کہانی کی کہانی:موت کے خوف کا سامنا کر رہے ایک ایسے شخص کی کہانی جسکی روحانی تبدیلی ہو جاتی ہے۔ اپنے طالب علمی کے زمانے میں وہ بہت ہونہار تھا۔ اس کے کئی دوست بھی تھے۔ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اس کا داخلہ میڈیکل کالج میں کرایا گیا ۔ اسے کہانی، ڈرامے اور کویتائیں لکھنے کا بھی شوق تھا۔ اس نے اسٹیج پر بھی اپنا ہاتھ آزمایا۔ ایک روز وہ بیمار پڑا اور اس کی بیماری مسلسل بڑھتی گئی۔ بیماری کے دوران اس نے زندگی، دنیا اور خدا کے بارے میں جو کچھ بھی محسوس کیا ان سب کو وہ اپنی ڈائری میں نوٹ کرتا رہا۔
’’خدا ایک حققت مطلق ہے اور ’’مطلقیت‘‘ کے لحاظ سے عبا و صواب کا تصور لایینے ہے۔ ‘‘بھلائی‘‘ اور ’’برائی‘‘ محض اضافی لفظ ہںا۔ مگر انسانتا کے لےک خدا اور کائنات کی اضافی حتائ ہی حققت کبریٰ ہے کوےنکہ ہم عرش کی سطح سے نہںا دیکھ سکتے اور خداکی طرح ’’محسوس‘‘ کرنے سے قاصر ہں ۔۔۔‘‘
یہ تھے وہ الفاظ جو مںق نے جاوید کے روزنامچے کے ایک صفحے پر پڑھے۔ مریا عزیز دوست جاوید عرصے سے بمائر چلا آتا تھا۔ آج مںں اس سے ملنے گاک تھا۔ اس کے سرہانے چند کتابں اور ایک کھلی ہوئی ڈائری رکھی ہوتی تھی۔ پاس ’’فاونٹنص پن‘‘ اس انداز سے پڑا تھا کہ اسے لکھتے لکھتے یوں ڈال دیا گااہو۔ جاوید سے باتں کرتے ہوئے مںی نے مندرجہ بالا تحریر پڑھ لی اور چونکہ ہم لوگ بے تکلف دوست تھے ۔ مںو نے ڈائری اٹھا کر پوری تحریر پڑھنی چاہی۔ مگر جب جاوید نے دیکھا کہ مںر اس کا روز نامچہ اٹھا کر پڑھنا چاہتاہوں تو اس نے ایک ہلکے شرملے پن سے یہ کہتے ہوئے ڈائری خود اٹھا لی کہ۔۔۔
’’بہت سی باتںی دل سے اییا کی جاتی ہں جن کے متحمل دوسرے لوگ نہںک ہو سکتے‘‘۔
مردے پندار کو ٹھسی لگی ، مں نے جواباً کہا۔
’’یا تم دوسروں کی نکتہ چوگر ں کے متحمل نہںً ہو سکتے‘‘۔
جاوید کے جذبات کو ایک ہلکی سی چوٹ آئی، اس نے منفعل ہو کر جواب دیا۔
’’ٹھک کہتے ہو ہم مںت سے بڑے سے بڑا صاف گو بھی اپنے مصلحانہ دعوئوں کے باوجود گاہے گاہے کہنے کے قابل باتوں کو بھی نہںھ کہہ سکتا۔ وہ سماج مںا انوکھے بننے کے ’’حاجتاستی‘‘ نتائج سے غرو ارادی طور پر کانپ اٹھتا ہے۔ اس کی یہ غرت شعوری جھجک خود حفاظتی کے لےڑ بروئے کار آتی ہے۔۔۔‘‘
’’تو کا‘ تم مجھے غر سمجھتے ہو؟‘‘ مںھ نے سوال کاس۔
’’نہںک‘‘ جاوید نے مجھے ڈائری دیتے ہوئے کہا۔روزنامچہ اٹھا لناا محض ایک فطری رد عمل تھا۔ یہ ایک ’’انعکاسی‘‘ حرکت تھی۔ جسےر تمہاری انگلومں کے قریب آنے سے پہلے مرمی پلکوں کا جھپک جانا‘‘۔
مںگ نے ڈائری لے کر ایک آدھ صفحہ پڑھا اور اس کے بعد جاوید خود مجھے جگہ جگہ سے سنانے لگا۔ اسے تسکن ہو رہی تھی۔ اس کی روح کا بوجھ ہلکا ہو رہا تھا۔ خاکلات و واردات کا بھی بوجھ ہوتا ہے۔ مندرجہ ذیل واقعات جاوید کی ڈائری سے ماخوذ ہںھ۔ مگر مں۔ پہلے آپ سے اس کا تعارف تو کرا دوں۔
جاوید ایک ذکی الحس شاعرتھا اور آغاز شباب مںج اسے مصوری کا شوق بھی رہا تھا اور کچھ دنوں تک ڈراما نگاری اور اداکاری سے بھی شغف تھا وہ اسکول اور کالج مںے نہایت ممتاز رہا۔ تقریر بھی اچھی کر سکتا تھا اور اس سلسلے مں اسے کئی تمغے بھی ملے تھے۔ یہ سب ایک بلند اور تخلییت فطرت کی سعی اظہار تھا۔ جاوید تربتاًت مذہبی تھا۔ اور فطرتاً اخلاقی۔ مذہب سے علمی واقفتو بھی رکھتاتھا۔ اس کی تعلم کچھ عجب طرح ہوئی تھی ۔ مٹرےک کے بعد دوسال سائنس کا طالب علم رہا اور اس کے بعد مڈتیکل کالج مںہ داخل ہوا۔ یوں تو وہ جنم کا روگی تھا۔ مگر یہاں اس پر سل کا حملہ ہوا۔ اسے تسر ے سال مںم آکرترک تعلمی کرنا پڑی۔ اس کے حوصلوں کو سخت دھکا لگا۔ مگر اس نے سپر نہں ڈالی۔ دو سال تک نرا دیہاتی بنا رہا۔ کھتے کھلا ن اور سرس و شکار بس یی اس کا مشغلہ تھا۔ اس کی صحت بحال ہو گئی اور اس نے مڈمیکل کالج کو چھوڑ کر بی۔اے مںا نام لکھا لا۔۔ اسی دور مںئ اس نے محبت کی اور اس سے محبت کی گئی۔ شاید یہ محبت ہی کا اعجاز تھا کہ وہ ایک خطرناک بماوری سے شفایاب ہو گاک۔ وہ کسی کے لےو زندہ رہنا چاہتاتھا۔ زندہ رہنے کی شدید خواہش اکثر ضامن حامت ثابت ہوتی ہے۔ بی۔اے کے دوسرے سال مںل اس کی شادی اپنی ’’پرستدکہ تمنا‘‘ سے ہو گئی۔ جس طرح زلزلے کی تباہ کاریوں کے بعدآفت رسداہ لوگ ازسرنو مکانات تعمر کرکے رس بس جاتے ہںل ویسے ہی جاوید بھی اپنے ارمان و تمنا کی سوکھی ہوئی بلوطں مں نئی کونپلںہ پھوٹتی ہوئی دیکھ رہا تھا۔ اس نے انگریزی ادب مںو آنرز کے ساتھ اعلیٰ نمبروں سے بی۔اے پاس کاک۔ مگر دوران امتحان مںئ اس پر اس کے پرانے مرض کا شدید حملہ ہوا اور جب نتجہں نکلا تو وہ اس حال مںد تھا کہ اس کی زندگی موت سے برسرپکاےر تھی۔
جاوید کو سناےٹوریم بھجب دیا گاو۔ حا ت کے لےھ انسان کو اکثر اپنے اوپر موت وارد کرنی پڑتی ہے۔ زندگی کی قمتی زندگی ہی ہے۔ سناہٹوریم ایک سطح مرتفع پر واقع تھا۔ زندگی کے ہنگاموں سے دور۔ تہذیب کی نبض یہاں دھیال محسوس ہوتی تھی۔ اونچے ٹلونں اور شاداب و ساکن جنگلوں کے درماعن اسپتال تھا۔ سب ودق کے مریضوں سے بھرا ہوا۔ جاوید کو ہلنے جلنے کی ممانعت تھی۔ وہ مہنواں اس طرح پڑا رہا ہے جسےڑ حنوط شدہ لاش۔ مگر وہ محسوس کرتا تھا اپنے دکھوں کو دوسرے کے دکھوں کو شکست تمنا کو مٹتی ہوئی صلاحتونں کو سسکتی ضائع ہوتی ہوئی زندگی کو، دم توڑتی ہوئی انسانت کو، اور وہ محسوس کرتا تھا تقدیر کو، اعمال کو اور خدا کو۔
جب اسے اٹھنے بٹھنےت کی اجازت ملی تو اس نے اپنی دکھی اور بماار زندگی کو کتابوں کے کھلونے دے کر بہلانا چاہا۔وہ پہلے بھی علم ہیئیت، علم کا ل ، حساب، علم الادویہ، تشریح ، حایتاات، افعال الاعضا، معاشا ت، اور ادب وا نتقاد کالجوں مںک پڑھ چکا تھا او ر شوقہ اس نے فلسفہ و نفسامت و مذہباات کا مطالعہ بھی کا، تھا۔ سنای ٹوریم مںو وہ ادباعت ، جنسارت اوراخلاقاکت سے الجھتا رہا۔ اس نے لننا کی سوانح حاوت بھی پڑھی۔ وہ کتابوں مںر سکون کی تلاش کرتا تھا۔ اور اسے ہجانن دماغ واضطراب دل حاصل ہوتا تھا۔ وہ جبر و قدر کی گھتیاں سلجھاتا،جزا و سزا کے متعلق رائے زنی کرتا، موت کے بعد آنے والی زندگی کے تصور مںا غرق رہتا، کبھی وہ جب انسانت کے نشہ مںت چور ہو جاتا اور انقلاب کا قرنا پھونکنا چاہتا اور کبھی وہ رومان کے رنگنس و خواب آسا جزیروں مںن کشتی ہلال پر سوار ہو کر جاتا اور وہاں شاہد ان ِ شمین کے مشک افشاں گسوائوں سے کھلتا ۔
پھر وہ دور آیا کہ جاوید نے ساری کتابوں کو یہ کہہ کر پرے پھنکن دیا کہ۔۔۔ ایں دفتر بے معنی غرق ِ مئے ناب ادلیٰ! اب اسے بری طرح زندگی کی محسوس حققتواں کی پارس تھی۔ اس کے اندر زندہ رہنے کی بے پناہ خواہش ابھر آئی۔ وہ چاہتا تھا کہ ہر لمحہ اپنے نفس کو ینتر دلائے کہ وہ زندہ ہے۔ وہ اپنی روح کو زندگی کا اتصال جسم و جان کا اپنے ہر عضو، اپنے ہر قولیٰ سے ثبوت دینا چاہتا تھا۔ اس کی صحت بھی ترقی کررہی تھی۔
صنف مقابل زنگار ہے ۔ جب یہ زنگار زندگی کے ششہع مںر لگ جاتا ہے۔ تو ہم اس مںا اپنی خودی کو دیکھتے ہں ۔ مرد اپنی خفی و جلی صلاحتودں کو اس وقت تک رُو در رُو نہںج دیکھ سکتا جب تک اسے اس نازک و سریع الحسن ’’برق پماا‘‘ کا توسط حاصل نہ ہو جائے۔جسے عورت کہتے ہں ۔ اور سنا ٹوریم مںت یہ صنف پائی جاتی تھی۔ نرسوں کی شکل مںح وہ نرم خو، ہمدرد، آغوش کشا دختران کلسات۔ کبھی جاوید کی پااری بوحی۔۔۔ اس کی چشم تصور کے سامنے انگشت انتباہ بن کر کھڑی ہو جاتی اور اسے جھرجھری سی آجاتی۔ مگر اس کے ساتھ کتنی محروما ں اور بدنصیبیاں وابستہ تھںت۔ اس کی بدقسمت شریک حاھت کی اور کنبہ والوں کی۔۔۔ جاوید ان باتوں کو بھول جانا چاہتا تھا۔ وہ شراب پی کر مدہوش ہو جانے کا آرزومند تھا۔ وہ ہر اس چزو سے بھاگنا چاہتا تھا جو اسے ’’عشرت نشہ‘‘ سے محروم کرکے ’’اذیت ٍ خمار‘‘ مںا مبتلا کر دے۔ ان ہی دنوں عدر آئی۔ مگر جاوید ہلال عدا سے آنکھںا چار کرنے سے ڈرتا تھا۔ اس کے تصور مںی ہلال عد اس لب کی طرح تھا جو طنز کرتے وقت کج وخمدارہو جاتا ہے۔
