سوا نیزے پر سورج

0
150
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’شیعہ سنی تفریق پر لکھی ایک علامتی کہانی ہے۔ گھر کے بچے ہر وقت کھیلتے رہتے ہیں۔ وہ اس قدر کھیلتے ہیں کہ ہر کھیل سے عاجز آ جاتے ہیں۔ ابو جی انھیں سونے کے لیے کہتے ہیں لیکن وہ چپکے سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔ جہاں وہ سب مل کر شیعہ سنی کی لڑائی کا کھیل کھیلتے ہیں۔‘‘

میری بڑی بیٹی سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔

میں نے پوچھا، ’’کھیل چکیں؟‘‘

’’کیا کھیلیں؟‘‘

اس نے ہوا میں دونوں ہاتھ اٹھاکر جھلا دیے۔

- Advertisement -

’’کیرم کیوں نہیں کھیلتیں؟‘‘

’’آپ تھوڑی دیر بعد کہیں گے تم لوگ شور کرتے ہو۔۔۔؟ اور پھر شگوفہ کھیلنے بھی تونہیں دیتی۔۔۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد سب گوٹیں گڑبڑ کردیتی ہے۔ خود تو کھیلنا آتا نہیں،ہمیں بھی نہیں کھیلنے دیتی۔‘‘

’’بچی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’اپنی چھوٹی بہن کا خیال تو کرنا ہی چاہیے۔‘‘ میں نےاپنے حساب سے سارا جھگڑا چکا دیا۔

’’تو ہم کون سے بوڑھے ہو گئے ہیں، ہم بھی تو بچے ہیں۔‘‘ فوزیہ نےسادگی اور بھولے پن سے کہا۔ میں نے مسکراکر اس کی طرف دیکھا۔ واقعی ابھی وہ بچی ہی تو تھی۔ اس سے یہ امید کرنا کہ چھوٹے بھائی بہنوں کے جھگڑے چکائے، چھوٹی بہن کیرم کی گوٹوں کو کھیل کے درمیان بار بار بگاڑ دے تو غصہ ہونے کے بجائے انہیں پھر اپنی جگہ رکھ کر سجائے اور منائے، اس کے ساتھ ذرا زیادتی ہی تھی، اس لیے میں نے کہا، ’’تو تم دونوں لوڈو کیوں نہیں کھیلتیں؟‘‘

’’صبح تو کھیلا تھا۔‘‘

’’تو اور کھیلو۔‘‘

’’اور کیا کھیلیں؟‘‘ وہ منمنائی۔ ’’صبح جب سیف ہارنے لگے تو خفا ہوکر الگ بیٹھ گئے۔‘‘ بولے، ’’آپ ہمیشہ ہرادیتی ہیں، ضرور بے ایمانی کرتی ہیں۔‘‘

’’تو ایسا کرو۔‘‘ میں نے ایک ترکیب نکالی۔ ’’خود تو دوگوٹوں سےکھیلو اور اس کو چار گوٹوں سے کھیلنے دو۔‘‘

’’اس سے کیا ہوگا؟‘‘ فوزیہ نے پوچھا۔

’’ہوگا یہ کہ تم اچھا کھیلتی ہو تو جیتوگی ہی۔ اس طرح ممکن ہے سیف بھی کبھی جیت جائیں اور ان کی بھی خوشی ہو جائے۔‘‘

’’اس میں اچھا کھیلنے کی کون سی بات ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’یہ تو قسمت کی بات ہے۔ پانسہ میں جو بھی نمبر آ جائے۔ بڑے چھوٹے سے اس کا کیا تعلق؟‘‘

’’پھر بھی۔‘‘

’’پھربیھ کیا ابو۔۔۔؟وہ پانسہ ڈالیں تو ان کی گوٹ بھی آگے بڑھاؤ، اس کا بھی خیال رکھو کہ ان کی گوٹ نہ پٹنے پائے، اس پر بھی ہار جائیں تو منھ پھلاکر بیٹھ جاتے ہیں۔‘‘

سچ پوچھیے تو فوزیہ کی دلیل میں وزن تھا اور میں سوچ ہی رہا تھا کہ کیا جواب دوں کہ اتنے میں سیف میاں دوسرے کمرہ سے آ گئے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے جو مجھے دیکھتے ہی بہہ نکلے۔

