کہانی کی کہانی:’’یہ کہانی سرسوتی دیوی کے ایک جلوس کے گرد گھومتی ہے جو ہر سال شہر میں نکلتا ہے۔ جلوس میں سجے ہوئے ہاتھی، گھوڑسوار اور پیادے سبھی شامل ہیں۔ جلوس شہر میں جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے کہانی قدیم تاریخ، تہذیب، بودھ مذہب، سلاطین کا دور، نواب شاہی اور اس میں طوائفوں کے کردار کو بیان کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔‘‘
لوک ماتا کو شکایت ہے کہ انتر کے ساتھ رہتے اس کی زندگی برباد ہوگئی۔
انتر جب بھی اُسے ’’جوہی کی کلی‘‘ کہہ کر پکارتا ہے، لوک ماتا کا سندیہہ بڑھ جاتا ہے۔
’’جنتر منتر کا کال کلنتر۔۔۔‘‘ بچّے گاتے ہیں۔
جلوس بارہ دری سے چلا اور شام کو چوبُرجی میں بکھر گیا۔
راستے بھر سجے ہوئے دروازے۔
سونے کے رتھ میں سرسوتی کی مُورتی۔
سجے دھجے ہاتھیوں کی قطار، گُھڑسوار، پیادے۔۔۔ پانچویں صدی کے کسی بادشاہ کی یاد۔
ہرسال سرسوتی کا جلوس نکلتا ہے۔۔۔ اس راستے لارا لائی کے بیچ سے۔
’’بڑھیا لارالائی کی
چھومنتر بھئی چھومنتر۔۔۔‘‘
بچّے گاتے ہیں۔
جنتر اور منتر، انتر کی ہنسی اُڑاتے ہیں۔
’’لارالائی اصلی راجدھانی ہے‘‘ بادشاہ کے زمانے میں لوگ کہتے ہوں گے۔
لارا لائی کی کھڑکیوں سے چھنتی ہوئی رنگ برنگی روشنیاں برگد کے چکنے پتّوں پر راس رچاتی ہیں۔
ٹہنیوں پر بالغ اور نابالغ پرندے رین بسیرا کرتے ہیں۔
ہر روز چاند سے لے کر سورج تک کا سفر۔
آواز بدلتی ہوئی۔ انداز گھوم کر دیکھنے کا۔
’چاندنی ہے رات سجن جیّو کہ رہیّو‘، آواز لارا لائی کی
کھیل چور سپاہی کا۔ گھنگھرو بولتے ہیں
چُمبن کا احساس
کھڑکیاں کھلتی ہیں۔
نگاہیں کہانی کہتی ہیں۔ انتر کا قلم چلتا ہے۔
آدمی اونچی آواز میں بولتا ہے تو دل کی آواز دب جاتی ہے۔
بڑھیا کی ایک بیٹی شبانہ، دوسری بلبل
بلبل نرتکی۔ شبانہ کشیدے کا کام کرتی ہے
بڑھیا کے ہاتھ دُعا مانگتے ہیں۔
انتر جانتا ہے کہ شبانہ اس کی نہیں ہے۔
رخسانہ اور انگوری بھی بڑھیا کو ماں کہتی ہیں۔
انتر نے شہر کا اتہاس موتی جھالر کے تکیے کی طرح کہانی کے غلاف میں رکھ دیا۔
’’قسم کھاؤ‘‘ انتر کے سر پر چُوڑی کا ٹکڑا رکھ کر رخسانہ کہتی ہے۔
اشارہ سمجھو استاد! جام سامنے ہے۔
انگوری انتر کو نیتا کہتی ہے تو شبانہ اور بلبل ہنس دیتی ہیں۔
ایک جھٹکے کے ساتھ انتر پیچھے ہٹتا ہے۔۔۔ دستخط کرنے کے انداز میں
آئینہ گھوم جاتا ہے۔۔۔ انگوری کے سامنے
’’آئینہ ہاتھ سے رکھ دو۔ ہم آتے ہیں!‘‘ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے انتر کہتا ہے۔
واپس آتے ہوئے رنگ رخسانہ سے بات کرتے ہیں۔
جتنی تیزی سے انتر اُگتے سورج کا گُن گان کرتا ہے، اتنی ہی معصومیت سے اُبھرتے چاند کو آنکھوں میں بھر لیتا ہے۔
شبانہ کے بال ایڑیوں کو چومتے ہیں۔
ماتھے پر ہاتھ
ہاتھ میں نیبو کا پھول
بڑھیا انوری بیگم سے رشتہ جوڑتی ہے۔
لوک ماتا نئی بیاہی گائے کا دودھ بانٹتی ہے۔ پڑوسیوں کے گھر جا جا کر۔
آئنہ بانو کی اُڑان اونچی۔ شبنم اسے ریس کورس کہتی ہے۔
شراب سے بھری سونڈ سے ہاتھی چھڑکاؤ کرتا ہے۔
’’تجھ سے وفا کی اُمید نہیں‘‘ بڑھیا انتر کو کوستی ہے۔
آئنہ بانو کی شکل شبانہ سے ملتی ہے۔
ریلنگ پر کھڑا انتر ہر کمر کو شبانہ کی طرح ہلتی ہوئی محسوس کرتا ہے۔
’’کمر کی ہڈّی کہاں ہے؟‘‘ انتر سوچتا ہے۔
برگد کی چھان58و میں چاندنی کے دھبّوں کی جھلمل
بارہ دری میں طوائفوں کی مجلس جمتی ہے۔ انوری بیگم کی یاد میں
خوشبو پھیل کر سواگت کرتی ہے
دادرا پسند نہیں تو ٹھمری حاضر ہے۔
’’جسے کل تک کوئی گھاس نہیں ڈالتا تھا، اب لوگوں کے پیٹ پر لات مارتا ہے۔‘‘ بڑھیا نیتا کو کوستی ہے۔
کسی کا پریم پتر تھا، جسے شبانہ نے پڑھ کر پھاڑ دیا
بلبل کی زلفوں پر جمی آنکھیں
دُھت ہوکر لارالائی میں گھومو
ریلنگ پر کھڑے انتظار نے کمر سیدھی کی۔
ہنسو بھی۔
انتر کھڑا دیکھتا رہتا ہے۔
چھوٹے بڑے مکان بغل گیر ہوتے ہیں۔
راگنی میں کومل گندھار لگاؤ تو بات بنے۔
لوک ماتا نے انتر کو لارالائی جاتے نہیں دیکھا۔ طعنہ وہیں کا دیتی ہے۔
’’شیطان کی اولاد، تیری توند کیوں نکل آئی؟‘‘ بڑھیا انتر کو کوستی ہے۔
چڑھائی کے بعد تھکن قدرتی بات ہے۔
تم شبانہ کو ڈھونڈ رہے ہو یا بلبل کو؟
سرسوتی کا جلوس سب دیکھتے ہیں۔
انوری بیگم کی داستان بھی بہت سے لوگ سُنتے ہیں، جس کی سواری بادشاہ کے ساتھ چھوٹے ہاتھی پر نکلتی تھی۔
بچّوں کے کھیل میں سولہہ کہاروں والی پالکی میں بیٹھتی ہے گڑیا۔
گڑیا لارالائی کی، جو پالکی میں بیٹھتی ہے اور خوشبو لارالائی میں ہی بانٹتی ہے۔
بڑھیا جیب کترے کو بیٹا کہتی ہے، نیتا کو بھی۔
جنتر ہوا کا رُخ دیکھتا ہے، منتر دربار کا
بِنا شیڈ کا لیمپ۔ بوڑھی طوائف کا ننگا سر
جنم دن لوک ماتا کا، بدھائی بڑھیا کو۔
مسافر کتنی دور جاکر ملتے ہیں۔ لوک ماتا کو بتایا نہیں جا سکتا۔
داستان انوری بیگم کی، جس کی قبر طوائفیں شراب سے دھوتی ہیں۔
رات کے دو بجے انتظار کرتی ہوئی لوک ماتا۔
چولہے کی آگ دروازے تک لپک کر سواگت کرتی ہے۔
لوک ماتا کی شکایت کہ انتر رات رات بھر کہاں رہتا ہے۔
نتھنی کی رسم پر شبانہ کو بدھائی۔
طوائفوں نے چومکّھا مجرا کیا۔
لہنگوں کی لہروں سے گھنگھرو کھنکتے رہے۔
