یہ بچے

0
169
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

ایک زمانہ تھا جب میرا خیال تھا کہ دنیا میں بچے کے سب سے بڑے دشمن اس کے ماں باپ اور بھائی بند ہوتے ہیں۔ وہ اس کے دل کی بات سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بیجا زبردستیوں سے اس کی ابھرتی ہوئی طاقتوں کو کچل دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بڑے ہوجاتے ہیں تو بجائے مکمل انسان بننے کے چور، ڈاکو اور اچکے بن جاتے ہیں۔ جبھی تو ہمارا دیش ترقی نہیں کرپاتا۔

لیکن خود ماں بننے کے بعد میرے خیالات نے ایک دم سے پلٹا کھایا اور یقین ہوگیا کہ آج کل کے بچے ہی کچھ ضرورت سے زیادہ ہٹیلے، بے چین اور منہ زور پیدا ہو رہے ہیں۔ ان کی تعمیر میں ہی کوئی خرابی پیدا ہوجاتی ہے جو انھیں جنگلی بنادیتی ہے۔ اگر سلیقے سے بچے پیدا کیے جائیں تو ہمارے دیش کے دلدّر دور ہوجائیں گے۔

اسی سلسلے میں میں نے سائیکلوجی سے مدد لینی چاہی اور جی بھر کر تحلیل نفسی کرڈالی۔ مگر بے کار کیونکہ مجھے جلد ہی معلوم ہوگیا کہ یہ جس پگڈنڈی پر میں بہک کر چلی آئی ہوں ’’یہ کچھ بھی نہیں‘‘ کی دنیا کے بیچوں بیچ ختم ہوجاتی ہے۔ میرے دونوں خیال غلط تھے، نہ ماؤں کا قصور ہےنہ بیچارے بچوں کا۔ قصور سارا ہے اس طریقہ زندگی کاجو ایک مخصوص نظام نے ہمارے جانوں پر لاگو کر رکھا ہے جس نےماں اور بچے کا رشتہ بھی توڑ مروڑ کرایک کاروباری شے بنادیا ہے۔ اول تو بچے کے خیال ہی سے ایک ماں لرز اٹھتی ہے۔ جسمانی کوفت کے ڈرسے نہیں، اس ڈر سے کہ گھر میں ایک اور کھانے والا منہ بڑھا۔ ایک اور جسم ڈھانکنے کی فکر بڑھی۔ پھر اگر لڑکا ہے تو خیر خدانہ کرے لڑکی ہے تو ایک اور تاوان بھگتنے کو تیار ہوجائیے۔ اس کی شادی بیاہ کی فکر۔

لوگ کہتے ہیں کہ ادیبوں کو ادب سے سروکار رکھنا چاہیے اور خواہ مخواہ سرکار سے نہ الجھنا چاہیے، تو بھئی یہاں کسے سرکار سے دست و گریباں ہونے کا شوق ہے۔ اب اس میں ہمارا کیا قصور کہ زندگی کے ہر موڑ پر سرکار سے مڈبھیڑ ہوجاتی ہے۔ کتتا ہی دل کو سمجھائیں، اب یقین نہیں آتا کہ ہماری مصیبتوں کے بڑھانے میں دیوی دیوتا یا تقدیر کا ہاتھ ہے۔ ہم اب پہچان چکے ہیں کہ کس کا ہاتھ ہے جس نے اپنے بھیانک شکنجہ میں ہماری زندگی کی ضروریات کو دبوچ رکھا ہے وہ منافع خوروں۔۔۔ چور بازار یوں کا ہاتھ جو ہماری سرکار کی لگامیں تھامے ہے اور جس کے اشاروں پر ہمارے اوپر فیلِ مست حملے کرتا ہے اور ہم یہ سب کچھ اس لیے سمجھ گئے ہیں کہ ہمارے سامنے روس کی شاندار مثال ہے۔ جہاں کا نظام مزدوروں اور کسانوں کا ہے جو انھوں نے برسوں کی محنتوں اور قربانیوں کے بعدخود اپنےلیے تعمیر کیا ہے۔ روس میں بچہ جنجال نہیں۔ ملک کا ایک طاقتور بازو ہے، ملک کی دولت ہے، جہاں پیدایش سے پہلے ہی ماں کی تخلیقی عظمتوں کو مرحباکہہ کر آنے والے مہمان کی آؤ بھگت شروع ہوجاتی ہے۔ اس سے بار برداری کےکام نہیں لیے جاتے بلکہ اس کی صحت کو اور بڑھانے کے لیے ہلکے ہلکے دلچسپ کام لیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے باقاعدہ خاص خوراک کا راشن مقرر ہوجاتا ہے جہاں وہ بڑے سکون وآرام سے جنم دیتی ہے۔ غلام ملکوں میں زچائیں فوراً ہی محنت مزدوری پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے اپنی رہی سہی طاقت کھو بیٹھتی ہیں۔

