’’تو آپا پھر اب کیا ہوگا؟‘‘
’’اللہ جانےکیا ہوگا۔ مجھے تو صبح سے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘، نزہت نے کنگھی میں سے الجھے ہوئے بال نکال کر انگلی پر لپیٹنا شروع کیے۔ ذہنی انتشار سےاس کے ہاتھ کمزور ہوکر لرز رہے تھے اور بالوں کا گچھا پھسل جاتا تھا۔
’’ابا سنیں گے تو بس اندھیر ہو جائے گا۔ خدا کرے انہیں معلوم نہ ہو۔ مجھے ان کے غصہ سے تو ڈر ہی لگتا ہے۔‘‘
’’تم سمجھتی ہو، یہ بات چھپی رہے گی۔ امی کو تو کل ہی شبہ ہوا تھا کہ کچھ دال میں کالا ہے۔ مگر وہ سودے کے دام دینے میں لگ گئیں اور شاید پھر بھول گئیں۔ اور آج تو۔۔۔‘‘
’’ہاں آپا۔ چھپنے والی تو بات نہیں۔ میں تو یہ کہتی ہوں جب رسولن کے ابا کو خبر ہوگی۔ تب کیا ہوگا؟ خدا قسم بھوت ہے وہ تو۔۔۔ مار ہی ڈالے گا اس کو۔۔۔ ہمیشہ ایسے ہی مارتا ہے کہ۔۔۔‘‘
’’اور اس نے کسی کو بتایا بھی تو نہیں۔ کیسی پکی ہے! پچھلی دفعہ جب دین محمد کا قصہ ہوا تو جب بھی چپکے سے خالہ کے ہاں بھاگ گئی۔۔۔ بھائی جان دونوں کو نکالنےکو کہتے تھے۔۔۔‘‘ بال جمانے کے لیے وہ اوپر سے مہین دانے کی کنگھی پھیرنےلگی۔
’’ہاں اور اس بیچارے کی اتنی سی تو تنخواہ ہے۔ بھیا جان پولیس میں دینے کو کہتے تھے اور دیکھ لینا اب کے وہ چھوڑنے والے نہیں۔ بہن حد ہوگئی، معلوم ہے ابا جان کا غصہ؟‘‘
’’تو آپا وہ پولیس میں دے دیں گے؟‘‘ سلمہ کی آواز بے قابو ہوگئی۔
’’اور نہیں تو پھر کیا؟‘‘
’’ڈرنےکی بات ہی کیا ہے۔۔۔ پولیس کسی کو نہیں چھوڑتی۔۔۔ وہ تمہیں یاد ہے نتھو کی بہو نے ہنسلی چرائی تھی۔ تو دونوں گئے تھے جیل خانے۔‘‘
’’ہتھکڑیاں ڈال کر لے جاتے ہیں۔۔۔ کیوں آپا؟‘‘
’’ہتھکڑیاں اور بیڑیاں۔‘‘
’’لوہے کی ہوتی ہیں نا۔‘‘
’’ہاں پکے فولادی لوہے کی۔‘‘
’’پھر کیسے اترتی ہوں گی۔ مرجاتے ہوں گے۔ تب ہی اترتی ہوں گی، کیاکرے گی بچاری رسولن۔‘‘
’’اور کیا بچاری۔۔۔ بھئی مذاق تھوڑی ہے۔۔۔ اور تم نےدیکھا اس نے گاڑا کس صفائی سے بچارے کو۔ ہمت تو دیکھو ہمیں بھی نہ بتایا۔ ارے اس نے تو کسی کو بتایا ہی نہیں۔‘‘
’’کیسی بے رحم ہے۔۔۔ ہا۔۔۔ بچارا بچہ۔۔۔ اس کا جی بھی نہ دکھا۔۔۔ ننھی سی جان۔‘‘
’’کیا مشکل سے جان نکلی ہوگی۔‘‘
’’مشکل سے کیا نکلی ہوگی۔ ایک انگلی کے اشارے سے بچارا ختم ہوگیا ہو گا۔‘‘
’’ذرا چلو اس سے پوچھیں کیسے مارا اس نے۔‘‘