شبنم کی پازیب سے چنگاریاں چھوٹتی رہیں۔
شبانہ اوندھی لیٹ کر گھنگھرو بجاتی ہے
’’پیار شبنم ہے یا خوشبو۔۔۔؟‘‘ آواز لارالائی کی۔
پھولوں سے تُلی شبانہ۔ پھول چمپا، چنبیلی کے۔
انوری بیگم خوشبو سے سجتی تھی۔
مجرے کی رات بادشاہ شراب میں تیرتا تھا۔
انتر کا بس چلے تو شہر کی ہر دیوار پر لارالائی کا نقشہ بنادے۔
جیب میں ہاتھ ڈال کر انتر سکّے ٹٹولتا ہے۔
’’سرسوتی کے سامنے کاغذ کے پھول‘‘ تکیہ کلام انتر کا۔
’’ہنس اُڑا جارہا ہے۔‘‘ انتر کہتا ہے۔
آنکھیں آسمان کی طرف اُٹھ جاتی ہیں۔
’’انتر اپنے کو راج ہنس سمجھتا ہے۔‘‘ انگوری بڑھیا سے کہتی ہے۔
’’ایک گھونٹ پیوگے۔‘‘ جمیلہ انتر سے پوچھتی ہے۔
گنبد کے پیچھے اُترتا ہوا سورج
رخسانہ ایک ہی سانس میں پورا جام چڑھا گئی۔
’’ارے توجا! مچھلی بیچ‘‘ بڑھیا انتر کو ہٹاتی ہے۔
آواز کے لحاظ سے انگوری تھکتی نہیں۔
تلہٹی پہاڑ کی۔ آہٹ مسافر کی۔ داستان لارالائی کی۔
مشینیں نئی، ٹائپ پُرانا
بڑھیا کبوتروں کی تعریف کرتی ہے۔ جو رنگ برنگی روشنی ہوتے ہی آسمان سے اُتر آتے ہیں۔
پُرانے پتّے جھڑتے ہیں۔ نئے پتّے آجاتے ہیں۔ برگد اپنی اوقات چھپائے رہتا ہے۔
لوک ماتا کے سامنے انتر نئے نئے بہانے تراشتا ہے۔
گھر سے دُور۔ لارالائی نچاتی ہے۔ انتر ناچتا ہے۔
’’آٹھ روپے۔۔۔؟ آٹھ برس بعد آنا، میں تمھارا انتظار کروں گی‘‘ انگوری انتر کی طرف دیکھ کر مسکراتی ہے۔
’’انگوری او انگوری۔۔۔!‘‘ بلبل پکارتی ہے۔
بلبل اور شبانہ ایک دوسرے کو سیب چھیلنا سکھاتی رہتی ہیں۔
انتر کا گھر بارہ دری میں ہے۔
سرنگ پار ریل کی پٹڑی
لوک ماتا کو شکایت ہے کہ چوبُرجی اور بارہ دری کے بیچ اس کے بال سفید ہوگئے۔
بیوی کو لوک ماتا کہتا ہے انتر
گنگا کی لہر آدھی رات کو آتی ہے!
’سیتا چلی ساسُرے، منانے والا کون؟‘ لوک ماتا گنگناتی ہے۔
بارہ دری کے بغل میں انوری بیگم کا مقبرہ۔ مقبرے کے بغل میں گڑیا گھر، جس کا پُرانا نام ہے لارالائی۔
کنارا جھیل کا
جھیل میں برگد کی پرچھائیں
موسم شرابی۔ نغمہ گلابی۔ داستان لارالائی کی
شبانہ رو دی۔۔۔ غلط سلائی لگنے سے۔
سرمہ بہہ گیا۔
’’شبنم آگ بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ انتر سوچتا ہے۔
شبانہ کے جوڑے پر چمپا کا پھول، جس پر رات کو کئی بار خوشبو چھڑکی جاتی ہے۔
رخسانہ انگڑائی لیتی ہوئی اُٹھتی ہے۔
گاڑی سے کون اُترا؟
سامنے لال حویلی میں رہتی تھی انوری بیگم، جہاں سواری سے پہلے چھوٹے ہاتھی کی سونڈ میں شراب ڈالی جاتی تھی۔
’’دیکھ دیکھ کدھر سے کدھر لے گیا بات، شرابی سانپ۔‘‘ یہی تھا انوری بیگم کا تکیہ کلام۔
انوری بیگم نے ناگ پال رکھا تھا، جسے دودھ میں انگوری ملا کر پلاتی تھی۔
مدہوش ناگ انوری بیگم کی کمر سے لپٹا رہتا اور وہ مُجرا کرتی رہتی۔
انوری بیگم نے تین تالاب بنوائے، چار پُل، اور ایک مسجد، جو بعد میں ڈھا دی گئی۔
گرجانے کے ڈر سے لوک ماتا سیڑھیاں نہیں چڑھتی۔
سیڑھیاں کہیں چُھپ جاتی ہیں، کہیں اُبھر آتی ہیں۔
بانسری پر جے جے ونتی۔
لارالائی کی بات لوک ماتا سے چھپانی پڑتی ہے۔
انتر کی کہانی میں لارا لائی کی تصویر دیکھ کر لوک ماتا نے کہانی چولہے میں جھونک دی۔ کہانی اَن چھپی۔
لوگ لارالائی کے سیلاب میں بہہ جائیں، بڑھیا یہی چاہتی ہے۔
’’جام میں شراب ڈالتے وقت ہاتھ کانپنا نہیں چاہیے‘‘ انتر سوچتا ہے۔
لوک ماتا کا ہاتھ انتر کی جیب میں لارالائی کی تصویر ڈھونڈتا ہے۔
’’ہر راستہ لارالائی کو نہیں جاتا‘‘ انتر کہتا ہے۔
’’زمین پھٹ کیوں نہیں جاتی۔۔۔؟‘‘
لوک ماتا ناراض ہے یا اُداس؟ انتر کی سمجھ سے باہر ہے۔
لارالائی کے بیچ سے سرسوتی کا جلوس نکلنے پر گرما گرم بحث۔
سوال گُٹ بدلنے کا
ابھی یہ ناٹک کچھ دن اور چلے گا۔
کئی کئی دن لوک ماتا اور انتر کے بیچ ایک بھی بات نہیں ہو پاتی۔
لوک ماتا نے انتر کا جل پان بند کر دیا۔
انتر خاموش۔ ماتھے پر شکن نہیں۔
شبانہ کا نام بدل کر آئنہ بانو لکھ دیتا ہے، کبھی شربتی، کبھی انگوری، کبھی رخسانہ۔
اٹھارویں بار لکھی ہوئی کہانی میں وہی طوائفوں جیسے نام لوک ماتا کی برداشت سے باہر ہو جاتے ہیں۔
تصویر وہی کی وہی۔ داستان لارالائی کی۔
’’جب اتنا لکھتے ہو تو پیسہ کہاں جاتا ہے؟‘‘ لوک ماتا پوچھتی ہے۔
لوک ماتا نے بچّوں کے سامنے بھی بات کھول دی۔
انتر سر نہ اُٹھا سکا۔
’’بابل کو نہیں دیکھا۔۔۔ پیدا ہونے کے بعد۔ دلبر چھوڑ گئے۔ ماں کو مرے برسوں بیت گئے۔ ہم سفر کوئی نہیں۔ سوائے اپنی سانس کے!‘‘ بڑھیا کا درد بولتا ہے۔
آنکھ میں آنسو
’’کیا گھر، کیا لارالائی۔ یہ لوگ اتنے پریشان کیوں ہیں؟‘‘ انتر اپنے آپ سے کہتا ہے۔
’’بھرت پور لُٹ گیورات مورے سیّاں۔‘‘ آئنہ بانو گاتی ہے۔
آئنوں کا شہر لُٹ کر بھی آباد ہوتا رہتا ہے۔ داستان لارالائی کی۔
ہاتھی سجا کھڑا ہے۔
کیلے کے پتّے سے شبنم پھسل گئی۔
کوئی گنبد، کوئی مینار۔ پاس سے دیکھو۔
سگریٹ کا آخری کش۔۔۔ کرسمس کے نام۔
لوک ماتا دروازے کے باہر جھانکتی ہے۔
آسمان پر بگلوں کی قطار اُڑی جا رہی ہے۔
’’انتر کہاں چل دیا؟‘‘ لوک ماتا سوچتی ہے۔
کبھی ایسا رشتہ ہوتا ہے جیسے جُڑواں بچّے۔
’’بَل چلا گیا رسّی نہیں جلی۔‘‘ بڑھیا کو انتر کی یاد آتی ہے۔
نغمہ بانسری کا
