مدتیں گزریں شہر مدراس سے کو ئی ڈیڑھ سومیل مغرب میں خلیج بنگال کے ساحل پر ایک چھوٹی سی بستی آبادتھی جس کی آبادی مچھیروں پر مشتمل تھی۔ انہی مچھیروں میں ایک شخص عبداللہ نامی تھا عبداللہ کی عمر اس وقت پچاس ساٹھ سال لگ بھگ ہوگی۔ اس کے پانچ لڑکے تھے جو سب اپنے گھربار کے ہو چکے تھے۔ صرف دوغیرشادی شدہ لڑکے باپ کے ساتھ رہتے تھے۔ اب عبداللہ عمرکے اس حصے میں داخل ہو چکا تھا جہاں سے انسان سفرآخرت کی تیاری شروع کردیتا ہے چنانچہ عبداللہ اب سمندری زندگی کو خیر باد کہہ کر زیادہ تریاد خدا میں مصروف رہنے لگا تھا۔ فکر تھی تو صرف یہ کہ دوسال کے اندر اندر اپنے ان دونوں بچوں سے بھی غت حاصل کرلے تاکہ اس کے بعد اطمینان سے فریضئہ ادا کرسکے اس کے یہ دونوں لڑکے سارا دن بڑے بھائیوں کے ساتھ کھلے سمندر میں دور دور نکل جاتے رات گئے واپس آتے اور اپنے حصے کی مچھلیاں شہر جا کر فروخت کرتے۔ ان کا معمول تھا کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ صرف دونوں میں کوئی خلیج کی وسعتوں میں مچھلیاں کڑخنے کے لیے نکل جاتے۔ایک رات جب یہ دونوں بھائی کھلے سمندر میں جال پھینکنے میں مصروف تھے انہیں بہت دورگہرے سمندر میں ایک عجیب و غریب نیلے رنگ کی روشنی نظر آئی۔ ایسی روشنی انہوں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ پہلے پہل وہ دونوں اسے کوئی جہاز سمجھتےرہے لیکن جب انہیں احساس ہوا کہ روشنی مختلف زاویوں میں گھوم رہی ہے اور کبھی کبھار رجست لگا کر آن واحد میں کی کئی فرلانگ طے کرلیتی ہے تو وہ گھبرائے کہ ہونہ ہو یہ کوئی سمندری بلا ہے۔ اس رات کے بعد سے ہر دوسری تیسری رات یہ روشنی دورگہرے سمندر میں متواتر نظرآنے لگی عبداللہ کے لڑکے اوربستی کے دوسرے مچھیرے اس روشنی سے دور دور رہتے اور جب کبھی ان کے قریب دکھائی دیتی تو وہ فورا وہاں سے دور نکل جاتے ۔ رفتہ رفتہ وہ اس روشنی کے عادی ہوگئے۔ کیوں کہ سمندر کی یہ نیلی روشنی روز کا معمول بن چکی تھی جب قریب ہوتی تو یہ روشنی دہرے دائروں کی شکل میں نظر آتی اور جب دور ہوتی تو اس کی شکل بیضوی سی ہوجاتی ۔دیکھتے دیکھتے ڈیڑھ دو سال کا عرصہ گزر گیا۔ اس عرصہ میں عبداللہ نے اپنے ایک اور لڑکے کی بھی شادی کردی۔ اب صرف انیس سال شمسو باقی رہ گیا تھا اس کا خیال تھاکہ شمسو کی شادی کے بعد حج بیت اللہ پر روانہ ہو جائے۔ ایک روز شمسوحسب معمول رات کے وقت بستی والوں کے ساتھ شکار پر روانہ ہوا۔ اس روز موسم بھی خراب تھا تیز ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے ۔عبداللہ نے شمسو کو یہ کہہ کر روکنے کی کوشش کی کہ ۔۔بیٹا پتہ نہیں آج مجھے کیوں ہول آرہا ہے بہتر ہے تم آج نہ جاؤ۔۔