دونوں ڈری سہمی آنکھ بچاتی تلوؤں سے جوتیاں چپکائے گودام کی طرف چلیں۔ جہاں اناج کی گول کے پاس ٹاٹ پر رسولن پڑی ہوئی تھی۔ پاس ہی دوتین ننھی ننھی چوہیاں گرا پڑا اناج اور مرچ کے دانے لینے ڈری ڈری گھوم رہی تھیں۔ دونوں کو دیکھ کر ایسے بھاگیں جیسے وہ مار ہی تو دیتیں۔ حالانکہ آنے والیوں کے دل چوہیوں سے بھی زیادہ بودے تھے۔ تھوڑی دیر تک وہ رسولن کے زرد چہرے اور پپڑائے ہوئے ہونٹوں کو دیکھتی رہیں۔ رسولن نوکرانی تھی پر وہ بچپن سے دوست ہی رہیں۔ اور ویسے تھوڑی بہت رسولن ہی مزے میں تھی، وہ پردہ نہیں کرتی تھی اور مزے سے دوپٹہ پھینک کر آم کے پیڑ تلے کودا کرتی۔ یہ دونوں جب سے ان کے ماموں رامپور سے آئے تھے پردہ میں رہتی تھیں اور گلاب ساگر والی نانی نے آکر سب کو موٹی کلف دار ململ کی اوڑھنیاں بنادی تھیں۔ اور باہر قدم رکھنا جرم تھا۔ یہ رسولن ہی تھی جو ان پر رحم کھاکر دوچار کویل ماری امیاں انھیں بھی کھڑکی سے دے دیتی تھی۔ جہاں وہ پرکٹے طوطوں کی طرح ٹکر ٹکر دیکھا کرتی تھیں اور ماموں کی مونچھ کی نوک بھی دکھ جائے تو وہ غڑاپ سے پیچھے کود پڑتی تھیں اور اب یہ رسولن پر بپتا پڑی تھی۔
’’رسولن۔۔۔ اے رسولن۔۔۔ کیا ہے جی؟‘‘
’’جی!‘‘ رسولن نے جیسے آہ کھینچ کر کہا، ’’اچھی ہی ہو نزہت بی۔‘‘
’’کیا بخار تیز ہے۔۔۔ اور درد اب بھی ہے یا گیا۔‘‘
’’ہاں نزہت بی۔ سلمہ بی۔۔۔‘‘
’’ارے بھئی پھر کچھ کرنا۔ کہہ دے ماں سے کہ حکیم صاحب کے یہاں سے لادے کوئی دوا۔۔۔‘‘
’’نہیں بی بی۔۔۔ مار ڈالے گی ماں تو۔۔۔ ویسے ہی غصہ رہتی ہے۔۔۔ اور اب تو اور بھی۔‘‘
’’ہا! غریب لڑکی۔۔۔ مرتی ہو تو کوئی دوا لاکر نہ دے۔۔۔ حد ہے ظلم کی!‘‘ سلمہ کی آنکھیں بھر آئیں۔
’’مگر کب تک چھپائے گی۔۔۔ مٹی بھی تو ٹھیک سے نہیں ڈالی تونے۔‘‘
’’کیا؟ تو کیا سب کو معلوم ہوگیا تھا!‘‘ رسولن او ربھی زرد پڑگئی۔ اس کے سرمئی گال مٹی کے رنگ کے ہوگئے۔
’’اب بس ہم سے مت بنو۔ ہمیں سب معلوم ہے۔ ہمیں کیا سب کو ہی معلوم ہے۔‘‘
’’ہیں؟۔۔۔ آپ کو۔۔۔ نزہت بی، آپ نے کہاں دیکھا‘‘، وہ لرز کر اٹھنے لگی۔
’’اور کیا ہمیں کل ہی معلوم ہوگیا تھا اور ہم پچھواڑے جاکر دیکھ آئے، میں اور سلمہ گئے تھے۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہم نے دیکھ لیا۔۔۔‘‘ سلمہ جلدی سے بولی کہ کہیں وہ پیچھے نہ رہ جائے اور رسولن سمجھے سب کچھ بس آپا ہی دیکھ سکتی ہیں۔
’’شی اتنی زور سے نہ بولو۔۔۔‘‘ دونوں خود ہی ڈر کر سمٹنے لگیں۔
’’ہم اور آپا کل گئے تھے شام کو۔ پھر ہم نے ڈھونڈا تو مہندی کے قریب ہمیں شبہ ہوا۔ پھر قمیص کاکونہ دکھائی دیا۔۔۔ جس کے چیتھڑوں میں لپیٹا ہے تو نے۔‘‘
’’ہاں دین محمد کی پھٹی ہوئی قمیص۔۔۔ اوہ میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔۔۔ بچارے کی گردن یوں۔۔۔ ٹیڑھی ہوگئی تھی۔۔۔‘‘ نزہت نے ذبح کی ہوئی مرغی کی طرح گردن اکڑائی۔
’’پھر۔۔۔ پھر سلمہ بی۔۔۔ پھر آپ نے کہہ دیا ہوگا سب سے۔۔۔ ہائے میرے مالک! میری ماں۔۔۔‘‘
