بادل نہیں آتے

0
206
Urdu Story Afsana
- Advertisement -

اور بادل نہیں آتے، نگوڑے بادل نہیں آتے۔ گرمی اتنی تڑاخے کی پڑ رہی ہے کہ معاذ اللہ! تڑپتی ہوئی مچھلی کی طرح بھنے جاتے ہیں، تمازت آفتاب اور دھوپ کی تیزیت! بھاڑ بھی ایسا کیا گرم ہوگا، پوری دوزخ ہے۔ کبھی دیکھی بھی ہے؟ نہیں دیکھی تو اب مزا چکھ لو۔ وہ موئی چلچلاتی دھوپ ہے کہ اپنے ہوشوں میں تو دیکھی نہیں۔ چیل انڈا چھوڑتی ہے، ہرن تو کالے ہوگئے ہوں گے۔ بھئی کوئی پنکھے ہی کو تیز کردو، سکون تو ہوجاتا ہے۔

خاموشی، خاموشی۔ سستی اور پستی اور پستی اور مستی۔

بچپن میں سنتے تھے کہ ہمالیہ پہاڑ کے دامن میں ایک بڑا غار ہے۔ اونچے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے پہاڑ، سخت اور گھنے، اور ایک پہلو میں ایک موکھا، بڑا اورعمیق اور اندھیرا۔۔۔ اور اس کے منہ پر ایک بڑی چٹان رکھی رہتی ہے۔ اس غار میں بادل بند رہتے ہیں۔ سفید اور بھوری اور کالی گائیں بند رہتی ہیں۔ کیا کیا بھئی احمق خیالات ہوتے ہیں۔ جہالت کی بھی کوئی حد ہے۔ کتنا ہی سمجھاؤ سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک ہی لاٹھی سے بیل اور بکریوں کو ہانکتے ہیں۔ ہم کوئی کتے ہیں کہ بھونکے چلے جائیں؟ بھوں، بھوں، بھوں! کوئی سنتا تک نہیں۔ عقل پر پتھر پڑگئے ہیں۔ ارے کوئی تو بتاؤ عقل بڑی کہ بھینس۔ بھینس بڑی ہے بھینس، بھینس۔ عقل کی دم میں نمدا۔ زیادہ کہو تو ڈنڈا لے کے پل پڑے۔ مولویوں کے بھی کہیں عقل ہوتی ہو؟ عقل، عقل۔ صورت نہ شکل، بھاڑ میں سے نکل۔ اور داڑھی نے قلب پر سیاہی چھا رکھی ہے۔ دماغ کو استعمال نہیں کرتے۔ سمجھ کو چھپر پر رکھ دیا۔ طاق میں سے کتاب اتاری، ہل ہل کے پڑھ رہے ہیں، جھک جھک کے پڑھ رہے ہیں۔ واہ میاں مٹھو، واہ! خوب بولے! پڑھو، میاں مٹھو، پڑھو۔ حق اللہ! پاک ذات اللہً! پاک نبی رسول اللہؐ! نبی جی بھیجو۔ یا اللہ بھیج! یا اللہ بھیج!

مولوی صاحب بچہ کی تمنا ہے، سخت آرزو ہے۔ نہ معلوم کیا گناہ کیا ہے جس کی سزا مل رہی ہے۔ گھبرائیے نہیں، دو تعویذ دیتا ہوں۔ حقیر فقیر، ناچیز و گنہگار ہوں لیکن کلام الٰہی ہے ؛ انشاء اللہ مراد حاصل ہوگی۔ عشاء کے بعد غسل کرکے سات بار درود شریف پڑھ کر لوبان کی دھونی کے ساتھ ہم بستری کے وقت زیر ناف باندھ دیجیے گا۔ دوسرا پانی میں گھول کر ایک صراحی یا کسی اور برتن میں رکھ لیجیے گا اور سات روز آبِ زمزم ملاکر نہار منہ پی لیا کیجیے گا۔ اگر خدا نے چاہا تو مراد ضرور برآئے گی۔ یہ نذرانہ ہے۔ لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم! تم کو شرم نہیں آتی؟سمجھتے ہو کہ اللہ کا کلام خریدا جاسکتا ہے؟ خدا کو بھی مول لوگے؟ میں نذرانہ وذرانہ نہیں لیتا۔ جاؤ کسی ٹٹ پونجیے کے پاس جاؤ، بھاگ یہاں سے! نکل!

