بلا عنوان

0
292
urdu-story
- Advertisement -

میں اپنا نام نہیں جانتا مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ میرا کوئی نام رکھا بھی گیا تھا یا نہیں ۔میری عمر کتنی ہے ؟ میں یہ بھی نہیں جانتا۔ کیونکہ میں اس دنیا میں ایک اتفاقی حادثے کی طرح وارد ہوا، مجھے ایک جگہ سے اٹھایا گیا اور بے خیالی کے عالم میں دوسری جگہ پھینک دیاگیا۔ جس طرح کوئی راہ گیر پتھرکواٹھا کے کسی مقصد کے بغیر پھینک دیتا ہے مجھے اپنے ماں باپ کا بھی حال معلوم نہیں ہیں اس دنیا میں ایک بھونی بسری پسماندہ چیز ہوں۔ اپنے ایسے کروڑوں کی طرح جن میں زندگی بسر کرنے کے لئے تقدیر نے مجھے پھینک دیا ہے۔ میری رنگت بھوری ہے ۔ آنکھیں اور بال سیاه ناک چپٹی قدچھوٹا۔میں نے بھی دوسروں کی طرح بچپن کا زمانہ دیکھا ہے لیکن میرا بچپن کئی باتوں میں ان کے بچپن سے الگ تھلگ تھا۔ کسی نے مجھ سے محبت اور شفقت کا سلوک نہیں کیا ۔کسی نے ٹھٹھرے ہوئے جسم کو حرارت نہیں پہونچائی۔ مجھے تسلی نہیں دی ۔اپنی زندگی کے ابتدائی زمانے کے متعلق مجھے بھوک پیاس سردی اور تلخ کامی کے سوا کچھ یاد نہیں ۔مجھے وقت کا کوئی صحیح اندازه نہیں۔ ہاں البتہ اتنا یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک لانبے قد کا دبلا پتلا بڈھا جس کے چہرے پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں، چلتے چلتے میرے سامنے رک گیا۔ تمہاری لکھنے پڑھنے کی عمر ہے تعلیم ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ اس نے یہ باتیں آہستہ آہستہ کہیں ۔ اس کی آواز میں محبت کا لوچ اورگدازتھا اوراس کا چہرہ بہت سنجیدہ معلوم ہوتا تھا۔ مجھ پر اس کی باتوں کا ایسا اثر ہوا کہ میں لمحہ بھر کے لئے اپنی تکلیفوں کو بھول گیا اور تعلیم حاصل کرنے کے ارادے سے چل پڑا۔جگہ جگہ عمارتیں کھڑی تھیں ۔ ان میں بعض تو محلوں جیسی تھیں بعض کچھ ایسی اچھی نہیں تھیں ۔ لوگوں سے معلوم ہوا کہ ان عمارتوں کا نام اسکول ہے ۔ اور یہاں تعلیم دیجاتی ہے میرے کانوں میں بڈھے کے الفاظ ابھی تک گونج رہے تھے چنانچہ میں ایک اسکول میں گھس گیا۔۔نکل جاؤ، یہ جگہ تم ایسوں کے لئے نہیں۔ میں نے تمام چھوٹی بڑی عمارتوں کو دیکھ ڈالا۔ہر جگہ مجھ سے یہی کہا گیا۔