’’ہم ایسے چھچورےنہیں ہیں رسولن۔۔۔ تیری شکایت کیسے کر دیتے۔۔۔ اور پھر جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ تو اکیلی ہی قصوروار نہیں۔۔۔ یہ دین محمد۔۔۔‘‘
’’اس بدذات کا میرے سامنے نام نہ لیجیے۔۔۔ بیوی۔۔۔‘‘
’’ہم تو کتنی دفعہ کہہ چکے تھے اس کتے سے نہ بولا کر ہمیشہ تجھے ذلیل کراتا ہے۔۔۔ مگر۔۔۔‘‘
’’اچھی بیوی اب مرودے سے بولوں تو رسولن نہیں، بھنگن کی جنی بس۔۔۔ تو اب آپ کہہ دیں گی سب سے اور جو سرکارکومعلوم ہوگیا تو خیر نہیں۔ ہائے میرے اللہ۔۔۔ میں تو مر ہی جاؤں۔۔۔‘‘
ایک تو اندھیرا اوپر سے نڈر چوہیاں پھر رسولن مرنے کی دھمکی دے۔ نزہت کی انگلیوں کے پورے ٹھنڈے پڑگئے اور سلمہ کی آنکھوں میں مرچیں مچنےلگیں۔
’’کیسی باتیں کرتی ہے رسولن!‘‘ سلمہ کی ناک بھی جل اٹھی۔
’’کیا کروں بیوی، جی کرتا ہے اپناگلا گھونٹ لوں۔‘‘ اور وہ جی چھوڑ کر سبکیاں لینے لگی۔
’’ہیں، ہیں رسولن! کیا باتیں منہ سے نکالتی ہو، خدا سب کا مددگار ہے وہ ہی سب کی مصیبت دور کرتا ہے،مجھے تو اس نامراد دین محمد پر غصہ آرہا ہے جیسے اس کا تو کچھ قصور نہیں۔۔۔‘‘ نزہت نے کہا۔
’’ہاں بھئی لڑکوں کو کون کچھ کہتا ہے۔ دین محمد کچھ بھی کردے، بھائی جان حمایتی، ابا جان طرفدار، اور بچاری رسولن! خیال سے ہی میرا کلیجہ کٹا جاتاہے۔ یاد ہے آپا پچھلی دفعہ کیسا غدر مچاتھا اور رسولن کی ماں بھی غریب کیا کرے۔ سچی کہتی ہیں امی لڑکیاں جنم سے کھوٹا نصیبا لے کر آتی ہیں۔‘‘
سلمہ کے گالوں پر سچ مچ آنسوؤں کی لکیریں بہنے لگیں۔ تینوں کے گلے بھر آئے اور نزہت کی ناک میں چیونٹیاں سی رینگنے لگیں، جانو کسی نے پانی چڑھادیا ہو۔ تینوں چوہیاں بھی شاید بھول سے مرچ کا دانہ چباگئیں، آنسو بھری غمگین آنکھوں سے، دور بیٹھی سبکیاں بھرا کیں۔ آنکھیں بھوری مونچھیں شدتِ اضطراب میں بھٹے کی بالوں کی طرح کانپ رہی تھیں۔
’’میری نزہت بی بتائیے اب میں کیا کروں۔ مجھے تو دادی بی کی پٹاری میں سے افیون لا دیجیے۔ سچ مچ کھاکر ہی سو رہوں‘‘، رسولن نچلا ہونٹ کاٹنے لگی۔
’’ہیں رسولن خودکشی حرام ہے۔ اب تو بات معلوم ہوتا ہے دب دبا گئی اور کسی کو پتہ بھی نہ چلے گااور تو اچھی ہوجائے گی‘‘، سلمہ بولی۔
’’کیا کروں گی اچھی ہوکر۔ اس رات دن کی جوتیوں سے تو موت اچھی!‘‘
’’مگر میں پوچھتی ہوں۔۔۔ یہ تو نےکیسے مارا۔۔۔ اے ہے ذرا سا تھا۔۔۔‘‘ نزہت کا آخر کو جی نہ مانا۔
’’میں نے؟ بی بی آپ۔۔۔ ہو ہو۔۔۔ ہو۔۔۔ ہو۔۔۔‘‘ رسولن بیمار کتیا کی طرح رونےلگی۔
’’چپ رہو آپا تم اور غریب کادل دکھا رہی ہو، چپ مت رو رسولن۔۔۔‘‘ سلمہ آگے کھسک آئی۔
’’چلو امی آرہی ہیں۔۔۔‘‘ نزہت اور سلمہ دروازے ے پیچھے دبک گئیں۔ امی لوٹا لیے نکلی چلی گئیں۔
’’ٹھہرو بیوی کہوگی تو نہیں کسی سے۔۔۔‘‘ رسولن نے گڑگڑاکر سلمہ کے پائنچے کی گوٹ پکڑی۔
