاس ہوتا کوئین روتا ۔ اس ٹائم اس کا ایک خانساماں ہوتا۔ بابالوگ خانساماں جانتا۔ امارا ماپھک خانساماں۔‘‘

پھر بابالوگ جو سینکڑوں بار دہرائی ہوئی کہانی سنتے سنتے اکتا چکے تھے شور کرنے لگے، ’’نہیں مانگتا۔ یہ کہانی نہیں مانگتا……. یہ اولڈ کہانی نہیں مانگتا…… نیولاؤ، نیو…..‘‘

اس وقت بڈھے انکل کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ’’کدر سے لائے گا۔ کدر سے نیولائے گا، بابالوگ….‘‘

وہ برسوں کا بھوکا بیل ماضی کے چٹیل میدان میں حسب دستور منھ مارنے لگا۔ شاید کوئی پودا مل جائے….. شاید کوئی ہریالی نظر آ جائے۔ ’’اپنا تو سب کچھ لٹ گیا۔ ایک چھوٹا سا پودا تھا، اس کے آس پاس کتنا بڑا بڑا کانٹا والا تار لگا دیا ہے۔ دنیا والا، تم کوکیسے بولے گا۔ کیسے بتائے گا….؟‘‘

’’اے بڈھا! تم آپ سے آپ کیا بکتا ہے؟‘‘ بڈھا انکل ہڑ بڑا کر اٹھ کھڑا ہوا، گویا سلگتا ہوا سگار اس کے کپڑوں پر گر گیا ہو!

’’بے بی کچھ نہیں بکتا۔‘‘ وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے مسکرایا۔ ’’ابی بابا لوگ تھا، کہانی سنتا تھا…..‘‘

اس کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ ’’ام تم کو بہوت بولا۔ تم بابا لوگ کو مت کھراب کرو۔ بڈھا تم سنتا کیوں نہیں۔؟‘‘

’’اب نہیں کھراب کرے گا۔ بے بی اسکیوزمی، بے بی….‘‘ اس کا ہاتھ آپ سے آپ گردن اور سر کو سہلانے لگا۔ ’’اب کبھی نہیں کہانی سنائے گا….‘‘

مارگریٹ منھ ہی منھ میں بڑبڑاتی اپنے نئے دوست جارج کی بانہوں سے لگی آگے بڑھی۔ بڈھے انکل کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے ہمت کر کے مارگریٹ کو دیکھا۔

’’پربے بی ایک بات سنے گا۔؟‘‘

’’کیا بولنا مانگتا۔؟‘‘

بڈھا انکل ہنسنے لگا۔ ’’بے بی، جب تم چھوٹا تھا، بہوت کہانی سنتا تھا….. اپنا ڈالی ماپھک….!‘‘

’’شیٹ اپ، یو نان سنس….‘‘

پھر وہ چپ چاپ اپنے میلے جیکٹ واسکٹ کی جیب میں ادھ جلے سگار کو ٹٹولتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وہ اپنی چھوٹی سی چارپائی کے جھلنگ میں دھنس گیا….. ڈوبتا چلا گیا۔ وقت کتنی تیزی سے بھاگتا ہے، جیسے….. جیسے بابالوگ کی گیند۔ بے بی کس طرح اس کی گود میں بیٹھ کر اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اس کی مونچھ کو پکڑ کر کھینچتی تھی۔ ’’انکل کہانی مانگتا….. کہانی سناؤ ام کو….!‘‘

مگر اب بے بی کہانی نہیں مانگتا۔ اس پودے کے تنے موٹے ہو گئے ہیں۔ قد لمبا ہو گیا ہے۔ پہلے وہ کہانیوں کے جھولے میں جھولنے کے لئے کیسے مچلا کرتی تھی مگر اب خود چاہتی ہے کہ کوئی اس کے تنے میں رسیوں کا جھولا لگا کر لمبی لمبی، پینگ کھائے…… اور کہیں وہ تنا ٹوٹ گیا تو؟ خم کھا گیا تو؟….. بے وقوف بچی، پھر زندگی کا بارگراں تو کیسے اٹھا سکے گی۔؟؟؟ بول….. بول…. نادان مارگریٹ؟

مارگریٹ کے کمرے سے قہقہے کی آواز آ رہی تھی….. رات تاریک ہے، گھر میں صاحب نہیں، میم صائب نہیں…. اور بے بی کمرے میں ایک نوجوان کے ساتھ…‘ اس نے عقیدت سے سینے پر صلیب بنائی۔ ’’یسوع مسیح! میرے ننھے پودے کو اس باد سموم سے بچاؤ—‘‘

اس نے پلٹ کر دیکھا بے بی کے کمرے میں جلتی بجھتی روشنیوں میں دو سائے آپس میں خلط ملط ہو رہے ہیں۔ پھر وہ اٹھ بیٹھا۔ پیروں میں فل بوٹ پہنا، کھونٹی سے پرانی، تیل سے داغدار فلٹ اٹھا کر آہستہ سے سر پر رکھ لی۔ برآمدہ طے کرتے ہوئے سیدھا بے بی کے کمرے کے پاس رک گیا۔

’’بے بی، مارگریٹ بے بی! دروازہ کھولو۔‘‘

کمرے میں اچانک ابتری پھیل گئی…..

’’کیا ہے بڈھا، کیا مانگتا…..؟‘‘

’’بے بی صائب آتا۔ ابھی ادر میں ام جپک کا لائیٹ دیکھا….‘‘

دونوں جلدی جلدی ڈرائنگ روم میں آ بیٹھے۔ بے بی نے اپنے الجھے ہوئے بالوں کو جلدی جلدی درست کر لیا۔ پھر دونوں نے اپنے اپنے سامنے میز پر تاش کی پتیاں یوں پھیلا لیں، گویا کھیل گھنٹوں سے ہو رہا ہے۔

بڈھا انکل نے دوبارہ صلیب بنا لی۔ یسوع مسیح بے بی کو بچاؤ…… من ہی من میں اس نے شکریہ ادا کیا اور برآمدے میں سرکنڈے کی کرسی میں دھنس گیا۔

وہ جو پتھر سا تھا آپ ہی آپ کھسک گیا۔ پھر جب کافی دیر ہو گئی اور صاحب نہیں آیا تو ڈرائنگ روم سے بے بی پاؤں پٹکتی ہوئی باہر آئی۔ اور بڈھا انکل کو کرسی پر اونگھتا ہوا دیکھ کر اس نے سینکڑوں گالیاں دیں…. ’’یوبلاڈی فل تم جھوٹ بولتا۔ ال٘و، گدھا، تم کدر کو جیپ دیکھا؟ تم کو نیا میم صائب ٹھیک گالی دیتا۔ دھکا مارتا….. الو…..۔‘‘

’’دیکھا، بائی گاڈ، بے بی! ابی اور میں لائیٹ دیکھا۔ ام سے بھول ہوا۔ وہ دوسرا جیپ ہو گا۔‘‘

مارگریٹ گالیاں بکتی پھر ڈرائنگ روم میں چلی گئی۔ حسرت سے بڈھا انکل نے ایک لمبا سانس لیا۔ ’’یسوع مسیح! بے بی کو بچاؤ۔ اپنا بے بی بہوت چھوٹا ہے۔ کچھ نہیں جانتا۔ بائی گاڈ وہ ہنڈ ریڈ تک گننا نہیں جانتا۔ وہ بہوت مشکل میں پھنسے جاتا۔ اس کا ہلپ کرو۔ یسوع مسیح اس کا ہلپ کرو….‘‘ وہ رونے لگا۔ سسک سسک کر رونے لگا۔ پھر وہ چپ ہو گیا، اور حسب عادت بیٹھا بیٹھا اونگھنے لگا۔

وقت بوند بوند کر کے گرتا ہے، اور خشک زمین پر گر کر کیسا سوکھ جاتا ہے۔ بس دیکھتے دیکھتے نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ فرش پر صرف اس کا نشان رہ جاتا ہے، جس سے سوندھی سوندھی خوشبو نکلتی ہے….. نکلتی ہی رہتی ہے۔ کبھی بند نہیں ہوتی، اور اب بڈھے انکل کی بے مصرف زندگی میں بجز اس بو کے سونگھتے رہنے کے اور کچھ نہیں رہ گیا ہے، کچھ کام نہیں۔ کمینوں کی طرح نئی میم صاحب کی گالیاں سن کر بھی روٹی کا خشک ٹکڑا گلے سے اتارتے ہوئے اس کے حلق میں کچھ نہیں پھنستا۔ وہ مزے سے گردن جھکائے کھاتا رہتا ہے۔ پہلے جب ابھی چراغ گل نہیں ہوا تھا وہ بھڑک اٹھتا اور پرانے سخت فل بوٹ کو گھسیٹتا دہلیز کو بھی عبور کر جاتا، مگر صاحب پھر اسے واپس بلا لیتا۔ صاحب نہیں اس کے اندر سے ایک جانی پہچانی مگر وقت کی بوںد میں جذب ہوتی آواز اس کے پیروں سے چمٹ جاتی۔ پھر اس وقت اس کا دل دھک دھک کرنے لگتا۔ وہ سوندھی سوندھی بو اس کے ننھے سے ہوتی ہوئی سارے اعصاب پر چھا جاتی۔ اور اب اس کی بے مصرف، بےکار زندگی میں بجز اس بو کو سونگھتے رہنے کے رہ ہی کیا گیا ہے۔ مارگریٹ بے بی تم بھی تو ایک قطرہ ہو، جس میں تمہاری ماں کی خوشبو رچی ہوئی ہے۔

’’میں اس خوشبو کے بغیر کیسے زندہ رہ سکتا ہوں بے بی؟ کیسے زندہ رہ سکتا ہوں….؟‘‘

باہرایک ہچکولے کے ساتھ جیپ کے رکنے کی آواز سنائی دی۔ بڈھا انکل نے ہڑ بڑا کر آنکھیں کھول دیں۔ ابھی کچھ پاتے پاتے اس نے کھو دیا۔ پھر اس کے کانوں میں جوتے کی آواز سنائی دی۔ ۔ وہ چونک کر اٹھ کھڑا ہوا۔ کیچ بھر ہوئی آنکھوں کے کنارے آنسوؤں سے نم ہو رہے تھے۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر آستین سے آنکھیں پونچھ لیں۔

برآمدے کو عبور کر کے نئی میم صاحب اس کے سامنے آ گئی۔ ’’یوبڈھا، تم ادر میں کیا کرتا؟‘‘ اس نے نفرت سے بڈھا انکل کو گھورا۔ ’’کیا چوری کرنا مانگتا؟‘‘

’’نومیم صائب ایسا ماپھک نہیں۔ اُدر بے بی ہے نا….‘‘ وہ رک گیا۔ ’کیا وہ سچ کہہ دے؟ نہیں! نئی میم صائب ابھی بے بی کو بہوت گالیاں دے گی۔ بہوت جھگڑا کرے گی۔ سوتیلی ماں ہے نا! بہوت تکلیف دےگی….. اس کا دل لرز گیا۔

’’بے بی ہے تو تم کیا کرتا بڈھا؟‘‘ نئی میم صاحب نے چسٹر اتار کر اپنے ہاتھ پر رکھتے ہوئے پوچھا۔

’’کچھ نہیں، وہ اپنے فیرنڈ کے ساتھ رمی کھیلتا….‘‘ اور وہ گردن جھکائے وہاں سے ٹل گیا۔

پھر ایک دن بڈھے کی نگرانی اور ڈھٹائی سے تنگ آ کر بے بی نے شکایت کر دی۔ ’’پپ٘ا ڈارلنگ! اس کمینے کتے کو باہر نکال دو۔ وہ مجھے بہوت ڈسٹرب کرتا— مفت کی روٹیاں توڑتا ہے……‘‘

