بھابی بیاہ کر آئی تھی تو مشکل سے پندرہ برس کی ہوگی۔ بڑھوار بھی تو پوری نہیں ہوئی تھی۔ بھیا کی صورت سے ایسی لرزتی تھی جیسے قصائی سے گائے مگر سال بھر کے اندر ہی وہ تو جیسے منہ بند کلی سے کھل کر پھول بن گئی جسم بھر گیا۔ بال گھمیرے ہوگئے۔ آنکھوں میں ہرنوں جیسی وحشت دور ہوکر غرور اور شرارت بھر گئی۔
بھابی ذرا آزاد قسم کے خاندان سے تھی، کانوینٹ میں تعلیم پائی تھی۔ پچھلے سال اس کی بڑی بہن ایک عیسائی کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ اس لیے اس کے ماں باپ نے ڈر کے مارے جلدی سے اسے کانوینٹ سے اٹھایا اور چٹ پٹ شادی کردی۔
بھابی آزاد فضامیں پلی تھی۔ ہرنیوں کی طرح قلانچیں بھرنے کی عادی تھی مگر سسرال اور میکہ دونوں طرف سے اس پر کڑی نگرانی تھی اور بھیا کی بھی یہی کوشش تھی کہ اگر جلدی سے اسے پکی گھر ہستن نہ بنادیا گیا تو وہ بھی اپنی بڑی بہن کی طرح کوئی گل کھلائے گی، حالانکہ وہ شادی شدہ تھی۔ لہٰذا اسے گھرہستن بنانے پر جٹ گئے۔
چار پانچ سال کے اندر بھابی کو گھس گھساکر واقعی سب نے گھر ہستن بنادیا۔ وہ تین بچوں کی ماں بن کر بھدی اور ٹھس ہوگئی۔ اماں اسے خوب مرغی کا شوربا، گونڈ سٹورے کھلاتیں۔ بھیا ٹانک پلاتے اور ہر بچے کے بعد وہ دس پندرہ پونڈ بڑھ جاتی۔
آہستہ آہستہ اس نے بننا سنورنا چھوڑ ہی دیا تھا۔ بھیا کو لپ اسٹک سے نفرت تھی۔ آنکھوں میں منوں کاجل اور مسکارا دیکھ کر وہ چڑجاتے۔ بھیا کو بس گلابی رنگ پسند تھا یا پھر سرخ۔۔۔ بھابی زیادہ تر گلابی یا سرخ ہی کپڑے پہناکرتی تھی۔ گلابی ساڑھی پر سرخ بلاؤز یا کبھی گلابی کے ساتھ ہلکا گہرا گلابی۔
شادی کے وقت اس کے بال کٹے ہوئے تھے۔ مگر دولہن بناتے وقت ایسے تیل چپڑ کر باندھے گئے تھے، لیکن پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ پرکٹی میم ہے اب اس کے بال تو بڑھ گئے تھے، لیکن پے درپے بچے ہونے کی وجہ سے وہ ذرا گنجی سی ہوگئی تھی۔ ویسے بھی وہ بال کس کر میلی دھجی ہی باندھ لیا کرتی تھی۔ اس کے میاں کو وہ میلی کچیلی ایسی ہی بڑی پیاری لگتی تھی اور میکے سسرال والے بھی اس کی سادگی کو دیکھ کر اس کی تعریفوں کے گن گاتے تھے۔ بھابی تھی بڑی پیاری سی، سجیل نقشہ مکھن جیسی رنگت، سڈول ہاتھ، پاؤں۔ مگر اس نے اس بری طرح اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا تھا کہ خمیرے آٹے کی طرح بہہ گئی تھی۔
بھیا اس سے نو برس بڑے تھے مگر اس کے سامنے لونڈے سے لگتے تھے۔ ویسے ہی سڈول کسرتی بدن والے، روز ورزش کرتے، بڑی احتیاط سے کھانا کھاتے بڑے حساب سے سگریٹ پیتے۔ یونہی کبھی وہسکی بیئر چکھ لیتے۔ ان کے چہرے پر اب لڑکپن تھا۔ تھے بھی تیس اکتیں برس کے۔ مگر چوبیس پچیس برس کے ہی لگتے تھے۔
اف بھیا کو جین اور اسکرٹ سے کیسی نفرت تھی۔ انہیں یہ نئے فیشن کی بے استنبول کی بدن پر چپکی ہوئی قمیص سے بھی بڑی گھن آتی تھی۔ تنگ موری کی شلواروں سے تو وہ ایسے جلتے تھے کہ توبہ خیر، بھابی بے چاری تو شلوار قمیض کے قابل رہ ہی نہیں گئی تھی۔ وہ تو بس زیادہ تر بلاؤز اور پیٹی کوٹ پر ڈریسنگ گاؤن چڑھائے گھوما کرتی۔ کوئی نئی جان پہچان والا آجاتا تو بھی بے تکلفی سے وہی اپنا نیشنل ڈریس پہنے رہتی۔ کوئی پرتکلف مہمان آتا توعموماً وہ اندر ہی بچوں سےسرمارا کرتی جوکبھی باہر آنا پڑتا تو ملگجی سی ساڑھی لپیٹ لیتی۔ وہ گھر ہستن تھی، بہو تھی اور چہیتی تھی، اسے رنڈیوں کی طرح بن سنور کر کسی کو لبھانے کی کیا ضرورت تھی۔
