بوڑھے شجر پر صبح کی کرنیں جب پڑتیں، کرشنا چودھری کی آنکھوں میں ایک نئی چمک نمودار ہو جاتی۔ اسکی پلکوں پہ خوشی کے تارے جھلملانے لگتے۔ ایک خواب تھا جو برسوں سے اس کی آنکھیں دیکھتی آ رہی تھیں۔ خواب پہلے پہل دھندلا سا نظر آتا تھا لیکن جیسے جیسے اسکا بیٹا وکاس چودھری اپنی کلاس میں پڑھائی میں سبھی بچوں کو پیچھے چھوڑتا گیا اور ہمیشہ اوّل پوزیشن کو برقرار رکھا، کرشنا چودھری کے خواب کی بنیادیں پختہ ہوتی گئیں۔ لیکن اسکا گھر——؟ نہ پختہ دیواریں نہ پختہ چھت۔ صرف کچی دیواریں، جس پر بانس اور پھوس کے اوپر چھپر ڈال دیئے گئے تھے۔ اس کا آبائی پیشہ تاڑ سے تاڑی اتار کر فروخت کرنا تھا لیکن کرشنا چودھری نے یہ پیشہ ترک کر دیا تھا وہ ایک پرائمری اسکول میں ٹیچر ہو گیا تھا وہ چاہتا تھا اب اسکا بیٹا وکاس چودھری اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بلند مقام تک پہنچے۔
دن ڈھلتا ہے تو رات آتی ہے جو تمام چھوٹے بڑے، کھرے کھوٹے‘ سچے جھوٹے انسانوں پر آرام کی، سکون کی چادر تان دیتی ہے جس میں انسان کچھ پل، کچھ لمحے، کچھ گھنٹے کے لئے اپنا سب کچھ بھول جاتا ہے اور رات کی تنی ہوئی چادر میں اپنے وجود کو اس طرح سمیٹ لیتا ہے کہ اسے پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب صبح نمودار ہو گئی۔ صبح ہوتے ہی خلقت بیدار ہوتی ہے۔ کرشنا چودھری نے جب آنکھ کھولی تو آج کا اخبار اس کی آنکھوں کے سامنے تھا اپنے بیٹے وکاس چودھری کا رزلٹ دیکھا وہ اول پوزیشن سے دسویں کا امتحان پاس کیا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کو گلے سے لگایا۔
’’بیٹے آج تم نے پہلی منزل طے کر لی ہے اگر اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو میرا برسوں کا خواب پورا ہو جائےگا‘‘—— کرشنا چودھری کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو لرز رہے تھے——’’چل بیٹا مکھیا جی سے آشیرواد لے لے، گاؤں کے بزرگ آدمی ہیں۔‘‘
گاؤں کا مکھیا ہریندر سنگھ آرام کرسی پر بیٹھا موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا۔ ایک ہواری ان کا پیر دبا رہا تھا۔ کئی لوگ ان کے ارد گرد بیٹھے تھے۔ کرشنا چودھری اور وکاس ہاتھ جوڑ کر پرنام کرنے کے بعد کھڑے ہو گئے۔ جب بات ختم ہو گئی تو ہریندر سنگھ نے دونوں کی طرف دیکھا——
’’کہو کرشنا چودھری کیسے ہو؟‘‘
’’بھگوان کی کرپا ہے؟‘‘
’’تمہارا بیٹا تو اب بڑا ہو گیا ہے کہیں کام وام پر لگایا یا نہیں؟‘‘—— ہریندر سنگھ نے وکاس کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’نہیں مکھیا جی وکاس تو ابھی پڑھےگا۔ دسویں کا امتحان فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا ہے۔ اس لئے آپ کے پاس آشیرواد کے لئے لایا ہوں۔ آپ اسے آشیرواد دیجئے کہ پڑھ لکھ کر بڑا افسر بن سکے——‘‘ کرشنا چودھری کے چہرے پر خوشی ناچ رہی تھی۔
