کہانی کی کہانی:یہ کہانی ہمارے سامنے ہندوستانی معاشرے میں ذات پات کے مسخ شدہ چہرے کو پیش کرتی ہے۔ شیریں ایک بہت خوبصورت پارسی لڑکی ہے، جس کا ایک امیر جوہری کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ شیریں کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور تھیں۔ لیکن سچ یہ تھا کہ اس کا اس جوہری کے ساتھ ایک سال سے تعلق ہے۔ جوہری نے شیریں سے شادی نہ کرکے اپنی ہی برادری کی لڑکی سے شادی کی تھی۔
میجر رشید کا گول منگول چہرہ مسکرایا۔ سانولے موٹے ہونٹوں سے بڑے بڑے مگر ہموار دانت نمودار ہوئے۔ دونوں گالوں میں گڑھے پڑگئے۔ اس نے اپنے بش شرٹ کے کپڑے کا بلٹ ڈھیلا کیا اور اپنے بچپن کے دوست امجد حسین پر اپنی چوٹ کا اثر دیکھنے لگا۔ دوسرے لمحے مسکراہٹ کی جگہ ایک اس قسم کی نیم سنجیدگی نے لے لی۔ جس میں مذاق اور شباب کی حسن سنجی برابر کی شریک ہوتی ہے۔
’’امجد یار تم اس مرتبہ بمبئی آئے نہیں۔ وہاں ایک لڑکی تھی شیریں۔۔۔‘‘
امجد نے اس کی طرف بات کاٹنے کے لیے دیکھا۔ امجد حسین جس کے لیے زندگی میں محض دو قدریں تھیں، کتابیں اور عورتیں۔ ایک شوق نے اس کی بصارت کم کردی تھی اور دوسرے شوق نے بصیرت اور اکثر دونوں کی حد تک اس کی مطالعے کی سطحیت چھپائے نہ چھپتی۔ بات کاٹ کے اس نے کہا، ’’کون شیریں۔ وہی پارسی لڑکی جو قلابے کے بس ٹرمینس کے پاس رہتی ہے۔‘‘
’’نہیں یار وہ نہیں، یہ مسلمان ہے۔ شیریں نیاز بھائی۔ کیا بتاؤں یار کیا لڑکی ہے۔ میری شادی نہیں ہوئی ہوتی تو میں اس سے شادی کر لیتا۔ کیا جسم، کیا آنکھیں۔ اس کا رنگ، انداز۔۔۔‘‘ اور میجر کے چہرے پر کچھ وہ کیفیت نمودار ہوئی جو کسی مشاعرے میں کسی صاحب دل پر کوئی چبھتا ہوا شعر سن کر طاری ہوتی ہے۔
’’تم اس سے ملے کہاں؟‘‘
’’ریس کورس پر، پھر نذیر کے ساتھ۔ وہ نذیر کی بڑی دوست ہے۔‘‘
’’یار نذیر کی دوست تو وہ پارسی لڑکی ہے۔ وہی شیریں جو قلابے میں۔۔۔‘‘
’’نہیں امجد میں اس پارسی لڑکی کو بھی جانتا ہوں۔ وہی نا جس کی ذرا ذرا سی مونچھیں بھی ہیں۔ مگر نہیں یار وہ تو سانولی ہے۔ ڈھل بھی چکی ہے، کوئی پینتیس سال کی ہوگی۔ وہ نہیں جی۔ یہ شیریں تو اور ہی چیز ہے۔ یار بمبئی میں اس سیزن میں اس سے اچھی لڑکی تو میں نے نہیں دیکھی۔ اگر میری شادی نہیں ہوئی ہوتی تو میں اس سے ضرور شادی کر لیتا۔‘‘
امجد نے میجر رشید کو آہستہ آہستہ خیالات میں کھوتے دیکھا۔ اس کا چہرہ بحرالکاہل کے کسی نامعلوم حصے میں ناممکن جہاز کی طرح نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا اور میجر رشید اس وقت دراصل اپنی ساری موجودہ زندگی پر لعنت بھیج رہا تھا۔ اس کی بیوی نزہت بی بی، واہ کیا نام ہے۔ صورت شادی کے وقت اچھی خاصی تھی۔ مگر کہاں وہ اور کہاں شیریں۔ میکس فیکٹر کا اعجاز سہی۔ مگرخدا میکس فیکٹر کو زندہ رکھے اور اب تو نزہت بی بی کی واحد مصروفیت اس کی اپنی ماں سے بارہ گھنٹے کی لڑائی تھی اور پھر اس کی اپنی بےبی آسٹن۔ خدا کی لعنت اس بےبی آسٹن پر۔ معلوم ہوتا ہے صندوق میں بیٹھے چلے جا رہے ہیں۔ کسی دن تو فورڈ دی ایٹ یا شورلٹ کا خواب پورا ہوگا۔ واہ کیا قسمت ہے۔ نہ شیریں جیسی خوبصورت۔ میکس فیکٹر، خوبصورت بیوی ملی نہ خوبصورت موٹر۔ یارو ساری زندگی بے بی آسٹن ہی میں گزرگئی۔ تاج محل، ممتاز محل کو دور ہی سے دیکھتے رہ گئے۔
میجر نذیر کے ساتھ امجد حسین نپین سی روڈ پتیت ہال کے قریب کھڑا بس کا انتظار کر رہا تھا۔ پندرہ منٹ گذرے، آدھا گھنٹہ ہوا اور میجر نذیر نے پینتالیسویں مرتبہ اپنے پتلون کی کریز ٹھیک کی۔ حیدرآباد میں یونیفارم کی پابندی تھی۔ پوپ اور بریڈلے اور آسٹن انڈ آف ریجنٹ سٹریٹ کے سلے ہوئے تمام گرم سوٹوں میں کیڑ لگی جا رہی تھی۔ لیڈی فرامرزا سے ٹیلرز ماڈل یا مانی کون کہتی ہے کہتی رہے۔ مگر میجر نذیر کو درحقیقت کپڑوں کا شوق تھا۔ نیا مکان بنواچکنے کے بعد ذرا تنگ دستی کےعالم میں اس نے کچھ عرصے کے لیے اپنے شوفر کو برطرف کر دیا تھا۔ لیکن کپڑے پہنانے والے نوکر کو نہیں۔ میجر نذیر کے سر کے سیاہ بال برل کریم سے ہمیشہ چمکتے رہتے۔ چھوٹی چھوٹی مونچھیں دونوں طرف بڑی فیشن ایبل ٹیڑھی سی تراش کے ساتھ کٹی ہوئی تھیں۔ جوتے کاتلا اور ایڑی ذرااونچی تھی تاکہ قد اونچا معلوم ہو۔ پستہ ہونا معاشرہ میں اچھا نہیں معلوم ہوتا تھا۔
’’یہ بی ون لائن کی بسیں بمبئی بھر میں سب سے زیادہ بے قاعدہ ہیں۔‘‘ اس نے امجد حسین سےمخاطب ہوکے کہنا شروع کیا اور پھر دفعتاً ایک سنہری بالوں والی اجنبی لڑکی سے خطاب کرکے اس نے جملہ پورا کیا، ’’کبھی کبھی تو ایک ایک گھنٹہ انتظار کے بعد بھی بس نہیں ملتی اور کبھی یکے بعد دیگرے بسوں کی قطار لگ جاتی ہے۔‘‘
سنہری بالوں والی لڑکی مسکرائی مگر کوئی جواب نہیں دیا اور سڑک کی دوسری جانب دیکھنے لگی۔
’’یہ کون ہے؟‘‘ کتابوں اور عورتوں کے دلدادہ امجد حسین نے اردو میں آہستہ سے سوال کیا۔
’’یہ؟‘‘ میجر نذیر نے مسکراکے آتی ہوئی بس کی طرف دیکھا۔ ’’خیر اتنی دیر کی زحمت کے بعد۔ معاف کرنا۔ یہ لڑکی؟ میں خود نہیں جانتا۔ اسےکہیں دیکھا ضرور ہے، غالباً فرانسیسی قنصل خانےمیں۔ وہاں شاید ٹائپسٹ ہوگی اور کیا جی۔‘‘
اتنے میں بس آہی گئی۔ امجد کاقاعدہ تھا کہ بس میں وہ ہمیشہ کسی لڑکی کے بازو میں بیٹھنے کی کوشش کیا کرتا۔ اکثر وہ ہارکس روڈ سے فلورا فونٹین، فلورا فونٹین سے سی لائن پر میرین ڈرائیور محض اسی لیے چکر لگایا کرتا تھا کہ کسی اچھی سی لڑکی کا ساتھ ہو جائے۔ اس وقت بات چیت کرنے کی کوشش کی جائے۔ مگر اس مرتبہ میجر نذیر کی رعایت نزہت بی بی۔ واہ کریمٹ پر قیام کیا جس پر نذیر پہلے سے بیٹھ چکا تھا اور کھڑکی سے باہر کی گجراتی ساڑیوں کی بہار دیکھتا رہا۔
اس کے تین چار دن بعد کا ذکر ہے۔ جہاج محل (دراصل جہاز محل۔ لیکن یہ سورت کے کسی خوجے کی اصلاح تھی) جہاج محل میں شام کاٹے نہیں کٹتی تھی۔ بس تیسرے مالے کی کھڑکی سے بیٹھے سمندر کو دیکھتے رہیے۔ یہ کچھ پتھریلا حصہ تھا جس کے آگے نیچا سا بند باندھ دیا گیا تھا۔ مد کے عالم میں سمندر کی موجیں اس بند کو پھاند کر آتی رہتیں۔ یہاں تک کہ بند کے اندر کے حصے میں سمندر کی سطح کے برابر پانی آجاتا تھا۔ پھر جب جزر شروع ہوتا تو یہ پانی معلوم نہیں کس ترکیب سےنکل جاتا۔ پتھریلی زمین مٹیالی مٹیالی کالی کالی باقی رہ جاتی اور شام کے وقت میجر نذیر اور امجد حسین دیکھتے رہتے کہ کووں کے غول کے غول! اس پتھریلی چٹان میں زمین پر شور مچاتے منڈلاتے رہتے کیوں کہ سمندر ہٹنے سے پہلے شاید یہاں مچھلیاں یا ان کووں کی اور کسی قسم کی غذا چھوڑ جاتا۔
میجر نذیر نے کہا، ’’شام کا وقت یہیں بیٹھے بیٹھے گزارنا بالکل ناقابل برداشت ہے۔‘‘
’’تو پھر چلو چلیں؟‘‘
’’کہاں۔‘‘
’’ہاربر پیریسین ڈائیری، کہیں تھوڑی دیر بیٹھ کے چلے آئیں۔‘‘
’’ہاربر بار جانے کے معنی وہسکی اور وہ بھی تو کمبخت اسکاچ نہیں دیتے۔۔۔ اور سوڈا یا اور کسی چیز کے پیچھے دس بارہ روپے پھینکنے کے تھے۔‘‘
’’لوپ‘‘ اچھے کپڑوں کے پرستار میجر نذیر نے سرہلا کے کہا۔
’’تو پھر ولنگڈن چلو۔‘‘
