جب یہ دعوے تھے کہ ہر دکھ کا مداوا ہو گئے
کس لیے تم باعث خون تمنا ہو گئے
شوق کا انجام نکلا حسرت آغاز شوق
راز بن جانے سے پہلے راز افشا ہو گئے
اک نگاہ آشنا کا آسرا جاتا رہا
آج ہم تنہائیوں میں اور تنہا ہو گئے
تیرا ملنا اور بچھڑنا کیا کہیں کس سے کہیں
ایک جان ناتواں پر ظلم کیا کیا ہو گئے
شاعر:ابو محمد سحر