چاند بجھ گیا

0
191
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

جب سے ڈاکٹر ہو کر گیا تھا، گھر میں ایک منحوس سی خاموشی چھا گئی تھی۔ سب غیر معمولی طور پر چپ ہو گئے تھے۔ ان کے ہونٹوں سے جنسی یکسر غائب ہوگئی۔ وہ چل پھر رہے تھے مگر سایوں کی طرح خاموش۔ ان کے چہرے ایک ساتھ لمبے لمبے ہو گئے ، ان کی آنکھوں کی سفیدی ضرورت سے زیادہ نمایاں ہوگئی تھی اور چیزوں کو پکڑتے اور اٹھاتے وقت ان کی انگلیاں کانپ کانپ جاتی تھیں ۔ گھر کے لوگوں میں اس تبدیلی کو مومنی نے بخوبی محسوس کیا۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ کمرے میں جو شخص بھی داخل ہوتا ہے اس سے آنکھیں نہیں ملا تا بلکہ جلد سے جلد باہر چلے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس نے ایک دو بار دریافت بھی کیا کہ ڈاکٹر کیا مرض بتا گیا ہے مگر کسی نے تسلی بخش جواب نہ دیا تھا۔ سب لوگ اس سے کچھ چھپانا چاہتے تھے۔ وہ اس کی آواز سن کر چونک پڑتے تھے اور ایک بار آنکھیں ملا کر فوراً نظریں چرا جاتے تھے۔

مونٹی کو کسی نے کچھ نہ بتایا لیکن وہ سب کچھ جان گئی۔ یہ اس کی زندگی کا پہلا تجربہ نہ تھا۔ اس قسم کے تجربہ سے وہ پہلے بھی ایک بار دو چار ہو چکی تھی۔لیکن پہلے تجربہ میں اور دوسرے تجربہ میں زمین آسمان کا تھا۔ اس دفعہ موسنی چار پائی پر نہیں پڑی تھی ۔ ان دنوں وہ تندرست تھی ، خوبصورت تھی ۔ اس کے رخساروں کی رنگت گلابی اور ہونٹوں کی سرخی تازہ تھی ۔ چار پائی پر اس کے پتا پڑے تھے۔ بخار نے ان کا خون اور گوشت گھلا ڈالا اور ہڈیاں پیلی مردہ کھال کے لیے بے ڈھنگے سے انداز میں پڑی رہ گئی تھیں ۔ وہ چار مہینے سے پیار تھے۔ پہلے ڈاکٹروں نے معمولی بخار بتایا، پھر ملیریا، ٹائیفائڈ اور پھر ایک دن سارے گھر میں آج کی طرح سناٹا چھا گیا۔ خوف و ہراس سے سب کانپ اٹھے ۔ ہمت اور حوصلہ جواب دے گیا۔ گھر میں موت کے سیاہ پردوں کا سایہ پھیلتا دکھائی دیا۔ ڈاکٹروں نے اس کے پتا تپ دق کا مریض قرار دے دیا تھا۔ آج پھر مومنی کی آنکھوں کے آگے اس کے بیمار پتا کی تصویر گھومنے لگی ۔ تھوڑی دیر بعد یہ تصویر دھندلی پڑنے لگی اور اس میں سے ایک نئی تصویر ابھرنے لگی یہ دوسری تصویر مولی کی تھی مومنی کو بجھنے میں کچھ دیر نہ لگی کہ اس نے اپنے پتا کی چار پائی سنبھال لی ہے۔ وق ، ٹی بی مومنی کی چھاتی میں ہر چھیاں ہی اتر گئیں۔ وہ لرز اٹھی۔ اس کا سارا بدن پسینہ سے شرابور ہو گیا۔ کیا اسے واقعی وق ہو گئی ہے؟ کیا اس کی زندگی میں واقعی کھن لگ گیا ہے؟موت،موت کا خیال آتے ہی مومنی کا سر چکرا گیا۔

