وہ ایک اندھیری کوٹھری میں دم توڑ رہا تھا۔ یہ نہیں کہ کوٹھری میں روشنی نہ آ سکتی ہو۔ مگر دروازہ اندر سے بند تھا، کھڑکی میں اندر سے چٹخنی لگی ہوئی تھی۔ روشن داں کے منہ پر ایک مکڑی نے بڑا سا جالا بن دیا تھا۔ جالے کے ارد گرد زندگی کی زنجیر، اندر موت کی کال کوٹھری۔
مرنے والا اکیلا ہے۔ وہ مرنا نہیں چاہتا لیکن مر رہا ہے، اس کا گلا رندھ گیا ہے۔ اس کی پتلیاں پانی بن کر بہہ رہی ہیں، رگیں پھول کر نیلی ہو گئی ہیں۔ جبڑا بیٹھ گیا ہے۔ ہاتھ پاؤں اینٹھ رہے ہیں۔ منہ سے کف بہہ کر داڑھی پر پھیل گیا ہے، جیسے ناریل کی جٹوں پر پانی کو بوندیں۔
کرایہ دار دروازہ کی دراڑ سے اندر جھانکتے ہیں اور قہقہہ لگا کر کہتے ہیں، ’’ابھی مرا نہیں ہے سالا۔‘‘
ہر طرف زندگی کا رقص جاری ہے، نیچے سڑک پر پنواڑی کی دوکان کے سامنے زنخوں کا سوانگ ہو رہا ہے۔ تماشائیوں کا ہجوم لگا ہوا ہے۔ ایک ہجڑا کسی راہ چلتے مولوی کو نقل اتار رہا ہے۔ مولوی کا آیتیں پڑھتے ہوئے اپنی بیوی کے پاس اس طریقے سے جانا گویا وہ شیطان سے جنگ کرنے جا رہا ہے۔ کبھی نفرت اور کج ادائی سے اپنی بیوی کو جھڑکنا اور کبھی غلبۂ شیطانی سے مغلوب ہو کر گھگیانا، مولوی کی جھڑکی، مولوی کے نخرے، دیکھنے والے لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔ دور سے ایک مہتر میلا گاڑی لئے آرہا ہے۔ منہ پر ایک ڈھاٹا بندھا ہوا، کپڑوں کے نام پر غلاظت کی پوٹ مظلومیت کا پتلا۔ دن دھاڑے گلا پھاڑ کر گاتا ہوا۔
نہیں پایوں رام جی تو روپار
اس نے گاڑی وہیں روک دی اور اطمینان سے بیڑی پیتے ہوئے ہیجڑوں کے گانے میں تال دینے لگا۔
مرنے والا بہرا نہیں ہے۔ وہ ان آوازوں کو صاف سن سکتا ہے۔ کوئی کرایہ دار گراموفون بجا رہا ہے اور آنگن کے گودام سے چھال ٹین کے گٹھر نکالنے والے قلی بیک آواز ریکارڈ کی گت پر گا رہے ہیں۔۔۔ توری ڈوری لگی اجمیر خواجہ پیا۔
نل پر نہانے والے صابن ساز حاجی نے لنگی کے اندر پانی ڈالتے ہوئے کہا، ’’بھئی بٹو کچھ سنا چراغ بھی مر رہا ہے۔‘‘
بٹو نے تارکول سے گٹھر پر ایک لکیر کھینچتے ہوئے کہا، ’’حاجی جی یہ سالا بڈھا مر کر بھی چین نہ لینے دے گا۔ بھوت بن کر ستائےگا بھوت بن کر۔‘‘
کرایہ داروں میں افراتفری پھیلی ہوئی تھی جن کے ذمہ کئی کئی ماہ کا کرایہ باقی تھا وہ اپنا سامان لے کر رفو چکر ہونے کی تیاری کر رہے تھے جن کا حساب بیباق تھا، وہ بڈھے چراغ علی کے مال و متاع کا حساب لگا رہےتھے۔