’’اس روز گئے تھے اور ہم تم اکیلے الو کی طرح ایک میز پر بیٹھے سنبوسے کھاتے اور کافی پیتے رہے اور سوائے اس باؤلے پارسی پسٹن جی کے کسی سےبات تک نہیں ہو سکی۔‘‘
اور میجر نذیر نے کپڑوں کی کریز پر ایک مطمئن نظر ڈال کے کہا، ’’گاڑی میں کتنا پٹرول ہوگا۔‘‘
’’کل چور تار سے ڈیڑھ گیلن لیا تھا۔ ایک آدھ گیلن پہلے کا ہوگا۔‘‘
’’تو چلو کسی لڑکی کو ساتھ لے کر ولنگڈن یا سی سی آئی چلیں۔ وہاں تھوڑی دیر بیٹھیں۔‘‘
’’ولنگڈن میں تو آج ناچ بھی ہوگا۔‘‘ امجد حسین نے کہا۔
’’آپ کی دعا سے خاکسار ذرا اچھا ہی ناچتا ہے۔‘‘ اور میجر نذیر نےپھر اپنے کپڑوں پر ایک نظر ڈالی۔
’’لیکن کس کو ساتھ لیا جائے؟‘‘
اور اس سوال کے ساتھ میجر نذیر نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی سیاہ کتاب نکالی جس پر سنہری حروف میں لکھا ہواتھا۔ ’’ٹیلیفون نمبرز‘‘۔ اس میں میجر صاحب نے اپنے ہر ملنے والے اور ملنے والی کا ٹیلیفون نمبر درج کر ڈالا تھا۔ جس زمانےمیں ان کی رجمنٹ بغداد میں تھی۔ اس زمانےمیں حبیبہ خرموش اور بہت سی یہودنوں کے پتے انھوں نے لکھ ڈالے تھے۔ اس کے سوا لاہور، سری نگر، کلکتہ، لکھنو، حیدرآباد، مسوری، بمبئی، پونا، مدراس، بنگلور، غرض ہر اس شہر میں جہاں ان کا کچھ عرصے کے لیے قیام رہا تھا۔ انھوں نے کارآمد ملاقاتیوں اور ان سے زیادہ لڑکیوں کے پتے درج کر لیے تھے۔
چنانچہ پہلے تو کوئینز روڈ پر کرینز کورٹ میں رہنے والی ایک ینگلو انڈین لڑکی سے انھوں نے ٹیلیفون ملایا۔ میجر رشید آکے ٹیلیفون کے پاس کھڑا ہوا۔ اس کی عادت تھی کہ جب نذیر یا امجد اپنی کسی دوست سے ٹیلیفون پر باتیں کرتے ہوتے تو وہ ضرور آ ٹپکتا۔ ان کی باتیں سنتا اور پھر بالکل بے تعلق ہوکر چل دیتا۔ ایک دن تو اس نے امجد حسین کو بےوقوف بنانے کی اچھی خاصی کامیاب کوشش کی تھی، نذیر علی الصباح ہوئی جہاز سے حیدرآباد جا رہے تھے۔ کسی ضروری کام سے ان کی طلبی ہوئی تھی۔ رشید انھیں پہنچانے جوہو ایروڈروم گیا۔ اسے معلوم تھا کہ امجد آٹھ سے پہلے سو کے نہیں اٹھتا۔ اس دن چوکیدار نے اسے سات بجے اٹھا دیا۔ ’’دھنی، ادھر ماہیم سے کوئی بائی تم سے بات کرنے مانگتا۔‘‘ اس وقت کون بائی ہوں گی اور وہ بھی ماہیم سے۔ امجد حسین کھڑبڑاکے اٹھا۔ ادھر سے ایک بھاری سی نیم زنانی آواز نے کہا، ’’میں سرلا بائی ہوں، ماہیم سے بول ری ہوں۔ میں مسٹر امجد حسین سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ آپ مسٹر امجد حسین ہیں، آپ نےمجھے پہچانا نہیں۔‘‘ ’’کون سرلا بائی۔‘‘ امجد حسین سر کھجانے لگا۔ ’’میرا آپ کابس پر ساتھ ہوا تھا۔ آپ نے مجھے اپنا ٹیلیفون نمبر دیا تھا۔ میں سرلا بائی ہوں ماہیم والی۔‘‘
’’سرلابائی سرلا بائی‘‘ امجد حسین سوچتا رہا اور سرلا بائی کی نیم زنانی آواز پھر آئی، ’’میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں، کہاں ملوں۔‘‘ امجد حسین کو اس نیم زنانی آواز میں میجر رشید کے لہجے اور دبی ہوئی ہنسی کی ذرا سی آہٹ معلوم ہوئی اور اس نے کہا، ’’کیوں بےرشید کیا جو ہو ایروڈروم سے بات کر رہا ہے۔‘‘ ادھر سے نیم زنانی آواز نے بڑی سنجیدگی سے کہا، ’’مسٹر حسین میں آپ کا مطلب نہیں سمجھی۔ میں آپ سے کہاں ملوں؟‘‘ امجد حسین نے جواب دیا۔ ’’تاج محل میں۔‘‘ آواز نے پھر کہا۔ ’’تاج محل میں کس جگہ؟ میں گیارہ بجے پام کورٹ میں آپ کا انتظار کروں گی۔‘‘ ’’پام کورٹ میں نہیں۔ تاج محل میں آفس کے پاس جہاں لفٹ ہے۔‘‘ لیکن زنانی آواز نے بڑے مصنوعی سریلے پن سے جواب دیا، ’’مسٹر امجد حسین، وہاں لفٹ کے پاس تو بہت سے لوگ آتے جاتے ہیں۔ وہاں آپ سے ملتے مجھے بڑی شرم آئےگی۔‘‘ یہ سرلابائی کون ہے؟ امجد حسین نے سوچنا شروع کیا اور طرح طرح کی سانولی سلونی نیم کامیاب سنیما ایکٹرسوں کی تصویریں اس کی نظروں کے سامنے گھومنے لگیں۔ ٹیلیفون والی آواز کانیم زنانہ پن ایک طرح کی مردانہ ہنسی میں تحلیل ہو گیا۔ لیکن نیم زنانہ آواز پھر نمودار ہوئی، ’’تو مسٹر امجد حسین پھر آج گیارہ بجے پام کورٹ میں۔‘‘ اور امجد حسین نے چڑ کر کہا۔ ’’چل بے رشید یہ بتا نذیر چلے گئے یا نہیں۔‘‘ ’’معاف کیجیےگا میں سمجھی نہیں۔‘‘ نیم زنانی آواز نے پھر کہا اور امجد حسین نے جھنجھلا کے ٹیلیفون رکھ دیا۔ رشید کے کمرے میں جاکے دیکھا تو وہ غائب تھا۔ اس نے ایک چٹھی پر لکھا، ’’ڈیر رشید۔ ماہم سے تمہاری ایک دوست سرلابائی نے ٹیلیفون کیا ہے۔ وہ تم سے پام کورٹ میں گیارہ بجے ملنا چاہتی ہیں۔ ان کی آواز بھی تم سے بہت ملتی جلتی ہے۔ امجد۔‘‘
رشید نے اس وقت بھی امجد کو مشورہ دیا کہ یار وہ ہماری تمہاری دوست ہے نا ماہم والی سرلا بائی، اسے لے کے ناچنے چلے جاؤ۔ ادھر میجر نذیر احمد برابر ہلو ہلو کیے جا رہا تھا۔ کرنیز کورٹ والی اینگلوانڈین لڑکی کی ماں نے یہ خبر سنائی کہ وہ ابھی تک دہرہ دون سے واپس نہیں آئی، جہاں وہ نذیر سے ستمبر میں ملی تھی۔
نذیر نے اپنی چھوٹی سی ٹیلیفون کے نمبر والی کتاب پر پھر ایک نظر ڈالی اور ایک اور نمبر ملایا۔ ’’کیا میں مسٹر عباس باٹلی والا سے بات کر سکتا ہوں؟‘‘ پھر اپنے مخاطب کے لہجے کو سمجھ کر اس نے گفتگو شروع کی، ’’تم کون ہے۔ چوکیدار ہے کیا۔ اچھا چوکیدار دھنی ادھر ہے۔ ۱جون آفس سے نہیں آیا۔ اچھا ادھر بائی جی ہے۔ وہ بھی نہیں ہے کدھر گیا ہے۔ وہ بھی باہر گیا ہے۔ سیٹھ کے ساتھ گیا؟ بچہ لوگ کے ساتھ گیا؟ اچھا اپنے فرینڈ کے ساتھ گیا۔‘‘ اسی چھوٹی سی کتاب کے ورق الٹتے ہوئے اس نے کہا، ’’چلو گلشن باٹلی والا بھی کہیں باہر گئی ہے۔ وہ بھی گئی۔‘‘
پھر اس نے ایک اور نمبر ملایا۔ ’’مس مہرو کے پرائیوٹ نمبر سے۔ ہاں ہاں سر کلینو فرامرز کا مکان ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ مس مہرو کے پرائیویٹ ٹیلیفون سے میرا نام! میجر نذیر، رقص کے انداز میں میجر نذیر آہستہ آہستہ پیر پٹکنے لگا۔ اس نے امجد حسین کی طرف مسکراکے دیکھا، جواب ملنے میں دیر ہو رہی تھی۔ اس لیے ٹیلیفون کے چونگے پر ہاتھ رکھ کر اس نے کہا، ’’اسٹریتھ مور پر مارسئی سے لے کر بمبئی تک میرا اس کا ساتھ رہا۔ کیا لڑکی ہے بھائی، امجد۔ اب تو بالکل بدل گئی ہے۔ اب تو زیادہ تر انگریزوں کے ساتھ۔۔۔ یس ہلو ہلو۔۔۔ انگریزوں کے ساتھ۔۔۔ ہلو ہلو۔ ہاں مہرو ڈارلنگ، تم ہی پہچانو۔ کیا میری آواز بھی یاد نہیں۔۔۔؟ ہاں ہاں۔۔۔ میرا نام تمہارے آدمی نے بتایا ہوگا۔۔۔ نہیں؟ تم نےخود پہچانا؟ تھینک یو ڈارلنگ۔ صدیوں سے تم سے ملاقات نہیں ہوئی۔ کتنے دن ہوئے دو ہفتے، مہرو ڈارلنگ کاش پھر اسٹریتھ موڑ پر میرا اور تمہارا ساتھ ہوتا۔ وہی ۱۹۳۷ء کی طرح۔۔۔ ڈارلنگ، اچھا سنو مہرو۔ یہاں میرے ساتھ میرے ایک دوست ہیں امجد۔ ہم ولنگڈن کلب جانے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ شام کسی طرح کاٹے نہیں کٹتی۔ تم چلوگی۔۔۔؟ ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ کیوں! کہاں؟ مہاراجکمار راج بھوج کے یہاں۔ کاک ٹیل ڈانس۔۔۔ ارے ارے۔۔۔ خیر اگر تم پہلے ہی سے وعدہ کر چکی ہو۔ اچھا ڈارلنگ کسی اور دن۔۔۔ اچھا۔۔۔ اچھا، شام بخیر مہرو۔‘‘