موت کے خوف نے اس کی روح کو جکڑ لیا لیکن دوسرے لمحہ یہ خوف کا فور ہو گیا۔ اس کی جگہ چنتا نے لے لی۔ میں مرجاؤں گی تو میرے بعد میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ میری سویٹ کا اور میرے اس منے کا جس کا ابھی میں نام بھی نہ رکھ پائی ہوں اور گویا موٹی کے لیے زندگی اور موت کے تمام مسائل سمٹ کر اس مسئلہ میں سما گئے میرے بچوں کا کیا ہوگا، میرے بچوں کا کیا ہوگا۔ اس کا تخیل تصویر پیش کرنے لگاوہ موت کا شکار ہوگئی ہے مرگئی ہے۔ اس کے بچے بھوکے پیاسے پڑے بلک رہے ہیں۔ کسی نے ان کے بالوں کو نہیں سنوارا کسی نے ان کے کپڑے نہیں بدلے کسی نے ان کے ہاتھوں پر نظر سے بچنے کے لیے نہیں لگائے ۔ یکا یک اس کا پتی ایک غیر عورت کو لے کر گھر میں آیا۔ وہ عورت بہت خوبصورت ہے۔ اس نے اس کے کپڑے اور زیور پہنے ہوئے ہیں لیکن جونہی وہ اس کے بچوں کو دیکھتی ہے اس کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں، چہرے کے خطوط بگڑ جاتے ہیں، آنکھوں سے شعلے نکلنے لگتے ہیں اور پھر پھر وہ بچوں سے دن بھر گھر کا کام کراتی ہے اور شام کو ان کی جھوٹی شکایتیں کر کے اپنے شوہر سے پٹواتی ہے اور رات کے تاریک سناٹے میں بچے اپنی ماں کو یاد کر کر کے روتے رہتے ہیں، بلکتے رہتے ہیں اور پھر تھک کر سوجاتے ہیں۔ کیا میرے بعد بچوں کا یہ حال ہو گا ؟ مونی پریشان ہو اٹھی نہیں ، میں جیوں گی۔ میں اپنے بچوں کی خاطر مرض سے لڑوں گی ، مرض کو شکست دوں گی۔

مونی زندہ رہنا چاہتی تھی۔ اس نے سدا زندوں کی طرح رہنا چاہا تھا۔ اس نے غریب شیکھر سے اپنی ماں کی مرضی کے خلاف صرف اس لیے شادی کی تھی کہ شیکھر سے جدا رہ کر وہ جیتے جی مرجاتی۔ مردوں کی طرح جینا اسے پسند نہیں تھا۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ غریب ہوتے ہوئے بھی اس کے لیے اچھے گھروں کے رشتے آئے تھے۔ وہ اگر چاہتی تو کسی امیر گھرانے میں شادی کر کے زندگی عیش سے گزارتی ، لیکن اس نے ہر قسم کے بوجھ اور لالچ کو تیاگ کر شیکھر سے پریم دواہ کرلیا شیکھر جو ایک سو پچیس روپیہ ماہوار کا کلرک تھا۔شادی کے بعد ایک سال انھوں نے بڑے سکھ اور شانتی میں بتایا تھا۔ جیون مسکراہٹوں اور قہقہوں کی لڑی بن گیا تھا۔ میں روشن، شامیں سلونی اور رات کجراری تھیں۔ گھر میں فرنیچر نہ تھا، ٹرنک میں ریشمی کپڑوں کے ڈھیر نہ تھے جعلی ڈبوں میں زیور نہ تھے، مگر محبت تھی ، خوشی تھی ، شانتی تھی۔ گھر میں دو پرانی تھے جو تنخواہ ملتی اس میں گزر کر لیتے اور زندگی کی دوسری آسائشوں کی کمی کو ان خوابوں سے پورا کرتے جو دونوں مل کر اس وقت دیکھا کرتے جب رات کا کا جل رچ جاتا ،ستارے بڑے بڑے ہیروں کی طرح آسمان کی گہری نیلی تحمل پر جگمگ کرنے لگتے اور چاند آسمان کی پیشانی پر جھومر کی طرح جھکنے لگتا۔