اور بھابی شاید یونہی گوڈر بنی ادھیڑ اور پھر بوڑھی ہوجاتی۔ بہوئیں بیاہ کر لاتی جو صبح اٹھ کر اسے جھک کر سلام کرتیں، گود میں پوتا کھلانے کو دیتیں۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
شام کا وقت تھا ہم سب لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ بھابی پاپڑ تلنے باورچی خانہ میں گئی تھی۔ باورچی نے پاپڑ لال کردیے بھیا کو بادامی پاپڑ بھاتے ہیں۔
انہوں نے پیار سے بھابی کی طرف دیکھا اور وہ جھٹ اٹھ کر پاپڑ تلنےچلی گئی۔ ہم لوگ مزے سے چائے پیتے رہے۔ ہائے بھابی تھی کہ فرشتہ میں تو کالج سے آکر باورچی خانہ میں جانے پر کسی طرح مجبور ہی نہیں کی جاسکتی تھی اور نہ ہی میرا شام کو پرتکلف لباس باورچی خانہ کے لیے موزوں تھا۔ اس کے علاوہ مجھے پاپڑ تلنےہی کب آتے تھے۔ دوسری بہنیں بھی میری قطار میں کھڑی تھیں۔ فریدہ کا منگیتر آیا تھا۔ وہ اسکی طرف جٹی ہوئی تھی، رضیہ اور شمیم اپنے دوستوں کے ساتھ گپیں لڑانے میں مصروف تھیں۔ وہ کیا پاپڑ تلتیں۔ اور ہم سب تو بابل کے آنگن کی چڑیاں تھیں اور اڑنے کے لیے پرتول رہی تھیں۔
دھائیں سے فٹ بال آکر عین بھیا کی پیالی میں پڑی۔ ہم سب اچھل پڑے۔ بھیا مارے غصہ کے بھنا اٹھے۔
’’کون پاجی ہے؟‘‘ انہوں نے جدھر سے گیند آئی تھی ادھر منہ کرکے ڈانٹا۔
بکھرے ہوئے بالوں کا گول مول سر اور بڑی بڑی آنکھیں اوپر سےجھانکیں۔ ایک زقند میں بھیا منڈیر پر تھے اور مجرم کے بال ان کی گرفت میں۔
’’اوہ!‘‘ ایک چیخ گونجی اور دوسرے لمحے بھیا ایسے اچھل کر الگ ہوگئے جیسے انہوں نے بچھو کے ڈنگ پر ہاتھ ڈال دیا ہو یا انگارہ پکڑ لیا ہو۔
’’سوری۔۔۔ آئی ایم ویری سوری۔۔۔‘‘ وہ ہکلا رہے تھے۔ ہم سب دوڑ کر گئے۔ دیکھا تو منڈیر کے اس طرف ایک دبلی پتلی ناگن سی لڑکی سفید ڈرین پائپ اور نیبو کے رنگ کا سلیولیس بلاؤز پہنے اپنے میرلین منرو کی طرح کٹے ہوئے بالوں میں پتلی پتلی انگلیاں پھیر کر کھسیانی ہنسی ہنس رہی تھی اور پھر ہم سب ہنسنے لگے۔
بھابی پاپڑوں کی پلیٹ لیے اندر سے نکلی اور بغیر پوچھے گچھے یہ سمجھ کر ہنسنے لگی کہ ضرور کوئی ہنسنے کی بات ہوئی ہوگی۔ اس کا ڈھیلا ڈھالا پیٹ ہنسنےمیں پھدکنےلگا اور جب اسے معلوم ہوا کہ بھیا نے شبنم کو لونڈا سمجھ کر اس کے بال پکڑ لیے تو وہ اور بھی زور زور سے قہقہے لگانے لگی کہ کئی پاپڑ کے ٹکڑے گھاس پر بکھر گئے۔ شبنم نے بتایا کہ وہ اسی دن اپنے چچا خالد جمیل کے ہاں آئی ہے۔ اکیلے جی گھبرایا تو فٹ بال ہی لڑھکانے لگی جو قسمت سے بھیاجی کی پیالی پر آن کودی۔
شبنم بھیا کو اپنی تیکھی مسکارہ لگی آنکھوں سے گھور رہی تھی۔ بھیا مسحور سناٹے میں اسے تک رہے تھے۔ ایک کرنٹ ان دونوں کے درمیان دوڑ رہا تھا۔بھابھی اس کرنٹ سے کٹی ہوئی جیسے کوسوں دور کھڑی تھی۔ اس کاپھدکتا ہوا پیٹ سہم کر رک گیا۔ ہنسی نے اس کے ہونٹوں پر لڑکھڑا کردم توڑ دیا۔ اس کے ہاتھ ڈھیلے ہوگئے۔ پلیٹ ٹیڑھی ہوکر پاپڑ گھاس پر گرنے لگے۔ پھر ایک دم وہ دونوں جاگ پڑے اور خوابوں کی دنیا سے لوٹ آئے۔ شبنم پھدک کر منڈیر پر چڑھ گئی۔
’’آئیے چائے پی لیجیے‘‘، میں نے ٹھہری ہوئی فضا کودھکا دےکر آگے کھسکایا۔
ایک لچک کے ساتھ شبنم نے اپنے پیر منڈیر کے اس پار سے اس پار جھلائے۔ سفید چھوٹے چھوٹے مکاسن ہری گھاس پر فاختہ کے جوڑے کی طرح تھمکنے لگے۔ شبنم کا رنگ پگھلے ہوئے سونےکی طرح لودے رہا تھا۔ اس کے بال سیاہ بھونراتھے۔ مگر آنکھیں جیسے سیاہ کٹوریوں میں کسی نے شہد بھر دیا ہو۔ نیبو کے رنگ کے بلاؤز کا گلا بہت گہرا تھا۔ ہونٹ تربوزی رنگ کے اور اسی رنگ کی نیل پالش لگائے وہ بالکل کسی امریکی اشتہار کی ماڈل معلوم ہو رہی تھی۔ بھابی سے کوئی فٹ بھر لانبی لگ رہی تھی حالانکہ مشکل سے دوانچ اونچی ہوگی۔ اس کی ہڈی بڑی نازک تھی۔ اس لیے کمرتو ایسی کہ چھلے میں پرولو۔