’’ابو دیکھیے گڑیا ہمارے ساتھ کھیلتی نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر سیف جو ہمیشہ فوزیہ کو گڑیا ہی کہتے تھے، بھوں بھوں رونے لگے۔فوزیہ نے جب دلیل کو آنسوؤں سے ہارتے دیکھا تو وہ بھی رونے لگی۔

تھوڑی دیر بعد تینوں بھائی بہن پھر ایک جگہ مل جل کر کھیلنے لگے۔ کھڑکی سے جھانک کر میں نے دیکھا تو آنگن کی دوسری طرف باورچی خانہ کے پاس دالان میں ان کھلونوں کی، جو امتحانات ختم ہونے کے بعد دوبارہ بچوں کےقبضے میں آ گئے تھے، بارات سجی تھی۔ چھوٹی چھوٹی اینٹوں کا چولہا بنایا گیا تھا جس پر ایک چھوٹی سی پتیلی میں کھانا پک رہا تھا۔ سامنے گڈے گڑیوں کا صوفہ سیٹ سجا تھا۔ بیچ میں ایک چھوٹی سی میز رکھی تھی۔ صوفوں پر آمنے سامنے گڈے گڑیا بیٹھے تھے۔ ان کے سامنے میز پر ٹین کی پھول دار رنگین پلیٹیں رکھی تھیں، جن میں بسکٹ اور لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے رکھے تھے۔ ٹین کی رنگین کیتلی اور چینی کی چھوٹی چھوٹی پیالیاں، طشتریاں قرینے سےمیز پر سجی تھیں۔ فوزیہ نے پتیلی پر سے طشتری اٹھاکر چمچے سے ایک آلو نکالا اور اسے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے دباکر دیکھا اور بولی، ’’ابھی تھوڑی کسر ہے۔‘‘ توشگوفہ نے گڈے گڑیا کی طرف دیکھ کر کہا: ’’ابھی کھانے میں تھوڑی دیر ہے، آپ لوگ جب تک ناشتہ کیجیے۔‘‘

میں اپنی ہنسی بہ مشکل ہی ضبط کر سکا۔ وہ اپنے کھیل میں اس طرح کھوئے ہوئے تھے کہ انہیں اس بات کا اندازہ بھی نہ ہو سکا کہ میں انھیں دیکھ رہا ہوں، ورنہ فوزیہ وہیں سےکہتی، ’’ابو اللہ، آپ اندر جائیے۔ دیکھیے ہم تو آپ کا کھیل نہیں دیکھتے ہیں۔‘‘

میں مطمئن ہوکر کمرے میں چلا آیا۔ بیوی کسی عزیزہ کے یہاں گئی ہوئی تھیں، جو یکایک شدید بیمار ہو گئی تھیں۔ اس گھر میں دو بچوں کے خسرہ نکلا تھا۔ اس لیے تینوں بچوں کو گھر پر ہی چھوڑ گئی تھیں۔ ان عزیزہ کا گھر کافی فاصلہ پر تھا۔ آنے جانے میں تین چار گھنٹے تو لگیں گے ہی۔۔۔ میرے لیے تینوں بچوں کی دیکھ بھال کا یہ پہلا تجربہ تھا، اس لیے شروع میں تو کچھ گھبرایا تھا کچھ الجھا بھی تھا لیکن اب ایسا لگ رہا تھا کہ میری پریشانی بلاسبب تھی۔ ویسے بھی اب بیوی کو گئے ہوئے تقریباً تین گھنٹے ہو گئے تھے اور اب وہ واپس آتی ہی ہوں گی۔یہ سوچ کر میں نے پلنگ پر دراز ہوکر اخبار پڑھنا شروع کر دیا۔ ابھی میں بہ مشکل دو تین خبریں ہی پڑھ سکا تھا کہ سیف میاں روتے ہوئے آئے۔

’’ابو گڑیا آپا بڑی خراب ہیں۔ اپنی گڑیا کو دو دو پیالیاں چائے پلاتی ہیں اور میں نے کہا، میرے گڈے کو بھی ایک پیالی بنا دو تو بولیں، جانتے ہو شکر کتنی مہنگی ہے۔ آپ تو کل کہہ رہے تھے کہ شکر سستی ہو گئی ہے۔‘‘ میں ہنسی بڑی مشکل سے روک سکا۔ پھر میں نے فوزیہ کو آواز دی۔