وہ خواب دیکھا کرتے ہمارے بچہ ہوگا۔ ہم اسے بڑے پیار سے پالیں گے، پڑھائیں گے، لکھا ئیں گے۔ وہ بڑا ہو کر ایک خوبصورت جوان نکلے گا اور ہم بوڑھے ہو کر آرام کی زندگی گزاریں گے۔ سچا سادہ معصوم خواب زندگی سے اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے بچے کے لیے ایک درخشاں مستقبل کی آس میں جس دن ان کو اپنے اس خواب کے پورا ہونے کی آس بندھی، وہ کس قدر خوش تھے۔ ان آنکھوں کے تارے ناچ رہے تھے اور ان کے کانوں میں ان کے ہونے والے بچے کی کلکاریاں گونج رہی تھیں۔ انھوں نے بڑے شوق اور بے قراری سے اس دن کا انتظار کرنا شروع کیا جب ان کا بچہ ان کی گود میں آئے گا۔ اور دنیا میں لیکن مومنی کو جوں جوں دن چڑھنے لگے یہ شوق، یہ بے قراری مرجھاتی گئی۔ مومنی کی صحت گرنے لگی۔ وہ تھکی تھکی سی رہنے لگی۔ اس کے گالوں کا گلابی پن اور ہونٹوں کی سرخی غائب ہونے لگی۔ ناچتی ہوئی پتلیوں پرتھکی ہوئی پلکیں پڑی رہنے لگیں۔ شیکھر اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر ن معائنہ کیا اور بتایا کہ جسم میں خون کی بہت کمی ہے، اسے وٹامن چاہیے اور ایکسٹریکٹ چاہیے۔

- Advertisement -

خوراک میں مکھن، گھی ، دودھ، پھل زیادہ ملنے چاہئیں اور پورا آرام دیا جائے ۔ وہ دونوں وہاں سے لوٹ آئے لیکن اب ان کے درمیان ایک پیارا سندر بالک ہی نہ تھا ، ان کے درمیان دوا ئیں ، پھل، دودھ، گھی اور ایک نو کر بھی تھا۔ مونی سوچ رہی تھی کہ ونا سیتی کی بجائے اصلی گھی کھانا چاہیے۔ صحت اچھی ہونے پر ہی بچہ تندرست پیدا ہو سکے گا، مگر ان سب چیزوں کے لیے روپیہ چاہیے۔ روپیہ، اور پہلی بار اس کی زندگی میں روپیہ کی اہمیت ابھر کر سامنے آئی۔ پہلی بارا سے احساس ہوا کہ شیکھر کی تنخواہ بہت تھوڑی ہے۔ پہلی بار اس کے دل میں یہ خواہش ہوئی کہ شیکھر کے پاس بہت سی دولت ہو ۔ اس کی تنخواہ زیادہ ہو، عیش کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک صحت مند زندگی گزارنے کے لیے، ایک صحت مند بچے کی ماں بننے کے لیے ایک جیو تما کو جنم دینے کے لیے۔ لیکن شیکھر ایک کلرک تھا۔ اس کی تنخواہ بندھی ہوئی تھی اور بندھی ہوئی آمدنی میں ستاتی تھی اور چائے کے بھورے پانی کے علاوہ کسی اور چیز کی آشا کر نا پاگل پن تھا۔ مونی کا چہرہ مرجھا گیا۔ اب ہر لمحہ، ہر قدم پر مومنی کے سامنے تلخ حقیقت آ کھڑی ہوتی۔ زندگی کے متعلق جو رومان تصور اس نے باندھے تھے وہ اب منھ چڑاتےہوئے بھاگنے لگے۔ مومنی کو محسوس ہونے لگا کہ وہ اپنے کو دھوکا دے رہی تھی۔ وہ ایک خیالی دنیا میں رو رہی تھی۔ جن چیزوں کی ضرورت کو اس نے شیکھر کی محبت میں فراموش کر دیا تھا وہ اب کانٹوں کی طرح اس کی زندگی کے راستے میں آن کھڑی ہوئی ہیں۔ اب مومنی کے دن شیکھر کے دفتر سے آنے کی آس میں اور راتیں تاروں کے رومان کی تلاش میں گزرنے کے بجائے الجھنوں تشنگیوں اور محرومیوں کے لمحہ بہ لمحہ گہرے ہوتے ہوئے احساس میں بیتنے لگیں۔

