کہانی کی کہانی:’’سرمایہ داری نے ہر غریب انسان کو غلام بنا دیا ہے۔ ایک خوشگوار شام کو دو دوست ندی کنارے بیٹھ کر اپنی غربت کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ وہ اس بات سے افسردہ ہیں کہ غریب کتنی مصیبتوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ دونوں دوست اب یہاں سے چلنے کی تیاری کرتے ہیں، جبھی ایک غریب عورت ان کے پاس سے گزرتی ہے۔ ان میں سے ایک اس عورت سے فصل کے بارے میں دریافت کرتا ہے کہ وہ عورت رونے لگتی ہے۔ دوسرا دوست اس کی مدد کرنا چاہتا ہے کہ پہلا دوست یہ کہہ کر اسے مدد کرنے سے روک دیتا ہے کہ غلامی تو ان کے اندر بسی ہوئی ہے۔‘‘
ہرے ہرے کھیتوں میں سے بہتی ہوئی نہر کے کنارے بیٹھ کر دونوں دوستوں نےاپنے ساتھ کی چائے پی۔ پھر نہر کے ٹھنڈے پانی سے منہ ہاتھ دھوکر گھاس پر پاؤں پھیلاکے بیٹھ گیے۔ دور دور جدھر نگاہ دوڑتی تھی کھیت لہلہارہے تھے۔ ہوا ان میں سے تیزی سےہوتی ہوئی سائیں سائیں کرتی نکل جاتی تھی، اور گیہوں کی بالیاں خوشی اور جذبہ سے اپنے سردھننے لگتی تھیں۔ صاف شفاف نیلے آسمان پر ایک آدھ بادل کا ٹکڑا امید کی طرح چمک رہاتھا۔ ہر چیز میں ایک رومانی کیفیت تھی، اور زمین سے بشاشت کا نغمہ پھوٹ رہا تھا۔
ایک دوست نے کہا،’’یہاں سے تو اٹھنے کو جی نہیں چاہتا۔ یہی جی چاہتا ہے کہ فضا کا جزو بن کر یہیں رہ جاؤں۔‘‘ دوسرا بولا،’’وہاں بہت نایاب جگہ ہے۔ لیکن ایک طرف یہ قدرت کے کرشمے اور دلفریبی، اور دوسری طرف وہ غربت اور گندگی جس میں بیچارے کاشتکاروں کی زندگیاں گزرتی ہیں؟‘‘
’’غالباً ان بیچاروں کو دس روپیہ ماہانہ بھی مشکل سے پڑتے ہوں گے۔ گزر کیسے کرتے ہیں؟‘‘
’’مہاجن سے قرض لیتے ہیں۔ ایک مرتبہ ہم لوگ دیہات میں گیے تھے، وہاں بہت سے کاشتکاروں سے بات چیت کی۔ سب کے سب قرضہ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ بے ایمان بے ٹھکانے سود لیتے ہیں۔ ایک تو لگان دینا پڑتا ہے، دوسرے سستا زمانہ ہے۔ مشکل سے ان کو پانچ یا چھ روپیہ مہینہ کااوسط پڑتا ہے۔ کاشت کی آمدنی کا زیادہ حصہ تو لگان میں چلاجاتا ہے۔ کچھ دودھ گھی سے کمالیتے ہیں۔ لیکن میاں کتنا کماسکتے ہیں؟ بس کسی نہ کسی طرح پیٹ بھر لیتے ہیں۔ ادھر دوسرے ملکوں کے کسان ہیں۔ ولایت میں کسانوں کے گھر جاکر آنکھیں کھلتی ہیں۔ کیسی صفائی اور سلیقہ ہوتا ہے۔ وہاں تو ہم ہمیشہ چھٹی کے دن دیہات میں چلے جاتے تھے۔ کسی کاشتکار کے ہاں جاکے چائے پی لی۔ اتنی لاجواب ہوتی تھی کہ کچھ ٹھکانا نہیں۔‘‘
’’اور ہمارے ہاں چائے تو درکنار، بیچاروں کو سوکھی روٹی بھی مشکل سے میسر آتی ہے۔ دوسری طرف ہم لوگ ہیں۔ چین کی بنسی بجاتے ہیں۔ دنیا میں کتنی ناانصافی ہے۔۔۔‘‘
جب وہ نہر کے کنارے سے اٹھے تو سورج غروب ہو رہا تھا۔ آسمان پر شفق نے رنگ بکھیردیے تھے، اور اس کے رنگین عکس نہر کے پانی میں نہایت دلکش معلوم ہوتے تھے۔ دونوں نےآخری مرتبہ چاروں طرف نگاہ اٹھاکے دیکھا، اور پھر سڑک کی طرف روانہ ہوگیے۔جب وہ اپنی موٹر میں بیٹھ کے چلنے والے ہی تھے تو سامنے سے ایک گنوار عورت آتی دکھائی دی۔ اس کی عمر کوئی پچاس سال ہوگی۔ اس کے چہرہ پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں، اور وہ ایک بڈھی گائے کی طرح دبلی اور سوکھی تھی۔ دوستوں میں سےایک نے اس سے بات کرنی چاہی اور بولا،’’کیا تم اسی گاؤں میں رہتی ہو؟‘‘