’’بھئی وہ تو مہاراجکمار بھوج کے یہاں کاک ٹیل پارٹی میں جارہی ہے اور اور تو کوئی لڑکی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔‘‘ اور ٹیلیفون کا آلہ ہاتھ سے رکھ کر میجر نذیر نے کرسی کی پشت کا سہارا لے کر پتلون کی کریز پھر سے ٹھیک کی۔
رشید نے کہا، ’’شیریں نیاز بھائی کو کیوں ساتھ نہیں لے جاتے۔‘‘
’’نہیں رشید۔‘‘ نذیر نے کہا، ’’گزشتہ ہفتے میں نے بہت کوشش کی۔ اس نے باہر آنا جانا بالکل چھوڑ دیا ہے۔‘‘
’’میں نے سنا ہے کہ وہ راج رتن بھائی جوہری کے ہتھے چڑھ گئی ہے اور وہ اسے کہیں آنے جانے نہیں دیتا۔‘‘ رشید نے پتلون کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈال کے اور دیوار کا سہارا لے کر کہا۔
’’ممکن ہے بھئی۔ میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔‘‘ نذیر نے جواب دیا۔
’’میں نے سنا ہے بڑی خوبصورت لڑکی ہے۔‘‘ امجد نے کہا۔
’’خوبصورت؟ بے حد خوبصورت۔‘‘ نذیر نے جواب دیا۔
اسی طرح دیوار سے اپنی پیٹھ کو کسی قدر رگڑ کے رشید نے پوچھا، ’’نذیر گزشتہ سال تو اس سے تمہاری بڑی دوستی تھی۔‘‘
’’بڑی دوستی تو نہیں، چھوٹی دوستی ضرور تھی۔ اصل میں وہ اصغر مرحوم کی دوست تھی۔ مگر کیا اچھی لڑکی ہے امجد۔‘‘ نذیر نے امجد کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کے کہا، ’’قدوقامت بات چیت، کلچر، اگر وہ درحقیقت راج رتن بھائی جوہری کی داشتہ بن گئی ہے تو بڑی حیرت ہے اصغر تو اس سے شادی کرنے کو بالکل تیار تھا اور بھی کہیں نہ کہیں اس کی شادی ہو ہی جاتی۔ کیا لڑکی ہے امجد۔‘‘
امجد نے کہا، ’’تو یار ذرا ٹیلیفون ملا کے تو دیکھو۔‘‘
’’بیکار ہے۔ وہ نہیں آئےگی۔‘‘ پھر بھی ذرا رکاوٹ کے ساتھ نذیر نے جیب سے وہی ٹیلیفون نمبروں والی کتاب نکالی اور نمبر ڈائل کرنا شروع کیا۔ ’’ہلو ہلو۔۔۔ ہلو۔۔۔ کون تم ہو۔ شیریں۔۔۔ پہچانو۔۔۔ ہاں نذیر۔ میں ابھی تک بمبئی میں ہوں۔۔۔ ہاں شیریں۔۔۔ ایچس اسٹکیس کے بعد حیدرآباد جاؤں گا۔ شیریں تم کیسی ہو۔ آخر اس دن تم نہیں آئیں۔۔۔ اچھا پھر کب؟ آج کیوں نہیں؟ شیریں ہمارا ارادہ ولنگڈن کلب جانے کا تھا۔ خیر وہاں نہ سہی تاج سہی۔ وہاں بھی نہیں؟ کیوں؟ کیا بات ہے؟ نہیں میں پوچھنا بھی نہیں چاہتا ہوں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم آج چلو۔ ہمارے ساتھ۔ میرے ایک دوست ہیں امجد۔۔۔ نہیں۔۔۔؟ شیریں شیریں۔۔۔ یہ تو میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میں خود آؤں۔۔۔ کہاں؟ تمہارے یہاں، تمہارا پتہ کیا ہے۔ ذرا ٹھہرو میں لکھ لوں۔۔۔ ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ اچھا بھائی کھلر کے پل کے آگے۔۔۔ اچھا میں سمجھا۔۔۔ ہاں۔ اچھا میں آتا ہوں شیریں، تمہیں ساتھ چلنا ہوگا۔۔۔ نہیں خیر میں آتا ہوں۔ میں اپنے دوست امجد کو بھی ساتھ لیتا ہوں۔ اچھا شکریہ۔ خدا حافظ۔ خدا حافظ۔‘‘
بڑی ہی نرم اور سریلی آواز میں خدا حافظ کہہ کے میجر نذیر نے ٹیلیفون کا رسیور رکھا۔ ’’امجد پھر کیا ارادے ہیں۔ بھائی کھلر کے آگے رہتی ہے چلتے ہو تو چل کے مل لو۔ مگر وہ ساتھ نہیں آئےگی۔ میں نے جب زور دیا تو وہ ٹیلیفون پر کہنے لگی۔ نذیر تم زیادہ اصرار کروگے تو میں رودوں گی، معلوم ہوتا ہے وہ راج رتن بھائی والی افواہ کچھ ٹھیک ہی ہے۔‘‘
’’معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ رشید نے کہا، ’’یا ممکن ہے اس کے والدین اسے باہر آنے جانے سے روکتے ہوں۔‘‘
’’بہرحال۔۔۔‘‘ میجر نذیر نے کہا اور آستینوں کی کریز کا امتحان لینے لگا۔
’’چلو۔‘‘ امجد نے کہا۔
مرکزی اسمبلی میں سوفیصد نشستیں جیت لینے کی خوشی میں اس شام بمبئی کے بہت سے مسلمان محلوں میں چراغاں تھا۔ محمد علی روڈ، بھنڈی بازار وغیرہ میں ہر چھوٹی سی چھٹی دکان پر روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ باب پاکستان، باب محمود غزنوی اور جناح کی بڑی بڑی تصویروں پر بجلی کی روشنی اجالا کر رہی تھی۔ پنواڑیوں کی دکان پر جمگھٹا تھا اور چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں سے سستے فلمی گانے، ریڈیو، گراموفون کے ذریعے نشر ہو رہے تھے، سڑک پر ہزاروں آوارہ گرد چھوٹے چھوٹے ٹوپیاں پہنے ہوئے میمن، بوہرے، خوجے اور دھوتی پہنے ہوئے ہندو، تماشا تو تماشا ہی ہے۔ تصویر چاہے گاندھی کی ہو چاہے جناح کی۔
جگمگاتی ہوئی کمانوں، قمقموں اور مجمع دیکھتے ہوئے میجر نذیر نے ایکے سلریٹر دبایا۔ بھائی کھلر کے پل کے اسی طرف اس نے گاڑی روک لی۔ اب سستے گراموں فونوں، ریکارڈوں کا شور بہت پیچھے رہ گیا تھا۔
’’یہاں سے راستہ پوچھنا پڑےگا۔‘‘ میجر نذیر نے ہونٹ اور دانتوں کے درمیان اپنی چھوٹی سی مونچھوں کو دبانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
کوئی میمن جو قریب گذر رہا تھا اسے امجد نے پکارا۔ ’’مولانا۔‘‘
اور نذیر نے راستہ پوچھا۔
ایک پتلی تاریکی سی گلی سے جوکر موڑ پر ایک ذرا چوڑی سی سڑک پر پہنچی جس پر ٹرام کی پٹریاں بچھی ہوئی تھیں اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کوئی ٹرام کھڑکھڑاتی ہوئی گذر جاتی۔
’’یہ تو وہ اسکول ہے جس کاپتہ اس نے مجھے بتایا اور کہا تھا کہ یہیں اس کا چھوٹا بھائی ہمارا انتظار کرےگا۔‘‘
ایک بارہ تیرہ سال کا لڑکا سفید قمیص اور نیکر پہنے موٹر کے قریب پہنچا اور پوچھا:
’’آپ میجر نذیر ہیں۔‘‘
’’ہاں،‘‘ میجر نے ہنس کر کہا۔ اس نے اور امجد نے آئینے چڑھائے، پھر اس نے گاڑی کو قفل لگایا۔ سڑک سے آگے موٹر نہ جا سکتی تھی۔ ایک پتلی سی گلی تھی۔ جس پر پتھروں کا فرش تھا اور دونوں جانب، جدید وضع کے چھوٹے چھوٹے دو دو تین تین منزل کے ایسے مکانات تھے جن میں تین چار خاندان رہ سکیں۔
گلی کے ختم پر آخری مکان پر چھوٹے رہنما نے نذیر اور امجد کی طرف دیکھا۔ اتنے میں نچلی منزل کا دروازہ کھلا۔ دروازے پر ’بی، جی، شیخ‘ بیمہ ایجنٹ کا نام ایک تختی پر لگا ہوا تھا۔ دروازہ کھلا اور بجلی کی روشنی کی ایک لہر آئی۔ ایک جوان لڑکی شلوار قمیص کا سفید ریشمی سوٹ اور اس پر سیاہ جارجٹ کا دوپٹہ اوڑھے کھڑی تھی۔ اس کا قد اچھا خاصا بلند تھا۔ رنگ بہت گورا، انگلیاں بھی لمبی، چہرے کی تراش لانبی لیکن خوبصورت ہونٹوں پر لپ اسٹک کی بڑی ہلکی سی سرخ تحریر تھی اور برق بین السطور کی طرح اس کے ہموار دانت ایک تبسم میں جگمگا رہے تھے۔ بال ترشے ہوئے نہیں تھے۔ لیکن پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ اس نے میجر نذیر کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ میجر نذیر نے اس کا ہاتھ ’’ہوشیریں‘‘ کہہ چکنے کے بعد بھی آدھ منٹ تک اپنے پنجے میں رکھا۔ ایک اور خاتون اس لڑکی کے پیچھے کھڑی تھی، اس کی ماں۔ جن کے دانت کب کے ناہموار ہوچکے تھے اور ہونٹوں اور آنکھوں کے قریب جھریاں نمودار ہو چلی تھیں اور جسم بے ڈول ہو چکا تھا۔
میجر نذیر نے امجد کا تعارف شیریں اور اس کی والدہ مسز نیاز بھائی دونوں سے کرایا۔ شریریں نے امجد کی طرف اس طرح دیکھا جیسے کوئی کسی دروازے سے آنے والے اجنبی کی طرف دیکھے۔ ذرا سی میزبانی لیکن بڑی ہی دور سے وہ مسکرائی اور پھر دفعتاً اس کی آنکھیں میلوں پیچھے ہٹ گئیں۔
