دھرت راشٹر نے پوچھا۔
’’اے سنجے مجھے بتاؤ اتنے سارے لوگ اپنے اپنے ہاتھوں میں ہتھیار اٹھائے اس سرزمین پر کیا کر رہے ہیں؟‘‘
سنجے جواب دیا۔
’’اے دھرت راشٹر۔ وہ لوگ ایک جاتی کو نشٹ کر دینا چاہتے ہیں۔ انھیں صفحۂ ہستی سے مٹادینا چاہتے ہیں‘‘۔
’’کیا ایسا ممکن ہے سنجے۔۔۔کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا ایسا کبھی ہوا تھا؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا ایسا ہوگا؟‘‘
’’ایسا ہوتا ہے دھرت راشٹر۔ وہ سمجھتے ہیں وہی اس دھرتی کے پتر ہیں۔ دوسروں کو یہاں نہیں رہنا چاہئے۔ وہ اکثریت میں ہیں اس لئے وہ انھیں اور ان کی نشانیوں کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔ انھوں نے پوری جاتی کو خوف زدہ کر دیا ہے۔ ذرا تصویر دیکھئے۔ کتنا خوف ہے اس کی آنکھوں میں۔۔۔ موت کا خوف۔۔۔ وہ کس طرح دونوں ہاتھ جوڑے زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے‘‘۔
’’تصویر نہیں سنجے۔ ہمیں پورا منظر دکھاو‘‘۔
’’کون سا منظر دکھاؤں؟ دھرت راشٹر۔ منظر ہی منظر ہیں۔ بلکتے بچوں کا منظر، آگ میں جلتے ہوئے جسم، تنوروں میں جلتے بدن، اپنی عصمت کا ماتم کرتی ہوئی عورتوں کا منظر، عبادت گاہوں کا ملبہ، خاک کا ڈھیر بنی عمارتیں، اجڑے بازار، سڑتی ہوئی لاشیں۔۔۔ انھوں نے کسی کو نہیں چھوڑا دھرت راشٹر! نہ علاج کرنے والوں کو، نہ زخمیوں کی مدد کرنے والوں کو، نہ انصاف کرنے والوں کو اور نہ مزدوروں کو۔۔۔ آگ ہی آگ ہے۔۔۔ چاروں اور آگ ہے‘‘۔
’’ہاں! میں وہ آگ دیکھ رہا ہوں۔ آگ جس نے سب کچھ نگل لیا ہے۔ میں آوازیں سن رہا ہوں۔ مارو، کاٹو، جلاؤ۔۔۔ ان میں خوف زدہ چیخیں اور بلکتی ہوئی آوازیں اور سسکیاں بھی ہیں، کیسا عجب سا شور ہے‘‘۔
’’کرشن نے کہا تھا۔۔۔ اس جہنم کے تین دروازے ہیں۔ شہوت، غصہ اور طمع۔ یہ روح کو تباہ کر دیتے ہیں۔ یہی دروازے کھل گئے ہیں دھرت راشٹر!‘‘
’’سمئے کے ساتھ ساتھ پرمپرا بھی بدلتی ہے سنجے۔۔۔ ایک نیا اتہاس وجود میں آتا ہے‘‘۔
’’اے دھرت راشٹر۔۔۔ یہ منظردیکھئے، اتہاس اس منظر کو جنم دینے والے کے بارے میں کیا لکھےگا۔ یہ تو آنے والا سمئے ہی بتائےگا۔ یہ شہر کی ایک خوب صورت کالونی ہے۔ یہاں سب اقلیتی فرقے کے افراد رہتے ہیں۔ ان میں ایک بہت عزت دار آدمی بھی ہے جو اقتدار کے ایوان میں بیٹھا کرتا تھا۔ اس آدمی نے انھیں یہاں مکانات بنانے اور یہاں رہنے کی ترغیب دی تھی۔ اطراف میں اکثریتی فرقے کے لوگ رہتے ہیں۔ لیکن وہ سب شریف آدمی ہیں۔ انھیں یقین تھا کہ کسی بھی ناگہانی صورتحال میں وہ عزت دار آدمی انھیں بچالےگا۔ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرےگا۔ سورج نکلنے کے بعد سے وہ پریشان ہیں۔ صبح ایک ذمہ دار محافظ عزت دار آدمی کے گھر آتا ہے۔ کچھ اس کے ساتھی بھی ہیں۔ وہ اسے تیقن دیتے ہیں کہ وہ محافظوں کو بھیج دیں گے۔ ان کی مکمل حفاظت کی جائےگی۔ اس کے چہرے پر اطمینان ہے لیکن اِن لوگوں کو گئے ہوئے پانچ منٹ بھی نہیں ہوئے کہ ایک روٹی کی دکان اور تین پہیوں کی ایک سواری جلا دی گئی۔ آدھا گھنٹہ بعد پتھر پھینکے جانے لگے۔ تمام مکین سہم کر عزت دار آدمی کے گھر جمع ہو گئے۔ عزت دار آدمی کی انگلیاں مسلسل حرکت میں ہیں۔ وہ کوئی نمبر بار بار ملا رہا ہے یا کئی نمبر ملا رہا ہے۔ لیکن کوئی نمبر نہیں ملتا۔ ایک اضطرابی کیفیت ہے۔ بےچینی ہے، محافظوں کا دور دور تک پتہ نہیں۔ وہاں ایک ہی مکان دوسرے فرقے کا ہے۔ انھوں نے اپنا گھر ہجوم کے حوالے کر دیا ہے۔ اب گھروں پر سنگ باری زیادہ آسان ہے۔ عقبی حصے سے بھی پتھر، ایسڈ بلب، کیروسین کی بوتلیں، پٹرول بم پھینکے جا رہے ہیں۔ سورج سر پر آ گیا ہے۔ ہجوم ایک شخص کو گھیرے ہوئے ہے۔ پتہ نہیں وہ وہاں کیسے پھنس گیا۔ وہ اس پر چھپٹے۔ تلوار چمکی، اس کا جسم تین ٹکڑوں میں کٹ گیا۔ جئے۔۔۔ان کے نعرے میں جوش ہے۔
آگ کا ایک الاؤ بہت پہلے ہی تیار کر لیا گیا ہے۔ جسم کے وہ ٹکڑے آگ میں جھونک دیئے گئے۔
چر۔۔۔ چر۔۔۔ چر۔۔۔ تازہ گوشت کے جلنے سے عجیب سی بو پھیل گئی۔ آگ، شعلے، دھواں، جلتے گوشت کی بو، پتھروں کی بارش۔۔۔ عجیب خوفناک فضا ہے۔ عزت دار آدمی اور دوسرے خوف زدہ ہیں۔ ان کی کالونی کا مضبوط آہنی گیٹ ہجوم نے توڑ دیا۔
’’گھس جاؤ۔۔۔‘‘ ہجوم نے حلق پھاڑ کے آواز لگائی۔
عزت دار آدمی کی انگلیاں درد کرنے لگیں لیکن کہیں رابطہ قائم نہیں ہوا۔ سارے نمبر بےمعنی ہو گئے ہیں۔ انگلیاں شل ہوگئیں ہیں۔ تمام اعضاء شل ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ سب اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں مایوسی اور بے بسی اتر آئی تھی۔ جلتے ہوئے آگ کے گولے اور پتھر ان کی چھتوں اور دیواروں سے ٹکرا رہے تھے۔ وہ ایک اور شکار پکڑ لائے۔۔۔ تلواریں اُٹھیں اور جسم ٹکڑوں میں بکھر گیا۔ گوشت کے ٹکڑے آگ میں پھینک دیئے گئے۔
وہی بو سارے ماحول میں پھیل گئی، موت کی بو، فنا کی بو۔۔۔ بو بھی کتنی وحشت ناک ہوتی ہے۔
سورج عروج پر پہنچ کر ڈھلوان میں اتر رہا تھا۔۔۔ اب وہ ان کے گھروں تک پہنچ گئے ہیں۔ سروں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ تلواریں، گپتیاں، لاٹھیاں۔۔۔گھروں کے دروازے ٹوٹنے لگے ہیں۔ عورتوں کو محفوظ کمروں میں چھپا دیا گیا ہے۔ مرد آنے والے خطرہ سے خوف زدہ بے چینی سے ٹہل رہے ہیں۔ اچانک وہ گھس پڑے اور مردوں کو بڑی بے دردی سے کھینچا جا رہا ہے۔۔۔ ہجوم اِن کے ٹکڑے کر رہا ہے۔
