رات کے چاک پر انگڑائی لیتی ملگجی صبح، اپنے بدن سے سیاہ پوشاک جھٹکنے لگی۔
روشنی نمودار ہونے میں گرچہ تھوڑا وقت اور باقی تھا لیکن کنکریٹ اور لوہے کی چمنیوں پر بنے ہوئے گھونسلوں میں بے چینی پھیلنے لگی۔ گذشتہ اڑان کی تھکن ابھی ان کے پروں میں باقی تھی۔ وہ لمبی نیند لینا چاہتے تھے لیکن بھوک سے بلکتے بچوں نے اپنے ماں باپ کے پر وں کو نوچنا شروع کر دیا۔ وقت سے ذرا پہلے آنکھ کھل جانے کے باعث، ایک بار پھر پرندوں کا خواب ادھورا رہ گیا۔ دھواں اگلتی چمنیاں بہت تیزی کے ساتھ درختوں کو جنگل سے بے دخل کررہی تھیں اور آسودگی کے متلاشی پرندے اس کی بھاری قیمت ادا کرنے پر مجبور تھے۔ تنگدستی نے ان کے پروں کی لمبائی کو دگنا کر دیا تھا، لیکن تب بھی وہ خط غربت سے اونچی اڑان نہ بھر سکے۔ سفید پروں پر دھوئیں کی کالک نے جا بجا آڑھی ترچھی لکیریں پھیر کر انہیں چتکبرا بنا دیا تھا، وہ اپنی شناخت کھو رہے تھے اور وجودیت پر ان کے پنجوں کی گرفت کمزور پڑنے کا غم انہیں مسلسل پریشان کرنے لگا۔ پرندے اور شہد کی مکھیاں ایک ہی آسمان کے نیچے اڑان بھرا کرتے لیکن دھواں اگلتی چمنی میں بیٹھے الوہیت کے دعویداروں کا سارا دھیان ان چتکبرے پرندوں کی جانب ہوتا۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی لمحے یہ پرندے آزاد صبح کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
سپیدۂ سحری نے بگل بجا کر اعصاب کو شل کرینے والی دوڑ کا اعلان کیا پرندوں نےاپنے پنجوں پر زور ڈال کر خود کو اوپر کی جانب جھٹکا دیا اور اپنا روشن دن سیاہ آسمان کے سپرد کر دیا۔
سرد ہوائیں آسمان سے لٹکے جھولے پر ہلکورے لے رہی تھیں۔ شبنم سے دھلے ہر ایک پھول کی خواہش تھی کہ تتلیاں ان کی رگوں میں بہتے رس کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیں۔ جب کوئی تتلی اپنے رنگین پروں سے پھول کا مخملی بدن گدگداتی تو کلیوں کے ارمان اور بھی چٹخنے لگتے۔ رذیل بھونرے گلے میں اونی مفلر ڈالے باغ میں جابجا ٹولیوں کی شکل میں منڈلا رہے تھے، کوئی خوش رنگ تتلی جب ان کے نزدیک سے گذرتی تو وہ مارے جوش کے اور بھی زور سے بھنبھنا نے لگتے۔ اُن کا خیال تھا کہ پھولوں کے رس پر صرف تتلیوں اور شہد کی مکھیوں کا حق نہیں، وہ سب کسی ایک ایسے موقع کی تلاش میں تھے کہ جب وہ ان امرت کے پیالوں میں موجود رس اڑا لے جائیں۔ جفاکش شہد کی مکھیاں قطار در قطار ہوا میں معلق بیگار پر آمادہ نظر آ رہی تھیں۔ یہ سب کی سب رانی مکھی کی تابع تھیں جو کارل مارکس کے نظریات پر بیٹھی انڈے دینے میں مصروف تھی۔ اس کے نزدیک ایک لال رنگ کا فون رکھا ہوا تھا، جب کبھی فون کی گھنٹی بجنے پر وہ ریسیور اٹھاتی تو اس کی ساری توجہ دوسری جانب سے آنے والی آواز پر ہوتی وہ بولتی کچھ نہیں لیکن بات سنتے ہوئے اثبات میں ایسے سر ہلایا کرتی کہ جیسے فون کرنے والے کی آنکھ اسے دیکھ رہی ہو۔ فون رکھے جانے کے بعد ساتھ پڑی فیکس مشین کی طبیعت متلانے لگتی اور وہ ایک ابکائی لے کر ڈھیروں فیکس اگل دیتی۔ اب اُس کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہ ہوتا کہ وہ پہلے سے زیادہ غلام پیدا کرے۔ مسند پر بیٹھی ہوئی رانی مکھی اگر اپنی بڑی بال دار آنکھوں سے پورا سچ دیکھ پاتی تو اسے ادراک ہوتا کہ اصل حکمران وہ نہیں کوئی اور ہے۔۔۔
مارٹن الیگزنڈر خوش شکل، زیرک اور کامیاب بزنس مین تھا۔
اس کی وجاہت اور مردانگی کے چرچے کبھی جھروکوں سے جھانکتی نیلی آنکھوں میں ٹنگے ہوتے یا پسِ دالان دھڑکتے دلوں میں اٹھکیلیاں کرتے دکھائی دیتے۔ شہر بھرکی رئیس زادیاں آنکھوں میں وصل کے خواب سجائے نرم وگداز بستر پر ماہی بے آب کی طرح تڑپتیں۔ لیکن صحبت داری ہر کسی کے نصیب میں کہاں۔ وہ رات بھرکسک کا کفن لپیٹے دوبارہ جی اٹھنے کی حسرت لئے برزخ میں مردہ پڑی رہتیں۔ ماہ جبینوں کی بے ترتیب سانسوں کے بل ہمالیہ چڑھتے اترتے فراغ سینے رات بھر فرشتوں کی نیند حرام کئے رکھتے۔
لیکن!
مارٹن ان سب سے بےنیاز آزاد منش آدمی تھا۔ اسے انعام سے سخت نفرت تھی۔
وہ دولت اور عورت کمانے کا قائل تھا۔
علی الصباح، باغ میں چہل قدمی کرتے ہوئے مارٹن کی نگاہ ایک سمت کی جانب اڑتی ہوئی تتلیوں پر پڑی اور وہ لمبے ڈاگ بھرتا ہو ان کے پیچھے چل دیا۔ کچھ ہی فاصلے پر تتلیاں ایک خوش رنگ اور دل آویز پھول پر ٹہر گئیں۔ مارٹن پھول کے نزدیک پہنچا تو تتلیوں نے مسکرا کر استقبال کیا، منچلے بھونرے جو لب بوسی کو بےقرار نظر آتے تھے مارٹن کو قریب پا کر پھول سے کئی فرلانگ پیچھے دوڑ گئے۔ شہد کی مکھیاں کورنش بجا لائیں اور سبز پتیوں پر دو زانوں ہو کر بیٹھ گئیں۔ پھول کی پتیوں کا لمس انگلیوں کی پوروں پر محسوس کرتے ہی مارٹن کے چہرے پر ایک خفیف سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
وہ خوش تھا کہ آج رات مئیر، ونسٹن بارکلے کی جانب سے دئے گئے عشائیہ میں سب سے زیادہ خوبصورت پھول اس کے کوٹ پر سجا ہوگا۔
مارٹن نے جیسے ہی پھول توڑنے کہ لئے ہاتھ آگے بڑھایا تو ٹہنیوں میں لگے بدصورت باغیوں نے اس کی انگلیوں میں اپنی ازلی چبھن اتار دی۔
اوہ شٹ!