چراغ علی کے تیز ناخون ان کے گوشت میں پیوست ہونے کے لئے مچل رہے تھے۔ مرنے سے پہلے وہ ایک بار چیخ کر کہنا چاہتا تھا۔ دے دو میرا روپیہ۔
روپیہ۔ ایک، صرف ایک چمکتا ہوا روپیہ سامنے کے طاق پر رکھا ہوا ہے۔ روشندان سے صرف ایک کرن مسکراتی اور جگمگاتی ہوئی گھس آئی ہے اور اس روپیہ سے آنکھ ملا رہی ہے۔ روپیہ کسی شریر کانی آنکھ کی طرح دمک رہا ہے۔ بوڑھا اسے صاف دیکھ سکتا ہے۔
اس کا دماغ مختل ہونے لگا ہے، اسے یہ شبہ ہوتا ہے کہ روپیہ پر خدا کی مہر لگی ہوئی ہے، خدا۔۔۔ چاندی کی کانوں کا مالک۔۔۔ امیروں کی امارت بڑھانے والا، غریبوں کے خون کی چاندی بنانے والا چراغ علی کا خدا کہاں ہے وہ۔
وقت۔۔۔ کبھی شروع نہ ہونے والا کبھی ختم نہ ہونے والا وقت۔ دیوار گھڑی کی ٹخ ٹخ میں کوئی ڈراؤنا گیت گا رہا ہے، گھڑی کے کانٹے بوڑھے کے منکرنکیر ہیں۔ اس نشان پر پہنچ کر جب یہ شکار اجل دنیا میں آیا تھا۔
مچھر۔۔۔ بنئے کا بھائی۔ دونوں خون پینے والے۔ گویا اپنی آواز میں چراغ علی کو سورۂ یٰسین سنا رہا ہے۔
کھٹمل۔۔۔ بنئے کا بیٹا۔ میلی کچیلی تو شک سے نکل کر رینگتا ہوا بڈھے کے جسم پر چڑھ گیا ہے۔ بڑی تلاش کے بعد اسے گلے میں خون کی ایک بوند ملتی ہے۔ اسے پی کر وہ وہیں مر جاتا ہے۔ اس خون میں زہر پیدا ہو چکا ہے۔
بوڑھا اپنی بے بس آنکھیں ہر طرف گھماتا ہے۔ اسے دیوار پر کچھ ہلتے ہوئے سائے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ چیخنا چاہتا ہے لیکن اس کے گلے میں پھندا سا پڑ گیا ہے۔ وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے لیکن پپوٹوں کے اندر جانے پہچانے آدمیوں کا ایک جلوس چل پھر رہا ہے۔
اس کی بیوی۔۔۔ بچے پیدا کرنے والی عورت۔ اپنی چوٹوں پر ہلدی کی سینک لگا رہی ہے۔ چراغ علی کو اپنے زخم دکھا کر وہ کہتی ہے۔ تونے مجھے کل کس بیدردی سے پیٹا تھا۔
اس کی بہن۔۔۔ دھو کڑیا بگان، کے ایک کچے گھر کے آگے اپنی عصمت کا مول کر رہی ہے۔ چراغ علی کو دیکھ کر وہ کہتی ہے، ’’کیوں جی، تم یہاں نہ آؤگے۔‘‘ پھر یتیموں اور بیواؤں کا ایک انبوہ، بھوکا پیاسا، برسات میں بھیگتا ہوا چراغ علی کے در پر کھڑا فریاد کر رہا ہے۔
اس جلوس کے آخر میں ایک عورت ہے۔ وہ لوہے کے ایک بہت بڑے نل کے اندر اکڑی ہوئی پڑی ہے، اس کی سہمی ہوئی آنکھیں چراغ علی کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہی ہیں۔
چراغ علی آنکھیں بھینچ لیتا ہے۔ اس کا مفلوج جسم کانپنے لگتا ہے۔ اس کا تخیل اپنی عمیق قبر میں تڑپنے لگتا ہے۔
(تیس سال پہلے)