فضا میں نعرے گونج رہے ہیں
بےرحمی، سفاکی، آنکھوں میں خون، خوف زدہ چیخیں، بےبس خاموشی، بےعزتی۔۔۔ عورتوں کے لباس ریزہ ریزہ ہوئے۔ عصمتیں تار تار ہوئیں، شفاف جسم داغ دار ہوئے، وہ جسم جن کی جھلک بھی کسی نے نہ دیکھی تھی، انھیں سڑکوں پر بھنبھوڑا جا رہا ہے۔ آہ و بکا، چیخیں، آنسو، جسم ہوس کا ساتھ نہیں دے پا رہے ہیں، جھلاہٹ، جسم کے ٹکڑے ٹکڑے پھر آگ۔
چر۔۔۔ چر۔۔۔ چر۔۔۔ وہی عجیب سی وحشت ناک بو۔
تیسرا پہر۔ کوئی محافظ نہیں آیا۔ سورج نیچے آ گیا ہے۔ بالآخر عزت دار آدمی تک وہ پہنچ گئے۔ وہی ان کا اصل شکار ہے۔ وہ بری طرح ٹوٹ پڑے۔ اسے دھکے مار کے باہر نکالا گیا۔۔۔ اسے بےلباس کرنے میں چند لمحے لگے۔ وہ مادر زاد برہنہ ہو گیا۔ وہ چیخ چیخ کر اس سے مطالبہ کرنے لگے۔
وہ مخصوص الفاظ کہلوانا چاہتے تھے لیکن۔۔۔ اس کی زبان گنگ تھی۔
’’بول۔۔۔جئے شری رام۔۔۔بول ۔۔۔‘‘ وہ چپ رہا۔
ان کا اصرار بڑھتا جارہا تھا۔ لیکن اس کی زبان پر تالے پڑے تھے۔ جھلا کر انھوں نے اسے تھپڑ اور گھونسے لگائے۔ لاتوں سے مارا۔ پھر ایک ہتھیار چمکا۔ اس کے ہاتھوں کی انگلیاں کاٹ دی گئیں۔ انگلیاں جن کے سہارے وہ نمبر گھماکر مدد مانگ رہا تھا۔ تحفظ چاہتا تھا۔ خون تیزی سے بہنے لگا۔
’’بول۔۔۔بول ۔۔۔‘‘ مغلظات کا طوفان ابل پڑا۔۔۔ اس کے جسم کو جگہ جگہ سے زخمی کیا گیا۔ اس کے پورے بدن سے خون بہنے لگا۔ جسم سے ٹپکتا خون۔ بےلباس بدن۔۔۔اس کے پیروں کے اگلے حصے کاٹ دیئے گئے۔ وہ بار بار گرتا رہا۔ جب وہ بالکل چلنے کے قابل نہیں رہا تو ایک طرف لڑھک گیا۔ تب ایک تیز دھار والا ہتھیار اس کی گردن میں دھنسا دیا گیا۔ اسے نجات مل گئی۔ اس کے جسم کو گھسیٹ کر درمیان میں لایا گیا۔ اس کے جسم کے تین ٹکڑے کئے گئے اور پھر آگ کا الاؤ چر۔۔۔چر۔۔۔ چر۔۔۔وہی بو۔۔۔انسانی گوشت کے جلنے کی بو۔
’’دیکھا دھرت راشٹر؟‘‘
’’ہاں۔۔۔دیکھا ۔۔۔ایسا بالکل پہلی بار دیکھا ہے۔‘‘
’’اے دھرت راشٹر اب آپ کیا کریں گے؟‘‘
’’میں تو مکھوٹے بدلتا رہتا ہوں سنجے۔۔۔پتہ نہیں کون سا مکھوٹا لگانا پڑے‘‘
’’اے دھرت راشٹر کرشن۔۔۔ کرشن نے ارجن سے کہا تھا۔۔۔ اے بھارت ! تمام جان دار آغاز میں نامعلوم، درمیان میں معلوم اور مرنے کے بعد پھر نامعلوم ہوتے ہیں۔ جب سب کی حالت ایسی ہے تو افسوس کس بات کا ہے؟‘‘
۲
