ہانی کی کہانی:’’یہ کہانی آزادی سے پہلے کی دو تصویر پیش کرتی ہے۔ ایک طرف پرانے روایتی نواب ہیں جو عیش کی زندگی جی رہے ہو ہیں۔ موٹروں میں گھومتے ہیں، دل بہلانے کے لیے طوائفوں کے پاس جاتے ہیں، ساتھ ہی زندگی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو کوستے ہیں، گاندھی جی کو گالیاں دیتے ہیں۔ دوسری طرف آزادی کے لیے مر مٹنے والے وہ نوجوان ہیں جن کی میت کو کوئی کندھا دینے والا بھی نہیں ہے۔‘‘
تیسرے پہر کے وقت بیگم ابن انگنائی میں پلنگ پر بیٹھی چھا لیا کتر رہی تھیں۔ سامنے باور چی خانہ میں ماما ہنڈیا بگھار رہی تھی۔ جب ڈیوڑھی میں کسی نے کنڈی کھٹکھٹائی تو بگم ابّن بولیں، ’’اری دلچین دیکھیو تو کون کھٹکھٹا رہا ہے؟ اس شور سے تو ناک میں دم آگیا۔‘‘ اتنے میں باہر سے آواز آئی، ’’میں آ جاؤں؟‘‘
’’کون ہے؟‘‘
’’میں ہوں۔ بشیر۔‘‘
’’میاں بشیر! آؤ میاں۔ بہت دنوں میں آئے ہو۔ کیا رستہ بھول گئے؟‘‘
’’آداب عرض ہے۔‘‘
’’عمر دراز۔ تم تو عید کا چاند ہوگئے۔ کبھی آتے ہی نہیں۔‘‘
’’ممانی جان ان دنوں کام بہت رہا۔ روز آنے کا ارادہ کرتا تھا لیکن کچھ نہ کچھ ایسا کام نکل آتا کہ آ نہ سکتا۔‘‘
’’اچھا کہو، چھماں بیگم تو اچھی ہیں؟‘‘
’’جی ہاں۔ وہ بھی آنے کا ارادہ کر رہی ہیں۔ کسی دن آئیں گی۔‘‘
’’لو میاں پان لو۔ تم تو شاید زردہ نہیں کھاتے؟‘‘
’’جی نہیں۔ آداب عرض۔‘‘
’’عمر دراز۔‘‘
’’کیا ماموں جان کہیں گئے ہیں؟‘‘
’’تمہارے ماموں جان کہاں جائیں گے؟ موئے کبوتر بھی تو پیچھا چھوڑیں۔ دن بھر وہ جوتیاں پیٹی ہیں کہ میں تو چھت کی اللہ آمین منا رہی تھی۔ وہ شور تھا کہ خاک پیٹے شہدے بھی کیا کریں گے۔ آج کھانا کھانے بھی نہیں اترے۔ مجھ کمبخت ماری کو دو گھنٹے بھوکا رکھا، جب بہت بکی بولی تو اتر کر آئے۔ لیکن بس منہ جھٹال کر پھر وہی ٹھنٹھ کے آلو کی طرح کوٹھے پر۔‘‘
’’ممانی جان بیچارے کیا کریں۔ بیکاری میں کوئی نہ کوئی شوق ہونا چاہیے۔‘‘
’’آگ لگے ایسے شوق کو۔ شوق نہ ہوا دیوانہ پن ہوگیا۔ جب دیکھو کبوتروں ہی کی باتیں ہوتی ہیں، نہ آٹا چھوڑیں نہ گھی۔ کبوتر کیا ہوئے آدمیوں سے بڑھ گئے۔ ابھی ابھی گاؤں سے گھی کا پیالہ آیا تھا۔ مشکل سے ایک ہفتہ ہوا ہوگا کہ بس صفا چٹ۔ پہلوانوں کو بھی کوئی اتنا گھی نہ دیتا ہوگا۔ نہ معلوم ان کو پلاتے ہیں یا یار دوستوں کو بانٹ دیتے ہیں۔ اور ملنے جلنے والے بھی سب جھلسے کبوتر باز۔ دن بھر کنڈی پٹاکرتی ہے۔ شوق نہ ہوا آفت آگئی۔ اور ادھر اللہ میاں نے اولاد بھی دی تو ایسی۔ دن بھر وہ دھمادھم ہوتی ہے کہ کچھ ٹھکانا نہیں۔ ان موئے فرنگیوں نے بھی کیا کیا کھیل نکالے ہیں۔ یہ موئی فٹ بال بھی کیا نکلی ہے کہ نتھنوں میں تیر دے دیے ہیں۔ گیند ہے کہ ہر دم کمرے ہی میں گھسی چلی آتی ہے۔ میاں میں تو دہل دہل کے رہتی ہوں۔ کوئی گھڑی بھی کمبخت چین کی نصیب نہیں ہوتی۔ اور ادھر میاں حمید کی وجہ سے دن کا کھانا اور رات کی نیند حرام ہوگئی ہے۔ جب تک ولایت میں رہے تو یہی اللہ آمین کیا کی کہ کہیں کوئی موٹی میم ویم نہ کر لائیں۔ بارے وہاں سے تو خیریت سے چلے آئے۔ لیکن اب یہ اچھا شگوفہ چھوڑا ہے۔‘‘
’’جی نہیں ممانی جان۔ در اصل آپ لوگوں میں ملکیت کا احساس بہت زیادہ ہے۔ جو سچ پوچھیے تو آپ لوگ اولاد کو بھی اپنی ملک ہی تصور کرتے ہیں۔ یعنی اولاد بھی تو انسان ہوتی ہے۔ جس طرح آپ لوگ کوئی بات کرنی چاہتے ہیں۔ اسی طرح اولاد بھی آزادی سے ایک بات کو کرنا چاہتی ہے۔ لیکن آپ لوگوں کو یہ بات آخر کیوں ناگوار گزرتی ہے اور حمید کو تو آپ لوگ سمجھتے ہی نہیں۔ اس کا سا بیٹا ہونا تو بہت مشکل ہے۔ حمید کو۔۔۔‘‘
’’اس بے ایمان حمید کا کس نے نام لیا!‘‘میر ابّن نے زینے ہی میں سے چلا کر کہا۔
’’ماموں جان آداب عرض۔‘‘
’’اچھا، یہ جناب ہیں۔ اس بدبخت کے نام لیوا۔‘‘
’’آپ حمید سے بیکار اس قدر ناراض ہیں۔‘‘
’’ناراض! میں تو اس نالائق کی صورت بھی دیکھنا نہیں چالتا۔ میری ناک کاٹنے میں اس نے کیا کسر چھوڑی ہے۔ کمبخت مسلمان کے گھر میں پیدا ہو کر یہ باتیں کرتا ہے۔ ہندنی سے شادی کرے گا! میرا دل تو بھن بھن کے رہتا ہے۔ بجائے اس کے کہ بڑھاپے میں ماں باپ کی خدمت کرے، اپنی قابلیت اور سعادت مندی سے ان کا نام روشن کرے، اب یہ کلنک کا ٹیکہ لگائے گا۔ اس سے تو اگر مر جاتا، تو بہتر ہوتا۔‘‘
’’ماموں جان وہ جو کچھ کہتا ہے۔ وہ بھی تو سنئے۔‘‘
’’بس اب کہہ لیا تو کہہ لیا۔ آئندہ میں اس نالائق کا نام تک سننے کا روادار نہیں۔ کیا میری ہی اولاد ہے؟ خدا کمبخت کو موت دے۔۔۔‘‘
میر صاحب غصہ سے کھولتے ہوئے باہر چلے گئے۔ گرمیوں کی شام تھی۔ ابھی تک گلی کوچوں سے گرمی کے بھپکے نکل رہے تھے۔ سڑک پر لوگ اپنی اپنی دوکانوں کے سامنے چھڑکاؤ کر رہے تھے۔ سودے والے طرح طرح کی آوازیں لگا رہے تھے۔ اور اس کے باوجود فضا میں ایک قسم کی بھیانک افسردگی چھائی ہوئی تھی۔ میر صاحب اپنےخیالات میں محو چلتے گئے۔ جب وہ مٹیا محل پہنچے تو بھیڑ میں سے گھستے پلتے دو آدمی ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے ان کی طرف آئے۔ اگلا تو صفائی سے بچ کر میر صاحب کے برابر نکل گیا۔ لیکن جب دوسرا آیا تو میر صاحب ایک کھڑے ہوئے تانگے کے برابر سے گزر رہے تھے۔ آدمی نے راستہ کم کرنے کے لیے میر صاحب کے برابر سے جھپکی لینی چاہی لیکن شامت اعمال کہ بچنے کے بجائے وہ میر صاحب سے ٹکرا گیا اور ان کی طرف بہت کھسیانا اور خفیف ہوکر دیکھنے لگا۔ میر صاحب کی چڑھی ہوئی داڑھی ان کی چوگوشہ ٹوپی اور قوی ہیکل ہیئت دیکھ کر گھبرایا۔ مگر اتنےہی میں میر صاحب بہت طیش کھا کر بولے،
’’حرامزادہ کہیں کا! دیکھتا نہیں کون جا رہا ہے!‘‘ میر صاحب کے حلیہ سے تو وہ ذرا سہم گیا تھا، لیکن یہ الفاظ سن کر بولا، ’’بس میاں، بس۔ بہت سے تمہاری طریوں کے دیکھ لیے ہیں۔ وہ زمانے لد گئے، لمبے بنو، لمبے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بھاگتا ہوا اپنے ساتھی کو پکڑنے چل دیا۔
برابر سے ایک آدھ قہقہوں کی آواز آئی۔ پھر کیا تھا۔ ایک تو کریلا اور اوپر سے نیم چڑھا۔ میر صاحب کے جذبہ خود نمائی کو وہ ٹھیس لگی کہ ان کا منہ لال انگارا ہو گیا۔ ان کی ساری رعونت، ان کا سارا وقار خاک میں مل گیا۔ آگ بگولا ہو کر میر صاحب ہنسنے والوں کو دیکھنے کے لیے مڑے۔ ایک پان والے کی دوکان پر کچھ لوگ کھڑے میر صاحب کی طرف منہ کیے ہنس رہے تھے۔ میر صاحب ان کی طرف سڑک کے اس پار لپکے، لوگوں نے اپنے منہ موڑ لیے اور پان والے کی طرف مخاطب ہوگئے۔ پھر کچھ میر صاحب کو خیال آیا کہ فضول کا جھگڑا مول لینا ہے۔ دوسرے اسی وقت ان کی نگاہ نواب چھماں کی فٹن پر پڑی۔ جو ان کی جانب پیچھے سے آرہی تھی۔ نواب چھماں نے گھوڑے کو چابک چھوایا۔ اور تیزی سے میر صاحب کے پاس پہنچ کر گاڑی روک لی۔
’’اوہو میر ابّن۔آؤ بھئی، میں تو دعا ہی مانگ رہا تھا کہ تم سے ملاقات ہو جائے۔ آؤ بیٹھ جاؤ۔‘‘ میر صاحب فٹن میں سوار ہوکر سینہ نکال کے بیٹھ گئے اور بہت اکڑ کر پیچھے مڑے۔ اور پان والے کی دوکان کی طرف آنکھیں نکال کر دیکھا۔
’’خیریت تو ہے بھئی۔‘‘ نواب صاحب نے پوچھا، ’’یہ مکدر کیسے ہو؟‘‘
’’بھائی کیا پوچھتے ہو۔ ادبار۔ ادبار۔ لوگوں میں سے احساس شرافت جاتا رہا۔ نہ دلوں میں غیرت، اور نہ مرتبہ کی پہچان۔ نہ معلوم کس وقت کس کی عزت اتار لیں۔ حد ہے کہ اولاد تک میں فرمانبرداری کا مادہ باقی نہیں رہا۔‘‘
’’بھئی کہتے تو سچ ہو۔ نہ بڑے کی تمیز رہی اور نہ چھوٹوں کا خیال اور اوپر سے آزادی کی ایک اور ہوا چل نکلی ہے۔‘‘
اسی طرح باتیں کرتے ہوئے میر صاحب اور نواب چھماں جامع مسجد سے ہوتے ہوئے چاوڑی بازار میں سے گزرے۔ وہ ابھی بڑھ شاہ بولا تک بھی مشکل سے پہنچے تھے کہ ایک شور غل کی آواز بلند ہونے لگی۔ جلدی جلدی دوکاندار اپنی اپنی دوکانیں بڑھا رہے تھے۔ دو دو ایک ایک کر کے لوگ حوض قاضی کی طرف چلنے لگے۔ یہاں تک کہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ ایک رو ہے جو بہتی چلی جا رہی ہے۔
