میں پورے سفر میں سو نہیں سکا تھا۔ سفر بہت طویل تھا اور تھکا دینے والا بھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا یہ سفر کچھ راتوں اور دنوں کا نہیں ہے بلکہ کئی قرنوں کا ہے۔ میرے بدن کے جوڑ جوڑ میں جودرد اٹھ رہا ہے وہ ہمیشہ ساتھ رہے گا۔ میری آنکھوں میں جو کانٹے گھسے ہوئے ہیں وہ مجھے زندگی بھر چین سے نہیں سونے دیں گے اور میں ہمیشہ اسی طرح سرگرداں رہوں گا۔ شہر بہ شہر ۔اس دن میں جبل پور سے آ رہا تھا۔ میرے ساتھ میری بیوی بلقیس اور تین بچے حامد، نجمہ اور نسرین بھی تھے۔ ایک گاڑی ہم نے الہ آباد میں تبدیل کی تھی ۔ یہ گاڑی ہمیں لکھئنو لیے جارہی تھی۔ لکھنو سے ہمیں ایک اور گاڑی میں سوار ہو کر اقبال پور جانا تھا۔اقبال پور جانا میں نے کبھی پسند نہیں کیا تھا۔ جب سے میری شادی ہوئی تھی وہاں میں صرف دوہی بار گیا تھا وہ بھی بلقیس کے اصرار پر کیونکہ وہ وہیں کی رہنے والی تھی اور ہر سال چند روز وہاں گزار آتی تھی۔ میں آپ کو جبل پور کے بارے میں بھی کچھ بتادوں۔ وہاں میں اٹھارہ سال سے مقیم تھا۔ ٹرانسپورٹ کے محکمے میں نہایت معقول تنخواہ پر ملازم تھا اور ایک بہت ہی خوبصورت آرام دہ مکان کا مالک بھی جو میری برسوں کی محنت کی کمائی کا ثمرہ تھا۔ ایسا ثمرہ جسے پا کر کوئی بھی بیوی اپنے شوہر پر بجا طور پر فخر کر سکتی ہے لیکن بلقیس کو اس مکان کا آرام اور دلکشی کبھی پسند نہیں آئی تھی۔ اس نے میری کسی بھی خوبصورت چیز کو کبھی توصیفی نظروں سے نہیں دیکھا تھا۔ مثال کے طور پر مجھے دوستوں کو دعوتیں دینا مرغوب رہا ہے جس پر وہ ناک بھوں چڑھالیتی تھی۔ میں برج کھیلنے کا شائق ہوں ۔اس نے اس کھیل کی کبھی الف بے جانتا تک پسند نہ کیا، پھر بھی میں نے اس سے بے پناہ محبت کی ہے۔ گذشتہ بارہ برس سے جب سے وہ آ کر میرے گھر کی زینت بنی ہے میری محبت میں ذراسی بھی کمی نہیں آئی ۔ اس بات کے لیے اس سے کبھی خفا نہیں ہوا کہ اس نے میرے خوبصورت گھر کو کیوں پسند نہیں کیا، وہ اس گھر میں خود کو ہمیشہ اجنبی کیوں سمجھتی رہی ! جب کہ میں اس سے سدا خوش رہا ہوں کہ وہ جس طرح خود خوبصورت ہے اسی طرح اس نے تین خوبصورت بچے بھی مجھے دیے، خوبصورت اور شرارتی بچے۔ انھیں دیکھتے ہی میں اپنا ہر غم بھول جاتا ہوں۔ میرے دل میں کوئی دکھ کوئی شکایت باقی نہیں رہتی۔ بلقیس جب بھی میری طرف اگر بھولے سے بھی مسکرا کر دیکھ لیتی ہے تو میرے اندر جینے کی خواہش بڑھ جاتی ہے۔ میں نے بلقیس کی آنکھوں میں کبھی کبھی کسی نامعلوم سے غم کو کروٹ لیتے ہوئے دیکھا تو مجھے اپنی کا ئنات ہی درہم برہم سی ہوتی ہوئی لگی میں اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ کبھی کبھی تنہائی مجھ پر بھی حملہ آور ہو جاتی ہے لیکن ان لمحوں میں اگر بلقیس نے میرے کندھے کو چھو کر پوچھا، خالد کیا بات ہے؟ تم کھوئے ہوئے کیوں ہو؟ یا میرے بچے اپنی مسکراہٹوں کے خزانے لیے ہوئے ہمک کر میری طرف گود میں چڑھ آئے تو میرے دل و دماغ پر سے اداسی کے بادل آنا فانا دور ہو گئے۔ جس رات ہم الہ آباد سے لکھنؤ جارہے تھے وہ اتنی سرد تھی کہ اسے پوری طرح بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ جنوری کا آغاز ہو چکا تھا اور پچھلے دو دنوں سے شمالاً جنوبا ایک سخت ٹھنڈی لہر چل رہی تھی۔ ہمارے پاس پورا بستر بھی نہیں تھا۔ بس دو کمبل تھے جو ہم عین افراتفری کے عالم میں اٹھا سکے تھے۔ ایک کمبل میں حامد اور نجمہ سور ہے تھے، دوسرے میں بلقیس اور نسرین۔ میں اپنے اوور کوٹ میں ایک بند کھڑکی کے ساتھ پیٹھ لگائے غبار خاطر پڑھ رہاتھا۔تنہا جانے والوں اور تنہائی پسندوں کا ساتھ کتابیں ہی دیتی ہیں۔ کتاب پڑھتے رہنے کے علاوہ میں نے بہت سی سگریٹیں بھی پی ڈالی تھیں۔ عام طور پر میں اس قدر سگرینٹیں نہیں پیا کرتا۔ اس رات مجھے تمباکو نوشی میں ایک خاص فرحت مل رہی تھی۔پڑھتے پڑھتے اور سگریٹیں پیتے پیتے مجھے اقبال پور یاد آتا رہا۔ اقبال پور ہمارے سفر کی منزل تھی، لیکن وہاں میں اپنی مرضی نہیں جارہا تھا۔ آج تک وہاں جانے سے میں انکار ہی کرتا رہا تھا۔ بلقیس ہی اکیلی چلی جاتی تھی۔ اس بار میں انکار نہیں کر سکا تھا۔ اس نے فرقہ وارانہ فساد کی وجہ سے جبل پور چھوڑتے وقت میرے سامنے اقبال پور چلے چلنے کی تجویز رکھی تو میں فور ارضامند ہو گیا۔ اس وقت کسی اور محفوظ مقام کا نام لیتی تو میں وہاں بھی چلنے کے لیے راضی ہو جاتا۔ میں ہر ایسی جگہ جانے کے لیے تیار ہو جاتا جہاں پہنچ کر میرے سہمے ہوئے بچوں کی آنکھوں میں پہلی سی خوشی کی چمک لوٹ آنے کا امکان ہو سکتا تھا۔
اقبال پور میں ہمارا کوئی نہیں رہتا تھا۔ میرا تو وہاں کبھی کوئی عزیز تھاہی نہیں بلقیس ہی کے اباء امی، نانا بلکہ پورا خاندان کبھی وہیں آباد تھا۔ اب تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ ابا اور امی مر چکے تھے، نانا بھی وہیں کی خاک میں دفن ہوئے تھے۔ اگر چہ وہ وطن عزیز کو خیر باد کہنے کا ارادہ کر چکے تھے کہ اچانک اجل نے آلیا۔ باقی آل اولاد پہلے ہی سرحد پار جا چکی تھی۔ بلقیس پھر بھی اقبال پور جایا کرتی تھی جہاں اب صرف قبریں ہی قبریں رہ گئی تھیں جن کی دیکھ بھال کرنے والا بھی کوئی نہیں رہ گیا تھا۔ ہر سال برسات کے موسم میں کوئی نہ کوئی قبر اچانک زمین دھنس کر ایک خلا سا پیدا کر دیتی تھی۔ اس کے تصور سے ہی میرا دل گھبرا اٹھتا تھا۔ وہاں دو ہی بار جا کر میرا دل اچاٹ ہو گیا تھا۔ وہاں جا کر مجھے کسی قسم کی دلچسپی محسوس نہیں ہوتی تھی جیسی دلچسپی جبل پور میں رہتے ہوئے یا بعض دوسرے شہروں میں جا کر محسوس ہوتی تھی۔ مجھے وہاں جاننے والے تو ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے جبکہ اقبال پور میں کوئی بھی نہ تھا۔ اس دھرتی پر چلتے ہوئے تو مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میرے پاؤں کے نیچے سے جگہ جگہ گڑھے بنے ہوئے ہوں۔ نہ جانے میں کون سے قدم پر اچانک کون سے گڑھے میں جا گروں ! اقبال پور میں بلقیس کی ایک بہت دور کی پھوپھی رہا کرتی تھی ۔ رحمن ہوا۔ خدا جانے وہ اس کی رشتہ دار تھی بھی یا نہیں لیکن بلقیس ہمیشہ اسی کے یہاں جا کر ٹھہر تی تھی۔ وہ اس قصبے کی معمر ترین عورت تھی۔ اسی سال کی ۔ وہ اس کے نانا دادا کے وقتوں کی تھی۔ اس کے سارے خاندان کو جانتی تھی جو آدھا زیر زمین تھا اور آدھا پاکستان میں۔ بلقیس بھی کسی قافلے کے ساتھ وہاں چلی گئی ہوتی، جیسا کہ اس کے مرحوم نانا جان چاہتے تھے۔ وہ تو اس کے لیے اپنے ایک عزیز کا انتخاب بھی کر چکے تھے جولاہور جا کر رہنے لگا تھا اور بزنس میں خوب ترقی کر رہا تھا۔ بلقیس کا ہاتھ کسی کے ہاتھ میں دے دینے کا اختیار اس کے نانا جان کو ہی تھا کیونکہ وہ اپنے ماں باپ کی نسبت ان کے زیادہ قریب رہی تھی۔ انھوں نے ہی اسے عربی، فارسی اور اردو کی ابتدائی تعلیم دی تھی اور قرآن حفظ کرایا تھا، لیکن جب بلقیس کے سامنے اس کی زندگی کی بڑی منزل آئی تو اس کے اپنے ابا سد راہ بن گئے ۔ وہ اپنی اولاد کو اسی سرزمین پر رکھنا چاہتے تھے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے اور ابھی تک رہتے تھے۔ ان کا یہ ارادہ خاندان کے اندر ایک شدید جذباتی اختلاف کا باعث بن گیا۔ اسی صدقے میں بلقیس جب رحمت بوا سے ملنے کے لیے جاتی تھی تو وہ اسے اس کے نانا جان کے بارے میں بہت سی باتیں بتایا کرتی تھی۔ ان کی نیکیوں اور خصلتوں کی کہانیاں جن کی وجہ سے وہ اپنے قصبے میں مشہور تھے۔ بلقیس کو خود بھی نانا جان کی بہت سی باتیں یاد تھی۔ ان کا ایک خاص انداز سے ہنسنا، کھانسنا، غصہ دکھانا، قرآن شریف پڑھنا اور شیخ سعدی اور حافظ کے اشعار کی تشریح کرتے وقت اپنے اوپر ایک وجد سا طاری کر لینا۔ رحمت بواسے ملنے کے لیے پاکستان سے بھی کئی لوگ آتے جاتے رہتے تھے ۔ رحمت بواسب کی خیر خبر رکھتی تھی۔ بلقیس جب اقبال پور لوٹتی تو اس کی وہی کیفیت ہوتی جو کسی عورت کی میکے سے لوٹنے پر ہوتی ہے۔ وہ اپنے اور پرایوں کے عزیزوں کا حال بڑی تفصیل سے کہہ سناتی ہیں، نہ پوچھتا تب بھی وہ بتاتی رہتی کبھی کبھی لاہور برانڈ رتھ روڈ والے مشنری کے اس تاجر کا ذکر بھی اس کی زبان پر آجاتا تھا جو اب کئی بچوں کا باپ بن چکا تھا۔ ایک نکاح اور بھی کر چکا تھا اور کار بھی خرید لی تھی۔ میرا دھیان مطالعہ سے ہٹ چکا تھا۔ اقبال پور کے بارے میں سوچتے سوچتے میری نظریں بلقیس کے چہرے پر جمی رہ گئی تھیں۔ اس نے ایک بار کروٹ بدلی تو اسکے سر کے نیچے رکھا ہوا سیاہ ریشمی برقعہ پھسل کر نیچے گر پڑا اور اس کی لمبی چوٹی بھی سیٹ کے نیچے لٹکنے لگی۔ میں نے برقعہ اٹھا کر اس کے سر کے نیچے رکھنا چاہا تو اس کی نیند ٹوٹ گئی۔ میری طرف چونک کر دیکھا لیکن مجھے اپنی جانب مسکراتا ہوا پا کر وہ پھر لیٹ گئی۔ پھر آنکھیں بند کر لیں اور سوگئی۔ میں نے ایک نئی سگریٹ سلگائی اور غبار خاطر کے کھلے ہوئے صفحات پر وہ سطر ڈھونڈنے لگا جہاں سے میں نے اسے چھوڑا تھا، لیکن اب میں دیر تک اس کتاب میں کھویا نہ رہ سکا۔ میری نظروں کے سامنے بار بار بارہ سال پہلے کی بلقیس آکھڑی ہوتی جو اس وقت سولہ سترہ برس کی سیدھی سادی لڑکی تھی جس کی سب سے بڑی دلکشی اس کے چمکتے ہوئے سیاہ بالوں کی غیر معمولی لمبائی میں ہی نہیں اس کے چہرے کے دلفریب نقوش میں بھی پنہاں تھی جو اسے ہندوستان میں صدیوں سے آباد پٹھان قبائل سے ورثے میں ملے تھے۔ وہ اپنے جسم میں خیبر کے پہاڑوں جیسی بلندی اور تندہی کا ہی شکوہ رکھتی تھی بلکہ شمالی اتر پردیش کے میدانوں پر چھائے ہوئے آسمان کی گہری نیلا ہیں بھی اپنی آنکھوں میں آباد کیے ہوئے تھی جو کسی بھی مشرقی لڑکی کے انتہائی ذہین اور جذباتی ہونے کی غماز ہو سکتی تھیں۔ بلقیس کی آنکھوں میں جب کبھی بے چینی کی جھلک نظر آ جاتی تو وہ میرے حلق کی پھانس ہی بن جاتی تھی۔ میں نے اپنے لیے جورا میں منتخب کی تھیں اور میں جس طرف کو بھی مڑ کر چل پڑا تھا وہ بظاہر میرے پیچھے پیچھے ہی چلتی آئی تھی جیسے کوئی اپنے اوپر منوں بوجھ اٹھائے چل رہا ہو لڑ کھڑا تا ہوا، آج میں اس کے ساتھ اقبال پور جارہا تھا تو خود کو بھی اس کے مانندلڑ کھڑاتا ہوا سا محسوس کر رہا تھا۔ شاید یہ شکست کے احساس کا ہی نتیجہ تھا جو میرے دل پر بھی ایک پہاڑ بن کر اتر آیا تھا۔
