کوئی نہ جان سکا کہ وہ کون تھا؟

0
349
urud-story
- Advertisement -

اس سے پہلے کہ میں اصل واقعہ کو قلم بند کروں، زلزلہ کی المناک تباہ کاریوں کی اجمالی تمہید ضروری سمجھتا ہوں، کیونکہ زیر قلم واقعہ کا تعلق براہ راست ایک نہایت ہی ہیتبناک اور لرزہ خیز بھونچال سے ہی ہے ۔ زلزلے آندھی اور سیلاب کی ستم ظریفیوں کے آگے انسان عاجز وبے بس بن جاتا ہے ۔ زلزلہ سے چشم زدن میں قیامت خیز اور عبرت انگیز سماں پیدا ہو جاتا ہے جس کے ذکر سے لوگوں کے دل دہل جاتے ہیں، اور جو اس گم ہوجاتے ہیں خوشنا اور پررونق بستیاں اجڑ جاتی ہیں عالیشان عمارتیں زمین بوس ہوجاتی ہیں۔ پہاڑوں کی فلک شگاف چوٹیاں ریگ زاروں کی مانند زمین پر سجدہ ریز ہو کر اپنی بے ثباتی کا اعترات کرنے لگتی ہے ۔ جگہ جگہ زمین کھٹ جاتی ہے، اور بڑے بڑے شگافوں میں آدمی، جانور اور مکانات ساہ جاتے ہیں۔ہندوستان کی قدرت کی اس ستم ظریفی سے محفوظ نہیں رہا ہے۔ اس ملک میں جتنے بھی زلزے وقوع پذیر ہوئے ہیں،ان میں ۱۹۳۵ء میں کوئٹہ کا زلزلہ انتہائی تباہ کن تھا۔ جس کی مثال تاریخ ہی نہیں ملتی۔ اور اسی خون زلزلے سے میری زندگی کے اس وقوعہ کا تعلق ہے، جس نے مجھے روحانیت کا معترف کردیا۔ چنانچہ آج بھی میں فقیروں، سادھوؤں اور درویشوں کی بیدنعزت وتکریم کرتا ہوں،نہ معلوم ان میں کون کس قوت کا مالک ہے،میں جو کہانی آپ کو سنانے جارہا ہوں وہ ایک خدا رسیدہ مسلمان فقیر سےتعلق رکھتی ہے ۔ اور حقیقت پر مبنی ہے ۔ لوگ جب اس تاریخی زلزلہ کی چیرہ دستیوں اور بے پایاں تباہ کاریوں کا ذکر کرتے ہیں تو سننے والے کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور دل پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے۔کوئٹہ میں ۱۹۳۵ء کے موسم گرما کے ایک دن زلزلہ نے قیامت کا دلخراش منظر پیش کر کے انسان کی بے بضاعتی کا مذاق اڑایا تھا۔ کہتے ہیں اس کے جھٹکے سیکڑوں میل تک محسوس کئے گئے تھے ۔اگرچہ اس حادثہ کوکئی سال گزر چکے ہیں۔لیکن میرے حافظے کی لوح پر اس کے نقوش اس قدر تازہ ہیں جیسے یہ خوفناک حادثہ کل ہی وقوع پذیر ہوا تھا اور اب بھی حب سوچتا ہوں تو سارا منظر چشم تصور کے سامنے آجاتا ہے۔ میں اس زمانہ میں شاید سولہ سال کا تھا۔ اور اسکول میں زیرتعلیم تھا میں اپنے والدین کے ساتھ کوئٹہ میں بابومحلہ میں اپنے دومنزلہ ذاتی مکان میں رہتا تھا۔ میرے والد صاحب کافی دولت مند تھے اور عرصہ سے دل کے مریض تھے ۔ ملک کے نامور ڈاکٹروں نے ان کا علاج کیا، ہزاروں روپیہ خرچ کر دیا،تاہم کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ میں یہ بتانا بھول ہی گیا کہ میری والدہ جنھیں میں ماتاجی اور والد صاحب کو پتا جی کہہ کر تا تھا۔ خالص مذہبی قسم کی خاتون تھیں،بڑی نیک دل اور رحمدل تھیں۔ کوئی خاص تعلیم بھی نہیں پائی تھی، مگر وسعت معلومات کا یہ عالم تھا کہ دنیا کے تمام عظیم مذاہب کی تعلیمات سے واقف تھیں۔اکثر کہا کرتی تھیں۔بیاا تمام مذہب ایک ہی پہاڑ سے نکلی ہوئی جدا جدا ندیاں ہیں۔ اور سب ہی سمندر میں جاگرتی ہیں، بس کسی ایک ندی میں نہانے سے ہی ساری آلودگی دور کی جاسکتی ہے ۔یہ باتیں اس زمانہ میں میری سمجھ سے بالاتر تھیں ۔تاہم ایک تاثر مجھ پر ہوتا رہا! اور اسی وقت سے دنیا کے جملہ مذہبوں کی عظمت اور پاکیزگی میرے دل پرشتد ہوگئی۔جبکہ ہماری برادری کے لوگ ماتا جی کے ان روشن خیالوں سے نہ صرف بیزار تھے، بلکہ شدید مخالفت بھی کرتے تھے۔ماتا جی کا اپنامخصوص ماحول تھا۔ اور اسی ماحول کی بنا پردہ ڈاکٹروں کی بہ نسبت فقیروں، سا دھووں اور سنیاسیوں کی زیادہ معتقد تھیں۔ اب تو کئی مہینوں سے ڈاکٹری علاج ترک کر دیا گیا تھا۔ اور صرف ایک سادھو مہاراج کا علاج جاری تھا جس سے بظاہر کوئی افاقہ نہیں تھا، مگر ماتا جی کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے شاید پتاجی اس معالجہ کو گوارا کر رہے تھے۔ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ نہ معلوم ماتا جی کے کانوں تک یہ خبر کہاں سے پہنچی کہ کوئہی کے قریبی پہاڑ کے ایک غار میں ایک مسلمان معفر فقیرسکونت پذیر ہے۔ ماتا جی اس روز بدںن خوش خوش نظرآرہی تھیں ۔ حالانکہ انھیں اس فقیر کے بابت کچھ زیادہ علم بھی نہیں تھا۔ جیسا کہ میرا خیال تھا ماتا جی نے پتا جی سے اجازت لے ہی لی،اور فقیر سے ملنے کا قصد کر لیا۔اس فقیر تک پہنچنا دشواری نہیں، ہمیں ناممکن نظرآرہا تھا۔ چونکہ اعلی ذات ہندو گھرانے کی ایک معزز خاتون ایک مسلمان فقیر سے اس طرح بھلا کیونکر مل سکتی تھی؟ جیساکہ اس سے قبل میں بتا چکا ہوں کہ ماتا جی کی مسلمان فقیروں کے ساتھ بے پناہ عقیدت سے ہماری برادری کے سب لوگ یوں بھی ناخوش تھے ۔ اور جب انھیں ماتاجی کے اس ارادہ کا علم ہوا تو بڑی کھلبلی سی مچ گئی، بعض قریبی رشتہ داروں نے بتاجی سے مل کر اپنی ناراضگی اورخفگی کا اظہار کرتے ہوئے خوب مذمت بھی کی، مگر ما تاجی دھن کی پکی تھیں، اور اپنی بات کے آگے کسی دوسرے کے مشورہ کو مطلق گوارا نہیں کرتی تھیں ۔اور اب جب سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے ان کی یہ مداخلت ہرگز درست نہیں تھی اور ماتا جی حق پرتھیں۔خود پتا جی بھی ماتا جی کی فطرت سے اچھی طرح واقفت تھے، اور وہ بھی اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کو محض اس فقیر کے مسلمان ہونے کے سبب سے ماتا جی کودہاں جانے سے روکیں ۔ اور یہ حقیقت تھی کہ ہماری وہاں تک رسائی خطرہ سے خالی نہیں تھی،یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے والدین کافی روشن خیال اور وسیع النظر تھے ۔ شادی کے بعد میری ماتا جی کا رخاین مذہب کی طرف زیادہ ہوتا گیا،مگر ان کی روشن خیالی اور وسعت نظری میں شمہ برابر بھی فرق نہیں آیا۔ہمارے واقف کاروں میں تقریبا تمام مذاہب کے لوگ تھے،مسلمان تو ہمارے پڑوسی ہی تھے،جن میں بعض گرتانوں کے ساتھ ہاررے نہایت گہرے مراسم تھے، وہ خوشگوار ایام رفتہ جب مجھے یاد آتے ہیں تو آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔ دل دفور جذبات سے کپکپانے لگتا ہے۔ تمدنی زندگی کی یہ کیسی کمزوری ہے کہ جن لوگوں کی رفاقت میں ہم نامعلوم عرصہ سے رہتے ہوں ان کے بچھڑ جانے سے دل کی ایک عجیب کیفیت ہوجاتی ہے جو حدبیان سے باہر ہے۔ماتا جی پران تنگ نظروں کی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوا،اور وہ اپنے ارادہ پر اٹل رہیں۔یہی بات ان کی شخصیت کو اجاگر کرتی تھی۔ اب مصیبت یہ تھی کہ اس پہاڑ تک رسائی کیوں کر ہو۔کیس تجربہ کار شخص کی معیت ضروری تھی ۔ اور حال یہ تھا کہ کوئی رشتہ دار اس مہم پر آمادہ نظر نہیں آرہاتھا۔ ایک دن صبح جب میں بیدار ہوا تو ماتا جی کا حکم ملاکہ میں ان کے ساتھ پہاڑ پر چلنے کے لئے تیار رہوں۔ کیا بتاؤں مجھے کتنی خوشی محسوس ہوئی۔ آپ سمجھ سکتے ہیں سولہ سالہ لڑکے کے لئے کوہستانی سفرکس قدر مسرت انگیز ہوتا ہے۔ خوشی کیساتھ اپنی ذمہ دارانہ حیثیت کا احساس بھی ہونے لگا۔ میں نہایت عجلت سے تیار ہوگیا۔ اور ہم سات بجے اپنے مکان سے نکل پڑے۔وہ سہانی صبح میں بھلا کیسے فراموش کرسکتا ہوں۔کاش ہم پیدل ہی وہاں تک پہنچ سکتے۔مگر پاا جی کی ہدایت کے مطابق ہم تانگہ میں بیٹھ کر اس پہاڑ کے دامن تک گئے،یہاں راستہ ختم ہوجاتا تھا اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کا خوبصورت اور دلکش سلسلہ شروع ہوتا تھا۔ تانگے سے اتر کر ہم نے ایک پگڈنڈی پر چلنا شروع کیا،ملازم (جو اتفاق سے اس پہاڑ کے پیچ وخم سے واقف تھا) آگے آگے سامان اٹھائے ہماری راہنمائی کر رہا تھا۔ایک گھنٹہ کی مسافت کے بعد ہم غار کے دہانے تک پہنچ گئے۔خوش قسمتی سے شاہ صاحب چبوترہ نما چٹان پر عبادت میں مستغرق تھے۔ ماتا جی کو یہ خوف تھا کہ پتہ نہیں شاہ صاحب کیسا برتاؤ کریں۔کیونکہ انھوں نے ان کے متعلق سن رکھا تھا کہ شاہ صاحب کسی سے ملنا پسند نہیں کرتے۔کچھ ہی وقفہ بعد انھیں ہماری موجودگی کا علم ہوگیا انھوں نے آنکھیں کھول دیں اور ہماری طرف مسکراکر دیکھا اور زیرلب کچھ کہا جےش ہم سن نہ سکے،ان کا مسکرانا گویا ہمارا خوش گواراستقبال تھا۔سفید ریش بزرگ،سفید لباس میں ملبوس عام انسانوں سے کچھ جدانظرآرہے تھے۔ وہ نو رانی چہرہ شاید میں زندگی کی آخری سانس تک بھلا نہ سکوں گا۔ ان کے چہرے سے شفقت آمیز جلال ٹپک رہا تھا۔ ہمیں قریب ہی کی ایک چٹان پر بیٹھےا کا اشارہ کرتے ہوئے وہ غار میں تشریف لے گئے، اور فورا ہی لوٹ آئے، میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگے۔یہ بچہ بہت نیک اور کامیاب انسان ثابت ہوگا۔ماتا جی کا چہرہ خوشی سے تمتا نے لگا۔پھر ماتا جی سے آہستہ آہستہ پورا ماجرا بیان کیا۔ شاہ صاحب نہایت انہماک سے سنتے رہے ۔ جونہی ماتا جی کی بات ختم ہو کہنے لگے۔اللہ بہت بڑا ہے بیٹی تو مایوس نظرآتی ہے، گھبرانے کی ضرورت نہیں خدا پر بھروسہ رکھ وہ سب کی سنتا ہے، اور سبکے دکھ، درد دور کرنے والا ہے۔ماتا جی کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں، نہ معلوم یہ خوشی کے آنسو تھے یا ان کے ہمدردانہ سلوک کا تاثر، ماتا جی وارفتگی کے عالم میں اٹھیں اور ان کے قدم چھونے آگے بڑھیں جس پر شاہ صاحب کے چہرہ پر خفگی کے آثار نمایاں ہو گئے، وہ پیچھے ہٹتے ہونے کہنے لگےبیٹی تو یہ کیا کرتی ہے۔ میں اس فعل سے مطلق خوش نہیں ہوں، میں تو ایک عاصی اورگنہگار فقرو ہوں، تیری مصیبت کو دور کرنے والا تو اللہ ہے، وہ سب سے بڑا اور مہربان ہے۔ماتا جی سے دراصل یہ فعل غیرارادی طور پر سرزدہواتھا ورنہ وہ خوب جانتی تھیں کہ ایک مسلمان فقیر اس بات کو ہرگز گوارا نہیں کرسکتا، وہ کچھ شرمندہ سی نظر آنے لگیں۔ شاہ صاحب نے پانی سے لبریز ایک لوٹا ماتا جی کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے کہا۔یہ لیتی جا، اپنے شوہر کو صبح وشام اس میں سے چند قطرے پلاتی رہ، اللہ نے چاہا تو چند دنوں میں افاقہ ہوگا۔میرے لئے یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی،کیونکہ اس سے قبل بھی کئی سادھوؤں اورفقروں نے ایسا ہی پانی دیا تھا۔ جس سے پاو جی کی صحت پر ذرا بھی اثر نہیں پڑا تھا، تاہم ماتا جی نے نہایت عقیدت کے ساتھ اس لوٹے کو دونوں ہاتھوں میں احترام کے ساتھ تھام لیا۔ اور شاہ صاحب کا شکریہ ادا کرنے لگیں۔کچھ دیر رک کر ہم گھر کی طرف روانہ ہو گئے،اور گھر پہنچےر ہی پان جی کو پانی پینے کے لئے پیش کیا۔بلا مبالغہ صرف تین دن کے بعد ہی بتا جی خوش باش نظر آنے لگے ۔ جیسے کبھی بیمار ہی نہیں تھے۔ یہ ایک ناقابل یقین کرشمہ ہی تو تھا۔ کہاں برسوں کا مریض جس کے علاج پر ہزاروں روپیہ صرف کیا گیا تھا۔ صرف تین دن کے عرصہ میں پانی کے چند قطروں سے صحت یاب ہوتا ہے۔ ماتا جی کے خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اور پتا جی تو گویا حیات نو سے ہمکنار ہو رہے تھے۔ پتا جی کی تندرستی کی خبر آگ کی طرح ہماری برادری کے لوگوں میں پھیل گئی، رشتہ داروں، دوستوں اور واقفکاروں کا تانتا بندھ گیا۔ٹھیک ایک ہفتے بعد ایک دن علی الصبح ہمارے مکان کے دروازہ پر کسی نے دستگ دی، ملازم نے آکر اطلاع دی کہ شاہ صاحب تشریف لائے ہیں۔ ہم سب ان کی غیر متوقع اور حیرت انگیز آمد کی مسرت سے سرشار ان کے استقبال کے لئے صدر دروازہ کی طرف دوڑے۔سب اچنپنھے میں تھے کہ شاہ صاحب کو ہمارے مکان کا پتہ کیسے چلا۔جب کہ ہم نے ان سے اسکا تذکره تک نہیں کیا تھا۔ بلکہ جہاں تک میری یادداشت کا تعلق ہے ان کو پتا جی کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔ یہ بھی ان کی عظیم روحانی شخصیت کا ایک عجوبہ ہی تو تھا! بہرحال انھیں پتا جی کےکرته میں بٹھایا گیا۔ وہ پتا جی کے سر پر ہاتھ پھیرنے لے اور ان کی مزاج پر سی بھی کرتے جارہے تھے۔ بتا جی تو گویا فرمانبردار بچے کی طرح خاموش کرسی پر گردن جھکائے بیٹھے تھے۔چنڈ لمحوں تک سارے کمرے میں پر اسرار سکوت طاری رہا۔ آخر شاہ صاحب کی آواز نے اس سکوت کو توڑابیٹی،میں اپنے مریض کی مزاج پرسی کے لئے آیا ہوں۔ماتا جی نے پتا جی کی تندرستی کے بابت بتایا، وہ زیر لب مسکرائے اور کہنے لگے۔خدا کا شکر ہے تو میری بیٹی ہے، اور تیری حفاظت اورسلامتی میرے لئے باعث مسرت ہے، آج میں اس کا بھی انتظام کئے دیتا ہوں۔ خدا بڑا کارساز ہے۔اور میں سوچ رہا تھا ماتا جی ان سے دریافت کیوں نہیں کرتیں کہ انھیں ہمارے مکان کا پتہ کیسے ملا۔