ہندوستان کی آزادی کا بگل بج چکا تھا۔ دنیا کے نقشے پر پاکستان نے جنم لیا تو تھا لیکن اس کے وجود میں آتے ہی فسادات کی ایک ایسی آگ بھڑک اٹھی تھی جس نے ملک کے تمام لیڈران کی نیند حرام کر کے رکھ دی تھی۔ ہندو پاک کی سرحد لہو کے دریا سے کھینچی جا رہی تھی۔ اتنی وحشت، اتنی بربادی اور اس قدر مارکاٹ کہ انسانیت لرز اٹھی۔ مذہبی جنون کا مارا انسان درندگی کی تمام حدود پار کر چکا تھا۔ انہیں خوفناک دنوں میں علی باقر اپنے دوست ٹھاکر وجے پال سنگھ کے گھر بخار میں پڑے تپ رہے تھے۔ علی باقر اسی شہر میں سرکاری ملازم تھے۔ بیوی بچّے میرٹھ میں رہتے تھے۔ سرکاری کوارٹر انہیں ملا ہوا تھا، لیکن تین چار دنوں پہلے وہ بیمار ہوئے تو وجے سنگھ انہیں اپنے گھر لے آئے۔ علی باقر اور وجے سنگھ کی دوستی بہت پرانی تھی۔ دونوں ساتھ ساتھ پلے بڑھے تھے۔ ان کی اس بے مثال دوستی کو سارامحلہ اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ اکثر وجے سنگھ کے گھر آتے بلکہ کھانا تو انہیں وجے سنگھ کے ساتھ ہی کھانا پڑتا ورنہ بھابھی روپ کنور خفا ہو جاتیں۔ بھابھی کے ہاتھ کی پکی گرما گرم مکئی کی روٹی، چنے اور سرسوں کا ساگ علی باقر کو بہت پسند تھا۔ کھانا کھا کر دونوں دوست باہر بیٹھک میں نکل جاتے اور پھر گھنٹوں شعر و ادب کی باتیں ہوتیں۔ ملک کے سیاسی حالات پر بحث ہوتی۔ ہندوستان افراتفری میں تو تھا ہی، انگریز ملک کے ٹکڑے کر کے ہی وطن سے باہر جائیں گے اس کا اندازہ بھی تھا لیکن حالات اتنے سنگین ہو جائیں گے یہ سوچنے والے شاید بہت کم لوگ تھے۔ ورنہ علی باقر بھی چار روز پہلے اپنے گھر میرٹھ چلے گئے ہوتے لیکن اب تو وہ پھنس چکے تھے۔ دو دن سے شہر بھر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا۔ جھگڑا شروع ہونے سے پہلے ہی ٹھاکر وجے سنگھ جلد آنے کا وعدہ کر کے کسی ضروری کام سے اپنے گائوں چلے گئے تھے۔ گھر میں ان کی بوڑھی ماں، بیوی اور دو بچّے تھے اور ایک بیمار علی باقر۔ یہ پورا محلّہ صرف ہندئوں کا تھا۔ زیادہ تر لوگوں کو معلوم تھا کہ علی باقر وجے سنگھ کے گھر میں موجود ہیں، رات گیارہ بجے کے قریب چاروں طرف سے شور و غل کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ لوگ ہاتھوں میں جلتی مشعلیں لیے جے بجرنگ بلی اور ہر ہر مہادیو کے نعرے لگاتے جلوس کی شکل میں محلے کے باہر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ جلوس ٹھاکر وجے سنگھ کے گھر کے قریب پہنچا تو کسی نے زور سے کہا پہلے اسے مارو۔ وجے سنگھ کے گھر میں مسلمان چھپا ہے۔ آنکھوں آنکھوں میں اشارے ہوئے۔ کچھ لوگوں نے روکنا چاہا مگر ہجوم کے آگے کسی کی نہ چلی۔ ہاتھوں میں بلم اور چاقو سنبھالے لوگوں کی ایک فوج نے وجے سنگھ کے گھر پر دھاوابول دیا۔
