ایک ایسا زمانہ آیا جب تمام کائنات پر عقل و شعور کی حکومت کار فرما ہو گئی اور جذبات یکسر معدوم ہو گئے۔ اس کی تفصیل یوں ہے:
جب سماج اور قدرت پر انسان نے ایسا تسلط حاصل کر لیا کہ نظام معاشی میں کسی قسم کا خلل پیدا نہ ہو سکے اور حیات و ممات کے مسائل بھی تجربہ گاہوں میں حل ہو گئے تو سب کو یقین ہو گیا کہ اب دنیا میں امن و امان ہو جائے گا۔ مگر اس پیکر خاکی کو کیا کہیئے کہ ہر قسم کا اطمینان ہونے کے بعد بھی وہ کسی نہ کسی انتشار کی فکر میں رہا کرتا تھا۔ اسے ہیجان و ہنگامہ کے بغیر چین نہ ملتا تھا اور تہذیب اور تمدن کے عروج پر پہنچ جانے کے باوجود اس کی رگ بربریت اکثر زندہ ہو جاتی تھی۔
اس غیرعقلی رویہ کے سد باب کے لئے سیاستدانوں اور سائنس دانوں کا ایک کمیشن مقرر کیا گیا۔ سالہا سال تک زندہ اور مردہ انسانوں کے قالب زیر تفتیش رہے۔ مختلف شعاعوں اور آلوں سے ان کے جسم کا ہرعضلہ اور ہر خانہ چھانا گیا۔ دماغ و دل پر ہر قسم کی کیفیت طاری کر کے اس کے اثر کو تصویروں میں محفوظ کر لیا گیا۔ نفسیات کے پنڈتوں نے مہینوں ان کی ایک ایک حرکت کا مطالعہ کیا اور آخر کارجملہ علوم کے ماہروں کے مشورے سے ایک نہایت ہی دلچسپ رپورٹ مرتب ہوئی۔
معلوم یہ ہوا کہ پورے جسم میں صرف ایک رگ ایسی ہے جو دماغ کے خانہ شعور کے احکام سے آزاد ہے۔ جب تک اسے بے حس نہ کیا جائے انسان کی زندگی کسی نہ کسی حد تک لا محالہ غیرعقلی جذبات کی مطیع رہےگی۔ یہ رگ کیا ہے۔ نہایت ہی نازک برقی احساسات کا ایک سلسلہ ہے جو دماغ کے خانۂ حس اور دل کے عضلۂ جذبات سے لے کر کمر کے نیچے تک پھیلا ہوا ہے۔ اسے ہر وہ چیز چھیڑ سکتی ہے جو شہوت اور جنس کا کوئی بھی عقلی یا نقلی تصور پیش کرتی ہو۔ مثلاً کئی مرتبہ ہیجان پیما آلوں نے یہ بتایا کہ جیسے ہی ایک سریلا راگ شروع ہوا، اس رگ میں سنسنی پیدا ہونے لگی۔ اگر یہ راگ کسی عورت نے گایا تو یہ رگ ایک تھر تھرائی ہوئی ٹہنی کی طرح پیچ کھانے لگی گویا وہ مغنی کے گلے سے لپٹنا چاہتی ہے۔ راگ کے فضا میں گم ہو جانے کے بعد بھی وہ دیر تک اشتعال کے عالم میں رہی لیکن اگر کہیں سے عبادت کی آواز آئی تو وہ رگ یوں ڈھیلی اور سست ہو گئی جیسے کسی نے اس کا رس چوس لیا ہو۔ وہ ایک روندی ہوئی بیل کی طرح بے حرکت ہو گئی۔ اسی طرح آکر آنکھوں کے آگے کوئی حسین مجسمہ آیا۔ وہ جو تاروں سے دھلی ہوئی رات کی طرح سبک و سیمیں ہوتا ہے، تو یہ رگ دیوانہ وار رقص کرنے لگی اور چوٹ کھائے سانپ کی طرح تڑپنے لگی۔