اس نے نذیر اور اس کی بیوی کی خیرت پوچھی اور نذیر نے شکریہ ادا کرکے پھر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دبایا۔ اس کی ماں مسز نیاز بھائی مسکرائی۔ نذیر نے کہا، ’’ہم اس لیے آئے ہیں کہ شیریں کو اپنے ساتھ لے جاکے کہیں سیر کرا لائیں۔‘‘
’’نہیں نذیر، تم نے وعدہ کر لیا تھا کہ یہیں بیٹھ کے باتیں کروگے۔ میں باہر تو نہیں آتی۔‘‘
نذیر نے کہا، ’’مسز نیاز بھائی، آپ کو ہماری سفارش کرنا پڑےگی۔‘‘
مسز نیاز بھائی ہنسیں، ناہموار دانت ہنسے۔ ’’شیریں چلی کیوں نہیں جاتی ہو۔ تھوڑی دور تک ڈرائیو کے لیے۔ کب تک۔‘‘
شیریں نے تعجب اور غصے سے اپنی ماں کی طر ف دیکھا اور پھر مسکراکے اس نے کہا، ’’نہیں نذیر، کیوں کیا یہاں باتیں نہیں کر سکتے۔ میں نے باہر آنا جانا بالکل چھوڑ دیا ہے۔‘‘
’’کب سے؟ آخر کیوں؟‘‘ نذیر نے پھر اس کا ہاتھ دبایا۔
مسز نیاز بھائی نے اس کے بجائے جواب دیا، ’’سال بھر سے لوگوں نے معلوم نہیں کیا کیا ہمارے متعلق مشہور کیا۔‘‘
شیریں نے جلدی سے کہا، ’’پہلے تو یہ مشہور کیا کہ میں جنید کے ساتھ لاہور بھاگنے والی ہوں اور جنید اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہے۔‘‘
’’یہ اور اسی طرح کی ہزاروں باتیں ہم لوگوں کے متعلق مشہور ہونے لگیں تو شیریں کے والد نے باہر آنا جانا کم کر دیا۔‘‘
نذیر نے کہا، ’’لیکن میں تو تم کو پانچ چھ سال سےجانتا ہوں۔ میری بات دوسری ہے۔‘‘
’’بےشک۔‘‘ شیریں نے پھر اپنے خوبصورت ہموار دانتوں کی بجلی لہرا کے کہا، ’’لیکن نذیر، میری تم سے درخواست ہے، التجا ہے، باہر چلنے کے لیے مجبور نہ کرو۔ اس کے علاوہ مجھے ولنگڈن سے نفرت ہے۔‘‘
’’خیرولنگڈن نہ سہی سی سی آئی سہی۔‘‘
’’اوہ نذیر۔‘‘ وہ کھلکھلاکے ہنسی، ’’وہ ولنگڈن سے بدتر ہے۔‘‘
’’پھر تاج سہی۔ چلو ہار بربار میں تھوڑی دیر بیٹھو۔‘‘
شیریں نے صوبے پر اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیے۔ سیاہ جارجٹ کا دوپٹہ انچ بھر ڈھلک گیا۔ دونوں ہاتھوں کی پانچ پانچ انگلیاں سمیت اس نے انکار میں اس طرح ہلائیں جیسے دو گورے گورے سانپ ساتھ ساتھ اپنے پھن ہلائیں۔
یہ دیکھ کر کہ امجد بالکل خاموش بیٹھا تھا، نذیر نے کہا، ’’مسز نیاز بھائی، یہ میرے دوست امجد حسین بہت اصرار کر رہے تھے کہ شیریں کو ساتھ لے چلو۔ یہ وہاں حیدرآباد میں فولاد کی انڈسٹری میں ہیں۔ میرے بڑے خاص دوستوں میں سے ہیں۔ بمبئی میں انھیں زیادہ لوگ نہیں جانتے۔ اس لیے اگر شیریں میرے اور ان کے ساتھ جائے تو کیا ہرج ہے۔‘‘
’’جاتی کیوں نہیں ہو۔‘‘ شیریں کی ماں نے دفعتاً سفارش کا پورا ارادہ کرکے اپنی بیٹی سے کہا۔
شیریں جو اسی طرح دور دراز نظر سے دور ہونے والی دور رہنےوالی نظروں سے امجد کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اپنی ماں کی طرف پلٹی، ’’ممی آپ کو کیا ہوگیا ہے؟‘‘
’’تھوڑی دیر کے لیے چلی بھی جاؤ۔‘‘ مسز نیاز بھائی نے کہا۔
’’ممی‘‘ کہہ کے شیریں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنی ماں کو منع کیا اور ایک ٹھنڈی گہری سانس لی۔
’’ہم حیدرآبادیوں کے ساتھ باہر جانے میں بدنامی نہیں ہو سکتی۔‘‘ امجد نے کہا۔
’’نہیں ہو سکتی؟ کیا کہنا۔‘‘ شیریں اپنی کرسی سے اچھل ہی پڑی۔ ’’نذیر تم کو معلوم ہے۔ یہاں کیا مشہور ہوا تھا یہ کہ اصغر سے میری شادی ہو گئی ہے۔‘‘
’’شیریں۔‘‘ نذیر نے پتلون کی کریز دونوں گھٹنوں پر ٹھیک کرتے ہوئے کہا، ’’تمہیں معلوم ہے کہ اصغر کا انتقال ہو گیا۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ شیریں کے منہ سے ایک دبی سی چیخ نکل گئی۔ امجد نے فوراً تجزیہ کیا اس چیخ میں تاسف نہیں حیرت ہی حیرت تھی۔ ’’کب؟‘‘
’’کوئی مہینہ بھر ہوا۔‘‘ نذیر نے کہا۔
’’ارے ارے مجھے بڑا افسوس ہوا۔‘‘ شیریں نے کہا۔ اس کی آنکھوں میں جوانی کا رس اور جوانی کی چمک تو تھی۔ مگر ایک ایسی بے کیفی تھی گویا آنکھیں جذبے، افسوس اور احساسات سے ہمیشہ کے لیے بیگانہ ہو چکی ہیں۔
مسز نیاز بھائی نے افسوس کا اظہار کرکے پوچھا اور نذیر اصغر مرحوم کی موت کے حالات بیان کرنے لگا۔
اور امجد سوچنے لگا، اگر اصغر کی شادی اس لڑکی شیریں سے ہوجاتی تو اسے اس طرح عین جوانی میں موت نہ آ جاتی۔ بیچارا اصغر۔ ’’خدا مغفرت کرے۔‘‘ مگر وہ پیدا ہی اس لیے ہوا تھا کہ اپنے ہاتھوں اپنی زندگی تباہ کرے۔ عنفوانِ شباب میں اس نے گھوڑوں کی سواری کے ساتھ ساتھ ناچنا اور شراب پینا سیکھا۔ لڑکیوں کی موجودگی میں اس کی زبان کھل جاتی اور وہ گھنٹوں عاشقی کی باتیں کر سکتا۔ لیکن اپنے ساتھی افسروں کی صحبت میں زیادہ سے زیادہ وہ محض گالیاں دیتا رہتا۔ پہلے اس کے دانت سفید سے زرد اور مٹیالے ہو گئے۔ حالانکہ اس کی عمر ابھی پینتیس سال ہی کی تھی۔ پھر اس نے گھوڑ دوڑ میں اپنی بساط سے زیادہ روپیہ خرچ کرنا شروع کیا اور وہ دس ہزار کا غبن۔ خدا اس کی مغفرت کرے۔ خیر جائداد وغیرہ بیچ کے اس نے اپنی عزت بچائی۔ کمیشن باقی رہ گیا۔ نوکری سے نہیں نکالا گیا۔ مگر پھر چھ مہینے کے بعد گیارہ بجے دن ہی سے اس کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں، چڑھ جاتیں اور اس نے جنرل کلیمنٹ بنول کو گالی دے دی جو اس کی رجمنٹ کا مہمان تھا اور وہ میجر سے پھر کپتان ہو گیا۔ بچارا، بچارا، اصغر اور جب اسکاچ وہسکی کے پیسے نہیں رہتے تو وہ جم خانہ وہسکی پر اتر آیا۔ پھر ٹھرے پر اور عورتوں کی حدتک بھی یہیں حشر ہوا۔ اس انگریز کرنل کی بیوی سے۔ کیا عورت تھی، کیا جسم، کیا حسن تھا۔ لیکن اس کے پیچھے اصغر نے سب کچھ لٹا دیا۔ دادا کا گھر بیچا۔ اپنی موٹر بیچ دی۔ یہاں تک کہ اپنا فرنیچر۔۔۔ پھر چھایا دیوی۔ اس نے بھی اصغر کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ چھایا دیوی کا بھی کیا جسم تھا۔ سڈول، گداز، ایک زمانے میں سنیما ایکٹرسوں کی سرتاج تھی۔ اب یہ حالت ہے کہ ریس کورس پر آتی ہے تو کوئی پلٹ کر دیکھتا بھی نہیں، جوانی ڈھل چکی ہے، مگر اب بھی۔۔۔ خیر اس نے بھی بچارے اصغر کو تباہ کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا۔ غلطی بھی اصغر کی تھی اور اسی چھایا دیوی کی وجہ سے تو شیریں اس کے ہاتھ سے نکل گئی۔
اور امجد سوچتا رہا کہ اصغر کی شادی اگر شیریں کے ساتھ ہوتی تو نہ اصغر اس طرح تباہ ہوتا، نہ اتنی جلدی مر جاتا نہ شیریں زرخرید لونڈی کی طرح راج رتن بھائی کے دمکتے ہوئے ہیروں کی عوض بک جاتی۔ رشید اور نذیر دونوں کا بیان تھا کہ شیریں کی نسبت اصغر سے ساتھ ہو گئی تھی اور وہ اصغر کو پسند کرتی تھی۔ لیکن ایک دن رٹز ہوٹل میں جب وہ اصغر سے ملنے آئی تو اس نے اصغر کو چھایا دیوی کی گردن میں باہیں ڈالے دیکھا اور وہ اسی طرح دروازے سے باہر نکل گئی اور اس کے بعد اس نے کبھی اصغر سے بات نہ کی۔ اصغر بھی گالیاں دے دے کر خاموش ہو گیا۔
