پھیلتا ہوا کاجل

0
192
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

’’اس وقت کا خیال کرو جب عورت کا بال سفید ہوجاتا ہے، جب عورت کے پھل پک کر سڑ جاتے ہیں اور معاشرے کی خود کار مشین اس کو اگلی قطار سے پھٹک کر پچھلی قطار میں پھینک دیتی ہے۔ اتنی دیر میں اگلی قطاروں میں نئی لڑکیاں آجاتی ہیں۔‘‘

’’آجاتی ہوں گی۔‘‘ سلیمہ بغیر کسی ر د عمل کے بولی۔ چہرہ کورے کا کورا۔ جوار نہ بھاٹا۔ جیسے جامد پانی میں کنکر تک نہ گرے۔

یہ بات نصر ہی نے نہیں کہی تھی۔ ایسی باتیں کئی لڑکے اور کہہ چکے تھے۔ جب کوئی لڑکا سلیمہ سے ملتا، وہ میٹھی گولیاں چوسنے کو دیتی۔ لڑکا چوستارہتا۔ میٹھی چاشنی میں لپٹی ہوئی مہین مہین باتیں بے ربط عورت کی صحبت کو ترستے ہوئے لڑکے بالے کیا، پکے پکائے مرد بیٹھ کر ٹھرک پورا کرتے رہتے۔ ادھر خود پرستی اور نرگسیت کو غذا ملتی رہتی۔ غضب یہ ڈھاتی کہ لڑکے کو گھر بلا لیتی۔ اس بے چارے کی فانسئی اور رومانس ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔ ملنے کو سو جگہیں اور ہیں۔ اس میں کیا تک کہ گھر میں بلاکر ماں سے ملو، بہن سے ملو، بھائی سے ملو، یہ تو ستم کاری ہے۔ محبوب کا ستمگر ہونا تو جائز ہے مگر ستمگار نہیں۔ کئی لڑکے دُم دباکربھاگ جاتے۔ پانی کے جوہڑ میں کوئی کنکر نہ گرتا۔

ہر سال آبادی بڑھ رہی ہے۔ لڑکے جوان ہورہے ہیں۔ کوئی اور آجاتا۔ لڑکیوں کا جھرمٹ لگ جاتا، گھر بلالیتی۔ پکھوے سے لگی بیٹھی ہیں۔ چائے بنتی، تردد ہوتا، ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چہل قدمی ہوتی۔ ’’دیدی، دیدی‘‘ کہہ کر ان کا منہ سوکھتا۔ ماں بہن خوش نہال کہ سلیمہ پاپولر اور سوشیل ہورہی ہے۔

ہمجولیاں تو الگ، پُرانی شاگردیں گھر بار والی ہوگئیں۔ کوئی لیبیا، کوئی کویت، کوئی سعودی عرب، موٹریں دوڑتی پھرتیں۔ خاوند ملا بچے ہوئے۔ بھول بھال گئیں۔ کوئی ہوتی تھیں دیدی، جو ان کو چندا کہا کرتی تھیں۔ چاند ڈوب جائے تو نئے کو نکلنے میں کتنے دن لگتے ہیں۔ سلیمہ کو پیچھے مڑ کر دیکھنے کی فرصت کب تھی۔ اس کی چاہنے والیاں ہر روز ہر ہفتے ہر مہینے پیدا ہوجاتیں۔ میٹھے میٹھے خطاب اس کی زبان سے کھسکے تھوڑی تھے۔ زبان پر سے مٹھاس کے اُترنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ زندگی گزارنے کی ہر ایک کی اپنی طرز ہوتی ہے۔ رنگ پختہ چڑھ جائے تو شخصیت کا جز و بن جاتا ہے۔ یہ سب باتیں اور طریقے اب خود رنگ ہوچکے تھے۔

- Advertisement -

جب طبیعت مدافعت کا مورچہ بن جائے اوریہ ٹھن جائے کہ شادی کا نوٹس ہی نہیں لینا۔ کوئی جتنا کہے اتنا عملی اور عقلی دونوں طرح سے مقابلہ تو پھر۔ اپنی پوجا کرنے والی لڑکی دوسرے کا بت تو نہیں پوجتی۔ شیریں جب قصر شیریں سے جھانکے ہی نہ تو فرہاد تیشہ لیے کوہکنی کے لیے کیوں حاضر ہو! پتھر کچھ دیر پڑا رہے تو بھاری ہوکر جم جاتا ہے۔ انسان اوپر سے ہوکر گزر جاتا ہے۔ ڈھور ڈنگر ٹھوکر مارتے ہیں۔ کتا زیادہ سمجھداری دکھاتا ہے۔ موت کر گزر جاتا ہے۔

اپنے اوپر شباب میں کون عاشق نہیں ہوتا۔ لڑکیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ پھر کچھ دیر بعد جی چاہنے لگتا ہے کہ اس عاشقی میں کسی اور کو بھی شامل کرلیں۔ عاشق بنیں معشوق۔ جل کر یا جلاکر ایک طرح سے لطف آنے لگتا ہے مگریہ کھیل لمبا نہ بنے تواچھا ہے۔ ایک ماں نے جب یہ دیکھا کہ آٹھویں جماعت کا لڑکا اپنی کاپی میں لڑکیوں کی تصویریں کاٹ کاٹ کر لگاتا رہتا ہے تو بڑی گھبرائی۔ ایک روز کاپی لے کر نفسیاتی معالج کے پاس پہنچی اور اس نے اپنی گھبراہٹ کا ذکر کیا۔ کاپی دیکھ کر نفسیاتی معالج بولا، ’’محترمہ گھبرانے کی بات نہیں۔ یہ تو صحت مند نشانی ہے۔ اگر لڑکا لڑکیوں کی بجائے لڑکوں کی تصویریں کاپی میں لگاتا تو پریشانی ہوسکتی تھی۔‘‘