اچانک میں نے کمپارٹمنٹ کی زرد اور بیمار روشنی میں صبح کے اجالے کی ایک کرن دیکھی جو ایک کھڑکی کے کہر آلود شیشے میں سے جھانکنے لگی تھی۔ اسی لمحے گاڑی ایک اسٹیشن پر آ کر رک گئی۔ اگر چہ اسے اب لکھنؤ سے پہلے اسٹیشن پر نہیں رکنا چاہیے تھا لیکن وہ رکی ہوئی تھی۔ میں نے سوچنا چھوڑ کر باہر کی آوازوں پر اپنے کان لگائے ۔ سخت کنکروں والی زمین پر کوئی دھیرے دھیرے بھاری جوتوں کے ساتھ چلتا ہوا جار ہا تھا۔ انجھن بھی اچانک رک جانے کے بعد گہری سانسیں لے لے کر جیسے ہانپ رہا تھا۔ جب گاڑی کئی منٹ تک نہ چلی تو میں دروازہ کھول کر باہر دیکھنے لگا۔ دھند میں ڈوبا ہوا ایک چھوٹا سا اسٹیشن تھا۔ اونچا پلیٹ فارم، چھ سات کمروں پر مشتمل ایک منزل کی عمارت اور دور ونزدیک چمکتی ہوئی سرخ سفید و ہری بتیاں۔ ہوا چلنی بند ہو چکی تھی۔ ذرا فاصلے پر میرے عین سامنے اپنے چھوٹے سے دفتر میں ایک کیروسین لیمپ کے آگے بیٹھا ہوا رات کی ڈیوٹی والا اسٹیشن ماسٹر کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ میں کئی منٹ تک اس کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر اس پورٹر کی طرف متوجہ ہو گیا جو انجن پر سے گرم گرم چائے سے بھرا ہوامگ اٹھائے گاڑی کی بریک کی طرف لنگڑاتا ہوا جارہا تھا۔ وہ بہت آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ اس چاپ سے ہی میں نے اندازہ لگایا کہ تھوڑے دیر پہلے میری بند کھڑکی کے پاس سے وہی گزرا تھا۔ وہ قریب آیا تو میں نے اسے غور سے دیکھنے کی کوشش کی لیکن مجھے بھاری اوور کوٹ اور سر اور کانوں پر لپٹی ہوئی نیلی پگڑی میں وہ محض ایک سایہ ہی معلوم ہوا ۔ اس سے پوچھا۔ یہ کون سا اسٹیشن ہے بھیا! تو وہ مجھے جواب دینے کے لیے رکا نہیں۔ میری طرف دیکھے بغیر جاتے جاتے کہہ گیا۔ ‘‘نگو ہاں’’۔نگوہاں کا نام سن کر میں چونک گیا۔ جیسے یقین نہ آیا اس جگہ کا نام نگو ہاں ہوسکتا ہو! یہ تو مجھے یاد بھی نہیں رہا تھا کہ لکھنو سے پہلے اس نام کا ایک اسٹیشن تھا۔ دراصل اس راستے سے ہمیشہ رات میں گزرا تھا اور وہاں گاڑی کبھی رکی نہیں تھی جس طرح اب اچانک رک گئی تھی۔پورٹر سے مزید کچھ پوچھنے کے لیے میں پلیٹ فارم پر اتر گیا لیکن وہ بہت دور نکل گیا تھا۔ میں نے پلیٹ فارم پر چل پھر کر اس بات کا اطمینان کرنے کی کوشش کی کہ کیا یہ جگہ واقعی نگوہاں ہو سکتی ہے! پھر اسٹیشن ماسٹر کے دفتر میں جا کر اس سے وہی سوال کیا۔ اس نے پورٹر کی بتائی ہوئی بات کی تائید کی تو میں نے اپنے اندر ایک عجیب سی خوشی کی لہر اٹھتی ہوئی محسوس کی جو میرے رگ و پے میں بجلی کی سی سرعت سے دوڑتی جارہی تھی۔ میں تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا باہر آ گیا۔ سراٹھا کر عمارت کو غور سے دیکھا۔ صبح کی دھیرے دھیرے بڑھتی ہوئی روشنی میں ایک جگہ نگوہاں لکھا ہوا بھی نظر آ گیا، لیکن اب یہ جگہ اتنی بدل چکی تھی کہ پہچانناہی مشکل ہو گیا تھا۔ پہلے تو اسٹیشن پر ایک ہی کمرہ ہوتا تھا۔ تب یہ پلیٹ فارم بھی اس قدر اونچا نہیں تھا، بالکل زمین کے ساتھ ہی لگارہتا تھا، اب میں ایک بے پناہ مسرت میں سرشار تھا۔ فورا بلقیس کو بھی یہ خوشخبری سنادینا چاہتا تھا کہ گاڑی نگو ہاں اسٹیشن پر رکی ہوئی ہے۔