ایک شوہر کی خاطر

0
201
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

اور یہ سب کچھ بس ذرا سی بات پر ہوا۔۔۔ مصیبت آتی ہے تو کہہ کر نہیں آتی۔۔۔ پتہ نہیں وہ کون سی گھڑی تھی کہ ریل میں قدم رکھا اچھی بھلی زندگی مصیبت ہوگئی۔

بات یہ ہوئی کہ اگلے نومبر میں جودھ پور سے بمبئی آرہی تھی سب نے کہا۔۔۔ ’’دیکھو پچھتاؤگی مت جاؤ۔۔۔‘‘ مگر جب چیونٹی کے پر نکلتے ہیں تو موت ہی آتی ہے۔

سفر لمبا اور ریل زیادہ ہلنے والی، نیند دور اور ریت میں جھپا کے، اوپر سے تنہائی، سارا کا سارا ڈبہ خالی پڑا تھا۔ جیسے قبرستان میں لمبی لمبی قبریں ہوں۔۔۔ دل گھبرانے لگا۔

اخبار پڑھتے پڑھتے تنگ آگئی۔ دوسرا لیا۔۔۔ اس میں بھی وہی خبریں، دل ٹوٹ گیا۔

کاش میں قبرستان میں ہوتی۔ بلا سے مردے ہی نکل پڑتے۔ بچوں کو دیکھ دیکھ کر جی ہول رہا تھا۔۔۔ کاش کوئی آجائے۔۔۔ کاش کاش۔۔۔ میں نے دعا مانگنی شروع کی۔

- Advertisement -

ایک دم سے ریل جو رکی۔۔۔ تو ایک دم سے جیسے پٹڑیاں ٹوٹ پڑیں۔ انسان تم کو آئے، بچے اور بچیاں زیادہ۔ بچے ایسے جو قحط زدہ گاؤں سےآرہے تھے۔ کہ آتے ہی خوراک پر پل پڑے۔۔۔ دودھ پینے والوں کو تو خیر سارا معاملہ مل گیا اور وہ جٹ گئے۔ باقی کے تلملانے اور تڑپنےلگے۔

پوٹلیاں اس قدر بے ہنگم اور فضول جگہ گھیرنے والی وضع سے بندھی تھیں کہ کسی کل بیٹھتی ہی نہ تھیں۔ ایک سنبھالی تو دوسری تیار۔

میں علیحدہ پٹڑی پر اس زاویے سے بیٹھی تھی کہ گٹھڑی گرے تو میری ریڑھ کی ہڈی بچ جائے۔ مجھے اپنے جسم میں ریڑھ کی ہڈی سب سے زیادہ عزیز ہے۔۔ کہتے ہیں ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے تو آدمی لوتھڑا ہوجاتا ہے۔

’’کہاں جارہی ہو۔۔۔‘‘

بیچاری ہمسفر نے گٹھڑیوں کی طرف سے غیرمطمئن ہوتے ہوئے بھی نہایت فکرمند ہوکر پوچھا۔

’’میں نے جلدی سے بتایا اور پھر ان کی توجہ اس وزنی گٹھڑی کی طرف مفطفر کی جو شائد برتنوں کی تھی اور ذرا سی ٹھیس سے گرنے کو تیار تھی۔ اگر اتفاقیہ ذرا ہاتھ لگ جاتا تو برتن اس تیزی سے آپس میں ٹکراتے کہ جی گھبرا اٹھتا۔۔۔

’’کہاں سے آرہی ہو۔۔۔‘‘

میں نے ذرا کم مستعدی سے بتایا،

’’میکے جارہی ہو۔۔۔‘‘ جب تک شادی نہ ہوئی ہو تب تک جگت میں ہی ہے۔ اور کہیں بھی نہیں۔ یعنی میکہ اور سسرال کا سوال ہی نہیں، لہٰذا میں چکراتی۔۔۔

سوچا اندازاً کس صوبہ میں شادی ہونےکا خطرہ ہے۔

’’میاں کے پاس جارہی ہو۔۔۔‘‘

’’نہیں۔۔۔‘‘ میں نےچاہا موضوع بدل جاتاتواچھا ہوتا خواہ مخواہ کون ہمدردی وصول کرے۔۔۔‘‘