پپ٘ا پائپ میں تمباکو بھرتے ہوئے مسکرائے۔ پھر بے بی کے کندھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے بولے ،’’نہیں بےبی! تم ایسا ماپھک نہ کہا کرو۔ وہ بڈھا بہت اچھا آدمی ہے۔ وہ اماری تماری خدمت کرتے اس عمر کو پہونچا ہے۔ وہ بہوت نیک ہے……‘‘ اور کہتے کہتے پپ٘ا اپنے آپ میں گم ہو گئے۔ ’’تم نہیں جانتیں، بے بی ڈارلنگ! جب تم ابھی نہیں آئی تھں.، اور میں شراب کے نشے میں تماری ماں کو محض اس لئے زد و کوب کرتا کہ وہ مجھے ایک بچہ دینے سے مجبور تھی، تو بڈھا تماری مدر کے سامنے کھڑا ہو جاتا اور پھر بید پورا اس کے جسم پر ٹوٹ جاتا۔ وہ اف تک نہ کرتا۔ صرف اس کے چہرے پر تکلیف کے باعث لکیریں بنتیں، بگڑتیں اور آنکھوں سے پانی جھر جھر بہتا۔ وہ چپ چاپ سہہ جاتا۔ پھر بے بی تم آئیں اور تماری مدراسی رات مر گئی، تو وہ کیسا رویا کیسا تڑپا تھا میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا….‘‘

’’مگر پپ٘ا وہ کم بخت میرے آگے پیچھے سائے کی طرح لگا رہتا ہے۔ گویا میں اس کی قید میں ہوں…..‘‘

’’نوبے بی وہ تجھے بہوت چاہتا، بہوت چاہتا ہے….. بالکل اپنا بے بی سمجھتا ہے۔‘‘ پپ٘ا ہنس دیئے، ’’بے بی جب تم بہت چھوٹی تھیں تعجب تب بھی وہ اسی طرح تمارے پیچھے سائے کی طرح لگا رہتا تھا۔ جب تم بہوت روتیں اور آیا تم پر غصہ ہوتی تو وہ چڑ کر اس سے چھین لیتا…. آیا جب تمہیں دودھ پلا رہی ہوتی وہ کہیں سے چھپ کر دیکھ رہا ہوتا۔ میں نے ایک دن پوچھا۔ ایسا ماپھک کیوں؟ بولا، آیا بے بی کا دودھ پینا مانگتا….‘‘ پپا قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔ ’’پھر جب وہ عید کے روز نماز پڑھنے جاتا تو جانے سے قبل تمھیں اپنے ہاتھوں سے نہلاتا، بہوت اچھا اچھا کپڑا پہناتا…. نماز سے واپس آتا تو کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور لاتا، اور تمھیں گود میں اٹھاکر پیار کرتے وقت پتہ نہیں کیوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا اور اس وقت تک روتا اور تمھیں پیار کرتا جب تمھاری اسٹیپ مدر آکر اسے گالیاں نہ دیتی۔ ایک روز میں نے اس سے رونے کا سبب پوچھا تو بڈھا بجھے ہوئے لہجے میں بولا، ’’امارا بھی ایسا ماپھک ایک بے بی ہے، ایکد م اپنا بے بی ماپھک‘‘….. مگر میں جانتا ہوں اس کا کوئی بچہ نہیں تھا۔ وہ چودہ سال کی عمر سے تو میرے پاس ہے….‘‘

’’مگر پپ٘ا، وہ تو بچپن کی بات ہے۔ اب اگر وہ میرے جسم کو چھوئے تو میں جب تک تین بار نہاؤں نہیں، مجھے چین نہیں آئے گا—‘‘

’’ نو بے بی، ایسا نہیں بولنا چاہیئے۔‘‘

’’نوپپ٘ا، آپ اس بلاڈی کو ڈانٹ دیجیئے۔ وہ میرے معاملات میں دخل نہ دے۔ ‘‘

’’اچھا اچھا میں اسے منع کر دوں گا۔ تم غصہ نہ کرو، مگر بے بی، اس دن بڈھا تمہیں واقعی کہیں لے کر چلا جاتا اور واپس نہ آتا تو جانتی ہو آج تم اس کی بچی کہلاتیں…..‘‘ پپ٘ا ہنسنے لگے۔ ’’بے بی یہ بڈھا ایک دن تمہیں لے کر کہیں بھاگ گیا تھا….‘‘

’’ہائے پپ٘ا؟‘‘ اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے تعجب سے کہا۔

’’ہاں بے بی، جب تم بہوت چھوٹی تھیں۔ تماری نئی ماں آئی تو اس نے پیسے کی بچت کے خیال سے تماری آیا کو ہٹا دیا اور خود تماری دیکھ بھال کرنے لگی مگر۔‘‘ پپ٘ا نے دروازے کی سمت دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا، ’’مگر اسٹیپ مدر اپنی ماں کہاں ہو سکتی ہے۔ وہ تمہیں بہوت تکلیف دینے لگی۔ تم دودھ کے لئے چلاتی رہتیں اور وہ ڈریسنگ ٹیبل سے نہ اٹھتیں۔ تمارے کپڑے پیشاب سے تر رہتے اور تم اس میں پڑی رہتیں….. شاید یہی سب دیکھ کر بڈھا انکل نے ایک روز مجھ سے شکایت کی ۔ میں نے نئی میم صاحب کی شکایت سن کر اس کے ایک طمانچہ رسید کیا، اور کمرے سے باہر نکال دیا۔ جس کے بعد دو دنوں تک وہ خاموش رہا، مگر ایک دن پتہ نہیں کیوں تمھیں اٹھا کر کہیں لے گیا….‘‘

’’پھر میں کیسے لائی گئی پپ٘ا؟‘‘ بے بی دل چسپی محسوس کرنے لگی۔

’’وہ آپ ہی آ گیا۔ دن بھرام لوگ بہوت پریشان رہے۔ لوکیلٹی کا چپ٘ہ چپ٘ہ چھان مارا، مگر پتہ نہ چلا۔ پورے شہر میں تلاش کیا۔ تھانے میں رپٹ دی۔ لیکن شام ہوتے ہی دیکھا وہ تمںمح گود میں لئے حسب دستور ٹھہر ٹھہر کر چلتا ہوا آ گیا۔ ام لوگ دنگ رہ گئے اس کی ڈھٹائی پر۔ تمہںم بیڈ پر ڈال کر وہ کونے سے موٹا بید لے آیا اور قمیض اتار کر میرے پیروں پر جھک گیا…..‘‘

’’پھر آپ نے بہوت پیٹا ہو گا اسے؟‘‘ بے بی اندرونی طور پر قدرے خوش ہوئی۔

’’نہیں بے بی، میں نے ایسا نہیں کیا۔ اسے کچھ نہ بول سکا۔ زبان ہی نہ کھلی جیسے تمہاری ممی میرا ہاتھ روک رہی ہو۔ اس گھر میں یہ بڈھا ہی تو اس کا ہمدرد تھانا، اس نے ضرور میرا ہاتھ روک لیا ہوگا……‘‘

’’مگر پپ٘ا! یہ بڈھا تو خراب….‘‘

’’نہیں بے بی ایسا نہیں۔ وہ بہت اچ٘ھا آدمی ہے۔ ضرور اچ٘ھا آدمی ہے۔ یسوع مسیح اس پر مہربان ہے۔ تماری اسٹیپ مدر اس کے ساتھ کتا جیسا بی ہیو کرتا، مگر تم ایسا مت کرو۔ وہ بہت اچھا بڈھا…..‘‘

تیسرے دن صبح جب پرانے چرچ کی منہدم دیواروں کی اوٹ سے بھی زرد سورج ابھر رہا تھا، اور زرد پیاری دھوپ کیا ریوں کے ننھ٘ے ننھ٘ے پودوں کو دھیرے دھیرے چوم رہی تھیں، بڈھا انکل مرغیوں کے بڑے سے پنجڑے کے قریب بیٹھا انھیں دانہ کھلا رہا تھا، صاحب نے اسے ٹوکا، ’’بڈھا انکل کیا کرتا ادر میں؟‘‘

وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ سر سے فلیٹ اتار کر ایک ذرا گردن جھکا کر گڈ مارننگ کیا۔ ’’ادر میں اپنا مرغی لوگ کو دانہ کھلاتا صائب۔ اپنا کالا والا مرغی بیمار مالم پڑتا، اس کو لہنر دیتا۔ یہ مرغی بہوت اچھا ہے، صائب، بائی گاڈ بہوت اچھا والا ہے…..!‘‘

’’بڈھا انکل تم بھی بہوت اچھا والا ہے۔ بائی گاڈ بہت اچھا والا۔‘‘ صاحب کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ ’’پرانکل اپنا بے بی تمارا شکایت کرتا۔ تم اس کو ڈسٹرب کرتا۔ ایسا مت کرو۔‘‘

’’پرصائب، ام بھی ایک بات بولنا مانگتا….‘‘ وہ اچانک بات کاٹ کر کہنے لگا۔،’’سنے گا صائب؟‘‘

’ضرور سنے گا بڈھا انکل….. بولو۔‘‘

’’صائب….. اپنا بے بی….. مارگریٹ بے بی….. اور وہ جارج….. وہ جارج کو جانتا صائب! اپنا بے بی کا فرینڈ ہوتا….‘‘۔

’’ہاں ہاں جانتا، تم بولو کیا اس کے بارے میں بولنا مانگتا؟‘‘

بڈھا انکل کچھ دیر خاموش زمین کو تکتا رہا۔ پھر بولا، ’’صائب وہ جارج اچھا نہیں۔ وہ اپنا لو کیلٹی کا ایک بے بی کو…. وہ بہوت خراب صائب ام جانتا….‘‘

صاحب کی تیوریاں چڑھ گئیں، ’’تم کیا بولنا مانگتا…. انکل…. ویری بیڈ…. تم سرونٹ، سرونٹ ماپھک رہے گا۔ امارا گھر کا بات میں کچھ نہیں بولے گا…. اپنا بے بی اچھا…. اپنا جارج اچھا….. تم جھوٹ بولتا….. ایسا ماپھک نہیں بولے گا کبھی…..‘‘

برسوں بعد آج صاحب کے منھ سے سخت الفاظ سن کر اس کا دل بھر گیا۔ اس نے ایک بار نظر اٹھا کر صاحب کو دیکھا جو سامنے کھڑا عجیب نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

’’امارا بات سمجھا؟‘‘۔

’’سمجھا صائب، اب کبھی نہیں بولے گا…. اسکیوزمی صائب۔‘‘

وہ پھر جھک کر مرغیوں کے جال دار ڈربے میں دانہ پھینکنے لگا۔ ’’اپنا بے بی اچھا….. اپنا جارج اچھا…… اپنا کتا بھی اچھا۔ فقط یہ بڈھا نہیں اچھا۔ بڈھا بہوت خراب….. یسوع مسیح، یہ دنیا کیسا ماپھک ہے۔ کیساماپھک ہے۔‘‘

بڑی مہری والی خاکی پتلون، ملگجی قمیض، پرانے بوٹ اور چھوٹے چھوٹے سیاہ بالوں سے بھرے سر پر تیل اور سڑک کی دھول سے داغدار فلیٹ…. صبح کو اس نے کھانے کے بعد ڈریس کیا اور دس بجے سے قبل وہ صاحب کے سامنے کھڑا ہو گیا۔

’’گڈ مارننگ صائب….!‘‘

’’اوہ، گڈمارننگ بڈھا انکل! آج مارننگ کو ڈریس کیا۔ کدر جانا مانگتا؟‘‘

’’صائب آج جمعہ ہوتا۔ آج ام شہر جانا مانگتا۔ اٗدر میں مسجد میں نماز پڑھنا مانگتا…. خدا سے دعا کرنا…..‘‘

صاحب نے آہستہ سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’مگر انکل، آج تم کیا جانا مانگتا۔ ادر شہر میں دنگا ہوتا۔ ہندو مسلمان کا جھگڑا ہوتا۔ ادر میں تم کو کوئی مار دیا تو۔ کیا تم نہیں جانتا؟‘‘

’’نو صائب ام جانا مانگتا۔ اد رمسجد میں دعا، مانگنا مانگتا۔ ادر میں ام کو کوئی نہیں مارتا۔ یسوع مسیح امارا ہلپ کرتا۔‘‘ اس نے انگلیوں سے صلیب بنائی۔ ’’صائب ام کو آرڈر دو۔ ام جلدی جائے گا…..؟‘‘

