پشپ گرا م چندر لیکھا پہاڑیوں کی گود میں جنگل کے چھور پر آباد تھا۔ گرام سے کوس بھر دوری پر سوگندھا ندی بہتی تھی۔ یہ گرام بہت سارے گراموں کی طرح کنبہ، برادری پر مبنی تھا اور ہر آدمی دوسرے آدمی کا سمبندھی تھا۔ گھر ہی کتنے تھے، یہی کوئی پچاس، ساٹھ، پورے گاؤں کی مشترکہ زمین تھی اور ہر آدمی اور عورت کی ذمہ داری متعین تھی۔ کچھ لوگ گاؤں کی زمین پر ہل چلانے، بیج بونے اور فصل کاٹنے کی ذمہ دار تھے، کچھ فصلوں کی دونی کرنے، اناج یکجا کرنے اور انہیں مشترکہ گودام میں حفاظت سے رکھنے کے ذمہ دار تھے۔ کچھ لوگ اناج کا بٹوارہ کرنے پر معمور تھے۔ کچھ جانوروں کا اور ان کے چارے کا خیال رکھتے تھے۔ ہر گھر ایک خاندان کی شکل میں تھا اور سارے خاندان ایک مشترکہ وراثت اور مشترکہ اجداد سے وابستہ تھے۔ پشپ پوری ایک خوشحال گاؤں تھا۔
پشپ گرام میں جیون ویدک ریت کے مطابق گزارنے کا رواج تھا۔ زندگی کے پہلے پچیس سال ودیارتھی، پچیس سے پچاس سال گرہستھ یعنی شادی بیاہ کرکے خانگی زندگی، پچاس سے پچھتر سال وان پرست یعنی دنیا میں ادھر سے ادھر گھومنا اور موکش کے لیے علم حاصل کرنا اور پچھتر سے سو سال سنیاس یعنی ترک دنیا۔ چندرلیکھا پہاڑیوں کی چوٹی جو گاؤں کے کمل کنڈ کی طرف تھی ودیارتھیوں کے گروکل کے لیے وقف تھی اور گروراج کے ساتھ دوسرے گرودیو بھی شکشا دیتے تھے۔ لوگ معصوم تھے، زندگی خوشگوار تھی، نہ چھل نہ کپٹ، نہ دویش نہ راگ۔ پشپ گرام اپنے نام کے مطابق پھولوں کی نگری تھی۔ راستوں کے دونوں طرف طرح طرح کے پھولوں کے پودے مسکراتے تھے۔ گاؤں کے کنارے کنول کنڈ تھا جس میں گلابی کنول اور کنول کی کلیاں کھلی تھیں۔ یہ کنڈ گاؤں کی عورتوں کے لیے تھا، اسی طرح ایک کنڈ گاؤں سے باہر مردوں کے لیے بھی بنایا گیا تھا۔
گؤدھولی کا وقت تھا، دور کھیتوں کی طرف سے جانوروں کی واپسی ہو رہی تھی۔ فضا میں ہلکی دھند تھی۔ جانوروں اور چرواہوں کے قافلے کے ساتھ دو اجنبی بھی پشپ گرام میں داخل ہوئے۔ ایک عورت، دودھ اور سیندور کی آمیزش سے بنا ہوا اس کا رنگ، اوپر سے سیاہ ساری میں ملبوس، سرکے آنچل سے جھانکتے اس کے گھنگھریالے کیس نم لگ رہے تھے جیسے ابھی ابھی نہاکر آئی ہو۔ آنکھیں چمکیلی کہ کوئی نظریں نہ ملا سکے، پلکیں لانبی لانبی، بدن کا ہر ایک انگ جاگتا محسوس ہو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا پورا بدن سانسیں لے رہا ہو۔ اس کے ساتھ ایک مرد تھا، سر پر بھاری پگڑی، آنکھوں میں کچھ ایسی بات تھی جس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ یہ بہت گھاگ قسم کا آدمی ہے۔ مونچھیں بہت بڑی اور گھنی جس نے اوپری ہونٹ کو پوری طرح سے ڈھک لیا تھا۔ ان دونوں کے ساتھ ان کا سامان بھی تھا ایک گدھے پر۔ پشپ پوری کے لوگ حیرت سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ عورت بہت شرمائی لجائی سی تھی اور مرد بار بار لوگوں کو پرنام کر رہا تھا۔
گاؤں کے پروہت کے پوچھنے پر عورت تو خاموش رہی لیکن مرد نے بتایا کہ وہ بہت دکھیارے ہیں۔ یہ اس کی بیٹی ہے، اسوروں کے حملے میں ان کا گاؤں تباہ ہو گیا، ان لوگوں نے گاؤں کی کنیاؤں کو اٹھا لیا، مردوں کو مار دیا، ہم باپ بیٹی کسی طرح سے جان بچا کر نکل آئے، دس دن کی مسافت طے کرکے یہاں تک پہنچے ہیں۔