’’دروازہ کھولو وجے سنگھ، ہم آج ایک ایک سے حساب لیں گے۔ باقر کو باہر نکالو۔۔۔‘‘
’’دروازہ کھولو۔۔۔ نہیں تو دروازہ توڑ ڈالیں گے۔
علی باقر زرد پتے کی طرح لرز رہے تھے۔ موت بند دروازے کے پیچھے کھڑی تھی۔ روپ کنور کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ کیا لوگ میرے ہی گھر میں میرے ہی سامنے مار ڈالیں گے دیورجی کو۔ نہیں۔۔۔ میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی۔ میں اس دوستی پر آنچ نہیں آنے دے سکتی۔ ٹھکرائن ہوں میں بھی اور ٹھکرائن روپ کنور نے چارے کے ڈھیر میں رکّھا ہوا گنڈا سا اٹھا لیا۔ بھگوان کا نام لیا اور دروازہ کھول کر تن کر بیچ دروازے میں کھڑی ہوگئی۔
لمبی چوڑی جاٹ عورت ہاتھ میں گنڈا سا تھامے چنڈی دیوی کا روپ نظر آرہی تھی۔
’’کون ہے؟ کون کہتا ہے علی باقر کو باہر نکالنے کو سامنے آئے‘‘
ہم کہتے ہیں۔ ان مسلمانوں نے ہمارے دیش کے ٹکڑے کروا دیے۔ ہم انہیں معاف نہیں کر سکتے۔ پاکستان بن چکا ہے۔ اب جائیں یہ پاکستان۔ کیوں چھپے بیٹھے ہیں ہمارے ملک میں۔
علی باقر بھائی ہے میرا۔۔۔ یہ وطن چھوڑکر نہیں جائے گا۔
’’کیسے نہیں جائے گا بھابھی۔۔۔ ہم تو اسے ابھی پرلوک پہنچا دیتے ہیں‘‘ غصے میں پاگل نوجوان چلا اٹھے۔
’’تو ٹھیک ہے۔ یہ لوگنڈاسا۔۔۔ اور پہلے مجھے ختم کردو۔‘‘
’’تم راستے سے ہٹ جائو بھابھی۔‘‘
’’نہیں۔ میں نے اسے راکھی باندھی ہے۔ میں اپنے بھائی کو تم جانوروں کے حوالے نہیں کر سکتی، پہلے مجھے مارو۔ مارو، ڈرتے کیوں ہو۔ شرم نہیں آئے گی تمہیں ایک بیمار نہتّے پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے۔‘‘
’’بھابھی۔۔۔ ہمارے سینے میں آگ لگی ہے۔
’’آگ تو اس کے سینے میں بھی لگی۔ اس کا بھی ملک ہے یہ۔ اس کے ملک کا بھی بٹوارہ ہوا ہے۔ آزاد ہندوستان میں تمہاری طرح اسے بھی جینے کا حق ہے اور کان کھول کر سن لو! علی باقر تک تو میری لاش سے گذر کر ہی پہنچوگے تم۔‘‘ یہ کہتے کہتے روپ کنور نے گنڈا سا اٹھا کر اپنے اوپر وار کرنا چاہا۔
نہیں بھابھی۔ ایک لڑکے نے آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔ یہ مت کرو۔ مگر ہاں اس مسلمان کو اپنے گھر سے جلدہی نکال دو ورنہ اچھا نہیں ہوگا! ۔
یہ وہ لوگ تھے جو علی باقر کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کیا کرتے تھے۔ بحث کیا کرتے تھے۔ ایک ہی رات میں گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیا تھا انہوں نے۔