’’تم نہیں مانے گا بڈھا انکل، جائیگا۔‘‘ صاحب مسکرانے لگا۔ ’’تو جاؤ پر ہوشیاری سے اپنے آپ کو بچا کر…..‘‘

پھر بڈھے انکل نے صاحب کو جھک کر سلام کیا اور حسب دستور علاقے کے ہر راہ گیر کو گڈ مارننگ کرتا، جب چرچ کے سامنے پہنچا تو اس نے آہستہ سے جھک کر سر سے فلیٹ اتار لی۔ سینے پر صلیب بنائی— ’’یسوع مسیح اپنا بے بی کا ہلپ کرو۔ اپنا بے بی کچھ نہیں جانتا۔ وہ بائی گاڈ ہنڈریڈ تک گننابھی نہیں جانتا۔ یسوع مسیح ام جانتا، وہ لڑکا ویری بیڈ…. اس نے ہک صاحب کی لڑکی کو خراب کیا…… بے بی کا ضرور ہلپ کرو…… یسوع مسیح امارا بھی ہلپ کرو۔ ام مسجد جاتا۔ اپنا گاڈ کے پاس بے بی کے واسطے دعا کرنے۔ ادر میں ہندو لوگ مسلمان کو مارتا۔ امارا ہلپ کرو۔ ام کو کوئی نہیں مارے گا۔‘‘ پھراس نے انگلیوں سے کندھے اور سینے میں صلیب بنائی اور آگے بڑھ گیا۔

واپسی پر وہ بہت خوش تھا۔ اس نے نماز پڑھنے کے بعد دعا مانگ لی تھی، اور اب اسے یقین ہو چلا تھا کہ بے بی جارج کے جال سے بہت جلد صحیح سلامت بچ نکلے گی۔ خدا نے اس کی آواز ضرور سنی ہو گی۔ اس کو یقین تھا اس لئے بڈھا انکل آج بہت خوش تھا۔ سہ پہر کو جب وہ شہر سے واپس آیا تو چپ چاپ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وہاں سے سگار لیا، ماچس لی اور اپنا پرانا مونڈھا لئے باہر لان پر آ گیا، اور ادھر ادھر دیکھ کر حسب دستور منھ پر انگلی دیے کر سیٹی بجائی۔ جس کو سن کر آس پاس کے کوارٹروں کے صحن اور باغیچوں میں کھیلنے والے چھوٹے چھوٹے بچے دوڑے آئے اور بڈھے انکل کے قریب گھاس پر بیٹھ گئے۔ پھر زور زور سے تالیاں بجانے لگے۔ ’’بڈھا انکل کہانی سناؤ۔ بڈھا انکل کہانی سناؤ…..‘‘

’’پہلے ایک بات بولے گا، پھر کہانی سنائے گا۔ اچھا بولو یہ دنیا بیوٹی فل کیوں ہے؟‘‘

بچوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ سبھوں نے ایک بار آسمان کی طرف دیکھا۔ پھر ایک دوسرے کا منھ دیکھنے لگے۔

’’بابا لوگ بولو۔‘‘ بڈھا انکل نے حیرت سے گھورا ’’بولتا کیوں نہیں؟‘‘

’’پربڈھا انکل مون کدر ہے؟‘‘ بابا لوگ نے یکباری گی کہا جسے سن کر بڈھا انکل بے تحاشہ ہنسنے لگا۔

’’ٹھیک بولتا۔ ابھی مون کدر ہے…..‘‘ پھر اس نے چھوٹی چھوٹی آنکھوں کو دھوپ سے بچانے کے لئے ہاتھ سے سایہ کر کے بے بی کے کمرے کی طرف دیکھا، جس کی کھڑکی بند تھی۔

’’ابھی مون نہیں ہے، پر بابا لوگ ابھی مون آئے گا…..‘‘ اور یہ کہتے کہتے ایکا ایکی کچھ سوچ کر وہ اداس ہو گیا ’’اپنا مون پر گرہن لگنا مانگتا ہے….‘‘

’’کیا لگنا مانگتا ہے بڈھا انکل؟‘‘ حیرت سے بچوں نے اس کی طرف دیکھا۔

’’گرہن۔!‘‘ وہ چونک اٹھا۔ ’’بابالوگ گرہن نہیں جانتا…..؟‘‘

’’نہیں جانتا۔‘‘

بڈھا انکل یہ جواب سن کر مسکرانے لگا۔ ’’تو آؤ بابا لوگ آج گرہن اور مون کا کہانی سنائے گا۔‘‘

خاموش چپ چپ ! جیسے ہک صاحب کا بڑا سا خونخوار کتا گردن جھکائے زمین سونگھتا ہوا گزرتا ہے، کسی کو کچھ نہیں بولتا، وقت بھی کسی سے بولے بغیر پہلو بچا کر نکل جاتا ہے اور جب کبھی کوئی اس کے سامنے آ جاتا ہے ہک صاحب کے خونخوار کتے کی طرح اس پر جھپٹ پڑتا ہے، لہولہان کر دیتا ہے۔ اب کوئی اپنا زخم لئے لاکھ چیختا چلاتا رہے یہ خونخوار کتا پلٹ کر دیکھتا تک نہیں، چپ چاپ گزر جاتا ہے۔

لیکن بے بی تو چیخ بھی نہیں سکتی چلا بھی نہیں سکتی۔ وہ اپنا گہرا زخم کسی کو دکھانے سے بھی مجبور ہو گی۔ ’’بے بی….. مائی ڈارلنگ بے بی! تم ٹھہر جاؤ….. ایسا سر پٹ نہ بھاگو۔ یوں آنکھ بند کر کے دوڑنے سے سڑک پراوندھے منھ گر بھی سکتی ہو۔ پھر یہ بوڑھا خونخوار کتا تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا۔ ایسا زخمی کرے گا بے بی کہ تم شاید اٹھ کر چلنے کے قابل بھی نہ رہ سکو گی۔ پھر میں بڈھا۔ تمارا بڈھا انکل، پورے کرشچن لوکیلٹی کا بڈھا انکل جو تمارے سڈول اور خوبصورت جسم میں تماری ماں کی سوندھی مہک پاتا ہے، کیسے زندہ رہ سکے گا؟ ٹھہر جاؤ بے بی….. ٹھہر جاؤ بے بی….. ٹھہر جاؤ….‘‘

مگر بے بی نہیں ٹھہری….. بے بی چلی گئی۔ رات تاریک تر ہو گئی تھی۔ لوکیلٹی کے شیشوں کی کھڑکیوں سے چھن چھن کر آنے والی بُلو روشنی بجھ چکی تھی۔ پھر باغ کے وسیع ویرانوں میں جھنگریوں کی آواز گہرے سناٹے کو مسلسل نوچ رہی تھی، جیسے گھُپ اندھیرے میں جگنو لگاتار ٹمٹمائے جارہا ہو۔ گویا اکیلے میں دل دھڑکے ہی چلا جارہا ہو، دھک دھک…. دھک دھک….. بڈھے انکل نے بجھے ہوئے سگار کو دانتوں سے نوچ کر ہولےسے تھوک دیا اور بے تاب سا ہو کر دھیرے سے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔ یہ دل….. یہ دل کیسا دھک دھک کرتا ہے، کیسا دھڑکتا ہے، گویا اپنی اکیلی محبت کے پیچھے بوڑھے خونخوار کتے کو منھ پھاڑے دیکھ لیا ہو، ٹھہر جاؤ…. ٹھہر جاؤ…. تمہارے پیچھے وقت کا بوڑھا کتا سرپٹ بھاگ رہا ہے، ….دورسنسان سڑک پر کانپتے ہوئے سائے نے دوبارہ سیٹی بجائی….. جسے سن کر بے بی کے کمرے کی کھڑکی کھلی، اور ایک دوسرا سایہ دھپ سے بڈھے انکل کی چھاتی پر گرا، اور وہ اپنی جگہ سے اٹھ بھی نہ سکا۔ اس کے منھ سے آواز تک نہ نکل پائی کوئی دل کے ویرانے میں کراہتا رہا…… بے بی ٹھہر جاؤ…. ٹھہر جاؤ….. بے بی…. ٹھہر جاؤ‘‘ …. مگر بے بی نکل گئی۔ بگٹٹ، جیسے کوئی اسے کھینچے لئے جارہا ہو۔

پھر رات جو جھاگ کی طرح پورے احوال پر چھا گئی تھی، دھیرے دھیرے نیچے بیٹھنے لگی۔ تب بہت دیر بعد صحن کے ایک گوشے میں اپنے پرانے مونڈھے پر بیٹھے ہوئے بڈھا انکل کے کان میں الجھی سلجھتی سانسوں کے درمیان کسی کی بے حد دھیمی چال سنائی دی۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’کہیں چوٹ تو نہیں آئی بے بی، تمہیں کہیں زخم تو نہیں لگا….. ڈارلنگ…؟‘‘

دھیمے سے بڈھے انکل کےموٹے اور کرخت لبوں سے آواز نکلی، جسے سن کر بے بی جو دھیرے دھیرے کھڑکی پر چڑھنے کی کوشش میں بار بار پھسل کر زمین پر آ رہی تھی، سہم کر کھڑی ہو گئی۔ ایک ساعت کے لئے بےبی کے جسم میں ایک سرد سی لہر دوڑ گئی، مگر وہ سنبھل گئی۔ آخر بڈھا ہی تو ہے۔ مفت کی روٹیاں توڑنے والا بیمار کتا…… اس نے آہستہ سے مگر سخت لہجے میں کہا، ’’تم ادر میں کیا کرتا سور؟‘‘

مٹی کا ایک لوتھا آخر اس ابلتے ہوئے سوتے کے منھ پر پڑا، ’’کچھ نہیں کرتا بے بی، کچھ نہیں….‘‘

’’اچھا اچھا ادر آؤ، امارا ہلپ کرو۔‘‘

’’تمہارا ہلپ یسوع مسیح کرے گا بے بی….‘‘ بڈھا انکل اس کے قریب آ کھڑا ہوا۔

’’اوہ بڈھا! تم ایسا ماپھک بات کرتا۔ امارا ہلپ کرو۔ ام اوپر جانا مانگتا۔‘‘

بڈھے انکل نے کچھ نہیں کہا۔ ایک روتی بلکتی ہوئی نظر سے اس نے بے بی کی طرف دیکھا اور آہستہ سے کھڑکی کے نیچے بیٹھ گیا۔ بے بی جلدی سے جوتے سمیت اپنے دونوں پاؤں اس کے کندھے پر رکھ کر کھڑکی کے نیچے کود گئی۔

یہ پاؤں…. یہ پھول سے پاؤں…. کتنے بھاری لگے آج، جیسے وہ منوں مٹی کے نیچے دھنس رہا ہو۔ وہ کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ بے بی پانچ کا ایک نوٹ اس کے ہاتھوں میں تھماتی ہوئی مسکرائی، ’’پپ٘ا سچ کہتا، تم بہت اچھا بڈھا۔ بہوت وفادار…….‘‘

’’پر بے بی ایک بات بولنا مانگتا۔‘‘

’’کیا؟ بولو…..‘‘ اس کے تیور چڑھ گئے۔

بڈھے انکل کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے انگلیوں میں کانپتے ہوئے نوٹ کو کھڑکی پر آہستہ سے رکھ دیا۔ ایک بار بے بی کو نظر اٹھا کر دیکھا اور چپ چاپ وہاں سے ہٹ گیا۔ ’’کچھ نہیں بولنا مانگتا…… کچھ نہیں…..‘‘

بے بی کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ بڈھا آخر کیا چاہتا ہے……؟ پہلی بار اس کے دل میں بڈھے انکل کےلئے کچھ نرمی سی محسوس ہوئی۔ پپ٘ا کہتے ہیں بڈھا انکل بہوت اچھا آدمی ہے…… بڈھا نہیں ہوتا تو وہ شاید کھڑکی پر چڑھ بھی نہیں سکتی،— لیکن بڈھا کیا بولنا چاہتا ہے…….؟

’’بڈھا تم کمرے میں ہے…..‘‘ دوسرے روز شام کو مارگریٹ بڈھے انکل کے دروازے پر کھڑی تھی۔

آفتاب کہیں ڈوب گیا۔ دھند لکا پھیل رہا تھا۔ آس پاس کی چیزیں رفتہ رفتہ آنکھوں سے اوجھل ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ کمرہ کافی تاریک تھا۔ بڈھے انکل نے صبح سے باہر قدم نہیں نکالا تھا۔ وہ اوندھا منھ بستر پر یوں پڑا ہوا تھا، گویا اس کے جسم پر بھاری بوجھ رکھ دیا گیا ہو۔ اس کی آنکھیں جل رہی تھی اور دل دھڑکتے دھڑکتے تھم سا جاتا تھا۔ پھر اس نے محسوس کیا گویا اسے بہت دور سے پکار رہا ہو۔ جیسے بے بی کے پیر کو بوڑھے کتے نے جبڑوں میں دبا لیا ہو، اور وہ بے چاری چیخ بھی نہ سکتی ہو…. کسی کو پکار بھی نہ سکتی ہو…. بڈھا تم کدر ہے…. بڈھا تم کدر ہے….