ایک عالی شان عمارت کا آنگن بھکاریوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کوڑھی، گوشت کے سڑے ہوئے ٹکڑے گراتےاور ہلاکت کے جراثیم پھیلاتے ہوئے، گھسٹ گھسٹ کر وہاں جمع ہوئے تھے۔ بوڑھی بھکاریاں سر جھکائے ایک کونے میں کھڑی ہوئی تھیں۔ بچے ننگے، بھوکے، میلے۔۔۔ حوض کے پانی سے کھیل رہے تھے۔ دو تین لنگڑے چبوترے پر بیساکھیاں رکھ کر باتیں کر رہے تھے۔ان میں سے ایک کے جھولے میں بہت سی جھوٹی بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔ اس نے بہت احتیاط سے ایک بیڑی چنی، اسے سلگایا اور مٹھی میں دبا کر ایک کش لگایا۔
’’کھیراتی کھاں، دنیا کی اصل پتریا کی سی ہے۔ جتنا جبرجست مرد پتریا اتنی ہی راجی۔ بیسوا کے بھڑووں کو نہیں دیکھتے۔ چاہے اس کے یار ہجاروں نچھاور کریں پر وہ منہ بھی نہیں لگاتی۔ اس پر کسی کا بس چلتا ہے تو بھڑوے کا۔ یہی حال اس جنم جلی دنیا کا ہے۔ نماز پڑھ پڑھ کر ماتھا پھوڑ لو، مکے، مدینہ کی کھاک چاٹ لو پر دنیا بس میں نہیں آتی۔‘‘
’’بھیا۔ سیکھو، اپنا اپنا نصیبا ہے۔‘‘
’’اجی مارو گولی۔ بھول گئے۔ جب شہر میں لٹس مچی تھی۔ جو بڑا بجارپہونچا وہ مالا مال ہو گیا۔ میرے پلے تو گھی کے پیے سے جا ستی کچھ نہ پڑا۔ مدار دھنیپا نے ایک ماڑواڑی کی حجامت کر دی۔ ماں کسم ایک ہپتہ میں کھونچے لے کر پھیری کرنے لگا۔ دیکھو بھاگ سے کوئی ایسا ہی چھیکا ٹوٹے۔‘‘
اسی وقت ’’سیٹھ آ گیا‘‘، کا شور مچا اور یہ لنگڑے اپنی اپنی بیساکھی لے کر بھیڑ میں گھس گئے۔
سیٹھ چراغ علی پیسوں کی ایک تھیلی لئے ہوئے زینہ سے اتر رہا تھا۔ آگے آگے نوکروں کا ایک غول ہاتھ میں ڈنڈے لئے ہوئے۔ چراغ علی چبوترے پر کھڑا ہو گیا۔ بھکاریوں میں ریل پیل، دھکم دھکا جو آگے قریب آتا ایک پیسہ لے کر ہٹ جاتا اور دوسری طرف سے کنیاتا ہوا پھر پیسے کے لئے ہاتھ بڑھا دیتا۔ اگر کوئی نوکر پہچان لیتا تو ڈنڈھے مار کر پیچھے ہٹا دیتا لیکن وہ ڈبکی بھر کر پھر دوسری طرف سے آگے آ جاتا۔
کمزور بوڑھے اور بھکارنیاں سب سے پیچھے کی صف میں کھڑے رہ گئے۔ کبھی تو وہ ان ہڑدنگے بدمعاشوں کو گالیاں دیتے اور کبھی سیٹھ کو کوسنے لگتے تھے۔ آدھے گھنٹے تک یہی آپا دھاپی ہوتی رہی اور جب پیسے چک گئے تو سیٹھ تھیلی دربان کو سونپ کر اوپر چلا گیا۔
جن بھکاریوں کو کچھ نہ ملا تھا وہ تھوڑی دیر چلاتے رہے لیکن نوکروں نے انہیں ٹھوک پیٹ کر باہر کردیا۔ البتہ کچھ جوان بھک منگنیاں کسی چیز کا انتظار کرتی رہیں۔ دربان نے تھیلی میں بچے کھچے پیسوں کو جھنکار کر انہیں گودام میں چلنے کا اشارہ کیا۔
