صدیاں بیت گئیں اور وہ مسلسل تپتے ہوئے صحرا میں تشنگی لئے بھٹک رہا ہے۔ چل چل کر، دوڑ دور کر، رینگ رینگ کر وہ تھک چکا، اس بے آب وگیاہ صحرا کا کوئی انت نہیں اور دوڑنا، چلنا، رینگنا اس کا مقدر۔
وہ تنہا نہیں ہے، تاحد نگاہ بکھرے، ایک دوسرے پر سوار اور برسرپیکار پتھر ہی پتھر اور کچھ سنہری چٹانیں۔ سورج کی روشنی روشنی ان چٹانوں سے لپٹ کر شعلگی میں بدلتی ڈھلتی ہے اور آنکھوں کی راہ سے اس کی شریانوں میں اتر جاتی ہے۔ بےحس و بےجان پتھروں اور چمکتی ہوئی سنہری چٹانوں کو دیکھ کر تنہائی کے اذیت ناک اور جان لیوا احساس میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے۔
مارے پیاس کے اس کا حال بدحال ہے۔ اوپر سے سورج کا عتاب، پاؤں میں چھالے، لیکن وہ دوڑ رہا ہے، رینگ رہا ہے، چل رہا ہے کہ مقدر بہرحال ہے مقدر ہے اور کہا ہے کسی اللہ کے بندے نے کہ مقدر کا لکھا بھلا کون ٹالے۔
اسے رہ رہ کر حضرت آدم کی کم عقلی اور بیوقوفی پر غصہ آتا ہے کہ انہوں نے ایک ناقص العقل کی باتوں میں آکر وہ کام کر ڈالا جس کی پاداش اسے بھگتنا پڑ رہی ہے، چند ہی لمحوں کے بعد وہ سوچنے لگتا کہ اس میں نہ آدم کا قصور ہے، نہ حوا کا اور نہ ہی معلون شیطان کا، بلکہ خدا کے بنائے ہوئے سسٹم کا یہ سبھی شکار ہیں۔ خدا کی حکمتوں کے پردے چاک نہ کر، اس کے ذہن میں یہ جملہ گونجتا اور جھنجھلا کر وہ اپنے آپ کو گالیاں دینے لگتا۔
دفعتاً گرم ہواؤں کے بگولے چلنے لگے اور اس کا وجود بری طرح جھلسنے لگا۔ ایک بھیانک چیخ اس کے حلق میں گھٹ کر رہ گئی کیونکہ اچانک اس کی آنکھیں کھل گئی تھیں۔ ’’اچھا تو یہ سب خواب تھا۔‘‘ کتنا بھیانک تھا یہ خواب۔ کچھ دیر تک وہ یوں ہی بےحس و حرکت پڑا رہا پھر اسی طرح پڑے پڑے اپنی بائیں طرف ہاتھ مارا لیکن وہی ہوا، ہر روز کی طرح بیوی پہلے ہی بیدار ہوکر جا چکی تھی۔ اس کے دماغ کے اندر کوئی شئے کلبلائی، پھر اسے محسوس ہوا کہ اس شئے نے ڈنک مار دیا ہو۔ اس کا دماغ جھنجھنا اٹھا۔
اس نے چھت کی جانب نگاہ اٹھائی۔ رات بھر کا تھکا ہوا فین سست روی سے گھوں گھوں کرتا ہوا گردش کر رہا تھا۔ چند لمحے تک وہ یکساں رفتار سے گردش کرتے ہوئے فین کو گھورتا رہا پھر کروٹ بدلی۔ سامنے دیوار پر ایک پینٹنگ ٹنگی ہوئی تھی جس پر سر سبز وشادابی جنگل، بلندی سے گرتے ہوئے آبشار، ابھرتے ہوئے سورج کی نارنجی کرنوں او رپرواز کرتے سفید پرندوں کو رنگوں میں اسیر کر لیا گیا تھا۔ اس بار اچانک اس کے دماغ میں کلبلاتی ہوئی شئے نے اتنا زبردست ڈنک مارا کہ اس نے کرب کی شدت سے آنکھیں میچ لیں اور اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑ لیا۔ اس کیمنہ سے ایک گندی گالی نکلتے نکلتے رہ گئی۔