لوگوں کو ان دکھیاروں کی بپتا سن کر بہت دکھ ہوا۔ پشپ گرام کے ذمہ دار لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا اور باپ بیٹی کو کنول کنڈ کے پاس وہ مکان رہنے کے لیے دے دیا جسے گاؤں والے اتیتھی گرہ (مہمان خانہ) کہتے تھے۔ ان کے کھانے پینے کا انتظام اس طرح کیا گیا کہ ہر گھر سے ان مہمانوں کو باری باری کھانا مہیا کرایا جائے۔ مہمان دو چار روز تو لوگوں کا کھانا کھاتے رہے لیکن ایک دن انہوں نے پروہت سے کہا کہ وہ بھکاریوں کی طرح دان پن پر گزارہ نہیں کر سکتے، انہیں بھی پشپ پوری میں کچھ کام دیا جائے، لوگوں نے مشورہ کیا، یہ گاؤں کی روایت کے خلاف بات تھی کہ کسی مہمان کو گاؤں کا انگ بنایا جائے۔ گاؤں تو سمبندھیوں پر مشتمل تھا۔ ان لوگوں کو کس بنیاد پر گاؤں کے کاموں میں حصہ دیا جاتا؟ بہت سوچ وچار کیا گیا، ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ آریہ ہیں، ان لوگوں نے کہا ہاں وہ آریہ ہیں۔ گاؤں والوں کو اس سے یہ اطمینان ہو گیا کہ چلو سمبندھی نہیں لیکن آریہ تو ہیں اور آریہ آریہ کہیں نہ کہیں سے سمبندھی ہو ہی جاتے ہیں کیونکہ آریوں کے پوروج تو ایک ہی ہیں۔ آخر میں اس سندر استری کو اناج گھر میں اناج صاف کرنے کا کام دے دیا گیا اور اس کے باپ کو جانوروں کو چارہ کھلانے کا۔
اس کے چند دنوں بعد ہی ودیارتھی مہیندر شرون نے ایک سپنا دیکھا۔ آدھی رات کی بیلا، چندرما پورے تیج کے ساتھ آکاش پر چمک رہا تھا۔ چاندنی پورے کنڈ پر بکھری ہوئی ہے۔ پانی پر تیرتے کنول اور کنول کی کلیاں۔ کنول کے سبز پتے زمرد کی طرح چمک رہے ہیں۔ اس کنڈ میں ایک ادبھت سندری نہا رہی ہے۔ کیا یہ امرپالیکا ہے، سپنے میں اس نے سوچا، امرپالیکا جس نے بدھ کو ساون ون دان دیا تھا کہ بھکشو ساون میں وشرام کر سکیں۔ نہیں، پھر یہ کون ہے۔ مہیندر شرون دیکھتا ہے کہ وہ ایک سیاہ گھوڑے پر سوار کمل کنڈ کے کنارے آ کھڑا ہوا ہے۔ سندری نے نہاتے نہاتے اسے پلٹ کر دیکھا، اس کی آنکھوں میں عجیب چمک تھی، اس چمک سے اسے ڈر لگا، اس نے اپنی آنکھیں ہٹا لیں مگر اسے محسوس ہوتا رہا کہ اس سندری کی چمکتی آنکھیں اس کے شریر پر دوڑ رہی ہیں۔ دوڑتے دوڑے وہ آنکھیں اسے اپنے شریر کے خاص انگ پر ٹھہرتی محسوس ہوئیں۔ اسے اچانک لگا کہ شریر سے سارا لہو نچوڑا جا رہا ہو اور وہ پتھر کا بنتا جا رہا ہو۔ ودیارتھی جیون میں اسے پہلی بار ایسا تجربہ ہوا تھا۔ اس نے ہمت کرکے کنڈ کی طرف دیکھا تو وہ اب تک کھڑی اپنے نینوں سے اسے نچوڑ رہی تھی۔ پھر اس نے ایک ڈبکی لگائی اور جب ابھری تو کمل کنڈ کا شفاف پانی دھیرے دھیرے سرخ ہونے لگا، جیسے کہیں سے اس میں لہو گھل رہا ہو۔ سندری کا ایک ہاتھ نیچے گیا اور جب باہر آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک بچے کا شریر تھا، ایک مردہ بچے کا شریر جس کی آنکھیں غائب تھی۔ مہیندر شرون کی آنکھیں کھلیں تو وہ حیران و پریشان تھا۔ اس کی سانسیں دھونکنی کی طرح چل رہی تھیں۔
اس دن مہیندر شرون گروکل سے پڑھ کر گھر پہنچا تو گھر میں ماتا اور بہنیں اس نئی عورت کی باتیں کر رہی تھیں۔ ماتا جی اناج گھر میں کام کرنے والی عورتوں کے کاموں کا بٹوارہ کرتی تھیں۔ وہ بتارہی تھیں کہ یہ عورت جس کا نام کنک لتا ہے بہت پیاری ہے۔ اس کے مکھ سے پھول جھڑتے ہیں۔ باتوں سے سگندھ آتی ہے۔ بڑھ بڑھ کر سب کے کام خود کرتی ہے۔ ساری کامگار عورتیں اس سے بہت خوش ہیں۔ کنک لتا پشپ مالا بھی بہت اچھا بناتی ہے اور گیت اتنی سندرتا سے گاتی ہے کہ آدمی مدہوش ہو جائے۔ ایک دن اناج گھر میں کنک لتا نے اپنے ہی گیت کے بول پر نرتیہ بھی کیا۔ سب عورتیں منتر مگدھ رہ گئیں۔ اناج گھر کے سامنے کھلیان میں دونی کرتے مردوں نے بھی اس کے گیت کے سریلے بول سنے اور شاید اس کے نرتیہ کو بھی دیکھا، یہ محسوس کرکے کنک لتا تھوڑا شرما گئی۔ مہیندر شرون کی بہنوں نے ماتاجی سے فرمائش کی کہ وہ بھی کنک لتا کا گیت سنےگی اور اس کا نرتیہ بھی دیکھےگی۔ ماتا نے کہا، یہ تو ہماری پرمپرا نہیں لیکن کسی چندرماشی کی رات گھر پر اس کو بلاتی ہوں۔
مہیندر شرون نے اس رات بھی وہی کنول کنڈ دیکھا اور وہی سپنا، پھر یہ سپنا جیسے اس سے چمٹ کر رہ گیا۔ وہ گرو کے آشرم میں علم سیکھ رہا تھا، لیکن اس سپنے کو دیکھنے کے بعد اس کا من ویدوں کے فلسفہ اور آریہ بھٹ کے سوریہ سدھانتوں سے اچٹ گیا تھا۔ وہ چرک کے آیوروید کا گیان حاصل کرکے لوگوں کے دکھوں کو دور کرنا چاہتا تھا لیکن اب اس کا من کسی کام میں نہیں لگتا تھا۔ اس کی آنکھوں سامنے وہی چمکیلے نین اور لٹکتا ہوا مردہ بچہ تھا جس کی آنکھیں غائب تھیں۔
ماتا جی نے چندرماشی کی رات کنک لتا کا سواگت گھر کے آنگن میں کیا۔ آنگن میں کیلے کے پیڑ لگائے گئے تھے اور کنول کے پھولوں کو لتاؤں میں پرو کر پورے اسارے کو سجایا گیا تھا۔ کنک لتا اس روز پشپوں کے زیور سے سجی تھی لیکن اس کے گلے میں موٹے منکوں کی مالا تھی۔ اس کی چمکیلی آنکھوں میں گہری لالی نظر آ رہی تھی۔ گیندے کے پھولوں کے رنگ کی ساری اور کالی انگیا میں وہ کسی اپسرا کی طرح لگ رہی تھی۔ گاؤں کی عورتوں کو پہلے ہی دعوت دے دی گئی تھی کہ کنک لتا آج ایک انوکھا گیت گائےگی اور نرتیہ بھی پیش کرےگی۔ گاؤں کی عورتیں اور بالائیں آنگن میں جمع تھیں، مردوں کو اس محفل میں شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن کنک لتا کے کلا پردرشن کی خبر مردوں کو بھی مل چکی تھی، کچھ اتاولے لوگوں نے گھر کے آس پاس پیڑوں کو پہلے ہی سے اپنا ٹھکانہ بنا لیا تھا۔ کنک لتا کے کلا کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کچھ متوالے ودیارتھی بھی ہوشیاری سے ایسی جگہوں کو ڈھونڈھ چکے تھے جہاں سے آنگن کا نظارہ کیا جا سکے۔
ماحول بنا ہوا تھا، آکاش پر چندرماپوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ کنک لتا نے چاروں طرف ایک طائرانہ نظر ڈالی۔ پیڑوں اور کونے کھدروں میں چھپے ہوئے پرشوں کو لگا کہ کنک لتا کی آنکھیں ان کی آنکھوں سے دوچار ہو رہی ہیں۔ اس کے ہونٹو ں پر مدھر مسکان تھی ۔مہیندر شرون بھی ایک خاص جگہ سے کنک لتا کو دیکھ رہا تھا، اسے بھی محسوس ہوا کنک لتا صرف اور صرف اسی کو دیکھ کر مسکائی، آنگن میں عورتیں اور بالائیں بھی دم سادھے منتظر تھیں۔ ایک سناٹا سا طاری ہو چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ کنک لتا اپنے گیت کی تان چھیڑے، اچانک فضا میں کسی الو کی تیز چیخ گونجی اور ساتھ ہی سیاروں کے ایک جھنڈ نے کھیتوں میں آسمان کو سر پر اٹھا لیا۔ کنک لتا اس سے بےنیاز اٹھی اور ایک ہاتھ کی ہتھیلی کان پر رکھ دوسرے ہاتھ کو ہوا میں پھیلا کر گیت کا مکھڑا گانے لگی۔ سارے لوگ منتر مگدھ سے کنک لتا کی آواز کے رس میں کھو گئے۔ گیت کے ساتھ ساتھ کنک لتا نے ٹھمکنا شروع کیا، گیت کے بول تیز ہوتے گئے اور کنک لتا کے رقص کی رفتار بھی تیز ہوتی گئی۔ رات ڈھل گئی، پیڑ پر چڑھے ایک دو لوگ رقص اور گیت میں اس قدر منہمک تھے کہ نیچے گر پڑے۔ کنک لتا کا گیت اور رقص ختم ہوا، اس کے ساتھ ہی سبھوں کو لگا جیسے وہ مدہوشی کے عالم سے نکل آئے ہوں۔ دور کھیتوں میں سیاروں نے دوبارہ چیخنا شروع کر دیا۔ یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ کنک لتا کے نرتیہ اور گیت کے دوران سیار خاموش ہو گئے تھے یا مسلسل چیخ رہے تھے اور لوگ اس بےمثال نرتیہ اور سریلے گیت میں اتنا مگن تھے کہ انہیں سیاروں کی آوازیں سنائی ہی نہیں دے رہی تھیں۔
چند دن گزرے کہ بھورے بھور گاؤں میں کہرام مچ گیا۔ کنول کنڈ کے گرد سرکنڈوں کی جھاڑیوں میں گرام سیوک کی بیوی کی لاش ملی۔ نہ جانے پشپ گرام کا اتہاس کتنا پرانا تھا، لیکن اس گاؤں کے لوگوں کے ذہن میں قتل تو دور کی بات ہے، کسی کے گمبھیر روپ میں گھائل ہونے کا واقعہ بھی نہیں تھا۔ یہ گاؤں تو امن وشانتی کا گہوارہ تھا۔ سارا گاؤں ہی ایک خاندان تھا۔ ہتیا اور وہ بھی پشپ گرام میں اور ایک عورت کی ہتیا؟ لوگ حیران تھے، پریشان تھے۔ لوگ گرام سیوک کے گھر کی طرف دوڑے لیکن وہ تو گھر میں تھا ہی نہیں۔ کدھر گیا، کسی کو پتہ نہیں تھا۔ اس کا چھوٹا سا بچہ جس کا چند دنوں پہلے منڈن ہوا تھا گھر کے اسارے پر بلک بلک کر رو رہا تھا۔ مہندر شرون بھی گرام سیوک کے گھر گیا۔ سب ایک دوسرے سے گرام سیوک کے بارے میں پوچھ رہے تھے لیکن کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔ مہیندر شرون وہاں سے کنول کنڈ کی طرف بڑھ گیا۔ کنول کنڈ کے پاس کنک لتا کے گھر کے سامنے اس کا باپ چارپائی بچھائے حقہ پی رہا تھا۔ اس نے ایک نظر مہندر شرون کو دیکھا اور پھر حقہ کا کش لگانے میں مشغول ہو گیا۔ سامنے کھڑکی سے لگ کر کنک لتا کھڑی ہوئی تھی، مہیندر شرون کی جب اس سے نظریں ملیں تو وہ مسکرائی۔ اس کی آنکھوں کی مخصوص چمک ویسے ہی تھی۔ مہندر شرون کو اپنے بدن میں سہرن محسوس ہوئی، وہ نظریں جھکا کر تیزی سے آگے بڑھ گیا۔
کافی دن گزر گئے اس واقعہ کو، گرام سیوک کا کچھ پتہ نہ چلا کدھر گیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اسی نے اپنی پتنی کا قتل کیا ہوگا۔ مگر کیوں، یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ اس کے بچے کو بوڑھی دائی کے حوالے کر دیا گیا جو بے ماں باپ کے بچوں کو گرام سمیتی کے حکم پر پالتی تھی۔ خود دائی بھی اس کام میں خوشی محسوس کرتی تھی۔
مہیندر شرون نے کافی دنوں کے بعد اس رات ایک دوسرا خواب دیکھا۔ وہ ایک ویرانے میں چلا جا رہا تھا، زمیں دور دور تک سنسان اور بنجر تھی۔ وہ ایک سیاہ گھوڑے پر سوار تھا۔ دور اسے پرچھائیاں نظر آ رہی تھیں۔ وہ تیزی سے بڑھتا جا رہا تھا۔ جب وہ اس جگہہ پہنچا جہاں پرچھائیاں تھیں تو اسے پرچھائیوں کی جگہہ ایک شخص نظر آیا جو نیچے جھکا ہوا کچھ کھا رہا تھا۔ جب مہیندر شرون نے غور سے دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹ گئیں، وہ تو کسی عورت کے جسم کو اپنے دانتوں سے بھنبھوڑ رہا تھا۔ اس کے منہ کے کناروں سے خون بہہ رہا تھا۔مہیندر شرون خواب میں حیران ہوا کہ وہ کوئی اور نہیں گرام سیوک ہے لیکن یہ کیا اس نے تو سیاہ ساری پہنی ہوئی اور اپنے سینے پر سرخ چولی باندھی ہوئی۔ وہ کھڑا ہوا اپنے ہاتھوں کو ہوا میں لہراکر ایک گیت الاپنے لگا، ساتھ ہی ساتھ نرتیہ بھی کرنے لگا۔ ناچتے ناچے وہ مہیندر شرون کے نزدیک آ گیا اور اپنے ہاتھوں میں پکڑے گوشت کے ٹکڑے کو اس کی طرف بڑھا دیا۔ ایک چیخ اس کے حلق میں گھٹ کر رہ گئی اور آنکھیں کھل گئیں۔