مارٹن کی درد بھری چیخ پورے باغ میں گونج اٹھی۔ اس کی عارضی شکست، لہو بن کر اس کی انگلیوں سے ٹپکنے لگی۔
یہ منظر دیکھ کر پورے باغ میں جیسے خوشی کی لہر دوڑ گئی ہو۔ کلیاں لہک لہک کر اپنے بے رس رکھوالوں کی شان میں گیت گانے لگیں۔ مارٹن کو اپنی بےوقوفی پر دل ہی دل میں بہت غصہ آیا۔ اس نے کوٹ کی جیب سے دستانے نکالے اور انھیں اپنے ہاتھوں پر چڑھا لئے۔ دستانے دیکھ کر پورے باغ میں موت کی سی خاموشی چھا گئی، کلیوں نے خود کو کانٹوں سے کچھ اور نزدیک کر لیا۔ بھونروں نے باغ چھوڑ دینے ہی میں عافیت جانی۔ باغ میں لگے بنفشہ کے پھول جو اب سے کچھ دیر پہلے پورے باغ کی سلامتی کی دعا مانگ رہے تھے، اب اپنی جان کے لئے فکرمند نظر آنے لگے۔ آسودہ حال تتلیاں تماشائی بن کر اب بھی وہاں موجود تھیں، وہ اس بات سے با خبر تھیں کہ ان زرد دستانوں سے انھیں کوئی خطرہ نہیں۔۔۔
مارٹن نے اپنا ہاتھ پھول کی جانب بڑھایا، کانٹے دستانوں سے سر پھوڑتے رہے۔ لیکن سب بے سود رہا۔ وہ دستانوں میں چھپی ہوئی انگلیوں پر موجود پوروں کے نشان تک نہ پہنچ پائے۔ اور مارٹن نے با آسانی پھول توڑ لیا۔
پورا باغ اس واقعہ پر ماتم کناں تھا۔
بہت ممکن تھا کہ باغ سے چند گز کے فاصلے پر موجود تھانے میں واقعہ کی اطلاع کر دی جاتی اور پھول کی گمشدگی کے پوسٹر جابجا آویزاں کر دیے جاتے۔ لیکن مارٹن ان تمام خدشات کے باوجود مطمئن تھا کیو نکہ اسے آسکر شیفرڈ کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ ہے۔
کالے کوٹ والا آسکر شیفرڈ، مارٹن کو اپنا خاص دوست کہا کرتا تھا۔ لوگوں کے سامنے وہ اکثر اپنے اور مارٹن کی دیرینہ دوستی کے قصے بڑھا چڑھا کر بیان کرتا۔ درحقیقت، مارٹن کے لیے آسکر شیفرڈ کی حیثیت ایک زرخرید غلام کے سوا کچھ نہ تھی۔ وہ ہر صبح مارٹن کے بستر پر بکھری ہوئی پھول کی پتیوں کو سمیٹ کر کھڑکی سے باہر اچھال دیتا۔ آسکر، کھڑکی بند کرنے سے پہلے صلیب کا نشان بنا کر خدا کے حضور اپنی بےگناہی کی قسم کھاتا۔۔۔ اور احکامات کی بجا آواری میں تن من سے جٹ جاتا۔ آسکر دانتوں میں ہڈی دبائے مارٹن کی سفید شرٹ پر سے مسلی ہوئی پتیوں کے رنگوں کو اس مہارت سے دھوتا کہ ایک بھی دھبہ باقی نہ رہتا اور مارٹن کی شرٹ پھر سے اجلی ہو جاتی۔ کالے کوٹ والا آسکر اپنے مالک سے بہت خوش تھا۔ لیکن اپنے کالے سوٹ سے بہت خائف تھا۔ اسے جب کبھی کسی محفل میں دم ہلا کر اپنے مالک کی خوشنودی حاصل کرنا مقصود ہوتی تو یہ کالا کوٹ اسے سب کے سامنے ایسا کرنے سے باز رکھتا۔ مارٹن الیگزنڈر کا بھروسے مند غلام ہینری ہر مہینے کے آخر میں پیسوں سے بھرا لفافہ آسکر کو دے جاتا۔ لفافہ وصول کرتے ہی آسکر کا دل چاہتا کہ وہ کالا کوٹ اتار کر باہر سڑک پر نکل جائے اور اپنی دم ہوا میں گول گول گھما کر ناچے۔۔۔