ہریندر سنگھ نے حقارت بھری نگاہ دونوں باپ بیٹے پر ڈالی پھر چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بھئی سرکار نے تم لوگوں کو ریزرویشن دے رکھا ہے کہیں نہ کہیں تو لگ ہی جائےگا۔ جیسے ریزرویشن کا فائدہ اٹھا کر تم ٹیچر بن گئے میرا آشیرواد اس کے ساتھ ہے——ہریندر سنگھ نے دور سے ہی ہاتھ اٹھا کر آشیرواد دیا۔ وکاس کو بہت برا لگا کہ وہ پاس بلا کر سر پر ہاتھ رکھ کر بھی آشیرواد دے سکتے تھے۔ وہ دل ہی دل میں کسمسا کر رہ گیا۔ کرشنا چودھری کو بھی برا لگا وہ وکاس کو لے کر حویلی سے باہر آ گیا۔ ان کے جانے کے بعد ہریندر سنگھ نے زور سے قہقہہ لگا کر پاس بیٹھے لوگوں سے مخاطب ہوا۔
’’کرشنا چودھری لاکھ ٹیچر بن جائے لیکن اس کی آج بھی ہمت نہیں ہے کہ میرے سامنے بیٹھ سکے۔ آج بھی اسی طرح کھڑا رہتا ہے۔ جس طرح اس کا باپ میرے پتاجی کے وقت میں کھڑا رہتا تھا۔ میں نے بھی اُسے بیٹھنے کے لئے نہیں کہا۔ نیچ ذات کا ہو کر میرے سامنے بیٹھے، میں کبھی برداشت نہیں کر سکتا وہ تو سرکار نے چھوٹ دے رکھی ہے نہیں تو حویلی کے اندر قدم رکھنے کی ہمت نہیں تھی۔ بڑا آیا بیٹا کو آفیسر بنانے والا جیسے ڈی۔ایم۔، ایس۔پی۔ بن جائےگا ارے بہت ہوگا تو کہیں کسی دفتر میں چپراسی وغیرہ بن جائےگا۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔‘‘
کرشنا چودھری اور وکاس کے کانوں میں ہریندر سنگھ کی باتیں اس طرح سنائی دیں جیسے کسی نے پگھلا ہوا شیشہ کانوں میں ڈال دیا ہو۔ وکاس تلملا کر رہ گیا۔ اسکے دل میں آیا کہ لوٹ کر حویلی جائے اور ہریندر سنگھ کا کالر پکڑ کر اُٹھائے اور بولے—— ’’ہریندر سنگھ تم لوگ ہم پر ہنس رہے ہو ایک دن ایس۔ پی۔ بن کر دکھاؤں گا‘‘—— لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔ کرشنا چودھری کے اندر بھی غصے کی ایک چنگاری ابھری مگر جلد شانت ہو گئی۔
راستے میں گزرتے ہوئے گاؤں کا اکلوتا مندر ملا۔ کرشنا چودھری نے دور سے ہی بھگوان کو جھک کر ماتھا ٹیکا۔ وکاس چاہتا تھا کہ وہ اندر جا کر بھگوان کے چرن چھوئے مگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا پنڈت جو دروازے پر کھڑا تھا اس نے حقارت کی نگاہوں سے باپ بیٹے کو دیکھا۔ وکاس کو وہ دن یاد آ گیا جب وہ آٹھ سال کا تھا اور اپنے ہم جماعت بچوں کے ساتھ مندر کی سیڑھیوں پر کھیل رہا تھا تو اسی پجاری کے کہنے پر نہ صرف اسے اور اس کے دوستوں کو پیٹا گیا تھا بلکہ اس بات کو لے اس کے والدین اور برادری کے کئی لوگوں کو ذودوکوب کیا گیا تھا۔ دونوں باپ بیٹا چلتے چلتے ندی کنارے آگئے۔ ندی کے آس پاس کوئی نہ تھا وہ دونوں ایک پتھر پر بیٹھ گئے۔
’’بیٹا ہم کتنے بدنصیب ہیں کہ مندر میں جاکر دو پھول نہیں چڑھا سکتے۔ بھگوان کے چرن نہیں چھو سکتے۔ تجھے بھگوان کا آشیرواد نہیں دلا سکتے‘‘——آنکھوں میں ٹھہرا ہوا درد پگھلتا ہے اور نمی بن کر کنارے پر ٹھہر جاتا ہے۔
’’پتا جی اب زمانہ بدل رہا ہے، تھوڑا اور انتظار کیجئے بہت جلد سب کچھ بدل جائیگا۔ سکچھا آ جانے کے بعد یہ بھید بھاؤ خود بخود ختم ہو جائیگا۔‘‘
’’ہاں بیٹے مجھے بھی ایسا لگتا ہے۔ اب تجھے آگے پڑھائی کے لئے شہر جانا ہے۔ میں نے سارا انتظام کر دیا ہے۔ تو صرف میرا نہیں بلکہ پوری برادری کا نام روشن کرکے دکھائےگا۔‘‘
’’پتاجی آپ کا سپنا ضرور پورا ہوگا۔ چلئے گھر چلتے ہیں۔‘‘