حیاتیات کے ماہروں نے بڑے غور وخوص کے بعد طے کیا کہ یہ رگ صرف اس وقت مردہ ہو سکتی ہےجب دنیا میں کوئی عورت نہ رہے اور اس کے ساتھ آرٹ کا نام و نشان بھی مٹ جائے کیونکہ جب تک یہ دونوں باقی ہیں یہ عقل و شعور کی دشمن رگ بھی زندہ ہے۔ اس کے رہتے جذبات و ہیجانات کا زندہ رہنا لازمی ہے۔
سیالوں کی تجاویز ناممکن العمل نہ تھیں۔ عورتوں نے پہلے ہی حل کے مصائب برداشت کرنے سے انکار کر دیا تھا اور تجربہ گاہوں میں نہایت آسانی سے بچے تیار ہونے لگے تھے۔ سرخ و سفید جیسے دو مختلف نلیوں میں محفوظ رہتے تھے۔ تعین آبادی کے دفتر کو جتنی عورتوں اور مردوں کی ضرورت ہوتی وہ آناً فاناً ان سے تیار ہو جاتے تھے۔
اب عاقلوں نے ایک ایسی شعاع ایجاد کی جس نے تمام زنانہ جسیموں کو جلا ڈالا۔ مرد کے وہ تمام اعصاب فنا کر دیئے گئے جن سے جذبات کو فروغ ہو سکتا تھا۔ ایک ایسا آلہ بنایا گیا جو بچے کے سانس لیتے ہی بتلا دیتا تھا کہ اس میں کوئی فنی حس ہے یا نہیں۔ اس کے ساتھ عورت کے تصور کو بے رنگ و بو کرنے کی ہر ممکن تدبیر کی جانے لگی۔ لغت میں گناہ کا لفظ داخل کر دیا گیا۔ بچوں کو ڈرانے کے لئے عورت کا ہوٓا تراشا گیا اور کتب و رسائل کا بہت بڑا ذخیرہ صرف یہ ثابت کرنے کے لئے شائع کیا گیا کہ مرد کے تمام مصائب کا سبب اول عورت اور اس کی موہنی ہے۔
غرض یہ کہ رفتہ رفتہ عورت بھی پری کی مانند عنقا ہو گئی۔ ایک جوان اور حسین عورت کی ممی یروشلم کے ایک باغ میں شیشے کے تابوت میں رکھ دی گئی تاکہ آنے والی نسلیں اس غارت گر حیوان کی مشابہت کا اندازہ کر سکیں۔ یہ تابوت جس مقبرہ میں رکھا تھا۔ اس کے پیش دروازے پر ایک کتبہ نصب تھا، ’’یہاں گناہ دفن ہے۔‘‘
یہ نہ پوچھیئے کہ فن کاروں پر کیا بیتی۔ مولویوں اور پادریوں کا گروہ ایک نئی شکل میں نمودار ہوا۔ اس نے کہا کہ گناہ سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا گناہ پرستی سے اور یہ سب فنکار گناہ پرست ہیں۔
مغنیوں کو بطور سزا کارخانوں میں کام کرنے کے لئے بھیج دیا گیا۔ جہاں مشینوں کے شور وغوغا نے کان کے نازک پردوں کو بیکار کر دیا اور ان کے گلوں میں ایسے سفوف ڈال دیئے گئے جن سے آواز میں کوئی گن باقی نہ رہا۔ مصوروں کو قابو میں لانے کے لئے رنگ سازی قانوناً ممنوع قرار دی گئی مگر غریب شاعر کا انجام ان سب سے زیادہ عبرت ناک تھا۔ اسے ان تجربہ گاہوں کا مدد گار مقرر کیا گیا جہاں دلوں اور پھولوں کو چاک کر کے ان کا تجزیہ کیا جاتا تھا۔
غرض یہ کہ تھوڑے ہی دنوں میں حکومت کو اپنے مقصد میں کامیابی ہو گئی اور عورت کے ساتھ فن کا نام بھی دنیا سے اٹھ گیا۔