بھیا کچھ گم سم سے بیٹھے تھے۔ بھابی انہیں ایسے تاک رہی تھی۔ جیسے بلی پر تولتےہوئے پرندے کو گھورتی ہے کہ جیسے ہی پر پھڑپھڑائے بڑھ کر دبوچ لے۔ اس کاچہرہ تمتما رہا تھا۔ ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔ نتھنے پھڑپھڑا رہے تھے۔
اتنےمیں منا آکر اس کی پیٹھ پر دھم سے کودا۔ وہ ہمیشہ اس کی پیٹھ پر ایسے کودا کرتا تھا جیسے وہ گدگدا سا تکیہ ہو۔ بھابی ہمیشہ ہی ہنس دیا کرتی تھی۔ مگر آج اس نے چٹاخ پٹاخ دوچار چانٹے جڑ دیے۔
شبنم پریشان ہوگئی۔
’’ارے ارے۔۔۔ روکئے نا۔۔۔‘‘ اس نے بھیا کا ہاتھ چھوکر کہا، ’’بڑی غصہ ور ہیں آپ کی ممی۔‘‘ اس نے میری طرف منہ پھیر کر کہا۔
انٹروڈکشن ہماری سوسائٹی میں بہت کم ہوا کرتا ہے اور پھر بھابی کا کسی سے انٹروڈکشن کرانا عجیب سا لگتا تھا۔ وہ تو صورت سے ہی گھر کی بہو لگتی تھی۔ شبنم کی بات پر ہم سب قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ بھابی منے کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتی ہوئی اندر چل دی۔
’’ارے یہ تو ہماری بھابی ہے۔‘‘ میں نے بھابی کو دھم دھم جاتے ہوئے دیکھ کر کہا،’’بھابی؟‘‘ شبنم حیرت زدہ ہوکر بولی۔ ’’ان کی بھیا کی بیوی۔‘‘
’’اوہ۔۔۔‘‘ اس نے سنجیدگی سے اپنی نظریں جھکالیں۔ ’’میں میں سمجھی!‘‘ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’بھابی کی عمر تیئس سال ہے۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’مگر ڈونٹ بی سلی۔۔۔‘‘ شبنم ہنسی۔۔۔ بھیا بھی اٹھ کر چل دیے۔
’’خدا کی قسم۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ جہالت۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ بھابی نے مارٹیز سے پندرہ سال کی عمر میں سینئر کیمرج کیا تھا۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے۔ یہ مجھ سے تین سال چھوٹی ہیں۔ میں چھبیس سال کی ہوں۔‘‘
’’تب تو قطعی چھوٹی ہیں۔‘‘
اف اور میں سمجھی وہ تمہاری ممی ہیں۔ دراصل میری آنکھیں کمزور ہیں۔ مگر مجھے عینک سے نفرت ہے۔ برا لگا ہوگا انہیں۔‘‘
’’نہیں بھابی کو کچھ برا نہیں لگتا۔‘‘
’’چہ۔۔۔ بیچاری۔۔۔‘‘
کون ’’کون۔۔۔ بھائی۔‘‘ ناجانے میں نے کیوں کہا۔
’’بھیا اپنی بیوی پر جان دیتے ہیں۔‘‘ صفیہ نے بطور وکیل کہا۔
’’بیچارے کی بہت بچپن میں شادی کردی گئی ہوگی۔‘‘
’’پچیس چھبیس سال کے تھے۔‘‘
’’مگر مجھے تو معلوم بھی نہ تھاکہ بیسویں صدی میں بغیر دیکھے شادیاں ہوتی ہیں‘‘، شبنم نے حقارت سے مسکراکر کہا۔
’’تمہارا ہر اندازہ غلط نکل رہا ہے۔۔۔ بھیا نے بھابی کو دیکھ کر بیحد پسند کرلیا تھا۔ تب شادی ہوئی تھی۔ مگر جب وہ کنول کے پھول جیسی نازک اور حسین تھیں۔‘‘
’’پھر یہ کیا ہوگیا شادی کے بعد؟‘‘
’’ہوتا کیا۔۔۔ بھابی اپنےگھر کی ملکہ ہیں بچوں کی ملکہ ہیں۔ کوئی فلم ایکٹریس تو ہیں نہیں۔ دوسرے بھیا کو سوکھی ماری لڑکیوں سے گھن آتی ہے۔‘‘ میں نے جان کر شبنم پر چوٹ کی۔ وہ بے وقوف نہ تھی۔
بھئی چاہے مجھ سے کوئی پیار کرے یا نہ کرے۔ میں تو کسی کو خوش کرنے کے لیے ہاتھی کا بچہ کبھی نہ بنوں۔۔۔ اوہ معاف کرنا تمہاری بھابی کبھی بہت خوبصورت ہوں گی مگر اب تو۔۔۔‘‘