’’نہیں۔۔۔ ارے چھوڑ۔۔۔ ارے۔۔۔‘‘ دونوں سکتہ میں رہ گئیں چوہیاں پیپوں کے پیچھے بھاگ گئیں۔
’’ہوں۔۔۔ تو یہ معاملہ ہے! اچھا کہوں گی امی سے۔۔۔ بھائی جان ا سٹک میں کڑوا تیل لگانے گودام میں آئے تھے۔
’’بھائی جان! انہوں نے ساری باتیں سن لیں۔ چپ رسولن۔ آپا چلو۔‘‘ دونوں دبک کر نکلنے لگیں، ایک نفرت سے بھائی جان کی ہاکی اسٹک کی گھورتی پرانے پلنگ کے بانوں میں بھاگ گئی۔
’’کیا آپ۔۔۔ اچھا تو یہ کہیے سازشیں ہو رہی ہیں۔۔۔ مگر میں نے سب سن لیا ہے۔ وہ دین محمد کی قمیض۔۔۔ مہندی کےنیچے۔۔۔‘‘ بھائی جان تیل کی تلاش میں پیپے ٹٹولنے لگے۔
’’تو۔۔۔ آپ تو۔۔۔ دیر سےکھڑے تھے۔۔۔؟‘‘ سلمہ نے چاہا اس کے چہرے کی سفیدی آنچل میں جذب ہوسکےتو کیا کہنے۔
’’اور کیا۔۔۔ برآمدے میں تھا میں۔۔۔ اب تم پکڑی گئیں۔۔۔ بتاؤ کیا سازش تھی؟‘‘
’’بھائی جان۔۔۔‘‘
’’کچھ نہیں سچ بتاؤ ورنہ ابھی امی سے جاکر کہتا ہوں۔۔۔ بولو کیا بات ہے۔۔۔‘‘
’’اچھے بھائی جان۔۔۔ دیکھیے غریب رسولن۔۔۔ ہائے اللہ۔۔۔‘‘ نزہت کا جی چاہا زور سے چنے کی گولی سے ماتھا پھوڑ ڈالے۔
’’یہ رسولن۔۔۔ سورنی ہے میرے سارے جوتے پلنگ کے نیچے بھردیتی ہے، اس چڑیل کو تو کھال کھچوادوں گا۔ ٹھہر جا۔۔۔ کیا گاڑ کر آئی ہے۔۔۔ شرطیکہ۔۔۔‘‘
’’نہیں بھائی جان۔۔۔ اچھا آپ قسم کھائیے کہ کہیں گے نہیں کسی سے۔۔۔‘‘ سلمہ نے بڑھ کر پیار سے بھائی جان کے گلے میں باہیں ڈال دیں۔
’’ہٹو۔۔۔ نہیں کھاتے ہم قسم۔۔۔ مت بتاؤ ہمیں ہم خود جانتے ہیں آج سےنہیں کئی دن سے۔۔۔‘‘
’’ہائے۔۔۔ میرے مولیٰ۔۔۔‘‘ رسولن اوندھی پڑ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
’’اچھے آپ ہمارا ہی مرا منہ دیکھیں جو کسی سے کہیں۔۔۔ سنیے ہم سب بتادیں گے۔۔۔‘‘ دوسری طرف سے نزہت نےگلا دابا۔
’’بات یہ ہے۔۔۔‘‘ اور کان میں سلمہ نے کھسر پسر کچھ بتانا شروع کیا۔
بولے۔ ’’ارے۔۔۔ کب۔۔۔‘‘ بھائی جان کی ناک پھڑکی اور بھویں ٹیڑھی میڑھی لہریں لینے لگیں۔
’’کل شام کو۔۔۔‘‘ نزہت نےہولے سے بتایا۔
’’ابا جان کلب گئے تھے اور امی سو رہی تھیں۔۔۔‘‘ سلمہ کے گلے میں سوکھا آٹا پھنسنے لگا۔
’’ہوں۔۔۔ پھر۔۔۔ اب کیا انہیں پتہ نہیں چل جائے گا۔۔۔‘‘ بھائی جان دونوں کو جھٹک کر بولے۔
’’مگر آپ۔۔۔ آپ نہ کہیے گا۔۔۔ آپ کو رضیہ آپا کی قسم۔۔۔‘‘ سلمہ نےکہا۔
’’رضیہ۔۔۔ رضیہ۔۔۔ ہیں! ہشت ہٹو۔۔۔ ہم کسی کی قسمیں نہیں کھایا کرتے۔۔۔‘‘ اور وہ ہاتھ جھٹکتے چلے۔۔۔ ’’ہم ضرور کہیں گے۔۔۔ واہ ہٹو ہم جارہے ہیں۔۔۔‘‘
’’آپا تم بھی کیا ہو۔۔۔ اتنی زور زور سے بولتی ہو کہ سب انہوں نے سن لیا۔۔۔‘‘ بھائی جان کے جانے کے بعد تو سلمہ کی آنکھیں آنسوؤں میں غرق ہوگئیں۔ ’’یہ بھائی کسی کے نہیں ہوتے۔ سوئٹر بنوائیں، بٹن ٹکوائیں، وقت بے وقت انڈے تلوائیں، روپیہ ادھار لے جائیں اور کبھی بھول کر بھی واپس نہ کریں۔ کیا مسکین صورت بنا لیتے ہیں۔ جانو بڑی مصیبت پڑی ہے۔‘‘