عقل و شعور کی دست رس سے باہر بحرہند کے ایک گمنام گوشہ میں چٹانوں کا ایک سلسلہ تھا۔ سیاہ روائے آپ میں سنگ سفید کی دیوار اس مردود فرشتہ کی طرح تھی جو نیکوکاروں کے میلے میں گناہ کا لبادہ اوڑھ کر گھس آیا ہو۔
وہاں کے غاروں میں چار جاندار رہتے تھے۔ ایک شاعر دوسرا بت تراش، تیسرا مغنی اور چوتھا مجذوب، دنیا میں زن دفن پر تجدید عائد ہوتے ہی یہ چار یار ہندوستان سے بھاگ کر اس جزیرے میں آ چھپے تھے اور ایک عرصہ سے یہیں اقامت گزیدہ تھے۔
بہت دنوں تک وہ ہنسی خوشی سے زندگی گزارتے رہے۔ جب شاعروں درختوں کے جھرمٹ میں لیٹ کر لہروں سے ہمہ تن گوش ہوتا بت تراش منہ بند سنگ ریزوں میں نقش و نگار بنانے میں مصروف ہوتا اور مغنی اپنا رباب اٹھا کر اس فضا میں تلاطم برپا کر دیتا جس پر عقل کے گھوڑے دوڑ رہے تھے، تو مجذوب یا تو جال لئے مچھلیاں پکڑنے چلا جاتا اور یا تیر کمان سے پرندوں کا شکار کیا کرتا۔
ان کے ولولوں کو زندہ رکھنے کے لئے وافر سامان موجود تھا، سورج کا سمندر سے نہا کر نکلنا اور پھر اس میں ہی غرق ہو جانا، پرندوں کا صبح سویرے یوں نغمہ ریز ہونا گویا صرف انہیں ہی طلوع آفتاب کی خبر ہے اور ایک ایک قطرہ کا مل کر لہر، لہر سے بھنور اور بھنور سے مدو جزر کی شکل اختیار کر لینا، بے رنگ مٹی سے گل ہائے رنگا رنگ کا کھلنا۔ تتلیوں کا انہیں اذن دینا اور پھر دونوں کا ورق ورق ہوا میں بکھر جانا۔ یہ چیزیں ایسی نہ تھیں جو ان کے تخیل کو حسین و رنگین نہ بنا سکتیں۔
ابتدا میں تو وہ اپنے تصویر میں عورت کی تصویر بنا سکتے تھے۔ کئی سال تک بت تراش عورت کے مجسمے بناتا رہا۔ شاعر اس کے تاثرات کو نظم کرتا رہا اور مغنی اس کی جدائی کے نغمے گاتا رہا۔ ایسے موقعوں پرآسمان سے ایک نہ ایک ستارہ ٹوٹ کر گر پڑتا تھا اور فلکیات کے استاد چیخ اٹھتے تھے کہ دنیا میں کہیں نہ کہیں محبت کا جذبہ پوشیدہ ہے۔
لیکن زیادہ عرصہ تک یہ ولولہ باقی نہ رہا۔ ان کے ذہن سے عورت کے خط و خال محو ہونے لگے۔ پہلے تو اس کا تبسم مبہم سا ہونے لگا اور بعد میں اس کی نگاہوں کی وہ ادا جو عالم بیداری میں خوابوں کی دنیا بساتی اجاڑتی ہے۔ فراموش ہونے لگی۔ اس کے جسم کے ارد گرد جو ایک الہامی ہالہ سا ہوتا ہے۔ مٹ گیا اور آخر ایک دن ایسا آیا جب عورت ان کے لئے اڑتے ہوئے بادل کی پر چھائیں ہو گئی۔
ماہ و سال ماضی کی راہ پر گرد کی طرح اڑتے گئے اور بڑھاپے میں انہیں یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ اپنی منزل کی راہ بھول گئے ہیں۔ بت تراش بےجان چیزوں کے مجسمے اب بھی حسن و خوبی سے بنا لیتا تھا مگر جب وہ کسی جاندار کا بت بنانا چاہتا تو اس کے ہاتھ میں رعشہ آ جاتا تھا۔ مغنی کے نغموں کی افسردگی اب بےکیف ہو گئی تھی اور شاعر کے جذبات سرد ہو تے جاتے تھے۔
انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ایک مرتبہ اس خوبصورت ممی کو دیکھ لیں جو یروشلم میں رکھی ہوئی ہے ممکن ہے کہ وہ نظارہ از سر نو تخیل کو جوان کر دے اور مرتے مرتے پھر ایک بار زندگی کی لو کو دم بھر کے لئے اکسا دے۔
انہوں نے جو کشتی بنائی وہ بہت کمزور تھی اور جو پتوار لی وہ بھی خستہ و خراب تھی مگر کشتی خود بخود بحرروم کی طرف بہتی چلی گئی گویا کوئی مقناطیس اسے اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔
جب وہ یروشلم میں داخل ہوئے تو رات ابھی ایک پہر گزری تھی لیکن سڑکوں پر بالکل سناٹا ہو چکا تھا، کیونکہ عاقلوں کی دنیا میں نہ چور تھے نہ پہرے دار، نہ کتے تھے اور نہ موذن۔ خواب آور گیس کی ایک چادر تھی جو آبادی کا حلقہ کئے ہوئے تھی اور اس سے بچ کر نکلنے میں ان چاروں کو دقت پیش آئی۔
وہ مقبرہ ایک باغ کے اندر پھیکی چاندنی میں دور سے جھلملا رہا تھا۔ اس کے صحن میں شیشے کا ایک تابوت رکھا ہوا تھا جس کی کل کیفیت وہ دیکھ سکتے تھے کیونکہ لاش پر جو کیمیائی روغن لگائے گئے تھے، ان سے ہلکی سی ملگجی روشنی نکل رہی تھی، ویسی ہی جیسی جاڑے کی چاندنی میں ہوتی ہے۔
انہوں نے دیکھا کہ عورت کا برہنہ جسم ساکت و بے حرکت پڑا ہوتا ہے۔ وہ برہنگی کے معصوم لباس میں بےرنگ قوس قزح کی طرح بے جان پڑی ہوئی ہے۔ دیر تک وہ سکتہ کے عالم میں اس تابوت کے آگے کھڑے رہے جس میں گناہ کے ساتھ انسان کی تمنا، اس کی مایوسی اور اس کی امید، اس کے خواب اور اس کے تخیل دفن تھے۔
بالآخر مجذوب نے کہا، ’’آؤ ہم حسن و عشق کے اس قالب میں پھر سے روح پھونکیں۔ آؤایک بار جنون کی پوری قوت سے اس کا شانہ ہلاکر کہیں کہ اٹھ ایک مرتبہ پھر اضطرار و انتظار کی راگنی سنا کہ دنیا پر جمود کا عالم طاری ہے۔ پھر ہمیں وہ جذبہ دے کہ زندگی میں کوئی فریب پیدا کریں، وہ فریب جسے ہم مقصد یا ایمان کے نام سے یاد کریں اور ہمارے سارے علم کو اپنے ایک جنون نواز تبسم کے صدقے میں واپس لے لے۔‘‘
یہ کہہ کر مجذوب نے اس تابوت کو چکنا چور کر دیا اور عورت اپنے اصلی روپ میں پھر دعوت نظارہ دینے لگی۔ لیکن نہ تو اسے کوئی دیکھنے والا تھا اور نہ وہ زندہ تھی۔
شاعر نے مجذوب کا ہاتھ تھام لیا اور کہا،’’نہیں، یہ عورت مردہ ہے اسے ہم زندہ نہ کریں گے۔ ہم خالق ہیں۔ مسیحا بننے کی کوشش کیوں کریں۔ ہم ایک نئی عورت کی تخلیق کریں گے۔ یہ عورت آب و گل سے بنی تھی اور اس کا نفس آتشیں تھا۔ یہ پانی کی طرح بہتی تھی، آگ کی طرح جلتی تھی اور مٹی کی طرح ہر شئے اپنے میں ضم کر لیتی تھی۔ اس میں پانی کی سیماب وشی، آگ کی نفرت اور خاک کی ہوس مضمر تھی۔