’’بڈھا تم کدر….؟‘‘

وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ سامنے کھڑی بے بی اس سے کچھ پوچھ رہی تھی۔ ’’کون بے بی….. تم ام کو مانگتا بے بی…. وہ….. وہ ہک صائب کا کتا تم کو کدر میں کاٹا….؟ بولو ام اس کو جان سے مار ڈالے گا کدر…..‘‘

مارگریٹ ہنس پڑی، ’’کدر میں کتا کاٹا….. یو بڈھا پاگل تم کو کون بولا۔ ام کو ہک صاحب کا کتا کاٹا……‘‘ وہ اندر چلی آئی ہوش سنبھالنے کے بعد غالباً پہلی بار بے بی اس کے کمرے میں آئی تھی۔ بڈھا انکل بے تابی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے فلیٹ سے مونڈھے کو صاف کیا۔ سوئچ دبا کر بتی جلائی۔ ’’بے بی تم ادر میں بیٹھو…. بے بی، کل رات ام یسوع مسیح کو بولا۔ بے بی کو ایک بار بھیج دو۔ تم پھر ابھی ایوننگ کو یسوع مسیح نے تم کو امارا پاس ٹاک کرنے کو بھیج دیا…..!‘‘

بے بی اکتا گئی….. کمرے میں چاروں طرف ایک عجیب سی بدبو پھیل رہی تھی۔ اس نے جیب سے رومال نکال کر ناک پر رکھ لیا۔ ’’بڈھا تم بہوت بات کرتا۔ تھوڑا بولو۔ کل رات میں تم کچھ بولنا مانگتا…؟‘‘

’’ہاں بے بی، کل رات میں ام کچھ بولنا مانگتا…. بے بی اپنا لوکیلٹی کا لمبا سڑک دیکھا۔ اس پر کتنا جیپ جاتا، کار جاتا۔ صائب لوگ اور میم صائب لوگ واک کرتا….. پر بے بی اپنا دل کوئی لوکیلٹی کا سڑک نہیں، اس پر سے کوئی جاتا تو بہوت تکلیف ہوتا۔ بہوت تکلیف….‘‘ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے…. ’’بائی گاڈ بے بی بولتا، بہوت تکلیف ہوتا!‘‘

’’بڈھا انکل، تم کو فیور ہے۔ تم آرام کرو۔ امارا ٹائم برباد مت کرو۔ ام جاتا….‘‘

’’نہیں بے بی…. ٹھہرو ذرا…. ٹھہرو…. بائی گاڈ ام جھوٹ نہیں بولتا۔ یسوع مسیح جانتا جب جارج….. جارج اپنا دل پر سے گزرتا تو ام کو بہوت تکلیف ہوتا، ایسا ماپھک۔‘‘ اس نے سینے پر زور سے گھونسہ مارتے ہوئے کہا۔

مارگریٹ سمجھ گئی۔ ’’بڈھا کمینہ….‘‘ دفعتاًوہ چراغ جو کل رات پچھلی پہر بڈھا انکل کے نوٹ واپس کرتے وقت جل اٹھا تھا اچانک بھڑک کر بجھ گیا ’’۔۔۔بڈھاکمینہ! تم امارا پرسنل بات میں کیوں ٹانگ اڑاتا ہے…. کتا ام تمارا آنکھ پھوڑ دے گا…. سور….‘‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’نہیں سچ بولتا بے بی! جارج اچھا نہیں، بہوت خراب، ام جانتا اپنا رابرٹ صائب کی بے بی کو خراب کیا…. وہ کتا…. سور…. بے بی اس کا ساتھ چھوڑ دو…. وہ کتا….‘‘

تڑپ کر مارگریٹ نےایک بھرپور طمانچہ اس کے گال پر جڑ دیا۔ ’’کمینہ!‘‘

بڈھا انکل تھپڑ کی تاب نہ لا کر فرش پر گر گیا۔ ’’سچ بولتا، بائی گاڈ بے بی سچ….‘‘

مارگریٹ نے زور سے ایک لات رسید کی اور گالیاں دیتی کمرے سے نکل گئی۔

پھر بڈھے انکل نے جو دن بھر بخار میں سلگ رہا تھا، یو ں محسوس کیا کہ دیوار پر لگا ہوا بلب دھیرے دھیرے مدھم ہو کر بجھ گیا اور وہ خود فرش کے نیچے ڈوبتا چلا گیا….. ڈوبتا ہی چلا گیا…. پھر بہت دیر بعد وہ فرش کی اتھاہ گہرائیوں سے ابھرا تو اس وقت آدھی سے زیادہ رات گزر چکی تھی۔ سرد ہوا کے تیز جھونکے باہر درختوں کے پتوں سے الجھ الجھ کر گزر رہےتھے اور وہ اکیلا کمرہ میں پسینے میں شرابور فرش پر پڑا ہوا تھا۔ اس کے گال پر سے ابھی تک وہ جلتا ہوا توا چمٹا ہوا تھا اس نے آہستہ سے اس پر ہاتھ پھیرا….. ’’بے بی تم ام کو مارا….. بے بی تم ام کو تھپڑ مارا ایسا ماپھک مارا….‘‘ بڈھا انکل کی آواز رندھ گئی ۔اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا تار بندھ گیا۔ پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر یوں رونے لگا جیسے بے بی کی ماں آج پھر مر گئی ہو جیسے پرانی میم صاحب جو دل کے کسی گوشے میں کراہ رہی تھی آج پھر مر گئی ہو۔ ’’بے بی تم ام کو مارا…. اپنا بڈھا انکل کو مارا….‘‘ کمرے میں اس کی سسکیاں بھٹکی ہوئی روح کی طرح پھر رہی تھیں۔… وہ اسی حالت میں اٹھا…. لکڑی کے بڑے سے صندوق میں سے پھٹے پرانے کپڑے، پرانی بے کار فل بوٹ اور ٹوٹے ہوئے چمڑے کے بیلٹ کے نیچے سے ایک میلے کپڑے کی پوٹلی نکالی۔ پھر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس نے پوٹلی کھولی، اس میں ریشم کے دو پینٹ، چھوٹے چھوٹے فراک، ایک پلاسٹک کا تڑا مڑا جھنجھنا اور دو تین ربڑ کی شہد والی چوسنی نکال کر باہر پھیلا دیں اور ایک ایک چیز کو اٹھاکر آنکھوں سے لگاتا جاتا اور پھوٹ پھوٹ کر روتا جاتا….. ’’بے بی تم ام کو مارا….. بے بی ڈارلنگ تم اپنا….. بڈھا انکل کو مارا….. تھپڑ مارا….‘‘

تھوڑی دیر بعد آپ ہی آپ چپ ہو گیا۔ پوٹلی کو اسی طرح باندھ کر صندوق میں رکھا۔ پھر اس نے میلی قمیض کی آستین سے اپنی آنکھیں پونچھیں، فلیٹ کو جھاڑ کر سر پر رکھ لیا۔ طاق سے ماچس اور ایک بہت پرانے ڈبے سے اگر بتی نکالی اور دھیرے سے یوں اٹھ کھڑا ہوا جیسے وہ سارا بوجھ جو بہت دیر سے اس کے شانے پر پڑا تھا زمین کے سپرد کر کے سبکدوش ہو گیا…. ’’یسوع مسیح! بے بی نے ام کو مارا اس کو معاف کرو، بے بی اپنا….. بڈھا انکل کو مارا، اس کو اسکیوز کرو۔ یسوع مسیح وہ کچھ نہیں جانتا، ایک دم سے بے بی ہے……‘‘

اس کے کانپتے ہوئے قدم آپ ہی آپ علاقے کے بیچ در بیچ گلیوں کو عبور کرتے ہوئے آدھی رات کو سناٹے میں ڈوبے ہوئے قبرستان میں لے آئے، پھر وہ ایک جگہ رک گیا اور ایک بہت پرانی قبر کی ٹوٹی پھوٹی دیوار کے پیچھے بیٹھ کر اگر بتی جلائی۔ پھر اپنے گال پر ہاتھ پھیرنے لگا….. ’’میم صائب سچ بولتا….. اپنا بے بی آج مارا گال پر مارا….. بائی گاڈ مارا…..‘‘ پھر وہ رونے لگا۔ ’’ام اس دنیا میں نہیں رہنا مانگتا….. میم صائب اب اس دنیامیں ام نہیں رہنا مانگتا….. ام تمارے پاس آئے گا…. تم ام کو اپنے پاس بلالو…… بے بی بولتا، امارا پرسنل بات میں ٹانگ مت اڑاؤ۔ وہ ام کو سور بولتا۔ یسوع مسیح اس کا ہلپ کرے…. وہ اب بہت بڑا ہو گیا میم صائب…. اب اس کو امارا ضرورت نہیں۔ ذرا بھی ضرورت نہیں…. اب ام اس کا پرسنل بات میں ٹانگ نہیں اڑائے گا…. اب اپنا بے بی بہوت بڑا ہو گیا….. اب کبھی نہیں ڈسٹرب کریگا…. بائی گاڈ کبھی نہیں ڈسٹرب کرے گا…..‘‘

پھر بہت دیر ہو گئی، اور رات کو سرد ہوا اس کی ہڈیوں میں گھس کر سیٹیاں سی بجانے لگیں، تو بڈھے نے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا پڑھی۔ پھر انگلیوں سے سینے پر صلیب بنائی اور سردی سے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنے آنسو خشک کرتا اور منھ ہی منھ میں بدبداتا گھر واپس آ گیا۔ ’’اب کبھی نہیں ڈسٹرب، کرے گا….. اپنا بے بی بہت بڑا ہو گیا۔ اس کو امارا کوئی ضرورت نہیں۔ اب کبھی نہیں کچھ بولے گا……. یسوع مسیح! اس کا ہلپ کرو۔‘‘

سات دنوں تک سیاہ آندھیاں اور جھک٘ڑ چلتے رہے۔ تیز اور سرد آندھیاں…. سات دنوں تک وہ بخار کی شدت میں تڑپتا رہا، اور خداوند یسوع سے دعا کرتا کہ آندھیوں کی زد میں جلتا ہوا چراغ بجھ جائے، مگر چراغ نہیں بجھا…. سات دن تک چراغ کی ڈوبتی ابھرتی لو تھر تھراتی رہی…. تھرتھراتی رہی……