مگرروس میں جب تک زچہ کو ڈاکٹر اس قابل نہیں سمجھتے نرسنگ ہوم میں ہی رہتی ہیں۔ جب مکمل طور پر چاق و چوبند ہوجاتی ہیں تب وہ کام پر لوٹتی ہے۔ یہاں وہ بچہ کو کمر پر لاد کر نہیں لاتی جیسے ہماری محنت کش عورتوں کو کرنا پڑتا ہے کہ دودھ پیتے بچے کو سڑک کے کنارے ریت۔۔۔ دھول میں ڈال کر خود کام پر جٹ جاتی ہیں۔ روس کے سنہرے دیش میں بچوں کے گھر میں جہاں محبت کرنے والی نرسیں اور مشاق ڈاکٹر ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ دن بھر بچے وہاں بڑے آرام سےرہتے ہیں، شام کو مائیں انھیں اپنے گھر لے آتی ہیں۔ ہمارے یہاں دوسرے سے تیسرے بچے کے آنے کی خبر سے ہی ماں باپ کے ہوش اڑجاتے ہیں۔ پہلے تو محلہ ٹولے ہی کی فن کارروائیاں اس کو الٹی میٹم دینے کی کوشش کرتی ہیں جس کی وجہ سے ملک میں ہزاروں عورتیں موت کے گھاٹ اترجاتی ہیں، یا سدا کی روگی بن جاتی ہیں۔ مگر روس میں زرخیز ہونے کو جرم یا گناہ نہیں سمجھا جاتا،بلکہ جیسے اچھے پھل پھول پیدا کرنے پر کاشتکار کی شہرت ہوتی ہے، اسی طرح زیادہ بچوں والی ماں کو تمغہ یا انعام ملتے ہیں۔ وہاں یہ سارے بچے ماں کی چھاتی پر مونگ دلنےکو پلے نہیں رہتے نہ محلے ٹولے کا ناقہ بند کرنے کو اچکوں کے گروہ مضبوط کرتے ہیں بلکہ ان کے لیے بھی گھر ہوتے ہیں۔ جہاں ان کی تعلیم و تربیت کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ یوں تو امریکہ اور انگلستان میں بھی ایسے بورڈنگ موجود ہیں جہاں بچوں کو رکھا جاتا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان ملکوں کے بچے چھوٹی سی عمر میں ہی نہایت گندی عادتوں کے شکار ہوجاتے ہیں۔ امریکہ کے مفکر بڑی فکر میں ہیں کہ یہ بچے اتنے گمراہ کیوں پیدا ہورہے ہیں اور وہ بیٹھ بیٹھ کر نفسیاتی توجیہیں ڈھونڈ رہے ہیں حالانکہ بات سیدھی سادی ہے۔ امریکہ کے بچے وہاں کے سامراجی نظام کی پیداوار ہیں۔ جو والدین تجارتی منڈیوں اور سیاسی اسٹیج پر کر رہے ہیں، بچے وہی اسکولوں اور کالجوں میں کر رہے ہیں، وہی لوٹ مار، وہی منہ زوری اور غنڈہ گردی۔۔۔ آج وہ غنڈوں کے سردار ہیں۔ کل انھیں فرموں اور ملوں کا مالک بن کر اسی کھیل کو حقیقت بنانا ہے، وہی رنگ ونسل کی تفریق، ایٹم بم کی دھمکیاں ان کھیلوں میں رچی نظر آتی ہیں۔ ان ملکوں کو تو فخر کرنا چاہیے کہ ان کی آئندہ نسلیں اتنی اتنی ہونہار پیدا ہو رہی ہیں تو پھر یہ حیرت اور تاسف کیسا؟ اس فضامیں پلنے والے بچوں پر کوئی تعلیم کوئی تربیت اثر نہ ڈال سکے گی۔ سب سے بڑی تربیت عمل ہے اور روس کی گورنمنٹ کا عمل وہاں کےعوام میں جھلکتا ہے۔ ہر روسی بچہ اس عمل کا عکس لے کر زندگی میں قدم رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے وہاں علیحدہ سنیما گھر تھیئٹر اور لائبریریاں ہیں۔ جہاں انھیں کھیل ہی کھیل میں محنت کش اور مفید انسان بننے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ طبیعت کے رجحان کو دیکھ کر اس کا آیندہ فرضِ زندگی مقرر کیا جاتا ہے۔ وہاں انھیں بتایا جاتا ہے کہ ایک محنت کش ایک فنکار وہ خواہ کسی ملک اور کسی رنگ اور نسل کا ہو ساری دنیا کی دولت ہے۔ اور اس کی اپنی دولت ہے اور اپنے ملک کے لیے دولت خرید کر نہیں خود اپنے قوت و بازو سے پیدا کی جاتی ہے۔ بچوں کو ملوں میں بھاری کام نہیں دیے جاتے تاکہ ان کی بڑھوار نہ ماری جائے۔