آج پندر اگست تھا اسکول میں جھنڈا تولن ہونا تھا۔ گاؤں کے مکھیا ابھی تک نہیں آئے تھے کافی دیر تک انتظار کے بعد بھی نہیں آئے تو وہاں موجود لوگوں نے کرشنا چودھری سے کہا——
’’آپ ہی جھنڈا تولن کر دیجئے۔ آپ اس اسکول کے سب سے سینئر ٹیچر ہیں۔‘‘
’’مکھیا جی کا تھوڑا اور انتظار کرنا چاہئے۔‘‘—— اس نے اپنی کلائی میں بندھی گھڑی کی طرف دیکھا۔
دس تو بج گئے آٹھ بجے کا سمے دیا تھا لگتا ہے مکھیا جی کسی دوسرے کام میں ویست ہیں۔‘‘—— ایک ٹیچر نے کہا۔
’’ماسٹر صاحب اب مزید انتظار نہ کیجئے آپ جھنڈا تولن کیجئے۔‘‘—— گاؤں کے ایک ضعیف نے زور دے کر کہا۔
کرشنا چودھری کچھ پل رکے پھر کچھ ہچکچاہٹ کے بعد آگے بڑھے ابھی وہ رسی پکڑ کر کھینچنے ہی والے تھے کہ ہریندر سنگھ کی گرج دار آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی——
’’کرشنا چودھری ٹھہر جاؤ‘‘—— وہ رک گیا۔ ہریندر سنگھ اسکے قریب آ گئے اور حقارت بھری نظروں سے کرشنا چودھری کو دیکھا۔
’’جھنڈا تولن کے لئے آگے بڑھنے کی تمہاری ہمت کیسے ہوئی؟‘‘
’’آپ نہیں آئے اور لوگوں نے اصرار کیا تو میں آگے بڑھ گیا۔‘‘
’’تمہاری اوقات نہیں ہے جھنڈا تولن کرنے کی آئندہ ایسی غلطی نہ کرنا۔ ہماری برادری کا ایک بچہ جھنڈا تولن کر سکتا ہے مگر تم نہیں کر سکتے‘‘—— ہریندر سنگھ کی آنکھوں میں غصّہ کی جوالا بھڑک رہی تھی۔
’’کرشنا چودھری تلملا کر رہ گیا مگر خاموش رہا اسے ایسا لگا کوئی اس پر بہت سارے پتھر برسا رہا ہے اور اس کا وجود لہو لہان ہو کر زمین پر پڑا سسک رہا ہے۔
وقت ہر زخم بھر دیتا ہے لیکن جب بھی پندر اگست یا 26 جنوری آتا کرشنا چودھری کا زخم ہرا ہو جاتا۔ لیکن وہ وقت کا انتظار کر رہا تھا کہ وقت ایسا طمانچہ مارتا ہے جس کا احساس انسان برسوں کرتا ہے اور ایسا ہی طمانچہ ہریندر سنگھ کو پڑا تھا۔ وکاس چودھری نے .U.P.S.C. کا کمپٹیشن نکال لیا تھا اور ایس۔ پی۔ کی ٹریننگ لینے کے بعد اسی ریاست میں اس کی پوسٹنگ ہو گئی تھی۔ کرشنا چودھری کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ وہ گاؤں میں میٹھائیاں بانٹ رہا تھا مگر ہریندر سنگھ کا چہرہ مرجھا گیا تھا۔
وکاس اپنے چیمبر میں بیٹھا فائل پڑھ رہا تھا کہ اسکے پی۔ اے۔ نے بتایا کہ کوئی پنڈت جی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
’’بھیج دو‘‘—— وکاس نے فائل پر دستخط کرکے دوسری طرف رکھا اور نظر اٹھا کر دیکھا ایک ادھیڑ عمر کا پنڈت چیمبر میں داخل ہوا۔
’’آیوسمان بھوہ بالک۔۔۔‘‘
’’پنڈت جی کہئے کیا کام ہے؟‘‘
وکاس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ رینگ گئی، جس آشیرواد اور پرساد کے لئے برسوں ترستا رہا آج خود سے چل کر پنڈت جی اسکے چیمبر میں کھڑا تھا وہ اٹھا پنڈت جی کے پیر چھوئے پنڈت جی نے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’سدا خوش رہا۔‘‘
وکاس جب آشیرواد لے کر کھڑا ہوا تو پنڈت جی نے اس کے ماتھے پر تلک لگایا اور تھالی سے پرساد اٹھا کر وکاس کی طرف بڑھایا وکاس نے دونوں ہاتھوں کو کٹورا بنا کر پرساد لے کر منہ میں ڈالا اور سر پر ہاتھ پھیر لیا۔ اپنے پرس سے سو سو کے پانچ نوٹ نکال کر پنڈت جی کی تھالی میں رکھ دیا۔ پنڈت جی کا چہرہ کھل اٹھا اور مزید آشیرواد دیتے ہوئے چیمبر سے باہر نکل گئے۔ پنڈت جی کے جانے کے بعد جیسے ہی اپنی کرسی پر بیٹھا موبائل کی گھنٹی بج اُٹھی اس نے موبائل اٹھایا اس کے پتاجی کا فون تھا۔