مجمع واپس لوٹ گیا۔ علی باقر کے کمزور ہاتھ دعا کے لیے اٹھے ہوئے تھے اور آنکھوں میں احسان مندی کے آنسو چھلک آئے تھے، ٹھاکر وجے سنگھ دوسرے دن واپس لوٹ آئے۔ انہوں نے سڑکوں پر، ریل گاڑیوں اور بسوں میں جو وحشت ناک مناظر دیکھے تھے، انہوں نے آنکھوں میں شدید کرب اور بے چینی پیدا کر دی تھی۔ وجے سنگھ نے فوج کی گاڑی میں راتوں رات علی باقر کو ان کے بچوں کے پاس میرٹھ پہنچوایا۔
لوگ دھڑا دھڑ پاکستان جارہے تھے۔ ریلوے اسٹیشنوں پر اسپیشل گاڑیاں مسافروں سے اٹی پڑی تھیں۔ چہروں کے رنگ اڑگئے تھے۔ علی باقر کے زیادہ تر رشتہ دار پاکستان جا چکے تھے مگر علی باقر کسی قیمت پر وطن چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ یہ ان کا اپنا وطن ہے۔ اس مٹی سے ان کا جنم جنم کا ناطہ ہے۔ اس سے بچھڑ کر وہ بھلا کیسے زندہ رہیں گے۔ یہ صرف وقتی جنون ہے ورنہ وجے سنگھ جیسے لوگوں کی ملک میں کمی نہیں۔
لہٰذا وہ پاکستان نہیں گئے۔ البتہ بمبئی جاکر ضرور بس گئے تھے۔ بزنس اچھا چل نکلا۔ بچے پڑھ لکھ کر جوان ہوئے۔ علی باقر اور کوئی نہیں میرے اپنے والد ہیں۔ ٹھاکر وجے سنگھ کا احسان ہمارا خاندان کبھی نہیں بھولا۔ ابا نے پچیس سال پہلے بزنس کے لیے بمبئی آنے کا فیصلہ کیا تو تایا وجے سنگھ بھی ہمارے ساتھ ہی بمبئی آگئے اور بزنس میں ابا کا ہاتھ بٹانے لگے۔ وہ ہمارے گھر کے ہی ایک فرد بن چکے تھے۔ ہم بچوں کے لیے وہ ایک چلتی پھرتی مٹھائی کی دکان تھے۔ گھر میں گھستے تو ہمیشہ مٹھائی کے ڈبے۔ ٹافیاں اور پھلوں سے لدے پھندے ہوتے۔ ہم چاروں طرف سے انہیں گھیر لیتے اور ہَو ہَو کر کے وہ بھاری بھرکم قہقہے لگایا کرتے۔ انہیں اردو اور فارسی بہت اچھی آتی تھی۔ شعروادب کا ذوق تایاجی نے ہی مجھ میں پیدا کیا۔ مگر تائی جی ہمیں بالکل یاد نہیں تھیں۔ بس ذکر ہی سنا کرتے تھے۔ کبھی اماں سے کبھی ابا سے اور کبھی تایا جی سے۔ تایا جی بمبئی میں ہوتے تو ان کا خوب ذکر کیا کرتے۔ تیری تائی جی ایسا کرتی ہیں۔ تیری تائی جی ویسا کرتی ہیں۔ بڑی بہادر ہیں تیری تائی جی۔ اکیلی رہتی ہیں۔ کچوڑیاں اور گلاب جامن بڑے بڑھیا بناتی ہیں تیری تائی جی۔ ایک خیالی خاکہ بچپن سے تائی جی کا ہمارے ذہن میں بن گیا تھا۔ وہ یوپی کے مظفرنگر شہر میں اپنے بچوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ تایا جی چند روز کے لئے تیسرے چوتھے مہینے وہاں چلے جایا کرتے لیکن ایک باروہ گئے تو پھر بمبئی لوٹ کر نہ آسکے۔ کسی بیماری نے ایسا دبوچا کہ جاں برنہ ہوئے۔ تائی جی بالکل اکیلی رہ گئیں اور آج ایک مدت کے بعد وہی تائی جی بمبئی آرہی تھیں۔ ایک تو ابا اماں کا بہت اصرار تھا، دوسرے ان کے بیٹے سندر کو بھی بمبئی میں کوئی ضروری کام نکل آیا تھا۔ تائی جی کے آنے کی خبر سے پورا گھر جیسے خوشی کے تال پر تھرک اٹھا تھا۔ ہمیشہ خاموشی اور سنجیدگی سے گھر کے کام میں مصروف رہنے والی اماں کے دودھیا دانت بار بار اپنی جھلک دکھا کر گھر میں اجالا بکھیرنے لگے۔ ابا کی آنکھوں سے بھی خوشی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ نتوگیسٹ روم کی صفائی میں جٹا پڑا تھا۔