پیچھے کے زینے کو تھامے ہوئے ایک نو عمر لڑکی چپ چاپ کھڑی ہوئی تھی۔ وہ اپنے آنچل کو اس انداز سے کھینچ رہی تھی گویا شرم سے کٹی جارہی ہو۔ اس کے کپڑے میل میں اٹے ہوئے تھے اور جگہ جگہ سے پھٹ گئے تھے لیکن اس کا پیلا چہرہ پہاڑی چنپے کی طرح بھولا تھا وہ اپنے اپاہج باپ کے لئے روٹی ڈھونڈھنے نکلی تھی جو برساتی میں پڑا ہوا تھا۔ باپ دو دن کا بھوکا تھا اور پانی میں بھیگ کر اسے بخار آ گیا تھا۔ اس دھینگا متید میں لڑکی خیرات سے محروم رہ گئی تھی۔ لڑکی نے سوچا تھا کہ وہ سیٹھ کو اپنا دکھڑا سنائے گی تو ممکن ہے وہ باپ کو یا اسے کچھ کام دے دے۔ بس اتنا کہ وہ دن میں ایک بار روٹی کھا سکیں۔ لیکن وہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی اور سیٹھ خیرات بانٹ کر اوپر چلا گیا۔
لیکن آج جمعہ کا دن تھا، سیٹھ نماز کے لئے مسجد جائےگا اور وہ اسی زینہ سے اترےگا۔ اس آس میں بھکارن وہیں سیٹرھی پر بیٹھ گئی۔
دوپہر کو۔۔۔ اور جمعہ کی دوپہر کو۔۔۔ مسلمانوں کے گھروں میں سناٹا ہو جاتا ہے، چھ دن روپیہ کی نماز، ساتویں دن اللہ میا ں کی نماز! لڑکی اس سناٹے کے عالم میں وہیں بیٹھی ہوئی سیٹھ کے نیچے اترنے کا انتظار کرنے لگی۔
چراغ علی نیچے اترا۔ اس کا ناپاک جسم پانی میں نہا کر صاف کپڑوں میں ملبوس تھا۔ حج سے واپسی کے وقت مدینہ منورہ سے وہ جو لنگی لایا تھا وہ آج زیب تن تھی۔ آنکھوں میں سرمہ، داڑھی میں عطر۔
لڑکی اسے دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی لیکن اس کی زبان سے ایک لفظ نہ نکلا۔ وہ گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگی اور خود بخود اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
چراغ علی نے سر سے پاؤں تک اس کا مطالعہ کیا۔ عمر کم تھی،مشکل تیرہ سال، لیکن صورت شکل اچھی تھی خاصی اچھی۔
’’کیوں لڑکی یہاں کیوں بیٹھی ہوئی ہے۔ تجھے کچھ نہیں ملا؟ ارے ہوں۔ کہاں رہتی ہے؟ اچھا۔‘‘
چراغ علی نے دائیں بائیں دیکھا، مطلع صاف تھا۔
’’اچھا اوپر آؤ، میں تمہیں پیسے دوں گا۔ باپ بیمار ہے؟ بیچارا۔ فکر نہ کرو میں تمہیں پیسے نہیں روپے دوں گا۔‘‘
بھکارن کا کملایا ہوا چہرہ کھل گیا۔ وہ بے کھٹکے اوپر چڑھ گئی۔ چراغ علی نے ایک کوٹھری کا دروازہ کھولا۔ اسے اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر باہر آکر چپکے سے قفل جڑ دیا اور دوسری طرف سے جا کر اندر سے چٹخنی نکالی۔
