بہت دیر سے ریلوے ریزرویشن کی لمبی لائن میں کھڑے رہنے کے بعد اب وہ کھڑکی کے کافی قریب پہنچ گیا تھا۔ اس کے آگے اب صرف چار پانچ لوگ ہی رہ گئے تھے۔ جس کا عالم تھا اور وہ پسینے سے شرابور تھا۔ اس نے لاشعوری طور پر اپنے دونوں ہاتھ سر پر پھیرے تو وہ پھسل کر اس کی گدی پر جاٹکے تب اسے ہزارویں بار خیال آیا کہ اب وہ ‘فارغ البال’ ہو چکا ہے۔ اس نے عادتا اپنی گدی سہلائی پھر ریزرویشن ہال کا جائزہ لینے لگا جو ہجوم سے ٹھساٹھس بھرا ہوا تھا۔ برسات کی گرمی نے ہر کسی کی درگت بنادی تھی۔ لوگ پسنیے تربتر ہورہے تھے ۔ ذراذراسی بات پر ایک دوسرے سے الجھ پڑنے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ وہ گھوم کر اپنی کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا۔ جہاں اس کے آگے اب صرف دولوگ باقی بچے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ ہمیشہ ریزرویشن کرانے کے لیے خود آتا رہا ہو۔ یہ کام تو اس کے شاگرد ہی انجام دیا کرتے تھے۔ لیکن اس بار وہ بڑا محتاط تھا اس لیے اسے خود لائن میں لگنا پڑا تھا۔اس کی بغل والی کھڑکی پر عورتوں کی قطار تھی جن میں بوڑھے اور جسمانی طور پر معذور لوگ بھی شامل تھے ۔ اس نے شدید طور پر محسوس کیا کہ لائن میں لگے ہوئے بوڑھے اپنے آگے کھڑی ہوئی عورتوں سے کچھ زیادہ ہی چپک کر کھڑے ہیں اور ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی معصومیت کے ساتھ لطف اندوز ہونے کا عصر بھی نمایاں ہے۔کاونٹر کلرک کے متوجہ کرنے پر وہ چونکا اور پھر اس نے ریزرویشن فارم آگے بڑھایا۔ چند لمحوں بعد کلرک نے اسے وہ ٹکٹ تھمایا جس پر حسب منشا تاریخ درج تھی۔ریزرویشن ہال سے نکلتے ہی اس نے شہناز کو فون کیا۔کیسی ہو؟بالکل ٹھیک ہوں۔ریز رویشن ہو گیا، میں وہاں سیمینار سے چوبیس گھنٹے پہلے پہنچ جاؤں گا۔کیوں چوبیس گھنٹے پہلے کیوں؟دیکھو شہناز میں زندگی کی بھاگ دوڑ سے بہت تھک گیا ہوں۔ میری آنکھوں پر رکھی ہوئی تمہاری ہتھیلیاں مجھے تمام الجھنوں سے بے نیاز کر دیتی ہیں۔ میں نے سیمینار کے منتظمین کو اپنے اور تمہارے پہنچنے کی تاریخ نہیں بتائی ۔ تم آرہی ہونا؟میں کوشش کروں گی ۔ شہناز سوچتے ہوئے بولی۔ کوشش نہیں پہنچ ہی جانا ۔ اس کے اصرار میں بیتائی تھی۔پھر اس نے فون منقطع کر دیا۔اسکوٹر اسٹارٹ کرتے وقت اسے خیال آیا کہ آج شام کو اس کے گھر پر شاگردوں کی ایک میٹنگ بھی ہے۔ ہر مہینے ہونے والی میٹنگ سے متعلق اسے کچھ ہدایات دینی تھیں۔