کچھ دِنوں سے نغمہ گم ہوگیا۔
’’چشمہ پہن کر مت رو شبانہ!‘‘ بلبل کہتی ہے۔
جنترمنتر کال کلنتر۔۔۔، بچّے گاتے ہیں۔
جلوس لارالائی کے بیچ سے گزرتا تھا۔
جلوس کی راہ پر چلتے ہوئے لوک ماتا کی آنکھیں لارالائی کے جھروکوں کی طرف اُٹھ جاتی ہیں۔
میری ننھی منی لڑکی گارہی ہے، ’’آ۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔۔۔‘‘ میں اس کا مطلب نہیں سمجھتا لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔ وہ کہنا چاہتی ہے،
کہ (دُنیا کی) ہر چیز میں دہشت نہیں، مسرّت چُھپی ہوئی ہے۔
*
پُل کنجری
آج پھر پاشان یاتری کو تاج محل کے سامنے ریت کے گھروندے بناتے دیکھا۔۔۔ موہنجوداڑو کو سر پر اُٹھائے اور کھجوراہو کو بغل میں دبائے۔۔۔ ہمیں تو موہنجوداڑو اور کھجوراہو میں بھی تاج محل نظر آتا ہے۔
گُھٹنوں پر کُہنیاں، ہتھیلیوں میں چہرہ۔ کیا بانو، کیا دیویانی۔
اندھا ہاتھی سُنے گا تو ہنس دے گا۔ پُل کی طرف کُھلی رہے گھر کی کھڑکی۔
جے ہو! جے ہو! پُل کنجری تیری جَے ہو۔ ’’کہانی میں پُل کنجری۔ جیسے آئینے کے سامنے بصرے کی حُور، بانو آپا۔‘‘ ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی دیویانی کہ آنکھ کا پانی سوکھنے نہ پائے۔‘‘ آندھی کہاں سے اُٹھی؟ ملتان سے، جہاں موراں کنجری کا جنم ہوا۔ واہ ری موراں! تیری آنکھ کا جادو۔
رات بھر تھرکتی رہی موراں،
’’عشقے دی گلی وچوں کوئی کوئی لنگھ دا‘‘
مہاراجہ کے خزانے میں آیا کوہِ نور اور رنواس میں موراں۔۔۔ گھنگھرو کی جھنکار۔سکّہ تیرے نام کا۔ واہ ری موراں!
گھوڑے نہیں ہاتھی بیچ کر سوئے اوتار اور شہریار۔ اُن کی زبان پر بچپن کا گیت،
اٹکن بٹکن دہی چٹاکن
اگلا جھولے بگلا جھولے
ساون میں کریلا پُھولے
رفوگر امام علی کی اور بات، جس کے لیے درویش کی بات پتھّر کی لکیر، شِلا لیکھ پر درویش کے ساتھ تین بندر۔ یہ تصویر دیکھتے دیکھتے وہ سوئی میں دھاگا پروتا اور کپڑے کے گھاؤ سیتے ہوئے گنگناتا،
’’پیسے کا لوبھی فرنگیا
دھوئیں کی گاڑی اُڑائے لیے جائے۔۔۔‘‘
’’گھاٹ پر جانے سے پہلے جُوتے مت اُتارو۔‘‘ درویش نے کہا تھا۔
ایک ہی جیل میں رہے اوتار اور شہریار۔ کبھی تین سال، کبھی تیرہ سال۔ پھر شہریار نے درویش کی بجائے دست گیر کو اپنا پیرمان لیا۔ درویش کی یہی کوشش رہی کہ دیش ایک ہے لیکن دست گیر نے الگ رستہ اپنایا۔
’’یاپیردست گیر!‘‘ درویش نے آرتی اُتاری۔ لیکن دست گیر نے ہٹ دھرمی نہ چھوڑی۔
ایک کے دو دیش بنے اور ہم ابابیل کی طرح رو دیے۔
’’جینے کی سزا۔۔۔ گھر سے بے گھر!‘‘ ستیہ کام کی آواز
بات میں بات، پُل کنجری کی رات۔ اب تو سیما کو ہی پُل کنجری مان لو۔
کیا اِس پار، کیا اُس پار۔ اُجڑے ہوئے بے گھر لوگوں کے کارواں آتے رہے، جاتے رہے۔
پاشان یاتری نے کہا، ’’کھول دو۔‘‘
ڈاکٹر جسپی بولے، ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ۔‘‘
ستیہ کام کی وہی آواز
خون کی ہولی دل بیگانہ
بول کبوتر دانہ دانہ
’’اُٹھ سہیلی آنسو پونچھ!‘‘ پاشان یاتری کی کہانی، ڈاکٹر جسپی کی زبانی۔
وہی مینا، وہی جام۔ وہی طبلے کی تھاپ، وہی پائل کی جھنکار،
چھم چھما چھم۔۔۔ چھم
چھم چھما چھم۔۔۔ چھم
پینے کے بعد ہر کوئی سلطان۔
’’تیری جنّت ماں کے قدموں تلے ہے، دیویانی۔۔۔!‘‘ ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی بانو آپا کہ جننی جنم بھومی سورگ سے مہان۔‘‘
پُل کے دونوں طرف وہی گھر، وہی گلیاں۔ وہی لوریاں، وہی بابل، وہی برہا کے گیت۔ کچھ تو ہو، جو سب کے من کو بھائے۔
وہی جُگنی، وہی میں، وہی جمالو
وہی ہوا، وہی آگ، وہی پانی
’’ریہرسل میں چلوگی، دیویانی؟‘‘
’’چلو۔‘‘
اوتار کی پتنی دیویانی، شہریار کی بانو۔ بچپن کی سہیلیاں۔ دونوں کی زبان پر ایک گیت،
جاگ اری کوئلیا جاگ
چلا آرہا کالا ناگ
سُور داس کیسے پہچانے
ہولی کھیلے اپنے پھاگ
اندھا ہاتھی نینا دیوی بھی کیوں نہ ہو آئے، اُسے پنکھیں نہیں مل سکتیں۔ آنکھ کُھلتے ہی اُچھل کر بستر سے نہ اُٹھو۔ سپنے میں جو کچھ دیکھا اُس پر سوچو۔
آج آکھاں وارث شاہ نوں
کِتوں قبراں وِچّوں بول
اجّ پھیر کتاب عشق دا
کوئی اگلا ورقا کھول
کہانی نہیں، تصویر۔ ڈاکٹر جسپی کا ایک نام موسم شِری واستو۔ ودھان مُسکرایا۔ ستیہ کام نے جُملہ کسا، ’’ٹھیلے پر موسم آیا۔‘‘
موسم سے لپٹی ہوئی آواز اور کیا کہتی؟
نرتیہ آرمبھ ہو جائے تو مؤ تردھار کی کیا ضرورت؟
دیویانی کا ایک نام کُنگ پوش۔۔۔ کیسر کا پھول۔ جیسے بند کلی کا آخری مکان۔ ’’کہانی۔ بھلے ہی مر جائے، کہانی کار پر آنچ نہ آنے پائے۔‘‘ ودھان نے کندھے اُچکائے۔
کلیاں دُلہن کے جوڑے کا شنگار کرتی ہیں اور قبروں کی اُداسی بڑھاتی ہیں۔
’’ایک دِن رنگ لائیں گے یہ گھاؤ۔‘‘ درویش نے کہا تھا۔
کچھ خانماں برباد تو سائے میں کھڑے ہیں
اس دور کے انسان سے یہ پیڑ بڑے ہیں
فرنگی رخصت ہوا۔ اپنا رنگ چھوڑ گیا۔ سُندری کا ایک نام ’’پِن اَپ بیوٹی۔‘‘ الوداع نہیں، گُڈبائی۔ گُھس پیٹھیے بن کر کتنے شبد چلے آئے۔ آزادی کے بعد بھی غلامی کا احساس۔
’’چلو آزادی تو مِل گئی، شہریار۔۔۔!‘‘ یہی تو میں کہہ رہا تھا، ’’اوتار کہ گونگا بہرہ مہاوت سُوتر دھار۔‘‘
بار بار گڑگڑانے سے دیوتا بھی مہنگے ہوجاتے ہیں، ناگ چمپا!