حضت سخت قصور ہوا۔ معافی چاہتا ہوں۔ آئندہ ایسی گستاخی نہ ہوگی۔ اچھا خیر! جا، لیکن بات یاد رکھنا، نوچندی جمعرات کو بڑے پیر صاحب کی نیاز دلوادینا اور سواروپیہ اور پاؤ بھر موتیا کے پھول ہرے بھرے صاحب کے مزار پر چڑھا دینا۔ قہ آری صواآ حیب اَ اَ آپ کی دستا آرِ موباآرک میں خہ تن گا آآ۔ مولوی صاحب کھائی۔ ہاں بیٹا خوب کھائی۔ اجی مولوی صاحب کھائی۔ ہاں، ہاں بیٹا خوب کھائی۔ نہیں مولوی صاحب کھائی! ابے کہہ تو دیا کھائی، ہاں خوب کھائی۔ اَدب! انگریزوں کو خدا غارت کرے۔ انگریزی پڑھا پڑھا کر دہریہ بناڈالا۔ زنخا بناڈالا، مردانگی کی ناک کاٹ کے لے گئے۔ نہ دوزخ کا ڈر نہ جنت کی خواہش۔ پڑھا پڑھایا سب خاک میں ملادیا۔ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں، خدائے پاک پر ہنستے ہیں۔ جب آگ میں جلیں گے تو۔۔۔

- Advertisement -

اور ایک سادھو اس غار کا منہ برسات میں کھول دیتا ہے۔ بادل بھڑ بھڑاڑ نکلتے ہیں۔ سن سن سکھی پنکھی کا بیاہ ہوتا تھا۔۔۔ تاتل ممولہ ناچتی تھی۔۔۔ بلبل تو خوب بولا پودنا ستائی۔۔۔ تیتری، بھنبھیری، سب کو کہ نال تیری۔۔۔ پر بلی جو نائن آئی ساری صبا بھگائی۔ بھاڑ، بھاڑ، سب برات اڑ گئی۔ اب تو ہوا اکھڑ گئی؛ ہوا۔ ابھی دیکھو کیا ہوتا ہے۔ خدا نیک ہدایت دے۔ سچ ہے قیامت کے سب آثار موجود ہیں۔ آگ اگلتا ہوا سانپ! تفرقے، جھگڑے لڑائیاں، مذہب اور خدا کی توہین۔ زمین کا طبقہ پلٹ رہا ہے۔ جب یونان کا طبقہ الٹا تھا تو یہ ہی سب علامات موجود تھیں۔ یا اللہ رحم کر! یہ جاہل ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ تو رب العالمین ہے! ان کو معاف کر۔

بادل کیوں نہیں آتے؟ اور زندگی وبال ہے۔ وبال، وبال۔ لمبے لمبے، کالے کالے بال۔ ایک فضول کی لادی لدی ہوئی ہے۔ آخر ہم بھی مردوں کی طرح کیوں نہیں کٹواسکتے؟ چھوٹے چھوٹے بالوں سے سر کیسا ہلکا معلوم ہوتا ہوگا۔ خدا بخشے ابا جان کے تو خشخاشی تھے۔ ایک مرتبہ، ایسی ہی گرمی پڑی تو پان بھی بنوالیا تھا اور میں نے اور صابرہ نے خوب ہی سرسیلایا۔ کاش کہ ہمارے بال بھی کٹتے ہوتے۔ گدی تو جلی جاتی ہے، جھلسی جاتی ہے۔ اس پر بھی بال نہیں کٹواسکتے۔ خاندان والوں کی کیا بڑی ناک ہے۔ ہم جو بال کٹوالیں گے توان کی ناک کٹ جائے گی۔ اگر میں کہیں لڑکا ہوتی تو کھونڈی چھری سے کاٹ ڈالتی، جڑ سے اڑاڈالتی۔ اور جب ناک ہی نہ رہتی تو کٹنے کا ڈر کہاں؟