یہاں تک کہ دن رات کی شراب خوری اور سرمستی اور بے ادبی اور حماقتوں کی وجہ سے بہت سی رعایتوں کے بعد کورٹ مارشل نے بالآخر اصغر کو فوج سے برخواست کر دیا۔ انگریز کرنل کی بیوی کو تو بہت دور بھیجا ہی جا چکا تھا، چھایا دیوی۔۔۔ دوسرے شکار کھیل رہی تھی اور بہرحال اس کے پاس اتنا پیسہ نہ تھا کہ وہ اصغر کی پرورش کرتی اور اس کے بعد زندگی کے بقیہ ایک دو سال اصغر نے دیسی ٹھرا پی پی کے دھڑینوں کے ساتھ گزارے۔ ایک رات دفعتاً اس کے دل میں درد اٹھا۔ دھڑنیاں گھبراگئیں مگر کوئی ڈاکٹر نہ آ سکا۔ رات تاریک تھی۔ تاریکی بڑھنے لگی۔ خدا مغفرت کرے مگر اصغر پیدا ہی اس لیے ہوا تھا کہ اپنی زندگی اپنے ہاتھوں تباہ کرے اور شیریں نے اس روز بڑی غلطی کی تھی جو چھایا دیوی کے ساتھ اسے دیکھ کر اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلی گئی۔ پھر اس کے بعد کسی اور فیشن ایبل اور اچھے طبقے کے نوجوان نے اس سے شادی کرنے کی خواہش نہیں ظاہر کی اور بچارا اصغر اندھیری بڑی ہی تاریک رات کو جب اس کا دم نکلا تو دھیڑنیاں رونے لگیں اور کسی نے اس کا منہ قبلے کی طرف نہیں کیا۔
شیریں نے اصغر کی موت کا ذکر کچھ نذیر اور کچھ امجد کی زبانی اس طرح سنا گویا اسے اس شخص سے کبھی دور کا بھی واسطہ نہ رہا تھا۔ وقت گذر چکا تھا لیکن بات بھی نہیں رہی تھی۔
پھر جنید کا ذکر آیا۔
پھر نذیر نے بھنڈی بازار میں چراغاں اور باب پاکستان کا ذکر کیا۔ لیکن شیریں اور اس کی والدہ دونوں کانگریس کی طرف دار تھیں۔ شیریں نے تو یہ بھی ارادہ ظاہر کیا کہ وہ عنقریب ’ویک آئی‘ کو چھوڑ کر کانگریس کی والنٹیر بننے والی ہے۔
امجد نے ہنس کر کہا، ’’کھادی کی ساڑی آپ پر بہت خوبصورت معلوم ہوگی۔‘‘
پھر ولنگڈن یا ہاربربار کے ساتھ چلنے کااصرار شروع ہوا۔ اب نو بج رہے تھے۔ شیریں نے پھر صوفے کے دونوں بازووں پر دونوں ہاتھ پھیلاکے سانپ کے پھنوں کی طرح انکار میں پنجے ہلائے۔ مگر آخرکار اپنی ماں کے اصرار سے چلنے پر ڈر کے نیم راضی ہو گئی۔
امجد سوچ رہا تھا وہ کون سی طاقت تھی جس نے اس کی آزادی سلب کرلی تھی۔ قدامت ہرگز نہیں۔ محبت؟ غالباً نہیں، پھر کیا۔ سکے، ہیرے، نیلم، انگوٹھیاں، بروچ، کان کے آویزے۔ شاید، شاید۔
لیکن وہ چلنے کو نیم راضی ہوئی تو گھڑی دیکھ کر نذیر نے کہا، ’’نو بج رہے ہیں۔‘‘ اب اس حماقت کی کیا ضرورت تھی؟ نو بج رہے تھے تو بجا کریں۔ شیریں جو کپڑے بدلنے کے لیے اٹھی تھی، پھر بیٹھ گئی۔ ’’اب بہت دیر ہو گئی ہے۔‘‘ نذیر بھی خاموش ہو گیا اور شیریں کی ماں نے بہت اصرار سے نذیر اور امجد کو آئندہ اتوار چائے کی دعوت دی۔
اس کے گھر سے واپس ہوتے ہوئے امجد نے نذیر سے پوچھا، ’’پہلے تو آپ لوگوں کے ساتھ یہ خوب ادھر ادھر آتی جاتی تھی نا!‘‘
’’ہاں بہت، ریس کورس، تاج، ولنگڈن، ایک مرتبہ میں، اصغر، یہ شیریں اور آمنہ پونا بھی گئے تھے، ویک اینڈ گذارنے۔ مگر اب وہ نہیں آئے گی۔ امجد، میں نے کہہ دیا تھا نا؟‘‘
’’کوئی بات ضرور ہے۔‘‘
’’میرے خیال میں تو وہ راج رتن بھائی جوہری کا قصہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ اس نے اسے رکھ لیا ہے اور ادھر ادھر کہیں آنے جانے نہیں دیتا۔‘‘
’’افسوس ہے ایسی خوبصورت لڑکی اور پھر شریف خاندان کی۔ ویک آئی میں افسر بھی ہے اور وہ اس طرح ایک جوہری کی داشتہ بن کر رہے۔‘‘
باب محمود غزنوی پر بجلی کے قمقے جگمگا رہے تھے اور چائے کی دوکانوں اور ہوٹلوں سےسستے فلمی گانے کی صدائیں آ رہی تھیں۔
’’ہاں افسوس کی بات تو ضرور ہے۔‘‘ نذیر نےاسٹیرنگ وہیل کو گھماکے سامنے سے آتی ہوئی بس سے اپنی گاڑی بچاکے کہا، ’’اور امجد مجھے حیرت تو یہ ہے کہ پہلے یہ ایسی نہیں تھی۔‘‘
’’احتیاط سے رہتی تھی!‘‘
’’بڑی احتیاط سے۔ اب دیکھو نا میں اتنے سال سے جانتا ہوں۔ بے تکلفی ہے اس زمانے میں بڑی مشکل سے کبھی ایک آدھ اچٹتا ہوا بوسہ بھی دیا تو بہت۔ ورنہ بس اخلاق برتتی تھی۔ لیکن بڑی شرافت سے رہتی تھی۔ اصغر مرحوم تو اس سےشادی کرنا چاہتا تھا۔‘‘
’’ہاں مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’اپنے ہاتھوں اس نےاپنی جان لی۔‘‘
’’جب تم اصغر کا ذکر کر رہے تھے تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر شیریں کی شادی اس سے ہو جاتی تو دونوں کی زندگی سدھر جاتی۔‘‘
’’ہاں، شاید۔‘‘
ہارن بی روڈ پر روشنیاں کم ہو رہی تھیں۔
نذیر نے کہا، ’’اس کا باپ انشورنس کا ایجنٹ ہے۔ ایسی کیا آمدنی ہوتی ہوگی۔‘‘
’’یہ تو شاید اس کا سوتیلا باپ ہے نا؟‘‘
’’ہاں سوتیلا۔ مجھے یقین ہے جب ہم تم اس کے یہاں ڈرائنگ روم میں باتیں کر رہے تھے تو وہ پردہ کے پیچھے بیٹھا ہوگا۔‘‘
’’یہ راج رتن بھائی کے ہاتھ پھنسی کیسے؟‘‘ امجد نے کہا۔
’’معلوم نہیں، امجد کہاں کھانا کھائیں گے؟ ارجن ٹی نا چلتے ہو؟‘‘
’’چلو۔‘‘
’’ممکن ہے اسے راج رتن بھائی سے محبت ہو؟‘‘ امجد نے کہا۔
’’ممکن ہے۔‘‘
’’لیکن میرے خیال میں تو یہ محض جواہرات کی چمک ہے۔ اکثر شریف لڑکیاں جواہرات اور بنارسی ساڑیوں کی وجہ سے جوہریوں اور بنیوں کے ہاتھ گروی ہو جاتی ہیں۔‘‘
’’ممکن ہے۔‘‘ اور اس نے ارجن ٹی نا کے سامنے گاڑی روکی۔ ’’دیکھا، امجد مہرو کیسی جھوٹی ہے۔ کہہ رہی تھی مہاراجکمار راج بھون کے یہاں کاک ٹیل ڈانس میں جا رہی ہوں۔ مگر اس کی گاڑی یہاں کھڑی ہے۔‘‘
اتوار کے دن صبح کو لکھ پتی سیٹھ ہارون یعقوب جو بیجار پور کی طرف فولاد کی مصنوعات کا ایک کارخانہ کھول چکے تھے اور امجد کے فولاد کے سامان کے کارخانے میں بڑی دلچسپی رکھتے تھے۔ ناشتہ کرکے آئے تھے۔ اس لیے صرف پھل کھائے اور چائے پی۔ ایک چیکو چھیلتے چھیلتے شیریں نیاز بھائی کا ذکر سن کر کہنے لگے۔
’’اکھی بمبئی میں ویسی گرل نہیں ہے۔ اجون تو جرا خراب ہو گئی ہے۔ پہلے بہت خبصورت تھی۔ ویری ویری بیوٹی فل۔ مگر وہ بالکل بیکار ہے۔ وہ جیل میں ہے نا۔ ابھی یہاں تو یہ مشہور ہے کہ راج رتن بھائی اس کو رکھیلا ہے۔‘‘
’’اچھا تو یہ سچ ہے؟‘‘ امجد نے پوچھا۔
’’یہ کیسا معلوم پڑی گا۔‘‘ سیٹھ ہارون یعقوب نے کہا، ’’پن ہم ایسا سنےلا ہے راج رتن بھائی جویلر اس کو قفل کنجی میں رکھے لاہے۔‘‘ پھر بڑی ہی فصیح انگریزی میں سیٹھ ہارون یعقوب نے بتایا کہ جب سے وہ راج رتن بھائ کی معشوقہ بنی ہے۔ وہ اس کو کہیں آنے جانے نہیں دیتا۔
’’شاید اس کو بھی راج رتن سے عشق ہوگا۔‘‘ امجد نے کہا۔
’’ہاں ممکن ہے۔‘‘ چائے میں دودھ ڈالتے ہوئے میجر نذیر نے کہا۔
’’میں نے سنا ہے راج رتن بھائی اچھا خاص ہینڈسم آدمی ہے۔‘‘ میجر رشید نے اپنی سرویٹ تہہ کرکے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’ادھر دیکھو میں ایک بات بولتا ہوں نا۔‘‘ سیٹھ صاحب نے اس رائے سے قطعی طور پر اتفاق یا اختلاف کیے بغیر کہا، ’’ہم بھی بہت سا چھوکری لوگ رکھا۔ اکھا بمبئی کو معلوم ہے۔ مگر عشق وشق ہمارا سمجھ میں نہیں آیا۔ اجی کپڑا دیتا ہے، کیا؟ بنارسی ساڑی، ریشم، جارجٹ، زیور دیتا ہے، کیا؟ ہیرا جواہر، ایررنگ، بروچ، نیک لیس، برسلیٹ اور جولڑکی جرا خبصورت ہے تو تھوڑے دن سواری کو موٹر دینا مانگتا۔ اچھا فلیٹ میں رکھنا مانگتا۔ بس راج رتن بھی ایسا کیے لا ہے۔ نہیں تو اکھی بمبئی میں ایک سے ایک خبصورت جوان ہے۔ شیریں ہمارے میجر نذیر پر کیوں نہیں مرے لا ہے۔ میجر نذیر تو راج رتن بھائی سے زیادہ خبصورت ہے۔‘‘