’’اوتار اور شہریار کو میں اپنی آنکھیں مانتا ہوں۔‘‘ درویش نے کہا تھا۔
میری ایک آنکھ گنگا، دوسری جمنا۔
ایک ہی راگ بہار۔ ایک ہی گھاٹ کا پانی۔ کبھی اِس پار کبھی اُس پار۔
’’جتنی ندیاں ہیں، سبھی پر پُل ہوتے ہیں، بانو آپا۔۔۔!‘‘ ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی دیویانی کہ سبھی سہیلیاں پالکی پر سوار۔‘‘
لال انکَّھادی ایہو پئی دسدی اے
روئے تُسیں وی ہوروئے اسیں وی ہاں
آزادی سے پہلے کی ایک شام۔ جیسے اندھیروں میں ڈوبتی آنسوؤں کی جھیل۔ پہلے شہریار کو سانپ نے ڈسا، پھر اوتار کو۔ دونوں موت کے مُنھ سے بچ نکلے۔
اندھیرے میں کانوں کو آنکھیں لگ گئیں، ناگ چمپا۔۔۔! جوگی اُتر پہاڑوں آیا، چرخے دی گونج سُن کے۔۔۔
اندھا ہاتھی پُل پر سے گزر گیا۔۔۔ بغیر مہاوت
بدلتا موسم مسکرایا۔ ممّی ڈیڈی آئیں گے، لال کھِلونا لائیں گے۔ سب آپس میں بات کرتے ہیں۔
’’مٹّی میں مِل جائے مِترو مرجانی!‘‘ ماں کی پھٹکار، ماں کا پیار۔
بستی بستی، پربت پربت، غم کی وہی کہانی۔
اندھا ہاتھی پیچھے رہ گیا۔ گونگا بہرہ مہاوت اکیلا ہی پُل پر سے گزر گیا۔
’’ندی پُل اور ہم۔‘‘ ناٹک نے سب کو چونکایا۔
اُڑجا بُلبل! پت جھڑ آیا۔
’’اِدھر سے اُدھر جاؤ اور آتے ہوئے مُٹھّی بھر مٹی لیتے آؤ۔ ہم اسے سجدے کریں گے۔‘‘ علی امام نے کہا تھا۔
’’بول میری مچھلی کتنا پانی۔‘‘ پاشان یاتری کی کہانی۔
’’لنکا میں ہاہا کار۔۔۔‘‘ کیا گایا جاتا ہے اس پار،
مُٹھی میں آسمان۔ آشیرباد چاہیے۔ ایک ہاتھ میں طوطا، ایک میں مینا۔
دور کوئی ڈمرو بجائے! پیپل کے نیچے، پنگھٹ کے پیچھے۔ ہونی بیٹھی جال بچھائے!
’’ناٹک کار نے کون سی بھید کی بات بتائی؟‘‘ راگ ملتانی۔
’’شہر میں کوئی نہ گائے۔‘‘ حکم سُلطانی۔
بات مہاراجہ کی۔ جب پُل بن کر تیار ہوا، ہرنی کی طرح قلانچیں بھرتی رہی موراں۔
ایک ہاتھ الگنی پر، ایک کمر پر۔ آرتی راگھون کا بھرت ناٹیم۔
پھول گلی سے آئی بارات۔ اندھے ہاتھی کی چنگھاڑ۔ تقدیر بھی اندھی ہوتی ہے۔
شبدوں اور رنگوں کو کیا معلوم کہ ہم کدھر جارہے ہیں۔ شاید ایک روز ہم پاگل ہوجائیں گے۔
’’میں تو پِیا سے نینا لڑا آئی!‘‘ دیویانی گاتی رہی۔
تم سر کیوں کھجانے لگے، ستیہ کام! باتوں کے سوداگر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔
آدی باسیوں کی یہی ریت ہے کہ پیالہ مُنہ سے لگانے سے پہلے چار بُوند دارُو دھرتی پر ٹپکاتے ہیں۔
ایک ہی کہانی ہزار بار کہی جاتی ہے۔ موراں کیسے رانی بنی، کچھ تو کہو۔
بابُل کا گیت کچھ اور اونچا اُٹھاؤ، دُلہن کی سہیلیو!
نینوں سے تیکھی کٹار چلانے کا انداز کہاں سے سیکھا، ناگ چمپا! کچھ تو کہو۔
کجری رسُولن بائی کی،
ترپت جِیَّرَا ہمار۔۔۔ نیۂر میں!
بیت گئی برکھا بہار۔۔۔ نیۂرمیں!