مگر کبھی ان خودفراموشومں کے درما ن گھر سے آیا ہوا کوئی خط کشدمہ کڑھے ہوئے رومال یا تکہے کے غلاف جاوید کے تخلگ کو ماضی کے حدود مںں دھکلک دیتے تھے اور شب کی تنہائورں مںر خاموش آنسوئوں کے موتی مقدس یادوں کے مندر پر چڑھاتا اور وہاں ایک دیوی محبت کی غمگیکو سے زیر لب مسکراتی ہوئی براجمان ہوتی۔ اس کے جذبات دیوی کے قدموں پر سجدہ ریز ہو جاتے اور پھر اسے خدا یاد آتا۔ رحم و قدرت کے عرش پر متمکن۔ وہ بتارب ہو کر دعائںی کرنے لگتا۔ نہںب معلوم کا کاد اس حالت مں اسے نند کی مہربان آغوش مں سکون، وقتی سکون حاصل ہو جاتا۔
جاوید ان ہی کااج ت مںب مبتلا تھا کہ اس کی بوای اس سے ملنے سنار ٹوریم آئی۔ وہ اس افوجنی کی طرح جسے پانی کے چھنٹو ں سے جگایا جائے۔ جاگا مگر ایک اعصابی کرب کے ساتھ۔ شاہنہں اس ویرانے مں مہنوکں ٹھہری ایک ٹوٹے پھوٹے سنسان مکان مںم ، جاوید اور شاہنہ روز ملتے تھے، شاہنہے جاوید کی گمراہوبں کے لےہ داروئے شفا بنکر آئی اور ییر وجہ تھی کہ وہ گاہے گاہے اس سے لڑ پڑتا تھا۔ اس مریض کی طرح جو زخم دھلنے کے وقت چختا ہے۔ شاہنہد نے اس یوگی کی طرح جو اپنی تپسای سے پرمشوسر کی دیا کو جتض لتا ہے۔ جاوید کی فریفتگیوں کو بھی ایک بار اپنے لےر مخصوص کرلاا۔ لق و دق صحرا مںے بھٹکتا ہوا مسافر جسےو قندیل رہبانی سے راہ پاجاتاہے۔ ویسے ہی جاوید شمع محبت کی روشنی سے ہدایت پا گای۔ مگر اس نور مںز زخمہائے حوادث زیادہ صاف طور پر دکھائی دینے لگے۔ وہ مغموم رہنے لگا۔ نو ر ں کے ساتھ ایک مقدس مغمومتہ لازمی ہے۔ اب وہ روبہ صحت ہو رہا تھا۔ سناد ٹوریم کی آب و ہوا اکثر مسحابئی کر جاتی ہے۔ اس پرمستزاد وقت کی پابندی مقوی غذا اور کافی سے زیادہ آرام۔ جاوید اب حقیاس زندگی اور فرائض کے بار کو اپنے تخلہ مںر تول رہا تھا۔ اُف فرض کا خاحل بھی کتنا وزنی ہوتا ہے۔ اور اگر فرض کے خادل کے ساتھ امد کی روشنی نہ ہوتی تو یہ کتنا روح فرسا ہو جاتا ہے؟
جاوید کے دل مں بھی امدف کی روشنی نہ تھی اور وہ قطعی مایوس بھی نہ تھا۔ بلکہ اس پر ایک بے حسی سی طاری رہتی تھی۔ مگریہ بے حسی ارادی تھی۔۔۔ دراصل اس کے نفس مںر ایک کشاکش تھی بمر و رجا کی۔ اس اذیت سے نجات حاصل کرنے کے لے اس کے نفس نے کروٹ لی۔ بے حسی کا خاتمہ ہوگای اور اب وہ ڈرامہ نگاری و اداکاری مںک غرق تھا۔ آرٹ کی تخلق یا تو وسعت و انبساط کے عالم میںہوتی ہے یا تحدیدو پابندی کی حالت مں وہ فطرتں جو ایک دنا سے سرک ہو جاتی ہںا دوسری دناے کی تخلقب کرتی ہں اوروہ فطرتںح بھی خالق ِ فن ہوتی ہںں جو اس دناے کی محروموصں سے تنگ آکر عالم نو کی تعمری پر مجبور ہوتی ہںئ۔ سناک ٹوریم مںٓ اور بھی چند نوجوان تھے جو کم و بشخ اسی طرح کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ایک مجلس ڈرامہ قائم ہو گئی اور خاص اہتمام کے ماتحت ڈرامے کھلےو جانے لگے۔ جاوید ناظم تھا، اداکار تھا اور ڈرامہ نویس ۔ نرسوں نے بھی ڈرامے کھلے اور اب وہ بمامرستان اپنی بشتر آبادی کے لے رومانستان تھا۔
شاہنہ اب واپس جا چکی تھی۔ اس کے جانے کے بعد جاوید پر افسردگی طاری رہنے لگی۔ وہ اپنی نئی مشغولتل مںر بھی شاہنہو کو بھول نہںح سکا۔ وہ بالکل صحت یاب ہو چکا تھا۔ موسم بھی اچھا تھا۔ لہذا جاوید سنارٹوریم کو خرتباد کہہ کر وطن روانہ ہو گا ۔