دراصل انسان کو بنتے اور بگڑتے ہوئے کون دیکھتا ہے۔ ا س کی شخصیت کی بھٹی میں کیا کیا کچرا آکر گرتا ہے اور پگھل کر جذب ہوجاتا ہے۔ یہ کس کو دیکھنے کا حوصلہ ہے۔ مرد عورتوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ عورتیں مردوں سے۔ دونوں کے فیوز کیوں اس طرح اُڑ جاتا ہیں کہ تار جوڑنے مشکل ہوجاتے ہیں۔ بختیار نے کتنا چاہا کہ سلیمہ سے شادی ہوجائے۔ تنگ آکر وہ اسے گھر لے گئی کہ اب کم بخت بھاگے گا مگر سلیمہ کی چال کامیاب نہ ہوئی۔ وہ چمٹا رہا۔ آخر سلیمہ نے انکار کرنے کی گردان شروع کردی۔

کسی کو سمجھ میں نہ آتاتھا کہ وہ عمر کس کے لیے بتا رہی ہے۔ شکل کی پری ہوتی تو بات سمجھنے میں آسانی تھی کہ خوبصورت شہزادے کا انتظار کیا جارہا ہے۔

کئیوں کا خیال تھا سلیمہ کا مزاج بگڑ گیا ہے۔ بڑوں بڑوں کی بیٹیاں اس کے ساتھ رہیں۔ جو اپنے منصب کے مطابق ٹھنا ٹھن بیاہی گئیں۔ معمولی شکل کی یہ بگڑی مزاج بھی اب ان جیسا ٹھنا ٹھن رشتہ چاہتی ہے۔

بعض لڑکیوں پر تو عاشق ہوجانے کو جی چاہتا ہے۔ بعض کے ہاتھ صرف خط بھیجنے کو جی چاہتا ہے۔ سلیمہ کو بھی خط لے جانے والی کنواریوں میں شامل کرلیجئے۔ اسے کنواری کہلانے میں بڑا لطف آتا، جیسے خلا سے نکل کر وہ چاند پر اُتر جائے اور قدموں کے نیچے چندا کی دھول اڑنے لگے۔

’’عورت کی شخصیت تو شادی کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔‘‘ یہ بھی اس کی ایک دلیل تھی جو اس نے عورتوں کے رسالے سے اخذ کر رکھی تھی۔ اگر کوئی کہتا کہ عورت کی اہمیت تو شادی کے بعد بڑھتی ہے تو وہ نین مٹکاکر ہونٹوں پر زبان کی تری پھیرتی اورکہتی، ’’میں نہیں مانتی۔‘‘

بوتیق شاپ کا علی بھائی کہتا، ’’ام بولتا ہے اس چھوکری کا کوئی پرزہ ڈھیلا ہے۔ ڈھیلے کا کام نہیں کرتی۔ واؤ چر کا ٹنا بھی نہیں آتا۔ سیلز گرلز کو کام نہیں کرنے دیتی۔ بار بار اپنے پاس بٹھا لیتی ہے۔ ام سیٹھ کو بولتا ہے۔ وہ سنتا ہی نہیں۔‘‘

سیٹھ کیا سنے گا۔ سیٹھ کے ساتھ جس نے مل کر بوتیق شروع کی، اس کی سفارشی لڑکی تھی۔ معمولی نوکری کے بعدبوتیق شاپ کا ستھرا ستھرا ماحول ملا، جہاں بیگمات سے ملاقات ہونے لگی۔ ان کے سامنے بچھتی جاتی۔ چائے پوچھتی۔ وقت بے وقت چوکیدار کوٹپ کرتی۔ کیشیر کے بیوی بچوں کا حال احوال پوچھتی۔ سیلز گرلز کو گرم پکوڑے اور سموسے کھلاتی۔ اس فضا میں سلیمہ نے اپنے بھائی کی شادی کے دعوتی کارڈ بانٹے۔ سیلز گرلز چوکیدار کیشیئر تو پہنچے۔ علی بھائی بھی شریک ہونے کو چلے گئے۔

’’بھائی یہ چھوکری جب دعوتی کارڈ لے آئی، اس طرح منت خوشامد کرنے لگی کہ ہم کیا بولتا، آنا پڑا۔‘‘

’’یہ پکی پیٹھی چھوکری ہے۔‘‘

ارے بھائی لوگ ادھر چھوکری بولتا ہے۔

عورتوں میں بھاری کام کے دوپٹے، غرارے، ساڑیاں، بیل باٹم، ٹیونک، میکی، ٹراؤزر سوٹ لباس کی نوع بہ نوع دھکم پیل۔ اس دعوت میں سلیمہ کی عروج سے ملاقات ہوئی۔ چھوٹے کمرے میں سلیمہ اپنے ملنے والوں میں میٹھی میٹھی گولیاں بانٹ رہی تھی۔ سلیمہ کے ہیئر پیس کی ایک زلف اس کے کان کے پاس لہرا رہی تھی۔ جب وہ اٹھنے لگی تو عرج نے ہاتھ بڑھا کر وہ زلف ٹھیک کردی اور کان میں کہا آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں۔ دونوں آنکھوں میں مٹھاس بھر گئی۔ اس کے بعد سلیمہ جہاں جاتی عروج وہاں پہنچ جاتی۔ سلیمہ شیشہ کے سامنے کھڑی اپنی ساڑی ٹھیک کرنے لگی۔ عروج آپہنچی۔