’’نزہت گڑیا ذرا ایک روپیہ ادھار دے دو، سچ کہتا ہوں کل ایک کے بدلے دو دے دوں گا۔۔۔ ہونھ، اور دگنے تو دگنےزرِ اصل ہی دے دیں تو بہت جانو۔۔۔‘‘ نزہت بالکل ہی بغاوت پر تل گئی۔
رسولن کی ماں روٹیوں کے لیے خشکی لینے آئی ہے۔ غریب کے سارے منہ پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں اور چہرے پر نفرت و غصہ برس رہا تھا۔
’’ارے رسولن کی ماں اس کا بخار نہیں اترتا۔ تم کچھ کرتی بھی نہیں۔۔۔‘‘ نزہت نے ڈانٹا۔
’’ارے بیٹا کیا کروں۔۔۔ حرام خور نےمجھے تو کہیں کا نہ رکھا۔ جہاں نوکری کی اسی کے گنوں سے نکالی گئی۔۔۔ گھڑی بھر کو چین نہیں۔‘‘
’’مگر رسولن کی ماں تم چاہو کہ وہ مرجائے تو دیکھ لینا تم بھی نہیں چھوٹو گی ہاں اور کیا۔۔۔‘‘
’’مرجائے تو پاپ ہی نہ کٹ جائے، کلموہی نے مجھے منہ دکھانے کا نہ رکھا۔۔۔ تھانے دارنی تو اب بھی مجھے رکھنے کو کہتی ہیں۔ پر اس کمینے کے مارے کہیں نہیں جاتی۔۔۔ جب دیکھو مجھے تو نصیبوں کا رونا ہے۔۔۔ جوان بیٹا چل دیا اور یہ ماری گئی رہ گئی میرے کلیجے پر مونگ دلنےکو۔۔۔‘‘
’’تو زہر دے دے نا مجھے۔۔۔ ہو۔۔۔ ہو۔۔۔ ہو۔۔۔‘‘ رسولن نے بے بسی سے رو کر کہا۔
’’ارے میں کیا دوں گی زہر،ان کرتوتوں سےدیکھ لیجیو جیل جائے گی اور وہیں سڑ سڑ کے مرے گی۔ لو اندھیر خدا کامجھ سے کہا تک نہ اس نے۔ ہٹو بی مجھے آٹا لینے دو۔‘‘
’’یہ کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔۔ سلمہ۔۔۔ نزہت! ہوں کتنی دفعہ کہا کہ شریف بیٹیاں رذالوں کے پاس نہیں اٹھتیں بیٹھتیں مگر نہیں سنتیں۔ جب دیکھو سر جوڑے باتیں ہو رہی ہیں۔ جب دیکھو دکھڑے روئے جارہے ہیں۔۔۔ چلو یہاں سے نکلو۔۔۔ اوئی اسے ہوا کیا جو لاش بنی پڑی ہیں بنو!‘‘
’’جی۔۔۔ جی۔۔۔ بیوی جی بخار ہے کمبخت کو۔۔۔‘‘ رسولن کی ماں جلدی جلدی آٹا چھاننے لگی۔
’’بخار تو نہیں معلوم ہوتا خاصہ طباق سا چہرہ رکھا ہے۔ یہ کیوں نہیں کہتیں کہ بنو۔۔۔‘‘
’’بیوی جی۔۔۔ یہ دیکھیے یہ۔۔۔‘‘ دین محمد بیچ میں چلایا۔۔۔
’’آپا۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ لے آیا۔۔۔‘‘ سلمہ نے جیسے قبر سے اکھیڑی لاش کو دیکھ کر بزدلی سے گھگیانا شروع کردیا اور نزہت سے لپٹ گئی۔
’’ارے کیا ہے؟‘‘
’’یہ۔۔۔ دیکھیے پچھواڑے مہندی کے تلے۔‘‘
’’ہے ہے۔۔۔ کمبخت۔۔۔ اوئی۔۔۔‘‘ اماں جان کے ہاتھ سے لوٹا چھوٹ پڑا، وہ مری ہوئی چوہیا تو دیکھ نہ سکتی تھیں۔۔۔‘‘
’’یہ۔۔۔ یہ اس نے رسولن نے بیوی جی۔۔۔ مہندی کے تلے گاڑا۔۔۔ دیکھیے۔۔۔‘‘ رسولن کاجی چاہا وہ بھی ننھی سی چوہیا ہوتی اور سٹ سے مٹکوں کے نیچے خلا میں جاچھپتی۔