ہر لمحہ ایک نئی محرومی کا احساس ہوتا اور یہ احساس اس کے اور شیکھر کے درمیان جھنجلا ہٹ کی ایک دیوار کھڑی کرنے لگا لیکن یہ سب کچھ صرف ایسے لمحوں میں ہوتا جب مومنی تھکی ہوتی۔ اس کی طبیعت گرمی ہوتی ۔ کوئی کام کرنے کو جی نہ کرتا اور کام کا اونچا پہاڑ اس کے سامنے ہوتا۔مونی کے لیے کچھ طاقت کی دوائیاں لانے اور دودھ وغیرہ منگانے کی وجہ سے تنخواہ ضرورت سے زیادہ ناکافی معلوم ہونے لگی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوا ئیں پیتے وقت یا غذا کھاتے وقت مونی کے ذہن میں احساس کی گردان سی ہوتی رہتی یہ چار روپیہ کی وٹامن کی گولیاں ہیں۔ لیور ایکسٹریکٹ کی گولیاں گیارہ روپے کی آتی ہیں اور دودھ کابل اکیس روپے ہوگا۔ اسے محسوس ہوتا ہے جیسے اگلے مہینے کی گاڑی کسی صورت میں نہ چل سکے گی اور کھایا پیا اسے کچھ نہ لگتا، گی۔ تکان کمزوری، پریشانی جھنجھلاہٹ اور جیسے مومنی کے مزاج میں ایک غیر معمولی تبدیلی آنے لگی ہونٹ پہنچے رہتے اور ماتھے پر ایک شکن ہر وقت پڑتی رہتی مگر ایسی لے ہی آتے جب ایک لمحہ کے لیے گھٹائیں چھٹ جاتیں اور چاند اپنی پوری آب و تاب سے نکل آتا۔ انہی حالات میں موسنی نے ایک بچی کو جنم دیا۔ کی بہت خوبصورت تھی۔ اس کا گورا گول مٹول معصوم چہرہ دیکھ کر دونوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاتی ۔ وہ اسے گود میں لے کر کھلاتے تو ان کے ماتھے سے پریشانی اور تردد کی لکیریں تھوڑی دیر کے لیے مٹ جاتیں۔ وہ غیر شعوری کشیدگی، جو مومنی اور شیکھر کے درمیان پچھلے چار پانچ مہینے میں پیدا ہوگئی تھی ایک حد تک دور ہو جاتی۔