۔۔شمسو نے جواب دیا ابا!بھائی اپنی اپنی کشتیوں پر پہونچ کر میرا انتظار کر رہے ہوں گے موسم کا کیا ہے ابھی ٹھیک ہو جائے گا ۔۔یہ سن کر باپ نے جانے کی اجازت دے دی شمسو گھر سے سیدھا گھاٹ پر آیا۔ گھاٹ پربستی کے سب نوجوان اپنے اپنے جال سنبھالے کشیتوں پر موجود تھے شمسو کے پہنچتےہی کشتیاں روانہ ہوگئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سمندر میں دور دور پھیل گئیں شمسو کے خیال کے مطابق ہوا ٹھہرچکی تھی اور ماہی گیر جال پھینکتے پھینکتے بہت دور نکل چکے تھے یکایک انہیں وہی روشنی کشتیوں کے قریب آتی دکھائی دی۔ روشنی کا نظر آنا تھا کہ انہوں نے جلدی جلدی بادبان درست کرنے شروع کر دیئے اور واپسی کے اشارے کے طور پرکشتی کے مستولوں پر دستی قندیلیں بلند کر دیں، دوسرے بھائیوں نے دیکھا کہ قندیل کا اشارہ پاکر شمسو نے بھی اپنی کشتی کے مستول پر قندیل بلند کردی ہے۔ اس وقت شمسوکی کشتی ساتھیوں سے کوئی تین چار میل کے فاصلے پر تھی اور سمندر کی اس پراسرار نیلی روشنی سے قریبا دو فرلانگ کے فاصلے پرتھی ساتھی شمسوکی کشتی کے مستول پر قندیل دیکھ کر اس کے نزدیک آنے کا انتظار کرنے لگے تاکہ معمول کے مطابق قریب قریب ہوکر ایک ساتھ ساحل کی طرف روانہ ہو سکیں سب کی نظریں شمسوپرلگی ہوئی تھیں اور ان کا خیال تھا کہ شمسو یہ فاصلہ آدھے گھنٹے میں طے کرلے گا۔
ادھر جوں ہی شمسونے واپسی کا اشارہ پاکراپنی واپسی ظاہر کرنے کی غرض سے مستول پرقندیل روشن کی وہ پراسرا نیلی روشنی ایک جست لگا کر اس کی کشتی کے نزدیک پہونچ گیا ساتھیوں نے دیکھا کہ شمسونے اپنی کشتی کا رخ موڑ دیا ہے یقینا وہ اس پر اسرار روشنی کے تعاقب سے بچنا چاہتا ہے۔ مگر شمسوابھی اپنی کشتی کا رخ پھیر کے بمشکل کوئی ایک فرلاک ہی گیا ہو گا کہ وہ روشنی پھر جست کے ساتھ اس کے قریب ہوہی گیااور اس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ سمندر سے دواور نیلے گولے بلند ہوئے جن سے چکا چوند کردینے والی روشنی دور دور تک پھیل گئی اور پھر اچانک تاریکی چھاگئی۔ ساتھ ہی شمسوکی کشتی بھی غائب تھی نیلی روشنی کے سطح پر بلند ہوتے ہی میں نے اچھی طرح دیکھ لیا تھا ان کو شمسوکی کشتی صاف نظرآرہا تھا لیکن بعد میں کشتی کو نہ پا کر اس کے بھائی اور دوست وہ سب پریشان تھے سبھوں نے اپنی اپنی کشتی کا رخ اس جانب پھیر دیا۔ جہاں انہوں نے شمسوکی کشتی کودیکھا تھا جب وہ شمسو کی تلاش میں وہاں پہونچے تو دور دور تک نہ نیلی روشنی تھی اورنہ شمسوکی کشتی۔ یہ دیکھنے کے سب ادھرادھر بکھرگئے کہ شاید کشتی کے ڈوب جانےسے کہیں تیرتا ہوا مل جائے تو اسے اٹھالیں۔ لیکن باوجود وجستجو کے اس کا کہیں پتہ نہ چلا حتی کہ دن نکل آیا۔ اجالا پھیلنے کے بعد تھکے ہارے ماہی گیرشمسوکوروپیٹ کر ہو گئے۔