’’تو پھر سسرال جارہی ہوگی۔۔۔؟‘‘

کیوں۔۔۔ ذرا ان سوالوں کے جواب بہت فلسفیانہ ہوتے ہیں۔

’’نہیں تو۔۔۔ میں بمبئی جارہی ہوں۔۔۔ شادی۔۔۔ شادی تو نہیں ہوئی۔۔۔‘‘

میں نے ذرا دل میں کچھ حقیر ہوکر کہا۔

حالانکہ شادی کے خلاف کالج کے مباحثہ میں مجھے اول انعام ملا تھا۔ اور اب بھی۔۔۔ خیر اب تو۔۔۔ ہاں تو میں نےکہا۔ وہ متحیر ہوکر اتنی زور سے اچھلیں کہ بچے کے منہ سے دودھ چھوٹ گیا۔

اور وہ مذبوحہ بکری کی طرح چیخا۔۔۔ میں نے دھیان بٹانے کو ان کی توجہ بچے کی طرف کرنا چاہی۔ مگر وہ ٹٹول ٹٹول کر بچے کی ناک میں دودھ ٹھونسنےلگی۔ اور میں یہاں لکھنا نہیں چاہتی کہ مجھے انہوں نےکس رحم اور مہربان سی نظروں سے دیکھا۔

انہیں مجھ پر محبت سی آنے لگی۔۔۔ اور میں ڈری۔۔۔ کہ کہیں وہ مجھے چمٹاکر رو نہ پڑیں۔۔۔ ان کا دل بہلانےکے لیے میں نے چنے والے کو بلوایا۔ مگر وہ ایسی ہی اداس رہیں۔

انہوں نےمجھے دو ایک داؤں پیچ ایک اچھا سا شوہر پھانسنے کے بتائے۔ جو بعد میں تجربہ سے قطعی بے کار ثابت ہوئے۔

میری دعا شائد ضرورت سے زیادہ قبول ہوگئی۔۔۔ یا شائد مری خدا کے حضور میں کاتبین کی غلطی سے دوبارہ عرضی پیش ہوگئی۔۔۔ کہ ایک فوج انسانوں کی پھر آئی اس فوج میں بڑے بڑے ریشمی برقعے اور چھتریاں زائد تعداد میں تھیں۔

ان کے ساتھ گنے بھی تھے جن کے ٹکڑے ناپ ناپ کر اتنے بڑے کاٹے گئے تھے کہ ریل کے کسی کونے میں ٹھیک سے نہ رکھے جاسکیں۔

ان کے بستر اور صندوق بھی کچھ ایسے تھے۔ جو کسی پٹری کےاوپر یا نیچے کسی انداز سے بھی نہ ہو۔

ان بیویوں نے آتے ہی ریل میں ہلچل مچادی، صندوق اور پلندے گھسیٹ کر تباہ کردیے۔ پہلے والی مسافرہ کی ضدی پوٹلیاں جو شائد تاک میں تھیں بچوں اور عورتوں پر گریں۔ اور وہ سب ایک دوسرے پر گرے۔

