آسمان سے رات نہیں برس رہی ہے، مگر دورتک پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلوں کے پیچھے صدیوں کا تھکا سورج غروب ہو چکا ہے۔ دور افق میں شفق کی لالی سیاہی مائل ہو رہی ہے، تاہم آکاش کے نیلے پن پر دھبوں کی صورت فی الحال اس طرح نہیں بکھری ہے جیسے قصاب خانے کے فرش پر منجمد خون کے دھّبے پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔
پہاڑی سلسلوں ذرا ادھر دائیں جانب ایک سر سبز و شاداب جنگل مسکرا رہا ہے۔ درمیان ایک ندی ہے۔ جس کے دوسرے کنارے کچھ بلندی پر ایک شمشان اپنی تمام تر سنگ دلی اور سر د مہری کے ساتھ موجود ہے اور اس کی نگاہیں اس چوڑی سنسان سڑک پر مرکوز ہیں جو شمشان، جنگل، ندی اور پہاڑیوں کے بکھرے ہوئے سلسلوں کو گنجان آبادی والے پر ہنگام شہر کو الگ کرتی ہے۔
ندی کے سینے پر ایک پل ہے۔ اس پر سے ابھی کوئی ٹرین نہیں گزر رہی ہے اور شاید اسی لئے تمام منظر کسی خاص وقت یا لمحے کے منتظر ہیں اور اپنے آپ میں گم بھی۔
وہ پرہنگام شہر کی بھیڑ کا ایک چہرہ تھی۔
ندی کے سینے پر براجمان پل کو دیکھتے ہی اس کے دل میں ایک ایسا جذبہ جنم لے لیا کرتا جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ کوئی ایسا نام جو اس جذبہ کی وضاحت کر سکے۔ بس اس جذبے کی پرکیف لذت کے ارتعاش کو نازک روح کی سطح پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس سمے وہ ایک ایسی کیفیت سے دوچار ہوتی جیسے کوئی گیلی لکڑی دھیمے دھیمے سلگ رہی ہو اور سفید کثیف دھواں چاروں طرف پھیلتا جا رہا ہو۔
جنگل کی شادابی ایک تمنا بن کر اس کے اندر سمٹ گئی تھی۔
افق کی لالی کو دیکھتے ہی اسے اپنی مانگ میں گدگدی کا احساس ہونے لگتا، اس چہرہ گلنار ہو جاتا۔
اور شمشان!
اس کا تصور بھی اس کے لئے کس قدر اذیت ناک تھا۔
بچپن کی معصوم چنچلتا جوانی کی امنگوں میں ڈھل کر بےجان گڈوں اور گڑیوں سے پرے ،خوابوں کی دھندلی فضاوء ں میں ایک پیارے اور جاندار گڈے کی تلاش میں سرگرداں ہو چکی تھی۔ خوابوں کی دنیا بھی کس قدر عجیب ہو ا کرتی ہے؟ کیسی کیسی خواہشیں پوری ہو جاتی ہیں۔ اجنبی چہرے اعتبارپا لیتے ہیں اور اپنے بن جاتے ہیںیا بنا لئے جاتے ہیں۔ اس کی خواہش کی تکمیل بھی خوابوں کی دھندلی فضاؤں میں ہونے لگی۔
اسے ایک جاندار گڈا مل گیا۔
مگر ادھر چند دنوں سے اس کے خوابوں میں بڑی زبردست تبدیلی آ چکی تھی۔ پہلے تو اس کا گڈا سائے کی طرح اس کے ہمراہ رہا کرتا تھا، مگر اب وہ اکثر غائب رہنے لگا۔ اس کی تلاش میں سرگرداں، خوابوں کی دنیا میں بھٹکتے بھٹکتے وہ آکاش کی بلندی پر جا پہنچتی اور پھر اچانک وہاں سے نیچے۔۔۔ اور نیچے۔۔۔ ہرائیوں میں اترنے لگتی اور کبھی بےحد ہلکی پھلکی ہوکر گیس بھرے غبارے کی طرح فضاؤں میں منڈلانے لگتی۔
کبھی وہ اس کی تلاش میں یا اس کا تعاقب کرتی ہوئی اجنبی سرحدوں کو عبور کر جاتی اور پھر یوں ہوتا کہ گڈا اس کے بےحد قریب چلا آتا، اتنا قریب کہ۔۔۔ اور ہاتھ لگاتے ہی ہوا کے جھونکے کی طرح دور، بہت دور پھیلی ہوئی دھند کی گہرائیوں میں گم ہو جاتا۔ وہ کسی اجنبی سرحد پر مضمحل حیران و پریشان سی کھڑی اس دھند پر نگاہیں گاڑ دیتی۔