یہ الفاظ تازیانہ سے زیادہ سخت اور خوفناک تھے خوف اور اذیت کے بارے میں نے سرجھکا لیا ۔ میرے کانوں میں اسکول کے طلبہ کی ہنسی گونج رہی تھی اور میں سوچنے کی کوشش کر رہا تھا۔مجھے بار بارخیال آتا تھا کیا میں سچ مچ انسان ہوں میں اس بات پر جتنا غور کرتا تھا۔ میرے شبہات قوی ہوتے جاتے تھے۔ میں نے اس سوال کو اپنے ذہن سے نکال دینا چاہا، لیکن ایک طنزآمیز صدا میرے کانوں میں کہہ رہی تھی۔ کیا تمہارانسان ہونا ممکن ہے ؟ میں اکیلا تھا۔ افسرده مضمحل اورمجبور ۔دنیا مجھ کو بھلا چکی تھی۔آخرکار میں نے ایک ٹوٹے پھوٹے مندر میں پناہ لی جہاں میں رات کو پڑا رہا کرتا تھا۔ میں آج اس مندر کے دیوتا سے یہ بھید پوچھنا چاہتا تھا۔ کیونکہ دیوتا سب کچھ جانتا ہے مجھے اس سے اس سوال کا جواب مل جائے گا۔دیوتا کے سامنے جو پردہ لٹکا رہتا تھا۔ وہ پھاڑ کر پھینک دیا گیا تھا۔ اس کی ننگی مورت جس سے فرسودگی کے آشمارنظرآ رہے تھےتنہابیٹھی تھی۔اس پر گرد پڑی تھی اوراس کا ایک بازو غائب تھا میں اس کے سامنے دوزانو ہوکردعا مانگنے لگا۔ اے قدرت والے دیوتا۔ اس پہیلی کو بوجھنے میں میری کیا میری مدد کرکیا میں سچ مچ انسان ہوں۔؟ديوتا خاموش تھا۔ اس کے گرد آلود منہ کو ذرا بھی حرکت نہیں ہوئی اس کی آنکھوں میں جواب کی چمک تک نہیں تھی اب میں نے عقلی دلائل کا سہارالیا۔ مجھ ایسی شے کا انسانوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے وہ مجھ سے بالکل مختلف ہیں حرارت آرام۔انسانی احساسات یہ سب چیزوں انسانوں کے مخصوص ہیں اور ان میں سے کوئی چیز مجھے نہیں دی گئی۔ میں کچھی چیزوں پر جنہیں حقیقی انسان پھینک دیتے ہیں۔ گزارہ کرنے کے لیے ہوں ۔ اگر میرا شما را نسانوں میں کرلیا جائے تو یہ انسانیت کی طوہین ہوگی۔ واقعی میں انسانوں کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں رکھتا پھر مجھے خیال آیا کہ میں انسان نہ سہی تا ہم مجھے دنیا میں کسی نہ کسی مقصد کے لئے بھیجا گیا ہوگا۔ میرے وجود کا کوئی نہ کوئی ضرور ہے جب ہر چیز خریدی اورفروخت کی جاسکتی ہے تو میں کیوں نہیں فروخت کیا جاسکتا۔ میں نے اپنی پیٹھ پر کاغذ لگایا جس پر قیمت لکھی ہوئی تھی اپنے آپ کو بیچنے کے لئے منڈی جا پہونچا پہلے کچھ دیر ایک جگہ کھڑا رہا پھر دوسری جاکھڑا ہوا میں نے لوگوں کو اپنا سارا جسم دکھایا اور چلا چلا کے کہنے لگاخریدلو ۔ اگر کوئی شخص مجھے خریدلے تو میں اس کے پس خود پر قناعت کروں گا ۔