خدا گنجے کو ناخون ہی نہیں دیتا۔ زخم کے بھرنے تک ناخون نہ بڑھ آئیں گے کیا؟ زخم تو بھر آیا لیکن ناخون ہی نہیں جو زخم زخم۔۔۔ رحم، اورارحم الراحمین۔ کیا خدا بھی رحموں کے مجموعہ سے بنا ہے؟ آخر ہم ہی میں رحم کو کیوں پیدا کیا؟ عورت کمبخت ماری بھی کیا جان ہے، چچڑی سے بدتر۔ کام کرے، کاج کرے، سینا پرونا، کھانا پکانا، صبح سے رات تک جلے پاؤں بلی کی طرح اِدھر پھرنا اُدھر پھرنا اور اس پر طرہ یہ کہ بچے جننا۔ جی چاہے یا نہ چاہے، جب میاں موے کا جی چاہا، ہاتھ پکڑ کے کھینچ لیا۔ اِدھر آؤ میری جانی، میری پیاری۔ تمہارے نخرے میں گرم مصالح۔ دیکھو تو کمرہ میں کیسی ٹھنڈک ہے! میرے کلیجہ کی ٹھنڈک! ورے آؤ، ہٹو پرے۔

تم پر ہر وقت کمبخت شیطان ہی سوار رہتا ہے! نہ دن دیکھو نہ رات۔ ہاء، مار ڈالو، کٹاری مارو نا۔ ہاتھ نگوڑا مروڑ ڈالا، توڑ ڈالا۔ کہاں بھاگی جاتی ہو؟ سینے سے چمٹ کے لیٹ جاؤ! دیکھو کٹاری کا مزہ چکھ لو۔ وہ ہی موئے دودھوں پر ہاتھ چل پڑے۔ سخت سخت انگلیوں سے مسل ڈالا، وسل ڈالا۔ کمبخت نے گھنڈی کو کس زور سے دبایا کہ ہل بھی نہ سکی۔ موا جوانا مرے۔ کوٹھے والیوں کے ساتھ بھی کوئی ایسا برتاؤ نہ کرتا ہوگا۔ کمزور جان لیٹ گئی کہ سارا گرمی کا غصہ مجھ ہی پر اتارا۔ مردے کی طرح کیوں پڑی ہو! کیا جان نہیں؟ زور لگاؤ۔ پیاری، پی آری۔ جہ آآ آنی۔ اور ہم ہیں کہ کچھ نہیں کرسکتے۔ ہم کیوں نہیں کچھ کرسکتے؟ اگر اپنا روپیہ ہوتا تو یہ سب ذلت کیوں سہنی پڑتی۔ جس وقت جو جی چاہتا کرتے۔ کمانے کی اجازت بھی تو نہیں۔ پردے میں پڑے پڑے سڑتے ہیں۔ لونڈیوں سے بدتر زندگی ہے۔ جانوروں سے بھی گئے گزرے ہوئے۔ پنجرے میں پڑے ہیں، قید کیے پڑے ہیں۔ پر بھی تو پھڑپھڑانے کی گنجائش نہیں۔

ہماری زندگی ہی کیا ہے! بجھادیا تو بجھ گئے تھے، جلادیا تو جل رہے ہیں۔ ہر وقت جلاکرتے ہیں۔ جلنے کے علاوہ اور کچھ بھی ہماری قسمت میں ہے؟ اور فرماں برداری کریں۔ مرد موئے سارے میں جوتیاں چٹخاتے پڑے پھرتے ہیں۔ کہیں بیٹھ کے حقہ گڑگڑایا، کہیں گپیں کیں، کہیں گنجفہ، کہیں شطرنج، کہیں موئے تاش۔ رات کو اور کچھ نہیں تو چاوڑی چلے گئے۔ گانا سننے کا بہانہ! لیکن پھر صبح نہانا کیسا؟ اور کہہ کہہ کر ہمیں جلانا۔ کہیں جل بھی تو نہیں چکتے۔ لاکھ لاکھ آنسو بہاتے ہیں۔ موئی آگ ایسی چوبیس گھڑی کی لگی رہتی ہے کہ ذرا بجھنے کا نام نہیں لیتی۔ موت بھی تو نہیں۔ ہندوؤں کی زندگی ہم سے کہیں اچھی ہے۔ آزادی تو ہے۔ عیسائیوں کا تو کیا کہنا۔ جو جی میں آتا ہے کرے ہیں۔ ناچ ناچیں، تصویریں دیکھیں، بال کٹائیں۔ راوی چین لکھتا ہے۔