’’کہاں جارہی ہو۔۔۔‘‘

وہ بھی کچھ پریشان تھیں۔۔۔

بتایا۔۔۔

’’کہاں سے آرہی ہو۔۔۔؟‘‘

’’بولیں۔ حالانکہ ابھی ٹھیک سے جمی بھی نہ تھیں۔‘‘

’’برقعہ پھانسی لگا رہا تھا۔ مگر بتایا۔‘‘

’’میکے جارہی ہو یا سسرال۔۔۔‘‘

کاش مجھے معلوم ہوتا۔ مگر چوکنے کا موقعہ نہ تھا۔ ’’سسرال۔۔۔‘‘

’’ایسے کہا کہ وہ ہم سفر جو پہلے جرح کر چکی تھیں نہ سن پائیں۔‘‘

’’کیا کرتے ہیں میاں۔۔۔‘‘

اب میں نے سوچا کچھ تو کرتے ہی ہوں گے۔۔۔ بیکار تو کاہے کو پھرتے ہوں گے۔۔۔

مگر کاش وہ مجھے بھی یہ بتادیتے تو اچھا ہی تھا۔۔۔ بہرحال نکھٹو تو نہ ہوں گے پر۔۔۔

وہ خود ہی بولیں،

’’ریلوے میں ہیں۔۔۔‘‘

’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔‘‘ میں نے پرشوق لہجے سے انہیں یقین دلایا۔ یہ ٹھیک رہا۔ میں نے سوچاریلوے کا آدمی خوب رہے گا۔ مزے سے مفت کے ٹکٹ تو ملیں گے۔۔۔ ہندوستان بھر میں گھوم لو۔۔۔ اور مجھے تو وردی بھی ان کمبختوں کی پسند ہے۔ خصوصاً وہ ٹوپی اور سلیٹی لال ہری جھنڈی۔۔۔ اچھا ہی ہوا جو یہ بے چاری مل گئیں۔۔ ورنہ اپنے کو تو کبھی گارڈ۔۔۔ بابو وغیرہ کا خیال بھی نہ آیا۔

’’اے ہاں سچ تو ہے۔‘‘

’’کون کام پہ ہیں۔ وہ ریل میں۔‘‘

’’کسی ٹھیک ہی کام پر ہوں گے۔۔۔ اور کیا۔۔۔‘‘ مجھے خیال ہی نہ آیاکہ گارڈ بابو کی بیوی بننا آسان ہے۔۔۔ مگر یہ تفصیل تو ذرا بھاری خوراک ہے۔

’’پھر بھی۔۔۔ کیا کام کرتے ہیں۔۔۔‘‘ ریل میں تو ہزار سے زائد کام ہیں۔۔۔‘‘

اے۔۔۔ سیٹی۔۔۔ قلی۔۔۔ میں ایسی بولائی کہ کچھ بن نہ پڑا۔ سامنےایک قلی بڑا سا بنڈل ایک بسترہ آدھی درجن صراحیوں کی سیڑھی اور دو لوٹے لیے چلا آرہا تھا۔ اورایسے بن رہا تھا جیسے بہت بھاری ہیں۔

’’قلی۔۔۔ تمہارا میاں قلی ہے۔۔۔‘‘

حیرت کا دورہ ان پر بھی پڑا۔

میں چاہتی تھی ذرا ہم آہستہ آہستہ گفتگو کریں ورنہ کہیں پہلی ہم سفر نہ سن لیں۔۔۔

ان کابچہ سکون سے دودھ پی رہا تھا۔ مگر ایک دفعہ بات منہ سے نکل جائے تو پھر میں بھی اس پر ہی جم جاتی ہوں اور یہاں تو جینے کے لالے پڑے تھے۔

’’ہاں۔۔۔ آں قلی ہی سہی پھر تمہیں کیا۔۔۔‘‘ میں نے ذرا برا مان کر کہا۔

’’تمہارا۔۔۔ میں۔۔۔ میاں قلی۔۔۔‘‘

’’ہاں پھر۔۔۔ تم کیوں جلو۔۔۔ تمہارا جی چاہے تم بھی قلی سے کر لو۔۔۔‘‘

’’دس قلیوں سے کرو۔۔۔ کون روکتا ہے۔۔۔ اتنے سستے میں قلی۔۔۔‘‘ مگر میں ذرا چپ رہی۔ اور مظلوم سی صورت بنالی۔۔۔

’’بولیں۔۔۔‘‘

’’کیسے ہوگئی تمہاری شادی قلی سے۔۔۔‘‘

پھر سوچنےلگی قلیوں سے کس طرح شادیاں ہوتی ہیں میں نے چاہا دل سے کچھ گڑھوں کسی قلی کی شادی کا حال۔۔۔ مگر وہ اس قدر غیر دلچسپ معلوم ہوا۔ پھر میں نے کہا، ’’ایک قلی تھا۔۔۔‘‘