’’اُنہہ، آپ کا نکتہ نظر بھیا سے مختلف ہے۔ میں نے بات ٹال دی اور جب وہ بل کھاتی سیدھی سڈول ٹانگوں کو آگے پیچھے جھلاتی ننھے ننھے قدم رکھتی منڈیر کی طرف جارہی تھی۔ بھیا برآمدے میں کھڑے تھے۔ ان کا چہرہ سفید پڑگیا تھا۔ اور بار بار اپنی گدی سہلارہے تھے۔ جیسے کسی نے وہاں جلتی ہوئی آگ رکھ دی ہو۔ چڑیا کی طرح پھدک کر وہ منڈیر پر پھلانگ گئی۔ پل بھر کو پلٹ کر اس نے اپنی شربتی آنکھوں سے بھیا کو تولا اور چھلاوہ کی طرح کوٹھی میں غائب ہوگئی۔
بھابی لان پر جھکی ہوئی بالیں سمیٹ رہی تھی۔ مگر اس نے ایک نظر نہ آنے والا تار دیکھ لیا۔ جو بھیا جی اور شبنم کی نگاہوں کے درمیان دوڑ رہا تھا۔
ایک دن میں نے کھڑکی میں سے دیکھا۔ شبنم پھولا ہوا اسکرٹ اور سفید کھلے گلے کابلاؤز پہنے پپو کے ساتھ سمبا ناچ رہی تھی اس کا ننھا سا پکنیز کتا ٹانگوں میں الجھ رہا تھا۔ وہ اونچے اونچے قہقہے لگا رہی تھی۔ اس کی سڈول سانولی ٹانگیں ہری ہری گھاس پر تھرک رہی تھیں۔ سیاہ ریشمی بال ہوا میں چھلک رہے تھے۔ پانچ سال کا پپو بندر کی طرح پھدک رہا تھا۔ مگر وہ نشیلی ناگن کی طرح لہرارہی تھی۔ اس نے ناچتے ناچتے ناک پر انگوٹھا رکھ کر مجھے چڑایا۔ میں نے جواب میں گھونسا دکھادیا۔ مگر فوراً ہی مجھے اس کی نگاہوں کا پیچھا کرکے معلوم ہوا یہ اشارہ وہ میری طرف نہیں کر رہی تھی۔ بھیا برآمدےمیں احمقوں کی طرح کھڑے گدی سہلا رہے تھے۔ اور وہ انہیں منہ چڑا کر جلارہی تھی۔ اس کی کمر پر بل پڑرہے تھے۔ کولہے مٹک رہے تھے۔ بانہیں تھرتھرا رہی تھیں۔ ہونٹ ایک دوسرے سے جدا لرز رہے تھے۔ اس نے سانپ کی طرح لپ سے زبان نکال کر اپنے ہونٹ کو چاٹا۔ بھیا کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور وہ کھڑے دانت نکال رہے تھے۔ میرا دل دھک سے رہ گیا۔۔۔ بھابی گودام میں اناج تلوا کر باورچی کو دے رہی تھی۔
’’شبنم کی بچی۔۔۔‘‘ میں نےدل میں سوچا۔۔۔ مگر غصہ مجھے بھیا پر بھی آیا۔ انہیں دانت نکالنے کی کیا ضرورت تھی۔ انہیں تو شبنم جیسی کرنٹیوں سے نفرت تھی۔ انہیں تو انگریزی ناچوں سے گھن آتی تھی۔ پھر وہ کیوں کھڑے اسے تک رہے ہیں اور ایسی بھی کیا بے سدھی کہ ان کا جسم سنبا کی تال پر لرز رہا تھا اور انہیں خبر نہ تھی۔
اتنے میں بوائے چائے کی ٹرے لے کر لان پر آگیا۔۔۔ بھیا نے ہم سب کو آواز دی او ربوائے سے کہا بھابی کو بھیج دے۔
رسماً شبنم کو بلاوا دینا پڑا۔ میرا تو جی چاہ رہا تھا قطعی اس کی طرف سے منہ پھیر کر بیٹھ جاؤں مگر جب وہ منے کو بڈھی پر چڑھائے منڈیر پھلانگ کر آئی تو نہ جانے کیوں مجھے وہ قطعی معصوم لگی، مناسکارف لگاموں کی تھامےہوئے تھا اور وہ گھوڑے کی چال اچھلتی ہوئی لان پر دوڑ رہی تھی۔ بھیا نے منے کواس کی پیٹھ سے اتارناچاہا مگر وہ چمٹ گیا۔
’’ابھی اور گھوڑا چلے آنٹی۔‘‘
’’نہیں بابا۔۔۔ آنٹی میں دم نہیں۔۔۔‘‘ شبنم چلائی۔ بڑی مشکل سے منے کو بھیا نے اتارا۔ منہ پر ایک چانٹا لگایا ایک دم تڑپ کر شبنم نےاسے گود میں اٹھا لیا اور بھیا کے ہاتھ پر زور کا تھپڑ لگایا۔
’’شرم نہیں آتی۔۔۔ اتنے بڑے اونٹ کے اونٹ ذرا سے بچے پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔‘‘ بھابی کو آتا دیکھ کر اس نے منے کو ان کی گود میں دے دیا۔ اس کا چانٹا کھاکر بھیا مسکرا رہے تھے۔
’’دیکھیے تو کتنی زور سے تھپڑ مارا ہے۔ میرے بچے کو کوئی مارتا تو ہاتھ توڑ کر رکھ دیتی‘‘، اس نے شربت کی کٹوریوں میں زہر گھول کر بھیا کو دیکھا۔ ’’اور پھر ہنس رہے ہیں بے حیا۔‘‘