جب عبداللہ نے یہ خبرسنی توفرط غم سے بے ہوش ہو گیا ایک عرصے تک بستی میں شمسوکی جواں مردی کے تذکرے رہے اورہر شخص افسوس کرتا رہا۔ بعد کور فتہ رفتہ یہ غم لوگوں کے دلوں سے دور ہوتا گیا۔ اس کی موت کے بعد ماہی گیروں نے اپنا معمول بدل دیا تھا اوراب وہ بجائے رات کے دن کے اجالے میں مچھلیاں پکڑنے جاتے تھے ، مدت تک اسیطرح ہوتا رہا۔ رفتہ رفتہ اپنے پرانے طریقے برآ گئے اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ رات کی تاریکی میں جال پھینکنے کے لیے نکلنے لگے۔ کیوں کہ اب وہ نیلی روشنی انہیں دکھائی نہ دیتی تھی جس نے شمسو کو نگل لیا تھا۔ دیکھتے دیکھتے بارہ سال بیت گئے۔ اس عرصے میں بستی والے شمسو کو بھول چکے تھے اور اب یہ روح فرسا واقعہ قصے کہانی کی طرح یادرہ گیا تھا صرف۔ غم تھا تو عبداللہ کو دیکھنے سے یوں لگتا تھا جینے اس پر یہ واقعہ ابھی گزرا ہو۔ روتے روتے اس کی بینائی بھی کم ہوگئی تھی۔ ضعیف العمری کے با وجود اپنی کشتی اکثر اس مقام تک لے جاتا جہاں پر اس کا بدنصیب بیٹا گم ہوا تھا آخروہ اس غم میں بستر سے جالگا۔وہ کبھی کبھی اپنے بیٹوں سے کہتا کہ بیٹا! اگر وہ روشنی پھر دکھائی دے تو تم مجھے وہاں لے چلنا۔ لڑکے کہتے ابا آپ چل کر کیا کریں گے جبکہ آپ دونوں آنکھوں سے معذورہیں۔عبداللہ ان کی ہمت بلند کرتا بیٹا اس نیلی روشنی نے ہمارے خاندان کے دو خون کئے گئے ہیں۔عرصہ پیشتر اس نے تمہار ے چچا کو بھی اسی طرح نگل لیا تھا اور اب اس نے اس بڑھاپے میں مجھے جوان بیٹے کا غم دیا ہے ۔ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں میں نے اسے جوانی میں متعدد باردیکھا ہے اگر اب کی دفعہ وہ نظرآئے تو تم مجھے ضرور اس مقام تک لے چلنا میں اس سے اپنے شمسو کا بدلہ لوں گا۔لڑکے سمجھے کہ باپ بڑھاپے کی وجہ سے سٹھیا گیا ہے ہنس کر خاموش ہو رہتے عرصہ بعد ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ماہی گیروں کی کشتیاں رات کو معمول کے مطابق گھاٹ سے روانہ ہوئیں۔ مگر گھنٹہ بھربعد ہی واپس آلگیں۔ماہی گیر گھبرائے ہوئے واپس آئے تھے، انہوں نے بستی کے لوگوں کو بتایا کہ وہ سمندری بلا پھر خلیج کے اس علاقے میں آگئی ہے سب کا خیال تھا کہ شاید دوا یک روز میں وہ واپس چلی جائے گی لیکن پندره دن گزرنے پر بھی یہ نیلی روشنی سمندر میں بدستور نظر آتی رہی. ماہی گیراب رات کے وقت سمندر میں جانے سے گھبراتے تھے اب پھرپیٹ پالنے کی غرض سے مچھلی پکڑنے کا کام دن کے اجالے میں کیا جانے لگا۔ ان حالات کا علم جب عبداللہ کو ہوا تو اس نے اپنے لڑکوں سے اس نیلی روشن تک جانے کی خواہش ظاہرکی ۔ بیٹوں نے باپ کی بات کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ آپ تو دونوں آنکھوں سے معذور ہیں۔ اس نیلی روشنی کو کیوں کر دیکھ پائیں گے ۔