اس کے بعد تو گاؤں میں عجیب وغریب واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔
گاؤں کے گرہستھ اپنے کاموں سے جی چرانے لگے، اکثر لوگوں کو کنول کنڈ کے اطراف چکراتے ہوئے دیکھا جانے لگا۔ گاؤں کی عورتوں میں کھسر پھسر شروع ہوئی۔ ایک روز گاؤں کی کچھ عورتیں کنک لتا کے گھر کے پاس جمع ہو گئیں۔ کنک لتا کا باپ چارپائی پر بیٹھا حقہ پیتا رہا۔ کنک لتا کھڑکی سے لگی مسکراتی رہی۔ اس نے عورتوں کو اندر آنگن میں بلایا۔ عورتیں پتہ نہیں کنک لتا سے کیا کہنے آئی تھیں۔ لیکن کنک لتا نے جب ان کو بٹھا کر کمہار کے تازہ کٹوروں میں شربت پلایا تو یہ عورتیں سب بھول گئیں۔ کنک لتا نے مکان کو بہت سجا لیا تھا۔ زندگی کی آسائش کا سارا سامان نظر آ رہا تھا۔ کنک لتا کے گلے میں موٹے منکو ں کی مالا تو وہی تھی لیکن باقی سارے سورن ابھوشن (سونے کے زیور) اس کے شریر پر سجے اس کی سندرتا کو چار چاند لگارہے تھے۔ عورتیں کچھ دیر بیٹھی رہیں پھر سورن لتا کو دھنیہ واد دے کر چلی آئیں۔
پشپ گرام میں لوگوں کا اپنی ذمہ داریوں سے موہ بھنگ کیا ہوا، گاؤں کا انتظام ہی چرمرانے لگا۔ جانور دبلے ہونے لگے، گائیں کم دودھ دینے لگیں۔ کھیتوں میں بیج بونے کا وقت گزر گیا اور لوگ یوں ہی بیٹھے رہے۔ پشپ گرام کے راستوں کے کنارے لگے پھولوں کے پودوں کو جنگلی لتاؤں نے نگل لیا۔ اس کے ساتھ ہی گاؤں میں عجیب و غریب واقعات کا سلسلہ چلتا رہا۔ ہر دوسرے، تیسرے دن کوئی سہاگن مر جاتی، کیسے مرتی یہ اندازہ لگانا بہت مشکل تھا۔ لوگ کبھی کسی عورت کو کسی پیڑ سے لٹکا ہوا پاتے، کسی کو بستر پر ہی مردہ پاتے، اس طرح کہ اس کا جسم نیلا پڑ چکا ہوتا۔ کوئی خود ہی اپنے ہاتھوں کی رگ کاٹ لیتی۔ عورتیں ایک ایک کرکے مر رہی تھیں اور مہیندر شرون بہت پریشان تھا۔
پشپ گرام کی رونق دھیرے دھیرے ختم ہوتی جا رہی تھی۔ کنول کنڈ میں کنول کی جگہہ جل کنبھی نے لے لی تھی ۔سارے کنڈ کو جل کنبھیوں نے ڈھک لیا تھا۔ کھیت ویران اور اجڑے ہوئے تھے۔ گاؤں میں اکا دکا عورتیں نظر آ جاتیں تو آ جاتیں۔ بہت ساری سہاگنیں پراسرار طور پر مر گئی تھیں۔ لیکن ان کے شوہر لاپراہ نظر آتے تھے۔ اناج گھر میں اناج کم ہونے لگا۔ اناج کی تقیسم میں افراتفری نظر آنے لگی۔ کنک لتا نے اب ماتاجی کی ذمہ داری سنبھال لی تھی۔ ماتا جی ایک روز اناج گھر سے واپس آئیں تو تھکن سے نڈھال تھیں۔ سیدھے چارپائی پر گر پڑیں اور ایسی گریں کہ دوبارہ اٹھ نہ سکیں، چارپائی ہی سے سٹ کر رہ گئیں۔ گرام ادھیشک نے مردوں سے صلاح کیا اور سب نے ایک زبان ہوکر کنک لتا کو اناج گھر کی پرمکھ سیویکا بنا دیا۔ گاؤں کی بچی کھچی عورتوں کو یہ فیصلہ پسند نہیں آیا لیکن گرام ادھیشک کے فیصلے کو بدلنا ناممکن تھا۔ عورتیں کیا کرتیں۔ گاؤں کے اناج گھر کا اختیار دراصل پورے گاؤں پر ادھیکار کے برابر تھا۔ اب گاؤں کے بھوجن کی کنجی کنک لتا کے ہاتھ میں تھی۔
مہہندر شرون اپنے خوابوں سے مسلسل ہراساں اور تکلیف میں تھا۔ دن بھر سوچتا کیا کرے، یہ خوفناک سپنے اسے کیوں آتے ہیں، ان سے چھٹکارہ پانے کا کیا طریقہ ہے۔ کیا ان سپنوں میں کوئی بھید ہے۔ کیا یہ سپنے کیول مجھے ہی آتے ہیں یا کوئی اور بھی ہے جو ایسے سپنے دیکھتا ہے۔ ایک دن اس نے گرو دیو کو اپنے سپنوں کے بارے میں بتایا۔