’’انہوں نے توجہ سے سنا۔۔۔‘‘

’’وہ رہا کرتا تھا۔۔۔‘‘ میں چاہتی تھی وہ میری ہر بات پر ہوں کریں یا کم از کم سر ہلائیں۔۔۔

’’پھر کیا ہوا کہ ایک دن۔۔۔ کہ۔۔۔‘‘ کاش مجھے معلوم ہوتا اس وقت کوئی بھی قصہ تو یاد نہ آیا۔

’’وہ لے جارہا تھا سامان۔۔۔‘‘ میں نے چاہا وہ پوچھیں۔

’’کس کا۔۔۔‘‘

اور انہوں نے پوچھا،

’’ایک نہایت ہی خوبصورت لڑکی کا۔۔۔ پھر وہ لڑکی۔۔۔ وہ لڑکی عاشق ہوگئی۔‘‘

’’کون لڑکی۔۔۔‘‘ ارے یہ تو معلوم ہی نہیں پڑا۔۔۔ خیر کیا مضائقہ ہے کوئی بات نہیں۔۔۔‘‘

’’یقیناً ہوگی ہی کوئی نہ کوئی لڑکی۔۔۔ کوئی خوبصورت سی ہی لڑکی ہو گی۔‘‘

’’تو وہ قلی پہ کیوں عاشق ہوگی۔۔۔‘‘

’’وہ عاشق یوں ہوگئی کہ۔۔۔ کہ۔۔۔ ارے بھائی اب یہ کیا معلوم کوئی تو وجہ ہے ہی عاشق ہونے کی۔۔۔‘‘

’’وہ مسکرایا ہوگا۔ اسے دیکھ کر۔۔۔‘‘

اتنےمیں ایک نہایت بھیانک قسم کا بابو مجھے دیکھ کرمسکرایا اور میں ڈری کہ کہیں سچ مچ عاشق نہ ہونا پڑے۔۔۔ ابھی انٹرویو میں جانا ہے، سنے ہیں کہ عشق میں بڑی خراب حالت ہوجاتی ہے۔ بھلا پردیس میں کہاں عاشق ہوتی پھروں گی۔۔۔ ویسے یہ جسیم بھائی کےہاں جانا ہے اور وہ ہیضہ کے بعد بس عشق سے گھبراتے ہیں۔۔۔ خیر بات گئی گزری ہوگئی۔

’’اے بہن۔ یہ کیا کہہ رہی ہو۔۔۔؟ کون لڑکی کس کا عشق، میں کہتی ہوں تمہاری شادی کیسے ہوئی۔۔۔؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ ان بے چاری کی شادی نہیں ہوئی۔۔۔‘‘

آخر کو پہلی مسافرہ کو پتہ چل ہی گیا نا۔۔۔

کتنا مردوی سے کہا آہستہ بول۔۔۔ آہستہ بول۔۔۔ یہ لیجیے وہ قلی بھی ہاتھ سے گیا۔

’’جب نہیں ہوئی تھی۔۔۔‘‘

’’میں نے چاہا۔ شاید مان جائیں۔۔۔‘‘

’’ہوئی۔۔۔ کیا ریل میں بیٹھے بیٹھے ہوگئی۔۔۔‘‘

’’کاش ایسا ہوسکتا۔۔۔‘‘ کاش گرم گرم چائے کی بجائے لوگ امیر امیر کماؤ شوہر بیچتے ہوتے تو سفر کے لیے تو میں ضرور لے لیتی۔۔۔ پھر چاہے۔۔۔ پھر دیکھا جاتا۔۔۔

اورمیں نے ارادہ کرلیا کہ اب کہ ایک مناسب قسم کا میاں ڈھونڈنا چاہیے۔۔۔؟ ایسا اس میں کیا ٹوٹا ہے اپنا۔۔۔ ٹھیک ہی رہے گا۔ بلا سے ہر مسافر سے نئے نئے جھوٹ تو نہ بولنے پڑیں گے۔۔۔