اورساری عمر کتے کی طرح اس کے ساتھ رہو گامیں منڈی میں دن بھر رہا کبھی یہاں بھی وہاں لیکن کوئی شخص مجھے خریدنے پر آمادہ نہیں ہوا ۔ ہاں چھوٹے بچےضرور مجھے چھڑتے اورتنگ کرتے رہے۔میں جب مٹی سے لوٹا ، تو مجھ پر بھوک اور تھکان کا غلبہ تھا۔ راستے میں مجھے خشک روٹی کا ایک ٹکرا جو مٹی میں لت پت تھا نظرآیا اور میں نے اسے اٹھاکے کھانا شروع کردیا۔اس وقت مجھے خیال آیا کہ میں ایسی چیزیں کھاسکتا ہوں توضرور ہے کہ میر امعدہ کتے کے معدہ جیسےہو۔ویران مندر میں ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا میرے سوا وہاں کوئی نہ تھا جب میں لیٹ گیا تو مجھے دیرتک یہ خیال ستاتا رہا کہ اس دنیا میں میراکوئی مصرف نہیں۔میں جو کچھ بھی ہوں اتنا ظاہر ہے کہ انسانوں کے نزدیک میری کوئی قیمت نہیں ۔ میں زاروقطار رونے لگا لیکن آنسووں کا بیش قیمت عطیہ یعنی آنسوبھی مجھے کوئی تسکین نہ دے سکے پھربھی میں برابر روتا رہا۔ کیونکہ اس کے سوا میرے لئے اور کوئی کام نہیں تھا میں اپنے آپ کو آنسوؤں کے سوا اور کچھ نہیں دے سکتا تھا اورمیں صرف مندرمیں ہی نہیں روتا تھا بلکہ جب میں مندر سے باہر نکل کر ایک دولت مند آدمی کے دروازہ پر جا کھڑا ہوا توبھی میری آنکھوں سے برابر آنسو بہہ رہے تھے۔میں اس عالیشان مکان کے دروازے کے پیچھے چھپ کرکھڑاتھا میں بھوکا تھا۔ میرا سارا جسم مارے سردی کے ٹھٹھرا ہواتھا۔ میں اونچی آواز سے رورہا تھا تاکہ پیٹ كی تکلیف بھول جاؤں ۔ ایک نوجوان جو غیرملکی لباس پہنے ہوئے تھا۔ میرے پاس سے گزر کر مکان کے اند رچلا گیا لیکن اس نے بھی میری طرف توجہ نہیں کی ۔ تھوڑی دیرمیں ایک ادھیڑعمر کا آدمی گزرا لیکن اس نے بھی مجھے نہیں دیکھا۔ سڑک پر لوگ آجارہے تھے لیکن کسی نے میری طرف آنکھ اٹھا کے دیکھا تک نہیں۔سب سے آخر میں ایک لمبا تڑ نگا آدمی مکان سے نکلا۔ اس نے مجھے دیکھ لیا اور گالیاں دیتا ہوا میری طرف بڑھا مجھے ٹھوکرمارکرکہنے لگا۔چلے جاو یہ جگہ رونے کے لئے نہیں۔اب میرے آنسوؤں کا ذخیرہ ختم ہوچکا تھا۔ میں گھسٹتا اور رینگتاہوامندر میں پہونچا اور دیوتا کی ٹوٹی پھوٹی مورت کے سامنے دوزانو ہوگیا ۔ اس مورت کے سوا دنیا میں میرا کوئی دوست نہیں تھا۔قدرت والے دیوتا۔ میں انسان تو نہیں ہوں لیکن تقدیر مجھے یہاں لے آئی ہے اور مجھے بہر حال زندہ رہنا ہے۔ میں یتیم ہوں ۔ میں اپنے ماں باپ کو نہیں جانتا تاہم مجھے ایک غم خوارکی ضرورت ہے۔ اے فیاض اورعادل دیوتا مجھے اپنا بیٹا بنالے۔ میں نسل انسانی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ انسانی محبت میری قسمت میں نہیں۔دیوتا کے لبوں کو حرکت نہیں ہوئی۔ اس نے مجھے رد نہیں کیا ۔ اب ایک بازو والا یہ بت ۔ یہ فیاض اورعادل دیوتا میرا باپ تھا۔میں ہر روز بھیک مانگنے جاتا تھا اور جوگر اپڑا ملتا تھا اس سے اپنا پیٹ بھر لیتا تھا مگر جب میں گھر کو لوٹتا تومیرا دل مسرت و اطمینان کے ایک نئے احساس سے معمور ہوتا تھا۔ کیونکہ اب میں پہلے کی طرح بے کس نہیں تھا مندرکے دیوتا نے مجھے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ اس نے بھی زبان نہیں کھولی۔ اس نے مجھے کبھی تسلی نہیں دی ۔ مگر وہ مجھے چھوڑ کر بھی تو نہیں چلا گیا۔ میں جب آتا تھا اسے وہیں پاتا تھا۔وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا۔ اب میری عمراچھی خاصی ہوگئی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ میں انسان نہیں ہوں میں ہمیشہ اپنے آپ کو یقین دلاتا رہتاتھاکہ مجھے نسل انسان سے کوئی تعلق نہیں یہی وجہ ہے کہ میری زندگی اتنی عجیب ہے ۔تاہم مجھے اس بات کا احساس تھاکہ میرے اندر انسانوں کی سی خواہشات پیدا ہو رہی ہیں۔ میرا جی تازه غذا صاف ستھرے کپڑوں خوب صورت مکان اور گرم بستر کو چاہتا تھا لیکن جب یہ خیال آتا تو میں اپنے آپ سے کہتا تھا کہ تم ان چیزوں کا تصور کیسے کر سکتے ہو۔ یہ تو انسانوں کی خواہشات ہیں ، تاہم وہ تمام خوب صورت چیزیں جنہیں میں روز دکانوں میں دیکھتا تھا۔ مجھے بار بار یاد آتی تھیں ۔ اور ہاں عورتوں کی طرف بھی میرا دل بے اختیار کچ جاتا تھا۔ ان کا تبسم برق ریز تھا۔ ان کی ادائیں دل ربا تھیں لیکن میرا خیال تھا کہ انہیں چھوا جائے تو وہ ضرور پر حرارت بھی ہوں گی ۔ کیا آپ یقین کرسکتے ہیں کہ مجھ ایسی چیز کے دل میں اس قسم کی آرزو پیدا ہوسکتی ہے۔ میں انہیں چھونا، انہیں محسوس کرنا چاہتا تھا۔ لیکن جب میں ان کے قریب جاتا۔ مجھے دفعتا یاد آجاتا کہ میں ایک ایسی چیز ہوں جس کی اصلیت کسی کو بھی معلوم نہیں۔ اس خیال کے آتے ہی میں اس آرزو کو دل سے نکال دینا۔