دھیان کے کمرے میں بیٹھے گرونے پوچھا۔ ’’یہ سپنے کب سے آ رہے ہیں تجھے؟‘‘
’’کچھ یاد نہیں گرودیو، ہاں ایک بات یاد آتی ہے، ہمارے گاؤں میں اسوروں کی ستائی ایک استری آئی تھی اس دن، کنک لتا۔‘‘
’’اسور!‘‘ گرو دیو نے گہرائی سے کہا اور دھیان میں مگن ہو گئے۔ ’’ہے بالک کیا تم نے آسوروں کو دیکھا ہے؟‘‘
’’نہیں گرودیو۔‘‘
’’آسور اتہاس (تاریخ ) بھی نہیں جانتے، تمہیں گیان نہیں کہ تمس کیا ہے، چھل کیا ہے۔‘‘
’’ستیہ وچن گرودیو۔‘‘مہیندر شرون نے شردھا سے سر جھکا لیا۔
تب گرو دیونے آسوروں کا اتہاس بتایا۔ ’’ہے بالک جب ہمارے پوروج (اجداد) اتر کی طرف سے اس دھرتی پر لوہا لے کر آئے، لوہا جو کاٹتا تھا، مارتا تھا، لوہا جو لہو کو پیتا تھا، وہ پہلی بار ہمارے پوروج لے کر آئے۔ یہاں آسوروں کے بڑے بڑے نگر تھے اور نگر کے چاروں اور پور (قلعے کی دیواریں ) تھے۔ ہمارے پوروج میں گرج اور چمک کے دیوتا اندر نے آسوروں کے دیوتا شیش ناگ کا سر کچلا اور پوروں کو توڑ ڈالا۔‘‘ گرو دیو رکے اور اوپر کی اور دیکھنے لگے۔ ’’اندر اور ان کے ساتھیوں نے گھوڑوں پر سوار ہوکر لوہ کا استعمال کیا اور اس دھرتی پر موجود آسوروں کو ختم کرنے لگے۔ آسوروں کے نگر ویران ہو گئے، یہ نگر سندر شلپ کلا کا نمونہ تھے۔یہاں سڑکیں تھیں، دو منزلہ، تین منزلہ مکان تھے۔ نالیاں تھیں، حمام تھے۔ ہمارے پوروج گھمکڑ تھے، کسی ایک جگہ ٹکتے ہی نہیں تھے، گھوڑوں پر سوار اپنے جانوروں اور پریوار جنوں کے ساتھ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ آسور ہمارے پوروجوں کے خوف سے دکشن کی اور گھنے جنگلوں میں چلے گئے اور وہاں انہیں تمس کی پراپتی ہوئی۔‘‘
’’تمس۔‘‘میں سمجھا نہیں گرودیو۔
’’تمس یعنی اندھکار۔ انہوں نے اندھکار کی جے کی اور تامسی ہو گئے۔ انہوں دیوتا تمس کی پوجا ارچنا کی، انہیں اپنے وش میں کیا اور اپنے بھیتر راکشش کے گن پراپت کئے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ چھل کیا؟‘‘
’’ہاں گرودیو، پرنتو میرا گیان ادھورا ہے۔‘‘
’’چھل، یعنی دھوکا، چھل سے چھنال شبد نکلا ہے بالک۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں گرودیو، چھنال؟؟‘‘
’’اس سے زیادہ گیان دینے کی مجھے آ گیا نہیں بالک، اب جاؤ اور اپنے پرشنو کا جواب خود تلاش کرو۔‘‘ اتنا کہہ کر گرودیو نے آنکھیں بند کر لیں اور دھیان مگن ہو گئے۔
مہندر شرون دکھی من سے اٹھ کر چلا آیا اسے گرودیو کی باتوں میں چھپے بھیدوں کا ارتھ سمجھ میں نہ آیا۔ ابھی تو اس نے اپنشد کا پاٹھ بھی شروع نہیں کیا تھا، پھر اتنے گہرے فلسفہ تک اس کی رسائی کیسے ہوتی۔ چندرلیکھا پہاڑی پر بنے گروکل سے نکل کر مہیندر شرون نے نیچے دیکھا، سندھیا اب اترنے والی تھی، پشپ گرام پر ایک سناٹا طاری تھا، دور تک پھیلے جنگل کے درخت کسی سوگ میں سر جھکائے کھڑے تھے۔ کمل کنڈ جو جل کنبھی سے ڈھک چکا تھا گہرا سبز نظر آ رہا تھا۔ مہیندر شرون کو ہوا میں ایک ناگوار بو پھیلی محسوس ہوئی، جیسے کچھ سڑ رہا ہو۔یہ بو کمل کنڈ ہی کی طرف سے آ رہی تھی، شاید یہ میرا بھرم ہو، مہیندر شرون نے خود سے کہا کیوں کہ کمل کنڈ کے اس طرف کنک لتا کے دوار پر بڑی چہل پہل تھی۔ پشپ پوری کے کئی گرہستھ اور ودیارتھی وہاں جمع تھے۔