’’بھئی کسی نے پوچھا۔۔۔‘‘ حاضر میاں۔۔۔؟

’’ارے بھئی اچھے لڑکے کہاں ملتے ہیں۔۔۔‘‘ وہ میرے مستقبل سے ناامید ہوکر بولیں۔

’’موٹرمانگتے ہیں۔۔۔ گاڑی گھوڑا دو۔۔۔ اور کبھی کماؤں جبھی نا۔۔۔ ایسے ملے جاتے ہیں کماؤ لڑکے۔۔۔‘‘

میں رنجیدہ ہوگئی۔

آخر یہ لڑکے کماؤ کیوں نہیں ہوتے۔۔۔ کمبخت اچھے لڑکے پہلے زمانے میں کتنے ہوتے تھے۔ مولی گاجر کی طرح۔ پر اب چاہو کہ آنکھ میں لگانے کے لیے اچھا لڑکا مل جائے تو نہیں، اس لڑائی نے تو اجاڑ کر رکھ دیا۔

چلو بھئی۔۔۔ پہلے لڑکے تو تھے کماؤ! نکٹو پر اب تو جسے دیکھو لڑائی پر چلا جارہا ہے،

’’لوصاحب یہاں تو بیویاں طعنے دے رہی ہیں۔ اور لڑکے ہیں کہ مرنے کٹنے پر تلے ہوئے ہیں۔۔۔‘‘

’’تم پھر شادی کیوں نہیں کر لیتیں۔۔۔‘‘ ایک بولیں۔

’’جیسے آپ کی مرضی۔۔۔‘‘ میں نے اس معصوم لڑکی کی طرح کہا۔

جس سے والدین شادی طے کرنے کے بعد روشن خیال بننے کے لیے رائے دیتے ہیں۔

’’کب کروگی پھر، اب نہیں کروگی تو۔۔۔‘‘

اب۔۔۔ یعنی ابھی۔۔۔ میرے خیال میں۔۔۔ تو۔۔۔ اگر جنکشن تک ٹھہر جاتے تو اچھا تھا۔۔۔

’’کیا۔۔۔؟‘‘

’’یہی کہ۔۔۔ جب آپ کی مرضی ہے تو پھر کیوں اس نیک کام میں دیر کی جائے۔۔۔‘‘

’’کیسا نیک کام۔۔۔ کیا کہہ رہی ہے لڑکی۔۔۔؟‘‘ بہت ہی گھبرا گئیں۔

’’میں نے پوچھا۔۔۔ بھئی شادی کیوں نہیں کرتیں تم۔۔۔‘‘ دوسری بولیں۔

’’تم کیوں نہیں کرتیں شادی۔۔۔‘‘

’’بس۔۔۔‘‘ میں اب کافی جل اٹھی تھی۔ حالانکہ ان کا بچہ مسلسل دودھ پی رہا تھا۔۔۔ مگر میں نے اسے نظر انداز کردیا۔

’’اوئی۔۔۔ معلوم ہوتا ہے کچھ دماغ بھی خراب ہے۔‘‘

’’وہ بچہ کو اور واضح طور پر لائیں تاکہ یہ نہ معلوم ہو کہ وہ صرف گود میں سو رہا ہے۔‘‘

’’تو۔۔۔ اچھا۔۔۔ تمہاری شادی ہوگئی ہے۔۔۔ کب کی تم نے شادی۔۔۔؟‘‘

میں نے بے تکلفی سے پوچھا۔

’’ہمارے ماں باپ نے کی ہماری شادی۔۔۔ ہم بھلا خود ہی کیوں کرتے۔۔۔‘‘

’’تو آپ شادی کے خلاف ہیں۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ بالکل ٹھیک۔۔۔ میرے بھی ماں باپ نے شادی کی۔۔۔ جاہل انسان۔۔۔!‘‘

اس کے بعد کچھ مکدر سی ہوگئیں اور غمگین ہوکر ناشتہ دان میں سے امرتیاں نکال کر غم غلط کرنے لگیں۔

’’اے خدا۔۔۔ تو جب دعائیں قبول کرنے پر آتا ہے تو یو ں دعا قبول کرتا ہے۔۔۔ تیرے بندوں کو کسی کل چین نہیں۔۔۔ یہ تیری ناچیز بندی تنہا تھی۔۔۔!‘‘