آخر کار عبداللہ نے اپنے بڑے بیٹے باشو کو طلب کیااور کہا کہ اگرتم میراکہا مانو تومیں سمندر کی اس پراسرار بلا کو پکڑ کر خلیج کو اس سے پاک کر سکتا ہوں۔۔ پھر کہنے لگا۔۔۔باشو! تجھے معلوم ہے کہ اس نیلی روشنی نے چالیس سال پہلے تیرے چچا کو بھی نگل لیا تھا۔ اس طرح اس نے ہمارے خاندان کے دوافراد کا خون کیا ہے اگر توہمارا ساتھ دے تو پھرمیں اپنے شمسو کے خون کا بدلہ اس سے لے لوں گا۔اس وقت پاشو کی عمربھی پچاس یاساٹھ کے لگ بھگ تھی۔ اس نے باپ کی باتیں غور سے سنیں اور کہا کہ ابا میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اس سے کس طرح انتقام لو گے مجھے تو اس میں ہم دونوں کی ہلاکت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اس کے باوجود بھی اگر تم کہو تو میں تمہارا ساتھ دینے کو تیار ہوں؛ عبداللہ نے اپنے بیٹے سے اصرار کیا کہ وہ کھلے سمندر میں چلنے کی حامی بھرلے۔ اس نے اس بلا کوختم کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے اور اس بار وہ اس بلا کو ختم کرکے ہی دم لے گا۔ اپنے باپ کے اس اصراراوریقین کو دیکھ کر باشونے آمادگی ظاہر کردی اور عبداللہ نے اس مہم کی تیاریاں شروع کردیں۔ تین روز بعد ایک رات یہ دونوں بوڑھے باپ بیٹے اس نیلی روشنی سے شمسو کا انتقام لینے نکل کھڑے ہوئے جب کشتی میں سوار ہوئے تو بستی کے سارے افراد انھیں دیکھنے کے لئے گھاٹ پر موجود تھے اور ان دونوں کے اس اقدام پر حیران تھے۔ اس لئے کہ ان کے پاس اس سمندری بلا سے مقابلے کا جملہ سامان ایک چھوٹی سی لالٹین ایک بڑے سے مٹی کے مٹکے اورتیل میں گولی بھگوئى ہوئی مشعل کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس مختصر سے سامان کے ساتھ یہ دونوں بستی والوں کے نعروں کے درمیان روانہ ہوئے۔اس وقت عبداللہ بہت خوش تھا بستی والوں نے اس کے چہرے پر خوشی کے آثار بارہ سال بعد دیکھے تھے۔
عبداللہ نے باشو کو سختی سے ہدایت کی تم قندیل کوکشتی میں اس طرح چھپا دو کہ اس کی روشنی باہر نہ آنے پائے۔ جب ہم اس روشنی سے دوتین میل کے فاصلے پر رہ جائیں تو تم کشتی کو روک کر مجھے بتانا کہ وہ کس سمت ہے ۔جب یہ لوگ گھاٹ سے چلے تو ہوا تیز تھی۔ بادبان کا کھلنا تھا کہ کشتی فراٹے بھرتی ہوئی چل دی کوئی گھنٹے بھر بعد یہ لوگ سمندر میں اس جگہ پہونچ گئے جہاں نیلی روشنی کامسلن کا تھا باشونے باپ کو بتایا کہ اب وہ نیلی روشنی کشتی کے عین سامنے کوئی تین چار میل کی دوری پر نظر آرہی ہے۔عبداللہ نے ہدایت کی تم کشتی کو ساحل کی طرف موڑ لو؟باشو نے اپنے بوڑھے باپ کی وعجیب ہدایت پرعمل کیا۔ اور جلدی کشتی کارخ پھیر لیا۔ عبداللہ کے کہنے پرکہ کیا اس روشنی میں کوئی حرکت پیدا ہورہی ہے؟ بیٹے نے جواب دیا: ہاں مگر بہت معمولی سی روشنی کبھی کبھی دائیں بائیں گھومتی ہے۔ یہ سن کرعبداللہ نے اپنے ہاتھ میں دبی ہوئی مشعل روشن کرادی اور اپنا ہاتھ بلند کر کے اس سمندری بلا کو دکھانے لگا،اورکہا ۔۔باشو اگر اس میں کوئی حرکت ہو تو مجھے فورا بتانا۔جونہی مشعل روشن ہوئی سمندری بلانے اسکی جانب جست لگائی۔پھر دوتین جست لگا کر کشتی کے قریب پہنچ گئی۔ باشوکے بتانے پر عبداللہ نے مشعل کو فورا مٹکے میں چھپا دیا۔ اندھیرا ہوجانے پر وہ پراسرار روشنی وہیں ٹھہرگئی ۔عبداللہ نے بیٹے کو کشتی ساحل کی طرف لے جانے کی ہدایت کی اورکہا کہ جب ۳ میل کا فاصلہ طے ہوجائے تو اسے بتایا جائے تیں میل جانے کے بعد عبداللہ نے پھر سے مشعل روشن کی ، اسے دیکھ کروه بلا جست لگا کر قریب آگئی جب وہ ایک فرلانگ پررہ گئی تو عبداللہ نے مشعل کو بجھا کر اندھیرا کر دیا۔ اس طرح آنکھ مچولی کرتے وہ دونوں اسے بیس میل تک لے آئے یہاں سے دو فرلانگ بعد ساحل شروع ہوجاتا تھا۔عبداللہ اوراس کا بیٹا ساحل پر پہونچ کر مٹکے اور مشعل کو کوئی پچاس قدم ےتک لے آئے پھر یہاں سےمشعل روشن کر کے دکھانے لگے۔ اب وہ پراسرار سمندری روشنی بھیانک آواز کے ساتھ ساحل پر آگری۔اس کا خشکی پرگرنا تھا کہ عبداللہ نے خوشی کا نعرہ بلندکیا۔ با شو باپ کی اس عقلمندی پر حیران تھا۔ اندھیرے میں اسے قریب جانے کی ہمت نہ ہوئی اس نے دورہی سےروشنی کے دو بڑے بڑے گولے دیکھ کر بستی کی سمت بھاگ جانے کی کوشش کی توعبداللہ نے سے روکا اور کہا۔ میں بھی تمہارے ماتھ آتا ہوں۔
یہ واقعہ بستی سے بہت دور ایک ویران مقام پر پیش آیا تھا۔ جب یہ لوگ بستی میں واپس آئے تو صبح کے آثار نمودار ہو چکے تھے۔ صبح بستی کی ساری آبادی باشو کی رہنمائی میں اس جگہ پر جمع ہوگی جہاں وہ حیرت انگیز سمندری بلا پڑی ہوئی تھی۔ جب وہ لوگ اس کے قریب گئے تو پتہ چلا کہ وہ ایک غیر معمولی جسامت کی دیوقامت مچھلی ہے، اور وہ پراسرارنیلی روشنی اس کی آنکھوں سے پھوٹ رہی ہے۔اس بڑی مچھلی کی جسامت کا اندازہ اس سے لگایا۔ جاسکتا ہے کہ جب ماہی گیروں کی اس بستی کوشہرکا درجہ حاصل ہوا تو بندرگاہ کو شہر سے ملانے والے راستے پر اس کی آنکھ کی کی ہڈی کو کمان کی شکل میں نصب کر دیاگیا تھا ،جس میں سے ہاتھی معماری کے آسانی سے گزرسکتا تھا۔جب موٹروں کا دور شروع ہوا توبھاری ٹرک آسانی سے آجا سکتے تھے۔ افسوس! عرصہ ہوا ہڈی کی یہ عظیم الجثہ کمان بوسیدہ ہوکر ٹوٹ گئی۔ لیکن آج بھی شہر مسولی پٹم( مچھلی بندر) اس عظیم مچھلی کی یادگار کے طور پرموجود ہے ۔کہتے ہیں، اس شہرکا نام اسی مچھلی کی وجہ سے مسولی پٹم پڑا تھا۔