اور اب کئی مہینے ہو گئے۔ وہ دن بھر چپ چاپ کمرے میں اوندھے منھ بستر پر پڑا رہتا۔ آنکھیں کھولے اور دیوار کو تکتا رہتا۔ وہ اب ہر صبح نہا دھو کر صاحب کو گڈ مارننگ کہنے نہیں جاتا، بلکہ ہفتے دو ہفتے میں ایک آدھ بار جاتا اور ضرورت کی چیزوں کے لئے پیسے لے کر گردن جھکائے واپس چلا آتا۔ حتٰی کہ خواہش ہونے پر بھی خلاف معمول بے بی کے کمرے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ علاقے کے لوگوں کو تعجب ہوتا کہ اب بڈھا انکل ٹھہر کر چلنے والا،ڈھیلے ڈھالے پتلون اور میلے فلیٹ پہنے ہوئے بڈھا انکل جو راستہ طے کرتے وقت ہر آنے جانے والے صاحب کو گڈ مارننگ اور گڈ ایوننگ کہنے سے نہ چوکتا تھا، اب یوں گردن جھکائے ہوئے سامنے سے گزر جاتا ہے گویا وہ یہاں کا رہنے والا ہی نہ ہو۔ بعض لوگ بڈھا انکل کہہ کر اسے پکار بھی لیتے تو آہستہ سے گردن اٹھا کر مسکرا دیتا اور پھر ٹھہر ٹھہر کر چلتا ہوا اپنے کمرے میں آ جاتا…. صاحب کو تشویش ہوئی۔ ’’بڈھا انکل تمارا طبیعت اچھا نہیں رہتا۔؟‘‘

’’نہیں صائب، اچھا رہتا ہے۔ ام سرونٹ ہے، سرونٹ ماپھک رہتا!‘‘

پھر جس دن اس کے سامنے سے نئی میم صاحب گزر گئی اور اس نے اپنی جگہ سے اٹھ کر سلام کر نے کی بجائے گردن جھکائے حسب دستور جوتے سے میل اتارتا رہا تو نئی میم صائب بگڑ گئیں۔

’’یو بلاڈی بڈھا! تم ام کو اب سلام بھی نہیں بولتا۔ بڈھا تم کتا….سور….بالکل سور…‘‘

بڈھا انکل آہستہ سے اٹھ کھڑا ہوا، ’’سچ بولتا میم صائب ام کتا، ام سور….‘‘ اس نے سر سے فلیٹ اتار لی اور جھک کر سلام کیا،’’یہ سور تم کو سلام کرتا میم صائب، ام سے بھول ہوا….. ام کو اسکیوز کرو۔‘‘ یہ کہتا ہوا وہ اپنے کمرے میں چلا گیا، لیکن اس کی بے حسی بڑھتی گئی….. بڑھتی گئی۔ تہ در تہ گویا سیمنٹ کا پلاسٹر چڑھایا جا رہا ہو، اور اس پلاسٹر کے اندر سے بڈھے انکل کی کیچ بھری آنکھیں ٹکر ٹکر تک رہی تھیں بے حس، بے اثر …سرد اور بے جان آنکھیں…اس کی بے حسی بڑھتی گئی…. بڑھتی گئی….. اور اچانک اس را ت تڑخ گئی جس رات ڈرائنگ روم سے بے بی کی چیخوں کی آواز مسلسل آتی رہی، اور اس کے احساس پر نشتر چبھوتی رہی، اس رات وہ تڑپ اٹھا۔ وہ بے تابا نہ اٹھ کر دہلیز تک گیا۔ پھر کچھ یاد کر کے واپس آ گیا۔ ’’نہیں، سرونٹ کو نہیں بولنا چاہیے۔ نہیں یہ ان کا پرسنل بات ہے، اس میں دخل نہیں دینا چاہیے…. مگر بے بی؟‘‘ بے بی چھ سالہ بچوں کی طرح چیخ رہی تھی، اور گڑ گڑا کر پپ٘ا اور ممی سے معافی مانگ رہی تھی۔ ’’نوپپ٘ا…. نوپپ٘ا…. اسکیوزمی….. پپ٘ا پپ٘ا…..‘‘

بڈھا انکل کے قدم رک گئے….. ’’پپ٘ا پپ٘ا…..‘‘ گویا بے بی بہت دور سے انیس برس کی دوری سے اسے پکار رہی ہے…. ’’نو پپ٘ا، نوپپ٘ا…..اسکیوزمی، اسکیوزمی….. پپ٘ا پپ٘ا….. مائی پپ٘ا…..‘‘ بڈھا انکل کے لب ہولے ہولے کانپنے لگے…… دھواں کی طرح پیچ کھائی ہوئی ایک الجھتی ہوئی آواز اس کے دل کی گہرائیوں سے ابھر کر اس کے حلق میں پھنس پھنس جاتی تھی….اس کے لب ہل رہے تھے۔

’’پپ٘ا پپا٘…… مائی پپ٘ا….‘‘ گویا ہک صاحب کا کتا، بے بی کی نازک ٹانگ کو اپنے جبڑے میں دبائے ہوئے ہے، اور وہ زور سے اسے پکار رہی ہو۔ پھر وہ اچانک پلٹ پڑا… ’’بے بی……ای ای…… ام آتا ہے۔ بے بی….. مائی بے بی…..‘‘ برسوں کی دبائی ہوئی آواز اس کے حلق سے یوں نکلی گویا آتش فشاں کا دہانہ پھٹ پڑا ہو۔ وہ لپکتا ہوا ڈرائنگ روم کے دروازے پر آ کر رک گیا۔ پھر دوڑتا ہوا صاحب کے سامنے جھک کر کھڑا ہو گیا۔ ’’نہیں صائب! نہیں صائب!! بے بی کچھ نہیں جانتا…. ام بولا وہ جارج کتا…. وہ جارج سور…..‘‘

صاحب نے بید دور پھینک دی۔ ’’بڈھا، تم جاؤ ابھی…. فوراً جاؤ…. ابھی ام نہیں مانگتا…..‘‘

’’جاتا صائب…. ابھی جاتا…..‘‘ بے بی اس کے سامنے اوندھے منھ فرش پر پڑی سسک رہی تھی۔ اس میں رونے تک کی سکت نہیں تھی۔ بڈھا انکل نے پیار سے اس کی پشت پر ہاتھ پھیرا…. ’’جاتا ہے صائب، پر بے بی کو اب نہیں مارو صائب۔ بے بی کچھ نہیں جانتا….. یسوع مسیح جانتا اپنا بے بی ایک دم اچھا والا…..‘‘

’’ام بولتا سور تم روم سے باہر جاؤ….. فوراً جاؤ۔‘‘

’’ابھی جاتا صائب…. ابھی جاتا….‘‘ اس نے پھر ایک بار بے بی کے جسم پر ہاتھ پھیرا….. پھر وہ ایک ساعت کے لیے کھو گیا۔ بھٹکتا ہوا بہت دور نکل گیا….. جہاں افق اور زمین آپس میں مل جاتے ہیں اور بجز ایک موٹے کچے بید سے کچلے ہوئے جسم کی ہر چیز نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ پھر بڈھا انکل نے چونک کر اپنی ہتھیلی کو دیکھا اور آہستہ سے بڑے آہستہ سے جیسے گلاب کی پنکھڑیوں سے شبنم چن رہا ہو، ہتھیلی کو اپنے ہونٹوں سے لگاتا ہوا باہر نکل گیا۔ پھر اپنے بستر پر گر کے رات بھر یوں تڑپتا رہا گویا صاحب نے بے بی کو نہیں پرانی میم صائب کو مارا ہو گویا اس کے دل کے نازک ترین حصے پر مسلسل بید کی بارش کر دی ہو…..’’نہیں صائب…. نہیں صائب، اب نہیں…. اب نہیں…..!‘‘

دوسرے دن صاحب دوپہر میں خود بڈھا انکل کے کمرے میں آیا اور رات کے سلوک کیلئے معافی مانگی،’’ام کو معاف کر دو بڈھا انکل….. تم سچ بولتا جارج سور…. وہ بالکل سور…. ام اس کو شوٹ کردے گا….. وہ کتا یہاں سےبھاگ گیا۔ پر اپنا بے بی کا کیا کرے گا….؟ اس کا میرج کا بات کلکتہ میں ایک لڑکا کے ساتھ پکا کیا۔ لڑکا بہت اچھا….. وہ چار سو روپے پاتا…… اور ولسن صائب کا وائف کا انٹی ہوتا، اس کو کیس معلوم ہو جانے سے امارا عزت مٹ٘ی میں مل جاتا….. وہ لڑکا ایک مہنہ بعد ادر میں آنا مانگتا….. پر بے بی….. بے بی…….‘‘ وہ رونے لگا…. ’’بے بی نے امارا منھ پر کیسا ماپھک تھپڑ مارا بولو….. کیسا ماپھک تھپڑ مارا…..‘‘ وہ سبک سبک کر رونے لگا۔ بڈھا انکل کی آنکھوں سے بھی جھر جھر آنسو گرنے لگے۔

پھر اس کے بعد وہ قہر کی رات بھی آئی، جب فسادات کی وجہ سے سارے شہر میں کرفیو نافذ تھا اور نادان بے بی ایک ناجائز بچے کو جنم دے رہی تھی اور فطرت کی طرف سے شاید یہ سب سے بڑی سزا تھی کہ میز پروہ تار بھی پڑا ہوا تھا، جس میں بے بی کے ہونے والے شوہر نے کلتہا سے اپنی آمد کی اطلاع دی تھی!

بڈھا انکل نے دوسری بار محسوس کیا کہ آج کی رات اس بے مصرف دنیا کی آخری رات ہے اور کل کے بعد شاید کوئی زندہ باقی نہ بچے گا۔ پھر اس نے نظر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا، جہاں چمکتا ہوا خوبصورت چاند کبھی بادل میں ڈوب جاتا کبھی ابھرتا…… بڈھے انکل کے دل میں آیا کہ وہ آس پاس کے بنگلوں میں سو ئے ہوئے بچوں کو جھنجھوڑ کر اٹھائے اور ایک ایک سے پوچھے کہ دنیا اتنا بیوٹی فل کیوں ہے؟ اور جب بچے مون کی طرف اشارہ کر دیں تو ان سے یہ بھی پوچھ ڈالے کہ بابا لوگ اگر آج اپنا مون کو گرہن لگ گیا تو……؟

’’بابا لوگ بولو….؟‘‘

’’بابا لوگ…… بابا….. لو….‘‘

’’کیا بولتا بڈھا انکل؟‘‘

’’کچھ نہیں صائب….. کچھ نہیں….‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا…. ’’ام بابا لوگ سے پوچھتا اپنا مون وہ بادل میں ڈوب گیا تو پھر کیا ہوگا۔ ام اس اندھیرا دنیا میں بابالوگ کو کدر سے کنگ کا کہانی سنائے گا۔ کیسا ماپھک کہانی سنائے گا صائب؟‘‘

’’ابھی ایسا ماپھک مت بولو انکل…. ابھی کچھ نہیں بولو….. ابھی آسنسول سے صاحب کا فون آیا۔‘‘ وہ بولا…. ’’ادر میں رابسن صاحب کلکتہ سے آیا۔ ادر میں کرفیو ہے۔ وہ کل مورننگ کو آئے گا….. کل مورننگ…. تم امارا ایک کام کرو بڈھا انکل…. ام تمارا بہوت تھینکس بولے گا…. بائی گاڈ اپنا بے بی کے لائف کے واسطے ایک کام کرو…. کرے گا انکل؟‘‘

’’کرے گا صائب…. اپنا بے بی کے واسطے اپنا لائف دیدے گا بولو صائب…. ضرور کرے گا….‘‘

’’امارا ساتھ اوپر آؤ…..‘‘ صاحب نے عجیب نظروں سے ایک بار بڈھا انکل کا جائزہ لیا اور اوپر چلا گیا۔ ’’ادر آؤ بڈھا انکل…..‘‘ بڈھا انکل سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر پہنچ گیا۔