اب ان کی زندگی میں پھر ایک ایسی چیز آگئی تھی جیسے وہ مشترکہ طور پر پیار کر سکتے، جس کے متعلق ہم آہنگی سے باتیں کر سکتے اور جس میں دونوں اپنے غموں کو بھلا سکتے تھے۔ ماحول کی کشیدگی کم ہو گئی تھی مگر یہ سب کچھ جذبات کی سطح پر تھا۔ حقیقت کی سطح پر حالات زیادہ خراب ہو گئے تھے۔ بچی کے ہونے سے اس طرح کے خرچ بڑھ گئے تھے ۔ آمدنی کسی طرح نہ بڑھی تھی ۔ تنخواہ آتی اور پچھلے مہینہ کا حساب چکاتے چکا تے ختم ہو جاتی اور اکتیس دن کاٹنے کے لیے صرف پندرہ روپے ہاتھ میں رہ جاتے ۔ وہ تمام خواہشیں اور وہ تمام منصوبے جو وہ اگلے مہینے پورا کرنے کی امید سے باندھتے ، خاک میں مل جاتے اور پھر تنگی اور کفایت شعاری اور من کو مارنے کا دور شروع ہو جاتا۔ اس تنگ حالی کے نشانات گھر میں دکھائی دینے لگے۔ کالروں، پتلونوں،ساڑیوں اور پلنگ کی چادروں میں جوڑ اور پیوند نظر آنے لگے۔ جو گلاس یا پیالے ٹوٹ جاتے ان کی جگہ نئے نہ آ پاتے۔ بچی کے کپڑے بنانے کی آرزو، پرانی ساڑیوں کو پھاڑ کر اور ان میں بنا پھٹے کھڑے نکال کر پوری کی جاتی آنے دو آنہ کے خرچ پر میاں بیوی میں کھینچا تانی ہوتی۔ سنیما اور سیر کرنا یکسر بند ہو گئے ۔ پیسہ پیسہ کا حساب رکھا جانے لگا۔ دونوں میں جس کا رشتہ دار یا مہمان آجاتا اس کی گویا شامت آ جاتی دونوں ایک دوسرے کو پھاڑ کھانے کو دوڑتے۔ بد مزاجی اور چڑ چڑا پن ان کے سبھاؤ میں رچ گیا۔ ہر وقت گھر میں یہی سنائی دیتا کھانا ضائع نہ کرو۔ کپڑے نہ بنواؤ، کپڑے ہاتھ سے دھوؤ کوئلہ کم خرچ کرو ۔ غرض یہ کہ ذراسی چیز پر روک ٹوک شروع ہوگئی۔ اب جب کبھی وہ ساتھ ساتھ بازار جاتے تو ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر مسکرانے اور ایک دوسرے میں مگن رہنے کے بجائے ان آنکھوں میں دوسرے مرد، عورتوں کے سوٹ ساڑیاں، بلاؤز اور کوٹ اور زیور، بالوں کے جوڑے کھٹکتے ، زندگی کا سکون غائب ہو جاتا۔ محرومی کا احساس ہرلمحہ زیادہ شدید اور گہرا ہونے لگا اور پیار کی وہ دنیا جس میں شادی کے بعد ایک سال تک وہ مسکراہٹ اور پیار کے دن گزارتے رہے تھے اب مکمل طور پر بر باد ہوگئی تھی۔ شاید اس حد تک بھی موٹی زندگی کے مقابلے میں ڈٹی رہ سکتی تھی لیکن زندگی نے اس کی صحت کو بھی کھانا شروع کر دیا تھا۔ وہ ہر وقت تھکی تھکی رہتی۔ اس کی کمر اور گھٹنوں میں جان نہ رہی۔ اٹھتے بیٹھتے اس کی آنکھوں کے آگے سیاہی کے دائرے سے پھیلتے اور سمٹتے اس کی جلد کی سفیدی میں سرخی کے بجائے بلدی جیسی زردی جھلکنے لگی رخسار جو کبھی مسکراہٹ کی وجہ سے سداد مکتے رہتے تھے اب مرجھائے رہتے اور ہونٹ کنیر کی باسی کلیوں کی طرح بے رنگ ہو گئے۔

شیکھر کو مؤمنی کی گرتی ہوئی صحت کا احساس تھا۔ وہ جب دیکھتا کہ بلاؤز جو کبھی مؤونی کے انگ انگ کو اجا گر کر دیتے تھے اب ڈھیلے لٹکتے رہتے ہیں اور چوڑیاں جو کبھی موتی کی کلائیوں میں چندن کی دیکھاؤں کی طرح نظر آتی تھیں اب پو نچوں میں پڑی رہتی ہیں تو اس کی چھاتی میں گھونسہ سا لگتا۔ وہ اس کو آرام پہنچانے کا پورا خیال رکھتا۔ وہ اپنا پیٹ کاٹ کے اور من مار کے اس کے لیے کچھ نہ لاتارہتا مگر مہنگائی اسے مات پہ مات دے رہی تھی۔ تنگی کر کے وہ جتنا خرچ کم کرتا تھا اتنا ہی چیزوں کے مہنگا ہو جانے سے خرچ بڑھ جاتا تھا۔ اب وہ ہاتھ پاؤں سے بھی مومنی کی مدد کرتا اور اسے زیادہ سے زیادہ آرام دیتا۔ کپڑے خود دھوتا۔ بستر خود بچھا تا۔ دفتر سے آکر بچی کوکھلاتا اور جب کبھی مومنی کی کمر یا اس کے سر میں درد ہوتا تو اپنی تھکن بھول کر گھنٹوں اس کا سرد با تا لیکن اس کے قدموں کے نیچے کی زمین سرکتی جارہی تھی۔ گھر کے حالات سنبھلنے میں نہ آتے تھے اور مومنی کے جسم کی ہڈیاں نمایاں ہوتی چلی جارہی تھیں۔ ای طرح آرام اور خوشی کے چھینا جھپٹی کرتے کرتے زندگی کے دو سال گزر گئے ۔ اب ان کی حالت اس قدر تنگ ہو گئی تھی کہ کھانے میں تنگی کرنے کی نوبت آ گئی۔ گوشت کے بجائے ان کے ہاں اب دونوں وقت دال پکنے لگی۔ کوئی مہمان آ جاتا یا کچھ لینا دینا پڑ جاتا تو قرض سر پر سوار ہو جا تا زندگی کی چکی میں پیتے پیتے ان کے جذبات بھی سرد پڑ گئے۔ اب کئی کئی دن تک وہ ایک دوسرے سے بات نہ کرتے۔