اب جاوید وطن مں تھا۔ ڈیڑھ سال کی غریب الوطنی کے بعد ایک فردوس معلوم ہو رہا تھا۔ جس کی بازیافت ہوئی ہو۔ اسے ایسا معلوم ہورہا تھا کہ وہ ڈیڑھ سال ایک خواب دیکھتارہا ہے، ایک ایسا خواب جس مں غمناکاہں زیادہ تھںھ اور مسرتںک کم۔ اسے وطن کا ذرّہ ذرّہ مہردر آغوش معلوم ہوتا تھا۔ اور وہ محسوس کرنا چاہتاتھا کہ وہ کبھی بمامر نہں تھا۔ اس کے لےا زندگی زیادہ روشن، زیادہ پرمعنی ہو گئی تھی۔ وہ ماضی و مستقبل کو بھول کر صرف ’’حال‘‘ کو دوام بخشنے کا آرزومند تھا۔ مگر آفتاب نصف النہار پر کبھی نہںد رہ سکتا۔ فریب خامل بھی حققتی کے سامنے بکھر جاتا ہے۔ جاوید کو کچھ دنوں کے بعد اپنی محروموشں اور حد بندیوں کا احساس بری طرح ہونے لگا۔ ’’تم مریض ہو! مریض ہو! دینا کی وسعتںو تمہارے لےر بندہںح، یہ عارضی صحت ہے، تم مریض ہو!‘‘ یہ آوازیں اس کے کان مںط آتں’۔ وہ پاگل ہو جاتا۔ ایک اضطراب، ایک ہجاکن، ایک شورش اس کے دماغ مںں پدرا ہوتی اور وہ چاہنے لگتا کہ ’’زمانہ‘‘ کے جگر کو چھدس کر رکھ دے، ماضی کے اثرات کو حرف غلط کی طرح مٹا دے اور تقدیر و خداوند تقدیر کو معطل کر دے وہ ان حدود کو بھی توڑدینا چاہتا تھا، جن کے اندر وہ معمولی حالت مںر رہنا پسند کرتا۔ بے عملی اس کے لےو ناممکن تھی۔ وہ مختلف مشاغل مںد منہمک رہنے لگا۔ اور رفتہ رفتہ اس کے دل مںا اعتماد پدما ہونا شروع ہوا۔ یہ امدا کا پشک خمہے ہے۔ اس سے قبل تو وہ امدت کرنے سے بھی ڈرتا تھا۔جسےی کوئی جو شش چشم کا مریض آفتاب کی کرنوں سے خوف کھائے۔ مگر جب آنکھںد اچھی ہونے کو آتی ہںا تو کمرے کی کھڑکاوں کھول دی جاتی ہںد۔ اور پھر سنہری دھوپ کی طلب ہوتی ہے۔ تقدیر جاوید کے ساتھ تھی۔ اور اس کی صحت بہت اچھی طرح قائم، اس کے دل کی کھڑکاںں بھی کھلنے لگںن۔ اور اس کے اندر امدپ کی کرنں داخل ہو رہی تھںا۔ جاوید اب آشا کی روشنی مں اپنی زندگی سدھارنے کا متمنی تھا۔
اس نے ایم ۔اے کی تااری شروع کردی اور شریک امتحان ہو کر نہایت شاندار طور پر ایم۔ اے پاس بھی کرلای۔ اس کے حوصلے بڑھے ہوئے تھے۔ اسے مداان عمل مل گا تھا اور مستقبل مںر نئی وسعتںق اس کی جولا نگاہ بننے والی تھںس۔ان دنوں وہ سرگرم عمل تھا۔ وہ علم و ادب کی خدمت مںے مشغول تھا اور معاش کی تلاش بھی کررہاتھا۔ آخرالذکر امر مںب اسے ناکامی ہوئی۔ بعض نوکریاں اسے اس لےھ نہں ملںھ کہ وہ سنائ ٹوریم سے واپس آیا ہوا مریض تھا۔ جاوید کی امدیوں کا طلسم ٹوٹنے لگا اوروہ کسی شکستہ کی طرح بے سہارا ہوجاتا، اگرادب کی جل پری اس کی محبوبہ نہ ہوتی۔
ابتلاء و آزمائش جاوید کے لےا مقدر تھی۔ وہ عروس ادب کے گسودئوں سے کھلل ہی رہا تھا کہ یک بکر اس پر وجع المفاصل کا شدید حملہ ہوا۔ درد اضطراب کے عذاب مںج وہ ایک ماہ تک مبتلارہا۔ جوڑ جوڑ مںو درد، بند بند مں سوزش۔ وہ بستر پر جنبش کرنے سے بھی قاصر تھا۔ وہ ’’دردہے جاں کے عوض ہر رگ و پے مںی ساری‘‘ کی تفسرس تھا۔دکھ بے کلی اور خوف اس پر ہر وقت طاری رہتے۔ موجودہ مرض کا عذاب اور گذشتہ بماوری کے اعادہ کا خوف جاوید کے لےا سوہان روح ہو رہا تھا۔ اسکے لے رات اور دن یکساں تھے کوقنکہ مارے درد کے سو نہںا سکتا تھا۔ بخار سے بھنا ہوا، زندگی کا ایک مکروہ سوانگ بنا وہ بستر پر سکڑا سکڑایا، کراہتا، چختا پڑا رہتا، بے آس، مضطرب، مضمحل وہ گھلتا جارہا تھا۔ جلتا جارہا تھا، فنا ہو رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کی ہستی ایک دردناک کراہ بن کر فضا مںت گم ہو جائے گی۔ اس کا چہرہ بعض اوقات شدید طور پر مشتمل نظر آتا۔ اس کی مٹھامں بھنچ جاتںا۔ اوروہ غرس واضح طور پر بڑبڑاتا ہوا سنائی دیتا۔
شاہنہ ایک وفا سرشت ہستی تھی۔ اس کا دل یکسر سوزو گداز تھا۔ محبت کرنے کے بعد اس کے اندر ایک خاص نوع کی الوہت۔ پدےا ہو گئی تھی۔ اور ییہ اس کی مصبتوڑں مںد کام آئی۔ شادی نام تھا اس کے لےا ابتدائے آلام کا۔ لکنک دکھوں کو اس نے ایک تاےگی کی طرح برداشت کا ۔ وہ سنا۔ ٹوریم کے ویرانوں مںض مہنوبں جاوید کے لے جوگن بنی رہی۔ اور اب بھی وہ زاہد شب زندہ دار کی طرح اس کی خدمت مںو مشغول تھی۔ لکن جاوید گاہے گاہے شاہنہو کی خدمتوں سے چڑجاتا۔ وہ چاہتا تھا کہ شاہنہ اییم نہ ہوتی۔