’’فوزیہ!‘‘

’’جی ابو۔‘‘

’’سنو!‘‘

’’آئی‘‘ کہتی ہوئی وہ آبراجی۔

’’کیوں جی۔ تم سیف کے گڈے کے لیے چائے کی دوسری پیالی کیوں نہیں بنا دیتیں؟‘‘

’’ابو آپ جانتے نہیں۔ یہ بڑے حضرت ہیں، پہلے بولے ہمارا گڈا ککڑی اور بسکٹ زیادہ کھائےگا، اسے بھوک لگی ہے، تم اپنی گڑیا کو دوپیالی چائے پلا دینا۔ میں نے بسکٹ اور ککڑی کا چھوٹاسا ایک ٹکڑا اپنی گڑیا کو دیا اور باقی سب ان کے گڈے کو دے دیا۔ اب چائے بھی دوسری پیالی مانگ رہے ہیں۔‘‘

’’لیکن گڈے گڑیا تو کچھ کھاتے نہیں۔ وہ بسکٹ اور ککڑی ہوئے کیا؟‘‘

’’ہوئے کیا؟ خود کھا گئے۔‘‘ فوزیہ بولی۔

’’اور تم نے نہیں دو دو پیالی چائے پی لی۔۔۔ اور بسکٹ ککڑی بھی تو کھایا تھا تم نے۔۔۔‘‘ سیف رونے لگا۔اسی لمحہ شگوفہ ایک ہاتھ میں کھلونے والی طشتری ،پیالی اور دوسرے میں بسکٹ اور ککڑی کے دو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لیے کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ اس طرح سنبھل سنبھل کر چل رہی تھی کہ اگر ذرا بھی تیزی سے چلتی تو چائے کی پیالی چھلک جائےگی۔

’’ابو یہ آپ کا حصہ ہے۔‘‘ اس نے دھیرے سے کہا اور نہایت آہستگی سےپیالی اور طشتری تخت پر رکھ کر چھوٹے سے ٹین کے چمچے سے پیالی میں، جو بالکل خالی تھی، شکر چلانے لگی۔

’’بھئی اس میں تو چائے ہے ہی نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔

’’جھوٹ موٹ۔‘‘ کہہ کر اس نے پیالی میرے مونہہ سے لگا دی۔

’’بڑے مزے کی ہے۔‘‘ میں نےکہا تو فوزیہ بھی مسکرا دی۔ لیکن مجھے اپنی طرف دیکھ کر اس نے منہ دوسری طرف کر لیا۔ سیف میاں اب بھی روہانسے تھے۔

اصل میں یہ لوگ صبح سے کھیلتے کھیلتے تھک چکے تھے۔ آخر کھیلنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اسکولوں میں گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوئے پندرہ بیس دن ہوچکے تھے۔ پہلے چھ سات دن تو ان لوگوں نے چھٹیوں کے خوب مزے لیے۔ رنگ برنگی تصویروں کی ہندی، اردو اور انگریزی کی جو بہت سی کتابیں میں نے ان دونوں کے لیے اکٹھا کی تھیں دو دو نہیں ،چار چار بار پڑھ ڈالا۔ پھر کئی دن لڑےجھگڑے بغیر کھیلتے رہے۔ اب کئی دن سے وہ حساب لگا رہے تھے کہ اسکول کھلنے میں کتنےدن باقی ہیں اور ہر کھیل کا خاتمہ بھی لڑائی پر ہونے لگا تھا۔ ایک دم مجھے خیال آیا کہ پاس والے مکان کی بچی نازو کئی دنوں سے نظر نہیں آئی اور یہ لوگ بھی اس کے یہاں نہیں گئے۔ میں نے کہا، ’’اب تم لوگ نازو کے ساتھ نہیں کھیلتے؟‘‘

’’جب سے جھگڑا ہوا ہے اس کی دادی اسے آنے ہی نہیں دیتیں ہمارے یہاں۔‘‘ فوزیہ نے کہا۔

’’تو تم لوگ چلے جایا کرو۔‘‘

’’امی نے منع کر دیا ہے۔‘‘

خالی چرخی، ہاتھ میں تھی اور پتنگ آسمان پر۔۔۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا تو میں نے کہا، ’’اچھا اب تم لوگ سو جاؤ۔‘‘