’’دُولھے کا جوتا کس نے چُرایا؟‘‘ سالیوں کی وہی چھیڑ چھاڑ۔
گرتے پتّے کی سرسراہٹ نے ہوا کا کندھا تھپتھپایا۔
بلّی نے راستہ کاٹا، ابابیل نے گھونسلا بنایا۔
دل سے دل ملاؤ تو کتھک کا آغاز ہو۔ چلو۔ بارہ دری کی چھت سے کبوتر اُڑائیں اور پلکوں سے پھول اُٹھانے کا کھیل کھیلیں۔
مینا بھابھی نے بیٹی بیاہ دی۔ بیٹی کا نام ناگ چمپا۔
ستیہ کام میں کیا دیکھا ناگ چمپا نے کہ اُس کی دُلہن بن گئی۔
لیٹے لیٹے ستیہ کام پہلے سونے کی مہر پر موراں کی تصویر دیکھی، پھر شِلالیکھ پر درویش کا اُداس چہرہ۔
’’صبح آنکھ کُھلی تو پہلے مسجد کا مینار دیکھا، اوتار!‘‘
’’اگر تمھاری نظر مندر کے کلش پر پڑتی تو بھی کیا فرق پڑتا؟‘‘
آج پھر شہریار اور اوتار پُل پر سے گزرے اور سُر میں سُر ملاکر گاتے رہے،
بول اری او دھرتی بول
راج سنگھاسن ڈان59واڈول
’’تم تو بوڑھے طوطے کے سامنے آئینہ رکھ کے آواز دیتے ہو۔‘‘ اوتار مُسکرایا۔
رانی بننے سے پہلے موراں کہا کرتی تھی کہ ابھی تو میں نے گُڑیا کا بیاہ بھی نہیں رچایا۔ یہ کہانی کہنے والی نانی اب کہاں؟
گھر کی طرح کہانی کا بھی پچھواڑہ ہوتا ہے۔ اچھّا متی کی لہریں ہماری بھول پر آج تک رو رہی ہیں۔
کاش دست گیر کی باتوں میں آنے کے بجائے شہریار کے دماغ پر درویش کی چھاپ رہتی۔
ناٹک تو ہوتا ہی رہے گا۔ ہم کہیں تو گہرائی میں ڈبکی لگائیں۔
رتن کٹوری گھی جلے، چولھے جلے کسار
گھونگھٹ میں گوری جلے، جاکے مورکھ بھرتار
نتھ کا موتی کہاں گِرا؟ گوری اُداس ہوگئی۔ کون کہے رانی آگا ڈھانپ، تم گاؤگے اور ہم سُنیں گے راگ دیش۔۔۔ اب کے ساون گھر آجا۔۔۔! من کی تلیّاسوکھی پڑی ہے۔۔۔ ایک بوند برساجا!
صبح کی چائے سب کو جگائے۔۔۔ جاگو! جاگو! جاگو!
رات کا پیالہ سب کو سُلائے۔۔۔ سوجاؤ، سپنوں کی دُنیا میں کھو جاؤ۔
پیلا موسم، ہریالا سپنا، کالا ناگ۔ سب ساتھ، آس پاس۔ گھاٹ پر املتاس۔
کارواں کی وہی بات۔ آنکھ اوٹ، پہاڑ اوٹ۔
کیا ہم اپنے آپ کو معاف کردیں؟ کہاں لِکھو گے شِلا لیکھ؟ کوئی پتھّر نظر نہیںآتا۔
گونگے بہرے مہاوت کے آگے فائلوں کے ڈھیر پڑے رہے۔
علی امام مارا گیا رفو کرتے کرتے۔ کون جانے دُنیا سے جاتے وقت وہ کِس کِس کی چادر کے گھاؤ اَن سِلے چھوڑ گیا۔
درویش کی وہی تصویر، تینوں بندر خاموش۔
آپ بتائیے، پُل کے آر پار آنے جانے پر اتنے پہرے کیوں؟ راگ درباری کا ہمیں کیا فائدہ؟ ناگ چمپا گاتی رہی،
اڑوسن پڑوسن کچھ بھی کہیں
میں تو چھورے کو بھرتی کرا آئی رے
دھرتی ماتا! ہمیں معاف کردو۔ اپنوں نے پھُول بھی پھینکا تو پتھّر لگا۔
واہ ری بسنت کی رات! تیری میری سب کی بات۔
آزادی کیا آئی، جوتیوں میں دال بٹنے لگی۔
دیویانی گنگناتی رہی،
دُکھ کی بات سہی جاتی ہے
کہی نہیں جاتی یہ بات
نیند سے جاگی تو مُنھ موڑ کر کھڑی ہوگئی ناگ چمپا۔
گوتم بدھ کے جنم جنمانتر کا کتھا سنسار۔۔۔ جاتک۔ گوتم بُدھ کا ایک اور نام۔۔۔ تتھاگت۔
تتھاگت نے کہا تھا، ’’بھکشوؤ! اُس یُگ میں میں ایک جُلاہا تھا۔ کپڑا بُنتے وقت مجھے پتہ نہ چلتا، چادر ہے کہ کفن۔‘‘
’’ہر کہانی بیچ سے شروع ہوجاتی ہے، وِدھان۔۔۔!‘‘، ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا اتاری کہ کبھی تین گھوڑوں کی کہانی، کبھی تین ہاتھیوں کی۔‘‘
سانپ کو کس نے مارا؟ اُسے دفناتے وقت چہرہ ڈھانپ لو اور سُکھ کی سانس لو۔
گونگے بہرے مہاوت کی ہنسی الگنی پر سوکھتی ساڑی کی طرح لہرائی۔
ناگ چمپا گنگناتی رہی،
جنازے کو میرے وہ رُکوا کے بولے
یہ لَوٹیں گے کب اور کہاں جا رہے ہیں
کہانی اور تصویر کے بیچ کتنی پرچھائیاں۔ وجوگ کی کتنی شہنائیاں۔۔۔
کسی نے راستے میں آنکھیں بچھائیں، کسی نے آنکھیں چُرائیں۔
اپنا اپنا ووٹ، سونے میں کھوٹ۔ بن گیا رقیب آخر، جو تھا رازداں اپنا!
ہم سب اولیا ہیں ناگ چمپا!
حدّ ٹپّے اولیا، بے حد ٹپّے پیر
حدّ بے حدّ دونوں ٹپّے اوہراناں فقیر
’’اِکّے دُکّے لوگ بھیڑ میں سے نکل آئے، پاشان یاتری۔۔۔!‘‘، ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا ڈاکٹر جسپی کہ اوبے رائے کونٹی نینٹل میں وِہسکی گلے سے نیچے اُتارتے ہوئے کوئی یہ کلپنا نہیں کر سکتا کہ نظام الدین کے قبرستان کی چھاتی پر سوار ہے یہ شہر آرزو۔
ودھان کا وہی اعلان کہ وہ سپنے میں لاہور کی گلیوں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ [وہ چَوبُرجی، وہی قلعہ گوجرسنگھ، وہ ہی شملہ پہاڑی، وہی مصری شاہ] اور وہی انارکلی۔
یہ رات جس درد کا شجر ہے
وہ مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
کیا تم جاگ رہے ہو، لاہور؟ تم تو اب بھی اپنے ہو،
پُل کے نیچے بہتی ہوئی ندی کتنی اُداس۔ جیسے غلامی کا اتہاس۔
پھول گلی میں بچّے چلاّتے رہے،
آئی نانی رام کلی
پھُول بکھیریں گلی گلی
آؤ کوئی نیا کھیل کھیلیں، چھوٹی سرکار! کہیں تمھارے سر پر ابابیل کا گھونسلا نہ گر جائے۔