مہیندر شرون جب کنک لتا کے دروازے کے پاس پہنچا تو ایک عجیب نظارہ تھا وہاں، پشپ پوری کے گرہستھوں اور طالب علموں کے علاوہ گاؤں کی بہت سی عورتیں بھی جمع تھیں۔ گرہستھ اپنی بیویوں کو ڈانٹ رہے تھے لیکن سہاگنیں بہت بے چین تھیں۔ وہ بار بار کنک لتا کی طرف ہاتھ اٹھاتیں اور اپنے سینے پر مارتیں جیسے ماتم کر رہی ہوں۔ کنک لتا لوگوں کی بھیڑ میں بہت معصومیت کے ساتھ حیران آنکھوں سے ان عورتوں کو دیکھ رہی تھی۔ اس کا باپ ان باتوں سے بے پرواہ سر جھکائے حقہ پینے میں مصروف تھا۔ کنک لتا کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں اور اس میں ایک عجیب سی سرخی کی آمیزش تھی۔ اس نے اپنے ہونٹوں کو بھینچ رکھا تھا۔ گاؤں کی بالائیں کنک لتا کے گرد جمع تھیں اور اسے ہمدردی اور دکھ بھری نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سہاگنوں کی حرکتوں سے گرہستھوں کے اندر غصے کا لاوا پھوٹنے کے لیے بےتاب ہو۔ وہ باربار اپنی بیویوں کو دھکیل کر کنک لتا سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن سہاگنیں کنک لتا کو جان سے مارنے کے درپے نظر آ رہی تھیں۔ گاؤں کے طالب علم بھی کنک لتا کے آس پاس اور بالاؤں کے اردگرد کھڑے تھے اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ان کے دلوں میں بھی کنک لتاکے لیے ہمدردی کے جذبات ہیں۔ مہہندرشرون یہ دیکھ کر حیران بھی ہوا اور پریشان بھی کہ اس کی تینوں کنواری بہنیں کنک لتا کو بڑے پیار سے، بڑی کرونا سے دیکھ رہی ہیں۔ ان کی انگیانمایاں ہے اور ساری کا آنچل زمین پر گرا ہوا ہے۔ شرون نے آنکھوں کے اشارے سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن بے سود وہ اس کی باتوں کو سمجھ کر بھی انجان بنتی رہیں۔ مہیندر شرون بہت اداس ہو گیا، سہاگنوں کی بھیڑ میں اچانک ایک عورت گر پڑی، مہیندر شرون نے دیکھا وہ گربھ وتی تھی (حاملہ)، اسے گرتے دیکھ کنک لتا بہت تیزی سے اس کے پاس دوڑی اور اسے سہارا دے کر اس چارپائی تک لے آئی جس پر اس کا باپ ساری دنیا سے بےخبر حقہ پی رہا تھا۔ وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا تو کنک لتا نے اس گربھ وتی سہاگن کو چارپائی پر لٹا دیا۔ اس کی آنکھوں سے پانی کے کچھ قطرے ٹپک کر عورت کی پیشانی پر پڑے اور آنکھوں کی لالی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔ مہیندر شرون کو ایسا لگا جیسے وہ ایک سحر کی کیفیت میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔ گاؤں کے کنوارے نوجوانوں کی طرف اس نے ایک کشش محسوس کی اور اس کا جسم اس طرف کھینچنے لگا، تبھی اس کی نظر دور گروکل کے مندر کے کلش پر لہراتے جھنڈے پر پڑی اور ایک ہیولا بھی نظر آیا، یہ گرو دیو تھے۔ مہیندر شرون کو لگا کہ جس مقناطیسی عمل کے تحت وہ کھینچ رہا تھا اس کے تار ٹوٹ رہے ہیں، اس نے اپنے سر کو جھٹکا اور لوگوں کی بھیڑ کو چیرتا ہوا تیر کی طرح گروکل کی طرف بھاگنے لگا۔ گروکل میں جب وہ دھیان کے کمرے میں داخل ہوا تو گرو نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا، ان کے مکھ پر چنتا اور دکھ کے بادل تیر رہے تھے۔
’’آج انتم پورن ماشی ہے مہیندر شرون، یہ تمہارا مضبوط ارادہ اور گرو بھگتی ہے کہ تم ادھر چلے آئے۔‘‘ گرو دیو نے گہرا سانس لیا۔
’’انتم پورن ماشی، یہ کیسے ممکن ہے گرو دیو؟ پورن ماشی تو ہر ماہ ہوتی ہے۔ پورا چندرما اگتا ہے، چاندنی کا پرکاش پھیلتا ہے۔‘‘