’’چلے جھوٹے۔۔۔ کیسا بن رہا ہے۔۔۔ جیسے خود بڑا معصوم ہے۔۔۔‘‘ نزہت چلائی۔
’’تو کیا میں نےمارا ہے واہ صاحب واہ۔۔۔ واہ نزہت بی، اور پھر اپنی ہی قمیص میں لپیٹ دیتا کہ جھٹ پکڑا جاؤں۔۔۔ بیوی جی یہ رسولن نے گاڑا۔‘‘
’’چل نامراد تجھے کیسے معلوم میری بچی نے گاڑا ہے، تیری ماں بھینا نے گاڑا ہوگا لو! اور میری لونڈیا کے سر تھوپ رہا ہے، اس کا جی پرسوں سے اچھا نہیں ہے الگ پڑی ہے کوٹھری میں۔‘‘ رسولن کی ماں دھاڑی اور زور زور سے چلنی سے آٹا اڑانے لگی، تاکہ سب کے دم گھٹ جائیں اور بھاگ کھڑے ہوں۔ وہ اپنی پیٹھ سے رسولن کو چھپائے رہی۔ کہتے ہیں دائی نے اس کے گلے میں بانس گھنگول دیا تھا۔ جبھی تو ایسا چیختی تھی۔ محلہ کی زیادہ تر لڑائیاں وہ صرف اپنے گلے کے زور سے جیت جایا کرتی تھی۔
’’سرکار میں شرط بدتا ہوں۔ اسی کا کام ہے یہ۔۔۔ یہ دیکھیے میری قمیض بھی چراکر پھاڑ ڈالی، جانے دو سری آستین کہاں گئی‘‘، دین محمد بولا۔
’’حرام خور اسی کا نام لیے جاتا ہے، کہہ دیا پرسوں سے تو وہ پڑی مر رہی ہے۔ مرغیاں بھی میں نے بند کیں اور اپنے ہاتھ سے گودام کی جھاڑو نکالی۔ موا کام ہے کہ دم کو لگا ہے۔۔۔‘‘ رسولن۔۔۔ یاں جھوٹ سچ اڑانے لگیں۔
’’اسی لیے تو مکر کیے پڑی ہے ڈرکے مارے، ورنہ ہمیں کیا معلوم نہیں۔۔۔ اس کا مرض، چپکے سےگاڑ آئی کہ سرکار کو معلوم ہوگیا تو جان کی خیر نہیں۔‘‘ بیوی جی جوتیوں سے پانی ٹپکانے لگیں۔ ’’اس چڑیل سے تو میں تنگ آگئی ہوں۔ رسولن کی ماں یہ کیڑوں بھرا کباب میں گھڑی بھر نہیں رکھنےکی۔ لو بھلاغضب خدا کا ہے کہ نہیں۔‘‘
’’سور کہیں کا۔۔۔ یہ دین محمد۔۔۔‘‘ سلمہ بڑبڑائی۔
سلمہ نہ جانے کیا بڑبڑائی کہ اماں جان نے ڈانٹ بتائی۔
’’بس بی بس، تم نہ بولو کہہ دیا کنواریاں ہر بات میں ٹانگ نہیں اڑایا کرتیں۔۔۔ چلو یہاں سے تمہارا کچھ بیچ نہیں۔۔۔ رسولن کی ماں بس آج ہی اسے اس کی خالہ کے یہاں پہنچا، کتنا کہا، حرامخور کا بیاہ کردے کہ پاپ کٹے‘‘، بیوی جی بری طرح طعنے دینے لگیں۔
’’کہاں کردوں بیوی جی، آپ تو کہتی ہیں کہ چھوٹی ہے، سرکار کہتے ہیں ابھی نہ کر جیل ہوجائے گی اور میں تو موئی کی کردوں کوئی قبولے بھی، مجھے تو اس نے کہیں منہ دکھانے کا نہیں رکھا‘‘، رسولن کی ماں رو رو کر چھلنی جھاڑنے لگی۔
’’اری اور یہ مرا کیسے۔ رسولن ذرا سی جان کو تونے مسل کر رکھ دیا اور تیرا کلیجہ نہ دکھا۔‘‘
’’اونھ اونھ اونھ۔۔۔‘‘ بچاری رسولن کچھ بھی نہ بتاسکی۔
’’بن رہی ہے بیوی۔۔۔ بڑی ننھی سی ہے نا۔۔۔‘‘ دین محمد پھر ٹپکا۔
’’اوں اوں اللہ قسم بیوی جی۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ دین محمد۔‘‘