ہم اندھے ہاتھی کو دیکھتے رہے۔ گونگے بہرے مہاوت کی میز پر فائلوں کے انبار ویسے کے ویسے۔
ہم سمجھ نہیں پا رہے کہ ایک کے دو دیش کیوں بنے۔ پھر بھی ہم ایک ہیں۔
’’کہہ دو اپنی لیلاؤں سے اونچی رکھیں لَو۔‘‘
مارے جانے سے پہلے علی امام نوّے سال کا ہوچکا تھا۔ درویش کی پرارتھنا سبھا میں اُس نے کہا تھا،
’’میرا نام رفوگر۔ یہی میری عادت، یہی عبادت۔‘‘
آگ ڈوم باگ ڈوم
گھوڑا ڈوم ہاتھی ڈوم
کھڑکی سے جھانکتی دھوپ مُسکرائی۔
تتھاگت نے کہا تھا، ’’بھکشوؤ! اُس یُگ میں میں نے ایک چُوہے کو شیر بنادیا وہ مجھ پر جھپٹا۔ میں نے کہا۔ پُنرموشکو بھَو وہ دوبارہ چوہا بن گیا۔‘‘
راج نیتی کا بھی یہی عالم۔ کبھی چوہے سے شیر، کبھی شیر سے چُوہا۔
کہانی میں قتل عام، تصویر میں جنازہ۔ پھول اتنا رویا کہ کانٹے بھی سسکیاں لیتے رہے۔
آرتی راگھون سے پوچھو، مہاراجہ اور موراں کی کہانی کہاں ہاتھ لگی۔
ملتان پر مہاراجہ نے پرچم پھہرایا۔ رات بھر جشن ہوتا رہا۔ موراں کا ملتانی ٹپّہ۔
مینڈے نین شرابی تینڈا دِل گھوڑ سوار
لنگھ آجاپتن جھناں دا مہاراجہ پر دیسی یار
گِلّ ہُلّ گئی وِچّ بجار مینڈے دِلدار
میں اِس پار توں اُس پار مَینڈے سردار
مہاراجہ موراں کو ملتان سے لاہور لے آیا۔ ہاتھیوں کا جلوس۔ سونے کے ہودے پر مہاراجہ کی بغل میں موراں۔بھیڑ سے اُٹھتی پھبتیاں کہ مہاراجہ نے ایک کنجری کو رانی بنایا۔ امرتسر میں اکال تخت کے سامنے مہاراجہ کو ایک پیڑ سے باندھا گیا۔۔۔ ایک اپرادھی کے روپ میں۔ معافی ملنے کی خوشی میں مہاراجہ نے اچھّا متی کا پُل بنوایا۔ پُل کا نام۔۔۔ پُل کنجری۔
یاد لاہور کی۔ بھگوان سنگھ کی دہی کے پیڑوں والی لسّی اور بدھا وا سنگھ کا اچار شلغم۔ گورنمنٹ کالج سے نیلا گُنبد تک دو فرلانگ لمبی سڑک۔
کہانی میں جلتا ہوا پیڑ،
آگ لگی اِس برکش کو، جلنے لگ گئے پات
تم کیوں اُڑو نہ پنچھیو، جب پنکھ تمھارے ساتھ
پھل کھائے اِس برکش کے، گندے کیے پات
یہی ہمارا دھرم ہے، جلیں گے اِس کے ساتھ
’’اگر تمھارا ایمان ایک پتھّر کے برابر ہو تو تم پُل بناسکتے ہو۔‘‘ موراں نے کہا تھا۔
ہم پُل پر سے گزرے۔ لیکن موراں کی کہانی ہاتھ نہ آئی۔
وِدھان کی زبان پر اپنا کلام۔ ایک آنسو بھری یاد،
وہ گلیاں جن سے وابستہ ہیں یادیں میرے بچپن کی
میرے بُھوکے قدم اب اُن کے ذرّوں کو ترستے ہیں
نہ جانے آج اُن میں کیسے کیسے لوگ رہتے ہیں
جہاں آباد میرے اپنوں کی پیاروں کی دُنیا تھی
پُل پر کھڑے ہوکر ایسا لگتا ہے کہ ہم ندی کے ساتھ بہتے جارہے ہیں۔
پاشان یاتری کا ایک نام ’’لابوہیم‘‘
ہیلو لابوہیم!
سیمار ماجھے نُحی اسیم
تادیم تا نادیم
تادیم دیم دیم
تاتاری کی اور بات ہے، جس نے ناگ چمپا کو یقین دلایا کہ ناٹک کی کلا میں وہ ستیہ کام سے کئی میل آگے ہے۔
ستیہ کام نے ایک رات اپنے کو شراب میں ڈبو دیا۔ جیسے کوئی موت کی انگلی تھام لے۔ ناگ چمپا نے ستیہ کام کی چِتا ٹھنڈی ہونے سے پہلے ہی تاتاری کو اپنا ہیرو مان لیا۔
’’اٹریا پر گرا رے کبوتر آدھی رات!‘‘
ویسے ہم میں کوئی خاص بات نہیں، دودھیا! ارے سنو سنو۔
دیویانی نے بیٹے کو اُٹھاکر چھاتی سے لگا لیا۔
مہابھارت کی وہی بات۔
’’اندھے کا بیٹا اندھا!‘‘ دُریودھن کو لڑکھڑاتے دیکھ کر دروپدی نے کہا تھا۔
موراں ہنستی رہی سپنے میں۔ کیا اِس پار، کیا اُس پار۔ ہمیں بھول تو نہیں جائے گا یہ سپنا؟
بانسری پر راگ جُوگیا!
اس کہانی کی ایک بھی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں۔ دودھیا اور وِدھان کی آنکھیں آسمان کی طرف اُٹھ گئیں۔
اندھا ہاتھی رات بھر چنگھاڑتا رہا۔
’’ناگ چھیڑ لیا کالا، منتر یاد نہیں۔‘‘ ناگ چمپا گنگناتی رہی۔پاشان یاتری اور ڈاکٹر جسپی ہنستے ہنستے چُپ ہوگئے۔
’’ہرکسی کو مذاق سوجھتا ہے، رتی راگھون۔۔۔!‘‘، ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی ناگ چمپا کہ پروفیسر دودھیا کنوارے ہی رہیں گے۔‘‘
اُدھیڑبُن میں نانی کی آنکھ لگ گئی۔
قبرستان کی جگہ شہید مارکٹ بن گئی۔ جیسے راگ جُوگیا میں ناگ چمپا کی روہانسی آواز۔
’’اس میں ہے ہی کیا، دیویانی۔۔۔!‘‘، ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی بانو آپا کہ سبزی منڈی کو پُرانی جگہ سے اُٹھا کر کہاں لے گئے۔آ رتی راگھون کِھلکھلاکر ہنس پڑی۔ کوئی پوچھے اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟
سچ نہیں تو کیا؟ جلدی کیا ہے؟ ایک بار پھر ہو آئیں موہنجوداڑو۔
ٹھہرو، ہم آتے ہیں۔ کوئی لُکّڑ، کوئی پڑھ پتھّر، کوئی لَکّڑ بازار۔
یوں بھی کہی جاتی ہے کہانی، پروفیسر دودھیا؟
اب ہم کیا کریں؟ ایک طرف چٹانیں، دوسری طرف گھر۔
سڑک پر تو ہر کوئی چل سکتا ہے۔
درویش کی تصویر۔۔۔ گھر گھر، گلی گلی۔
’’ہاتھی کے سر پر دیپ جلاؤ۔ بُرا مت دیکھو، بُرا مت بولو، بُرا مت سُنو۔‘‘ درویش کے شبد گونج اُٹھے۔