’’ہوں۔ دم بھی ہے۔۔۔ جو ہاتھ توڑوگی۔۔۔‘‘ بھیا نے اس کی کلائی مروڑی۔ وہ بل کھاکر اتنی زور سے چیخی کے بھیا نے لرز کر اسے چھوڑ دیا اور وہ ہنستے ہنستے زمین پر لوٹ گئی۔ چائے کے درمیان بھی شبنم کی شرارتیں چلتی رہیں وہ بالکل کم سن چوکھریوں کی طرح چہلیں کر رہی تھی۔ بھابی گم سم بیٹھی تھیں۔ آپ سمجھے ہوں گے۔ شبنم کے وجود سے ڈر کر انہوں نے کچھ اپنی طرف توجہ دینی شروع کردی ہوگی۔ جی قطعی نہیں۔ وہ تو پہلے سے بھی زیادہ میلی رہنےلگیں۔ پہلے سے بھی زیادہ کھاتیں۔ ہم سب تو ہنس زیادہ رہے تھے۔ مگر وہ سرجھکائے نہایت انہماک سے کیک اڑانے میں مصروف تھیں۔ چٹنی لگا لگا کر بھجئے نگل رہی تھیں۔ سکے ہوئے توسوں پر ڈھیر سامکھن اور جبل تھوپ گردے کھائے جارہی تھیں، بھیا اور شبنم کو دیکھ دیکھ کر ہم سب ہی پریشان تھے اور شاید بھابی فکر مند ہوگی وہ اپنی پریشانی کو مرغن کھانوں میں دفن کر رہی تھیں۔ انہیں ہر وقت کھٹی ڈکاریں آیا کرتیں مگر وہ چورن کھا کھا کر پلاؤ قورمہ ہضم کرتیں۔ وہ سہمی سہمی نظروں سے بھیاجی اور شبنم کو ہنستا بولتا دیکھتیں۔ بھیا تو کچھ اور بھی لونڈے لگنے لگے تھے۔ شبنم کے ساتھ وہ صبح وہ شام سمندر میں تیرتے۔ بھابی اچھا بھلا تیرنا جانتی۔ مگر بھیا کو سوئمنگ سوٹ پہنی عورتوں سے بہت نفرت تھی۔ ایک دن ہم سب سمندر میں نہارہے تھے۔ شبنم دو دھجیاں پہنے ناگن کی طرح پانی میں بل کھارہی تھی۔ اتنے میں بھابی جو دیر سے منے کو پکار رہی تھیں، آگئیں۔ بھیا شرارت کے موڈ میں تو تھے ہی، دوڑ کر انہیں پکڑ لیا اور ہم سب نےمل کر انہیں پانی میں گھسیٹ لیا۔
جب سے شبنم آئی تھی۔ بھیا بہت شریر ہوگئے تھے۔ ایک دم سے وہ دانت کچکچا کر بھابی کو ہم سب کے سامنے بھینچ لیتے۔ انہیں گود میں اٹھانے کی کوشش کرتے۔ مگر وہ ان کےہاتھوں میں سے بونبل مچھلی کی طرح پھسل جاتیں۔ پھر وہ کھسیاکر رہ جاتے، جیسے تخیل میں وہ شبنم ہی کو اٹھارہے تھے اور بھابی کٹی گائے کی طرح نادم ہوکر فوراً پڈنگ یا کوئی اور مزے دار ڈش تیار کرنے چلی جاتیں۔ اس وقت جو انہیں پانی میں دھکیلا گیا تو وہ گٹھڑی کی طرح لڑھک گئیں۔ ان کے کپڑے جسم پر چپک گئے اور ان کے جسم کا سارا بھونڈا پن بھیانک طریقہ پر ابھر آیا۔ کمر پر جیسے کسی نے توشک لپیٹ دی تھی۔ کپڑوں میں وہ اتنی بھیانک نہیں معلوم ہوتی تھیں۔
’’اوہ کتنی موٹی ہوگئی ہو تم‘‘، بھیا نے ان کے کولہے کا بوٹا پکڑ کر کہا۔ اف توند تو دیکھو۔۔۔ بالکل گاما پہلوان معلوم ہو رہی ہو۔‘‘
’’ہنہ۔۔۔ چار بچے ہونے کے بعد کمر۔۔۔‘‘
’’میرے بھی تو چار بچے ہیں۔۔۔ میری کمر تو ڈنلو پلوکا گدا نہیں بنی‘‘، انہوں نے اپنے سڈول جسم کو ٹھوک بجاکر کہا اور بھابی منہ تھوتھائے بھیگی مرغی کی طرح پیر مارتی جھرجھریاں لیتی ریت میں گہرے گہرے گڈھے بناتی منے کو گھسیٹتی چلی گئیں۔ بھیا بالکل بے توجہ ہوکر شبنم کو پانی میں ڈبکیاں دینے لگے۔ مگر وہ کہاں ہاتھ آنے والی تھی۔ ایسا اڑنگا لگایا کہ غڑاپ سے اوندھے منہ گرپڑے۔
جب نہاکر آئے تو بھابی سرجھکائے خوبانیوں کے مربہ پر کریم کی تہہ جمارہی تھیں، ان کے ہونٹ سفید ہو رہے تھے اور آنکھیں سرخ تھیں۔ گٹارچہ کی گڑیاں جیسے موٹے موٹے گال اور سوجے ہوئے معلوم ہورہے تھے۔
لنچ پر بھابی بے انتہا غمگین تھیں۔ لہٰذا بڑی تیزی سے خوبانیوں کا مربہ اور کریم کھانے پر جٹی ہوئی تھیں۔ شبنم نے ڈش کی طرف دیکھ کر ایسے پھریری لی جیسے خوبانیاں نہ ہوں سانپ بچھو ہوں۔
’’زہر ہے زہر!‘‘ اس نے نفاست سے ککڑی کا ٹکڑا کترتے ہوئے کہا۔ اور بھیا بھابی کو گھورنے لگے۔ مگروہ شپاشپ مربہ اڑاتی رہیں۔
’’حد ہے!‘‘ انہوں نے نتھنے پھڑکا کر کہا۔