میٹنگ کا خیال آتے ہی اسے کچھ الجھن سی ہوئی۔ میٹنگ یا ذاتی نشستوں کے خیال سے اضطراب کا یہ سلسلہ کوئی دو برس پہلے شروع ہوا تھا۔ اسے یاد آیا کہ اس دن وہ اپنے شاگردوں کے درمیان بیٹھا خودستائی میں مشغول تھا۔میں جب بمبئی پہنچا تو سیمینار کے منتظمین مجھے دیکھ کر باغ باغ ہو گئے۔ دراصل انہیں اپنے سیمینار کی کامیابی کا یقین ہو گیا تھا کہ میں اب سیمینار کی کامیابی کی ضمانت بن گیا ہوں۔ منتظمین نے میرے قیام کا انتظام ایک فائیواسٹار ہوٹل میں کر رکھا تھا۔ اسٹیشن سے ہوٹل تک انہیں لوگوں نے مجھے اپنی کار سے پہنچایا۔جھوٹ بولتے ہو۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تم نے خود ٹیکسی لی تھی اور اپنے ہوٹل تک گئے تھے۔ تمہیں تو اٹیشن پر کوئی رسیو کرنے تک نہیں آیا تھا۔ اب یہ جھوٹا بلند با نگ قصیدہ کیوں؟ اچانک ایک آواز اس کے کانوں میں آئی اور وہ اچھل پڑا۔اس نے اپنے شاگردوں پر نظر ڈالی ۔ وہ سب اس کی آواز پر ہمہ تن گوش تھے۔۔کیا کسی نے کچھ کہا۔؟نہیں تو ۔ایک شاگرد بولا۔جی ہاں سر۔کوئی کچھ نہیں بولا۔ سارے شاگر دا سے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔واقعی تم لوگوں نے کچھ نہیں سنا؟وقطعی نہیں ۔ کئی شاگرد ایک ساتھ بولے۔اسے وقتی اطمینان تو ہو گیا مگر آوازوں کا یہ سلسلہ چل نکلا ۔ وہ جب بھی جھوٹ بولتا اور زیادہ تر جھوٹ ہی بولتا تو اس طرح کی آوازیں اسے کچوکے لگاتیں اور وہ گھنٹوں پریشان رہتا۔ کئی باراس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں عود کر آتیں اور وہ خجالت سے انہیں پونچھنے لگتا۔ اس دن تو حد ہی ہوگئی۔ وہ اپنے دوست ہاشمی جو بلا کی ذہانت،بردباری،اخلاق،نیکی اور لاثانی حس مزاح کے لیے مشہور تھا، کے گھر بیٹھالی لمبی لمبی چھوڑ رہا تھا۔ یار ہاشمی، میں اب ان سیمیناروں سے عاجز آ گیا ہوں۔ کئی سیمینار بیرونی ملکوں میں ہونے والے ہیں۔ خود اپنے یہاں ہندوستان میں بھی ہونے والے درجنوں سیمینار کے بلاوے آچکے ہیں۔ کہاں جاؤں کہاں نہ جاؤں ۔ ہر طرف سے خطوط اور فون پر انویٹیش کاسلسلہ جاری ہے۔ باہری ملکوں میں تو جانا ضروری ہے۔ البتہ یہاں کے کچھ سیمیناروں سے گلو خلاصی کی کوشش کروں گا ۔ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ اس کی نظریں ہاشمی کے حاشیہ برداروں کے چہروں کو جائزہ لینے لگیں ۔ جہاں مصنوعی تحسین آمیزی کی نمائش صاف نظر آرہی تھی ۔ دفعتا اسے پھر وہی جانی پہچانی آواز سنائی دی۔بے حیا کہیں کے۔ تجھے سفید جھوٹ بولتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ تجھے تو سیمیناروں کے لیے کسی نے دعوت بھی نہیں دی تھی ۔ تو نے تو خود ہی خوشامد بھرے خطوط لکھ کر اپنے لیے دعوت نامے منگائے تھے ۔ وہ آواز سنتے ہی خوف زدہ ہو گیا۔ اس کا دل بیٹھا جارہا تھا کہ کہیں کسی نے اتنی صاف آواز سن نہ لی ہو۔