’’دھرت راشٹر ایک بہت ہی انوکھا منظر ہے۔ نہ ماضی میں ایسا کوئی منظر دیکھا، نہ حال میں۔ مستقبل۔۔۔ مستقبل کس نے دیکھا ہے۔ ایسا منظر دھرت راشٹر کہ ردر، وسو، سادھیہ، آدتیہ، وشو، اشون، مروت، اشمپ، گندھر، یکھش، سدھ امور، سب متحیر ہیں۔ سارے بھگوان حیرت زدہ ہیں۔ دیوتاؤں نے ایشور سے کہا تھا وہ منش کو نہ بنائے، وہ ہنگامہ کرے گا۔ لیکن اتنا ہنگامہ کرےگا یہ شاید دیوتا بھی نہیں جانتے تھے۔۔۔‘‘
’’کیا ہو سنجے۔۔۔؟‘‘
’’اے دھرت راشٹر۔۔۔یہ غریبوں کی بستی ہے۔ یہاں بھی ہجوم ہے۔ ان کے ہاتھوں میں ہتھیار ہیں۔ ان کے ساتھ محافظ بھی ہیں۔ جو انھیں روک نہیں رہے بلکہ ان کی مدد کر رہے ہیں۔ وہی نعرے۔۔۔ ویسا ہی شور۔۔۔ آگ کا الاؤ روشن ہے۔ یہاں ایک عبادت گاہ بھی ہے، بچھڑی جاتی کے یہ لوگ عبادت کرتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے عبادت گاہ مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئی۔ مقدس کتاب کے صفحات بکھرے ہوئے ہیں۔ ایشور کی شکل بدل دی گئی۔ دیکھئے دھرت راشٹر وہ کتنی مہارت سے ایک ہی وار میں ٹکڑے کرتے ہیں۔ عورتوں کو بےلباس کرتے ہیں۔ بےبس عورتوں کو جہنم میں ڈھکیل رہے ہیں۔ ننگا کھیل جاری ہے۔ ایک کے بعد ایک مردانگی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ پوری بستی ڈھیر ہوتی جارہی ہے۔ آگ اور دھواں ہے۔ یہ منظر دیکھئے دھرت راشٹر۔ میں اسی منظر کی بات کر رہا ہوں‘‘۔
’’سنجے وہ تو گربھ وتی ہے، پورے نو مہینے کی گربھ وتی‘‘۔
’’ہاں دھرت راشٹر۔ وہ اسی عبادت گاہ کے سامنے والے مکان میں رہتی ہے ۔۔۔وہ کتنا گھگھیا رہی ہے۔ اسے چلنا کتنا دوبھر ہورہا ہے۔ اسے بےلباس کیا جا رہا ہے۔۔۔‘‘
’’اوہ۔۔۔وہ مرجائےگی سنجے‘‘۔ دھرت راشٹر ب چین ہو گئے۔
’’مرنا تو اس کا مقدر ہے۔ دھرت راشٹر۔۔۔! لیکن یہ کیسی موت ہے۔ وہ سب اس پر پل پڑے ہیں۔ وہ ہاتھ جوڑے بھیک مانگ رہی ہے۔ وہ بے دم ہو گئی ہے۔ بالکل بے جان۔۔۔جگہ جگہ سے خون رس رہا ہے۔ اچانک وہ راکشس تلوار لے کر آگے بڑھا۔ وہ دیکھئے۔ کتنی مہارت سے اس نے گربھ وتی کا پیٹ چیرا ہے۔۔۔دھرت راشٹر ! بچہ باہر نکل آیا ہے، بچہ زندہ ہے۔ زندہ ہے وہ۔۔۔دھرت راشٹر یہ کیسا جنم ہے۔ ابھی ماں کے جسم کو داغ دار کیا گیا۔ لیکن بچہ کیسا بےداغ اور شفاف ہے‘‘۔
’’وہ اس کا کیا کریں گے سنجے۔۔۔ کیا ہوگا اس کا‘‘۔
’’دیکھئے۔۔۔ اس نے بچے کو آگ میں اچھال دیا ہے۔۔۔ کتنی مختصر زندگی ہے دھرت راشٹر آگ میں جلنے والا سب سے کم عمر آدمی۔۔۔ بس ایک لمحہ اس نے زندگی جی لی۔ اب انھوں نے ماں کے بھی ٹکڑے کردیئے۔۔۔ اچھا ہی کیا۔۔۔ وہ تو ویسے ہی مر گئی تھی۔۔۔ ظلم کی تاریخ میں ایک نئے پنے کا اضافہ ہوا ہے گرودیو۔۔۔
’’آپ کی آنکھوں میں آنسو۔۔۔دھرت راشٹر‘‘۔
