آصف جہاں کی بہو

0
235
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

آصف جہاں کے شوہر ایک بہت پیسہ والے ڈپٹی کلکٹر تھے اور اُن کا اکلوتا لڑکا نورالحس کئی بچوں کے مرنے کے بعد جیا تھا۔ سب ہی کا لاڈلا تھا۔ ایسے کنبہ میں تو کوئی ایسا نہ تھا جو خوشی سے اپنی بیٹی نورالحسن کو نہ دے دیتا لیکن آصف جہاں کی آرزو تھی کہ کبری کی لڑکی اپنے بچے کے لیے لائیں۔ وہ ایک حق پرست بیوی تھیں ۔ کبری کی لڑکی اس لیے لینا چاہتی تھیں کہ کبری اُن کی چھوٹی نند بھی تھیں اور سگی بھاوج بھی۔ اپنی ان ہی دوراندیشیوں کی وجہ سے تو وہ خاندان میں ہر دلعزیز تھیں ۔ اگر نورالحسن کی منگنی میکہ میں کرتی تھیں تو سسرال والے منہ بناتے اور جو سسرال میں کرتیں تو میکہ والے رنجیدہ ہوتے ۔ اب اگر کبری کی لڑکی ہوتی تو سسرال اور میکے دونوں خوش رہتے۔ویسے تو کبری بیگم کے ماشاء اللہ ہر سال سوا سال کے پیچھے بچہ ہوتا تھا اور پچیس سال کی عمر میں پانچ بیٹیوں کی اماں تھیں۔ سارے کنبہ میں اُن کی خوش قسمتی ضرب المثل تھی ۔ خدا نصیبہ کرے تو کبری کا سا، جب دیکھولڑ کا ہی گود میں دیکھو اور بیٹی تو بوا خدا دشمن کو بھی نہ دے۔جب کبری کے ہاں ایک اور لڑکا ہو تا ساری دُنیا رشک کرتی ۔ ہاں اگر رنج کسی کو ہوتا تھا تو وہ آصف جہاں تھیں ۔ گو وہ کبری بیگم کی صحت یابی سے خوش ضرور ہوتی تھیں ۔ آخر کو جننا اور مرنا برابر ہی ہے لیکن پھر بھی جب کبری بیگم کے لڑکا ہوا تو آصف جہاں روئیں ۔ اس میں کسی کا کیا قصور ہے، میری قسمت ہی خراب ہے۔ نو بچوں میں ایک نورالحسن کا منھ دیکھا ہے اور اس کے لیے بھی میری تمنا پوری ہوتی نظر نہیں آتی ۔ جدھر دیکھو بیٹیاں ہی بیٹیاں بھری پڑی ہیں ۔ بر تک نہیں جڑتے لیکن میرے بچے کے لیے اللہ میاں دُلہن ہی نہیں بھیجتے۔کبری بیگم تین دن سے دردزہ میں مبتلا تھیں۔ خاندانی بڑھیا دائی بیٹھی ہوئی تھی ۔ گھر بڑی بوڑھیوں،بہنوں، بھاوجوں، دیورانیوں، جٹھانیوں، نندوں اور ان کے بچوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس غضب کا شور مچا ہوا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی ۔ شادی کا گھر معلوم ہورہا تھا ۔ عورتوں میں آپس میں صلاحیں ہو رہی تھیں کہ ڈاکٹرنی کو بلایا جائے یا نہیں۔ درد پر درد تو چلے آرہے ہیں اور بچہ ہے کہ کھسکنے کا نام نہیں لیتا۔ بچے سبھی کے ہوتے ہیں لیکن بوا ایسا بچہ نہ دیکھ، نہ سنا۔صدقہ کا بکرا غریبوں کو اناج تعویذ گنڈے، غرض کہ ہر چیز ہو رہی تھی لیکن بچہ ٹس سے مس نہ ہوتا تھا۔ ادھر کبری بیگم دردوں کی تکلیف سے نڈھال ہو رہی تھیں۔ ادھر باہر تخت پر آصف جہاں جائے نماز پر بیٹھی، ہاتھ پھیلائے خدا سے دُعا مانگ رہی تھیں۔ اے رب العالمین ! کبری کے چھوٹے چھوٹے بچوں پر رحم کر اور اس کو اس مصیبت سے چھٹی دے۔ اے پروردگار ! پانچ بار تیرے حضور سے مایوس لوٹی ہوں۔ اس دفعہ میری مراد۔۔۔آصف جہاں دعائیں مانگتی جاتی تھیں۔ ان کے چہرے سے خدا کے رحم کی توقع پوری طرح سے ٹپک رہی تھی۔ کبری بیگم کے کراہنے اور چیخنے کی آواز میں برابر آصف جہاں کے کان میں چلی آرہی تھیں ۔ ہائے آپا!اچھی میری بھابی جان۔۔اب کےنہیں بچوں گی۔۔اللہ۔۔اللہ میرے حال پر رحم کر۔۔مری۔۔ہائے۔۔مری۔۔اے ہے کبری،ایسی بدفالیں منہ سے نہ نکالو۔۔پانی۔۔ہائےپانی۔۔گل شبو، اری اوگل شبو کہاں مرگئی۔۔۔اری کم بخت کٹورا تو دیکھ خالی پڑا ہے ۔ ایک رشتہ دار اندر سے چیخیں۔۔۔تھوڑی دیر بعد کبری بیگم کی چھینیں اور بڑھ گئی اور ساتھ ساتھ اور عورتوں کی آواز میں بھی آنے لگیں۔ شابش ہے، شابش ہے، لگاؤ زور۔۔۔اور زور۔بس۔۔۔پھر ایک ایسی بھیانک چیخ کبری بیگم کی سنائی دی کہ آصف جہاں کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔ اور یہ چند سکنڈ جو گزرے تو انھیں برسوں کے برابر معلوم ہوئے۔ پھر ایک بچے کی بیائو۔۔۔ہیائو رونے کی آواز سن کر اُنھوں نے چین کا سانس لیا اور اپنی دعا اس طرح ختم کی۔ اے میرے مالک لڑکا ہو یالڑ کی، یہ تو میری قسمت ہے لیکن شکر ہے تیرا کہ تونے کبری کی جان بچائی یہ کہہ کر سجدے میں گر پڑیں۔ ابھی اُٹھنے نہ پائی تھیں کہ ایک چھوکری بھاگتی ہوئی آئی ۔ لڑکی ہے لڑکی بیگم صاحب دلہن مبارک سجدے ہی میں آصف جہاں کی باچھیں کھل گئیں۔ جلدی سے سر اونچا کر کے انگیا میں سے بٹوا نکالا اور ایک روپیہ چھوکری کے ہاتھ پر رکھ کر خوش خوش زچہ خانہ کی طرف بڑھیں ۔ اس کمرے میں پہلے ہی سے عورتوں کی کافی بھیڑ تھی ۔ ہر شادی شدہ عورت موجود تھی۔ سب کے چہروں پر اب تشویش بہت کم ہو گئی تھی ۔ آصف جہاں کے گھتے ہی ایک بیوی بولیں‘‘ابھی آنول نہیں گری ہے۔زچہ کے پلنگ پر سر ہانے کی طرف کبری کی پھوپھی اور بڑی بہن، ایک بھاوج بیٹھی تھیں اور پائنتی کی طرف دائی اپنے پاؤں کبری کی رانوں سے اڑائے بیٹھی تھی ۔ بھاوج اُٹھ کر عورتوں کے برابر کھڑی ہو گئیں اور اپنی جگہ آصف جہاں کے لیے پلنگ پر چھوڑ دی۔ بھابی جان کبری نے اس دفعہ بڑی تکلیف اٹھائی لیکن آپ کی قسمت سے اب کے لڑکی ہوئی ہے۔ ماں کی تو جان پر بن گئی تھی ۔ کبری کی بہن نے آصف جہاں کو مخاطب کر کے کہا تمہاری سب کی دعا خدا نے سن لی۔ میں تو اس دفعہ بھی بے آس ہو چکی تھی ہی اچھا ہوا کہ اللہ نے اپنا فضل کر دیا اور میم کی نوبت نہ آئی۔۔۔بس بیوی کچھ نہ پوچھو۔۔۔تم بیویاں تو جھوٹ موٹ ہاتھ پاوں پھلا دیتی ہو۔ بچہ تو جبھی ہوگا، جب اللہ کا حکم ہوگا۔ میم آکر کیا بنا لیتی ۔ اُلٹے سیدھے اوزار ڈالنے شروع کر دیتی ۔ ذرا دیر ہوئی تو کہنے لگتی ہو،میم کو بلواؤ، جب یہ اُجڑی میمیں نہ تھیں تو کیا کوئی عورت بچہ ہی نہ جنتی تھی ۔۔۔ دائی نے جلے ہوئے لہجہ میں زور زور سے بڑ بڑانا شروع کیا۔اے ہے دیر کی بھی انتہا ہوتی ہے۔ دوراتیں اور تین دن گزر گئے، راتوں درد میں تڑپیں اور تم کو یہ بھی پتہ نہ تھا کہ بچہ کب ہو گا؟ کیا ہم نے بچے نہیں جنے؟ کیا ہم نہیں جانتے ؟ کبری کی بہن عائشہ بیگم نے جواب دیا۔ اچھا اب باتیں تو بنا چکیں، یہ بتاؤ آنول کب گرے گی؟بیوی موت زیست خدا کے ہاتھ ہے۔ وقت کی کسی کوخبر نہیں ہے، بچہ ہوگیا، ابھی ڈنڈی میں جان ہے، اسے دیکھو کیسی پھڑک رہی ہے۔ وائی ایک ہاتھ سے جو چاندی کی میلی کچیلی انگوٹھیوں، چوڑیوں سے بھرا ہوا تھا، آنول کی ڈنڈی پکڑے ہوئے تھی اور دوسرے ہاتھ سے میلا صاف کر رہی تھی۔ عائشہ بیگم زچہ کا پیٹ نہایت زور سے دبائے ہوئے تھیں۔ یہ اپنے پیٹ پکڑنے کے لیے کنبہ بھر میں مشہور تھیں۔دلہن درد آیا ؟وائی نے زچہ سے پوچھا۔نہیں ۔ کبری نے ایک نحیف اور کمزور آواز میں جواب دیا۔ ڈنڈی کی پھڑک تو اب بہت کم رہ گئی ہے۔ یہ کہہ کر دائی نے ڈنڈی کو پاؤں کے انگوٹھے اور الٹے ہاتھ سے پکڑ کر سیدھے ہاتھ سے اس کو سوتنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ بالکل سفید بے جان ہونے لگی۔ اے ہے مستین ابھی سے نال نہ کاٹ دینا، ابھی تو آنول نہیں گری ہے ۔ کھڑی ہوئی جماعت میں سے ایک نے کہا۔اے بیوی کل کی بچی ہو، میرے ہاتھ کی پیدا، اب مجھی کو پڑھانے لگیں۔ میرا چونڈا کیا دھوپ میں سفید ہوا ہے۔ بڑی بیگم خدا کی قسم یہ لڑکیاں اچھے خاصے بھلے آدمی کو الو بنا لیتی ہیں۔ میں ایسی پاگل ہوں کہ نال آنول گرنے سے پہلے کاٹ دوں گی ۔ مستین آنول سوتتی رہی اور دوسری عورتیں اپنے اپنے قصے بیان کرنے لگیں کہ ان کی اپنی دفعہ کیا ہوا تھا اور محلہ یا ان کے سسرال میں کون دائی آتی ہے اور فلانی زچہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی مرگئی اور آنول اندر کی اندر رہ گئی ۔عاشق حسین کی دُلہن کا کیا ہوا۔ آنول نہ گری ۔ شام ہوگئی۔ دائی نے بہتیری کوشش کی۔ آخر کو ہار کر اس نے بھی کہہ دیا کہ آنول تو کلیجہ میں چپک کر رہ گئی ہے، اب میرے بس کی نہیں۔ بیچاری کو ہسپتال لے گئے ، وہاں میموں نے نکالی لیکن بوا، سنا ہے کہ کلیجہ بھی ساتھ ہی نکل آیا۔ تین دن میں مرگئی ۔ دو چھوٹے چھوٹے بچے۔۔۔میری نند کی آنول بھی ڈاکٹرنی نے آن کر نکالی۔ بیمار تو وہ بہت ہوئی لیکن بچ گئیں ۔دائی ، ڈاکٹر نیوں، میموں کے نام سن کر خاموش نہ رہ سکی۔ ایک دم جھنجھلا کر بولی۔ کسی کی ایسی زبان ہو،یہ وخت ایسی بدفالیں نکالنے کا ہے، میم، ڈاکٹرنی کوئی بات ہی نہیں ۔ ارے زرا دیکھو تو بڑی بیگم اے ہاں بیچ تو ہے، قیصر اس وقت تو کوئی اور ذکر چھیڑو ۔ بڑی بیگم نے کہا۔ اے ہاں۔ دائی نے بھیج کر کہا۔ عائشہ بیوی دباؤ بھینچ کر پیٹ کو! وہ آنول آرہی ہے! عائشہ بیگم جو پیٹ کو پہلے ہی زور سے دبائے تھیں ہمٹھیاں بھینچ آدھی کھڑی ہو کر پورا دم لگا کر بہن کا پیٹ پھینچنے لگیں۔ زچہ تڑپ گئی اور چیخ پڑی ۔ ہے ہے آپا خدا کے لیے بس کرو۔ میرا تو دم نکلا۔۔۔۔! اے بس لو چھٹی ہوئی ۔  دائی نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا۔ اے لو بڑی بیگم دیکھ لو، پوری ہے پوری پھر بعد میں نہ کہہ دینا۔ یہ کہہ کر اس نے آنول آصف جہاں کی طرف بڑھائی اور پھر جتنی عورتیں تھیں سب نے باری باری دیکھی اور اپنے رائے کا اظہار کیا۔اے ہے بیوی! ابھی سے پیٹ ڈھیلا نہ کرو ، خون بہت نکل رہا ہے ذرا کس کے پکڑے رہو!‘ دائی نے کہا۔ عائشہ نے بھر پور زور لگا دیا۔نال کاٹ لوں، اتنے میں خون رک جائے گا۔ یہ کہ کر پھر پاؤں کے انگوٹھے سے ڈنڈی پکڑی اور اس کو پھر زور زور سے سوتنا شروع کیا۔ پھر ایک کچے ڈورے سے جو پاس ہی پلنگ پر بڑی دیر سے پڑا تھا، نال باندھ کر پھر ادھر اُدھر نگاہ پھرا کر ایک زنگیایا ہوا چاقو نیچے سے اُٹھا کر نال کاٹ دی۔ آنول کونڈے میں ڈالی ۔ گوڈڑزچہ کے نیچے سے نکال کر اس کو صاف کیا۔ خون اب بھی زیادہ مقدار میں جاری تھا۔ مستین اب ایک فاتحانہ انداز سے پلنگ سے اُتریں۔ کھڑے ہو کر ایک انگڑائی لی ۔ اے ہے بڑی بیگم تم ہٹ جاؤ تم سے یہ نہیں اُٹھیں گی ۔ صابرہ بیوی تم اور قیصر آجاؤ ۔ صابرہ اور قیصر نے نیچے ہاتھ ڈالا اور زچہ کی ہائے وائے کی پرواہ نہ کر کے اس کی کمرکو کوئی آٹھ انچ اونچا اٹھالیا اور مسین نے ایک چھ گز لمبی پٹی کو زچہ کے پیڑو پر ادھر سے اُدھر پیٹنا شروع کیا۔ خون اب کچھ کم ہو گیا تھا لیکن کبری اب ایک دھلے ہوئے کپڑے کی مانند سفید اور دھجی کی طرف لاغر ہو چکی تھیں۔ بچہ ہو گیا۔ آنول گر گئی۔ اب اللہ اپنا فضل کرے گا تو طاقت بھی آجائے گی۔اب آصف جہاں بچی کی طرف متوجہ ہوئیں اورلڑکی کا منہ دیکھا اور بولیں؛۔۔سانولی ہے!۔۔ اے شکر کرو، بھابی جان کہ تمہارے نصیب سے لڑکی ہی ہوگئی۔اے، اس کا کیا ذکر ہے اگر کافی بھی ہوتی تو کیا میں چھوڑ دیتی۔اے مستین اب بچی کو نہلاؤگی یا نہیں!مستین نے بچی کو نہلایا اور آصف جہاں کے اصرار پرلڑکی کو ان کو دینے سے انکار کر دیا۔ بیوی بڑی منتوں کی ہے۔ میں یوں نہ دوں گی۔ میرا حق دو۔اے لو،یہ کون سا نیا دستور تم نے نکالا ہے جو تمہارا حق ہے وہ میں پہلے ہی آنوال کے کونڈے میں ڈال چکی  مستین دانت پھاڑ کر بولیں ۔ اللہ تم اچھا کیا ہے؟پانچ روپیہ ہیں اور کیا ہوتے؟خدا کی قسم بڑی بیگم، پانچ روپیہ تو میں ہر گز نہیں لوں گی ۔اے کچھ دیوانی ہوئی ہو مستین ۔ لوگ تو کونڈے میں منگنی کا ٹیکہ ڈالتے ہیں۔ یہ کوئی نیگ کا وقت ہے۔ جب بیاہ ہوگا تو لینا ۔