کسی نے اُس کی ہتیا کردی۔
’’آنے والی نسلوں کو یقین نہ ہوگا کہ ہاڑ ماس کا ایسا پُتلا دھرتی پر چلتا پھرتا تھا۔‘‘ دستگیر کی آواز، پُل کے پار۔
تیرے ہی بچّے تیرے ہی بالے
دھرتی ماں چھاتی سے لگا لے
’’ٹاہی ٹِپ گیا!‘‘ بلیّے شاہ کہہ گیا۔
’’ہم ایسی کچّی گولیاں نہیں کھیلے، دودھیا!‘‘ یہی تو میں کہہ رہا تھا تاتاری کہ آج کل ہم پر راہُو کیتو کا پھیرا ہے۔‘‘
ہمیں پیار سکھایا کس نے؟
آرتی راگھون نے۔
راستے میں قبرستان بھی ہے، شمشان بھی۔ واہ رے یاروں کے یار۔
جمالو دور کھڑی۔۔۔ رنّ نہا کے چھپّڑچوں نکلی، سُلفے دی لاٹ ورگی۔
پانی آگ بُجھائے
آنسو آگ لگائے
دنیا کچھ بھی کہے، کچھ بھی کہتی رہے، نفرت کا نغمہ ہمیں روز ستائے۔ کیا اِس پار کیا اُس پار۔
یہ مت کہو کہ پسینہ پونچھنے کی فرصت نہیں۔
کہانی کا ر کا دل بیٹھ گیا۔ آنکھوں میں پھر آنسو آگئے۔
ہم کیسے کہیں کہ مہاراجہ اور موراں کی کہانی سچ ہے یا جھوٹ۔
بچّے گڑیا کا بیاہ رچاتے رہے۔ آنکھوں میں چمک آگئی۔ گڑیا کا بیاہ تو موراں نے بھی رچایا ہوگا۔
’’ابھی کیا کچھ دیکھیں گی ہماری آنکھیں، پاشان یاتری۔۔۔؟‘‘، ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا کہ ڈاکٹر جسپی کی کتنی آوازیں آپس میں ٹکراتی رہیں جیسے پھلکاری کے رنگ۔‘‘
کوئی پُرانا گیت سناؤ۔ ناگ چمپا! شام گہری ہونے لگی۔ سات تو کب کے بج گئے۔
کیا موراں کا ٹپّہ سنوگے؟ طبلے پر جھپ تال پریم بلبّھ سنا رہے تھے۔
’’آج کون سی ساڑی پہنے گی رتی راگھون؟ کہانی اور تصویر کے بیچ وہی آدی تال، پاشان یاتری۔۔۔!‘‘، ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا ڈاکٹر جسپی کہ سدا چار جیون ہے اور دُراچار مرتیو۔‘‘
ایک بار پھر وِدھان کا قہقہہ اُٹھا۔ تاتاری چہکنے لگا۔ جیسے کہانی کار اپنے اندرجھانکنے لگے۔
ایک کے دو دیش بنے۔ پھر دو کے تین۔ ابھی اور کتنا پاپ چڑھے گا ہمارے سرپر؟
ناتی مالا جپتی رہی۔
’’گنگا میّا میں جب تک پانی رہے، کہانی میں ہماری دلچسپی بنی رہے، آرتی راگھون۔۔۔!‘‘، ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی ناگ چمپا! سر ہلاکر بولے پروفیسر دودھیا کہ شادی کا اُن کا کوئی ارادہ نہیں۔‘‘
شادی والی ساڑی میں کھِل اُٹھی دیویانی۔
’’گھر کو پانی پت کا میدان نہ بناؤ، دودھیا۔۔۔!‘‘، ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا تاتاری کہ اگر تمھارا ایمان ترکمان کے برابر ہے تو تم اُردو بازار کو بچا سکتے ہو۔‘‘
توبہ ہماری! ہم نہیں بولیں گے۔ کہانی کار کی گھبراہٹ پسیج اُٹھتی تو بات آگے بڑھتی۔
’’پیار بھرا دِل کبھی نہ توڑو، ناگ چمپا۔۔۔!‘‘، ’’یہ تومیں کہہ رہی تھی رتی راگھون۔ کہ سو باتوں کی ایک بات۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔‘‘
یہ گھر اور بازار میں رہیں گے۔ نہ ہاتھی ہے نہ گھوڑاہے! سپنے میں مہاراجہ کے سامنے موراں کو ناچتے دیکھا۔
پھُول گلی میں بچّے گاتے رہے!
برسو رام دھڑاکے سے
بُڑھیا مرگئی فاقے سے
بینکاک کی بات یاد ہے نا۔ ہمارے راج دُوت کو سُوٹ بوٹ میں دیکھ کر ہزاروں بھکشو، جو اسے ’’بدھ کے دیش کا آدمی‘‘ سمجھ کر سواگت کو آئے تھے، ہوائی اڈّے سے اُلٹے قدموں لَوٹ گئے۔
اپنی ٹکّر کی بات تو ہونی چاہیے۔ اَن ہونی کو ہونی کردیں، ہونی کو اَن ہونی۔ واہ رے دودھیا! واہ رے وِدھان!
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں؟ کیا اس پار۔ کیا اُس پار۔
او میرے پانی دیوا! تیرے سب نام لیوا! رتی راگھون پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی دودھیا۔‘‘
’’یہی تو میں کہہ رہا تھا تاتاری کہ آج پھر سپنے میں موہنجوداڑو کو کھجوراہو سے گلے ملتے دیکھا۔‘‘
دھب دھب دھب گالی پہ گالی میری بنّو میری جان
ندی کنارے بنجاروں نے گایا نٹ کلیان
یاد رہے گا رتی راگھون کا دانتوں تلے اُنگلی دبانا۔
مورا لائی کوئٹہ سے آئی۔ ’’جھنکار گھنگھرو کی‘‘ ناگ چمپا کے ناٹک کی ہیروئن۔۔۔ مورا لائی
’’یہ سب تو زیرو کے بلب ہیں، دودھیا۔۔۔!‘‘، ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا تاتاری کہ موراں نے ضرور پتہ لگا لیا تھا کہ مہاراجہ کے کتنے وزیر تھے اور کتنے جلاّد۔‘‘
’’سو جیہ میرے آگے ہیں کلیسہ میرے پیچھے۔۔۔‘‘
’’دشمن کے گریباں سے کھیلنے والے ایک دوسرے کے گریبان پر کیوں جھپٹ پڑے، رتی راگھون۔۔۔؟ ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی ناگ چمپا کہ دلدل کو دیکھ کر ہم نے پائنچے کیوں سمیٹ لیے؟‘‘
گان59و گان59و، نگر نگر وہی کہانی،
طوطیا من موتیا!
میں آکھ رہی، میں ہٹک رہی
توں ایس گلی نہ جا
ایس گلی دے جٹّ بُرے
جیہڑے لیندے پھاہیان پا
طور طیے من موتیے!
میں جیوندا میں جاگدا
تو چلّ گھر بچیّاں کول
میں پچھّے پچھّے آن58ودا
بچیاں کئی چوگ لیان58ودا
سر پر ناریل مت توڑو، ناگ چمپا!