’’ہاں سنجے۔۔۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔ میں تو سب کے لئے ہوں۔ سب کے لئے۔۔۔‘‘
’’پرہلاد کے لئے آگ گلزار بن گئی تھی دھرت راشٹر۔۔۔ کیا معصوم کے لئے بھی؟‘‘
’’پتہ نہیں سنجے۔۔۔ اس یگ میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔۔۔‘‘
’’پھر آپ کیا کچھ کریں گے؟‘‘
’’میں کیا کر سکتا ہوں۔ میں حالات کے مطابق اپنا مکھوٹا بدل لیتا ہوں۔ جب بھائی کے مقابلے میں راج پاٹھ سے محروم کیا گیا تب بھی میں نے کچھ نہیں کیا۔ راج پاٹھ ملا تو میں نے مکھوٹا بدل لیا۔ میں شکونی کی سازش کو روک سکا نہ دروپدی کے وستر ہرن کو۔۔۔ تو ان استریوں کے وستر ہرن کو کیا روک سکتا ہوں۔ میں دریودھن کو روک سکا نہ یدھ کو روک سکا۔ میں نہ تو رتھ یاترا روک سکا، نہ عبادت گاہ کو مسمار کرنے سے روک سکا۔ میں تو خاموش تماشائی ہوں۔ تماشا بھی تمہارے ذریعے دیکھتا ہوں‘‘۔
’’آپ کس طرف ہیں دھرت راشٹر؟‘‘
’’میں تو ہمیشہ اکثریت کی طرف رہا۔ چاہے انھوں نے کتنا ہی انیائے کیا ہو‘‘۔
’’دھرتی کے اس ٹکڑے پر آپ نے جن کو راج کرنے بھیجا تھا اس موذی نے راکھشس کا روپ دھارن کر لیا ہے۔ اس نے چن چن کر ایک ہی جاتی کے لوگوں کو ختم کروایا ہے‘‘۔
’’ہم اس سے کہیں گے کہ وہ دھرم راج کرے، دھرم راج۔۔۔‘‘
’’دھرت راشٹر! کرشن نے کہا تھا۔۔۔ تکبر، طاقت، اکھڑ پن، شہوت اور غضب کے بندے ہوکر یہ کینہ پرور اپنا برا کرتے ہیں۔ اس لئے کہ میں ہی سب میں موجود ہوں‘‘۔
’’تم بار بار کرشن کا ذکر کیوں کر رہے ہو۔ کیا کرشن پیدا ہو گیا؟‘‘
’’اس یگ میں ایسا کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ دھرت راشٹر۔ یہ آپ نے ہی کہا ہے‘‘۔
’’سنجے یہ کیسا شور ہے‘‘۔
’’کچھ لوگ ہیں جو شور مچا رہے ہیں۔ انھوں نے بھی وہ سارے منظر دیکھے ہیں‘‘۔
’’پھر وہ شور کیوں کر رہے ہیں؟‘‘
’’اس لئے دھرت راشٹر کہ ان کے اندر انسان زندہ ہے۔۔۔اب لفظ تصویر بن جاتے ہیں اور تصویریں گھر گھر پہنچ جاتی ہیں۔ ظلم کو چھپانا اب ممکن نہیں‘‘۔
’’لیکن شور تو ہمارے درباری کررہے ہیں۔ وہ بھی جنھوں نے ہمارا سنگھاسن اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھا ہے‘‘۔
’’ہاں دھرت راشٹر۔۔۔ وہ بھی انسان کا مکھوٹا لگانا چاہتے ہیں‘‘۔
’’تو کیا وہ ہمارا سنگھا سن گرا دیں گے؟‘‘
’’آپ دربار لگائیں دھرت راشٹر‘‘۔