’’میں آداب بجا لاتا ہوں۔‘‘ میجر نذیر نے کہا۔
’’ہم جھوٹ نہیں بولتا۔ سچی بات بولنے منگتا۔‘‘
’’لیکن وہ کسی اچھے لڑکے سے شادی کیوں نہیں کرلیتی۔ اس طرح کسی کی رنڈی رہ کر رہنے میں وہ عزت تو محسوس نہیں کرتی ہوگی۔‘‘ امجد نے کہا۔
انگریزی میں فلسفیانہ انداز سے سیٹھ ہارون یعقوب نے جواب دیا، ’’اب وہ بدنام ہوچکی ہے۔ اس سے شادی کون کرےگا۔ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔‘‘
’’بےشک۔‘‘ میجر رشید نے سرہلایا اور خلالوں کا ڈبہ میجر نذیر کی طرف سرکا دیا۔
سیٹھ ہارون یعقوب نے اردو میں پھر تشریح شروع کی، ’’ہم آپ سے بولتے، اس کاباپ چھوٹا انشورنس ایجنٹ۔ صبح سے شام تک چکر کرے لا ہے، پھرے لاہے، مرے لا ہے۔ تو چار پیسے کمائے لا ہے اور لڑکی ویک آئی میں فیشن ایبل بنے لی ہے۔ اجون ریس کورس، تاج محل، ولنگڈن کلب، جوہو میں خرچا کرنے کو پیسا کدھر سے آئیں گا۔ میرا تو ایسا دل بولتا کہ یہ اس کا سوتیلا باپ ہے نا، یہ شیخ، یہ اس کو بھڑائے لا ہے۔‘‘
’’دیوس۔‘‘
میجر رشید معافی چاہ کے اٹھے اور سیٹھ ہارون یعقوب نے امجد حسین سے مخاطب ہوکے انگریزی میں کہا، ’’آپ کے یہاں گوداوری اسکیم میں اگر۔۔۔‘‘
اسی اتوار کو چار بجے جب امجد اور میجر نذیر شیریں نیاز بھائی کے مکان پر پہنچے تو دروازہ شیریں ہی نے کھولا۔ وہ گلابی رنگ کا غرارےدار لمبی پانچے دار پاجامہ اور اسی رنگ کی قمیص اور اسی رنگ کی اوڑھنی اوڑھے تھی۔ اس سال بمبئی ریس کورس پر غرارے دار پاجامے بہت مقبول ہو گئے تھے۔ سب سے پہلے نرگس کو جدن بائی یہی غرارے دار پاجامے پہناکے لائی۔ نرگِس تو کھلے میدان میں غرارے دار پاجامے اور بلند قد اور پہلوان جیسے جسم کی نمائش کرتی پھرتی۔ کالج جانے والی شریف لڑکیاں اور وہ لڑکیاں جو ہندوستانی فلم اکثر دیکھ لیتی ہیں۔ اس کی طرف رشک سے دیکھ لیتیں۔ مگر جنگ سے پہلے ہر سال ولایت اور دورانِ جنگ میں ہر سال کشمیر جانے والی لکھ پتیوں کی لڑکیاں ذرا معصوم سی حقارت اور بعد سے تمام سنیما ایکٹرسوں کی طرف دیکھتی ہوئی، اپنے اپنے باکسوں میں جا بیٹھتیں۔ جدن بائی اپنی لڑکی کے حسن اور اس کی مقبولیت سے بالکل مطمئن ایک بنچ پر بیٹھی رہتیں۔ جہاں سے گھوڑدور کا آخری حصہ نظر نہیں آتا تھا اور ان کے قریب پہلی مہارانی کتھا گڑھ پاندان کھولے ہندوستان بھر کے والیان ریاست کو بیٹھی دعائیں دیتیں رہتیں اور مہارانی صاحبہ کے والد ماجد، حنائی ریش، انگر کھے اور دوپلی ٹوپی، میں ہر اس شخص کو جوان کی غیرمعمولی شخصیت سے واقف نہیں تھا، استاد جی معلوم ہوتے۔ نرگس کو دیکھ دیکھ کر اور کچھ اور ناکت خدا لڑکیوں کو، جن کا تعلق غالباً یو۔ پی۔ اور پنجاب سے تھا، یہ ہمت پڑی کہ اگلے ہفتے ریس میں غرارےدار پاجامے پہن کے آئیں۔ پھر کچھ بوہرہ لڑکیاں اس لباس میں آئیں اور پھر یہ لباس چل نکلا۔ یہاں نہیں، ویرانے، جو اسی سال ’’شکاری‘‘ میں نام پیدا کرکے مشہور ہو چلی تھی اور جس سے محسن عبداللہ ذرا اچھے سے لینن کی وہی بش شرٹ پہنے نینا کا غم غلط کر رہے تھے۔ ویرا نے لباس شب خوابی پر دوپٹہ اوڑھ کر ریس کورس کو زینت بخشی۔ افسوس کہ یہ لباس چل نہ سکا۔
شیریں نےنذیر سے ہاتھ ملایا لیکن امجد کو محض ایک شفقت آمیز تبسم سے اجنبیوں کی طرح خوش آمدید کہا۔ جس سے وہ جل بھن کر رہ گیا ہوگا۔ مگر کسی کے دل اور اخلاق پر کسی اور کو کیا اختیار، شیریں کی ماں نے البتہ ہاتھ ملایا۔
دفعتاً سامنے کے کمرے کے دروازہ کا پردہ سرکا۔ ایک ادھیڑ عمر کا آدمی برآمد ہوا، جو یقیناً بی جی شیخ تھا۔ لڑکی کا سوتیلا باپ اور امجد کو معاً خیال آیا کہ نذیر کا کہنا ٹھیک تھا۔ اس سے پہلے جب ہم دونوں یہاں تھے تو وہ یقیناً اس پردے کے پیچھے بیٹھا ہوگا۔
شیریں نے دونوں سے اس کا تعارف انگریزی میں یہ کہہ کر کرایا، ’’یہ ڈیڈی ہے۔‘‘
’’ڈیڈی‘‘ کی موجودگی میں نذیر نے شیریں کے ساتھ وہ بےتکلفی نہیں برتی۔ نہ اس کا ہاتھ کئی کئی منٹ کے لیے اپنے ہاتھ میں لیا، نہ اس کی طرف محبت سے آنکھیں چمکا کے دیکھا، نہ چھیڑ کے لیے اس کے کسی چاہنے والے کا ذکر کیا۔
جوں جوں کیک، پکوڑیاں، سنبوسے، بھنے ہوئے پستے، سیودال اور پھر کیک کی گردش ہوتی گئی گفتگو سنجیدہ سے سنجیدہ تر ہوتی گئی۔ زیادہ تر سیاسیات۔ ’’پہلے انگریزوں کو نکالو۔ ہندو مسلمان راجاؤں، مہاراجوں، سیٹھوں، ساہوکاروں کی عزت ہم پر فرض ہے۔ لیکن انگریزوں کی نہیں۔‘‘ مسٹر بی جی شیخ نے دہرایا۔
’’لیکن انگریزوں کی نہیں۔‘‘ امجد کی طرف پیسٹری کی پلیٹ بڑھاتے ہوئے مسز نیاز بھائی نے کہا۔ عجیب بات تھی اپنے دوسرے اور زندہ شوہر کے نام پر شیریں کی والدہ مسز شیخ نہیں کہلاتی تھیں۔ مگر اپنے مرحوم شوہر یعنی شیریں کے والد کے نام پر ابھی تک مسز نیاز بھائی مشہور تھیں۔ یہ غالباً زر یا شاید حسن کے زور کا اثر تھا۔ لڑکی کی حیثیت اس خاندان میں مرکزی تھی۔
میجر نذیر نے اس سیاسی مسئلے پر کوئی رائے دینی مناسب نہ سمجھی۔ اس نے دیکھا کہ شانے کے قریب مسٹر بی جی شیخ کے سوٹ کو کیڑوں نے کاٹ کے ایک چھوٹا سا چھید بنا دیا ہے اور استری کا کپڑا جو نظر آ رہا ہے بہت بوسیدہ ہے۔ اس کا سوٹ کم سے کم دس سال پرانا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچ کر میجر نذیر نے اپنے پوپ اینڈ بریڈلے کے سیے ہوئے پتلون کی کریز ٹھیک کی اور مسٹرشیخ اور ان کی بیوی کی سیاسی رائے کا جواب محض ایک بااخلاق ہنسی سے دیا۔ ’’ہی ہی ہی۔‘‘
امجد، فولاد کے کارخانے کا مالک، مکار، اشتراکیت بگھارنے لگا۔ شیخ صاحب میں انگریزوں سے نسلی تعصب کا قائل نہیں۔ دیکھیے نا۔ اگر انگریز مہاجن کی جگہ ہندوستانی مہاجن لے لے۔ تب بھی وہی بات ہوگی۔ غریب ہندوستانی نئے مہاجن کا غلام بن جائےگا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہندوستانی مہاجن کے راج میں آپ کو محنت کے معاوضے میں پیٹ بھر کھانا ملےگا۔ پھر ہمت کرکے شیخ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے امجد نے بیدردی سے وار کیا، ’’کیا ہندوستانی مہاجن کے راج میں آپ کی لڑکیوں کی عصمت اور عزت محفوظ رہےگی؟‘‘
مسٹر بی جی شیخ کسی مجرم مریض کی طرح تلملا گئے۔
امجد نے آخر میں کہا، ’’اصلی راج مزدور کا راج ہے۔‘‘
میجر نذیر پتلون کی کریز درست کرکے پھر ہنسے۔ ’’ہی ہی ہی۔ مسٹر نیاز بھائی میرے دوست امجد حسین بڑے پکے اشتراکی ہیں۔ یہ لندن اسکول آف اکنامکس میں پڑھنے کا اثر ہے۔ وہاں ایک بڑا مشہور پروفیسر ہے۔ کیا نام ہے اس کا امجد لا سکی؟ لاسکی؟ لاسکی، لاسکی تو شاید حیدرآباد میں ہم لوگ ریڈیو کو کہتے ہیں۔ یہ لاسکی کا اثر ہے۔ ممکن ہے ایک دن امجد اپنی فیکٹری مزدوروں کے نام منتقل کر دیں۔ ہی، ہی، ہی، مگر یہ تو ذرا مشکل ہے۔ تھینک یو شیریں مجھے تلے ہوئے مٹر بہت پسند ہیں۔‘‘
چلتے وقت مسٹر بی جی شیخ نے حیدرآباد کے تقریباً ایک درجن امرا اور اسی قدر اعلیٰ عہدیداروں سے اپنی قریبی رشتہ داری یا دلی دوستی اور بے تکلفی کا تذکرہ کیا اور اس کے بعد میجر نذیر سے بھی خواہش ظاہر کی کہ وہ بھی مذکورہ بالا امرا اور عہدہ داروں کے حلقہ میں شامل ہونے کے باعث اخلاقی طور پر مجبور ہیں کہ بیمہ اور انشورنس کے کاروبار میں مسٹر شیخ کی مدد کریں۔