پھر جب اس نے صاحب کے حکم کے مطابق گندے خون آلود چیتھڑے میں لپٹے ہوئے مردہ بچے کو میز سے اٹھا کر اپنے سینے سے لگایا تو ایسا لگا جیسے ایک بھاری بوجھ اس کے ہاتھو میں آ پڑا ہو۔ پھر یکا یک اس کا دل بڑے زور سے دھڑکا اور دھڑک کر اچانک رک گیا۔ گویا اس نے مارگریٹ کے جسم کو نوچ کر یہ لوتھڑا الگ کر لیا ہو۔ انیس برس قبل جب اس نے بے بی کے گرم جسم کو اپنے بازوؤں پر لیا تھا تو اس کے سارے جسم میں ایک گرم لہر دوڑ گئی تھی اس کی گردن فخر سے تن گئی تھی، پھر اس نے یوں محسوس کیا تھا جیسے ساری دنیا اس کے توانا بازوؤں میں آ لیٹی ہو۔ ایک گلاب کے پھول کی طرح ہلکی ہو کر، خوبصورت ہو کر…. مگر آج یہ بوجھ کتنا بھاری ہے….. آج کی دنیا کتنا گراں بار ہو گئی ہے…. انیس برس میں اس پھول کی طرح نرم و نازک دنیا کا وزن کتنا بڑھ گیا ہے…. اس نے آہستہ سے لوتھڑے کو میز پر رکھ دیا۔ ’’نہیں صائب! ام اتنا بھاری نہیں اٹھا سکے گا…. اپنے پاس اتنا طاقت نہیں…….نہیں اٹھا سکے گا!‘‘

پھر صاحب جو بڈھا انکل کو حیرت سے تک رہا تھا، بدحواس ہو گیا اوراس نے لپک کر بے اختیارانہ طور پر اس کے پاؤں پکڑ لئے۔ ’’مارننگ میں رابسن صاحب آتا….‘‘ وہ بہت دیر تک بڈھا انکل کے پاؤں پکڑے اسے اونچ نیچ سمجھاتا رہا….’’اپنا بے بی…. اپنا بے بی کتا ماپھک مر جائے گا۔ اپنا بے بی…. اپنا بے بی…..‘‘

’’اپنا بے بی……‘‘

’’اپنا بے بی…… کتا ماپھک مر جائے گا….. کتا ماپھک مرجائے گا….. کتا ماپھک۔‘‘

جیسے پرانی میم صاحب بہت دور سے گھگھیا رہی ہو۔ ’’اپنا بے بی…. اپنا بے بی…. کتا ماپھک مر جائے گا۔‘‘

اس نے ہڑ بڑا کر میز سے لوتھڑے کو اٹھا لیا….. ’’نہیں…. نہیں ایسا ماپھک نہیں مرے گا…..‘‘ اس نے اپنے سینے پر صلیب بنائی….. ’’ایسا ماپھک کبھی نہیں ہو گا…. یسوع مسیح امارا ہلپ کرو….‘‘ وہ تڑپتا ہوا کمرے سے بھی باہر نکل گیا۔ برآمدے میں صاحب نے اسے روک کر پھر تاکید کی۔

’’ادر سے نہیں انکل، ادر پولیس ہوتا….. اس طرف سے۔‘‘ صاحب نے پچھواڑے کی طرف اشارہ کیا جہاں لو کیلٹی کے گندے پانی بہنے کے لےپ ایک بڑا سا نالہ بہت دور نکل گیا تھا۔ ’’ادر اتنا دور پھینک آؤ کہ لوکیلٹی سے بہت دور….‘‘

یہ قہر کی رات، یہ ہو کا عالم…. بڈھے انکل نے نگاہیں اٹھا کر دیکھا۔ چاروں طرف گہری خاموشی اور بلا کا سناٹا چھا رہا تھا۔ آسمان پر سیاہ بلول مسلط تھے۔ گند ے نالے کے کنارے کنارے چلتا ہوا جب کرفیو کی اس بھیانک رات میں پولیس کی نگاہوں سے بچتے بچاتے شہر کے حدوداربعہ میں قدم رکھا تو سرد ہوا کے تیز جھونکوں کے باعث اس کے پنڈلیاں برف کی طرح سل ہو رہی تھیں۔ دل دھڑک رہا تھا، اور اس کے بازو پر پڑا ہوا بوجھ لمحہ بہ لمحہ بھاری ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے ایک جھاڑی کے کنارے اس لوتھڑے کو رکھ دینا چاہا….. لیکن کل پولیس کی نظر پڑ گئی…. اور وہ لوکیلٹی میں پوچھتا پوچھتا آ گیا تو….؟ وٹسن صاحب کی بیوی ضرور اشارہ کر دے گی….. پھر بے بی!

عین اسی وقت ٹارچ کی تیز روشنی اس کے جوتے کو چھوتی ہوئی آگے نکل گئی۔ وہ ہڑ بڑاتا ہوا خاردار جھاڑیوں میں لڑھک گیا…. ٹارچ کی روشنی ایک بار پھر اس کے ارد گرد گھوم پھر کر سفید خون آلود چیتھڑے پر رک گئی…. پھر بجھ گئی….. ذرا توقف کے بعد پھر جل اٹھی اور چیتھڑے پر جمی رہی….. بڈھا انکل کا دل دھڑک کر پھر اچانک رک گیا۔ اس کی سانس تھم گئی اور اس کا سارا وجود کھینچ کر گویا آنکھوں میں آ گیا ہو….. بتی بجھ چکی تھی…. اور قریب کی واٹر ٹنکی کے نزدیک بیٹھے ہوئے سپاہیوں کے درمیان مکھیوں سی بھنبھناہٹ شروع ہو گئی تھی۔ لیٹے لیٹے بڈھا انکل نے لوتھڑا کو پکڑا، جیب سے اپنا سفید رومال نکال کر وہاں رکھ دیا اور لیٹا لیٹا کانٹوں پر سے گزرتا گندے نالے کے کنارے کنارے رینگتا ہوا کچھ دور نکل گیا۔ دس قدم چلنے کے بعد پھر ٹارچ کی تیز روشنی آئی اور اس کے سارے جسم کو چھوتی ہوئی گزر گئی۔ وہ ہڑ بڑا کر زمین میں جھک کر دوڑنے لگا۔ جیسے کوئی جانور تیزی سے بھاگ رہا ہو۔ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔ ٹانگیں تھر تھر کانپ رہی تھیں۔

’’کون ہے….. کون آدمی ہے؟‘‘ ڈیوٹی پر کھڑے سپاہی نے چیخ کر کہا۔ بڈھا انکل کے قدموں کی رفتار اور تیز ہو گئی۔ ’’کون آدمی ہے….. ٹھہر جاؤ…. ٹھہر جاؤ…. ورنہ شوٹ کر دیئے جاؤ گے۔‘‘

اس کے پاؤں اچانک تھم گئے۔ سرد ہوا کا تیز جھونکا تاپر ہوا سا اس کی کنپٹیوں سے چھوتا ہوا نکل گیا جس کے باعث اس کی کنپٹیاں پسینے سے بھر گئیں مگر بے بی…. بے بی…!

وہ بے اختیاری طور پر دوڑ پڑا…. دوڑتا گیا…. دور سے پھر آواز آئی۔ ’’کون سور کا بچہ دوڑتا ہے۔ ام ابھی شوٹ کردے گا…. ٹھہر جاؤ….. ون؟‘‘

لیکن بڈھا انکل لوتھڑے کو سینے سے لگائے بہ دستور دوڑتا گیا… ’’ٹو!‘‘

اس کے پاؤں سست پڑے…. سارے جسم میں چنگاریاں سی دوڑ گئیں۔ ’’تھری!‘‘ وہ پھر جھکے جھکے جانوروں کی طرح تیزی سے دوڑنے لگا۔ عین اسی وقت تڑاخ سے ایک آواز خاموش فضا میں ابھری اور اس کی بائیں پنڈلی میں دہکتا ہوا ایک انگارہ گھس گیا۔ اس کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رکی پھر لمحہ بھر میں وہ انگارہ اس کے سارے جسم میں یہاں سے وہاں تک دوڑتا ہوا پھر بائیں پنڈلی میں آ کر پھنس گیا۔ ایک ساعت میں سب کچھ ہو گیا۔ سارا جسم پسینے سے تر ہو گیا۔ مُردہ بچہ ہاتھ سے گر پڑا۔ آندھیوں کی زد میں رکھا ہوا چراغ بجھنے لگا….. تھر تھرانے لگا۔ یسوع مسیح….. یسوع مسیح…. اپنا بے بی….‘‘ پھر اچانک اس نے اپنے آپ کو سنبھالا…. گندے کپڑے میں لپٹے ہوئے بچے کو لپک کر اٹھا لیا….. بائیں پنڈلی پر آہستہ سے ہاتھ پھیرا۔ پھر دھیرے سے گندے نالے میں اتر گیا…. نالے میں کسی نے خاموشی سے اس کے وجود کو تھام لیا۔‘ جیسے اس کا وجود اچانک روئی کے گالے میں بدل گیا ہو۔ کوئی اکھڑتی ہوئی گرم سانس اس کے چہرے کو چھو گئی، کوئی جانے پاوجنے ہاتھوں نے اس کے جسم میں پتہ نہیں کہاں سے بلا کی طاقت بھر دی۔ بڈھا انکل نے نظر اٹھا کر دیکھا…. تقریباً تین فرلانگ کے بعد نالہ بائیں طرف مڑ گیا تھا۔ اس نے آہستہ سے سینے پر صلیب بنائی۔ ’’یسوع مسیح امارا ہلپ کرو…. یسوع مسیح ام کو تھوڑا دیر بعد موت دینا۔ ابھی اپنا بے بی کا آخری کام کرتا…. ابھی نہیں مرنا مانگتا…..‘‘ پھر اس نے بچے کے چیتھڑے کو زخم میں بھر لیا اور تیزی سے نالے میں بائیں طرف گھسٹنے لگا۔ جب کافی دیر ہو گئی اور ہو تین فرلانگ طے کر کے موڑ کے قریب پہنچا جہاں نالے کے اوپر تھوڑی دور تک پل کے لئے لمبے لوہے کی شیٹ ڈال دی گئی تھی تو عین اس شیٹ پر چند مسلح سپاہیوں کو دیکھ کر وہ کانپ گیا اس چدرے کے نیچے نالہ انتہائی تنگ ہو گیا تھا۔ گندہ پانی چھل چھل کرتا اس کے جسم کو بھگوتا ہوا گزر رہا تھا۔ لوہے کی چدروں پر بھاری بوٹوں کی آواز برابر آ رہی تھی اس کا جسم رفتہ رفتہ اپنی طاقت کھو رہا تھا۔ سردی انتہا کو پہنچ گئی تھی اس کا جسم برف کی سل کی طرح سرد ہوتا جا رہا تھا۔ گردن آہستہ آہستہ ایک طرف کو جھولنے لگی…. اوپر بوٹوں کی آواز رک گئی پھر دھیرے دھیرے یوں کئی منٹ گزر گئے اسے احساس تک نہ ہوا۔ پھر بڈھے انکل کے قریب بے بی مارگریٹ اوندھی فرش پر پڑی چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی……’’نوپپ٘ا…… نوپپ٘ا….. اسکیوزمی…… پپ٘ا۔ پپ٘ا….!!‘‘ اس نے ہڑ بڑا کر بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھول دیں۔ زور سےگردن کو جھٹکا دیا۔ گندہ پانی کافی جمع ہو گیا تھا۔جو اب اس کی گردن کو چھوتا ہوا گزر رہا تھا۔ تھوڑی سی جگہ میں کپڑے میں لپٹا ہوا مردہ بچہ سطح پر چکر کاٹ کاٹ کر اس کی ٹھوڑی سے ٹکڑا رہا تھا….. گویا اس کے ہاتھوں سے نکل بھاگنا چاہتا ہو۔ اس نے لپک کر اسے پکڑ لیا۔ عین اسی وقت اوپر آئرن شیٹ پر کئی جوتوں کی آواز ابھری۔ مچ مچ…. چرچر…. چراک…. چراک…. چرچر…. جیسے کوئی اس کے سر پر چل رہا ہو…… پھر آواز رک گئی اور اوپر سے باتوں کی آواز آنے لگی۔ بڈھا انکل نے اپنے آپ کو سنھالا اور اس تنگ راستے میں گھسٹتا گھسٹتا گھوم گیا…. دم سادھے نالے کے اس موڑ کو عبور کر کے وہ باہر پھیلاؤ میں آیا۔ تو اس کا دل اچانک ڈوبنے سا لگا۔ پانی میں شرابور کپڑے اسے بہت بھاری معلوم ہوئے۔ قریب ایک بھاری پتھر پڑا تھا۔ بڈھا انکل نے اس پتھر کو آہستہ سے ہٹایا۔ اس کے نیچے کی مٹی گیلی تھی۔ دھیرے دھیرے اس نے گیلی مٹی کو ہٹا کر ایک گڈھا سا بنایا چھوٹے سے بچ٘ے کو گڑھے میں رکھنے سے پہلے چتھڑا ہٹا کر اس نے چہرہ دیکھنا چاہا…. مگر رات بے حد تاریک تھی۔ اندھیرا بے حد گھنا تھا۔ اس کی آنکھیں اس گھپ اندھیرے میں پتھرا کے رہ گئیں۔ پھر اس نے آہستہ سے اپنی انگلیاں مردہ بچے کے چہرے پر پھیرنا شروع کردیں۔ رفتہ رفتہ دل کے ویرانے میں پھول سے کھلنے لگے۔ گویا انیس برس قبل والی ننھی مارگریٹ اس کی گود میں ہو اور وہ موم کے سرخ گالوں پر انگلیاں پھیر رہا ہو….. پھر اچانک بائیں ٹانگ میں ایک ٹیس اٹھی اور اس کے جسم کی ساری رگوں کو کھینچتی ہوئی نکل گئی۔ بڈھے انکل نے جلدی سے بچے کو گڑھے میں رکھ کر اس پر سے چٹان رکھ دیا اور وہ چٹان جو دو تین گھنٹے سے اس کے وجود کو کچلے ہوئے تھی، آپ ہی آپ اتر گئی۔