’’امی کب آئیں گی؟‘‘ شگوفہ نے پوچھا۔

’’اب آتی ہی ہوں گی۔‘‘ میں نےتسلی دی۔

’’جب آئیں گی تب سو جائیں گے مزے سے۔‘‘

’’نہیں۔۔۔‘‘ میں نے’’ نہیں‘‘ کی ’’ی‘‘ کو ذرا کھینچ کر مصنوعی غصے سےکہا، ’’بس اب لیٹ جاؤ۔ لو چلنے لگی ہے۔۔۔ اب دالان میں کوئی نہیں کھیلےگا۔‘‘ میرے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر تینوں کمرے میں لیٹ گئے۔ فوزیہ اور سیف تخت پر اور شگوفہ میرے پاس مسہری پر۔

’’آنکھیں بند۔‘‘ میں نے کہا تو تینوں بچوں نےآنکھیں بند کرلیں اور میں پھر اخبار پڑھنے لگا۔تھوڑی دیر بعد کھسر پھسر کی آواز سن کر میں نے اخبار آنکھوں کے سامنے سے ہٹایا تو فوزیہ اور سیف شرارت بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔

’’سو جاؤ۔۔۔‘‘ میں نے ذرا سختی سے کہا۔ دونوں نےخوب کس کر آنکھیں بند کر لیں۔ مگر شریر مسکراہٹ اب بھی ان کے چہروں پر کھیل رہی تھی۔ میں پھر اخبار پڑھنے لگا اور نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔تھوڑی دیر بعد میری آنکھ کھلی تو تخت خالی تھا، مسہری پر شگوفہ بھی نہ تھی۔ میں کچھ دیر تک خاموش بستر پر لیٹا رہا، شاید اس انتظار میں کہ کسی کی آواز سنائے دے تو بلاؤں لیکن نہ کسی کی آواز سنائی دی نہ یہ اندازہ ہی ہوا کہ کہاں ہیں۔میں نہایت خاموشی سے بستر سے اٹھا۔ سامنے والا دالان خالی تھا۔ کھلونے صوفہ سیٹ سب اسی طرح سجے تھے۔ اب مجھے ذرا تشویش ہوئی لیکن صدر دروازہ اندر سے بند دیکھ کر میری تشویش کم ہوئی۔ دوسرے کمرے کا دروازہ بند تھا۔ میں نے دراز سے جھانکا، تینوں بچے کمرے میں موجود تھے۔

شگوفہ فرش پر دراز تھی۔ اس کاکرتا اوپر تک اٹھا ہوا تھا اور پیٹ پر پٹی بندھی تھی جس سے خون کی چھینٹیں جھانک رہی تھیں۔ میں گھبرا گیا۔ لیکن پاس والی میز پر لال روشنائی کی دوات الٹی پڑی اور میزپوش اس سے تربتر دیکھ کر میری گھبراہٹ تو دور ہو گئی، تاہم معاملہ کیا ہے یہ میری سمجھ میں نہ آیا۔ شگوفہ کے پاس ہی ترکاری کاٹنے والی چھری ایک پھٹے سے کپڑے پر رکھی ہوئی تھی۔ کپڑا جگہ جگہ سے سرخ ہو گیا تھا۔ سیف لکڑی کی ایک کھپچی جس کے ایک سرے پر کپڑا لپٹا ہوا تھا، ہاتھ میں پکڑے کھڑا تھا اور فوزیہ سے کہہ رہا تھا۔

’’مٹی کا تیل تو اسٹوو میں ہے اور اسٹوو مل نہیں رہا ہے۔‘‘

’’وہیں کہیں ہوگا۔ کچن میں الماری کے نیچے دیکھو۔‘‘

’’اچھا کہہ کر سیف نے دروازہ کھولا تو مجھے دیکھ کر پہلے تو کچھ حیران سے ہوئے پھر مسکرائے اور فوراً ہی کمرے میں لوٹ گیا۔ میں کمرے میں داخل ہو گیا۔ مجھے دیکھ کر شگوفہ بھی فرش پر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔‘‘

’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

فوزیہ نے میری طرف دیکھا اور پلک جھپکائے بغیر بولی، ’’ہم لوگ شیعہ سنی لڑائی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔‘‘

مصنف:عابد سہیل

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here