’’میں بھی ٹھیک کرلوں؟‘‘

’’کیوں نہیں ضرور۔‘‘

’’آپ کی بلاؤز بہت عمدہ سلی ہے۔‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’میں بتاتی ہوں۔ دیکھیے نا۔۔۔‘‘عروج نے بلاؤز کی گوٹ کو چھوا۔ پھر جیسے انجانے میں سلیمہ کے ننگے پیٹ پر انگلیاں کچھ پھسلیں، کچھ رینگ گئیں۔ ’’نہ بہت اونچی ہے نہ بہت نیچی ہے۔ بالکل جہاں ہونی چاہئے۔۔۔‘‘ پھر عروج بولی، ‘‘ میری بلاؤز دیکھئے۔ ذرا نیچی سلی ہے نا؟‘‘ بلاؤز کو اپنی ننگی ناف سے کافی اوپر کھینچتے ہوئے وہ بولی، ’’دراصل یہاں ہونی چاہیے تھی۔ کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘

’’میرا خیال ہے آپ کا پیٹ بہت خوبصورت ہے۔‘‘ عروج نے ہنس کر سلیمہ کواپنے ساتھ لپٹا لیا۔

مہمان رخصت ہونے کا وقت آیا تو عروج سلیمہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولی، ’’میری خوش قسمتی ہے کہ اس تقریب میں آپ سے دوستی ہوگئی۔ میں رخصت پر آئی ہوئی تھی۔ میں ٹیچنگ لائین میں ہوں۔ آپ بوتیق میں ہیں۔ اپنا ٹیلی فون نمبر دے دیجئے۔ جانے سے پہلے آپ سے مل کر جاؤں گی۔‘‘

’’ضرور مل کر جائیے۔‘‘

’’ہائے آپ تو اتنی اچھی ہیں۔ میں ملے بغیر کیسے جاسکتی ہوں۔‘‘

سلیمہ کی خود پرستی کے خشک پرزوں میں ٹھنڈی ٹھنڈی پیپرمنٹ ٹپک گئی۔

علی بھائی بوتیق شاپ میں کہہ رہا تھا، ’’یہ رونگ ہے، اپنی چھوکریوں پر ایک دم سختی کرتا ہے۔ بھائی، ام صرف کا م مانگتا ہے۔ اپنی بھوؤں کے سارے بال نوچنے سے چھوکری کو تکلیف نہیں ہوئیں گا۔ کام کرنے سے تکلیف ہوئیں گا۔ تم عجب مشخری کی بات کرتا ہے۔ ہیلو۔ بوتیق شاپ۔ کون بولتا ہے۔ ہولڈ آن کریں۔ ابھی بلائیں گا۔‘‘

اس نے چپراسی سے کہا، ’’سلیمہ کو بولو، اس کا فون ہے۔‘‘

سلیمہ فون پر باتیں کر کے چلی گئی تو علی بھائی نے کہا، ’’دیکھو، اس چھوکری نے اس کو بولا ہے آجاؤ۔ اب کام ایک دم بند۔ ایک گھنٹہ باتیں ہوئیں گا۔‘‘

انداز ہ صحیح تھا۔ پہلے چپراسی چائے اور سموسے لایا۔ پھر پان آئے۔ پھر سگریٹ آئے۔ ایک گھنٹہ بعد عروج کمرے سے باہر نکلی۔ سلیمہ ٹیکسی میں بٹھانے کے لیے سڑک تک گئی۔

’’آپ کی مدارات نے میرا دل موہ لیا ہے۔ میں آپ کو خط لکھوں تو جواب کی توقع رکھوں؟‘‘

’’آپ خط لکھیں تو مجھے خوشی ہوگی۔‘‘

چند خط آئے۔ پھرنہ آئے۔ کوئی پون سال بعد ایک پرچہ آیا۔ آپ کو شاید یہ جان کر خوشی ہو کہ میری تبدیلی آپ کے شہر میں ہوگئی ہے۔ بس اب لمبی غٹر غوں ہوگی۔

سلیمہ کے پاس کوئی نہ کوئی مرد بیٹھا ہوا ہوتاتھا۔ عروج سوچتی یہ ابھی دفان ہوگا تو اور آجاتا، پھر کوئی اور آجاتا۔ عروج نے فون پر کہا، میں محبت کی ماری تمہاری بوتیق شاپ پر خاک آؤں۔ وہاں تو تمہارے ایڈمائیرر بیٹھے ہوتے ہیں، جن سے مجھے شرم آتی ہے۔ دراصل مجھے ان سے جیلسی ہوگئی ہے۔

سلیمہ خوش ہوکر بولی، ’’تم گھر آؤ نا، سب تمہیں یاد کرتے ہیں۔ میرے ماموں، میرے والد، میری والدہ، وہ سب تم سے اتنا پیار کرتے ہیں۔‘‘

سلیمہ محض عروج کو خوش کرنے کے لیے سفید جھوٹ بول رہی تھی۔ ہائے کتنے اچھے ہیں اس کے بھائی، اس کے ماموں، اس کے والد، اس کی والدہ، سب مجھ سے اتنا پیار کرتے ہیں۔ کچھ دیر بیٹھی گولیاں چوستی رہے گی اور سلیمہ کے پیار محبت کا سلو پائزن رگ رگ میں سرایت کرتا رہے گا۔ کیا وارداتِ دل میں طریق واردات کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جرم میں جب طریق واردات محقق تو کیا جرم محبت میں کوئی طریق واردات نہیں؟ زبان کا یہ چرب طریق واردات ہی تھا۔ سب مجھے مانیں۔ میں سب کی چہیتی ہوں۔