ہاں بیوی ٹھیک کہتی ہو! میں ان کے بیاہ تک تو ضرور بیٹھی رہوں گی۔ تم بیویاں چاہے لاکھ اٹھادولیکن حقداروں کو دیتے ہوئے ہمیشہ قانون چھانٹتی ہو، بھنگن لے لے ،گل شبو لے لے ، جس کا دل چاہے لے لے۔ میں تو بیوی یہ پانچ روپیہ ہرگز نہ لوں گی ۔مستین ان کی خاندانی دائی تھی۔ سب اس کے ہاتھوں کے پیدا تھے لڑ جھگڑ لیتی تھی۔ آصف جہاں نے بٹوا کھول کر دوروپیہ اور ڈال دیئے۔ مستین جس کو پانچ کی اور امید تھی ۔ دو لے کر کچھ زیادہ خوش تو نہ ہوئی۔ ہاں سب دھو کر اپنے بٹوے میں رکھ لیے۔ پھر جتنی بیویاں وہاں موجود تھیں سب نے کچھ نہ کچھ مستین کو دیا۔ کسی نے اٹھنی کسی نے روپیہ مسین نے کونڈا اٹھا کر کبری بیگم سے کہادلہن خدا کی قسم یہ بیٹی بیٹوں سے زیادہ منتوں مرادوں کی ہے۔ خدا کی قسم سونے کے کڑے لیے بغیر میں نہ مانوں گی۔اے واہ کبری نے کس دن لڑکی کی منت مانی تھی، جو لینا ہے بھابی جان سے لو جنھوں نے بہو کے لیے منتیں مانی تھیں ۔ ہم تو وہی دیں جو اور بیٹوں کی پیدائش پر تم کو ملتا ہے۔ عائشہ بیگم نے مستین کو جواب دیا۔

سن رہی ہو بڑی بیگم ، مستین نے آصف جہاں کو مخاطب کیا۔ اب تم جاؤ نا ہاتھ منہ دھو ، پان وان کھاؤ تمھیں تو بس لاؤ لاؤ کی پڑی رہتی ہے۔ عائشہ بیگم نے تڑک کر مستین سے کہا۔عائشہ بیگم بہت طرار تھیں۔ بہن سے فارغ ہو کر اُنھوں نے ڈومنیوں کو بلا بھیجا۔ گھر میں شوروغل کی پہلے ہی کیا کمی تھی ، اب تو ڈھول اور گانے نے ایک کہرام مچادیا۔ چھیڑ چھاڑ شوروغل میں زچہ کے آرام و نیند کا کسی کو بھی خیال نہ تھا۔ سب عورتیں آصف جہاں اور آپس میں ایک دوسرے کو چھیڑتی رہیں۔ ڈومنیوں سے زچہ گیریاں ، سہاگ گالیاں سب کچھ گوایا۔ زچہ خانے کی نقلیں ڈومنیاں پیٹ پھلا پھلا کر کر رہی تھیں ۔ اے جی کون سالا گا؟ ایک جو میاں بنی تھی سوال کرتی تھی اور بیوی ساتواں لاگا یا آٹھواں لاگا میں جواب دیتی تھی ۔ کنواری لڑکیاں جو بچہ کے پیدائش تک ایک دوسرے دالان میں جمع کر دی گئیں تھیں، اب آزادی سے سارے گھر میں آجا سکتی تھیں۔ بیویوں کا تو کہنا ہی کیا۔اکثر لڑ کے بھی دیوان خانے میں آکر جمع ہو گئے تھے۔ بارہ سال کے دولھا صاحب بھی اُن ہی بچوں کے جھرمٹ میں سے پیچھے آدھے دبکے بیٹھے سن رہے تھے کہ ان پر ان کی ایک رشتہ کی بہن کی نگاہ پڑی۔ اُنھوں نے لپک کر انھیں پکڑلیا۔ لو دیکھو دولھا صاحب بھی خیر سے بیٹھے سن رہے ہیں ایک قہقہہ پڑا۔ دولھا صاحب نے گرفت چھڑانے کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے۔چھوڑ دیجیے باجی، چھوڑ دیجیے ہمیں ۔ جب وہ ڈیوڑھی کی طرف بھاگنے لگے تو باجی ان کے پیچھے زور سے چلائیں۔ اے کیسے دولھا ہوذرا اندر چل کر تو دیکھو کیسی چاندسی دُلہن ہے؟

مصنف:رشید جہاں

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here