لیکن کمپارٹمنٹ لوٹنے سے پہلے مجھ پر ایک اور مسرت نے بھی غلبہ پالیا جو پہلی مسرت سے کہیں زیادہ طاقتور تھی۔ اس نے تو مجھے پاگل کر دیا تھا۔ میں بھاگتا ہوا پھر اسٹیشن ماسٹر کے پاس گیا۔ اپنی جیب سے سارے ٹکٹ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیئے اور پوچھا کیوں صاحب گاڑی ابھی کچھ دیر اور رکی رہے گی؟ ہم یہاں اتر سکتے ہیں؟ اگر ہم یہ گاڑی چھوڑ کرکسی دوسری گاڑی سے چاہیں تو ایسا کر سکتے ہیں نا؟ اس نے میرے سارے سوالات کا جواب سر کے اشارے سے اثبات میں دے دیا اور میری طرف قدرے حیرت سے بھی دیکھنے لگا کیونکہ میں بےحد جذباتی ہورہا تھا۔ اس کا جواب پا کر بولا۔ شکریہ جناب۔ میں درحقیقت اسی گاؤں کا رہنے والا ہوں لیکن پچیس سال سے نہیں آسکا۔ یہ کتنا عجیب اتفاق ہے کہ گاڑی یہاں بالکل اچانک رک گئی ہے اور میں ایسا محسوس کر رہا ہوں کہ یہ میرے ہی لیے رک گئی ہے۔ میں بہتا ہوا باہر کوچل پڑا لیکن دوہی قدم چل کر پھر رک گیا اور پلٹ کر پوچھا۔ لیکن جناب کہیں چل نہ دے، میرے ساتھ میرے بچے بھی ہیں ۔نہیں نہیں،آپ اطمینان سے اتریے، آگے سے ایک مال گاڑی آرہی ہے۔میں تیز تیز قدموں سے بھاگتا ہوا سا اپنے کمپارٹمنٹ میں گیا۔ بلقیس چند ہی لمحے پہلے جاگی تھی۔ مجھے اپنے پاس نہ پا کر کچھ حیران ہی ہورہی تھی۔ میں نے بڑی وارنگی کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ اس کے گالوں پر رکھ دیے اور کہا۔ بلقیس جلدی سے بچوں کو اٹھاؤ، ہم یہیں اتریں گے۔ اسی اسٹیشن پر ۔ دیر مت کرو، ورنہ گاڑی چل دے گی سمجھیں ہائے اللہ خیر تو ہے؟ اس نے نسرین کو اپنے سینے کے ساتھ چپکا کر کہا۔میں خود ہی دوسرے دو بچوں کو ہلا ڈلا کر جگا رہا تھا اور جلدی جلدی سامان لپیٹ رہا تھا۔ اس کی گھبراہٹ دیکھ کر میں اچانک اس خوشی سے محروم ہو گیا جو مجھ پر بری طرح طاری تھی۔ میں بھی اس کی مانند سنجیدہ ہو گیا۔ چند منٹ پہلے تک میں کتنی تیزی سے دوڑتا پھرتا تھا۔ میرے پاؤں میں یہ اچانک زنجیریں ہی کیوں پڑگئی ہیں! میں جہاں تھا وہیں کھڑا رہ گیا۔ بلقیس کی آنکھوں میں جھانکتا رہا۔ انہی آنکھوں میں جو جبل پور سے نکلتے وقت انتہائی خطرے کے باوجود ایک فتح کے احساس سے چمک اٹھی تھیں ۔ اب ان میں چمک نہیں تھی،صرف خوف ہی خوف تھا، لیکن میں جلدی ہی سنبھل گیا اور اپنی خوشی کو واپس آتا ہوا محسوس کرنے لگا۔ میرے بدن میں پھر سے طاقت بھی عود کر آئی۔ میں نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا؛گھبراؤ نہیں، آگے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہم اپنی مرضی سے یہاں اتریں گے۔ پھر یہاں سے اپنی مرضی سے ہی چل دیں گے۔ خطرہ تو بس وہیں پیچھے رہ گیاجہاں سے ہم روانہ ہوئے تھے۔
ہم سب گاڑی سے نیچے اتر گئے ۔ حامد اور نجمہ اپنے کوٹوں کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، زمین پر پیروں کے بل بیٹھے گاڑی کے پہیوں کے نیچے سے اس طرف دوسری گاڑی کو جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ نسرین بلقیس کے سینے کے ساتھ چپکی ہوئی تھی۔بلقیس نے اسے سردی سے بچانے کے لیے اس پر برقعہ پھیلا دیا تھا۔ میں دونوں کمبل اور ایک اٹیچی اٹھائے ویٹنگ روم کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بلقیس بچوں کو بھی میرے پیچھے پیچھے چلنے کی ہدایت کرنے لگی۔ غصے سے بھری ہوئی آواز میں۔ کچھ ہی دیر کے بعد ہر طرف صبح کا اجالا پھیل گیا۔ بلقیس وہاں اچانک اتر جانے پر ابھی تک برہم تھی اور بید سے بنے ہوئے ایک چوڑے بنچ پر لیٹ گئی تھی ۔ حامد اور نجمہ پلیٹ فارم پر گھوم رہے تھے ننھی نسرین دروازے کی جالی کے ساتھ لگی ہوئی بڑی حیرت سے باہر جھانک رہی تھی۔ اچانک حامد نے مجھے باہر آنے کے لیے پکارا اور میں باہر گیا تو وہ ایک آدمی کی طرف اشارہ کر کے بولا ۔ دیکھئے تو ابو اس آدمی نے گلے میں کیا پہن رکھا ہے؟وہ وہی پورٹر تھا جس نے اپنے گلے میں سگنلوں کی بجھی ہوئی بتیوں کا ہار پہن رکھا تھا اور دونوں ہاتھوں میں مٹی کے تیل کی ادھ بھری بوتلیں اٹھائے لنگڑاتا ہوا چلا آرہا تھا۔ اب اس کا چہرہ پگڑی میں چھپا ہوا نہیں تھا۔ وہ بھی میری طرف دیکھتا ہوا آ رہا تھا۔ میرے قریب آ کر وہ ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا اور بولا۔ کھالد بھیا! ارے یہ تم ہو رام داس! میں بھی جلدی سے آگے بڑھ گیا اور اسے کھڑ کھڑاتی ہوئی بتیوں کے ہار سمیت گلے سے لگالیا۔ مجھے اس قدرا چانک دیکھ کر اس کی آنکھیں چمکنے لگیں ۔ میں نے پوچھا؛تم اس طرح لنگر لنگڑا کر کیوں چل رہے ہو رام داس اس نے جواب دیا۔ جوڑوں کے درد نے ہی یہ حال کر رکھا ہے۔ خیر تم اپنی کہو کھالد بھائی۔ اتنی مدت کے بعد ادھر کیسے بھول پڑے! جان پڑتی ہے کہیں اپھسر وپھر ہو گئے ہو، کیوں گلت تو نہیں سمجھا میں! یہ کہہ کر وہ ہنس بھی پڑا۔ میں نے اس کے دونوں کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنے بچوں کو بتایا۔ جانتے ہو یہ کون ہے؟ میرے بچپن کا دوست۔اسی گاؤں میں ہم ساتھ ساتھ کھیلے ہیں۔ وہ سامنے جو بہت سے مکان دکھائی دے رہے ہیں وہی ہمارا گاؤں ہے۔ اس گاؤں کی گلیوں اور میدانوں میں کھیل کھیل کر ہم بڑے ہوئے۔ بس ایک طنزیہ کیفیت ہی پیدا ہو سکی۔ اب تو گاؤں کا سارا نقشہ ہی بدل چکا تھا۔ اس بڑے میدان میں جو اسٹیشن اور گاؤں کے بیچ خالی پڑا رہتا تھا اور جہاں ہم دوڑیں لگایا کرتے تھے اب کئی مکان اور دفتر بن چکے تھے ۔ ایک دفتر بلاک ڈیولپمنٹ کے افسر کا تھا۔ کیمیائی کھاد کی بکری کی ایک دکان اور ایک چھوٹا سا ڈاک خانہ بھی کھل چکا تھا۔ اس تالاب کے چاروں طرف لوہے کا جنگلا اور کنارے کنارے کی سیڑھیاں بھی بنادی گئی تھیں جہاں ایک بار عید کے موقعہ پر مجھے ایک لڑکے نے دھکا دے کر پانی میں گرادیا تھا جس سے میرے نئے کپڑے بھیگ گئے تھے اور جب میں گھر گیا تھا تو مجھے میرے ابا نے خوب پیٹا تھا۔ میرے اس طرح پٹنے کا واقعہ سن کر حامد نے بڑے زور کا قہقہہ لگا کر پوچھا۔ اچھا ابو، یہ بتائیے آپ کو آپ کے ابو نے کس طرح پیٹا تھا؟جیسے ابا لوگ پیٹتے ہیں۔میرا مطلب ہے چھڑی سے یا ہاتھ سے؟ہاتھ سے تھپڑ لگا لگا کر ۔ میں نے ہنستے ہنستے اس کے گالوں کو تھپتھپا دیا۔نجمہ بولی ۔ آپ خوب روئے بھی تھے ۔ہاں۔کیسے؟جیسے بچے روتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر جھوٹ موٹ روتے ہوئے کہا۔ لیکن ابو، آپ تو ہمیں کبھی نہیں مارتے! نجمہ نے پوچھا۔میں نے بلقیس کی طرف سر گھما کر دیکھا اور اسے چھیڑنے کے لیے کہا۔ میرے بجائے تمھیں تمھاری امی جو مارا کرتی ہیں۔بلقیس تب بھی نہیں مسکرائی ۔ نجمہ اپنی ماں کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ گئی۔ بولی۔ جھوٹ ،امی کب مارتی ہیں،امی تو ہمیں بہت پیار کرتی ہیں۔