ایک ماہ کی اذیتوں کے بعد جاوید اچھا ہونے لگا۔ صحت اور بماگری کے درمادن کا عرصہ بھی کافی وسعک تھا۔ وہ بہت لاغر ہو گاغ، زندگی کی دشواریوں کامقابلہ کرنے سے زیادہ عاجز۔ وہ ابھر رہا تھا کہ اسے پھر مٹایا گال۔ اس کے دل مںا ایک خاموش خلفشار اٹھ رہا تھا۔ وہ اپنی روح پر مذہب و اخلاق کے بندھنوں کو کمزور پارہاتھا۔ وہ ایک بے امدر بے مستقبل انسان تھا، تقدیر کے تلوں کا شکار، امدا نہ ہو تو ایمان کی بقامعلوم۔ اس کے سامنے کوئی مقصد نہ تھا، اس کے اعمال کے پچھے کوئی خاص ارادہ نہ تھا۔ وہ ڈانوا ڈول ہو رہا تھا۔ بغرےکسی تمنا کے بغر کسی خوف کے ۔ وہ خدا کو بھول جانا چاہتا کوصنکہ خدا کو برا کہنے کی ہمت نہںہ رکھتا تھا۔ لکنا بعض اوقات اس کی مذہبتک ابھر کر اس کے نفس کو فرض کی طرف متوجہ کرنا چاہتی۔ پھر ایک تارییک پد ا ہوتی اور اس کی روح پر چھا جاتی۔ اس تارییی مںہ سے کوئی کہتا ہوا سنائی دیتا کہ’’ اعمال کی سزا صرف اس لےن ہے کہ انسان صاحبِ ارادہ ہستی ہے۔ مگر ’’ارادہ‘‘ خدا تو نہںر کہ بغرح سبب کے پد ا ہوجائے۔ ’’ارادہ‘‘ خود خدا ہے تو نتجہن ایک ہی ہوا۔ ’’ارادہ‘‘ نفس کی ایک کتحب ہے اور یہ کتر اندرونی کا ک وی اور برقی تغریات نزص بررونی تحریکات کا نتجہی ہوتی ہے۔ ناقابل تسخر غر شعوری قوتوں کے سامنے ارادہ کی بے بسی روز مرہ کا مشاہدہ و تجربہ ہے۔
ارادہ ہمارے افعال و اعمال پر بلکہ سچ تو یہ ہے کہ خود ارادہ نفس تحت الشعور کا غلام ہے اور اس تحت الشعوری قوت کی تخلقب زمانہ اور ماحول کرتا ہے‘‘۔ اس آواز پر جاوید زیادہ کان دھرتا ، ان ہی دنوں اس نے ساوسابت اور اشتراکتی کا مطالعہ شروع کا‘۔ اس کے لکھے ہوئے افسانوں مںق زندگی کی تلخ حقیقیتں زیادہ نظر آنے لگں ۔ باوجود مجبوری و معذوری پر ایمان لانے کے وہ سارے نظام سے بغاوت کرنی چاہتا تھا۔ اور خدا سے بھی۔ مگر آخرالذکر امر کی اس مںر تاب نہ تھی۔ اس پر اس دور مںف اوربھی مصائب آئے اور بکاتری کی مصبت و لعنت ان پر مستزاد۔ جاوید کا خاندان معاشی تنگی مںا مبتلا ہورہا تھا۔ ان ہی پریشانوںں مںج اس کی صحت خراب ہوتی گئی۔ڈاکٹروں نے اسے تبدیی آب و ہوا کا مشورہ دیا اور وہ تنہا ایک صحت افراء مقام کو چلا گاک۔ روپے کی تنگی کے سبب وہ ایک نہایت ہی معمولی مکان مںد ٹھہرا۔ وہ مسکن مکان سے زیادہ ایک جھونپڑا تھا۔
جاوید کی زندگی ان دنوں ایک سادھو کی سی بسر ہورہی تھی۔ وہ اپنی کٹا سے باہر اگر نکلتا بھی تھا تو جنگل کے متصل مدبان مں اوررات کو آسمان کی چھت کے نچےا کھاٹ پر پڑارہتا۔ اس کا ایک وفادار مقامی ملازم اس کے پاس سوتا تھا۔ ماحول کا اثر طبعت پر بہت پڑتا ہے۔ فضا کی معصومتل جاوید کی روح مں سرایت کررہی تھی۔ وہ اپنے اندر ایک پاکزپگی محسوس کرتاتھا۔ اور اپنے نفس مں تامگ کی کتون کو بداار ہوتا ہوا پاتا تھا۔ وہ مقام آبادی سے بہت دور تھا، ہر طرف فطری مناظر تھے۔ اور کھتونں کا ابدی سکون۔ فطرت کی آغوش مںم ، جاوید ماں کی محبت کی قسم کا ایک روحانی فضو کا تجربہ کررہا تھا۔ اس کے ذہنی و روحانی زخم مندمل ہورہے تھے۔ حاات کی کامرانووں اور ناکاموسں کو وہ یکساں ’’مایا‘‘ سمجھنے لگا تھا۔ یہ احساس اسے وجدانی طور پر ہوا۔ اور اسے ایک روحانی بصروت بخش گاو اور ایک آسمانی مسرت۔مئی کی ایک گرم دوپہر کو جاوید اپنے جھونپڑے مںھ تنہا لٹا ہوا تھا۔ یک بک اس کے دل پر رقت طاری ہوئی اور وہ رونے لگا اورخوب رویا پھر وہ اٹھا اور خداکے آگے سجدہ ریز ہو گاح۔ عرصہ سے اس نے نمازیں ترک کر دی تھںہ۔ اب وہ نہایت خلوص سے قائم الصلوٰۃ ہو گاو۔ یہ قابل رشک زندگی بسر کرنی چاہتا تھا کہ شاہنہک اور جاوید کے چند عزیز گھر سے آئے۔ جاوید کو گھر تبدیل کرنا پڑا۔ وہ پہلے تو بہت خوش ہوا لکنۃ کچھ عرصے کے بعد اس نے محسوس کار کہ اس کا سکون مٹتا جارہا ہے۔ دنای پھر اس کے پاس آگئی تھی۔ اور جاویدکے لےو دناش کے پاس کاب تھا، محرومی، پستی اور بما۔ری!