’’بھئی، یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘ نواب چھماں نے میر صاحب کی طرف مخاطب ہو کر کہا۔
’’میاں وہی کوئی بلوا ولوا ہو گیا ہوگا۔ ترکِ موالات کی بھی تو عجیب وبا پھیل گئی ہے۔‘‘ نواب صاحب اپنی گاڑی بڑھائے چلے گئے۔ تھوڑی ہی دور چلنے کے بعد قاضی حوض کی طرف سے شور کی آواز شروع ہوگئی۔
’’یہ کیا چیخ رہے ہیں؟‘‘ نواب صاحب نے پھر پوچھا۔ دونوں نے کان لگا کر سنا۔ دور سے آواز آ رہی تھی، ’’ٹوڈی بچہ ہائے ہائے! ٹوڈی بچہ ہائے ہائے۔‘‘ میر صاحب نے ایک قہقہہ لگایا۔
’’یہ بھی کمبختوں نے کیا جملہ نکالا ہے۔ کوئی تک بھی ہے؟‘‘
’’ٹوڈی بچہ ہائے ہائے!‘‘
جب گاڑی ذرا اور نزدیک پہنچی تو انہوں نے دیکھا کہ پولیس کا ایک جتھا ان کی طرف پیٹھ کیے کھڑا ہے اور لوگ سپاہیوں کے سامنے ایک ہجوم کیے جھنڈے ہاتھوں میں لیے کھڑے ہیں۔ چاوڑی کی سمت میں بھی لوگ جمع ہو رہے تھے۔ اب نواب صاحب نےاپنی گاڑی روک لی۔ شور کی آواز دب گئی۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے لوگ پولیس سے کچھ مکالمہ کر رہے ہیں۔ یکایک ایک اور نعرہ بلند ہوا، ’’بول مہاتما گاندھی کی جے!‘‘ اور اس کے بعد ہی جھنڈے ہوا میں ناچنے لگے اور لوگ زور زور سے چلائے، ’’انقلاب زندہ باد! انقلاب زندہ باد!‘‘
نواب صاحب فراش خانہ میں رہتے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ گاڑی کا اس جگہ سے لے جانا ناممکن ہے اور اسی میں خیریت جانی کہ واپس لوٹ کر نئی سڑک سے چاندنی چوک ہوتے ہوئے گھر پہنچ جائیں۔ جب نواب صاحب گھنٹہ گھر پہنچے تو وہاں بھی انہوں نے یہی ماجرا دیکھا۔ اور یہاں پولیس کے علاوہ گوروں کی ایک پلٹن بھی دکھائی دی۔ سارے میں ناکہ بندی ہوچکی تھی۔ اب تو نواب صاحب کی ذرا سٹی گم ہوئی۔ لیکن پھر ان کو خیال آیا کہ نئی سڑک سے ایک گلی حوض قاضی کے پرے جاکے نکلتی ہے۔ گاڑی کو سائیس کے حوالے کر کے نواب صاحب معہ میر ابّن کے پیدل روانہ ہوگئے۔
’’یہ حرام زادوں نے اچھا ڈھونگ بنایا ہے۔ آزادی! آزادی! بے ایمان کہیں کے، دیکھتے نہیں کہ حکومت برطانیہ میں کیسے امن اور چین سے رہتے ہیں۔ لیکن ان کمبختوں کو سمجھائے کون؟‘‘ میر صاحب بہت بگڑ کر بولے۔
’’جی ہاں۔ یہ سب اسی گاندھی کی بدمعاشی ہے۔ سارے ملک کو تہ و بالا کر رکھا ہے۔ سارا اطمینان اور سکون کھو دیا۔ کیا اسی کو آزادی کہتے ہیں؟ رعیت ساری الگ بگڑ بیٹھی۔‘‘