گھر کے سب فرد عروج کے سامنے بچھتے چلے جارہے تھے محض اس لیے کہ وہ سلیمہ کی دوست تھی۔ نوکری پیشہ کماؤ تو وہ بھی تھی مگر اس کے گھر والے اس کے ملنے والیوں کے سامنے اس طرح تو فرشِ راہ نہ ہوتے تھے۔ اسے شک پڑا، شاید کوئی مرد اس میں دلچسپی لے رہا ہے۔ گھر کے مردوں کی نگاہیں میں جھانکا، وہ کرن جو محبت کرنے والے کی نگاہ میں ہوتی ہے، وہ کسی کی آنکھ میں نہ تھی۔ فقط بجھی بجھی سوئی سوئی آنکھیں۔

ایک دن سلیمہ نے محسوس کیا، عروج کا کسا کسا پیٹ توند بن کر جرسی میں سے دکھائی دے رہا تھا۔ عروج نے دیکھا، سلیمہ کا پچھواڑہ بھاری ہوچلا تھا، جس کی وجہ سے اس کی رفتار پر اثر پڑ رہا تھا۔

’’میں سگریٹ پینا چاہتی ہوں۔ اب تمہارے کمرے میں کوئی آئے گا تو نہیں؟‘‘

’’بے تکلفی سے پیو۔‘‘

عروج نے سگریٹ کی ڈبیا لی اور دیا سلائی جلائی اور سگریٹ پینے لگی۔

’’تم جس طرح نفاست سے سگریٹ پیتی ہو، بہت کم کو میں نے اس نفاست سے سگریٹ پیتے دیکھا ہے۔‘‘

عروج مسکرائی۔ پھر ٹھنڈی سانس لی، ’’میں نے اپنے اِن لاز سے سگریٹ پینا ہی تو سیکھا۔‘‘

میں توتمہیں کنواری سمجھتی تھی۔‘‘

ایک سال بعد کہانی ختم ہوگئی تھی۔ میں کنواریوں سے کم تو نہیں۔ کسی روز میرے یہاں آؤ تو ساری داستان سناؤں۔

سلیمہ باہر چھوڑنے گئی۔ جسم کپکپایا۔ چند چھینکیں آئیں۔ عروج کی طرف جس روز جانا تھا، اس روز بخار سے پھنک رہی تھی۔ عروج تھرما میٹر لگاتی، دوا پلاتی، گرم دودھ کے چمچے حلق میں اتارتی۔ سر دکھتا، سر دباتی۔ کمر دکھتی کمر دباتی۔ ٹانگوں میں درد اٹھتا ٹانگیں دباتی۔ پورے آٹھویں دن بخار ٹوٹا۔ سلیمہ کے والد نے کہا، ’’رات کو جاتی ہو، صبح آجاتی ہو، ایسی ہمدر د لڑکی تو کوئی ہوتی ہوگی‘‘۔ سلیمہ کے گھر والوں کے دل میں گھر کر گئی۔

بلّی کھڑکی کی جالی کے ساتھ منہ لگائے بیٹھی باہر دیکھ رہی تھی۔ سامنے کوارٹر تعمیر ہورہے تھے۔ ایک گراج پر عشق پیچاں کی بیل چڑھی ہوئی تھی۔ اس میں دُھنیا بیٹھا روئی دھن رہا تھا۔ عروج اور سلیمہ گاؤ تکیے کا سہارا لیے بیٹھی تھیں۔ عروج کی آواز کسی اندرونی غم سے بوجھل تھی۔ وہ اپنی ناکام شادی کا قصہ لپیٹ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آتے اور سوکھ جاتے۔ ڈھلک آتے تو سلیمہ ہمدردی سے اپنے دوپٹے کے پلو سے پونچھ دیتی۔ عروج نے سلیمہ کا ہاتھ پکڑ کر سینے پر رکھ لیا، ’’میرا دل کس طرح دھڑک رہا ہے۔ میرا ہاتھ کس طرح کانپ رہا ہے۔‘‘

سلیمہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دبانے لگی۔

’’میں نے اپنی رام کہانی سناکر تمھیں پریشان کیا؟‘‘

’’قطعاً نہیں۔۔۔ ایسی دو لخت زندگیاں گھر گھر موجود ہیں۔‘‘

’’ٹھیک کہتی ہو۔ میں جسے اماں جی کہتی ہوں، جو باہر بیٹھی چائے بنا رہی ہے، میری دور کی رشتہ دار ہے۔ ساری عمر شوہر نے آباد نہیں کیا۔ ایک دفعہ جب چائے خراب بن جائے تو دوسری دفعہ پیاز والا ہاتھ لگ جاتا ہے، تیسری دفعہ دھوانکی جاتی ہے۔ شروع میں درزی سے کپڑا خراب ہوجائے تو پھر لاکھ جتن کرے، ٹھیک کرے ٹھیک نہیں ہوتا۔ شادی ٹھیک ہوجائے تو ہوجائے، کسر رہ گئی تو رہ گئی۔ بس اس طرح مجھے مرد سے نفرت ہوگئی۔ اپنی بلی کی طرح جو کھڑکی کی جالی سے لگ کر بیٹھی ہے۔ اس کو نر سے نفرت ہے۔ میں دھکے دے کر نکالتی ہوں۔ یہ الٹا میری گودمیں خرخر کرنے لگتی ہے۔‘‘

عروج اپنا ہاتھ بلی پر پھیرنے لگی جو کمر اکڑا اکڑا کر پیار لیتی۔ ہاتھ جب کمر سے دم پر جاتا تو وہ گردن جھکا کر پچھلے دھڑ کو اٹھا لیتی جیسے اس کا سارا وجود سپردگی کی آگ میں جل جانا چاہتا ہو۔ پھر وہ بلی کو گود میں لے کر بیٹھ گئی۔ بلی خرخر کرنے لگی اور کچوں میں آئی ہوئی قمیص کے گوڈر کو اگلے پنجوں سے لتاڑ نے اور دانتوں سے کچکچانے لگی۔