بھابی نے کوئی دھیان نہ دیا اور قریب قریب پوری ڈش پیٹ میں انڈیل لی۔ انہیں مربہ سپوڑتے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ رشک و حسد کے طوفان کو روکنے کے لیے بند باندھ رہی ہوں۔ یہ کریم چوبی کی چٹانوں کی صورت میں ان کے جسم کے قلعے کو ناقابل تسخیر بنادے گی۔ پھر شاید دل میں یوں ٹیسیس نہ اٹھیں گی۔ بھیاجی اور شبنم کی مسکراتی ہوئی آنکھوں کے ٹکراؤ سےبھڑکنے والے شعلے ان پتھریلی دیواروں کو نہ پگھلا سکیں گے۔
’’خدا کے لیے بس کرو۔۔۔ ڈاکٹر بھی منع کر چکا ہے ایسا بھی کیا چٹورپن‘‘، بھیا نے کہہ ہی دیا، موم کی دیوار کی طرح بھابی پگھل گئیں۔ بھیا کا نشتر چربی کی دیواروں کو چیرتا ہوا ٹھیک دل میں اترگیا۔ موٹے موٹے آنسو بھابی کے پھولے ہوئے گالوں پر پھسلنے لگے۔ سسکیوں نے جسم کے ڈھیر میں زلزلہ پیدا کردیا۔ دبلی پتلی اور نازک لڑکیاں کس لطیف اور سہانےانداز میں روتی ہیں۔ مگر بھابی کو روتے دیکھ کر بجائے دکھ کے ہنسی آتی تھی جیسے کوئی روئی کے بھیگے ہوئے ڈھیر کو ڈنڈوں سے پیٹ رہاہو۔
وہ ناک پونچھتی ہوئی اٹھنے لگیں مگر ہم لوگوں نے روک لیا اور بھیا کو ڈانٹا، خوشامد کرکے واپس انہیں بٹھالیا۔ بیچاری ناک سڑکاتی بیٹھ گئیں۔ مگر جب انہوں نے کافی میں تین چمچ شکر ڈال کر کریم کی طرف ہاتھ بڑھایا تو ایک دم ٹھٹھک گئیں۔ سہمی ہوئی نظروں سے شبنم اور بھیا کی طرف دیکھا۔ شبنم بمشکل اپنی ہنسی روکے ہوئے تھی، بھیا مارے غصہ کے روہانسے ہو رہے تھے۔ وہ ایک دم بھناکر اٹھے اور جاکر برآمدے میں بیٹھ گئے۔ اس کے بعد حالات اور بگڑے۔ بھابی نے کھلم کھلا اعلان جنگ کردیا۔ کسی زمانےمیں بھابی کا پٹھانی خون بہت گرم تھا۔ ذرا سی بات پر ہاتھا پائی پر اتر آیا کرتی تھیں اور بارہابھیا سےغصہ ہوکر بجائے منہ پھیلانے کے وہ خونخوار بلی کی طرح ان پر ٹوٹ پڑتیں، ان کا منہ کھسوٹ ڈالتیں۔ دانتوں سے گریبان کی دھجیاں اڑادیتیں۔ پھر بھیا انہیں اپنی بانہوں میں جکڑ کر بےبس کردیتے اور وہ ان کے سینے سے لگ کر پیاسی ڈری ہوئی چڑیا کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتیں پھر ملاپ ہوجاتا اور جھینپی کھسیانی وہ بھیا کے منہ پر لگے ہوئے کھرونچوں پر پیار سے ٹنکچر لگادیتیں۔ ان کے گریبان کو رفو کردیتیں۔ اور میٹھی میٹھی شکر گزار آنکھوں سے انہیں تکتی رہتیں۔
یہ تب کی بات ہے جب بھابی ہلکی پھلکی تیتری کی طرح طرار تھیں، لڑتی ہوئی چھوٹی سی پشمی بلی معلوم ہوتی تھیں۔ بھیا کوان پر غصہ آنے کے بجائے اور شدت سے پیار آتا۔ مگر جب ان پر گوشت نےجہاد بول دیا تھا، وہ بہت ٹھنڈی پڑگئی تھیں۔ انھیں اول تو غصہ ہی نہ آتا اور اگر آتا بھی تو فوراً ادھر ادھر کام میں لگ کر بھول جاتیں۔
اس دن انہوں نے اپنے بھاری بھرکم ڈیل کو بھول کربھیا پر حملہ کردیا۔ بھیا صرف ان کے بوجھ سے دھکا کھاکر دیوار سے جاچپکے۔ روئی کے گٹھڑ کویو ں لڑھکتے دیکھ کر انہیں سخت گھن آئی۔ نہ غصہ ہوئے، نہ بگڑے، شرمندہ اداس سرجھکائے کمرے سےنکل بھاگے۔ بھابی وہیں پسر کر رونے لگیں۔
بات اور بڑھی اور ایک دن بھیا کے سالے آکر بھابی کو لے گئے۔ طفیل، بھابی کےچچازاد بھائی تھے۔ انہیں دیکھ کر وہ بچوں کی طرح ان سے لپٹ کر رونے لگیں۔ انہوں نے بھابی کو پانچ سال بعد دیکھا تھا۔ وہ گول گیند کو دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے سٹ پٹائے پھر انہوں نے بھابی کو ننھی بچی کی طرح سینے سے لگالیا۔ بھیا اس وقت شبنم کے ساتھ کرکٹ کا میچ دیکھنے گئے ہوئے تھے۔ طفیل نےشام تک ان کاانتظار کیا۔ وہ نہ آئے تو مجبوراً بھابی اور بچوں کاسامان تیار کیا گیا۔ جانے سے پہلے بھیا گھڑی بھر کو کھڑے کھڑے آئے۔