دفعتاََ وہاں سے عجیب و غریب عفریت نما شکلوں والی کوئی مخلوق چوپایوں پر سوار اس کی اور رفتارسے بڑھنے لگتی۔ وہ بھاگنے کی کوشش کرتی تو پاؤں من من بھر ہو جاتے اور پھر وہ مخلوق اس کے سر پر آ پہنچتی۔
صبح جب وہ بیدار ہوتی تو صورت پر ایسی زردی چھائی ہوئی ہوتی جیسے اس کے جسم سے سارا لہو نچوڑ لیا گیا ہو۔ بستر کی چادر روندی ہوئی ہوتی اور اس پر کچھ دھبے ابھرے ہوئے نظر آتے۔
ماں بےحد فکر مند ہو جاتی۔ دھیرے سے بدبداتی: نہ جانے اس لڑکی کے دماغ کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔ الٰہی آبرو بچائے رکھیو۔ پھر وہ اسے غسل کرنے کی ہدایت دیتی اور اپنی تجربہ کار آنکھوں میں فکرمندی کے آثار لئے کسی کام میں مشغول ہو جاتی۔
ایک صبح جب وہ بیدار ہوئی تو بے حد بےچین تھی۔ آنکھوں کی گہرائیوں میں کرب کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ اس نے بےحد یاس انگیز لہجے میں نیلگوں آسمان والے کو پکارا۔
تو نے ندیوں کو سمندروں کی گود عطا کی
چاند کو چاندنی اور سورج کو تما زت دی
درختوں کو ثمر دار بنایا
پھولوں کو بھونرے
اور شمع کو پروانے عطا کئے
ہوا میں پھولوں کی خوشبو رچائی
جنگلوں کو شادابی اور ہریالی بخشی
صحراؤں کو نخلستان دئے
اور پتھّر میں پوشیدہ کیڑوں کو رزق پہنچایا
او نیلگوں آسمان والے
مجھے بھی ایک گڈا عطا کر
ورنہ شاید میں چھچھوری ہوئی ہڈیوں کی طرح سڑکوں پر، بازاروں میں۔۔۔
اور پھر اس کے لب ساکت ہو گئے، شمشان سے بلند ہوتے ہوئے شعلوں کا سماں اس کی آنکھوں میں سما گیا۔
اس کے منہ سے چیخیں ابلتی رہیں اور بستر کی پر شکن چاردوں پر دھبے ابھرتے رہے۔ ذہن پر سوچ کا بھاری پتھر لئے وہ پر سکوت رہی۔ پھر اچانک چپکے سے کوئی اس کی دنیا میں آگیا، اس طرح کہ آہٹ بھی محسوس نہ ہوئی۔ دعائیں اسی طرح رنگ لاتی ہیں، صدیوں سے۔۔۔
زندگی جنگل کی طرح شاداب ہونے لگی تھی۔ ندی کو سمندر جذب کرنا ہی چاہتا تھا۔ پل نے زندگی سے بھرپور کناروں کی خلیج کو پاٹ دیا تھا۔ لیکن۔۔۔!
آسمان سے رات برسنے سے پہلے اور پہاڑی سلسلوں کے پیچھے سورج غروب ہونے کے بعد جب فضاء میں نرم، جنتی روشنی پھیلی ہوئی ہوتی۔ وہ دونوں سبز مخملی گھاس پر بیٹھ کر بیتے خوابوں کی باتیں کیا کرتے۔ ایسے پر کیف لمحات میں وہ اکثر سوچتی جو میرے سامنے بیٹھا ہے اوروں سے کس قدر مختلف ہے۔
شفق کی لالی کو دیکھ کر اب اس کی مانگ میں گدگدی کا احساس کچھ زیادہ ہی ہونے لگا تھا۔ ڈھیر سارے دن اسی طرح گزر گئے۔
اچانک شہر میں عجیب و غریب وارداتیں رونما ہونے لگیں۔ کنواری بیٹی والوں کی جان پر بن آئی۔ شہر دھیرے دھیرے کنواریوں سے خالی ہونے لگا۔ مائیں کنؤوں میں کود کود کر خود کشی کرنے لگیں، باپ گلے میں پھندے ڈال ڈال کر جسموں کو روحوں سے آزاد کرنے لگے۔
ہر جہت خوف و ہراس کا سایہ پھیل گیا۔ لوگوں نے خوبصورت منظروں کو آنکھوں میں اتارنے کی رسم ترک کر دی۔ سب کے سب اپنے اپنے گھروں کے دروازے مضبوطی سے بند کرکے اپنی بیٹیوں پر نگاہیں گاڑے بےخبر نیلگوں آسمان والے کو ہاتھ اٹھائے خبر دے رہے تھے۔
آخر بات کیا تھی؟
بات یہ تھی کہ سیاہ گھوڑوں پر سوار، ہاتھوں میں لشکتی تلواریں لئے اورچہروں پر نقابیں ڈالے ہوئے لوگ پچاسوں اور کبھی سینکڑوں کی تعداد میں شہر کے کسی علاقے میں وارد ہوتے اور کنواریوں کو گھوڑوں پر بٹھا کر لے جاتے۔