اس نے دوسرا ہٹ چاہی تو تو نے یوں کی، عذاب کی طرح مسافر نازل کرنا شروع کردیے۔ اور مسافروں سے زیادہ اسباب ویسے۔ بھئی ہمیں کیا حق کہ بے بات تیری مصلحت میں دخیل ہوں۔ مگر پروردگار اتنا تو سوچا ہوتا تو انسانوں میں جتنی تونے برداشت دی ہے۔ اتنا ہی بوجھ لاد۔۔۔ کہتے ہیں ہم تو بس۔۔۔ اور میں دل میں ڈری کہ اگر دعاؤں کے قبول ہونےکا یہی ڈھنگ رہا۔۔۔ تو کہیں وہ شوہر کے لیے جو ابھی ابھی دعا مانگی تھی اس کا بھی کچھ ایسا ہی قصہ نہ ہوجائے اور لے چلاچل ایک پہ ایک۔۔۔ میرا تو دم ٹوٹ جائے گا۔

میں ایک ہی قمیض میں بٹن لگادوں اور چائے بنادوں۔۔۔ تو بہت جانو۔۔۔ مجھ سےبھلا اتنے کا ہے کو جھیلے جائیں گے۔ سست مٹی ویسے ہی ہوں۔ اب اتنےمیاؤں کو کون میرے بیٹھ کے بھگتے گا۔

کہتے ہیں کہ ڈاک خانہ میں اگر بھولے سے کوئی غلط خط پڑھا جائے تو تھوڑی سی رشوت لے کرواپس لے سکتے ہیں۔۔۔ کاش دعاؤں کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی انتظام ہوتا۔۔۔ مگردعا ایک دفعہ مانگی جاچکی تھی اور پے درپے قبول ہو رہی تھی۔

نئی ہم سفر بہت ہی خلیل معلوم ہوتی تھیں اور ضرورت سے زیادہ رقیق القلب، کچھ سازک سی شاعرانہ بیماری۔۔۔ کچھ آہستہ بولنے کی عادی۔۔۔ مجھے ان پر بے بات پیار آنے لگا۔۔۔

’’حیدر آباد جارہی ہیں آپ۔۔۔؟‘‘ انہوں نے بڑے وثوق سے پوچھا۔

’’میں ڈری کہ انکار کروں گی تو خفا ہوجائیں گی۔۔۔ لہٰذا بڑی عاجزی سےانکار کیا اور بتایا کہ بمبئی جارہی ہوں۔۔۔‘‘

’’احمد آباد سےآئی ہوں گی۔۔۔‘‘

کس ہوشیاری سے وہ پرانی بوتلوں میں نئی دوابھر بھر کر سر سہلا سہلا کر پلا رہی تھیں مگر ان کا چہرہ اس قدر رویا ہوا تھا کہ دل دکھانے کی ہمت نہ پڑی۔۔۔