آؤ اب ہم اپنے تخیل سے ایک عورت پیدا کریں، وہ عورت ایسی ہو جو شبنم کی طرح تادم آخر محبت کا ڈال پر جگمگاتی رہے۔ سورج کی پہلی کرن کی طرح وہ باغ زندگی کی روشوں پر گل بوٹے بنایا کرے اور وہ ایسی مٹی نہ ہو جس میں انسانیت کی قبر بنا کرتی تھی، بلکہ وہ جس سے تھکے ماندے مسافروں کے لئے سرائے بنالی جاتی ہے اور وہ عورت کبھی سوچتی نہ ہو کیونکہ خیال کی انتہا ہلاکت ہے۔ وہ ہمیشہ خواب دیکھا کرے، کیونکہ جو خواب دیکھتا ہے وہ زندگی کے در و دیوار بناتا ہے۔‘‘
یہ سن کر بت تراش نے ایک مٹی کا تودہ جمع کیا اور اس کے ساتھیوں نے ایک ایک پتی سے اوس کے قطرے نکال کر اس کا مادہ تیار کیا۔ جب عورت کا بت بن چکا تو مغنی نے ایک نغمہ چھیڑا اور سب نے دیکھا کہ مورت کے چہرے پر رنگت آ رہی ہے۔ اس کے گیلے بالوں میں گھونگرو پڑ رہے ہیں۔ ابرو میں کجی پیدا ہو رہی ہے اور سروں کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اس کی رگیں ایک خاص گت پر تھرک رہی ہیں۔ لیکن عورت کا دل خاموش تھا۔ اس میں اب تک دھڑکن پیدا نہ ہوئی تھی۔
پھر شاعر نے اپنا گیت سنایا۔ جب اس کا تخیل رنگین ہوتا تو عورت کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ جاتی تھی۔ وہ ہونٹ جو فرط شرم سے کبھی دانتوں کے نیچے نہ دبائے گئے تھے۔ جنہوں نے کبھی محبت کی کہانی نہ سنی تھی، جو ایسے معصوم تھے گویا ابھی شراب سے دھوئے گئے ہوں، جب شاعر پر یاس وغم کا دور طاری ہوا تو ان پلکوں کے نیچے آنسو کی ایک بوند ڈبڈبا آئی۔ لیکن عورت اب بھی بےحرکت اور بےجان تھی۔ اس کا دل ابھی خاموش تھا۔
تب مجذوب آگے آیا، وہ جس نے دنیا سے کبھی کچھ طلب نہ کیا تھا۔ وہ رونے اور ہنسنے کے سوا کچھ نہ جانتا تھا اور کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ کیوں ہنستا ہے اور کیوں روتا ہے۔ اس نے بےاختیار اپنا منہ اس مورت کے لبوں پر رکھ دیا۔
اور قبل اس کے کہ بت تراش اس وحشیانہ فعل کے خلاف کچھ کہے، سب نے دیکھا کہ عورت میں جان آ گئی ہے اور سورج کی ایک کرن افقِ بعید سے سر ملا رہی ہے۔
اس پہاڑی پر، جہاں عیسٰی کو سولی دی گئی تھی، کھڑے ہو کر عورت نے دیکھا کہ حد نظر تک ایک سوکھی اور جلی ہوئی کھیتی پھیلی ہوئی ہے، جس میں کہیں شادابی و سرسبزی کا نام نہیں ہے، کہیں کوئی پیڑ پودا نظر نہیں آتا۔ فقط ایک پھول اس کے قدموں کے نیچے لہلہا رہا ہے۔
مصنف:اختر حسین رائے پوری