ایک دن میں نے ایک عورت دیکھی۔ اس جیسی متناسب ملائم اور خوبصورت ٹانگیں میں نے کبھی نہیں دیکھی تھیں اس کے پاس ایک چھوٹا سا کتا بھی تھا۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے خیال آیا تمام حقوق انسانوں کے لئے ہی نہیں۔ کتے بھی بعض خاص خاص حقوق رکھتے ہیں،اس خیال نے مجھ میں یکایک ایسی جرات پیدا کر دی کہ میں ان ٹانگوں کو لپٹ جانے کے لئے بڑھا، لیکن کسی شخص نے مجھے پکڑ کر زمین پر گرادیا۔ وہ مجھے ٹھوکریں مارتا اورساتھ ساتھ کہتا جاتا تھا تم پاگل ہو کیا۔؟ ، مندرمیں آکر میں نے اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالا کہ میں کتے سے زیادہ ذلیل ہوں ۔ میرے باپ ،میرے دیوتا مجھے اصلی کتا بنا دے اس سپید چو ٹے سے کتے کی طرح، تاکہ میں انسانوں کی محبت اور آسائش میں حصہ لے سکوں۔

بھوری رنگت کالے بال،چپٹی ناک ۔ چھوناقد۔ بہت سے اصلی انسانوں کی طرح میرے حصے میں یہ چیزیں آئی تھیں لیکن میں نے دیکھا کہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن کی رنگت سفید ہے ۔ بال سنہری ستواں ناک لمباقد۔ یہ لوگ اس بے باکی سے قہقہے لگاتے لگاتے اور شورمچاتے گلی کوچوں میں سے گزرتے تھے گویا زندگی صرف ان کے لئے ہے۔ دوسرے لوگوں کو بھی اس بات کا احساس تھا وہ ان سے ہمیشہ دور دور رہتے تھے ۔ انہیں ان کے پاس سے گزرنے کی بھی جرات نہ ہوتی تھی ۔ اس طرح مجھے یہ نئی بات معلوم ہوئی کہ انسان دوگروہوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان دونوں سے اونچا درجہ رکھتے ہیں۔ میں ان اونچے درجے کے انسانوں کو اکثر د یکھتا تھا۔ ان میں کچھ ایسے تھے جو سفید ٹوپیاں سفید قمیصیں اورسفید پتلونیں پہنتے تھے۔ کبھی کبھی وہ لڑ بھی پڑتے تھے اور جب لڑتے تھے تو بھوری رنگت کے انسانوں کے سروں پر بوتلیں توڑی جاتی تھیں کبھی وہ رکشامیں بیٹھے نظر آتے تھے اور ان کے پہلو میں عورتیں بیٹھی ہوتی تھیں۔