دفعتاً بچوں کے ممنانے، ناک دھننے اور پیسے مانگنے کی ضد بھری آوازیں، بیوی کی ڈانٹنے، پھٹکارنے اور وقت پر اسکول پہنچنے اور واپس آنے کی تاکید کرنے کی آوازیں اس کے کانوں میں پہنچنے لگیں۔
’’معمول کے مطابق یہ سب تو ہونا ہی ہے۔‘‘ وہ دھیرے سے بدبدایا۔
تھوڑی دیر بعد قبرستان کا سا سناٹا چھا گیا۔ صرف دیوار گیر گھڑی کی سوئی کی ٹک ٹک جو خود بھی سکوت کا ایک حصہ معلوم ہورہی تھی۔ چند ہی لمحوں بعد گھڑی نے سات کا گھنٹہ بجایا اور اس کے دماغ میں کلبلاتی ہوئی شئے نے ایک اور زوردار ڈنک مارا، اتنا زوردار کہ اس کا دماغ سن ہوکر رہ گیا اور وہ خالی الذہن سا چاروں طرف دیکھنے لگا۔
اچانک وہ اٹھ بیٹھا۔ بالکل مشینی انداز میں اس نے سلیپر پہنا اور سات آٹھ قدم کا فاصلہ طے کرے باتھ روم داخل ہو گیا۔ دس منٹ بعد وہ باتھ روم سے باہر نکلا، بیس منٹ کے اندر اندر وہ نہا دھو کر تیار تھا۔ تقریباًسات منٹ اسے کپڑا وغیرہ تبدیل کرنے میں لگے، نویں منٹ پر وہ ناشتے کی میز پر تھا۔ ابھی وہ میز کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ بیوی نے اسے مورننگ نیوز لا کر دیا۔
ہمیشہ کی طرح چار مکھن لکھے سلائس، ایک ابلا ہوا انڈا اور ایک پیالی چائے کو معدہ کے اندر پہنچانے تک وہ اداریہ اور فسادات سے متعلق دو اہم خبروں کو پڑھ چکا تھا اور شہر کے مصروف علاقے کی سڑک پر ہونے والے حادثے کی ایک خوفناک تصویر کو دیکھتا ہوا وہ اٹھ کھڑا ہوا کہ ٹھیک دس منٹ ہو چکے تھے۔
گھر سے نکل کر آفس جانے کے لئے تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا وہ بس اسنٹند کی جانب بڑھنے لگا۔ بس اسٹنڈ میں وہی لائین۔ سب سے آگے ہمیشہ کی طرح وہی پتلا دبلا، لمبا اور الجھے بالوں والا مریل سا شخص اور سب سے آخر میں معمول کے مطابق گنجے سر والا گول مٹول سا بوڑھا کھڑا ہوا تھا۔ بوڑھے کی آنکھیں ہمیشہ کی طرح کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
بوڑھے نے معمول کے مطابق ایک اچٹتی سی نگاہ اس پر ڈالی اور گہری سانس لے دوبارہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ وہ بوڑھے کے پیچھے جاکر کھڑا ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک شخص اس کے پیچھے آکر کھڑا ہو گیا، اس آنے والے کا چہرہ بےحد سپاٹ تھا، کسی بھی طرح کے تاثر سے خالی، اس سپاٹ چہرے والے نے معمول کے مطابق اس کے کاندھے پر ہاتھ دیا، وہ مڑا تو وہ اپنے سپاٹ چہرے پر ایک لطیف سا جذبہ پیدا کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہوا بولا۔ ’’ارے، بس آئی نہیں ابھی تک۔‘‘ یہ سوال بھی وہ ہرروز اسی ایکشن کے ساتھ کیا کرتا تھا۔
سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھا، لیکن دفعتاً اسے محسوس ہوا کہ آج ایک بات خلاف معمول ہو گئی۔ سپاٹ چہرے والے کے ٹھیک تین منٹ بعد ہی ایک خوبصورت سی عورت آیا کرتی تھی لیکن آج وہ ابھی تک نہیں آئی۔
شاید اس کی کمی کو سبھوں نے محسوس کیا ہوگا۔ سبھوں نے محسوس کیا ہو یا نہ کیا ہو اس نے ضرور اندر سے اس کا بے حد گہرا اثر لیا۔
وہ کیوں نہیں آئی ؟ اس نے سوچا۔
یہ اپنی نوعیت کی پہلی سوچ تھی جو زندگی میں پہلی بار اس کے ذہن میں ابھری تھی۔ اس کے دماغ کے اندر پھر کوئی شئے کلبلانے لگی، لیکن اس بار انداز ایسا تھا جیسے پانی اپنی سطح کے اندر ابل رہا ہو۔ ایک عجیب قسم کی سنسناہٹ اس کے رگ و پے میں دوڑنے لگی۔
تھوڑی دیر بعد بس آ گئی۔
سپاٹ چہرے والے نے ہمیشہ کی طرح اس کے دوسرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا، وہ مڑا تو بولا۔ ’’یہ سالی اب آئی ہے۔ دس منٹ اور انتظار۔۔۔ ہنہ جیسے ہمیشہ کے لئے یہ انتظار ختم ہو جائےگا۔۔۔ ہمیشہ کے لئے۔۔۔‘‘
خلاف معمول اس نے سپاٹ چہرے والے کا ہاتھ جھٹک دیا۔ سپاٹ چہرے والے کی آنکھوں میں حیرت کے آثار نمایاں ہونے لگے، پہلی بار اس کے سپاٹ چہرے پر کسی جذباتی ردعمل کی ہلکی سی پرچھائیں ابھری تھی۔
لوگ یکے بعد دیگرے بس میں داخل ہونے لگے۔ یہاں تک کہ اس کے آگے والا گنجا بڈھا بھی تقریباً رینگتا ہوا بس میں داخل ہو گیا اور بس چل پڑی۔ رہ گئے یہ تینوں۔ دونوں، کیونکہ وہ وہ تو آج آئی ہی نہیں تھی۔ دونوں کو ابھی دس منٹ اور انتظار کا کرب جھیلنا تھا، دوسری بس کا انتظار۔
لیکن
بہ مشکل ابھی دوہی منٹ گزرے ہوں گے کہ وہ مڑا اور بگولے کی طرح گھر کی جانب اڑ چلا۔
سپاٹ چہرے والے نے خلاف توقع اسے اس طرح لوٹتے دیکھا تو اس کے دماغ کی صدیوں سے خوابیدہ نسیں بیدار ہو گئیں اور اس کے چہرے پر زلزلے کے آثار ابھر آئے۔ چند لمحے تک وہ گہری گہری سانسیں لیتا رہا اور پھر اچانک ایک نعرہء مستانہ لگاتا ہوا سڑک کے بیچوں بیچ دوڑ پڑا۔
گھر پہنچ کر دندنا تا ہوا وہ کمرے میں داخل ہو گیا۔ اس کی وحشت زدہ حالت دیکھ کر بیوی کے منہ سے تحیرزدہ چیخ نکل گئی لیکن اس نے کوئی توجہ نہیں دی اور دیوار پر ٹنگی ہوئی پینٹنگ کو اتار لیا۔
’’یہ کیا کر رہے ہیں آپ۔‘‘بیوی چلائی۔
’’کچھ نہیں۔ کچھ ان دیکھے ہاتھ ہر شئے کو قید کرتے جا رہے ہیں۔ سبھوں کو غلامی کی زنجیریں پہنا رہے ہیں۔ پابندی، وقت، ٹائم ٹیبل، اصول وقواعد، رنگ برش اور کینوس۔۔۔ ہنھ سالے حرامی کے پلوں۔‘‘ وہ غصے سے پاگل ہوا جا رہا تھا۔
اس نے پینٹنگ کو فرش پر دے مارا، کچھ دیر تک اس پر اچھلتا کودتا رہا، جب اس کا کچومر نکل گیا تو اس نے اسے لے جاکر کچرے کے ڈبے میں پھینک دیا۔
مصنف:ابرار مجیب