’’دہلی کے مکان میں نے ان کے مہر میں دیے‘‘، انہوں نے رکھائی سے طفیل سے کہا۔
’’مہر؟‘‘ بھابی تھر تھر کانپنےلگی۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ طلاق کے کاغذات وکیل کے ذریعہ پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’مگر طلاق۔۔۔ طلاق کا کیا ذکر ہے؟‘‘
’’اسی میں بہتری ہے۔‘‘
’’مگر۔۔۔ بچے۔۔۔؟‘‘
’’یہ چاہیں تو انہیں لے جائیں۔۔۔ ورنہ میں نے بورڈنگ میں انتظام کر لیا ہے۔‘‘
ایک چیخ مار کر بھابی بھیا پر جھپٹیں۔۔۔ مگرانہیں کھسوٹنےکی ہمت نہ پڑی سہم کر ٹھٹھک گئیں۔
اور پھر بھابی نے اپنی نسوانیت کی پوری طرح بے آبروئی کرڈالی۔ وہ بھیا کے پیروں پر لوٹ گئیں ناک رگڑ ڈالی۔
’’تم اس سےشادی کرلو۔۔۔ میں کچھ نہ کہوں گی۔ مگر خدا کے لیے مجھے طلاق نہ دو۔ میں یوں ہی زندگی گزاردوں گی۔ مجھے کوئی شکایت نہ ہوگی۔‘‘
مگر بھیا نے نفرت سے بھابی کے تھل تھل کرتےہوئے جسم کو دیکھا اور منہ موڑ لیا۔
’’میں طلاق دے چکا۔ اب۔۔۔ کیا ہو سکتا ہے۔‘‘
مگر بھابی کو کون سمجھاتا۔ وہ بلبلائے چلی گئیں۔
’’بے وقوف۔۔۔‘‘ طفیل نے ایک ہی جھٹکے میں بھابی کوزمین سے اٹھا لیا، ’’گدھی کہیں کی، چل اٹھ۔۔۔‘‘ اور وہ اسے گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔
کیا دردناک سماں تھا۔ بچے پھوٹ پھوٹ کر رونےمیں ہم بھابی کا ساتھ دے رہے تھے۔ اماں خاموش ایک ایک کامنہ تک رہی تھیں۔ ابا کی موت کے بعد ان کی گھر میں کوئی حیثیت نہیں رہ گئی تھی۔ بھیا خود مختار تھے بلکہ ہم سب کے سرپرست تھے۔ اماں انہیں بہت سمجھا کر ہار چکی تھیں انہیں اس دن کی اچھی طرح خبر تھی۔ مگر کیا کرسکتی تھیں۔
بھابی چلی گئیں۔۔۔ فضا ایسی خراب ہوگئی تھی کہ بھیا اور شبنم بھی شادی کےبعد ہل اسٹیشن پر چلے گئے۔
سات آٹھ سال گزر گئے کچھ کم و بیش ٹھیک اندازہ نہیں، ہم سب اپنے اپنے گھروں کی ہوئیں۔ اماں کا انتقال ہوگیا۔ ابا کی موت کے بعد وہ بالکل گم سم ہوکر رہ گئی تھیں۔ انہوں نے بھابی کی طلاق پر بہت رونا پیٹنا مچایا۔ مگربھیا کے مزاج سے وہ واقف تھیں۔ وہ کبھی ابا کی بھی نہیں سنتے تھے۔ کماؤ پوت اپنا مالک ہوتا ہے۔
آشیانہ اجڑ گیا۔ بھرا ہواگھر سنسان ہوگیا۔ سب ادھر ادھر اڑ گئے سات آٹھ سال آنکھ جھپکتے نہ جانے کہاں گم ہوگئے کبھی سال دوسال میں بھیا کی کوئی خیر خبر مل جاتی۔ وہ زیادہ تر ہندوستان سے باہر ملکوں کی چک پھریوں میں الجھے رہے مگر جب ان کا خط آیا کہ وہ بمبئی آرہے ہیں تو بھولا بسرا بچپن پھر سے جاگ اٹھا۔ بھیا جی ٹرین سےاترے تو ہم دونوں بچوں کی طرح لپٹ گئے۔ شبنم مجھے کہیں نظر نہ آئی۔ ان کا سامان اتر رہا تھا۔ جیسے ہی بھیا سے اس کی خیریت پوچھنے کو مڑی،دھپ سے ایک وزنی ہاتھ میری پیٹھ پر پڑا اور کئی من کا گرم گرم گوشت کا پہاڑ مجھ سے لپٹ گیا۔
’’بھابی!‘‘ میں نے پلیٹ فارم سے نیچے گرنے سے بچنےکے لیے کھڑکی میں جھول کر کہا۔ زندگی میں، میں نےشبنم کو کبھی بھابی نہ کہا تھا۔ وہ لگتی بھی تو شبنم ہی تھی مگر آج میرے منہ سے بے اختیار بھابی نکل گیا۔ شبنم کی پھوار۔۔۔ ان چند سالوں میں گوشت اور پوست کا تودا کیسے بن گئی؟ میں نے بھیا کی طرف دیکھا وہ ویسے ہی درازقد اورچھریرے تھے۔ ایک تولہ گوشت نہ ادھر نہ ادھر وہی کم سن لڑکوں جیسے گھنے بال۔ بس دوچار سفید چاندی کے تار کنپٹیوں پر جھانکنے لگے تھے جن سے وہ اور بھی حسین اور باوقار معلوم ہونے لگےتھے۔ ویسے کے ویسے چٹان کی طرح جمے ہوئے تھے۔ لہریں تڑپ تڑپ کر چٹان کی اور لپکتی ہیں۔ اپنا سر اس کے قدموں میں دےمارتی ہیں۔۔۔ پاش پاش ہوکر بکھرجاتی ہیں، معدوم ہوجاتی ہیں۔ ہار تھک کر واپس لوٹ جاتی ہیں۔ کچھ وہیں اس کے قدموں میں دم توڑدیتی ہیں اور نئی لہریں پھر سرفروشی کے ارادے سمیٹے چٹان کی طرف کھنچی چلی آتی ہیں۔