- Advertisement -

وہ مائیں جن کے بچے دن رات ان گھروں میں رہتے ہیں، اپنے کام سے لوٹ کر وہاں جاتی ہیں اور وہاں اپنے ہی نہیں ہزاروں اور بچوں کو کلیجے سے لگاکر مامتا ٹھنڈی کرسکتی ہیں۔ روس کے دشمن کہتے ہیں کہ اجتماعی زندگی نے گھریلو زندگی کو فنا کر دیا ہے۔ ان احمقوں کو کون سمجھائے کہ روس میں ایک بانجھ کو بھی بچے گود لینے کی ضرورت نہیں، ملک کے سارے بچے ہی اس کے بچے ہیں، سارا ملک ہی ایک خاندان ہے جہاں نہ بچوں کی کمی ہوسکتی ہے نہ ماں باپ کی۔

مگر ہمارے ملک میں ہماری سرکار کی رائے ہے کہ شکر کے دانے گن گن کر مائیں بچوں کو جنم دیں، نہ ضرورت سے زیادہ بچے پیدا ہوں گے نہ شکر کی کمی پرے گی۔ کیونکہ اب یہ ڈر ہوگیا ہے کہ کمیونسٹ ماں کے پیٹ ہی میں بچے کے کان میں سرکار کے خلاف بھڑکانے والی باتیں پھونک دیتے ہیں۔ جبھی تو آج کل کے بچے جنم سے شکر و دودھ کے لیے منہ پھاڑےپیدا ہوتے ہیں۔

اسی لیے ہماری مہربان سرکار نے ’’اناج اگاؤ‘‘ کی اسکیم سے زیادہ زور و شور سے ’’بچہ نہ اگاؤ‘‘ کی اسکیم چالو کرنے کی ٹھان لی ہے۔ ایسے ملک میں اگر کوئی ڈھیٹ بچہ آن ہی ٹپکتا ہے تو وہ ایک مصیبت سمجھا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں بچے آنکھ کا نور دل کا سرور ہوتے ہیں۔ ہوتے ہوں گے، مگر ہماری آنکھیں تو آنکھوں کے اس نور کو ناکافی اور غلط خوراک کی وجہ سے بجھتے دیے کی طرح کانپتا دیکھتی ہیں جس بچے کو دیکھتے دنیا بھر کے روگ جان کو چمٹے نظر آتے ہیں۔ خون کی کمی کی شکایت تو عام ہوتی ہے جس کی وجہ سے آئے دن بیماریوں کاشکار ہوتے رہتے ہیں۔ اسپتالوں میں ننھے ننھے مرجھائے ہوئے پھول ہزاروں کی تعداد میں کیوں کھڑے رہتے ہیں؟ سڑکوں پر لاکھوں معصوم ہاتھ ہماری طرف بھیک کے لیے پھیلے نظر آتے ہیں، اور ہماراضمیر اس طمانچہ سے تلملا کر رہ جاتا ہے۔ جس عمر میں روس کے بچے کھیل کود کر صحت بناتے ہیں ہمارے بچے روزی کی فکر میں پریشان فٹ پاتھ پر پاٹیہ لیے بیٹھنے میں گزار دیتے ہیں، روس میں چودہ پندرہ برس کی لڑکیاں یونیورسٹی کی ڈگری کی تیاری کرتی ہیں۔ ہمارے ملک کی اس عمر کی زیادہ تر لڑکیاں فلمی گیت گنگناکر ساجن کوپکارنے میں گزار دیتی ہیں۔