آج جب ہینری پیسوں سے بھرا لفافہ اس کے پاس لے کر آیا تو آسکر نے پلک جھپکنے سے پہلے ہی لفافہ ہینری سے جھپٹ لیا۔ اپنے ہاتھوں سے تول کر وہ لفافے میں موجود رقم کا اندازہ لگانے لگا۔ ایسا کرتے ہوئے اس کی رال ٹپکنے لگی، یہ دیکھنا، ہینری کے لیے نیا نہیں تھا اسے آسکر کو یہ کرتا دیکھ کر کچھ خاص حیرت بھی نہیں ہوئی۔ ہینری اپنے آقا کی فطرت سے بخوبی واقف تھا وہ جانتا تھا کہ رقم سے بھرے لفافے اس وقت تک آسکر کو ملتے رہیں گے کہ جب تک کوئی دوسرا قابل وکیل اس شہر میں نہیں آ جاتا۔ آسکر شیفرڈ نے لفافہ کوٹ کی داہنی جیب میں رکھا اور ٹیبل کی دراز کھول کر ایک دعوت نامہ ہینری کی جانب بڑھا تے ہوئے کہا۔۔۔
“ہینری! یہ دعوت نامہ مارٹن کو دے دینا آج مئیر ونسٹن بارکلے کی جانب سے شہر کے تما م معززین کو مدعو کیا گیا ہے اور وہ تمہارے آقا سے بطور خاص ملنا چاہتے ہیں۔ یہ ملاقات بس رسمی ہوگی میں اُن سے ساری باتیں طے کرچکا ہوں۔ ہینری نے دعوت نامہ آسکر سے وصول کیا اور کچھ کہے بنا سر کو ہلکی سی جنبش دی اور دفتر سے باہر نکل آیا۔
ہینری، مارٹن الیگزینڈر کا کم اجرتی جفاکش ملازم جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے کی بری لت میں پڑ چکا تھا شاید یہی وجہ تھی کہ وہ اس نشہ میں اپنی دور کی نظر کمزور کر بیٹھا۔ دن بھر کی بیگار سے تھکا ہارا جب وہ اپنے سرونٹ کوارٹر میں داخل ہوتا تو گھنٹوں دیر تک آئینہ کے سامنے اپنے پر پھیلائے کھڑا رہتا اور زور زور سے بھنبھناتا۔ وہ اپنے کمرے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اپنی مرضی سے اڑان بھرتا، لیکن جب وہ آسمان کی جانب ایک اونچی جست لگاتا تو اس کا سر چھت سے جا ٹکراتا اور وہ اپنے بستر پر آن گرتا۔۔ ہینری اپنے اجداد کے وہ قصے یاد کرتا کہ جب ‘پہیہ’ ایجاد نہیں ہوا تھا اور اسکے باپ داد اپنے ساتھیوں سمیت ایک آزاد فضاء میں اڑتے اور پھولوں سے ایک ایک بوند رس چراتے اور کٹورا بھر شہد بنا کر بلا تفریق جانداروں میں بانٹ دیا کرتے۔ وہ دور قصہ پارینہ کی نظر ہوئے۔
گرینڈ سٹی ہال رنگ و نور میں نہایا ہوا تھا۔
مدھم سروں کی لے پر حسن، دولت کے گلے میں بانہیں ڈالے ناچ رہاتھا اور افلاس ہاتھ میں شراب کی ٹرے تھامے خدمت پر معمور۔ مئیر کی جانب سے دئیے گئے عشائیہ میں یوں لگتا تھا کہ جیسے پورا شہر امنڈ آیا ہو۔ مارٹن جیسے ہی ہال میں داخل ہوا سب کی نظریں اس پر جم گئیں۔۔محفل میں موجود مرد کالر پر لگے پھول کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور خواتین مارٹن کے کسرتی جسم کو۔