میں نے بتایا،

’’پڑھتی ہیں وہاں۔۔۔‘‘

’’جی نہیں۔ انٹرویو کے لیے جارہی ہوں۔‘‘

’’میرے ایک چچا کے سالے کی خالہ بھی بمبئی میں رہتی ہیں۔۔۔ ان سے ملیے گا۔۔۔‘‘

میں نے وعدہ کرلیا۔۔۔ بھلا میں کہاں ان کے چچاکے سالے کی خالاؤں کو ڈھونڈتی پھرتی۔

’’وہاں آپ کے والد والدہ ہیں۔۔۔‘‘

’’نہیں۔۔۔ میرے۔۔۔‘‘ بولنےہی نہ دیا خود بولیں۔

’’اچھا آپ کے شوہر ہوں گے۔۔۔‘‘

گھن۔۔۔ وہ دیکھیے گھما پھرا کر وہی ایک ٹانگ مرغے کی، شوہر، شوہر۔۔۔

ہندوستان کے شوہر اس قدر مرکھنے۔۔۔ نانکیں کاٹ لیں طلاقیں دے دیں، بڑی مشکل سے ملیں۔۔۔ اور ملیں تو نکھٹو۔۔۔ رنڈی بازی کریں، جوا کھیلیں۔۔۔ مگربیویاں ہیں کہ واری جارہی ہیں۔۔۔ جسے دیکھیے اپنے یا پرائے شوہر کارونا رو رہی ہے۔ کنواریاں ہیں تو شوہر کے گیت گارہی ہیں۔۔۔ بیاہیاں ہیں تو پریتم پر فدا۔۔۔ اور یہ پریتم کتے خون تھکوائے دے رہے ہیں۔۔۔ ان مظالم ِمعشوقانہ پر تو یہ حال ہے اگر ذرا لاڈ کر لیتے تو نہ جانےکیا ہوتا۔۔۔ میں نے سوچا میاؤں کے ظلم میں بھی کچھ مصلحت ہے۔

’’کہاں رہتی ہیں آپ۔۔۔ بمبئی میں۔۔۔ کتنےبچے ہیں آپ کے میں تو سوچ میں پڑی تھی۔۔۔!‘‘

اور پھر وہ میاں کے بعد بچوں کی تعداد پر اترآئیں۔۔۔

’’آٹھ۔۔۔؟‘‘ میں نے پلیٹ فارم پر تختے گنتے ہوئے کہا۔۔۔ ’’یہ ریلوں کے ساتھ مسافروں سےزیادہ کتے کہاں سے آتے ہیں۔‘‘

’’آٹھ۔۔۔؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ کیوں آپ کیوں برامانتی ہیں۔۔۔ یقین نہ آئے تو اترکر گن لیجیے۔۔۔‘‘

’’اب میں راستہ میں کیسے اتروں۔۔۔ ہاں انشاء اللہ کبھی اگر آنا ہوا میرے چچا کے سالے کی خالہ کے یہاں تو۔۔۔ خیر۔۔۔ مگر بہن معلوم نہیں ہوتامنہ سے۔۔۔‘‘

’’منہ سے معلوم ہی کیا ہوتا ہے۔۔۔‘‘ میں نے فلسفیوں کے سے انداز میں کہا۔

’’جب دنیا سے مجھے نفرت ہونے لگتی ہے اور ہر چیز نیم مردہ اور اداس لگنے لگتی ہے تو میرے دماغ میں فلسفہ بھرنے لگتا ہے۔۔۔!‘‘

’’شادی کو کتنے برس ہوئے۔۔۔‘‘ انہوں نے کچھ دیر بعد پوچھا۔

’’چار برس تین مہینے اور۔۔۔‘‘

’’اور آٹھ بچے۔۔۔ اے بہن میں سمجھی تھی۔۔۔ چلوہوں گے۔۔۔ مگر۔۔۔‘‘ وہ بہت غمزدہ سی ہوگئیں۔

مجھے رحم آگیا۔۔۔ مگر میں نےتہیہ کرلیا کہ کچھ ہو جائے اب اور نہیں دبوں گی۔۔۔ ورنہ بچوں کے بعد یہ نواسے اور پوتے بھی میرے ہی سر منڈھ دیں گی۔۔۔

اور وہ بیویاں جو میرے حالِ زارسے واقف ہیں۔۔۔

میں اونگھ نہ چکیں۔۔۔ پھر خواہ مخواہ کی لے دے پڑے گی۔ آٹھ بچے سے ویسے ہی روح قبض ہوئی جارہی تھی۔

’’ہاں ہاں کہتی تو ہوں۔۔۔ آٹھ۔۔۔‘‘

’’ماشاءاللہ سب زندہ ہیں۔۔۔ مگر بہن یہ ہوئےکیسے؟‘‘

’’کیسے ہوتے ہیں جیسے دنیا جہان میں ہوتے ہیں۔۔۔ ویسے ہی ہوئے ہوں گے۔۔۔‘‘

’’میرا مطلب ہے چارسال میں۔۔۔‘‘

’’ہاں میں سمجھی۔۔۔ اچھا یہ معلوم کرنا چاہتی ہیں آپ تو۔۔۔ یہ ہوا کہ کبھی دو کبھی تین۔۔۔ اور۔۔۔!‘‘