- Advertisement -

سب لوگ ان کی عزت کرتے تھے۔ انہیں دیکھ کر راستے سے ہٹ جاتے تھے ۔ گویا فانی انسانوں میں ان کادرجہ سب سے اونچا تھا میں کبھی ان کے پاس نہیں پھٹکا۔ مجھے یقین تھا کہ مجھے اپنے قریب پاکر وہ ناراض ہوجائیں گے۔ لیکن ایک شام کو میں ایک دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا اپنے پاؤں کو جوکیچڑ میں لت پت اور خون آلود تھے مل رہا تھا۔ میں بہت تھکا ماندہ تھا اور مجھے بھوک بھی لگی ہوئی تھی کہ یکایک کچھ لوگ کہیں سے میرے سامنے آگئے۔ میں نے سراٹھا کے دیکھا تومیراکلیجہ دھک سے رہ گیا ۔ کیونکہ یہ انہیں اعلی نسل کے انسانوں میں سے تھے ۔ میں اب بھاگ بھی نہیں سکتا تھا اس لئے جہاں بیٹھا تھا وہی چپ چاپ بیٹھا رہا۔ مجھے دیکھ کر وہ چلا چلا کر کہنے لگے ۔ انہوں نے کئی دفعہ مجھے کتا کہا۔

جی ہاں۔ انہوں نے مجھے کتا کہا۔ میں جب رات کو مندر میں گیا تومیں نے دیوتا کا شکریہ ادا کیا۔ کیونکہ یہ اونچی درجے کے لوگ مجھے کتے سے زیا دہ ذلیل نہیں سمجھتے تھے ۔ اس نئے واقعہ نے میرے دل میں امید کی لہرسی پیدا کردی اگر میں کتا ہوں تو مجھے کتوں کے حقوق کیوں نہ ملیں مجھے وہ چھوٹا سا سپید کتا یادآ گیا۔پھر جب میں نے سڑک پر ایک خوبصورت عورت دیکھی تو میرا دل خوشی سے اچھلنے لگا۔ مجھے یاد آ گیا کہ اب میں گوری رنگت کے لوگوں کی نظروں میں کتا ہوں۔ چنانچہ میں نے اپنے حقوق سے فائدہ اٹھانے کا قطعی اراده کرلیا اور آگے بڑھ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ اس وقت مجھے اس بات کے سوا اور کچھ یاد نہیں تھا کہ اب میں مسلم طورپرکتا ہوں اور مجھے ٹانگوں سے لپٹنے کا پورا حق حاصل ہے مجھے پہلے شوروغل سنائی دیا۔ پھر مجھ پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش ہونے لگی۔ سیکڑوں ہاتھ مجھے کھنچ رہے تھے۔ لیکن میں نہ کچھ سن سکتا تھا۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں نے اپنے آپ کو ایک سرد اور تاریک تہ خانے میں پڑا پایا ۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ کہیں کوئی انسان آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ میرے جسم کا بند بند درد کر رہا تھا اور میں بڑی مشکل سے سانس لے سکتا تھا۔ میرا باپ وہ فیاض اورعادل دیوتا چپ چاپ اپنے مندر میں بیٹھا ہے ۔ اس پر منوں گرد پڑی ہوئی ہے لیکن میں اب کبھی اس ٹوٹے ہوئے بازو والی مورت سے کوئی التجا نہیں کروں گا۔

مصنف :باجن

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here