تائی جی کو لینے ہم سب اسٹیشن پہنچے۔ لمبی چوڑی، گوری چٹی، سیدھے پلو کی سفید ساڑی باندھے ساٹھ پینسٹھ سال کی ایک خاتون ڈبے سے اتریں تو اماں بھابھی جی کہہ کر ان سے لپٹ گئیں۔ انہوں نے نازک سی اماں کو ننھی بچی کی طرح آغوش میں سمیٹ لیا۔ دونوں کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔ ابا کو بھی شاید تایا جی کی یاد آئی تھی۔ وہ اداس نظر آرہے تھے۔ تائی جی نے ان کے سر پر بھی ہاتھ پھیرا۔ ہمیں لپٹایا اور ہم سب گھر لوٹ آئے۔ تائی جی کے ساتھ ان کا بڑا بیٹا سندر بھی تھا۔ سندر نہ تو تائی جی کی طرح دل کھول کر ہم سے ملا تھا اور نہ ہی وہ ہمارے ساتھ خوش نظر آتا تھا۔ گم صم۔ اپنے ہی خیلات میں کھویا ہوا۔ کبھی کبھی وہ صبح سے شام تک گھر سے غائب رہتا۔ وہ ایک دوبار شیو سینا کے آفس کے قریب بھی نظر آیا تھا مجھے۔ مگر میں نے اسے اتفاق ہی سمجھا۔ تائی جی ایک ہفتہ کے لئے آئی تھیں۔ ایک ہفتہ تک ہمارے گھر میں گوشت نہیں پکا۔ کبھی دال کبھی سبزی، دہی اور پوری، کبھی تائی جی کے ہاتھ کی لذیذ کچوڑیاں کبھی گلاب جامن اور بیسن کے لڈو اور مٹری۔ ہم سب بہت خوش تھے۔ ایک ہفتہ کے بعد تائی جی مجھ سے دسمبر کی چھٹیوں میں آنے کا وعدہ لے کر مظفر نگر لوٹ گئیں۔
تائی جی کے خطوط برابر آتے رہے۔ ہر خط میں وہ ہمیں بلانے کا اصرار کرتیں۔ اتفاق سے دسمبر میں میرا وہاں جانے کا پروگرام بھی بن گیا۔ ایک انٹرویو دینے جانا تھا۔ ابا کی تاکید تھی کہ تائی جی کے گھر ہی ٹھہروں لیکن یہاں آکر احساس ہوا کہ فرقہ پرستی پورے یوپی میں شدت کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے لوگ ایک دوسرے کو شک کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ جگہ جگہ جلسے ہو رہے ہیں۔ جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ مجھے وحشت سی ہوئی۔
’’یہ سب کیا ہنگامہ ہے تائی جی؟‘‘
’’کچھ نہیں بیٹا۔ ووٹ کی راج نیتی ہے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
سندر کے رنگ ڈھنگ اس بار مجھے کچھ اور پر اسرار لگے۔ اس نے کبھی مسکرا کر مجھ سے بات نہیں کی۔ خفا خفا سا رہا۔ گھر میں تو وہ رہتا ہی نہیں تھا۔ اکثر دیر رات گئے ہاتھ میں کچھ پیکٹ سنبھالے اندر آتا اور تیزی سے اپنے کمرے میں جاکر کمرہ تیار کر لیتا۔ کھانا بھی بہت کم گھر میں کھاتا تھا۔ تائی جی پریشان تھیں۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ فرقہ پرستی کا زہر سندر گھونٹ گھونٹ کر کے پی رہا ہے۔ اکثر وہ اسے روکتیں، باہر جانے سے منع کرتیں لیکن وہ حقارت سے میری جانب دیکھتا۔ سرخ سرخ آنکھیں ماں پر ڈالتا اور تیزی سے باہر نکل جاتا۔