’’ہاں پتا جی بولئے سب کشل منگل تو ہے۔‘‘
’’بیٹا سب ٹھیک ٹھاک ہے جیسا کہ تم جانتے ہو کہ گاؤں کی پرانی مندر کو توڑ کر نئی مندر بنائی گئی جس میں تم نے کافی سہیوگ کیا ہے اب وہ مندر بن کر تیار ہو گئی ہے 15اکتوبر کو پوجا ارچنا کی جائیگی گاؤں کے لوگ چاہتے ہیں کہ مندر کا پٹ تمہارے ہاتھوں کھولا جائے تم ضرور آ جانا مکھیا جی بھی یہی چاہتے ہیں۔‘‘
’’جی پتا جی ضرور آجاؤں گا آپ اطمینان رکھیں۔‘‘
وکاس جب گاؤں پہنچا تو گاؤں کے لوگوں نے بڑے پُر تپاک انداز سے اس کا سواگت کیا۔ اس نے مندر کا ادگھاٹن کیا ۔ پوجا ارچنا کی۔ مکھیا ہریندر سنگھ زبردستی اسے اپنے گھر لے گئے۔ کرسی پر بٹھا کر اپنے بیٹے سریندر کو بلایا۔
’’وکاس بیٹے یہ میرا بیٹا سریندر سنگھ ہے۔ ٹھیکیداری کا کام شروع کیا ہے۔ دس لاکھ کا ایک ٹھیکے کا ٹنڈر بھرا ہے جو ڈی۔ایم۔ صاحب کے ہاتھ میں ہے اگرتم پیروی کر دو تو ٹنڈر اسے مل جائیگا آخر تم پر ہمارا بھی تو کوئی حق ہے۔
’’کیوں نہیں۔ سریندر تم سارا ڈیٹیل لے کر میرے آفس آ جانا میں ڈی۔ایم۔ صاحب سے بات کروں گا۔‘‘
’’بیٹے بڑا احسان ہوگا میں ابھی سے تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں‘‘—— ہریندر سنگھ ہاتھ جوڑ دیتے ہیں۔
’’آپ ہاتھ نہ جوڑئیے میرے پتا سمان ہیں میں یہ کام ضرور کر دوں گا۔‘‘
’’لو بیٹے چائے تو پیو۔ یہ بسکٹ لونا شہر سے آج ہی تمہارے لئے منگویا ہے‘‘—— ہریندر سنگھ ناشتے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وکاس ایک بسکٹ اٹھا کر منہ میں ڈالتا ہے اور چائے کی پیالی اٹھا لیتا ہے۔ چائے پینے کے بعد رخصت ہوتا ہے۔
’’اچھا انکل اب چلتا ہوں۔‘‘
’’آج تو گاؤں میں رہو گے نا؟‘‘
’’نہیں انکل وہاں بہت کام ہے۔ بس ماں پتا جی سے ملتا ہوا چلا جاؤں گا۔‘‘
وکاس کی جیپ جب تیزی سے آگے بڑھ گئی تو ہریندر سنگھ نے حقارت بھری نظروں سے جاتے ہوئے وکاس کو دیکھا۔
’’ایک ہریجن سے کام لینے کے لئے گھر پر بلانا پڑا اور اپنے سامنے بٹھانا پڑا۔۔۔ ہریا۔۔۔ ارے ہریا۔۔۔‘‘
’’جی مالک۔‘‘
’’یہ کپ اور ناشتہ کا سارا پلیٹ باہر جا کر بھینک دے اور اس کرسی کو صابن سے بڑھیا سے دھو کر لے آ۔‘‘
’’جی مالک ابھی دھوتا ہوں۔‘‘——ہریا ناشتہ کا پلیٹ اور کپ سمیٹ کر باہر پھینک دیتا ہے اور کرسی کو دھونے کے لئے باغ کی دوسری طرف چلا جاتا ہے۔
وکاس کی جیپ اب گاؤں سے باہر نکل رہی تھی اس نے مندر کے کلش کو دیکھا جو دور سے چمک رہا تھا وہ دل ہی دل میں خوش تھا کہ آج اس نے مندر کا ادگھاٹن کیا مندر کے اندر پوجا ارچنا کی لیکن اسے کیا پتہ کہ اس کے جانے کے بعد مندر کی دھلائی شروع ہو گئی تھی۔ گاؤں کا ایک آدمی جو پنڈت جی کے ساتھ مندر کی دھلائی کر رہا تھا پوچھا۔
’’پنڈت جی یہ مندر کی دھلائی کیوں کر رہے ہیں ابھی تو پوجا ہوئی ہے۔‘‘
’’تم نہیں سمجھوگے مندر کا شدھی کرن کر رہا ہوں۔‘‘
مصنف:احمد صغیر