’’چندرما اوشیہ نکلا کرےگا بالک، پرنتو تمس کے مکھ سے۔‘‘
’’تمسَ!‘‘
’’ہاں کل سے تامسی یگ کی شروعات ہوگی۔ ایک نہ ختم ہونے والا اندھکار۔ تمہیں اس اندھکار سے لڑنا ہے۔‘‘
’’درشن (فلسفہ) کی اتنی گہری باتیں مجھے ابھی سمجھ میں نہیں آتیں گرو دیو، ابھی میں نے اپنشد کا پاٹھ شروع نہیں کیا ہے۔‘‘
’’تمس کو سمجھنے کے لیے تمہیں اتھروید کا پاٹھ کرنا چاہئیے۔ تمس، چھل اور چھنال کی ساری بھوشیہ وانی (پیشن گوئی) اس کتاب میں موجود ہے۔‘‘
’’اتھروید کے منتروں کا پاٹھ کرتے ہوئے مجھے بہت بھئے (ڈر) محسوس ہوا گرو دیو اور میں نے ناسکوں (چپٹی ناک والوں) کے بارے میں گیان پراپت کرنا تیاگ دیا۔‘‘
’’اگر تم نے گیان پراپت کیا ہوتا تو تمہیں اپنے پرشنوں کا اتر سپنے کی پہلی بھور کو مل گیا ہوتا۔ اب تمس ہی تمس ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر گرو دیو خاموش ہو گئے۔ مہیندر شرون ودیارتھی وشرام گھر کی اور نکل گیا۔ کھلے میں اس نے آکاش کی اور دیکھا، چندرما پورے تیج کے ساتھ چمک رہا تھا لیکن ہوا ٹھہری ہوئی تھی اور سارا سنسار خاموشی کے گربھ میں دم سادھے پڑا ہوا تھا۔ تبھی ایک عورت کی چیخ نے ماحول کے کلیجے کو چیر دیا۔ مہیندر شرون ودیارتھی وشرام گھر سے گھبراکر باہر نکلا اور نیچے کمل کنڈ کی طرف دیکھا تو ایک عجیب نظارہ نظر آیا، اگنی کی لپلپاتی زبانیں ہر طرف روشن تھیں اور بہت سی پرچھائیاں متحرک۔ وہ تیز ی سے نیچے اترا اور کمل کنڈ کے پاس پہنچا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ آدھی رات کا سمے، چندرما سروں پر چمک رہا تھا اور یہاں پشپ گرام کے گرہستھ، ودیارتھی اور کنواری بالائیں ہاتھوں میں مشعل لیے کھڑی تھیں۔ ساری بالاؤں کے جسم کا اوپری حصہ عریاں تھا۔ ان کے درمیان کنک لتا پوری نروستر (ننگی)، آنکھیں بند کیے گربھ وتی استری کی جانگھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھی۔ یہ گربھ وتی زور زور سے چیخ رہی تھی۔ دور اس بھیڑ سے پرے چند سہاگنوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا گاؤں سہاگنوں سے خالی ہو چکا ہے اور اب صرف یہی ایک گربھ وتی بچی ہے۔
اچانک گربھ وتی نے فلک شگاف چیخ ماری اور اس کی گردن ایک طرف لڑھک گئی۔ کنک لتا نے اس کی جانگھوں کے درمیان سے اپنا ایک ہاتھ نکالا اور بلند کیا، اس کے ہاتھوں میں وہی بچہ تھا جسے مہیندر شرون نے اپنے سپنے میں دیکھا تھا۔ وہی مردہ بچہ جس کی آنکھوں کی جگہہ دو غار تھے۔ کنک لتا نے بچے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں بلند کیا اور کھڑی ہو گئی۔ وہ آگے آگے چل رہی تھی اور اس کے پیچھے پیچھے گرہستھوں، ودیارتھیوں اور آدھ ننگی بالاؤں کی ٹولی۔ فضا میں اچانک کنک لتا کی سریلی آواز میں ایک بھیانک گیت کے بول ابھرے اور لوگوں پر ایک جنونی کیفیت طاری ہو گئی۔ سب پاگلوں کی طرح ناچتے ہوئے گاؤں سے باہر جانے والے راستے کی طرف بڑھنے لگے۔
دھیرے دھیرے یہ بھیڑ بہت دور سایوں میں بدل گئی، لیکن پھیلی ہوئی چاندنی میں ان سایوں کے درمیان سے تاریکی کا دھواں ابھرا اور دھیرے دھیرے پوری کائنات پر پھیل گیا۔
پسپ گرام کے راستوں پر ناگ پھنی کے پودے اگ آئے جس میں سیاہ پھول کھلتے ہیں۔ آتے جاتے راہ گیر دیکھتے ہیں کہ ایک ادھیڑ ہوتا ہوا جٹا دھاری ان پودے کو لوہے سے کاٹتا رہتا ہے۔ لیکن تامسی پھول ختم نہیں ہوتے۔
مصنف:ابرار مجیب