جس کا میجر نذیر اور امجد دونوں نے پختہ وعدہ کیا۔
اگلے ہفتے، گھوڑ دوڑ میں نذیر امجد پرانے پاپیوں سے ’’ٹپ‘‘ پوچھتے پھر رہے تھے۔ ممبروں کے احاطے میں باکسوں کے اس سائبان کی طرف جہاں گھوڑے پھرا کے دکھائے جاتے ہیں۔ بمبئی کا پورا فیشن ایبل طبقہ، عورتیں اور مرد چکر لگا رہے تھے۔ بیٹھے ہوئے تھے۔ کھڑے ہوئے کسی بورڈ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ یا اپنے جیتے ہوئے ٹکٹوں کے روپے لینے قطار در قطار کھڑے تھے۔ جہاں ہزاروں کے وارے نیارے ہو رہے تھے۔ وہاں دو تین سیٹھ بھی تھے، اپنے مارواڑی ٹھاٹھ میں۔ زری کی ٹوپی اور ململ کی دھوتی۔ گیبرڈین کا کوٹ اور سفید پتلون پہنے دھوپ کی عینک لگائے۔ ایک نوجوان نے اپنی ساتھی نوجوان عورت سے کہا، ’’بلیک برنس وِن۔ چکرورتی پیلس۔‘‘ اس کے ساتھ جونوجوان عورت تھی، اس کے بال سیاہ تھے۔ بلاؤز ذرا گہرا سرخ تھا۔ ہونٹوں کی لپ اسٹک کی سرخی اس سے ذرا مدھم تھی اور ساڑی ہلکی کریم سبز رنگ کی تھی۔ تین لڑکیاں۔ تینوں سر ایوب خاں کے خاندان کی۔ کالے کالے لباس، گورے گورے رنگ، مازندرانی خدوخال سامنے سے گزرگئیں۔ ایک لڑکی زرد رنگ کی بنارسی ساڑی پہنے، شانوں پر کالے کٹے ہوئے بال بکھرائے، پژمردہ اور تھکی ہوئی سی۔ دو سنجیدہ لیکن خوش خوش، شلوار پوش لڑکیوں سے آہستہ آہستہ بیٹھی باتیں کر رہی تھی اور اس کے سرپر درخت کی گھنی چھاؤں تھی۔ سامنے سے لوگ فلیٹ ٹوپیاں پہنے، عورتیں رنگارنگ کی ساڑیاں پہنے، تیتریاں، ہزاروں کی تعداد میں آ اور جا رہے تھے۔ ایک خوبصورت سی انگریز عورت گزری۔ جس کا فراک ساری کی نقل تھا۔ سیاہ بلاؤز اور لال جھالر۔ ایک لڑکی گجراتی میں ہنستی ہوئی باتیں کرتی آ رہی تھی، ’’اگر میں اسی طرح ہارتی رہی۔۔۔ آہا آشا۔‘‘ اور آشا ٹھٹک کے کھڑی ہوگئی۔ چاکلیٹ کی زمین پر ریشم کے بڑے بڑے کنول کے پھول۔ چہرے پر میکس فیکٹر اور آنکھوں پر دھوپ کی چوڑی سی عینک اور اس کانصف انچ موٹا فریم۔ ’’میردولا۔۔۔ چکوری۔۔۔ سنی سائڈ‘‘۔ ’’میں تو عرب ڈرابی کے دن ضرور آؤں گی۔‘‘
ہرہائی نس بیگم آغا خان، نئی بیگم آغا خان خراماں خراماں ٹہل رہی تھی۔ بلند قامت، باوقار، ہلکی نارنجی رنگ کی ساری پہنے۔ ان کے ساتھ ایک اور خاتون اور ایک سکریٹری، اے، ڈی، سی دونوں ہمرکاب۔ بیگم آغا خان، سراپا تمکنت، وقار، تبسم، ’’باجپائے۔ باجپائے۔۔۔‘‘ نذیر احمد نے پکار کے کہا۔
راجہ باجپائے نےگھوم کے دیکھا۔ ’’نذیر۔۔۔؟ ابھی آیا۔۔۔ ابھی، ذرا بکی سے ٹپ لے کے۔ تم تو زیادہ نہیں کھیلتے نا۔ یہ دیکھو نمبر۷۔ برنرڈشا اچھا گھوڑا۔۔۔ اجی نہیں آؤٹ سایڈ رہے۔ تو اس سے کیا، مجھے اس کے ٹرینر نے کہا مہاراجہ کشمکش اسے اسی لاکھ میں خریدنا چاہتے ہیں۔ ون نہیں تو پلیس تو یقینی ہے۔۔۔ اچھا ابھی آیا۔‘‘
کھانس کے راجہ باجپائے نے زمین پر تھوکا اور ادھر جہاں گھوڑے گھمائے جا رہے تھے، غائب ہو گئے۔ گزشتہ ریس کا کپ دیا جا رہا تھا۔ بیگم صاحبہ رشید الظفر کپ دے رہی تھیں۔ نذیر احمد تو ادھر دیکھ رہا تھا۔ امجد چپکے سے اتر آیا اور فیشن ایبل مجمع کو دیکھتا ہوا پھر آوارہ گردوں کی طرح پھرنے لگا۔ وہ موٹی سی ذرا گرم سی انگریز عورت جس نے اس سکھ سے شادی کی تھی، کمبخت بلاناغہ ہرمیٹنگ میں آتی ہے۔ اس کے موٹے تازے چہرے مصنوعی حنجبر کے رنگ کے بالوں اور سنہری ساڑی پر نظر پڑنا ضروری ہے۔ آج سنہری کمخواب اور یہ حشرات الارض ان کو معلوم نہیں۔ ممبروں کے احاطے کے ٹکٹ کیسے مل جاتے ہیں۔ نو دو لیتے یا سٹہ کھیلتے ہیں، یا فلم کمپنیوں سے خرید کر تھئیٹروں کو بیچتے ہیں۔ کمبختوں کو کوئی اچھے گھرانے کی لڑکی نہیں ملتی تو ان اکسٹرا لڑکیوں کو رنڈیوں کو اٹھا لاتے ہیں۔ جوتے کے ایک بڑے متمول سوداگر نے یہ الفاظ اپنے ساتھی سے کہےاور امجد نےاس گروہ کی طرف دیکھا جس کے متعلق یہ باتیں ہو رہی تھیں۔ لڑکی جو ساتھ تھی اس کے لبوں پر سستی، گہری سرخی تھی۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے تھے اور راتوں کے جاگنے سے پلکیں بوجھل تھیں، مگر یوں بری نہ تھی۔
گھنٹی بجی اور ریش شروع ہوئی۔ راجہ باجپائے کی پیشین گوئی غلط نکلی۔ برنرڈشا ہارا اور بلیک پرنس جیتا۔ فیوریٹ کے جیتنے سے ملتا ہی کیا ہے۔ بس ایک دو روپے اور کیا اور جب وہ قطار میں اپنی جیت کے پیسے لینےکھڑا تھا تو اس نے اپنے سیدھے جانب دوسری قطار میں میجر رشید کو شیام نرائن سے باتیں کرتے دیکھا۔
’’شیام نرائن یہاں بھی موجود، ‘‘ امجد نے اپنے دل میں کہا۔ ’’مگر یہ خبیث رشید اس سے میرا تعارف نہیں کرائےگا۔‘‘
شیام نرائن کا رنگ ذرا سانولا اور قد لمبا تھا۔ لیکن اس کی تینوں لڑکیاں سرخ و سفید، میانہ قد اور بڑی حسین تھیں۔ امجد شیام سے مسوری میں ملا تھا۔ مگر کچھ ایسی تلخ سیاسی بحث ہوئی تھی کہ رشید نے اسے ایک بہانہ بنا لیا اور شیام نرائن کی لڑکیوں سے کبھی امجد کا تعارف نہیں کرایا۔
ایک مرہٹہ لڑکی فیروزی رنگ کی ساڑی پہنے، اپنے پیسے لے کےواپس لوٹی۔ رشید بدستور شیام نرائن سے باتیں کر رہا تھا اور بار بار امجد کی طرف دیکھ رہا تھا۔
اس کے بعد جو ریس ہوئی اس میں سامنے کے سبزے پر کھڑے کھڑے نذیر نے پلٹ کے جو دیکھا تو بکسوں والے سائبان کے نیچے کی نشستوں میں ایک ذرا بدصورت سی پارسی لڑکی تنہا بیٹھی تھی۔
’’شیریں۔‘‘ نذیر اس کا نام لے کے اس کے پاس جابیٹھا۔
امجد نے پلٹ کے دیکھا۔ یہ شیریں نیاز بھائی نہیں تھی بلکہ وہ پارسی شیریں تھی جس سے وہ پہلے مل چکا تھا۔
وہ بھی پارسی شیریں کے دوسری جانب کرسی پر بیٹھ کے باتیں کرنے لگا۔ سب ویول ہی پر کھیلنا چاہ رہے تھے۔ ’’اتنا ہاٹ فیورٹ ہے۔ کیا دےگا۔ ایونز تو ہو ہی چکا ہے۔‘‘
لیکن چونکہ ویول ہی محفوظ تھا۔ امجد نے ویول کے لیے دس روپے نذیر کے حوالے کیے۔ نذیر خود بھی ویول ہی پر ٹکٹ لینے کے ارادے سے اٹھا اور امجد اگرچہ کہ پارسی شیریں سے باتیں کر رہا تھا لیکن اس کی نظریں میجر رشید پر لگی ہوئی تھیں جو شیام نرائن کی تینوں حسین لڑکیوں سے ہنس ہنس کے باتیں کر رہا تھا۔
پھر معلوم نہیں رشید کو کیا شرارت سوجھی۔ وہ امجد اور شیریں کے پاس پہنچا اور امجد سے کہا شیام نرائن جی تمہیں بلا رہے ہیں۔ چلو شیام نرائن جی اور ان کی لڑکیاں تو معلوم نہیں کہاں غائب ہو گئے تھے لیکن رشید نے امجد کو لے جاکے مہارانی صاحبہ کتھاگڑھ کے والد ماجد کے پس لا بٹھایا، جو اپنی حنائی ڈاڑھی میں کنگھی کر رہے تھے اور آلتی پالتی مارے بینچ پر بیٹھے کبھی اپنی صاحبزادی اور کبھی جدن بائی سے اپنی سب سے چھوٹی پوتی کے حسن کی تعریف کر رہے تھے۔ امجد کو انھوں نے بڑے تپاک سے بٹھا لیا اور پھر رشید کہیں غائب ہو گیا۔ کوئی آدھے گھنٹے کی مسلسل کوشش کے بعد، امجد، مہارانی کتھاگڑھ کے والد ماجد کی سرپرستانہ اور مشفقانہ گفتگو سے پیچھا چھڑاکے بھاگا۔