پھران آوازوں کا سلسلہ اتنا بڑھا کہ اسے اپنی زندگی گزارنا دو بھر معلوم ہونے لگا۔ اچانک ایک دن اس نے طے کیا کہ وہ کسی ماہر نفسیات سے ان آوازوں کے متعلق باتیں کرے گا۔ پھر اس کی نگاہوں کے سامنے اس کے ماہر نفسیات دوست ابوالقیس کا چہرہ گھوم گیا۔ابوالفیس۔۔بے حد پڑھا لکھا آدمی ۔ اس کی آنکھوں سے ذہانت کے شرارے جھلکتے تھے۔ کئی زبانوں پر اسے عبور تھا۔ عموماً اس کے تمام دوست جب کسی ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوتے تو اسی کے پاس جاتے اور وہ ان کا سہارا بن جاتا۔ پھر جب وہ ابو الیسک کے گھر پہنچا تو اتفاق سے وہ خالی ملا۔آؤ آؤ میں خود تمہارے یہاں آنے والا تھا۔ ۔۔خیریت؟۔۔کس بات کی؟۔۔تم پروفیسر ہو گئے ہونا؟۔۔اچھا پروفیسر شپ! ارے یہ تو میرے لیے بہت چھوٹی سی چیز ہے، اس میں دھرا ہی کیا ہے۔وہ مسکراتا ہوا بولا۔ابوالقیں اسے معنی خیز انداز میں دیکھنے لگا۔ اس کے چہرے پر ایک کاٹ دار مسکراہٹ پھیل گئی،جس میں تمسخر تھا اور ذلیل کرنے کی خواہش۔وہ پھر بولا۔۔میرے ایک دوست قاضی کمال اس انٹرویو میں اکسپرٹ تھے۔ میرے انٹرویو کے درمیان وہ وائس چانسلر صاحب سے کہنے لگے کہ ارے صاحب ان سے زیادہ جینوین امید وار تو پورے ملک میں کوئی دوسرا نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ مجھے پروفیسر بناتے، مجھے ان کو پروفیسر بنانا پڑ رہا ہے۔ اس کی بات سن کر ابوالقیس کے چہرے پر نشتر آمیز مسکراہٹ پھر پھیل گئی لیکن وہ کچھ بولا نہیں کہ خاموشی اس کی مجبوری تھی۔واقعی تم گھٹیا اور تیسرے درجے کے آدمی ہو۔ یہاں بھی آکر غلط بیانی کر رہے ہو۔ ابوالقیس تم سے بہت اچھی طرح واقف ہے۔ تمہارے جھوٹ پر اس کی نظر ہے۔آواز نے اسے پھر کچھ کا لگایا۔ وہ سر سے پیر تک پسنیے میں ڈوب گیا۔ابوالقیس اس کی متغیر کیفیت محسوس کر رہا تھا۔کیا بات ہے تمہاری طبیعت خراب معلوم ہو رہی ہے ۔نہیں کوئی بات نہیں ۔ وہ سنبھلتا ہوا بولا۔۔اچھا یہ بتاؤ کیسے آنا ہوا؟۔۔ابوالیسا نے سوال کیا۔ایسا کچھ خاص نہیں ۔ بس آج کل میں ایک عجیب سی پریشانی میں مبتلا ہو گیا ہوں۔کیسی پریشانی؟تھوڑی دیر تک وہ اسے خاموشی سے دیکھتا رہا پھر وقت بے وقت آنے والی آوازوں کا ذکر کیا۔یہ آوازیں کب آتی ہیں؟ ایسی آوازیں کسی وقت بھی آنے لگتی ہیں۔ عجیب گڈمڈ آواز ہیں۔ لگتا ہے جیسے کوئی کچھ کہنا چاہ رہا ہو۔کیا؟۔۔یہی تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے۔ بس کچھ پریشان کن آوازیں کانوں میں گونج جاتی ہیں۔ وہ یہاں بھی بڑی صفائی سے جھوٹ بولا۔پھر ابوالقیس نے اس سے اور کئی سوال کیے اور وہ سنبھل سنبھل کر جواب دیتا رہا۔ پیارے تمہیں صرف خفقان ہو گیا ہے اور کوئی بات نہیں ہے۔ میں تمہیں دوا دیتا ہوں تم ٹھیک ہو جاؤ گے۔
دو ہفتوں کیا مہینوں چلتی رہی لیکن اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آوازیں اسی طرح آتی رہیں بلکہ ان میں روز بروز شدت سے اضافہ ہوتا رہا۔ پھر وہ ایک عامل کے چکر میں پڑ گیا۔ خاصے پیسے خرچ ہوئے لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ پریشانی کے اسی دور میں ایک دوسری مصیبت بھی اس کے گلے پڑ گئی۔ ان آوازوں کے ساتھ ساتھ دوسری بہت سی آوازوں سر سے سر ملانے لگیں۔ یہ آوازیں اس کے واقف کاروں کی تھیں۔ مشکل یہ تھی کہ وہ آوازیں کسی کو سنائی نہیں پڑتی تھیں لیکن یہ آوازیں تو ہر ایک سن رہا تھا۔ لیکن اسے ان واقف کاروں کی قطعی پرواہ نہ تھی۔ وہ اکثر اپنی بیوی سے کہتا کہ یہ سب لوگ اس سے جلتے ہیں۔ وہ شہرت کے آسمان پر ہے۔ ادب کی دنیا میں صرف اس کا ہی ڈنکا بج رہا ہے۔ یہ لوگ میرا مقابلہ نہیں کر سکتے تو میرے بارے میں گھٹیا با تیں کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔آخر ایک صبح اس نے طے کیا کہ وہ ان آوازوں سے کبھی ہار نہیں مانے گا۔ بلکہ وہ ایسے کام کرتا جائے گا جو ان آوازوں کو جنم دیتے ہیں۔ چند مہینے بعد اس نے محسوس کیا کہ جیسے یہ آوازیں بتدریج کم ہوتی جارہی ہیں۔ شاید یہ آوازیں پرانی قدروں کی طرح زنگ خوردہ ہو چلی تھیں۔اچانک پیچھے سے کسی کار کے پر شورہاران نے اسے اس کی محویت سے باہر کھینچ لیا۔گھر پہنچا تو بیوی کھانے پر اس کا انتظار کر رہی تھی۔ریزرویشن ہو گیا ؟بیوی اس کی طرف پانی بڑھاتی ہوئی بولی۔ہاں ہوگیا۔ ۔۔کب جارہے ہیں؟۔۔اگلے ہفتے۔۔سیمینار میں شہناز بھی آئے گی کیا؟۔۔کیوں؟ اس کا لہجہ تیکھا تھا۔ کچھ نہیں بس یوں ہی پوچھ لیا۔تم نے یوں ہی نہیں پوچھا۔ میں تم کو خوب سمجھتا ہوں ۔ وہ بیوی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔تم اگر سمجھتے ہو تو سمجھا کرو ۔ بیوی کا لہجہ بھی تیکھا تھا۔گھٹیا پن پر اتر آئیں نا۔ وہ برا سامنہ بنا کر بولا۔