میں بمبئی واپس جانے والا تھا۔ حالات ٹھیک نہیں تھے۔ کب کیا ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا۔ ریڈیو، ٹی وی پر باربار گرماگرم خبریں نشر ہو رہی تھیں۔ اکثر رات کو تھالیاں پٹنے، شنکھ بجنے اور زور زور سے نعرے لگنے کی آوازیں آتیں۔ میں تائی جی سے واپس جانے کی اجازت لے چکا تھا۔ کافی رات میں سندر گھر آیا تو اس سے ملاقات کی غرض سے میں اس کے کمرے کی طرف گیا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے کچھ کاغذات چھپانے کی کوشش کی۔ میں نے اسے بتایا کہ میں کل صبح واپس جا رہا ہوں اور الوداع کہہ کر چلا آیا۔ رات کے پچھلے پہر کسی شور سے میری آنکھیں کھلی، میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھاباہر آنگن کی طرف بھاگا۔ وہاں ایک عجیب ہی منظر نظر آیا، تائی جی صدر دروازے پر ہاتھ میں پستول لئے چنڈی کے روپ میں کھڑی تھیں۔ صحن میں وہ کالا صندوق کھلا پڑا تھا۔ جو کل شام سندر اپنے ساتھ کہیں سے لایا تھا۔ صندوق میں طرح طرح کے ہتھیار، لوہے کے بڑے بڑے ترشول اور چھوٹے چھوٹے کئی بم رکھے تھے۔ یہ سمجھتے دیر نہ لگی کہ سندر کسی فرقہ پرست جماعت کا سرگرم رکن تھا جس کے ذمہ ہتھیار جمع کرنا اور لوگوں تک پہنچانا تھا۔
’’دیکھا اسد!‘‘ تائی جی مجھے دیکھتے ہی درد بھری آواز میں بولیں، ’’دیکھ رہے ہو تم۔۔۔ یہ میرا اپنا خون ہے، اس عورت کا خون جس نے اپنی جان پر کھیل کر تیرے باپ کی حفاظت کی تھی اور یہ پاپی بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنا چاہتا ہے۔ کل رات جب یہ بکس لے کر آیا تھا تب ہی مجھے شک ہوا تھا اور اب یہ چوروں کی طرح سامان لے کر گھر سے نکل رہا تھا۔ میں اسے کیسے جانے دیتی بھلا۔‘‘
’’اماں۔۔۔! مجھے جانے دے۔ میرا آج جانا بہت ضروری ہے۔‘‘ سندر نے تائی جی کے ہاتھ سے پستول جھپٹنے کی ناکام کوشش کی۔
’’نہیں سندر۔ اب تو میرے جیتے جی یہ سامان لے کر کہیں نہیں جا سکتا۔ میں تجھے اس قابل ہی نہیں چھوڑوں گی، میرے ہاتھ میں یہ بھرا ہوا پستول ہے۔ آج یا تو تو نہیں یا میں نہیں۔ دیش دروہی ہے تو۔ تجھ جیسے لوگ ہی دیش کے ٹکڑے کرواتے ہیں۔‘‘
آنگن میں پھیلی چاندنی اور بلب کی زرد روشنی میں تائی جی کا پر عزم چہرہ کندن کی طرح دمک رہا تھا۔ یہ اس بچی کھچی نسل کا چہرہ تھا جو سچ مچ وطن کو آزاد اور خوش حال دیکھنا چاہتی ہے۔
مصنف:آصف اظہار علی