مارٹن کو آتا دیکھ کر مئیر تیزی سے اس کی جانب بڑھا اور مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔
شام بخیر۔۔۔ مسٹر مارٹن الیگزنڈر! آپ کے آجانے سے ہماری محفل اور بھی معتبر ہوگئی۔
مارٹن نے مئیر سے مصافحہ کیا اور جواباً مسکرانے پر ہی اکتفا کرنا ضروری سمجھا۔۔۔ مئیر نے للچائی ہوئی نظروں سے مارٹن کے کالر پر لگے پھول کو دیکھا اور کہا
مسٹر مارٹن شہر میں موجود ہر باغ کی چابی ہمارے پاس ہے۔ لیکن افسوس! کوئی بھی ایسا دلکش پھول ہمارے کوٹ کی زینت نہ بن سکا۔
مارٹن، مئیر کی بات سن مسکرایا لیکن اس بار بھی خاموش رہا، مئیر ونسٹن بارکلے نے استہفامیہ انداز میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔۔۔ مسٹرمارٹن آپ ایک اچھے بزنس مین تو ہیں ہی، لیکن آپ کی پسند کی بھی داد دینا ہوگی۔ آخر آپ ایسے خوشنما اور دل آویز پھول کیسے کھوج لیا کرتے ہیں
مارٹن نے سگار سلگایا اور مئیر کے کان کے قریب اپنا منہ لا کر کہا۔۔۔
بہت آسان ہے مسڑ بارکلے۔۔۔ بہت ہی آسان
مجھے معاف کیجئےگا مسٹر مارٹن، انتہائی ادب کy ساتھ میں آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں کروں گا، اگر یہ اتنا ہی آسان ہوتا تو اس محفل میں موجود ہر شخص کے کالر پر ایسا ہی خوبصورت پھول سجا ہوتا۔ شاید آپ ہم سے کچھ چھپا رہے ہیں
مئیر کے جملوں میں بےچینی اور مارٹن کی بات سے اختلاف صاف دکھائی دے رہا تھا۔ مارٹن نے مئیر کی جانب مسکرا کر دیکھا اور انتہائی رازداری سے کہا۔
مسٹر بارکلے اگر آپ کسی منفرد پھول کے خواہش مند ہیں تو آپ کو تتلیوں سے دوستی کرنا ہوگی۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں پھر ہر روز آپکا کالر بھی ایسے ہی خوشنما پھولوں سے سجا رہےگا
تتلیوں سے دوستی!۔۔۔ ارے واہ۔۔۔ یہ بات میرے ذہن میں کیوں نہیں آئی۔۔۔ یہ تو واقعی بہت آسان ہے
بارکلے کے چہرے پر حیرت و خوشی کے ملے جلے تاثرات نمایاں تھے کہ جیسے اسے سونا بنانے کا نسخہ ہاتھ آ گیا ہو۔ مارٹن دل ہی دل میں مئیر کی طفلانہ سوچ پر لطف اندوز ہو رہا تھا۔ مارٹن نے سگار کا ایک او ر کش لیا اور منہ سے اوپر کی جانب دھواں نکالتے ہوئے کہا۔۔۔
“مسٹر مئیر، یہ واقعی اتنا ہی آسان ہے! لیکن معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ آپ کی انگلی کے ایک اشارے پر آپ کے چاہنے والے پھولوں کا گلدستہ پہنچا دیا کرتے ہیں۔ پھر بھلا آپ کا ذہن یہ سب کیسے سوچ سکتا تھا اور ہاں، ایک مشورہ بطور خاص آپ کے لیے، جب کبھی پھول توڑنے کا ارداہ ہو تو یہ دستانے ضرور پہن لیجئےگا، ممکن ہے کہ کچھ کانٹے مزاحمت بھی کریں۔ انہیں میری جانب سے تحفہ سمجھ کر رکھ لیجئے۔ بہت کام کی چیز ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آج کے بعد آپ کے کوٹ پر بھی اس شہر کا سب سے شاندار اور خوبصورت پھول سجا ہوگا۔