میرا گھٹیا پن؟ کیا تم نے بھی اپنے تعفن زدہ رویے پر بھی غور کیا ہے۔ تم کیا جانو کہ اکثر رات جب تم واپس گھر لوٹ کر آئے ہو تو تمہارے لباس سے آتی ہوئی مختلف قسم کی مہک نے مجھے کتنی چھبن دی ہے۔ ہائی بلڈ پریشر، ڈائبیٹیز اور دوسرے آزاراسی کی دین ہیں۔ اب تم میرے گھٹیا پن کی باتیں کر رہے ہو۔ وہ جلبلا کر بولی۔وہ کھانا کھاتے کھاتے اچانک اٹھ گیا۔اس وقت تو اس کا موڈیوں بھی خراب تھا۔ شاور کی تیز آواز نے رہاسہا موڈ بھی چوپٹ کردیا۔اس نے باتھ روم کا دروازہ بھڑ بھڑایا تو پتہ چلا کہ اس کی بیٹی نہار ہی ہے۔ اس نے بیٹی کو ڈانٹ کر شاور بند کرنے کو کہا اور آگے بڑھ گیا۔کچھ دیر بعد وہ اپنی اسٹڈی میں تھا۔اس دن اسٹیشن پر اس کے کئی شاگرد حسب معمول اسے سی آف کرنے آئے تھے۔میں چار روز بعد واپس آجاؤں گا۔ تم لوگ میرے لوٹنے پر ضرور آنا۔ میں تمہیں اس سیمینار کے بارے میں بتاؤں گا۔شاگر دا سے بغور دیکھ رہے تھے۔ٹھیک ہے سر ہم اکٹھا ہو جائیں گے ۔ ایک شاگرد بولا۔سر کیا شہناز میڈم بھی سیمینار میں آئیں گی؟ ایک شاگرد نے چٹکی لینے کی کوشش کی۔ لیکن وہ ڈانٹ کھا گیا۔۔کیوں تمہیں اس سے کیا لینا دینا ہے؟ تم نے کسی اور کے بارے میں کیوں نہیں پو چھا ؟ اس کا لہجہ کافی سخت تھا۔ شاگرد کچھ بولا نہیں چپ چاپ استاد کو دیکھتا رہا پھر اس نے ایک شرارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ اپنی نگاہیں پلیٹ فارم کی طرف پھیر لیں۔۔ٹرین کے چلتے ہی وہ لپک کر ڈبے میں سوار ہو گیا۔ اب کمپارٹمنٹ کے اندر کی گہما گہمی ختم ہو چکی تھی، کچھ لوگ سو گئے تھے، کچھ اپنی برتھ پر اپنے بستر پھیلارہے تھے ۔ اس نے لیٹتے ہی اپنی آنکھیں بند کر لیں اور سامنے شہناز آکر کھڑی ہوگئی۔ شہناز اس کی قریبی دوست، شاعرہ ، کافی خوبصورت ، ہائی چک بون اور ہونٹوں پر دعوت دیتی مسکراہٹ۔ شہناز کی سیکس اپیل اپیل ہمیشہ متوجہ کر لیتی اور اسی کشش نے دونوں کو بے حد قریب کر دیا تھا۔ اتنا قریب کہ دونوں ایک دوسرے کے وجود کا حصہ بن گئے تھے۔اس نے ہمیشہ کوشش کی تھی کہ جس سیمینار میں وہ شرکت کرے، شہناز بھی اس سیمینار میں پہنچ جائے ۔ شہناز کی خاص شمولیت کے لیے کئی باراسے سیمینار یا کانفرنس کے منتظمین کی خوشامد بھی کرنی پڑتی۔ خود منتظمین بھی شہناز کو دیکھ کر پگھل جاتے ۔ اسے اندازہ تھا کہ شہناز ان باتوں کو خوب سمجھتی ہے۔ شاید اسی لیے وہ اس کی دلدادہ بھی تھی۔ دوسری طرف شہناز بھی یہ جانتی تھی کہ اس دنیا میں کتنی ہی ادیبائیں اپنے حصول مقصد کے لیے ہاتھ پیر ماررہی ہیں اور منزل ہے کہ انہیں ملتی ہی نہیں۔ اچانک اسے شہناز سے پچھلی ملاقات یاد آئی ۔ اسے اپنے اندر بڑی تیز سنساہٹ محسوس ہوئی جیسے بہت تیز آندھیاں چلنے لگی ہوں یا اس کے پورے وجود میں بہت سے گھوڑے ایک ساتھ دوڑنے لگے ہوں اور پھر جیسے وہ شاور کے شور میں گھر گیا ہو۔ اس کے پورے جسم سے پسینہ بہہ نکلا ۔آخر ایسا کیوں ہوا؟ کیا وہ؟نہیں وہ ایک اتفاق ہو سکتا ہے۔ ہاں یہی ہوگا۔ اس نے اپنے آپ کو تسلی دی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔کوئی 27 گھنٹے بعد جب گاڑی اپنی منزل مقصود پر پہنچی تو وہ تھک کر چور ہو چکا تھا۔ پلیٹ فارم پر اترتے ہی اسے اپنے شہر اور اس جگہ کی درجۂ حرارت کا فرق محسوس ہونے لگا تھا۔ اس نے سوچا کہ سمندر کے کنارے بسے ہوئے شہروں کا موسم تو معتدل ہوتا ہی ہے اور یہ کہ اس فرق کو اس کے دل نے ہمیشہ ہی محسوس کیا تھا۔اس نے گھڑی دیکھی ۔شہناز کوئی ایک گھنٹے بعد یہاں پہنچنے والی تھی۔ وہ بنچ پر بیٹھ کر اس کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔ ٹرین آئی اور اپنے ساتھ شہناز کو بھی لے آئی۔کچھ دیر بعد وہ اور شہناز اپنے ہوٹل کے کمرے میں بیٹھے ایک دوسرے کو جذباتی نگاہوں سے سرشار کر رہے تھے۔جاؤ جا کر فریش ہولو۔ تمہارے بعد میں بھی نہانا چاہتا ہوں۔ وہ شہناز کی طرف سے نظریں ہٹا کر کمرے کا جائزہ لیتا ہوا بولا۔ پہلی نظر میں کمرہ اسے بے حد اچھا لگا۔ ٹیلی فون، ٹی وی، ایر کنڈیشنر کے علاوہ دیواروں پر آویزاں خوبصورت پینٹنگز کمرے کی شو بھا بڑھا رہی تھیں ۔
وہ نہا کر باتھ روم سے نکلی تو بارش میں نہائے ہوئے نرم و نازک پھولوں سے بھی زیادہ تر و تازہ لگ رہی تھی۔ البتہ میک اپ کے بغیر اس کا چہر ہ تجاوز کرتی عمر کی چغلی کھا رہا تھا۔ وہ اسے معنی خیز انداز میں دیکھتا ہوا ہاتھ روم کی طرف چل پڑا۔ہوٹل کے ڈائننگ روم سے ڈنر لے کر وہ ابھی ابھی اپنے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔معمولی سا آرام انسان کو کس قدر چاق و چو بند بنادیتا ہے۔وہ بستر پر دراز ہوتا ہوا بولا۔ کیا ارادہ ہے جیسے کہیں گھوم آئیں۔ میں نے یہ شہر نہیں دیکھا۔نہیں میں نہیں چاہتا کہ اس وقت میرے اور تمہارے درمیان شہر کا کوئی حصہ مخل ہو، ویسے بھی اگر مجھے اور تمہیں کسی نے ایک ساتھ دیکھ لیا تو بات کے پھیلنے میں دیر نہیں لگے گی ۔ کل جب ہم لوگ منتظمین کے مہمان ہو جائیں گے تو ہم پوری طرح سے آزاد ہوں گے۔ جی بھر کے شہر دیکھ لینا۔ ابھی تو یہاں کئی دن رہنا ہے۔ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی۔ پھر دونوں نے اپنے کپڑے تبدیل کیے اور لیٹ گئے۔