روس میں ہر بچے کو مفت تعلیم دی جاتی ہے بلکہ جبریہ تعلیم دی جاتی ہے، اور ہمارے ملک کے طالب علم الٹی جبریہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان پر لاٹھی چارج ہوتے ہیں، گولیاں چلتی ہیں اور انھیں سزائیں دی جاتی ہیں، اسکول میں داخل ہی نہیں کیا جاتا۔ اب تو نام نہاد تعلیم کے دروازے بھی بند ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری گورنمنٹ علم کوحماقت سمجھ کر فیس بڑھاتی جارہی ہے۔ ظاہر ہے جہاں پیٹ کی آگ بجھانےہی سے فرصت نہیں ملتی وہاں تعلیم کے لیے خرچہ کہاں سے آئے؟ دوسرے ہمارے نیتاؤں کا خیال ہے کہ تعلیم حاصل کرنےکے بعد لوگ محنت سے جی چرانے لگتے ہیں مگر ہم جانتے ہیں کہ ہمارے نیتا تعلیم سے کیوں ڈرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ باشعور انسان کا خون آسانی سے نہیں چوسا جاسکتا۔ پڑھ لکھ کر وہ اگر امریکی بلاک کی تعلیم کے دائرے تک محدود رہے تب تو خیریت ہے مگر مشکل یہ ہے کہ وہ روس کی تعلیم پر بھی نظر ڈالنے لگتے ہیں جو اسے مشین میں پسنے، ہلوں میں جوتے جانے اور کارخانوں میں ناکافی معاوضے پر جٹے رہنے کے خلاف بغاوت پر ابھارتی ہے۔ ہندوستان کی مائیں جب روسی بچوں کی طرف دیکھتی ہیں تو وہ اپنے لعلوں کے لیے بھی وہی سہولتیں مانگنے لگتی ہیں جو انھیں میسر نہیں۔

جبھی تو حکومت کے دشمنوں کے کیمپ میں جا شامل ہو جاتی ہیں۔ مگر ہماری مامتا محدود نہیں۔ ہمیں روس کے بچوں سے پیار ہے، وہاں کی خوش نصیب ماؤں سے پیار ہے، وہ خواہ کسی ملک رنگ اور نسل کے بچے ہوں۔ دنیا کے بچے، دنیا کی ماؤں کے بچے ہیں۔ وہ ہمارے بچے ہیں۔ ان پر یہ منڈلاتےہوئے گدھ چھاپہ نہ مار پائیں گے۔ ہم دنیا کے بچوں کے لیے، انسانیت کے مستقبل کے لیے ہر مکر وہ طاقت سے مقابلہ کریں گے۔ ہم نے جو کچھ اپنی زندگی میں کھویا اپنے بچوں کی زندگی میں پانے کی کوشش کریں گے۔ ہم ان کے لیے ان کا مستقبل پر امن اور روشن بنانے کے لیے اپنی جان کی بازی بھی لگادیں گے۔

مبارک ہے وہ ملک جہاں بچہ سچے معنوں میں آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہے۔ مبارک ہے وہ ملک جو انسانیت کامحافظ ہے۔ جہاں عورت ماں بن کر پچھتاتی نہیں بلکہ نسوانیت کو چار چاند لگاتی ہے اور فخر کے ساتھ اپنی کوکھ کی دولت کو پھلتا پھولتا دیکھتی ہے۔

آج روس کی بتیسویں سال گرہ کے موقع پر ہم عہد کرتے ہیں کہ روس کے عزائم کو مشعلِ راہ بناکر ہم اپنے بچوں کا مستقبل بھی اتنا ہی روشن اتنا ہی شاندار بنائیں گے جیسا روسی بچوں کاہے۔ ہماری یہ جنگ ہمارے بچوں کی خاطر ہے ان کی حفاظت کےلیے ہم تمام فاشست طاقتوں سے لڑیں گے۔

مأخذ : چھوئی موئی

مصنف:عصمت چغتائی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here