’’ہے ہے۔۔۔‘‘ وہ لرزیں۔ اور مجھے برالگا۔

آخر یہ کون ہوتی ہیں برا ماننے والی۔۔۔ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔۔۔ آخر انہیں کیا۔۔۔ چاہے کوئی ایک بچہ دے چاہے دس۔۔۔ وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ پچھلی ملاقاتیں جاگ اٹھیں۔۔۔

’’سنا بہن۔۔۔ ان کےدو دو تین ساتھ ہوئے۔۔ بچے۔۔۔!‘‘ انہوں نےشکایت کی۔۔۔

اور وہ گھبراکر اپنے بچے گننے لگیں۔

کیونکہ سوائے بچوں کےانہوں نے کچھ نہیں سنا۔

’’کیا قصہ ہے۔۔۔؟‘‘دوسری بولیں۔

جب معاملہ خوب سمجھادیا گیا تو تینوں بگڑ کھڑی ہوئیں۔

’’ابھی کہتی تھیں شادی نہیں ہوئی۔۔۔ اور ابھی دو دو تین تین بچے ہونےلگے۔۔۔‘‘ ایک نے ڈانٹا۔

’’میری کیوں نہ ہوتی شادی خدا نہ کرے۔۔۔ تمہاری ہی نہیں ہوئی ہوگی۔۔۔‘‘

بات بگڑنےلگی۔۔۔

پاس سے ایک ٹکٹ چیکر گزرے۔۔۔ یا جانے کو تھے مجھے تو ہر ریل کا نوکر ٹکٹ چیکر ہی سا لگتا ہے۔ میں نے جھک کر ان سے وقت پوچھا وہ بتانے کے بعد مسکرانے لگے۔ اور پھر مسکراتےہوئے چل دیے۔

’’تم تو کہتی تھیں اکیلی جارہی ہوں۔۔۔ اور یہ تمہارے۔۔۔‘‘

’’یہ میرا نواسہ ہے۔۔۔‘‘

قبل اس کے کہ وہ کوئی رومینٹک سا رشتہ قائم کرلیتیں میں نے خود ہی اپنے لیے فیصلہ کرلیا۔

’’نواسہ۔۔۔‘‘ تینوں چیخیں۔

’’یا اللہ۔۔۔ یہ آج ان لوگوں کو مجھ سے کہاں کا بیر پڑگیا تھا کہ میرے کنبے کے ہر فرد کے ذکر پر بن بن کر چونک رہی تھیں۔

’’کیا کہتی ہے لڑکی۔۔۔ یہ تیرا نواسہ ہے۔۔۔‘‘

’’تو آپ کو کیا۔۔۔؟‘‘

’’بہن بال تو سفید رکھے تھے ان کے۔۔۔‘‘دوسری بولیں۔۔۔

’’نزلہ سے ہوگئے ہوں گے۔۔۔‘‘ میں بڑبڑائی۔

اور پھر میں بالکل کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی۔۔۔ خودکشی کو دل نہ چاہا، چلتی ریل سے اترنے کی پریکٹس نہ کی۔۔۔ زمین سخت۔۔۔ اور آسمان دور۔۔۔

ہونہار بات ہوکر رہتی ہے۔۔۔ جب زائد سامان تلواکر بلٹی دینے لگا تو کلرک نے کہا، ’’آپ کانام۔۔۔ شوہر کانام۔۔۔‘‘

’’چغد۔۔۔‘‘ میں نے دانت پیس کر کہا۔

’’چوکھے۔۔۔؟ کیا اونڈا نام ہے۔۔۔؟‘‘ اس نے متعجب ہوکر کلرک کے کہنی ماری۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جب اس نے مجھے مسز چوکھے بنا کر رسید دی تو میں نے اس کے منہ پر اپنا بٹوہ مع ایک عدد موٹی کتاب کے کھینچ مارا اور یہ سب کچھ ہوا سب ایک شوہر کی خاطر۔۔۔

مأخذ : ایک شوہر کی خاطر

مصنف:عصمت چغتائی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here