مگر دونوں ساکت بےٹں شاہ صاحب کو عقیدت مندانہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ شاہ صاحب اٹھے اور صدر دروازہ کا رخ کیا،ہم ان کی پیروی میں دروازہ تک پہنچے، انھوں نے دروازدکی دہیلز کے قریب لوہے کی ایک میخ فرش میں ٹھوک دی،پھر پیچھلے دروازہ کی دہلیز کے پہلو میں دوسری میخ ٹویک دی، ہم سب مجسمئہ حیرت بنے اس عجیب وغریب کاروائی کو دیکھ رہے تھے۔اس طرح انھوں نے چاروں سمت میں میخیں گاڑدیں اور کچھ کہے بنا چل دئیے۔ہم اس قدرششدر تھے کہ انہیں روک کر بھی نہ سکے چند لمحوں کے بعد ہم اپنے ہوش میں آئے جیسے ہم پر کسی افسوں کا اثر طاری تھا۔ہمارا ذہن اب تک ان کی پراسرار آمد پر سوچ رہا تھا۔ اور ان کا جملہ بار بار ہمارے کانوں میں گونج رہا تھا۔ آخر وہ کس بلا سے ہمیں نجات دلانے آئے تھے۔ کون سی مصیبت ہمارے سروں پر منڈلا رہی تھی۔آپ مشکل سے یقین کریں گے کہ اس واقعہ کے صرف پانچویں دن کوئٹہ تاریخ کے اس ہلاکت خیز بھونچال کا شکار ہوا جس نے سارے شہرکو تہ و بالا کر ڈالا۔ ہزاروں جانیں تلف ہوئیں، پورا بابو محلہ تباہ وبرباد ہوگیا ، ہمارے مکان کے سوا تمام مکانات مسمار ہو چکے تھے۔ ہلاک ہونے والوں کی چیخ پکار آہ وفغاں بڑی بڑی عمارتوں کے گرنے کی دلدوز اور ہولناک آواز فضا میں گونج کر قیامت کا منظر پیش کر رہی تھی، چشم زدن میں زلزلہ کے عتاب نے ساری بستی اجاڑ دی، لوگ بدحواسی کے عالم میں بھاگ رہے تھے، موت ان کے تعاقب میں تھی۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ ساری دنیا پر قدرت کا عذاب نازل ہوا ہے، ہمارا گھر مصیبت زدہ لوگوں کا ملجاد مادی بنا ہوا تھا۔ جو لوگ ہمارے گھرمیں جمع تھے ان کے چہروں پر خوف وہراس کی گہری علامتیں واضح تھیں۔عقل محو حیرت تھی کہ کون سی غیبی طاقت نے ہمارے مکان کو اس ناگہانی تباہی سے محفوظ کر رکھا تھا؟ ہمارے مکان کی سلامتی ہی دراصل وہ انہونی بات تھی جس پر ہم شش و پنج میں تھے، سب ہی زلزلہ کی تباہی اور سراسیمگی کو کچھ دیر کے لئے بھول کر اس حیرت انگیز زندہ کرامت کے بات گفتگو کر رہے تھے ۔ اور اپنی حیرانگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔اور اب میں سوچتا ہوں تو انسان کی مادی معراج ترقی اور سائنسی ذہن کی بالیدگی اور نچتگی انسان میں مضمر روحانی قوت کے سامنے بیج اور مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے ۔ خدا معلوم جں نے ہمیں آنے والی مصیبت سے چوکنا کرتے ہوئے ہماری سلامتی کا وہ ناقابل یقین انتظام کیا جسے شاید ہی کوئی ذی شعور تسلیم کرے گا، وہ کون تھا؟ کیا وہ انسان ہی تھا؟ ذہین پریاسن ہےعقل گم ہے کہ اس پراسرار فقیر کی حقیقت کیا ہے؟سارے واقعہ کا علم ہونے کے بعد لوگ اس فقیر کو کھوجتے ہوئے اس غار تک پہنچے،مگر وہاں کیا تھا؟ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے صدیوں سے وہ غار ویران پڑا ہوا تھا۔۔۔!!

مصنف :انور احمد سو پاروی

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here