دربار لگا۔ باہر کی آوازیں سچی تھیں۔ لیکن دربار کے اندر چیخنے والوں کی نظر سنگھاسن پر تھی۔۔۔ بار بار اس گربھ وتی اور بچے کی دہائی دی جارہی تھی۔ شور بڑھتا جا رہا تھا۔ جب شور بہت بڑھ گیا تو اس راکھشس نے جس کا خمیر سور کی لید سے اٹھا تھا اور جسے دھرت راشٹر نے سپاہیوں کا محافظ بنایا تھا اور جو اِن کے وستر اور ہتھیار بیچ بیچ کر اپنا گھر بھر رہا تھا۔ اس نے اونچی آواز میں کہا ’’یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسا یگ یگ سے ہوتا آیا ہے‘‘۔ سب کانپ گئے اور دربار میں سناٹا چھا گیا۔
اتہاس لکھنے والے نے اس سارے واقعے کو اس طرح قلم بند کیا ہے۔
’’اس یگ کی شناخت ہٹ دھرمی، بے حیائی اور بےضمیری ہے‘‘۔
۴
سنجے اس بار بھی ہم جیت گئے۔ ہمارا مکھوٹا کام آیا۔ تم جانتے ہو ایسا کیوں ہوا؟ دھرت راشٹر نے ٹھنڈی سانس بھر کے کہا۔
’’ہاں دھرت راشٹر۔۔۔ ان میں کوئی ارجن کوئی کرشن نہیں ہے۔۔۔ جو چیخ رہے ہیں وہ ڈھونگ ہے جو مظلوم ہیں ان کی آوازیں حلق میں پھنسی ہوئی ہیں۔ جو واقعی ایمان دار ہیں ان کا آپ کے دربار میں داخلہ بند ہے۔
’’چلو یہ مرحلہ بھی طے ہوا۔۔۔ہم نے مکھوٹا بدل کر حالات پر افسوس بھی کیا یہ بھی کہا کہ ایسا دوبارہ نہ ہونے پائے۔ ہم نے خزانے سے بہت سا دھن دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ اب چیخنے والوں کی آوازیں مدھم پڑ جائیں گی‘‘۔
’’آپ دوبارہ ایسا ہونے سے روک نہیں پائیں گے، وہ موذی ان تک دھن پہنچنے نہیں دےگا، کئی راکھشس منہ کھولے کھڑے ہیں۔ ہاں چیخنے والوں کی آوازیں مدھم ضرور پڑ جائیں گی‘‘۔
’’سنجے ہمیں ذرا وہ منظر دوبارہ دکھانا۔۔۔ ان کے خوف زدہ چہروں اور بےبس آنکھوں کو دیکھ کر ہمیں ہمارا بھوش روشن دکھائی دیتا ہے‘‘۔
دیکھئے دھرت راشٹر وہ سب آسماں کے نیچے بیٹھے ہیں۔ آگ نے ان کا سب کچھ جلا دیا ہے۔ وہ سڑی ہوئی لاشوں کو، بےچہرہ جسموں کو مٹی میں دبا آئے ہیں۔ وہ اپنوں کے لئے رو چکے۔ زندگی سوال بن کر کھڑی ہے۔‘‘
’’لیکن سنجے‘‘۔ دھرت راشٹر بری طرح چونکے ’’ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کیسی؟‘‘
’’دیکھئے ادھر دیکھئے۔۔۔ زمین پر۔۔۔ان ننھے بچوں کو دیکھئے جو کھلے آسمان تلے ابھی ابھی خاک سے نکلے ہیں۔ زندگی نے دوبارہ جنم لیا ہے۔ زندگی کے اس سچے روپ نے ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی ہے گرو دیو۔‘‘
’’یہ بچے ؟‘‘ دھرت راشٹر بے چین ہو گئے۔۔۔ ہر خوف سے بے نیاز مسکراتے چہرے جیسے اِنھیں چڑا رہے ہوں۔
’’زندگی کو ختم کرنا بہت مشکل ہے دھرت راشٹر۔ زندگی کی جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں۔ کبھی سب کچھ ختم نہیں ہوتا۔ کہیں کچھ بچ رہتا ہے۔ جو بچ جاتا ہے وہی نجات کا مژدہ لے کر آتا ہے۔۔۔‘‘ سنجے نے کہا۔
دھرت راشٹر نے چپ سادھ لی وہ بہت تھک گئے تھے۔
مصنف:بیگ احساس