اور چٹان۔۔۔؟ ان سجدوں سے دور۔۔۔ طنز سے مسکراتا رہتا ہے۔ اٹل، لاپرواہ اور بے رحم۔ جب بھیا نے شبنم سے شادی کی تو سب ہی نے کہا تھا۔۔۔ شبنم آزاد لڑکی ہے، پکی عمر کی ہے۔۔۔ بھابی۔۔۔ تو یہ میں نے شہناز کو ہمیشہ بھابی ہی کہا۔ ہاں تو شہناز بھولی اور کم سن تھی۔۔۔ بھیا کے قابو میں آگئی۔ یہ ناگن انہیں ڈس کر بے سدھ کردے گی۔ انہیں مزہ چکھائے گی۔
مگر مزہ تو لہروں کو صرف چٹان ہی چکھا سکتی ہے۔
’’بچے۔۔۔ بورڈنگ میں چھٹی نہیں تھی۔ ان کی۔۔۔‘‘ شبنم نے کھٹی ڈکاروں بھری سانس میری گردن پر چھوڑ کر کہا۔
اور میں حیرت سے اس گوشت کے ڈھیر میں اس شبنم کی پھوار کو ڈھونڈ رہی تھی جس نے شہناز کے پیار کی آگ کو بجھاکر بھیا کے کلیجے میں نئی آگ بھڑکادی تھی۔ مگر یہ کیا؟ بجائے اس آگ میں بھسم ہوجانے کے بھیا تو اور بھی سونے کی طرح تپ کرنکھر آئے تھے۔ آگ خود اپنی تپش میں بھسم ہوکر راکھ کا ڈھیر بن گئی تھی۔ بھابی تو مکھن کا ڈھیر تھی۔۔۔ مگر شبنم تو جھلسی ہوئی مٹیالی راکھ تھی۔۔۔ فرش پر پھیل گئی۔
ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔۔۔ شبنم کی آنکھیں بھیاجی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔۔۔ بیرا تروتازہ رس بھری اور کریم کا جگ لے آیا۔ بے خیالی میں شبنم نے پیالہ رس بھر یوں سے بھر لیا۔۔۔ اس کے ہاتھ لرز رہے تھے۔ آنکھیں چوٹ کھائی ہوئی ہرنیوں کی طرح پریشان چوکڑیاں بھر رہی تھیں۔
بھیڑ بھاڑ سےدور۔۔۔ نیم تاریک بالکنی میں بھیا کھڑے مصری رقاصہ کا سگریٹ سلگا رہے تھے۔ ان کی پرشوق نگاہیں رقاصہ کی نشیلی آنکھوں سے الجھ رہی تھیں۔ شبنم کا رنگ اڑا ہوا تھا اور وہ ایک بے ہنگم پہاڑ کی طرح گم سم بیٹھی تھی۔ شبنم کو اپنی طرف تکتا دیکھ کر بھیا رقاصہ کا بازو تھامے اپنی میز کی طرف لوٹ آئے اور ہمارا تعارف کرایا۔
’’میری بہن‘‘، انہوں نے میری طرف اشارہ کیا۔ رقاصہ نے لچک کر میرے وجود کومان لیا۔
’’میری بیگم۔۔۔‘‘ انہوں نے ڈرامائی انداز میں کہا۔۔۔ جیسےکوئی میدان جنگ میں کھایا ہوا زخم کسی کو دکھا رہا ہو۔ رقاصہ دم بخود رہ گئی۔ جیسے اس نے اس کی رفیقہ حیات کو نہیں خود ان کی لاش کو خون میں غلطاں دیکھ لیا ہو، وہ ہیبت زدہ ہوکر شبنم کو گھورنے لگی۔ پھر اس نے اپنے کلیجے کی ساری ممتا اپنی آنکھوں میں سمو کر بھیا کی طرف دیکھا،اس کی ایک نظر میں لاکھوں فسانے پوشیدہ تھے۔ ’’اف یہ ہندوستان جہاں جہالت سے کیسی کیسی ساری ہستیاں رسم و رواج پر قربان کی جاتی ہیں۔ قابلِ پرستش ہیں وہ لوگ اورقابلِ رحم بھی جو ایسی ایسی ’سزائیں‘ بھگتتے ہیں۔‘‘
شبنم بھابی نے رقاصہ کی نگاہوں میں یہ سب کچھ پڑھ لیا۔ اس کے ہاتھ لرزنے لگے۔ پریشانی چھپانے کے لیے اس نے کریم کا جگ اٹھا کر رس بھریوں پر انڈیل دیا اور جٹ گئی۔
بیچارے بھیاجی! ہینڈسم اور مظلوم۔۔۔ سورج دیوتا کی طرح حسین اور رومشک شہد بھری آنکھوں والے بھیا جی چٹان کی طرح اٹل۔۔۔ ایک امر شہید کا روپ سجائے بیٹھے مسکرا رہے تھے۔
ایک لہر چور چور ان کے قدموں میں پڑی دم توڑ رہی تھی۔
دوسری نئی نویلی لچکتی ہوئی لہر ان کی پتھریلی باہوں میں سمانےکے لیے بے چین اور بے قرار تھی۔
مأخذ : چڑی کی دکی
مصنف:عصمت چغتائی