میں انھیں اپنا آبائی مکان بھی دکھانا چاہتا تھا جسے پچیس برس پہلے میرے والد نے تنگدستی کی وجہ سے بیچ دیا تھا کیونکہ مجھے ہائی اسکول کے بعد کالج کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنا چاہتے تھے لیکن جب وہاں پہنچے تو اس کے بجائے ایک اور مکان تعمیر کیا جاچکا تھا جس میں رہنے والے مجھے نہیں پہچانتے تھے۔ اس گاؤں میں ابھی تک رام داس کے علاوہ اور کسی نے مجھے نہیں پہچانا تھا۔ ہاں اب کوئی پرانا آدمی تھا ہی نہیں۔ وہاں کے بیشتر لوگ جن کا گزارہ دکانداری اور کھیتی باڑی پر نہیں تھا آس پاس کے ضلعوں اور فصیلوں کے صدر مقامات کی طرف ہجرت کر کے کارخانوں یا دفتروں میں کام کرنے نکل گئے تھے، یا وہاں کی سڑکوں پر رکشا چلاتے تھے۔ میں اپنی ہی گلیوں میں اجنبیوں کی طرح گھومتا پھرا۔ مسجد کے سامنے رک کر اس امام کو یاد کیا جس نے مجھے نماز پڑھنا سکھایا تھا۔ اپنے زمانے کے پرائمری اسکول میں پہنچ کر اسی کمرے کو تلاش کیا جہاں بیٹھ کر میں پڑھتا تھا اور کبھی کبھی اسکول سے ملا ہوا کام نہ کرنے کی وجہ سے اپنے استاد اور ہم جماعتوں کے سامنے مرغا بن کر سزا پا تا تھا۔ اب وہ ہائی اسکول بن چکا تھا۔ میں جہاں جہاں گیا بچے بھی میرے ساتھ ساتھ خوش خوش گھومتے رہے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میرا بچپن واپس آ گیا ہو، بچوں کی ہی شکل میں میرے ساتھ ساتھ گھوم رہا ہو ۔ ہم لوگ گھومتے گھومتے ریلوے لائن کے پاس جا نکلے۔ اب ہم اسٹیشن کے دوسرے سرے پر تھے، شمالی سرے پر جس طرف لکھنو تھا۔ وہاں پہنچتے ہی میرے اندر ایک نیا اضطراب سا پیدا ہو گیا۔ میں ایک اور بھولی بسری ہوئی جگہ تلاش کرنے لگا۔ وہیں کہیں اور فاصلے پر املی کا ایک پیٹر ہوا کرتا تھاجہاں ریلوے لائن خم کھا جاتی تھی لیکن اب پیر دکھائی دے رہا تھا نہ ہی ریلوے لائن کا خم ۔ ابو آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ بچوں نے مجھ سے میرا اضطراب کا سبب جاننا چاہا۔ میں نے انھیں بتایا۔ جب میں اس گاؤں میں رہتا تھا۔نا تو میرے پاس ایک بہت ہی خوبصورت پیارا پیارا کتا تھا، چھوٹا سا، اتنا چھوٹا سا کہ جب وہ چلتا تو بالکل زمین کے ساتھ لگا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اس کے جسم پر بھورے بھورے چمکدار بال اگے ہوئے تھے جو اس کے منھ پر گر کر آنکھیں تک چھپا لیتے تھے۔ اس کی آنکھیں بڑی دلکش تھیں جیسے دو چمکتے ہوئے ہیرے جڑے ہوں۔ ہم ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کتنی کتنی دیر تک دیکھتے رہ جاتے تھے۔
اس کا نام کیا تھا ابو۔۔۔۔اس کا نام ہاں اس کا نام تھا پیت۔۔۔!پی،!سارے بچے ایک ساتھ چلا اٹھے۔بہت ہی پیارا نام تھا اس کا۔۔۔۔!اب وہ کہاں گیا ابو۔ابو آپ نے پی کہاں سے لیا تھا؟میرے ابا کو اس کا انگریز افسر دے کر انگلستان چلا گیا تھا۔ جس کی ابا نے بڑے خدمت کی تھی۔ جب انگریز افسر نے ان سے کچھ انعام مانگنے کو کہا تو ابانے پپی ہی ان سے مانگ لیا میرے لیے کیونکہ میں اس کے ساتھ ہر وقت کھیلتا رہتا تھا۔ یہی بہت ہی قیمتی نسل کا تھا پھر بھی انگریز نے میرے لیے ابا کو دے دیا۔ اب یہی ہر وقت میرے ساتھ رہنے لگا۔ میرا بہت گہرا دوست بن گیا۔ پہلے کبھی کبھی مجھ پر بھونک بھی لیتا تھا پر اب وہ میرے قدموں میں لوٹتا اور پاؤں چاٹنے لگتا تھا۔ میں منھ سے سیٹی بجاتا تو بھاگا چلا آتا تھا۔ میں کہیں کھیلنے کے لیے جاتا تب بھی وہ میرے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ میں نے اس کے گلے میں گھنگھروباندھ دیے تھے جو اس کے بھاگتے وقت زور زور سے بجتے تھے۔ چھن،چھن،چھن،چھن،چھن،چھن۔۔!!بچوں کی مسکراہٹیں چوڑی ہوتی گئیں۔ ان کی آنکھوں کی چمک بھی بڑھتی گئی۔ بلقیس چلتے چلتے جیسے تھک کر ریلوے لائن پر ہی بیٹھ گئی تھی۔ میں بچوں کے درمیان کھڑا پیھ کی کہانی سناتا رہا۔ پیا کو میں نے اسے اپنی کتابوں کا بستہ بھی اٹھا کر چلنا سکھا دیا تھا۔ جب میں گاڑی سے لکھنو پڑھنے کے لیے جانے لگا تو پی اسٹیشن تک میرا بستہ اٹھا کر ساتھ ساتھ جاتا تھا۔ میں گاڑی میں چڑھ جاتا اور گاڑی چل پڑتی تو وہ کچھ دور تک ساتھ ساتھ بھاگتا ہوا چلتا۔ جب گاڑی کی رفتار تیز ہو جاتی تو وہ پیچھے رہ جاتا اور پھر گھر لوٹ جاتا تھا۔ایک روز ہم چلتی گاڑی میں بیٹھے اسے پیا پیز پکارتے جارہے تھے۔ وہ گاڑی کے ساتھ اچھلتا ہوا بھا گتا چلا آ رہا تھا۔ ہم نے اسے اور زور زور سے پکارا تو اس نے اور زیادہ تیز بھاگنے کی کوشش کی جب گاڑی لائن کے خم پر سے ہو کر جانے لگی تو اس نے بھی گھوم کر ساتھ آنے کی کوشش کی لیکن وہ موڑ بہت خطرناک تھا۔ تیزی سے اندھا دھند بھاگتا ہوا کوئی بھی شخص گاڑی کے نیچے آ سکتا تھا۔ پیک اچانک پہیوں کی لپیٹ میں آ گیا۔پھر ؟ پھر ؟ بچوں کے منھ کھلے سے رہ گئے۔پھر وہ کٹ کر ٹکڑے ہو گیا۔ اسکول جانے والے ہم سب لڑکوں نے گاڑی کی زنجیر کھینچ لی۔ زنجیر کھنچنے سے گاڑی رک گئی۔ ہم لوگ نیچے اتر آئے۔ وہ مر چکا تھا۔ پتھروں اور کوئلوں پر اس کا بہت ساخون بکھرا ہوا تھا۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر میں تو دھاڑیں مار کر رو پڑا تھا۔پھر! پھر ابو! پھر کیا ہوا؟ حامد کے گلے سے بمشکل نکلا۔ نجمہ کا تو گلا ہی سوکھ گیا تھا۔ وہ تو کچھ بول ہی نہ سکی۔ صرف ہونٹ ہلاتی رہ گئی۔ نسرین بھی سہمی ہوئی نظروں سے مجھے گھورے جارہی تھی۔ بلقیس کو پہلی بار میں نے اتنی دلچپسی سے اپنی بات سنتے ہوئے پایا لیکن وہ خاموش تھی۔میں نے انھیں بتایا۔ اس کے بعد ہم لوگ پیا کے جسم کے ٹکڑے اکٹھے کر کے املی کے پیڑ کے نیچے لے گئے۔ وہاں ہم سب نے مل کر ایک گڑھا کھودا اور پیڑ کو اس میں ڈال کر اوپر سے بہت سی مٹی گرادی۔پھر اس کے اوپر بہت سے پتھر رکھ دیے۔ وہ میرے بہت ہی پیارے دوست کی قبر تھی۔ میں جب بھی پڑھنے کے لیے لکھنو جاتا تو گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اس قبر کی طرف ایک نظر دیکھ لینا کبھی نہ بھولتا۔ابو اب وہ قبر کہاں سے؟وہی تو میں بھی ڈھونڈ رہا ہوں، املی کا وہ پیڑ بھی کٹ چکا ہے اور یہاں سے ریلوے لائن بھی سیدھی کر دی گئی ہے۔قبراب کہیں بھی نہیں تھی۔ ہر چیز کا نام ونشان مٹ چکا تھا۔ صرف یاد ہی میرے پاس باقی رہ گئی۔ ادھر ادھر بے چینی سے دیکھتے وقت میری نظریں اچانک بلقیس کی نظروں سے ٹکرا گئیں ۔ وہ نہ جانے کتنی دیر سے میری طرف دیکھے جارہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں میرے تجسس اور اضطراب کے لیے ایک بھر پور تائید موجودتھی ۔ تائید اور ہمدردی میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک مضموم مسکراہٹ ابھر آئی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے پاس آگئی اور میرا بازو پکڑ کر آہستہ سے بولی۔ آپ چاہتے ہیں ہم لوگ کچھ روز یہاں رہ جائیں؟
مصنف:رام لعل