ادھر درویش کا چیلا سنگھاسن پر وراجمان۔۔۔ اُدھر دست گیر کا پیغام۔۔۔ پُل بنا چاہ بنا مسجد و تالاب بنا! جب تک دست گیر زندہ رہا، اُداس رہا۔ درویش کے مارے جانے کا غم دماغ پر چھایا رہا۔
پُل کی طرف کھلنے والی کھڑکی سے کب تک دیکھتے رہوگے؟
ہمارا پرنام سنیچر کی شام کے نام، جب پُل بن کر تیار ہوا۔
اے لحد اپنی مٹّی سے کہہ دو، داغ لگنے نہ پائے کفن کو
آج ہی ہم نے بدلے ہیں کپڑے، آج ہی کے نہائے ہوئے ہیں
’’کیا اندھے ہاتھی کی آتما بھی اندھی ہوتی ہے، تاتاری۔۔۔؟‘‘، ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا دودھیا کہ پُل کنجری کا قصّہ مہاراجہ اور موراں کے زمانے سے بہت آگے نکل آیا۔‘‘
علی امام کے ابّا جان کی آپ بیتی۔
میاں والی جیل کی کہانی۔
ایک کھیپ گئی، ایک آئی۔
’’ہر کوئی شاعری پر اُتر آیا، پاشان یاتری۔۔۔!‘‘، ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا ڈاکٹر جسپی کہ کہانی پیچھے رہ گئی۔‘‘
ناگ چمپا کے ناٹک کی وہی کہانی کہ سات گڈریے پُل پار کرگئے، ساتواں پُل پر موت کا شکار۔ بجلی اُسی پر گری۔
گونگے بہرے مہاوت کے خلاف کوئی فائل کیسے آگے آئے۔
مجبوری کا نام درویش۔ موکم کروتی وا چالم۔۔۔ گونگے کو واچال بنا دیتی ہے سرسوتی۔
’’تم بہت پیار ا جھوٹ بولتی ہو، ناگ چمپا۔۔۔!‘‘، ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی آرتی راگھون کہ سونے میں تانبا ملائے بغیر چوڑیوں کی سَولائیاں قائم نہیں رکھی جا سکتیں۔‘‘
دِھیاں جمائی لے گئے، بہوئیں لے گئے پوت
کہے منوہر جانگلی، تم رہے اوت کے اوت
گُونتھ لو جُوڑے میں پُونم کا چاند، ناگ چمپا! اب تو تمھارے ناٹک میں بھی آگئی یہ بات۔
موراں کا ایک نام تھا شبنما۔ مہاراجہ پیار سے اُسے ’’شبو‘‘ کہہ ڈالتا تو اُس کا ملتانی ٹپّہ شروع ہو جاتا۔
’’دعا بے کار ہے۔ لیکن بددعا اتنی کارگر کیوں ہے؟‘‘ موراں نے مہاراجہ سے پوچھا۔ کچھ تو زیبِ داستاں بھی چاہیے۔ جیسے کالے لہنگے کے لیے ہنری گوٹ اور لال دوپٹے پر سلمیٰ ستارہ۔
’’کنگھی کی خاطر دو گنجوں میں لڑائی ہوگئی، تاتاری۔۔۔!‘‘، ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا دودھیا کہ تیسرا گنجا بیچ میں کودا۔‘‘
ارے ارے راجہ بیٹا! تم پھر گر گئے۔ اس بار پھر تم نے چیونٹی کا آٹا گرا دیا۔
کون سے ازم کا نہیں حامی
یا الٰہی یہ دودھیا کیا ہے
وہی آدی باسی بول،
ہم تین تھے۔ ایک کو وہ پکڑ لے گئے۔
ایک کے بغیر ہم کتنے اُداس
تتھاگت نے کہا۔ ’’بھکشوؤ! اُس یُگ میں بھکشو آنند اندھا ہاتھی تھا اور میں گونگا بہرہ مہاوت۔ چودہ سال بعد اندھے ہاتھی کی دِرشٹی لوٹ آئی۔ اور گونگا بہرہ مہاوت بولنے اور سُننے لگا۔ شراوستی کے لوگوں نے اِسے اتہاس کے پنّوں میں سجا دیا۔‘‘
کتھا کا وِراٹ روپ۔
’’وہی ہوا جو چراغوں کو بُجھاتی ہے، آگ کو اور بھی بھڑکاتی ہے۔‘‘ درویش نے کہا تھا۔
’’چھوٹے بچّے بھی بڑے سپنے دیکھتے ہیں، پاشان یاتری۔۔۔!‘‘، ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا ڈاکٹر جسپی کہ پونگا پنڈت کی وہی کتھا۔۔۔ ماتا کُنتی کے پانچ پُتر۔ ایک بھیم، ایک ارجن، ایک اور، ایک اور،اور ایک ہم بھول گئے!‘‘
قصّہ آزادی سے پہلے کا۔
علی امام کی امّی جان، اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ جیل سے آیا ابّاجان کا خط،
’’بیٹا علی امام!‘‘
آج جیل کے احاطے میں بے نام قبر کے پاس سے گزرتے ہوئے میری آنکھیں ڈبڈا آئیں۔ درویش رات بھر میرے آنسو پونچھتا رہا۔‘‘
’’آنسو پلکوں سے بڑے ہوگئے، ناگ چمپا۔۔۔!‘‘، ’’یہی تو میں کہہ رہی تھی رتی راگھون کہ ہر جنم میں ہمارا ملن۔‘‘
رگِ گُل سے بُلبل کے پر باندھتے ہیں۔۔۔ ہم کسے دیوتا مان لیں؟
فرنگی پھر بھی اپنا رنگ چھوڑ گیا۔ وہی اندھا ہاتھی اور گونگا بہرہ مہاوت۔
’’من‘‘ ابھیمنّو، یُگ دُریودھن، پاشان یاتری۔۔۔!‘‘، ’’یہی تو میں کہہ رہا تھا ڈاکٹرجسپی۔۔۔! ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے!‘‘
’’مور کو ناچنے اور ہاتھی کو چنگھاڑنے کے سوا آتاہی کیا ہے؟‘‘ دست گیر نے کہا تھا۔
سورج سورج کھیل رہے تھے، یہ جو رات جلے ہیں پیڑ
ایسا بھی ہوتا ہے یارو، سپن لوک بن جائے پیڑ
اِدھر اوتار کے سامنے ناگ چمپا کا ناٹک اور پُل پر سے گزرتا ہوا اندھا ہاتھی۔ اُدھر شہریار کے سامنے سونے کی مہر پر موراں کی تصویر۔
’’رنگ منچ جل کر بھسم ہوگیا۔ اداکار ابھی زندہ ہیں۔‘‘ درویش نے کہا تھا۔
گاتی رہیں بانو اور دیویانی،
اے سہیلی! ترا بانکپن لُٹ گیا
آئینہ توڑ دے!
تِتلی پاس سے اُڑ گئی۔ بچّے پیچھے بھاگتے رہے۔
بارہ دری سے آگے شہید چوک، جہاں علی امام اور درویش کا خون گلے مِلا۔ عقیدت کے چراغ جلتے رہے۔
رونے کا انداز کوئی مینڈکوں سے سیکھے، جن کی آنکھیں نکال لی گئیں۔ لیکن وہ رات بھر ٹرّاتے رہے۔ کیا اِس پار، کیا اُس پار۔
اونچی چٹان کے بیچوں بیچ گہری دراڑ۔
اپنی ڈفلی اپنا راگ
کیوں گائیں بے موسم پھاگ
چندن بن کے پیڑوں پر کیوں
اُگ آئے نفرت کے ناگ
راستہ ہمیں پوچھتا ہوا رنگ منچ تک آپہنچا۔
روپ محل کے سامنے اوتار اور شہریار میں ٹھن گئی۔ دونوں میں ہاتھاپائی۔ چشمے چکناچُور۔
چشمے تو آگئے۔ لیکن پُل کنجری کو ’’پُل کامیانی‘‘ بنانے کا کام مکمل نہ ہو سکا۔
اس پار ناری نکیتن کی سنیما بکا دیویانی۔ اُس پار بلبل اکادمی کی پرنسپل۔۔۔ بانو۔
الگنی پر سُوکھتی ساڑی ہوا کے کان بھرتی رہی۔
قصہ مہاراجہ اور موراں کا۔
’’میرے لیے ہاتھی کا پنجر سجاؤ، مہاراج‘‘ رانی بنتے ہی موراں کی ادا۔
پہلے ہاتھی دانت کا منڈپ بنایا گیا۔ پھر اُس کے اندر ہاتھی کا پنجر سجایا گیا۔
سونے چاندی کے دیپ جگمگا اُٹھے۔
’’زندہ ہاتھی لاکھ کا، مرا ہوا سوا لاکھ کا۔‘‘ موراں نے آرتی اُتاری۔
ایک رات ہاتھی کا پنجر چوری ہوگیا۔ اِسی غم میں گُھل گُھل کر موراں مرگئی۔
واہ ری موراں! تیری یاد۔ آدھی رات کی خاموشی۔ تیری پائل کی جھنکار۔
’’پُل پر گھر نہ بناؤ۔‘‘ درویش نے کہا تھا۔
جَے ہو! جے ہو! پٍُل کنجری تیری جَے ہو۔
آج پھر پاشان یاتری کو پُل پر سے گزرتے ہوئے آدھی رات کی خاموشی میں موراں کی پائل کی جھنکار سُنائی دیتی رہی،
چھم چھما چھم۔۔۔ چھم!
چھم چھما چھم۔۔۔ چھم!
مصنف:دیوندر ستیارتھی