اس نے اپنی بانہہ شہناز کے تکیے پر پھیلائی، تو اس نے اپنا سر اس کی بانہہ پر رکھ لیا۔ وہ انتہائی خاموش تھے۔چند ساعتوں کے بعد ایک ہاتھ بڑھا اور روشنی گل ہو گئی۔ ابھی روشنی گل ہوئے پانچ چھ منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ شہناز اٹھ بیٹھی ۔ اس نے نائٹ لیمپ کا سوئچ آن کیا۔ اس کے چہرے پر جھنجھلاہٹ کے آثار نمایاں تھے۔ وہ اٹھی اور باتھ روم میں داخل ہو گئی۔ واپس آئی تو اس سے مخاطب ہوکر بولی ۔ تم پر اب عمر کا اثر ہو چلا ہے۔ مجھے یاد ہے میرے ساتھ پچھلی بار بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔ خاموشی کے ساتھ شرمندگی نے بھی کنڈلی مار رکھی تھی۔ اگلی صبح دونوں بیٹھے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے مگر بیزاری دونوں کے درمیان براجمان تھی۔پھر یہ خاموشی اس نے توڑی ۔۔تمہارا شوہر کیسے ہیں؟۔۔اس کے منہ سے غیر ارادی طور پر نکل گیا۔شہناز نے اسے عجیب نظروں سے دیکھا پھر بولی ۔۔ٹھیک ہیں۔ تم سے تو بہتر ہی ہیں۔۔وہ مسکرائی وہ کھسیا گیا۔چندلمحوں کے لیے پھر سناٹا چھا گیا۔ اس کی نظریں لگاتارشہناز کے چہرے کے گرد طواف کر رہی تھیں ۔ ماحول خاصا بو جھل ہو گیا تھا۔تمہارے بیٹے اور ننھے منے پوتے صاحب تو ٹھیک ہیں نا؟ اس نے بات بدلتے ہوئے ایک بار پھر جمود کو توڑنے کی کوشش کی۔ہاں ٹھیک ہیں۔ نھاا منا ٹوپے تو خوب شرارتیں کرنے لگا ہے۔ وہ اپنے آپ کو کھینچ تان کر نارمل کرتے ہوئے بولی۔شہناز دیر ہورہی ہے، جلدی سے تیار ہو جاؤ ۔ اسی وقت یہ ہوٹل چھوڑنا ہے۔ سیمینار کے منتظمین کو انتظار ہوگا۔ انہیں یہ اطلاع نہیں ہے کہ میں اور تم کس زرین سے آرہے ہیں۔اچھا ٹھیک ہے میں تیار ہوتی ہوں ۔ وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔ وہ ہاتھ روم کے دروازے پر اچانک رکی اور مڑکر بولی ۔ ایک بات بتاؤ۔ وہ جو تمہارے کانوں میں پریشان کن آواز میں آیا کرتی تھیں،ان کا کیا ہوا؟۔۔وہ آوازیں۔۔۔۔وہ آوازیں اب نہیں آتیں۔ وہ مجھ سے شکست کھا کر ختم ہو چکی ہیں ۔ دیکھو نا۔ میں پورے وجود کے ساتھ تمہارے سامنے سالم و ہٹا کٹا کھڑا ہوں ۔ اس کی آواز میں بے چینی تھی۔ڈھونگی تمہارے اندر سڑاند پیدا ہو چکی ہے۔ بو سے ناک پھٹی جاتی ہے۔ یہ تم کسے دھوکہ دے رہے ہو؟ اجنبی اجنبی سی ایک آواز نے ایک بار پھر اسے چور چور کر دیا اور اس کے چہرے کا رنگ پیلا ہو گیا۔شہناز اسے ہکا بکا دیکھتی رہی۔ اچانک وہ مڑ کر ہاتھ روم میں داخل ہوگئی۔پھر فضا شاور کے شور سے بھر گئی۔
مصنف:اسرار گاندھی