جب یہ ننھے ننھے پنجوں کی سوئیاں چبھوتی ہے تو میرے بدن میں خچنپیاں پھوٹنے لگتی ہیں۔ ہٹ مانو بلی! وہ دیکھ اماں جی چائے لے آئیں۔ عروج نے بلی کو دونوں ہاتھوں سے اٹھاکر کھڑکی میں بٹھا دیا اور چائے کی طرف متوجہ ہوئی۔

سلیمہ نے کندھے پر آئے بالوں کو جھٹکا دے کر کہا، ’’کیک منگانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

’’چندا، تم غسل صحت کر کے آؤ اورمیں کیک بھی نہ منگاؤں؟مجھے تو موتی چور کے لڈو منگانے چاہئیں تھے مگرموتی چور تم آپ ہو۔‘‘ اپنی تعریف سن کر سلیمہ کی آنکھوں میں مٹھاس بھر گئی۔ اس نے گردن کو جھٹکا تو بال ماتھے سے ہٹ گئے۔

’’تمہارا یہ جھٹکنا مجھے پھٹک دے گا۔‘‘

عروج نے کیک کاٹ ڈالا، ’’سلیمہ! اگر تم سر کو دائیں بائیں جھٹکتے وقت ساتھ آنکھ بھی مار دو تو مرد تباہ و برباد ہوجائیں۔‘‘

’’عروج تمہاری شربتی آنکھیں، ان کے گرد ہلکی ہلکی سیاہی، ان میں آنکھ کا دمکتا موتی، نیچے چیک بونز (Cheek Bones) بھرے بھرے بازو، اپنی کشش کا پتا نہیں تمہیں؟‘‘

عروج نے بازوؤں کی طرف نظریں گزاریں، اور پھر بیچ والے حصے کی طرف دیکھ کر بولی، ’’بس صرف بازو بھرے بھرے؟‘‘

’’نہیں چھاتیاں بھی رسارس۔‘‘

’’ہائے میں سنیما کیا پہن کر جاؤں۔ ساڑی یا ٹراؤزر سوٹ؟‘‘

’’ساڑی۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘

عروج چائے پینے کے بعد کمرے میں ساڑی باندھنے چلی گئی اور سلیمہ کھڑکی میں آکر کھڑی ہوگئی۔ اس نے بلی پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا۔ پھر بلی کو اپنی گود میں لے کربیٹھ گئی۔ بلی کچوں میں سر دے دے کر منہ سے خرخر کرنے اورپنجوں سے لتاڑنے لگی۔

عروج نے آواز دی، ’’سلیمہ! ذرا اندرآنا۔‘‘

وہ شیشے کے سامنے صاف پیٹی کوٹ پہنے دو کبوتروں کواٹھائے کھڑی تھی۔ سلیمہ بولی، ’’اوئی۔ بیوٹی فل۔‘‘ عروج نے کسمسا کر منہ موڑا اور کبوتروں کو غلاف میں ڈال دیا۔ جب اس نے اپنی بھری بھری باہوں کواٹھاکر بازو کٹی باڈز پہنی توبلیڈ سے بار بار منڈھی بغل کی کھال دکھائی دی، جس کی رنگت پر امن فاختہ کے سلیٹی پروں کی سی ہوچکی تھی۔ سلیمہ نے سر کو جھٹک جھٹک کر بالوں میں کنگھی پھیری۔ اپنے پرس سے لپ اسٹک نکال کر ہونٹوں پر تہہ جمانے لگی۔ عروج نے ساڑی باندھ کر اپنے آپ کو آگے پیچھے سے دیکھ کر ننگے پیٹ سے کچھ ساڑی کھسکا دی۔ دنیا میں بدن کی شرم سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ مگر اپنے آپ کو ظاہر کرنا آج کل سب سے بڑا فیشن ہے۔

ٹیکسی والے نے ایک جھٹکا دے کر اپنی گاڑی سنیما کے سامنے روک دی۔ عروج نے احتجاج کیا، ’’ڈرائیور صاحب! آپ اس طرح گاڑی روکتے ہیں؟ اس جھٹکے سے تو بچہ بھی ضائع ہوسکتا ہے۔ آٖپ کو معلوم ہے ہم دونوں پیٹ سے ہیں۔‘‘

’’معافی چاہتا ہوں بی بی۔‘‘

’’توبہ توبہ!‘‘ سلیمہ نے اپنے ہونٹ کاٹ لیے۔ سیڑھیاں چڑھتے وقت بولی، ’’روحی جی! تم آج بہت فارم میں ہو۔‘‘ عروج اور کھل اٹھی، ’’تفریح ہوجانی چاہیے کبھی کبھی۔ اس طرح ہنس بول لینے سے غموں کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔‘‘

فلم دیکھنے کے بعد دونوں اداس ہوگئیں۔ سلیمہ ٹیکسی سے اترتے وقت بولی، ’’تمہارے ساتھ آج اچھی گپ شپ رہی۔‘‘

’’جو رہی سو رہی، اب گھرجاکر تو بستروں پر پڑ رہوں گی۔ میری تنہائی کا بھی خیال کرو۔‘‘

