مرات کی سیاہی جیسے ہی گہری ہوئی جرمنی کے ساحلی شہرکوز ہی کی بندرگاہ سے ۹۹۷ ٹن وزنی جہاز آگسٹ پیٹرس عملے کے بارہ افراد کولئے اپنی زندگی کے سب سے اہم اور پوشیدہ مشن پر روانہ ہوگیا۔ پورا علاقہ رات کی گہری تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور لوگ اطمینان سے اپنے اپنے گھروں میں محو استراحت تھے۔ کسی کو بھی علم نہیں تھاکہ ساحلی بندرگاہ پر کسی قسم کا کام جاری ہے۔ ایک لحاظ سے یہ بہت اچھی بات تھی کیونکہ اگر عوام کو اس بارے میں ذرا سی بھی اطلاع مل جاتی توشاید لوگ خوف وہر اس کے بارے شہر چھوڑ کر دور دور چلے جاتے اور پورے علاقے میں افراتفری پھیل جاتی۔ آخر بات کیا تھی جس کو پوشیدہ رکھنے کے لئے اس قدر رازداری برتی گئی تھی ۔ بحری جہاز ‘‘اگسٹ پیٹرس’’ اس تاریک رات کو کوناک سامان لیکر کوزہیون کی بندرگاہ سے روانہ ہوا تھا ایک ایسا راز ہے جو آج تک بہت کم افراد کو معلوم ہے ۔ تو آیئے ہم آج آپ کو اس عظیم راز کے بارے میں بتایئیں جس کو پوشیده رکھنے کے بون کی حکومت نے لاکھوں روپے خرچ کئے تھے۔دوسری جنگ علم کا زمانہ تھا ۔ نازیوں کی قوت دن بدن کمزور ہوتی جارہی تھی اور نازی فوجوں کی شکستوں کوفتح سے بدلنے کے لئے ہٹلر نے نازی سائنس دانوں کو وہ ملکی ترین ہتھیار تیار کرنے کا حکم دیا جس کے بارے ایک دفعہ خود ہٹلر نے کہا تھا کہ وہ اس کے ذریعہ پوری دنیا ختم کر سکتا ہے۔ یہ مہلک ترین ہتھیار تھے زہریلی گیس تبورن کے بم جن کی ہلاکت آفرینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر اس گیس کی ذراسی مقدار بھی کسی صحت مند انسان کی سانس میں شامل ہوجائے تو وہ زندگی بھر کے لئے مفلوج ہوجائے ۔ہٹلر کے پوشیدہ احکامات پر جرمنی کے منسٹرلیگ کی ایک زیر زمین تجرگاہ میں تودرن گیس کے ان بموں کو تیارکرنے کا کام شروع کیا گیا اور ایک قلیل مدت میں ۹۰۰۰۰۰ بم تیار کر لئے گئے۔ لیکن اتحادیوں کی خوش قسمتی تھی کہ اس تباہ کن بم کے استعمال کئے جانے سے قبل ہی جرمنی جنگ ہارگیا اورہٹلر نے خودکشی کر لی۔برطانوی جاسوس جنہیں اس خطرناک منصوبے کی اطلاع مل چکی تھی اس تجربہ کار پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے جہاں موت کے یہ ہتھیار جمع کئے ہوئے تھے۔ حکومت برطانیہ کی ہدایت پر اسوقت ۹۰۰۰۰۰ بموں کے یہ خول بالٹک سمندر میں واقع کائلح کی کھاڑی میں ڈال دیئے گئے ۔ جنگ ختم ہونے کے بعد عرصے تک بون کی حکومت کائیل کی کھاڑی میں پڑے ہوئے ان بموں کو ہٹانے کے منصوبے بناتی رہتی کیونکہ حکومت کا خیال تھا کہ جب تک یہ بم کھاڑی میں پڑے رہیں گے ہمیشہ ایک خطرہ کا باعث بنے رہیں گے۔آخر کار پرتگال کی حکومت سے کئے ہوئے ایک پوشیدہ معاہدے کے تحت ان بموں کو خلیج سے نکال کر بحر اوقیانوس میں واقع ایک غیرآباد جزیرے ازور میں دفن کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ ماہر غوطہ خوروں کی مدد سے نہایت ہی راز داری کے ساتھ ان بموں کو پانی سے نکالا گیا اور نکالنے کے بعد ہربم کو کنکریٹ کے ایک سخت اور مضبوط خول میں بند کیا گیا۔ صرف ان بموں کو سمندر کی سطح سے نکالنے کے لئے حکومت نے ۳۷ لاکھ روپے خرچ کئے۔ نوے ہزار موت کے یہ خوفناک ہتھیاز بحری جہاز اگست پیٹرس کے ذریعے جزیرہ ازدر پہنچائے گئے جہاں کی پہاڑیوں میں واقع گہرے غاروں میں انہیں دفن کیا گیا ۔ غاروں کو چاروں طرف سے ہزاروں ٹن پتھر اورکنکریٹ سے بند کر دیا گیا تاکہ لوگ ان غاروں تک نہ جاسکیں ۔ آنے والی نسلوں اور ماہرین آثار قدیمہ کوان پہاڑیوں کی طرف جانے اور کسی قسم کی بھی کھدائی کے کاموی سے روکنے کے لئے چودہ مختلف زبانوں میں اور تصویروں کے ذریعے سخت ہدایتیں جزیرہ کی مختلف جگہوں پر آویزاں کر دی گئی ہیں۔ حکومت پرتگال سے ایک معاہدے کے تحت بون کی حکومت نے ہمیشہ ان اخراجات کو ادا کرنے کا ذمہ لیا ہے جو موت کے ان خوفناک بموں کو دائما دفن رکھنے پر آتا رہے گا۔