نہیں معلوم کس گھڑی ہماری پیدائش ہوئی جو مسلمان گھر میں جنم لیا۔ آگ لگے ایسے مذہب کو۔ مذہب، مذہب روح کی تسلی، مردوں کی تسلی ہے! عورت بیچاری کو کیا! پانچ انگشت لانبی داڑھی لگاکے بڑے مسلمان بنتے ہیں۔ ٹٹی کی آڑ میں شکار کرتے ہیں۔ ہمارے تو جیسے جان تلک نہیں۔ آزادی کے لیے تو دیوارِ قہقہہ ہیں۔ ابا جان نے کس مصیبت سے اسکول میں داخل کیا تھا۔ مشکل سے آٹھویں تک پہنچی تھی کہ خدا بخشے دنیا سے سدھار گئے۔ سب نے فوراً ہی تو اسکول سے نام کٹا دیا اور اس موٹے مسٹنڈے، ڈاڑھی والے کے ساتھ نتھی کردیا۔ مواشیطان ہے۔ عورت کی آزادی تو آزادی۔۔۔ عورت کا جواب تک دینا گوارا نہیں کرتا۔

کیا سمندر سوکھ گئے، جو بادل نہیں آتے؟ سوگئے۔ سمندر بھی سوکھ گئے سمندر، سات سمندر پار سے آئے، ہماری بھی لٹیا ڈوب گئی۔ غڑپ، غڑپ غڑپ، غوطے لگا رہے ہیں! اپنے ہی خون میں نہارہے ہیں۔ دھوپ تو اتنی تیز ہے، بھاپ بھی نہیں بنتی۔ کاہے کی بھاپ بنے، خون تو خشک ہوگیا۔ جل کے راکھ ہوگیا۔ لیکن کیا سچ مچ بادل بھاپ کے بنتے ہیں؟ ہم تو سنا کرتے تھے کہ بادل اسپنج کی طرح ہوتے ہیں۔ ہوا میں تیرا کرتے ہیں۔ جب گرمی بہت سخت پڑی، پیاس کے مارے سمندر کے کنارے اتر پڑتے ہیں۔ خوب پانی پیتے ہیں اور پھر ہوا میں اڑجاتے ہیں اور توپوں کے خوف سے موتنے لگتے ہیں۔ تلل تلل موتنے لگتے ہیں۔ جو کچھ بھی اسکولوں میں پڑھاتے ہیں، جھوٹ بکتے ہیں۔ بادل واقعی بھاپ کے نہیں ہوتے۔ جغرافیہ غلط، خوف برطانیہ درست، درست۔ یہ ہی بات ہے۔

اوخو آج سمجھ میں آیا۔ کیا سمجھے؟ بحری بیڑا اور توپ۔ لیکن افغان بھی کیا تپک مارتا ہے۔ چٹانوں کی آڑ میں چھپا رہتا ہے۔ جہاں دشمن کو دیکھا، ایک آنکھ بھینچ، شاید دونوں ہی آنکھیں بند کرلیتا ہے، گھوڑا دبایا۔ ٹھائیں! ٹپ سے زندہ جان مردہ کی طرح گر پڑی۔ خوب مارا! خوب۔ لیکن افغان تو پیدل چلتا ہے۔ مگر ہوائی جہاز کو ایک گولی سے گرالیتا ہے۔ ہمارے پاس تو موٹر چھوڑ اِکا بھی نہیں۔ ہم کیا کریں گے؟ چلو جلیاں والے باغ کی سیر کرآئیں۔ مگر جائیں گے کاہے میں؟ ہم بتائیں، سرکنڈے کی گاڑی، دوبیل جوتے جائیں۔ وابھئی واہ! خوب سنائی۔ اتنے سارے آدمی اور سرکنڈے کی گاڑی۔ پاگل ہے بھئی، پاگل۔ پیری ہے بے لمڈو، پیری ہے۔ سفیدے کی پیری ہے۔ وہ کاٹا۔ یوں نہیں تو یوں سہی۔ ہش ہش میرے کان میں گھس سب کو کان میں گھسا لیں گے۔ پاگل ہے بھئی، پاگل ہے۔ وہ کاٹا! یہ ہی تو مصیبت ہے سنتے تک نہیں۔ اس کان سے سنا، اس کان سے نکال دیا، جوں تک نہیں چلتی، گھڑا بھی کیا چکنا ہوگا۔