’’یعنی کوئی رشتہ؟‘‘

’’ڈھونڈو نا پھر۔۔۔‘‘

’’علی بھائی کیسا ہے۔ تمہارا پوچھتا رہتا ہے۔‘‘

’’مجھے کب انکار ہے۔‘‘

رات بھر باہر والے کواڑ کے ساتھ لگ کر نر بلاّ زور زور سے روتا رہا۔ اوربلی عروج کی گود میں خر خر کرتی رہی۔ صبح ناشتہ دیتے وقت اماں جی نے کہا، ’’تم فلم دیکھنے چلی گئی تو یہ بلا آکر اسی طرح روتا رہا۔ میں نے بلی کو دو دفعہ باہر پھینکا مگر ان دونوں بار یہ مردار اندربھاگ آئی۔‘‘

چند روز بعد سلیمہ کی ماں نے کہا، ’’پڑوسیوں کی شادی ہے۔ دو دن کے لیے دو کمرے مانگ رہے ہیں۔ ایک تیرے والا سلیمہ اور دوسرا ساتھ والا۔‘‘

عروج انکساری اور ہمدردی کا پیکر بن کر بولی، ’’تو سلیمہ میری کٹیا میں دو دن رہ لے گی۔‘‘

سلیمہ کی ماں نے جواب دیا، ’’اتنے اچھے کمروں کو تم کٹیا کہتی ہو۔‘‘

’’تو ٹھیک ہے امی، میں اپنی چیزیں الماری میں رکھ کر تالہ لگا دوں گی۔‘‘

شادی والے گھر ڈھولک بجنے لگی۔ مہمان اُترنے لگے۔ مکان پر بتیوں کی جھالریں لٹکنے لگیں۔ مہندی کی رسم پوری ہوچکی تو چاند سورج کی جوڑی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ایک کار میں سوار ہوکر عروج کے گھر جا اترے۔ عروج نے کہا، ’’سلیمہ تو غرارے میں سب سے اچھی لگ رہی تھی۔ تمہارے پچھواڑوں نے غرارے کو اس طرح بھر دیا ہے جیسے اس میں انڈیلے گئے ہوں۔‘‘ اس نے سلیمہ کے پچھواڑے پر زور سے چٹکی بھری۔ وہ ’’اوئی‘‘ کر کے اٹھلائی اوربولی، ’’مجھے یہاں نہ چھیڑو۔‘‘

پھر اماں جی کو حنا بندی کی باتیں سنا کر وہ اندر چلی گئیں اورپلنگ پربیٹھ کر شادی والے گھر مہمان اترنے والی عورتوں پر رائے زنی کرنے لگیں۔ عروج سگریٹ سلگا کر نیم دراز ہوگئی۔ ایکا ایکی اس کا چہرہ اُداس ہوگیا۔ سلیمہ سر جھٹک کر بولی، ’’روحی جی! اُداس کیوں ہوگئی ہو؟ کیا اپنی بیاہ والی رات یاد آرہی ہے؟‘‘

عروج چپ رہی۔ سلیمہ نے پھر کہا، ’’گورو مہاراج کیا ہوگیا ہے؟‘‘

عروج نہایت رنجیدہ لہجہ میں ہونٹ میچ میچ کر بولی، ’’چندا تم نے مجھے اس طرح جھڑک دیا ہے کہ میرادل مغموم ہوگیا ہے۔‘‘

’’میں نے کب جھڑکا؟‘‘

’’مجھے یہاں نہ چھیڑو، تم نے اتنی سختی سے کہا ہے کہ میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ہے۔‘‘

’’مجھے بتاؤ، تمہارا دل کہاں ہے؟‘‘

’’یہاں۔‘‘

سلیمہ نے اپنے ہاتھ کا کٹورہ اس کے دل پر رکھ دیا، ‘‘ یہ تو ثابت ہے، کہاں ہے ٹکڑے ٹکڑے؟‘‘

عروج کچھ سن کر کچھ بن کر بولی، ’’اس گھلا وٹ سے دیکھتی ہو کہ تمہارے سامنے کپڑے اتار دینے کو جی چاہتا ہے۔‘‘

سلیمہ نے کھانس کر منہ دوسری طرف کرلیا اوربولی، ’’وہاٹ اے کامپلی منٹ؟‘‘

’’اورنہیں توکیا۔‘‘ عروج نے ختم ہوتے سگریٹ کا آخری کش لے کر مسل ڈالا۔ سلیمہ اٹھ کر اپنی اٹیچی میں سے شلوار نکال کر اس میں ازار بند ڈالنے لگی۔

’’شلوار پہنوگی؟‘‘

’’ہاں!‘‘

’’مجھ سے نائٹی لے لو۔‘‘

آبادی میں گھومنے والے چوکیدار کی آواز آئی، ’’جاگتے رہنا۔‘‘ یہ سن کر عروج پلنگ سے اٹھ بیٹھی اوربولی، ’’کیا اتنی رات ہوگئی؟‘‘ پھر بسترکی سلوٹوں کو ہاتھ سے درست کرکے بولی، ’’دیکھو اماں جی نے تمہارے لیے فالتو تکیہ اور چادر بھی رکھ دی ہے۔‘‘ پھر وہ ساتھ والے کمرے میں جاکر کپڑے تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ باتوں کا تبادلہ بھی کرتی رہی۔

’’تمہاری بوتیق میں Nighties بڑی Exciting ہونی چاہئیں۔‘‘

اپنا غرارہ اُتارتے ہوئے سلیمہ نے کہا، ’’ایک سے ایک اچھی ہیں۔ پرائز بھی زیادہ نہیں۔‘‘