’’نہیں تم گھبراؤ نہیں۔ تمہیں کتنے روپے چاہئیں؟‘‘
جیب سے اس نے کئ روپے نکالے ’’ایک دو تین۔ بس یہی تو۔‘‘
’’تم کام چاہتی ہو، میں تمہیں روز ایک روپیہ دوں گا۔ تمہیں روز اسی وقت آ کر اس کمرے کو صاف کرنا ہوگا۔ راضی ہو۔ اچھا یہ لو آج کی مزدوری، روز اسی وقت یاد رہےگا؟ یہاں آؤ اور قریب، ڈرو نہیں۔ میرے پاس بیٹھ جاؤ۔ میں کچھ نہیں کروں گا۔ روز ایک روپیہ۔ خوش نہیں ہو؟ تمہیں گدگدی ہوتی ہے۔ کہاں؟ کمر میں اور کہیں؟ اچھا، ذرا میرے پاؤں دباؤ۔ میں پلنگ پر لیٹ جاتا ہوں۔ پیتانے نہیں یہاں بیٹھو۔ دباؤ۔‘‘
(کئی سال گزر گئے)
چراغ علی کی حویلی کے آگے لوگوں نے ایک پاگل عورت کو دیکھا۔ وہ زبان سے کچھ نہیں کہتی تھی۔ گھنٹوں وہ پھاٹک کی برساتی میں چپ بیٹھی رہتی اور کبھی مکان کی طرف انگلی اٹھا کر سڑک پر کھڑی ہو جاتی۔ راہ چلنے والوں کا دامن پکڑ کر وہ اس مکان کی طرف اشارہ کرتی اور چیخ کر سڑک پر بھاگنے لگتی۔ اس کے بعد وہ کئی کئی روز کے لئے غائب ہو جاتی اور جب لوٹ آتی تو اسی طرح پھاٹک کے پاس چپ بیٹھ جاتی۔
لوگوں نے دیکھا جب دربان نہیں ہوتا تو وہ ڈرتے ڈرتے اندر آتی ہے اور پچھلے زینے کے پاس سر جھکا کر بیٹھ جاتی ہے۔ اپنے آنچل کو بھینچتے بھینچتے وہ چونک کر کھڑی ہو جاتی ہے اور اوپر دیکھ کر ایک وحشتناک آواز نکالتی ہے۔ جب تک دربان باہر نکلیں وہ بھاگ جاتی تھی۔
چراغ علی اسے دیکھتے ہی نہ جانے کیوں سراسیمہ ہو جاتا تھا۔ پگلی اسے انگلی دکھا کر ایک دردناک آہ بھرتی تھی اور بھاگ جاتی تھی۔
جاڑے کے دن تھے۔ چراغ علی اپنے دوستوں کے ساتھ پھاٹک میں داخل ہو رہا تھا کہ وہ پگلی سامنے آ گئی۔ اس نے حسب دستور اس کی طرف انگلی کا اشارہ کیا۔ اس نے کھینچ کر ایک بیت پگلی کے منہ پر لگایا۔ دوستوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کھینچ کر اندر لے گئے۔
پگلی نے کچھ نہ کہا۔ وہ وہیں بیٹھ گئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ چپ چاپ رونے لگی۔
جب صبح ہوئی تو لوگوں نے سڑک پر پڑےہوئے لوہے کے ایک بہت بڑے بمبے میں کسی عورت کے ٹھٹھرے ہوئے پیر دیکھے جب وہ پیر باہر کھینچے گئے تو پگلی کی اکڑی ہوئی لاش نکلی۔ وہ رات کو اس میں سو گئی تھی اور جاڑے کے مارے اکڑ کر مر گئی تھی۔ شور سن کر جب چراغ علی گھر سے نکلا تو اس کا رنگ زرد پڑ گیا۔ پگلی کی پتھرائی ہوئی آنکھیں ٹکٹکی باندھ کر اسے گھور رہی تھیں۔
مأخذ : محبت اور نفرت
مصنف:اختر حسین رائے پوری