انھیں خیال بھی نہ ہوتا کہ انھوں نے کئی دنوں سے ایک دوسرے سے باتیں نہیں کی ہیں۔ مومنی اپنے حلقے میں گھومتی رہتی ۔ شیکھر اپنے دائرہ میں گردش کرتا ریتا رات کو دونوں اپنے اپنے جوئے سے مکتی پا کر نیم جان سے چار پائی پر پڑ رہے۔ پیار کرنے کو ، چاؤ سے باتیں کرنے کو دیکھ کر مسکرانے کو زندگی میں کچھ نہ رہا تھا۔ چاندان کے لیے بجھ گیا تھا اور تارے ان کے لیے چیچک کے سوکھے داغ بن گئے تھے۔ اب ان کے دل میں ایک دوسرے کے لیے کوئی جذبہ نہ پیدا ہوتا تھا۔ وہ چپ چاپ گھر میں چلتے پھرتے کام کرتے، پڑ کر سو جاتے ۔ کبھی کبھار ایک آدھ لفظ منھ سے نکل جاتا، چونک کر نگاہیں مل جاتیں، مگر راکھ کی چنگاری کی طرح صرف ایک لمحہ کے لیے وہی غیرت بے حسی میالی مردنی ۔ ای غیریت ، بے حسی میالی مردنی کے سائے میں مونی دوبارہ حاملہ ہوگئی زندگی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی۔ مولی کے جسم میں بچہ جوں جوں پرورش پانے لگا مونی کے ہونٹوں کی خشکی ، آنکھوں کا پھیکا پن اور رگوں کا نیلا پن زیادہ نمایاں ہوتا گیا۔ جسم نے اس دوسری جان کو سینچنے سے انکار کر دیا۔ مومنی نے کھاٹ پکڑ لی۔ بچہ ہونے سے پہلے ہی حرارت رہنے لگی۔ بچہ ہوا تو بخار نے آدبوچا بخار جڑ پکڑ گیا اور مومنی کی زندگی کی جڑ کھو کھلی ہو گئی اور ایک دن ڈاکٹر نے کہہ ہی دیا کہ مونی کو دق ہوگئی ہے۔مونی کمرے میں پڑی تھی شیکھر اور اس کی بہن جو تیمارداری کے لیے آئی ہوئی تھیں، نہ جانے کہاں چلے گئے تھے ۔ کمرے ہی میں نہیں بلکہ سارے گھر میں سناٹا تھا۔ پاس ہی پالنے میں بچہ پڑا سورہا تھا۔ میر الال، میرا چاند کیا میں اپنے چاند کو اپنی گود میں لے کر نہ کھلاسکوں گی۔

جس کو میں نے اپنے خون سے سینچا ہے۔ کیا اسے بے سہارا چھوڑ کر چلی جاؤں گی ؟ نہیں نہیں، میں نہیں مروں گی۔ میں جیوں گی ! میں نے اس دنیا میں ایک نئی زندگی کو جو جنم دیا ہے کیا۔ دنیا اس کے بدلے مجھے میری زندگی کا دان نہیں دے گی۔ مجھے میری زندگی کا دان دیا جا سکتا ہے میرا علاج کرا کر ، مجھے اچھی غذا دے کر ، ہوا اور روشنی دے کر، یہ میرا حق مجھے ملنا چاہے میرا حق مجھے ملنا چاہیے۔ اس کی آتما پکار اٹھی۔ لیکن اس کی آتما کی پکار کسی نے نہ سنی کیونکہ کمرے میں کوئی نہ تھا اور کھڑکیاں اور روشندان بند تھے۔

مصنف:سرلادیوی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here