ایک سانولی سی لیکن بڑی ملیح صورت، چھریرے بدن کی عورت انوکھے ڈیزائن کی بڑی ہی خوبصورت ساڑی پہنے کسی طرف سے آکے راستے کے قریب کھڑی ہو گئی۔ تین اسٹاف افسر جھک کر آداب بجا لائے۔ تین اے ڈی سی تعظیماً سر جھکا کے ذرا ذرا فاصلے پر کھڑے ہو گئے۔ اس نے کسی اسٹاف افسر سے کچھ پوچھا اس نے جواب دیا، ’’نہیں، یورہائی نس۔‘‘ پارسی امیرزادیوں نے بے تعلق ہوکر یہ منظر دیکھا اور بےپروا ’’وِن‘‘ کے ٹکٹوں کی کھڑکیوں کی طرف چلی گئیں۔ پھر وہ ملیح خوبصورت مہارانی سیڑھیوں کی طرف گئی۔ نذیر نےامجد کے شانے پر ہاتھ رکھا، ’’جانتے ہو کون ہے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’مہارانی پیپل نگر، چھوٹی مہارانی۔‘‘
’’اچھا، وہی جو پشوا زپور کے راجہ کی بیٹی تھی۔‘‘
’’جس کی شادی امرت نگر کے تیسرے راجکمار بھرت چندر سے ہوئی۔ پھر اس سے طلاق لے کے یہ مسلمان ہوگئی اور اس نےہمارے تمہارے دوست سیٹھ یعقوب ہارون سے شادی کی۔‘‘
’’نہیں جی۔‘‘
’’سیٹھ یعقوب ہارون کو کیا سمجھتے ہو، کروڑپتی تھا۔ رحیم بھائی کے ساتھ تباہ ہوا۔ اب بھی اس کے پاس دو تین کروڑ تو آسانی سے نکل ہی آئےگا۔ پھر جب جنگ شروع ہوئی تو سیٹھ یعقوب ہارون کو اس ری کلمیشن والے جھگڑے میں پھنسا کے نکل گئی اور ایک امریکن کپتان سے شادی کی، اس کا نام میں بھولتا ہوں۔ پھر آخر اسےبھی چھوڑا اور گزشتہ سال یہیں ریس کورس پر میں اس کا اور مہاراجہ پیپل نگر کا رومانس دیکھا کرتا تھا، اب بڑی مہارانی تک اس سے کانپتی ہے۔‘‘
آگے ’’ون‘‘ کے کھمبے کے قریب رشید شیام نرائن جی اور ان کی تینوں لڑکیوں سے باتیں کر رہا تھا۔ امجد نے نذیر سے کہا، میں اس شیریں کے پاس بیٹھا تھا۔ جب یہ رشید مجھے اٹھا لایا۔ تم کسی ترکیب سے جاکے اس کوان لوگوں کے پاس سے ہٹا لاؤ۔ نذیر نے جاکے رشید سے کہا، ’’بھئی بیگم پارہ تمہیں پوچھ رہی تھیں۔ تم ان سے ملے ہونا۔‘‘
رشید کہتا ہی رہا، ’’میں نے ریس کورس تو کیا کبھی سنیما میں بھی بیگم پارہ کی صورت نہیں دیکھی۔‘‘ لیکن نذیر اسے زبردستی لے ہی آیا۔
گھوڑے جیتتے اور ہارتے رہے۔ انسان شرطیں لگاتے اور پچھتاتے رہے۔ عورتیں اپنی ساڑیوں اور میکس فیکٹر کی کریموں، پاؤڈروں اور لبوں پر لگانے کی سرخیوں کی نمائش کرتی رہیں۔ ادھر دیکھو اشوک کمار۔ جودھ پوری کوٹ پہنے بیٹھا ہے اس کو جانتے ہو وہ کون ہے۔ روز نتھال ہے۔ جوہری فرانسیسی یہودی مہاراجہ کشمیر کا بڑا دوست ہے۔ انگریز سپاہی خاکی یونیفارم پہنے ’’ون‘‘ کے کھمبے کے قریب کٹہرے سے لگے کھڑے ہیں اور وہ جو لڑکی ہے، وہ مشہور سنیما ایکٹرس ہے، دیکھو اس کی پیٹھ ننگی ہے اور کیسی تنگ چولی پہنے ہے۔ دو ملازمین ترکی ٹوپی، سفید کوٹ اور نیکر پہنے کھڑے ہیں۔ وہ احاطے کے اندر کیسے آ گئے؟ وہ تیس سال کی دو عورتیں چلی جا رہی ہیں۔ رفتار اور اونچی ایڑی کی وجہ سے ان کی کمر لچک رہی ہے اور ہوا ان کی ہلکی جارجٹ کی ساڑیوں کے پلو اڑا رہی ہے۔ وہ دیکھو گندمی رنگ، چہرے پر داغ۔ شارک اسکن کا کوٹ، گلے میں دوربین۔ موتی لال ایکٹر کے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔ ’’بڑا مسخرا ہے۔ اس دن جب میں نے اسے ٹیلیفون کیا۔ اس نے میری آواز نہ پہچانی اور پوچھا کون ہے۔ میں نے کہا، فلموں میں نوکری کرنا چاہتا ہوں۔ کہنے لگا میں کیا کروں۔ میں نے کہا، مدد کیجیے۔ بڑی مشکل سے آپ کا ٹیلیفون نمبر ڈھونڈا ہے۔ موتی لال نام کے بمبئی میں جتنے آدمی ہیں۔ سب کو ٹیلیفون کر چکا ہوں۔ ورنہ آپ کا سراغ کیسے ملتا۔ کہنے لگا، غلط نمبر ملا ہے۔ میں موتی لال ایکٹر نہیں، موتی لال مسالے والا ہوں، کیا لیجیے گا۔ ہینگ یا زعفران؟ اور یہ کہہ کے ظالم نے ٹیلیفون کا ریسیور رکھ دیا۔‘‘ یہ کہہ کے داد طلب نظروں سے شیام نرائن جی نے رشید کی طرف دیکھا۔
چونکہ ان کی لڑکیاں اس مذاق پر خوش ہوکے ہنس رہی تھیں، رشید نے ہنسنا ضروری سمجھا۔
گھوڑدوڑ ہوتی رہی۔ ایک اینگلو انڈین گلے تک بند گیبرڈین کا سوٹ پہنے ہاتھ میں دوربین لیے پھر رہا ہے۔ نہیں یار یہ اینگلوانڈین نہیں یہ تو ارباب ہے۔ فرنٹیر ارباب جی۔ یہ ایک پنجابی لڑکی کا تبصرہ تھا، جو اسی ارباب خاں سے باتیں کر رہی تھی۔ خود لمبی تڑنگی، بال ترشے ہوئے لیکن بالوں میں سینکڑوں پنیں۔ پرانی وضع کے کرن پھول، ناخنوں پر گہری سرخ پالش لگائے، سیاہ زمین کی ساڑی پر۔ سفید سرخ، زرد پھول اور اس کے ساتھ یہ غالباً اس کا شوہر اور ارباب سے ناواقف اور ادھر یہ صاحب جو اپنی کتاب پر گھوڑوں کو دیکھ دیکھ کر نشانات لگا رہے ہیں۔
یہ جو سبز سرچ کا سوٹ پہنے فلیٹ ہیٹ لگائے، مینڈک کی سی آنکھیں نکالے چلے آ رہے ہیں، گنگا نگر کے مہاراجکمار ہیں۔ ادھر دیکھو اس گجراتن کی جالی کی ساڑی تو دیکھو اور وہ دوسری، بھئی گجرات کے حسن کے ہم بڑے قائل ہیں۔ پنجاب اور گجرات۔ ورنہ دوسرے صوبوں میں اگر حسن ہے تو نمک نہیں۔ یا نمک ہے تو بس نمک ہی نمک۔ دیکھو تیسری مہارانی پیپل نگر مہاراج کے پاس کس شان سے بیٹھی ہے۔ ادھر مہاراج شیرونا ہیں ادھر وہ دیکھو یہ ایک میل کی ریس ہے۔ وے گے بانڈ کنگ۔ وے گے بانڈ کنگ۔ سلطانہ، سلطانہ۔ کم آن سلطانہ۔ کم آن جنجربیر۔ کم آن۔ وے گے بانڈ کنگ۔ کم آن۔ کم آن سلطانہ۔ وےگے بانڈ کنگ۔ کم آن سلطانہ۔ سلطانہ اور پھر تالیاں ہی تالیاں۔
دروازے کے قریب زمین پر بےتکلفی سے تھوک کے راجہ باجپائے نے کہا، ’’نذیر یار مت پوچھ، میں تین ہزار روپے ہارا۔ دو ہزار تو صرف وےگے بانڈ کنگ پر ہارا۔ کیا گھوڑا مار کھا گیا۔ بس دوہیڈ سے۔ خیر سویپ سٹک میں ضرور جیتےگا۔۔۔ ہلوراج رتن۔۔۔ راج رتن۔۔۔ تم نذیر سے واقف ہو۔ میجر نذیر، راج رتن بھائی جویلر۔ نمستے بھابی جی۔‘‘
امجد نے جو نذیر کے ساتھ تھا، راج رتن بھائی کی طرف غور سےدیکھا۔ گورا رنگ، لمبی سی ناک، آنکھیں بڑی بڑی اور خوبصورت، سر کے بالوں میں کہیں کہیں سفید ڈورے۔ اوپر کادھڑ لمبا، نیچے کا مقابلتا چھوٹا۔ ململ کی قمیص کے اندر بنیان، ململ کی دھوتی، سر پر گاندھی ٹوپی۔
اور ان کی شریمتی جی جو ہاتھ جوڑ کے راجہ باجپائے کو نمستے کر رہی تھیں، وہی گجراتن تھیں جن کی جالی کی ساڑی امجد کو پسند آئی تھی۔ ماتھے پر سہاگ کا چمکتا ہوا تارہ، کندن کی دمک۔ رنگ بہت زیادہ گورا نہیں، مگر ملیح۔ یوں بظاہر دیکھنے میں شیریں سے بھی کہیں کم عمر۔ ایک بڑی سی پیکرڈ میں راج رتن بھائی اور ان کی شریمتی جی بیٹھ گئیں۔
راجہ باجپائے کسی اور سےاپنی تین ہزار کی ہار کا ذکر کرنے لگے۔ امجد نے آہستہ سےنذیر سے کہا، ’’یہی تھے راج رتن بھائی جوہری؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ ان کی شادی ہو چکی ہے۔‘‘
’’ہو چکی ہے۔‘‘
’’تو پھر شیریں؟‘‘
راجہ باجپائے اب پھر نذیر کی طرف مخاطب ہو گئے تھے، ’’شیریں؟ کیا ہوگا؟‘‘
امجد نے کہا، ’’میں پوچھ رہا تھا کہ راج رتن بھائی کی شادی ہو چکی ہے، پھر شیریں کا کیا ہوگا؟‘‘
راجہ نے کہا، ’’اجی شادی تو راج رتن کی اب ہوئی ہے۔ کوئی دومہینے ہوئے اور شیریں اس کے پاس سال بھر سے ہے۔ شیریں سے بیاہ کیسے ہو سکتا ہے جی۔ بیوی تو اپنی ذات کی چاہیے اور یہ شیریں تو۔۔۔ ہی ہی۔۔۔ کیا بتاؤں نذیر، پچھلے دو ہفتے دوہزار جیتا تھا۔ اس مرتبہ تین ہزارہارا۔‘‘ اور اچھی طرح کھنکھار کر راجہ باجپائے نے اپنی حلق صاف کی۔
مأخذ : کلیات عزیز احمد
مصنف:عزیز احمد