’’لگادے میرے سر۔۔۔ اللہ قسم بیوی جی یہ اسی کی حرکت ہے۔۔۔ جھوٹی۔۔۔‘‘
’’خدا کی مار تجھ پر، جھاڑو پیٹے ایک سال، میری لونڈیا کا نام لیے جاتا ہے۔ بڑا ساہوکار کا جنا آیا وہاں سے، ہر وقت میری لونڈیا کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔۔۔‘‘ رسولن کی ماں اپنی مخصوص چنگھاڑ میں پھٹ پڑی۔
’’بس بس جب تک بولتی نہیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔۔۔ تمہاری لونڈیا ہے بھی بڑی سیدانی۔۔۔‘‘
’’دیکھو دین محمد کی ماں، تمہارا کوئی بیچ میں نہیں۔ زمانہ بھر کا لچا موا۔۔۔‘‘
’’بیچ کیسے نہیں اور تمہاری لونڈیا۔۔۔ ابھی جو دھرکے سارے پول کھول دوں تو بغلیں جھانکتی پھرو، کہو کہ نوکر ہو کر نوکر کو اگاڑتی ہیں۔۔۔‘‘ رسولن کی ماں چنگھاڑ سکتی تھی تو دین محمد کی ماں کی نحیف مگر ایک لے کی آواز کانوں میں مسلسل پانی کی دھار کی طرح گر کر پتھر تک کو گھس ڈالتی تھی۔ چیں چیں چیں جب شروع ہوتی تھی تو معلوم ہوتا تھا،دنیا ایک پرانہ چرخہ بن گئی ہے۔ جس میں کبھی تیل نہیں دیا جاتا۔
’’آیا نگوڑا مارا کہیں سے۔۔۔‘‘ رسولن کی ماں دب نہیں رہی تھی۔ ذرا یونہی کچھ سوچ رہی تھی۔ ’’اور کیا ننھی بن کر میرے لونڈے کا نام لے رہی ہے جیسے ہم سے کچھ چھپا ہے۔ پچھلے جاڑوں میں بھی اسی نے ایسے ہی جھٹ پٹ کر دیا اور کانوں کان خبر نہ ہوئی اور تم خود چھپاگئیں۔ میرا لڑکا موی پر تھوکتا بھی نہیں۔‘‘
’’دیکھیے بیوی جی اب یہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں۔ موئی قصائن کہیں کی مارا چلو، اچھے چٹ پٹ کیا کوئی تمہارے خصم کا تھا۔۔۔‘‘
’’میرے تو نہیں ہاں تمہارے خصم کا تھا جو پوٹلی باندھ اندھ کوئیں میں جھونک آئیں اور لونڈیا کو جھٹ سے خالہ کے ہاں بھیج دیا۔ ذرا سی فتنی اور گن تو دیکھو۔۔۔‘‘ دین محمد کی ماں کی آواز لہرائی۔
’’بس جی بس یہ کنجر خانہ نہیں۔۔۔ نہ تمہارا خصم کا ،نہ ان کے خصم کا، چلو اپنا اپنا کام کرو۔۔۔ بھلا بتلاؤ سرکار کو پتا چلا تو۔۔۔ اللہ جانتا ہے، قیامت رکھی سمجھو۔۔۔ ٹانگ برابر کی چھوکری کیا مزے سے مار مور ٹھکانے لگادیا اور تھوپ بھی آئی۔۔۔ اندھیر ہے کہ نہیں۔۔۔ اے ہے چل ہٹ ادھر۔۔۔‘‘ بیوی جی جلدی سے لپکیں۔
’’کچھ نہیں ابا میاں یہ رسولن۔۔۔‘‘ بھائی جان ہاکی اسٹک پر اب تک تیل مل رہے تھے۔
’’اے چپ بھی رہ لڑکے، کچہری سےچلے آتے ہیں آتے ہی جھلا جائیں گے۔‘‘
’’یہ دیکھیے سرکار۔۔۔ یہ مار کر پچھواڑے گاڑ آئی۔۔۔ میں نے آج دیکھا۔۔۔‘‘
’’ارے۔۔۔ ادھر لانا۔۔۔ افوہ۔۔۔ یہ کس نے۔۔۔ مارا۔‘‘
’’سرکار رسولن نے۔۔۔ وہ اندر بنی ہوئی پڑی ہے۔‘‘
’’او مردے کیوں جھوٹے بہتان جوڑتا ہے، بجلی گرے تیری جان پر۔۔۔‘‘ رسولن کی ماں دانت پیستی جھپٹی۔