وہ رک گئی اور اس طرح دیکھنے لگی جیسے اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا۔ جب اس سے یہی سوال دوبارہ کیا گیا تو بولی،’’ناہیں۔ ہم دوسر گاؤں میں رہت ہیں۔‘‘
’’اب کی پیداوار کیسی ہے۔‘‘
وہ سہم گئی اور اس طرح گھورنے لگی جیسے کوئی اس کاگلا گھونٹ رہا ہو۔ اس کے چہرہ کی ہڈیاں اور ابھر آئیں۔ وہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑائی اور خاموش کھڑی رہی۔کچھ کوے کائیں کائیں کرکے نزدیک کوڑے کے ڈھیر پر ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ ایک سیاہ کتا جس کی سخت اور سفید کھال کھجلی کی وجہ سے کریہہ منظر معلوم ہوتی تھی ،اپنے بڑے بڑے دانتوں سے اپنے پٹھے کو چباتا ہوا گزرا۔اس عورت کے چہرہ پر ایک قسم کی بھیانک افسردگی عیاں ہونے لگی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈباآئے، اور وہ ذرا خوف زدہ سی ہوکر بولی،’’ہم تو ہار بات سمجھت ناہیں‘‘
’’میرا مطلب ہے اب کی فصل کیسی ہوتی ہے۔ اچھی ہے نا؟‘‘
وہ بالکل حقیر اور ناچیز معلوم ہوتی تھی۔ اس کے چہرہ پر صرف کھال اور ہڈیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ اپنی میلی ساڑھی میں وہ ایک ایسے مردے کی طرح معلوم ہوتی تھی جو کفن پہنےہوئے قبر میں سے کھڑا ہوگیا ہو۔ کچھ دیر پریشانی سے گھور کروہ بولی،’’بہت کھراب جی۔ بہت کھراب۔‘‘اور یہ کہتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر اس طرح رونے لگی جیسے اسے اپنی حالت پر خود رنج ہو رہا ہو۔
’’ہائے بیچاری عورت۔‘‘ اس نے زور سے اپنے آپ سے کہا، اور پھر اپنے دوست سے بولا،’’معلوم ہوتا ہےبیچاری بیمار یا مصیبت زدہ ہے۔‘‘ اور وہ اپنی پتلون کی جیب میں سے اس کو دینے کے لیے کچھ پیسے نکالنے لگا۔ اس کا دوست جو اب تک خاموشی سے یہ سب باتیں دیکھ رہا تھا، اس سے انگریزی میں کہنے لگا،’’نہیں جی۔ کیوں فضول دیتے ہو۔ بیمار ویمار نہیں ہے۔ یہ تو ان کی عادت ہے۔ یہ لوگ اتنے عرصہ سے بادشاہوں اور زمینداروں کے ظلم اٹھاتےچلے آئے ہیں کہ کبھی سچ نہیں بتاتے، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ کہہ دیا کہ کاشت اچھی ہوئی ہے تو زمیندار ان سے زیادہ وصول کرلیں گے۔ ان غریبوں کو دھوکا بھی بہت دیا گیا ہے۔‘‘
’’ہاں، یہ ٹھیک کہہ رہے ہو۔ غلامی ان کی رگ رگ میں بس گئی ہے۔ اس کے اثر کو دور کرنے میں بھی عرصہ لگے گا۔ لیکن اس بیچاری عورت پر بڑا ترس آرہا ہے۔‘‘
’’نہیں میاں۔ اب بہت دیر ہو رہی ہے۔ چلو۔‘‘اور یہ کہہ کر اس نے موٹر چلادی۔ اس کے دوست نے آہ بھری اور پیچھے مڑکر دیکھا، وہ عورت ابھی تک کھڑی ہوئی اپنی ساڑھی کےدامن سے اپنے آنسو پونچھ رہی تھی۔ پھر یکایک موٹر کی گرد نے اس کو گھیر لیا اور وہ آنکھوں سےاوجھل ہوگئی۔
مأخذ : شعلے
مصنف:احمد علی