اندر سے عروج نے مشورہ دیا، ’’اگر مجھے ماڈل گرل رکھ لو تو کیا برائی ہے؟‘‘

غرارہ تہہ کرتے ہوئے سلیمہ نے جواب دیا، ’’یہ تو اچھائی ہے۔‘‘

عروج آئینہ میں اپنا سرا پا دیکھ کر بولی، ’’ہائے میں بڑی اچھی لگ رہی ہوں۔‘‘

سلیمہ نے پلنگ پر بیٹھنے سے پہلے کہا، ’’کون کہتا ہے تم اچھی نہیں ہو!‘‘

نائٹی کو عروج اپنے اوپر فٹ کر کے بولی، ’’سچ کہتی ہو؟‘‘

سلیمہ جو اتنی دیر میں پلنگ پر بیٹھ چکی تھی، بولی، ’’تبھی تو وہ لڑکا تمہیں بار بار دیکھتا ہے، میں نے تمہیں کہنی ماری تھی۔‘‘

’’وہ IDIOT شیخ چلی کا بیٹا لگتا تھا۔‘‘

جب نائٹی پہن کر عروج آئی، سلیمہ پلنگ پر بیٹھی اوپر لینے کے لیے چادر کھول رہی تھی، بولی، ’’شیخ چلی کا بیٹا کیوں؟‘‘

’’سوچتا ہوگا یہ مجھ پر مر مٹے گی۔ میں اس کو بوتل کی طرح اپنی ہپ پاکٹ میں ڈال لوں گا۔ جب چاہا چکھ لیا۔ مرد کی ذات اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہے۔‘‘ یہ کہتے کہتے پلنگ پر چڑھ کر سلیمہ کی چادر میں گھس گئی۔

’’سلیمہ مرد کی ذات سے تمہارا بھی واسطہ پڑتا ہے۔ تم تو بہتر جانتی ہو کہ انھیں اگرنچایا جائے تو بندر سے اچھا ناچ سکتے ہیں۔‘‘

سلیمہ بولی، ’’روحی جی! تم نے خوب کہا۔‘‘

چندا جب تم عروج کو روحی جی کہتی ہو تو تمہارا منہ چوم لینے کو جی چاہتا ہے۔‘‘عروج نے یہ کہہ کر سلیمہ کے رخسار چٹاخ چٹاخ چوم ڈالے۔ سلیمہ نے اپنے آپ کو کم پڑتا محسوس کیا اور اس کچھ کو پورا کرنے کے لیے یہی کہہ سکی، ’’ہائے! کیا تم مجھے اتنا چاہتی ہو؟‘‘

عروج نے اپنے ساتھ لپٹا کر کہا، ’’اس سے بھی زیادہ۔‘‘

شکریہ کے طور پر سلیمہ نے عروج کی ٹھوڑی پر بوسہ دے کر کہا، ’’گڈ نائٹ۔‘‘

عروج نے سلیمہ کے ہونٹوں کو زور سے چوما اور مٹھار کر بولی، ’’ہیپی ڈریمز۔‘‘ سلیمہ نے اپنے اوپر چادر کھینچ کر کروٹ لے لی۔ عروج نے تکیہ کو مروڑ کر اپنے سر کے نیچے رکھا۔ دوسری طرف کروٹ لے کر آنکھیں بند کرلیں۔ پاؤں کے ساتھ لگی بلی کی خر خر عروج کو اچھی نہ لگی۔ اس نے اٹھ کرکھڑکی کھولی اور بلی کو باہر پھینک دیا۔

غسل خانے میں جلنے والے بلب کی ہلکی ہلکی روشنی آتی رہی اور پھر کبھی دور نزدیک سے چوکیدار کی آواز ’’جاگتے رہنا‘‘ سنائی دیتی رہی۔ عروج کے جسم و ذہن پر جو خیال حاوی تھا، اسے وہ عمل میں بدلنا چاہتی تھی، مگر اس خوف کے مارے کہ سلیمہ سے کہیں بگاڑ نہ ہوجائے، وہ اس خیال کو دور پھینک دیتی تھی۔ پھر اسی خیال کا ریلا آکر اس کے ارادے کی قوت پر ٹھونگیں مارنے لگتا۔ بہت دیر اسی طرح کے سوتے جاگتے کی کیفیت میں رہنے کے بعد اس نے سلیمہ کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ سلیمہ نچنت سورہی ہے تو اس نے اس کے رخساروں کو چوما۔ ٹھوڑی پر بوسہ دیا۔ لبوں پر زبان کی نوک رکھی تو سلیمہ نیند میں بڑبڑائی۔

عروج کو لگا جیسے چاند پر اترنے والی تھی کہ پھر خلا میں گھومنے لگی۔ وہ احتیاط سے برساتی کینچوئے کی طرح ملائم سے ملائم نشیب و فرازپر رینگ گئی۔ کوئی مدافعت نہ ہوئی تو اس کا ہاتھ یقین کی طرح سخت ہوتا چلا گیا مگر اسے جیسے کسی کمی کا احساس ہورہا تھا۔ وہ سلیمہ کے حساس حصوں کوٹٹولنے لگی۔ جب اس کی انگلیاں کمر کے اتار سے نیچے فانوس سے چھوئیں تو سلیمہ ایک دھماکے سے تڑپ اٹھی۔ وہ اب سمجھی کہ سلیمہ نے کیوں کہا تھا، مجھے یہاں نہ چھیڑنا۔ اسے سب راہیں منہ زبانی یاد تھیں۔ وہ خوش ہوکر نشیب کی طرف اتر گئی۔ سلیمہ نے ٹانگوں کو پھیلاکر سکیڑ لیا جیسے تڑتڑ بخیے ادھیڑنے لگے ہوں۔ پھر پنڈے کی نسیں سنسناہٹوں سے گرم ہوہوکر ایک دوسرے کو اس طرح جکڑنے پکڑنے لگیں کہ سلیمہ ٹانگوں کی قینچی بناکر عروج کی کمر پر اپنی ایڑیاں مارنے لگیں اور منہ سے ’’روحی جی‘‘ کی تکرار کا رس ٹپکانے لگی۔