’’مردی ہوگی تیری چہیتی جس کے یہ کرتوت ہیں۔۔۔ لاڈو کے گن تو دیکھو۔۔۔‘‘
’’چپ رہو کیا بھٹیاریوں کی طرح چیخ رہی ہو۔۔۔‘‘ سرکار رعب سے غرائے اور سارے میں سناٹا چھا گیا۔۔۔ ’’ابھی پتہ چلاجاتا ہے۔ بلاؤ رسولن کو۔‘‘
’’سرکار۔۔۔ حضور۔۔۔‘‘ رسولن کی ماں لرزنے لگی۔
’’بلاؤ۔۔۔ باہر نکالو سب معلوم ہوجائے گا۔‘‘
’’سرکار، جی اچھانہیں نگوری کا۔۔۔‘‘ بیوی جی اٹھیں حمایت کرنے۔‘‘
’’جی وی سب اچھا ہے۔۔۔ بلاؤ اسے۔۔۔‘‘
’’رسولن، او رسولن۔۔۔ چل باہر سرکار بلاتے ہیں‘‘، دین محمد داروغہ کی طرح چلایا۔
رسولن گھٹی گھٹی آہیں بھرنےلگی۔ چیخیں روکنے میں اس کے ہونٹ پڑ پڑ بولنےلگے مگر حکم ِحاک مرگِ مفاجات، کراہتی سسکتی لڑکھڑاتی جیسے اب گرکر جان دی۔ نزہت نےلپک کر سہارا دیا۔۔۔ بخار سے پنڈا تپ رہاتھا اور منہ پر نام کو خون نہیں۔
’’بن رہی ہے سرکار۔۔۔‘‘ دین محمد اب بھی نہ پسیجا۔
’’ارے ادھر آ۔۔۔ ادھر، ہاں بتا۔۔۔ صاف صاف بتادے ورنہ بس۔۔۔ ‘‘
’’پولیس میں دے دیں گے سرکار۔۔۔‘‘ دین محمد ٹپکا۔۔۔ اور رسولن کی ماں نے ایک دو ہتڑ اس کی جھکی ہوئی کمر پر لگایا کہ اوندھے منہ گرا سرکار کے پاس۔
’’جو انامرگ تجھے ہیضہ سمیٹے۔۔۔‘‘ رسولن کی ٹانگیں لرز رہی تھیں۔۔۔ اور منہ سے بات نہیں نکلتی تھی۔
’’ہاں صاف بتادے ورنہ سچ کہتے ہیں ہم پولیس میں دے دیں گے۔۔۔‘‘ سرکار بولے۔
’’ہچکیوں کی وجہ سے رسولن بول بھی نہ سکی۔۔۔‘‘ رسولن کی ہچکی بندھ گئی۔
’’بیگم اسے پانی دو۔۔۔ ہاں اب بتا۔۔۔ کیسے مارا۔۔۔‘‘
’’پانی پی کر جی تھما ذرا‘‘، بڑی دیر تک پانی چڑھاتی رہی کہ جواب سے بچی رہے۔
’’ہاں بتا۔۔۔ جلدی بتا۔۔۔‘‘ سب نےکہا۔
’’سرکار۔۔۔‘‘
’’ہاں بتا۔۔۔‘‘
’’سرکار۔۔۔ اینھ۔۔۔ اینھ۔۔۔ ہو ہو۔۔۔ میں۔۔۔ میں میری سرکار میں ڈربہ۔۔۔ فر۔۔۔ ڈربہ بند کر رہی تھی۔۔۔ تو کالی مرغی بھاگی۔ میں نےجلدی سے دروازہ بھیڑا۔۔۔ تو۔۔۔ تو یہ پچ گیا۔۔۔ اوہ اوہ۔‘‘
’’سرکار بالکل جھوٹ یہ ایسی بری طرح مرغیوں کو ہکاتی ہے کہ کیا بتائے۔‘‘ دین محمد کہاں مانتا تھا۔ ’’منع کرتا ہوں کہ ہولے ہولے۔‘‘
’’چہ چہ چہ، کیا خوبصورت بچہ تھا۔ منارکہ کا تھا۔ ابھی آپ نے کانپور سے منگوایا تھا۔۔۔ ہاک۔ آج اسے رسولن کو کھانا مت دینا۔ یہی سزا ہے اس چڑیل کی۔۔۔ اور دین محمد، آج سے مرغیاں تو بندکیا کر، سنا۔‘‘
’’واہ واہ واہ نگوڑی میری لونڈیا کو ہلکان کردیا۔ صدقے کیا تھا نگوڑا بوٹی کا تکہ، ذرا سا مرغی کا بچہ اور اتنا شور، چل رہی چل۔ آج ہی مردار کو خالہ کے گھر پٹکوں، ایسی جگہ جھونکوں (دھپ! میں، رسولن کی آواز) کہ یاد ہی کرے، اجیرن کر دی میری زندگی۔۔۔ منہ کالا کروادیا۔۔۔‘‘
رسولن کی سسکیاں اور ماں کے کوسنے عرصہ دراز تک ہوا میں رقصاں رہے۔
مأخذ : ایک بات
مصنف:عصمت چغتائی