دوسرے مکان مںد جا کر جاوید کی رگ مقابلہ پھڑک اٹھی۔ وہ دناا کی ہر شے سے مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔ اور زندگی کے اصول و ضوابط مں ایک اییڑ تبدیی کا آرزومند تھا جس مںد اس کے لےق کوئی جگہ ہو۔ وہ موت و حا ت کے آئنق کو یکسر بدل دینا چاہتا تھا۔ اس کا نتجہھ یہ ہوا کہ وہ شاہنہ سے اور اپنے اعزاء سے بات بات پر الجھنے لگا۔ جا و بے جا اسے جوش آجایا کرتا۔ اس کی روح آثار حاوت کی سرخی و رونق کو قریب پا کر آمادئہ پکاںر تھی۔ دناہ اس کے لےا خطرے کا نشان تھی۔
جاوید صرف ایک دو ماہ کے لےج برائے تبدیل آب و ہوا اس جگہ آیا تھا۔ مگر اسے یہاں چار ماہ رہنا پڑا۔ وہ یہاں صحت کی ترقی کے لےہ آیا تھا مگر اسے حرارت رہنے لگی۔ ڈاکٹروں کو باعث حرارت کا پتہ نہ چلا۔ کبھی سل کے زخموں کے ہرا ہوجانے کا شبہ ہوتا۔ اور کبھی وجع المفاصل کی تحریک کا طبی مشورے کے ماتحت اسے زیادہ وقت پلنگ پر گزارنا پڑتا۔ سرے کی اسے مطلقاً اجازت نہ تھی۔
دوائں بھی بے اثر ثابت ہو رہی تھںے۔ جاوید نہایت صبر و ضبط سے اس سزا کو برداشت کررہا تھا۔ اس کے اعزاء واپس چلے گئے تھے۔ صرف شاہنہی رہ گئی تھی۔ وہ اکثر شاہنہث سے بزھار رہتا۔ اور نوبت لڑائی تک پہنچ جاتی۔مگر وہ ان دنوں خداسے بز ار نہ تھا۔ وہ صبر و رضا کی تصویر بننی چاہتا تھا۔ وہ اپنے دل کے اندر اٹھتے ہوئے سلاوب کوروکنا چاہتا تھا اورروک رہا تھا۔ سلاہب کی راہ مںچ رکاوٹ شدید کف پدےا کردیی ہے۔ جاود کا مزاج کف آلود ہو رہا تھا۔ اس کی فطرت کی سطح پر سنجدتگی خشونت، طنز اور استہزاء کا کف اٹھتا رہتا تھا۔ شاہنہک رنجدکہ تھی کہ جاوید اس سے بہمالنہ برتاؤ کوکں کررہا ہے۔ اسے توقع نہ تھی کہ وہ ایسا بے درد ہو جائے گا۔ مگر وہ ایساہو گاک تھا۔ اس کی فطرت کی لطافت اس طرح غائب تھی جسےج جٹھ کے مہنہا مں کھتواں سے سبزی مفقود ہو جاتی ہے۔ شاہنہ۔ رونے لگتی۔ جاوید بہت دیر تک بے حسی سے اس کے رونے کو دیکھتا رہتا اورکچھ تلخ و تند باتںا کہہ دیتا۔ شاہنہس ایک آئنہف تھی جس مںہ جاوید اپنی بے دست و پائی، دست نگری، نکھٹو پنی کی شبہا دیکھتا تھا اور جھلا کر اس ششہھ ہی تو ڑ دیتا تھا جس مں اییت بڑی مشکل نظر آتی تھی۔ یہ آئنہے اس کی خودی کا منہ چڑا رہا تھا۔
اسی طرح مہنےت گذر رہے تھے۔ برسات آئی اور وہ ساری سطح مرتفع دیوانہ وار چلنے والی سرد تند ہوائوں کی بازی گاہ بن گئی۔ ایک روز زوروں کی بارش ہوئی۔ جھڑی تو بہت دنوں سے لگی ہوئی تھی۔ ہر طرف نمی تھی۔ فضا ابر آلود ہو رہی تھی۔ بارش جو ذرہ تھمی تو جاوید قریب کی بیتی کی طرف چل دیا۔ ایک ہفتہ عشرے سے اسے ٹہلنے پھرنے کی اجازت مل گئی تھی۔ وہ روبہ صحت تھا۔ ان دنوں اس پرا یک مذہبی کتتھ طاری تھی۔ وہ مقامی جنگلی اقوام کے افراد کو مذہب کی تبلغھ کرنے گاؤں گام تھا۔ راہ مںب اسے بارش نے آلآ اور واپسی کے وقت وہ بھیگتا ہوا آیا۔ دوسرے روز اس نے تمام جوڑوں مںی درد محسوس کاہاور پھر اسے شدید بخارآگاگ۔ وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گاد۔ اسی بخار و درد کی حالت مںو دست بدست دیگرے و پا بدست دیگرے وہ وطن کو لوٹ آیا۔ اور شہر کے جنرل اسپتال مںا داخل ہو گال۔ وہ کفر رضاو صبر کی حالت مںس ان اللہ مع الصابرین کی لذت کو محسوس کررہاتھا اور اپنے اندر ایک بالداگی پارہاتھا۔ ہر چند کہ وہ اسپتال مںگ تھا پھر بھی وہ خوش تھا۔ اور اس کا غم ہلکا ہوتا رہتا تھا۔ دو روز کے بعد اس کا بخار اتر گات تھا اور درد رفع ہو چکا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ ایک دو ہفتہ مںت وہ اچھا ہو جائے گا اور آزادی سے ہرجگہ آسکے گا۔