دستانے وصول کرتےہوئے مئیر کے چہرے پر خوشی دیدنی تھی، اس نے جلدی سے دستانوں کو اپنی جیب میں ٹھونسا اور بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
“مسٹر مارٹن آپ سے ہونے والی دلچسپ گفتگو میں اتنا محو ہو گیا کہ میں یہ بتانا ہی بھول گیا کہ آپ کی خواہش کے مطابق شراب کےنئے کارخانوں کے لیے زمین آپ کے نام الاٹ کر دی گئی ہے اور کلب کے پرمٹ لائسنس بھی دستخط کیے جانے کے بعد آپ کے منتظر ہیں۔ آپ کل اپنے وکیل کو میرے آفس بھیج کرکاغذات منگوا لیجئےگا۔ آج آپ ہماری لائی ہوئی شراب پی لیجئے کل ہم آپکی بھیجی ہوئی شراب پی لیں گے۔
یہ کہہ کر مئیر نے مارٹن سے معذرت خواہانہ لہجے میں اجازت طلب کی تاکہ محفل میں موجود دیگر مہمانوں کہ خیریت دریافت کر سکے۔ تقریب سے واپسی پر مارٹن نے اپنا کوٹ ہینری کو تھمایا اور صوفے میں دھنس کر بیٹھ گیا۔ ہینری نے کوٹ کی جیبوں میں دستانے موجود نہ پاکر سوالیہ نظروں سے اپنے آقا کی جانب دیکھا۔ شاید وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن مارٹن نے اسے اپنی انگلی کے اشارے سے خاموش رہنے کی تنبیہ کی اور سگار سلگاتے ہوئے کہا۔
میں اپنے دستانے مئیر کو ضرور دے آیا ہوں اور وہ بے وقوف سیاستدان سوچتا ہوگا کہ اب ہر پھول اس کی دسترس میں ہوگا۔ وہ موٹی توند والا آلسی مئیر، تتلیوں سے دوستی تو بڑھا سکتا ہے لیکن شہد کی مکھیوں کو اپنا غلام کیسے کیا جاتا اور بھونروں سے کس طرح نمپٹا جائے۔ یہ اس کے بس کا روگ نہیں۔طاقت کے نشے میں چور انگلیوں نے اس کے پیر مفلوج کر دئیے ہیں۔ ہینری میں مئیر کو صرف اپنے دستانے دے کر آیا ہوں، اپنے ہاتھ نہیں۔۔۔ تم دیکھنا کل بھی اس شہر کا شاندار پھول میرے ہی کالر پر سجا ہوگا۔۔
ہینری جو مارٹن کا کوٹ اور ہیٹ تھامے انتہائی عاجزی سے کھڑا اس کی باتیں سن رہا تھا اپنا سر اور کمر جھکا کر بولا۔۔۔
جی ماسٹر یہ بھلا آپ سے بہتر کون کر سکتا ہے۔”
یہ کہہ کر ہینری نے اپنے بے اختیار ڈنک کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھا اور بوجھل قدموں سے واپس اپنے سرونٹ کوارٹر کی جانب چل دیا۔۔۔ دفعتاً ایک چتکبرہ پرندہ بجلی کی رفتار سے ہینری پر جھپٹا اور اسے اپنی چونچ میں دباکر بادلوں میں غائب ہو گیا۔ مارٹن اندر صوفے پر بیٹھا باہر یہ سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اس نے ایک گہری سانس اندر لی اور بائیں جانب رکھے لال فون سے چند نمبر ڈائل کیے۔ فون کریڈل پر رکھنے کے بعد وہ اپنے صوفے سے اٹھا اور پہلے سے تیار شدہ فیکس کو مشین کے منہ میں ٹھونس کر اپنی خواب گاہ کی جانب بڑھ گیا۔
مصنف:فیصل سعید ضرغام