سنکی ہوئی روٹی کتنی دیر میں ٹھنڈی ہوتی ہے، روحی جی جانتی تھی۔ وہ سلیمہ کے سر کو اپنے سینے پر رکھ کر شہتیر کی طرح پلنگ پرلیٹ گئی اور سلیمہ کے بالوں میں بڑے پیار سے دھیرے دھیرے انگلیاں پھیرنے لگی۔ پھر اس کے پنجے کو اپنی چھاتی پر رکھ کر بولی، ’’اب تو عروج بن۔‘‘

اس کا اندازہ صحیح نکلا۔ جس چھل بل کے ساتھ سلیمہ اُچھل کر کام میں لگ گئی، اس کے پیچھے کافی انڈر ورلڈ معلوم ہوتی تھی۔

ڈاک میں سلیمہ کا صرف ایک خط تھا جسے پڑھ کر اس نے پرس میں رکھ لیا۔ پھر اخبار میں آدھی اورپوری ننگی لڑکیوں کے فلمی اشتہار دیکھ کر اٹھی اور جاکر غسل خانہ کے آئینہ میں اپنا عکس دیکھنے لگی۔ کھڑکی میں اس نے دیکھا باہر بوندا باندی ہورہی تھی اور عروج چھتری لگائے ٹراؤزر سوٹ پہنے اس کے دفتر کی طرف آرہی تھی۔

’’کیوں؟ کیسے؟‘‘

’’دل نہیں لگا۔ چھٹی لے آئی ہوں۔ چلو کسی ہوٹل میں چل کر چائے پئیں گے، تم بھی چھٹی لے لو۔‘‘

’’دفتر کی حجت تو پوری کرلوں۔ تھوڑی دیر بیٹھو۔‘‘

تھوڑی دیر بعد وہ بھی چھٹی لے کر آئی اور بولی، ’’چلو۔‘‘

دونوں ریستوان کے کیبن میں بیٹھی چائے پی رہی تھیں۔ عروج نے کہا، ’’میں تو پہلے دن ہی تم پر ریجھ گئی تھی۔‘‘

سلیمہ نے پوچھا، ’’اتنی دیر کیوں لگائی؟‘‘

’’کوئی موقع ملتا تواظہار محبت کرتی، ویسے دل میں ڈرتی بھی تھی۔‘‘

’’اب تو میں سو راستے نکال کر تم سے ملوں گی۔‘‘ سلیمہ نے آنکھوں میں مٹھاس بھر کر عروج کی طرف دیکھا تو عروج نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ ’’تمہارے پاس اتنی ساری ہیں، کوئی ایسی نکالو جس پر میں اور تم ایک ساتھ درک کرسکیں۔‘‘

’’ذرا سوچ لینے دو۔ میرے خیال میں شمسی ٹھیک ہے چلو اس طرف چلیں۔‘‘

عروج نے خوش ہوکر زور سے اس کا گال چوم لیا اور پھر اپنی ہی لپ اسٹک کا نشان اس کے گال سے پوچھنے لگی۔ سلیمہ نے آئینہ دیکھنے کے لیے پرس کھولا تو لفافہ نظر پڑا۔ اس نے عروج کے ہاتھ میں دے دیا اور خود اپنے گال پر لگا نشان آئینہ میں دیکھ دیکھ کر مٹانے لگی۔ عروج خط پڑھنے لگی۔

’’سلیمہ ڈیئر! پتا نہیں تم اس وقت کیا کر رہی ہوگی۔ ہماری اس وقت بریک ہوئی ہے۔ سینک بار میں لنچ کھا چکا ہوں اور تمہیں خط لکھ رہا ہوں۔ اگر برا نہ مانو تو اپنی ایک تصویر بھیج دو۔ میں اسے اپنے کمرے کے آتش دان پر سجاؤں گا۔ تمہیں یہ سن کر خوش ہوگی کہ یہاں میری تنخواہ پاکستانی سکے کے مطابق تین ہزار روپے ہے۔ ہم ریگستان میں جو حدِ نظر تک پھیلا ہوا ہے، نو نو دس دس گھنٹے کام کرتے ہیں۔ تمہاری یاد تھکنے نہیں دیتی۔ میں پوچھتا ہوں تم کس وقت کا انتظار کر رہی ہو۔ کیا اس وقت کا جب تمہارا کوئی بال سفید ہوجائے گا۔ بتاؤ کیا تم اس وقت تک کسی کی ہوچکی ہو؟ تمہارا، انیس۔‘‘

خط پڑھ کر عروج نے سلیمہ کو اپنے ساتھ لگا لیا اورمٹھا کر بولی، ’’اس احمق کو لکھ دو کہ تم میری ہوچکی ہو۔‘‘

سلیمہ نے کہا، ’’اس کو کون کافر جواب دیتا ہے۔‘‘ پھر سلیمہ کے دو آنسوٹپ ٹپ نیچے گرے۔

’’ہیں۔ یہ کیا؟‘‘

عین اسی وقت بیرا بل لینے اندر داخل ہوا، جب سلیمہ کواپنی بغل میں لیے عروج اپنے رومال سے اس کی آنکھیں پونچھ رہی تھی۔ مردانہ جذبات سے سرشار تھی۔ اس نے بالکل مردوں کی طرح حکم دیا، ’’بیرا! ایک ٹیکسی پکڑو، ہمیں اسی وقت شمسی کی طرف جانا ہے۔‘‘

ماخذ:کہانیاں

مصنف:آغا بابر

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here