ٹھکر چودھویں روز اس نے پھر جوڑوں مںھ درد محسوس کا اور اسے حرارت ہوگئی۔ ڈاکٹر آیا اور اس نے دل کا معائنہ خاص طور پر کار۔ ’’درجہ حرارت زائل ہونے کے بد بستر پر تن ماہ کامل آرام‘‘ ڈاکٹر نے سنہی پر سے اسٹریتھیسکوپ اٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’کل سے وجع امفاصل کا انجکشن لنار شروع کرو‘‘۔ ڈاکٹر چلا گاا۔ اور جاوید پر بجلی سی گری۔ اس نے اپنے چند دوستوں سے جو مڈ’یکل کالج مںا اس کے ہم جماعت تھے اور اب ڈاکٹر ہو چکے تھے پوری کتن دریافت کی۔ ہرچند کہ ان لوگوں نے اسے بہت تسکنہ دی مگروہ اتنا تو سمجھ گا کہ وجع المفاصل کے مزمن ہو جانے سے اس کے قلب کی پہلی حرکت کمزور ہو گئی ہے۔ اور عضوی اختلال کا خوف ہے۔ اس پر سکتہ طاری ہو گا ۔ اس کا دماغ کچھ سوچنے سے ڈرتا اور اس کا دل محسوس کرنے کے فرض سے گریز کرتا تھا اور آنکھںا آنسو بہانے سے قاصر تھںک۔ دن بھر وہ اسی حالت مں پڑا رہا رات کو مریضوں کی کراہوں کے درمانن جاگتا رہا۔ صبح کو آفتاب نکل رہا تھا۔ مگر اس کی زندگی کے لے کوئی روشنی نہںد تیر۔ اسے اپنی علالت کے سات طویل سال ایک تاریک رات کی طرح محسوس ہو رہے تھے جس مںی کبھی کبھی بجلااں کوندی تھںد۔ اسے دو ایک قدم آگے بڑھانے کلئے اس کے انجام کی طرف اور وہ انجام اب آگای تھا۔۔۔ زندگی شکن عمقس غار! موت کا خاجل آتے ہی اس کے سارے جسم مں ایک خوفناک جھرجھری دوڑ گئی۔ کوئی سہارا نہںہ!کوئی آسرا نہں۔‘‘۔ اور اگر وہ زندہ بھی رہا تو ایک مجہول، اپاہج، دکھی زندگی بسرکرنے کے لے ۔ اس کی صلاحںرجھ فنا کی جائں گی۔اسے سسک سسک کرکراہتے ہوئے بماوری کی قدیمںو دم توڑنا ہوگا۔ یہ صبرو ضبط، یہ ہمت اور ارادے، یہ استقلال و امدو سب لاحاصل! اسپتال میںاس کے چاروں طرف زندگی کاشورتھا۔ مگرروگی جوون کا ، دکھی زندگی کا، ’’سارکوما‘‘ کے مریض گھل گھل کرمررہے تھے، ہر طرف دردو زخم تھا۔ ہر سو آہ و بکا تھی۔ اس کے پلنگ کے سامنے ایک نمونہو کا روگی تنا روز سے حالت نزع مںت تڑپ رہا تھا۔ موت کا وحشاگنہ رقص اور اس کے دلدوز قہقہے فضا پر چھائے ہوئے تھے۔ حاکت سسک رہی تھی۔ درماندگی و ہلاکت کے پنجے پھلےر ہوئے تھے اور مسرت منہ چھپا کر گریہ کناں تھی۔ جاوید اسی طرح موت کی بازیگاہ مںن ایک ماہ پڑا رہا۔ اس کا مرض کابوس کے بھوت کی طرح اس کے سنہ پر سوار تھا۔اس روح فرسا ماحول سے اکتا کر جاوید اپنے ایک عزیز کے مکان مںو منتقل ہو گا،۔ جس روز وہ جارہا تھا ایک سگ گزیدہ اسٹریچر پر اس کے وارڈ مںر لایا گاک ۔ اس کا آخری وقت تھا وہ وہںو زمنے پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر سر دھن دھن کے اور اپنے جسم کو ناخنوں اوردانتوں سے مجروح کرتے ہوئے مرگاو۔ جاوید کی روح پچک و تاب کھانے لگی۔ اور اس نے زیر لب کہا ’’انتقال روح کا کتنا رحماھنہ طریقہ‘‘ ایک بدقسمت بندہ اپنے آقا سے بزرار تھا۔جس مکان مںم اب جاوید تھا۔ وہںا شاہنہ بھی تھی۔ ان دنوں وہ شاہنہ کونہایت ہی ترحم کی نظر سے دیکھنے لگا۔ شاہنہز توسربسرگریہ تھی۔ اس کی نمازیں ایک طویل فریادہوتی تھںک۔ جاوید مںا ایک خاص قسم کی تبدیی پدوا ہوگئی جسے وہ محسوس کرتی تھی۔ جب کبھی بھی جاوید کودردکی ٹسا اٹھتی اس کاچہرہ غضی و غضب سے تمتما اٹھتا۔ مگر اس کے لب خاموش رہتے۔ ایک اندرونی جذبہ اس کی روح کو کھارہا تھا۔ اگر اس کی ڈائری نہ ہوتی تو اس جذبہ کی حققتب سے کون واقف ہوسکتا تھا سوائے اس کے جس کے خلاف یہ تھا۔
’’انسانوں کی یہ وسعا آبادی ایک وحوش خانہ ہے۔ جہاں جانور صرف اس لےی رکھے جاتے ہں کہ انہںک ’’تماشا گاہ‘‘ مںف ایک دوسرے کو خون پلوا کر ہلاک کا جائے۔ قا صرہ روم خدا کے نقال تھے۔ خورد بیکم، ادنیٰ و اعلیٰ جانور اور انسان اس ’’تماشا گائہ ہستی‘‘ مں ایک دوسرے سے جنگ کرکے خدا کے لےا تفریح کا سامان مہاخ کرتے، اور اپنے لےح موت کماتے ہں ۔ ان کی پراخت بھی صرف اسی لےی کی جاتی ہے۔ یہ امراض کے حملے اورجرم کشی، یہ شکارذبح اورجانوروں کا انسانوں کو کاٹنا اور پھاڑ کھانا۔ یہ وطنی قتال حق و باطل کی آویزشںا، یہ رنگ و نسل کے جھگڑے سب خونںر تماشے ہںہ جن کی کل خدا کے ہاتھ مںر ہے۔ اور آخرت! کون جانے جسے مذہب ’’خرنکل‘‘ سمجھتا ہے وہ ’’شر ِ کل‘‘ ہو اوراجر غرس ممنون محض وعدئہ فردا!‘‘ یہ ہں جاوید کی ڈائری کے الفاظ۔ معاذاللہ!