’’بائی گاڈ ام مرنا مانگتا….. ایک دم مرنا مانگتا…. یسوع مسیح‘‘ مگر وہ پھر رک گیا۔ ’’لیکن ادر میں نہیں….. اُدر میں اپنا روم میں…. اپنا روم میں….. اپنا بے بی کے سامنے میں…..!‘‘ وہ لپکتا ہوا نالے کے کنارے چلنے لگا….. پھر ایک بڑے سے پتھر کا سہارا لے کر باہر آ گیا اور داہنی طرف علاقے کے بنگلوں کی کیاریوں کے کنارے کنارے چلتا اپنے آپ کو پولیس سے چھپاتا ہوا صاحب کے بنگلے کے گیٹ پر آیا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ اس نے اپنی زخمی ٹانگ پر ہاتھ پھیرا اسی وقت بڑی زور کی ابکائی آئی جسے اس نے منھ پر ہاتھ رکھ کر روکنا چاہا مگر اندر سے گرم گرم پانی کے ساتھ روٹی کے ٹکڑے ابل ہی آئے۔ سر چکرایا پھر زور سے ایک بار قے ہوئی اور دھڑام سے زمین پر گر گیا…. پھر بڈھے انکل نے محسوس کیا گویا نالے کا گندہ پانی اس کے اوپر سے گزرنے لگا ہو اور مردہ بچہ چیتھڑے میں لپٹا ہوا اس کے سر کے پاس ناچ رہا ہو اور وہ اس کے نیچے پیاس کی شدت سے تڑپ رہا ہے اس کے حلق میں آگ سی لگنے لگی۔ پھر وہ سو گیا۔ بڑی گہری نیند سو گیا۔

بہت دیر بعد جاگا تو اس نے دیکھا نالے کا گندہ پانی گزر گیا ہے اور وہ گہری تاریک رات…. وہ قہر کی رات….. آخری رات بھی گزر چکی ہے….. اور وہ مرا نہیں، بدستور زندہ ہے۔ ڈاکٹر نے تیسرا انجکشن دیا اس کی آنکھیں کھل گئیں۔

’’بڈھا انکل، اب کیسا ہے؟‘‘

’’اپنا بے بی کیسا ماپھک ہے صائب….؟ اپنا بے بی کو ہک صائب کا کتا کاٹا…. بائی گاڈ ام کو بھی کاٹا اور دیکھو۔‘‘ اس نے اپنی زخمی ٹانگ پر ہاتھ پھیرا جو سفید پٹیوں سے بندھی ہوئی تھی۔ ’’دیکھو ادر میں کاٹا….‘‘

’’اپنا بے بی اچھا ہے….. بڈھا انکل تم دودھ پیؤ۔‘‘ اس نے گلاس بڑھایا۔ ’’تم کو کوئی کتا نہیں کاٹا….. بے بی کو بھی نہیں کاٹا…..یسوع مسیح بہوت ٹھیک کرتا…..‘‘

’’بے بی کو بھی نہیں کاٹا۔ ام کو بھی نہیں کاٹا…. اپنا بے بی اچھا…..‘‘ اس نے عقیدت سے آنکھیں بند کر لیں۔ سینے پر صلیب بنائی اور انگلیوں کو چوم لیا…. ’’یسوع مسیح ٹھیک کرتا۔ سب ٹھیک کرتا….‘‘

پھر ڈاکٹر صاحب چلے گئے اور وہ بہت دیر تک گردن گھما گھما کر کھڑکی سے مارگریٹ کے کمرے کی طرف دیکھتا رہا، جہاں کھڑکی پر پڑا سرخ رنگ کا ریشمی پردہ آہستہ آہستہ ہوا میں ہل رہا تھا۔ پرسکون انداز میں گویا گھنٹوں لڑنے کے بعد بوڑھا بیل تھک کر بیٹھ رہا ہو اور دھیرے دھیرے ہانپ رہا ہو۔ ابھی بے بی دودھ پی رہی ہو گی…. ابھی بے بی بسکٹ کھا رہی ہوگی….. ابھی اس نے بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لی ہوں گی….. اب وہ سو رہی ہو گی۔ بے بی آنکھیں بند کئے سو رہی ہے۔ گہری نیند کا غلبہ ہو چکا ہے۔ اس کے نتھنے آہستہ آہستہ پھڑ پھڑا رہے ہیں….. جیسے کھڑکی کا ریشمی پردہ ہل رہا ہو…..اس کے دل میں آیا کہ وہ ایک بار بے بی کی پیشانی پر ہاتھ پھیرے…… ’’بہوت تھک گئی ہو میری بچی…. بہوت جاگی ہو نا…. مہینوں سے سو نہیں پائی ہو۔ اس لئے اب یہ آرام کی نیند بہوت پیاری لگ رہی ہے۔ مجھے بھی بہوت پیاری لگ رہی ہے، تماری یہ نیند بے بی….. بہوت پیاری….. میں تماری پیشانی پر ہاتھ پھیروں گا تو کیا تم جاگ پڑوگی؟۔ کیا تم جاگ پڑوگی۔ نہیں جاگوگی نا، نہیں جاگنا….‘‘ اس کے دل میں قطرہ قطرہ کر کے شبنم گرتی رہی۔ ’’میرے پودے کی جڑوں میں یہ کیسی خراش پڑ گئی خداوند….. کیسی خراش…..؟‘‘

بڈھا انکل آہستہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ بائیں پاؤں میں آگ سی سلگ اٹھی ۔ اس نے رانوں پر ہاتھ پھیرا….. پھر وہ تھرتھرانے لگا تو پلنگ پر بیٹھ گیا، ’’یسوع مسیح! ام اُدر میں جانا مانگتا…. امارا ہلپ کرو… ادرمیں بے بی کے ماتھے پر ہاتھ پھیرنا مانگتا….. بے بی سوتا….. اس کو کس کرنا مانگتا….‘‘

مگر بڈھا انکل کا زخمی پاؤں بدستور دکھتا رہا اور تھر تھراتا رہا۔

لیکن سہ پہر ہوئی اور کلکتہ والے رابسن صاحب نے اپنی آنٹی کے ہمراہ دہلیز میں قدم رکھا تو وہ غیر اختیاری طور پر اٹھ کھڑا ہوا اور دیواروں کا سہارا لیتا ہوا مارگریٹ کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ جہاں مہمانوں کے ساتھ صاحب اور نئی میم صاحب بھی موجود تھے۔

’’بے بی بیمار ہے۔ تین ہفتے سے اسے بخار تھا۔ کل ہی تو بخار چھوٹا ہے۔‘‘ صاحب نے مہمانوں سے کہا۔

عین اسی وقت صاحب کی نظر پلنگ کے نیچے گئی۔ جہاں خون سے لت پت ایک تولیہ پڑا ہوا تھا اور جسے رابسن صاحب کی آنٹی بڑے غور سے دیکھ رہی تھیں۔

’’یہ تو لیہ…..؟‘‘ آخرش آنٹی نے تو لیے کی طرف اشارہ کیا۔

’’کون سا تولیہ….؟ ارے یہ تولیہ کہاں سےآیا اور….؟‘‘ صاحب گھبرا کر نئی میم صاحب سے مخاطب ہوا۔ اس کا چہرہ فق ہو رہا تھا۔ خود بے بی جو دھیرے دھیرے مسکرا رہی تھی زرد پڑ گئی۔

عین اسی وقت بڈھا انکل نے گردن جھکا کر تولیہ کی طرف دیکھا اور لپک کر گرتے گرتے تولیہ کو جھپٹ لیا۔ ’’…یہ امارا ہوتا صائب…. یہ امارا ہوتا۔‘‘ اس نے اپنی زخمی ٹانگ کے پائینچے کو اوپر کھینچ کر پنڈلی والے زخم کو سامنے کر دیا۔ سفید پٹی چلنے کے باعث خون سے بھر گئی تھی۔

میم صاحب نے بڈھے انکل کو زور سے ایک لات ماری۔ ’’سور تم اپنا گندہ کپڑا ادر میں کائے پھینکتا۔‘‘

ضرب کی تاب نہ لا کر وہ اوندھے منہ فرش پر گر گیا….. اس کی آنکھوں کے سامنے سیاہ دھبے ابھرنے ڈوبنے لگے۔ پھر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا۔ انگلیوں کو فرش پر ٹیک کر کھڑا ہو گیا۔

’’بولو تم گندہ کپڑا کا ہے کو ادر لایا…..؟‘‘ صاحب نے بھی بناؤٹی غصہ سےکہا۔

بڈھا انکل نے پلٹ کر صاحب کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی، عجیب سی بے چارگی جیسے اس نے اگر جواب نہیں دیا تو صاحب پھر اپنا سر اس کے قدموں پر رکھ دے گا اور گڑ گڑا کر کہے گا۔ ’’بولو انکل…. بولو….. اپنا بے بی کے لائف کے واسطے بولو….‘‘

’’ام نہیں لایا صائب….‘‘ اس نے گھگھیاتے ہوئے کہا۔ ’’ام نہیں، اپنا ٹائیگر لایا….. اپنا کتا امارا روم سے لایا۔‘‘

پھر بڈھا انکل گھسٹتا ہوا تولیہ لئے کمرے سے نکل گیا….. کھڑکی سے گزرتے ہوئے اس نے نئی میم صاحب کی آواز سنی جو صاحب سے کہہ رہی تھی….’’صاحب کو کتنی بار کہا۔ اس حرام کا کھانے والا کتا کو نکال دو۔ مگر پتہ نہیں صاحب کیوں اسے نہیں نکالتا….. بے بی تو اس سے بے حد نفرت کرتی…. بے حد نفرت…..‘‘

پھر وہ قریب والے صوفے پر بیٹھ گئے۔ بڈھا انکل نے دیکھا کہ سبھوں کے چہروں پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی ہے اور بے بی کے ہونٹوں پرہلکی ہلکی مسکراہٹ چمک اٹھی ہے۔ جیسے گھنگھور گھٹا برسے بغیر چھٹ گئی ہو اور زرد ہلکی دھوپ چاروں طرف پھیل گئی ہو۔

پھر چپکے سے وہ دن بھی آیا جب چھوٹے سے گارڈن کی کلیاں مسکرا رہی تھیں۔ آس پاس کے سارے ماحول سے زندگی پھوٹی پڑ رہی تھی اور بے بی بڑے سے سفید گون میں ملبوس گلاب اور بیلے کی کلیوں سے لدی پرانے چرچ میں رابسن صاحب کے بازو میں بازو دیئے عقیدت سے آنکھیں بند کئےم دو زانو ہو کر بیٹھی ہوئی تھی۔