’’جی ہاں! جس کرایہ دار کو دیکھیے سیدھے منہ بات نہیں کرتا۔ اور اولاد ہے کہ الگ ستیاناس ہوگئی۔ بڑوں کو بھی ازار میں ڈال کر نہیں پہنتے۔‘‘
جب یہ دونوں گھر پہنچے تو مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں۔ دور سے ایک آدھ بار بندوقوں کے چھٹنےکی آواز آئی لیکن پھر سناٹا چھا گیا۔ نواب صاحب اور میر ابّن باتوں میں اس طرح مشغول ہوگئے جیسے کوئی خاص بات ہوئی ہی نہ تھی۔ کھانے سے فراغت پا کر بیٹھے ہی تھے کہ نواب صاحب کے دوست مرزا فرحت اللہ بیگ آنکلے۔
’’نواب صاحب آپ نے سنا۔ آج تو گولی چل گئی۔ سنا ہے سو سے اوپر آدمی مرے اور زخمی ہوئے۔‘‘
’’جی ہاں ہم بھی گھر گئے تھے۔ وہ تو خیریت ہوگئی۔ اچھا کہیے اب کیا حال ہے؟‘‘
’’اب تو آدمی کا بچہ بھی فتحپوری سے لے کر فوارے تک دیکھنے میں نہیں آتا۔‘‘
’’اجی صاحب اور کیا؟ میر ابّن بولے، گولی کے سامنے بھی کوئی ٹھیر سکتا ہے؟ ان حرام زادوں کو اسی کی ضرورت تھی۔‘‘
اب رات کے دس بج چکے تھے۔ مرزافرحت اللہ بیگ گھر چلے گئے۔ ہوا خوشگوار تھی۔ نواب صاحب کرسی میں لیٹے حقہ گڑگڑا رہے تھے۔ میر صاحب سامنے کی کرسی میں آرام کر رہے تھے۔ نواب صاحب بولے، ’’ہاں بھئی، آج کچھمی بائی کا آدمی آیا تھا۔ کہتی ہے کہ عرصہ سے حضور سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اگر اجازت ہو تو خود حاضر ہوں۔ کیا رائے ہے؟‘‘ اس بات کو سن کر میر صاحب اپنی کرسی میں سنبھل کر بیٹھے اور ذرا تپاک سے کہا، ’’بسم اللہ!‘‘
’’چلو بھئی خود ہی کیوں نہ چلیں؟ رات پرکیف ہے۔ دوسرے وہ آدمی کہتا تھا کہ آج کل لچھمی بائی کی کوئی بہن بھی آئی ہوئی ہے۔ ذرا اس کی بھی چاشنی چکھیں۔‘‘
غرض کہ دونوں گھر سے چل دیے۔ سڑک پر بالکل سناٹا تھا۔ جیسے رات بہت گئی ہو، یہاں تک کہ ایک کتا بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ ہوا میں خنکی تھی اور ان کے ہاتھوں میں پھولوں کے گجرے۔ ایک مست کر دینے والی بھینی بھینی خوشبو پیدا کر رہے تھے۔ جب وہ قاضی کے حوض پر پہنچے تو انہوں نےدیکھا کہ سپاہی چارپائیوں پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ چاوڑی کے نکڑ پر ان کو ایک لاش خون میں لتھڑی ہوئی بھیانک اور کریہہ منظر، ابھی تک پڑی ہوئی دکھائی دی۔ اور ایک اندھی بڑھیا اور ایک اپاہج فقیر، دونوں لاغر اور کمزور، محض ہڈیوں کے ڈھنچر، بھوک اور پیاس کے مارے، دیواروں سے ملے ملے دبے پاؤں چوروں کی طرح اجمیری دروازے کی طرف جا رہے تھے۔
مأخذ : شعلے
مصنف:احمد علی