اس کی روح اس کے جسم سے زیادہ بماخرتھی!
ایک روز جاوید کو جوڑوں مںر شدید درداٹھا۔ اس کی گردن مارے درد کے تڑخ رہی تھی۔ بخار بھی تھا۔ شاہنہ اسے منہ دھلانے آئی اوراسے کروٹ پھرانے لگی۔ جاوید کی گردن مںک ٹس اٹھ رہی تھی۔وہ کروٹ پھر نے سے عاجز تھا۔ جب بھی گردن کوجنبش دیتا رگ اور پٹھے مںغ ٹپک پدٹا ہو جاتی۔ یک بکس اسکی رگںک تن گئںھ اورچہرہ پر گرم خون تزری سے دوڑ گاے۔ اس نااپنی گردن کو جھٹکتے ہوئے کروٹ پھرم لی اوربولا ’’اف خدا!‘‘ ییت جملہ بہت دنوں سے اس کے قلب مںڑ گھٹ رہاتھا۔ اسے جرأت اظہار نہ تھی۔ اعلان کفربھی شہادت ایمان کی طرح ہمت طلب ہے۔ شاہنہر حرتت و غم کے سمندر مںک ڈوب رہی تھی۔ وہ خاموش تھی۔ مگر اس کی آنکھںہ مسترحمانہ انداز مںح کہہ رہی تھں ’’جاوید!‘‘
پہلے تو جاوید کی خودی کوتسکنٹ ہوئی۔ لکنش کچھ دنوں کے بعد وہ ایسامحسوس کررہا تھا کہ اس نے ایک چٹان کوسرکا تودیا مگر وہ چٹان اس کے سرپر آگئی اوراسے پسےو ڈالتی ہے۔ اس پرایک پسپا سپردگی اورایک مظلومانہ بے توجہی کی کترہ طاری رہی اورشاہنہ ! وہ کانپ رہی تھی۔ گھلی جارہی تھی اور اس کی دعائں زیادہ گریہ در آغوش ہو گئی تھںو۔ جاوید کو بستر سے اٹھنے تک کی اجازت نہ تھی۔ بستر ہی اس کی ساری کائنات تھی۔ اوروہ کیے تاریک تھی! وہ اپنے چاروں طرف ایک خلد محسوس کررہا تھا۔ ایک لامتناہی خلد۔ اس کے دل مںک بھی ایک خلد تھا۔ خارجی خلد سے زیادہ ہیبتناک، زیادہ باقابل فہم ، زیادہ بے معنی۔ اس کے لےم زندگی کا کوئی اثباتی مقصد نہں تھا بے کفھ لاحاصل، رائگااں زندگی!کوئی ہاتھ اس کے دل کو تسکنپ دینے والا، کوئی لب اس کی روح کو محبت کا پغاےم پہنچانے والا نہ تھا۔ ہر طرف ایک مہب اور بھاینک خاموشی تھی۔ ہر سو سرد مہری۔ جاوید ایک مجہول، بھائںی بھائں کرتی ہوئی تارییم مںن غرق تھا۔ زندگی سے زیادہ تلخ اورموت سے زیادہ خوفناک تاریی ۔ وہ اس بے پایاں، ابدی تارییگ مںم دھنسا جارہا تھا۔ اور تاریاےئں اس پر گھری ہوئی جاتی تھںگ۔
شاہنہ ان تاریو قں کو دیکھ رہی تھی اور لرز جاتی تھی۔ وہ جاوید کے جسم و روح کی نجات کی متمنی تھی ، درد انگزر شدت کے ساتھ مگر وہ مجبور تھی، یکسر مجبور! ایک روز وہ دعاو عبادت سے فارغ ہو کر جاوید کے سرہانے آکر بٹھر گئی۔ اس کے چہرہ پر ایک قدوسی نور تھا۔ اور اس کی آنکھںی امد کی تابانی سے چمک رہی تھںق۔ اس نے محبت و شرفییو کے ساتھ جاوید سے کہا، ’’آپ کب تک اپنے مالک سے روٹھے رہں گے؟‘‘ جاوید کو ایسا معلوم ہوا کہ یہ خود خدا کی آواز تھی۔ جو اسے پکار رہی تھی۔ اس نے اپنے قلب مں اس کی بازگشت سنی۔۔۔’’آپ کب تک اپنے مالک سے روٹھے رہںد گے‘‘۔ محبت کی ایک پکار کے ساتھ جامد خاموشایں مٹ چکی تھںب۔ تاریی چھٹ رہی تھی۔ اور وہ اپنے اندر اور باہر نور کی فاتح کرنوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی روح خدا کی پکار کا جواب دینا چاہتی تھی۔ لکنن نہںک دے سکتی تھی۔ اس کے حلق مںو دعائںہ اٹک رہی تھی۔ اور اس کی پلکوں پر آنسو تل رہے تھے۔ شاہنہا بولی، ’’دعا کجئے ! مریی خاطر دعا کجئےم! !‘‘ جاوید پھوٹ پھوٹ کررونے لگااور اس کے لب ہل رہے تھے۔ مہر ٹوٹ چکی تھی، برف پگھل چکی تھی! جاوید و شاہنہم دونوں رو رہے تھے ۔ اور دعا و التجاکے اتہزاز سے ان کے لب کانپ رہے تھے۔ شاہنہٹ نے جاوید کے سر کو اپنی آغوش مںھ لے لاھ۔ اور جاوید کا ہاتھ اس کی گردن مںو حمائل تھا۔
اور خدا کی محبت کا ہاتھ ان پر سکون کی بارش کر رہا تھا۔
مأخذ : کتاب : لوح (Pg. 43) Author : ممتاز احمد شیخ مطبع : رہبر پبلشر، اردو بازار، کراچی (2017) اشاعت : Jun-December
مصنف:اختر اورینوی