مرے خداوند

مرے خداوند

مجھے نئی زندگی دے

مجھے نئی خوش گوار زندگی دے (انجیل مقدس)

پھر بڈھے انکل نے علاقے کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ٹافیاں تقسیم کیں اور بنگلے کے وسیع دالان میں بچوں کے ساتھ مل کر رقص کرتا رہا اور زور زور سے گاتا رہا۔ وہی اکیلا گیت جو اس نے بے بی کے بچپن میں یاد کیا تھا۔

ٹونکل ٹونکل لٹل سٹار

ہاؤ آئی ونڈر وہاٹ یو آر

ٹونکل ٹونکل لٹل سٹار

بہت دیر تک وہ خوشیاں مناتا رہا۔ لیکن جب دھیرے دھیرے سب بچے بھاگ گئے اور وسیع دالان میں وہ تنہا رہ گیا تو ایکا یکی روشندان سے ایک کبوتر پھڑ پھڑاتا ہوا اڑا اور چاروں طرف دالان میں چکر کاٹتا ہوا دروازے سے باہر نکل گیا۔ بڈھا انکل نے اچانک ایسا محسوس کیا کہ اس وسیع دالان میں وہ ایک دم سے تنہا ہے اور تنہائی نے دور دور تک ہونٹوں پر انگلی رکھے چپ سادھ لی ہو۔ یوں گویا اب کبھی نہ بولے گی۔ یہ مہر سکوت کبھی نہ ٹوٹے گی۔ وہ اداس ہو گیا۔ بڑ بڑا کر باہر نکل آیا۔ جہاں صاحب کھڑا جیپ سے سامان اتروا رہا تھا۔

’’ہیپ٘ی مارننگ صائب…!‘‘ زندگی میں پہلی بار اس نے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ ’’شیک ہنڈ…..‘‘

’’اوہ!بڈھا انکل….. شیور شیور….. ہیپ٘ی مارننگ….‘‘ صاحب نے گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔ پھر بڈھا انکل الگ ہو کر کھڑا ہو گیا……’’صائب ام فیفٹی روپیہ مانگتا۔‘‘

’’فیفٹی روپیز…..؟ اتنا روپیہ کیا کرے گا بڈھا انکل……؟‘‘

’’ابی نہیں بولے گا صائب۔ مگر ام کو دو ضرور صائب….. پھر کبھی نہیں مانگے گا۔ دینے سکتا صائب….؟‘‘

’’ضرور دینے سکتا۔‘‘ پھر بڈھا انکل نے روپیہ لے کر صاحب کو گڈ مارننگ کیا اور بازار سے ایک سونے کا خوبصورت ہار لاکر بے بی کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ جہاں ایک طرف تالیاں بجا بجا کر چند جوان لڑکیاں جھوم جھوم کر گا رہی تھیں۔ ایک طرف مارگریٹ مہمانوں کے درمیان بیٹھی مسکرا رہی تھی۔ بڈھا انکل کی آنکھیں چوندھیا گئیں، اس کے دل میں دور تک پھول ہی پھول کھلتے چلے گئے اس کے دل میں آیا کہ وہ بھی لڑکیوں کے ساتھ تالیاں بجائے اور جھوم کر ناچے…. لڑکیاں ناچتے ناچتے رک گئیں۔ سب کی سب بڈھا انکل کو ٹھٹھک کر دیکھنے لگیں۔

’’کیا مانگتا بڈھا…. ادر کیا مانگتا……؟‘‘

وہ چونک پڑا….. ’’کچھ نہیں مانگتا…… کچھ نہیں….. اپنا بے بی کو بائی بائی کرنا مانگتا….. اور……‘‘ اس نے جیب سے ہار نکال کر آگے بڑھا دیا۔ ’’اور بے بی کو اپنے ہاتھ سے نکلس دینا مانگتا….‘‘ وہ مارگریٹ کے گلے میں ہار پہنانے کی غرض سے بڑھا۔ مارگریٹ ہڑ بڑا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’کیا کرتا بڈھا….. ادر میں رہو….. ادر میں رہو…..‘‘

وہ رک گیا۔ ’’بے بی اپنا نکلس نہیں مانگتا…..؟‘‘

’’نہیں مانگتا….!‘‘ اس کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ نفرت سے اس کا منھ بگڑ گیا۔ بڈھا انکل ٹھٹھک گیا چلتے چلتے اس کا دل اچانک رک گیا…… ’’نہیں بے بی ایسا ماپھک مت بولو…. ایسا ماپھک مت بولو‘‘….. اس کی آواز رندھ گئی….. ’’بے بی ام تم سے کبھی کچھ نہیں بولا۔ امارا رکوسٹ مانو….. نکلس لے لو بے بی….. ام تمارا…. بڈھا انکل….. تمارا اپنا سرونٹ رکوسٹ کرتا ہے بے بی…..‘‘ وہ مارگریٹ کے قدموں پر جھک گیا۔ ’’مارگریٹ….‘‘

ایک لمحہ میں پتہ نہیں کہاں سے ایک سایۂ سا مارگریٹ کے دل میں آیا اور سارے وجود کو نرم کرتا ہوا گزر گیا۔ وہ کچھ لمحے خاموش رہی۔ پھر آہستہ سے گردن جھکالی…..’’اچھا بڈھا! ام تمارا نکلس قبول کرتا……‘‘ پلٹ کر قریب کھڑی ہوئی آیا سے مخاطب ہوئی، ’’آیا بڈھے سے نکلس لے لو اور ڈیٹول میں دھو کر امارا صندوق میں رکھ دو….‘‘

بڈھا انکل یہ سن کر چونک اٹھا۔ پھر اس نے ضبط کیا۔ اس کے ہونٹوں پر عجیب مسکراہٹ ابھری۔ اس نے آہستہ سے ہار آیا کے ہاتھ میں رکھ دیا اور کمرے سے باہر نکل گیا……. ’’بے بی بہوت نفرت کرتا…. اپنا بے بی…… بہوت نفرت کرتا….. بائی گاڈ…..!‘‘ دوسری صبح دوپہر کو ایک چھوٹی سی کار میں بیٹھ کر بے بی رابسن صاحب کے ساتھ کلکتہ چلی گئی۔ بڈھا انکل سڑک کے کنارے ببول کے بے برگ و بار درخت تلے کھڑا نظروں سے اوجھل ہوتی ہوئی کار کو گھورتا رہا۔ جب کار چلی گئی اور سڑک کی سرخ بجری ساری فضا پر چھا گئی تو اس نے ایکا ایکی محسوس کیا جیسے پاس سے کوئی کبوتر پھڑ پھڑاتا ہوا نکل گیا ہو اور وہ اس وسیع دنیا میں بے کار و تنہا رہ گیا۔ آس پاس علاقے کے چاروں طرف خاموشی مسلط تھی۔ یوں گویا ہوا بھی ساکت ہو گئی تھی۔ جب وہ اپنے کمرے میں پہنچا اور داغدار فلیٹ کو پلنگ پر پھینک کر بیٹھنا چاہا تو وہ کبوتر اس کے کان کے پاس سے پھڑ پھڑاتا ہوا اڑ گیا۔ اس نے چونک کر چاروں طرف دیکھا۔ کہیں کچھ نہیں تھا۔ دوپہر بیت رہی تھی۔ باہر سخت دھوپ تھی اور چاروں سمت گہری خاموشی مسلط تھی۔ درختوں کی پتیاں تک خاموش تھیں۔ سارا علاقہ ایک بڑے سے سنسان قبرستان کی طرح محسوس ہو رہا تھا۔ پھر بڈھا انکل اس تنہائی سے گھبرا کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ اور علاقے کی پیچ در پیچ گلیوں میں گھنٹوں پھرتا رہا۔ کہیں کوئی شور نہیں کہیں کوئی آواز نہیں بجز ایک عیب سی پھڑ پھڑاہٹ کے جو خاموشی کو اور بھی گہری، پراسرار اور حزیں ترکر رہی تھی۔ کیا کچھ کھو گیا؟ کیا گھٹ گیا اس بھری پری دنیا سے کہ اچانک سارا عالم کنگال سا ہو کر رہ گیا ہے؟ جب اسے پھرتے پھراتے شام ہونے لگی۔ آفتاب ڈوب گیا۔ اس کی ہڈی ہڈی میں درد کی لہریں اٹھنے لگیں تو وہ اپنے کمرے میں گھس گیا اور چہرے پر ہاتھ رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا…… ’’اپنا سب کچھ چھین گیا یسوع مسیح….. اپنا سب کچھ لٹ گیا…..!‘‘

پھر جب رات ہو گئی اور آیا نے حسب دستور دو جلی ہوئی روٹیوں پر آلو کے قتلے رکھ کر چینی کی زرد اوپر پرانی پلیٹ میں لا کر میز پر پٹک دیا تو پہلی بار یہ موٹی خشک روٹی اس کے گلے میں پھنس گئی… اس نے پورا گلاس پانی غٹ غٹ چڑھا لیا اور روٹیوں کو ہتھیلی پر مسل کر مرغیوں کے ڈربے میں ڈال آیا۔ سامنے بے بی کی کھڑکی بند تھی۔ رات سیاہ سے سیاہ تر ہو رہی تھی اور وہ لمحہ بہ لمحہ اداس ہوتا جارہا تھا۔ وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں آ گیا اور آنکھیں بند کر کے بستر پر پھیل کر سو رہا، مگر نیند کہاں…..! پتہ نہیں وقت کے کس انجانے موڑ پر رہ گئی ہے۔ پتہ نہیں اسے کس کا انتظار ہے۔ باہر تاریکی گہری ہوتی جارہی ہے۔ ہوا سائیں سائیں گزر رہی ہے اور دل نہ معلوم کیوں بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا ہے۔ بڈھا انکل ایکا ایکی اٹھ بیٹھا، صندوق کھول کر کپڑوں کے نیچے سے وہ پوٹلی نکالی، اسے کھول کر روشنی میں دیکھا۔ پھر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اسے چوم لیا….. ’’بے بی ادر میں اپنا کوئی نہیں ہوتا…. ادر میں کیسا ماپھک رہے گا…..؟ بولو….. بولو…..؟‘‘ اس نے اپنے پیروں میں فل بوٹ پہنا۔ پوٹلی کو باندھ کر بغل میں دابا اور گھسٹتا ہوا باہر نکل گیا۔

’’دنیا کتنا بیڈ مالم پڑتا اب….‘‘ اوپر آسمان تاریک تھا۔ گہرے سیاہ جھومتے ہوئے بادل امڈ رہے تھے، اور منور چاند بادلوں کے آگے بھاگتا ہوا نکلا جا رہا تھا، کبھی مدھم سا، کبھی روشن، مگر دوڑتا ہوا۔ اس نے نگاہیں اٹھا کر آسمان کی سمت دیکھا…. ’’اپنا مون کدر کو جاتا….. ایسا ماپھک کدر کو دوڑتا…..؟‘‘

پھر وہ خاموش گردن جھکائے، لنگڑاتا ہوا چلنے لگا۔ لوکیلٹی کی خاموش گلی میں ایک لیمپ پوسٹ کے قریب آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ اس کے کانوں میں کسی اڑتے ہوئے کبوتر کے پروں کی پھڑا پھڑاہٹ تھی۔

’’تم کدر میں چلا گیا بے بی…..ام تم کو کدر میں ڈھونڈنے جائے گا….. کدر میں؟ یسوع مسیح ام کدر میں جائے گا، بولو…… بولو…..؟‘‘

اس نے چلتے چلتے آنکھیں میچ لیں۔ آنسوؤں کے دو قطرے رخسار پر آ پڑے۔ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے انگلیوں سے سینے پر صلیب بنائی۔ ’’کدر میں جائے گا، یسوع میحن، بولو…. بولو…..؟‘‘

(غیاث احمد گدی کے افسانے از غیاث احمد گدی ص (85

مصنف:غیاث احمد گدّی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here