اس افراتفری کے عالم میں اس کا گڈا بھی اکثر غائب رہنے لگا۔ ایک روز اچانک وہ مل گیا تو اس نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا، گھوڑسواروں کے ظلم و ستم کا دھیان دلایا اور اپنی مانگ میں ہونے والی گدگدگی کا ذکر کیا۔ وہ کافی دیر تک لاش کی مانند خاموش رہا۔ پھر انتہائی سرد لہجہ میں بولا۔ اس ہنگامے میں کیا کیا جا سکتا ہے، جب کہ لوگ باگ گھروں سے نکلنا چھوڑ چکے ہیں اور اپنے اپنے دروازوں کو خدا کی رسی کی طرح تھامے ہوئے کھڑے ہیں۔ ویسے تم چاہو تو میرے ساتھ۔۔۔ لیکن ماں کی ذمہ داری میں نہیں لوں گا۔ اسے یہیں چھوڑ دو۔
وہ کانپ گئی۔ اس نے سوچا ماں تو اس طرح بھی کنوئیں میں کود جائےگی۔ وہ بہت دیر تک سوچتی رہی پھر بڑی بیباکی سے گڈے کی بات کو ماننے سے انکار کر دیا۔ کیوں کہ اس کی خواہش کے عین برعکس گڈے نے اپنا فیصلہ دیا تھا۔ وہ شفق کی لالی کی ایک کرن اپنی مانگ کی اجلی لکیر پر منجمد دیکھنا چاہتی تھی مگر وہ مانگ کو سفید رکھ کر اس کا وارث بننا چاہتا تھا۔
اس کے انکار سے گڈا سدا کے لئے گم ہو گیا۔
گھوڑسوار اب بند دروازوں کو توڑنے لگے تھے۔ وہ اور اس کی ماں بےحد خوفزدہ تھیں۔ اسے یہ سوچ کر بڑی الجھن ہوتی کہ خواب اور حقیقت کوئی فرق بھی ہے یا نہیں؟
جب یہ وارداتیں شروع ہوئی تھیں تو اس نے انہیں اپنے خوابوں سے منسوب کر لیا تھا لیکن جب اس نے اپنے خوابوں کا ذکر ہمجولیوں سے کیا تو اسے پتہ چلا کہ ہر ایک ایسے ہی خواب دیکھتی رہی ہے۔
اور ایک دن ہزاروں کنواریوں کی طرح اس کی باری بھی آہی گئی۔
گھوڑسواروں کا دستہ دروازہ توڑ کر اسے لے گیا۔
اس کا گڈا آج بھی دھند کی گہرائیوں میں گم تھا۔
اسے ایک قصاب خانے کی مانند لمبے مستطیل نما کمرے میں لا کر پٹخ دیا گیا اور وہی سب کچھ ہوا جواس کے بھیانک خوابوں نے اسے تحفے میں دیا تھا۔ خواب شاید ماضی تھا!!
اس کی چیخوں سے درودیوار لرزنے لگے۔ نقابوں کے پیچھے چھپے چہرے یکے بعد دیگرے ننگے ہو رہے تھے۔ کتنے جانے پہچانے چہرے تھے۔ اس نے نیم بے ہوشی کے عالم میں سوچا اور اپنی دھندلاتی ہوئی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھا، ایک جگہہ اس کی نظریں جم گئیں۔ وہاں مضبوط جسم، چوڑے شانوں، سنہری بالوں اور بھوری آنکھوں والا اس کا گڈا کسی کو قصاب کی طرح دبوچے ہوئے تھا۔ اچھا تو وہ دلال تھا؟ اس نے سوچا۔
اس کے منہ سے اکی بھیانک چیخ نکلی۔ ذہن مفلوج ہونے سے پہلے اور آنکھیں پتھرانے سے قبل اس نے بڑے دکھ سے سوچا۔سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔
دور دور تک پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلوں کے پیچھے صدیوں کا تھکا بوڑھا سورج غروب ہو چکا ہے اور اب شفق کی سرخی سیاہی مائل ہوکر آکاش کے نیلے پن پر دھبوں کی صورت پھیلی ہوئی ہے جیسے قصاب خانے کے فرش پر منجمد خون کے دھبے۔
پل پر سے ایک تیز رفتار ٹرین گزر جاتی ہے اور تمام منظر گہری دھند کے آنچل میں پوشیدہ ہو جاتے ہیں۔ شاید یہ منظر اسی خاص وقت یا لمحے کے منتظر تھے۔
آسمان سے رات برسنے لگی ہے۔ ندی کا پانی سیاہ ہو چکا ہے۔ جنگل کہیں نظر نہیں آتا اور شاید اسی لئے شمشان سے شعلوں کے بلند ہونے کا منظر صاف، بہت واضح نظر آ رہا ہے۔ بوڑھی ماں جب اسے اسپتال لے کر گئی تو وہ۔۔۔
شلوار سرکانے سے پہلے ہی مر چکی تھی۔
مصنف:ابرار مجیب