مٹی میں پڑے روندتے ہیں! صورت تک کو نہیں سنبھالتے۔ کیا شعر تھا؟ کیا؟ ہم نے اپنی صورت بگاڑلی، ان کو تصویر بنانی آتی ہے۔ کیا تھا؟ ایک ہم ہیں۔ ہاں، ہم! یہ ہی ہم، جن کو اپنی صورت کا احساس نہیں۔ کالے بھجنگے، میلے کچیلے، لنگوٹی میں مست ہیں۔ بھائی بندوں میں سے کسی نے کوئی بات کہہ دی، لڑنے مرنے پر آمادہ اور دوسرے جو گلاکاٹے ڈالتے ہیں، اس کا کچھ بھی نہیں۔ جوتے کھاتے ہیں، لاتیں سہتے ہیں، گالیاں سنتے ہیں اور پھر وہی لونڈوں کی سی بات، اب کے تو مار۔ چاٹ! اچھا اب کے تو مار لیا۔ چاٹ! چاٹ! بھیں، بھیں، بھیں۔ دیکھو بی اماں، چنو کا بچہ نہیں مانتا، جب سے برو برمارے جاریا ہے۔ اس کو سمجھا لو۔ نہیں تو اس حرام زادے کی۔۔۔ ماشاء اللہ، چشم بددور۔ چشم بندوق۔ کیا میٹھی گالی دی ہے، منہ چوم لے منہ۔ زبان گدی کے پیچھے سے کھینچ کے نکال ڈالے۔ ایسا چانٹا مارے کہ سارا پجوڑا پن دور ہوجائے۔

کتے کی طرح مارتے ہیں، ہڈی دکھاکے مارتے ہیں، اجی پاس بلاکے مارتے ہیں، گھیر کے مارتے ہیں، گھار کے مارتے ہیں، پیار کرکے مارتے ہیں، دلار کرکے مارتے ہیں۔ اور تو اور، مار کرکے مارتے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ کتے کی ذات پھر ان کے چوتڑوں میں گھسے جاتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ گو تک نہیں ملتا۔ آخ تھو۔ کالے کتے کا گو! لعنت تم جیسوں پر۔ بس بے چھوٹو؟ بس؟ چنو کی گالی سہ لی۔ مار! مار! دیکھتا کیا ہے؟ لپک کے! دے دباکے ہاتھ! مار! اور راجہ ماری پودنی ہم بیر بساؤن جائیں۔ آپ کی صورت تو ملاحظہ ہو۔ کیا پدی کیا پدی کا شوربا۔ ہم بیر بساون جائیں۔ واہ میرے سینخ کے پہلوان، واہ! کوئی پھبتی کہو، خدا لگتی کہو ہم بیر بساون جائیں ہاں، بیر کہتے تو ایک بات بھی تھی۔ میاں شیخ پورے کے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ کبھی سہارن پور کے بیروں کا بھی نام ہے؟ اجی حضرت بیل ہوں گے، بیل جی ہاں، بجافرمایا، درست۔ بیل ہی تو تھے۔ ہم بیر بساون جائیں! سرکنڈوں کی گاڑی د وبیل جوتے جائیں۔۔۔ اور؟ راجہ ماری پودنی ہم بیر بساون جائیں۔ واہ میاں پودنے بڑی ہمت کی! مٹی کا شیر ہے نا؟ سرکنڈوں کی گاڑی میں بیٹھے گا، بیلوں پر، کہ راجہ ماری پودنی ہم بیر بساون جائیں۔

مأخذ : انگارے

مصنف:احمد علی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here