ائیرپورٹ کے لاؤنج میں بنے ہوئے کیفیڑیا کی بڑے بڑے شیشوں والی کھڑکی سے باہر کا منظر ایک تصویر کی طرح نظر آ رہا تھا۔ باہر دو ر تک برف کی چادر پھیلی تھی، بےبرگ درختوں کی شاخوں پر کہیں کہیں برف اٹکی ہوئی تھی، دور بہت دور سڑک کے اس پار کسی تنہا مکان کے دروازے پر کر سمس گذرجانے کے ہفتے بھر بعد بھی کرسمس کی لائٹس جل بجھ رہی تھیں۔ برف روئی کے گالوں کی طرح دھیرے دھیرے گر رہی تھی۔۔۔ بےآواز، بالکل جیسے وقت دبے پاؤں گذر جاتا ہے۔ اس خوبصورت برف زار میں ہم نے دس سال یوں ہی غیرمحسوس طریقے سے گذار دئیے تھے۔ میں نے چھنگلی سے آنکھوں کے کنارے آیا ہو ا آنسو چپکے سے پوچھ ڈالا، شیشے کے دوسری طرف تصویر کی طرح ساکت منظر میں دل میں بسا لینا چاہتی تھی۔ مجھے اپنے اوپر غصہ آنے لگا۔ نہ جانے کیوں مناظر، لوگ، باتیں، رشتے، میں بھولنا چاہوں بھی تو بھلا نہیں سکتی۔
راہول نے گروپ فوٹو لینے کے لئے سب کو متوجہ کیا۔
‘’ذرا مسکرانے کی کوشش کی جائے۔۔۔ ایک الوداعی تصویر’‘۔
ہمارے سارے دوست، لیاقت، ظہیر، درشی، نعیم، رشید، راہول اور جولین ہمیں رخصت کرنے ائیر پور ٹ آئے تھے۔’’کلک’‘ کیمرے کا بٹن دبا اور فلیش کی روشنی جل بجھی ظہیر نے اپنے سوئے سوئے لہجے میں کہا۔
’’اوئے! فکرمت کرو اگلے سال ایئر پورٹ پر شمع باجی اور ارشد بھائی کو لینے ہم سب موجود ہوں گے‘‘۔
نعیم نے ظہیر کو ڈانٹا۔
’’اچھا بکواس بند کرو۔ خواہ مخواہ جانے والوں کے دل میں وسوسے مت ڈالو، کون جاتا ہے سب آرام چھوڑ چھاڑ کر اپنے وطن۔ میں بھی سوچ رہاہوں کہ اب کناڈا کو خیر باد کرکے پاکستان چلا جاؤں’‘۔
رشید نے ہنس کرکہا ۔
’’سائیں! یہ ارادہ توتم پچھلے پندرہ سال سے کررہے ہو ۔چین سے پڑے رہو جہاں ہو’‘۔
راہول نے کہا۔
باجی آپ مجھے ہندوستان سے نئے اور اچھے ڈراموں کے اسکرپٹ بھیجئے گا، ویسے ہمارا گروپ’’تیسری دنیا’‘ کوئی بھی نیا ڈرامہ کرتے وقت آپ کو بہت یاد کرےگا۔
ظہیر نے ہنس کر کہا۔
یار یہ تو اب خو د ہی بہت بڑے ڈرامے میں کردار نبھائیں گے، ڈرامے کا عنوان ’’حب الوطنی’‘۔ کہانی میں قوم کی محبت کا مارا ہیرو عیش وآرام تج کر، وطن کی مٹی کی پکار پر باہیں پھیلائے دوڑا جاتا ہے۔۔۔ ڈرامے کے انجام کے لئے سامعین ایک سال کا انتظار کریں۔
درشی نے اپنے میاں ظہیر کو ڈانٹا۔
’’ظہیر کبھی تو سیر یس ہو جایا کرو‘‘۔
رشید نے آہستہ سے پوچھا۔
’’ویسے ارشد بھائی آپ امیگریشن سے ایک سال کی اجازت لے کر جا رہے ہیں نا۔ کہیں انڈیا میں کچھ گڑبڑ ہو جائے تو کم سے کم واپسی کا راستہ تو کھلا رہے، دس برسوں میں بھی آپ نے کناڈا کا پاسپورٹ بھی نہیں لیا’‘۔
ارشد نے کہا۔
’’یار ہزار بار تم سب کو بتایا ہے کہ میں کینیڈین پاسپورٹ حاصل کرنے کے لئے اپنی ہندوستانی شہریت ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔ ہاں! وہ ریٹرننگ ریذیڈنٹ (Returning Resident) پرمٹ تو سال بھر کاتو لے لیا ہے۔ ایک بار واپس آکر سب بینک وغیرہ کے اکاؤنٹس تو بند کرانے ہوں گے’‘۔
نعیم نے ذرا گلوگیر انداز سے کہا۔
’’آپ دونوں کی کمی بہت محسوس ہوگی اتنے دنوں کا ساتھ تھا، خدا آپ لوگوں کو اپنے مقصد میں کامیاب کرے‘‘۔
سب لوگ اداس سے ہو گئے۔
ظہیر نے پھر مسخرے انداز سے ماحول کو ہلکا بنانے کی کوشش کی۔
’’ویسے یار ارشد تمہارے کتبے پر لکھا جائےگا کہ مرحوم کو ملک وقوم کی خدمات کا بہت شوق تھا اسی میں جاں بحق ہوئے’‘۔
‘’خدا کے لئے! ظہیر ذرا تو کبھی سنجیدہ ہو جایا کرو، سفر پر جاتے وقت منحوس باتیں مت کرو’‘۔درشی نے پھر اپنے میاں کو ڈانٹا۔
ہماری فلائٹ کا اعلان کئی بار ہو چکا تھا میں نے سب کو خدا حافظ کہہ کر جلدی سے ایئر بیگ اٹھا لیا اور پھر تیزی سے اندر داخل ہو گئی، میں مڑ کر نہیں دیکھنا چاہ رہی تھی۔
جہاز رن وے پرتیزی سے دوڑ رہا تھا، جیسے میری طرح جلد از جلد یہ زمین چھوڑ دینا چاہتا ہو۔۔۔ پلٹ کر دیکھنے سے اب کیا فائدہ۔۔۔ جہاز اڑان بھر کر اب عین شہر کے اوپر اڑ رہا تھا۔رات کے دس بجے تھے میں نے نیچے دیکھا۔۔۔ لمبی لمبی متوازی روشنیوں کی لکیروں کی شکل میں پھیلی ہوئی سڑکیں جن پر میں نے نہ جانے کتنی بار سفر کیا ہوگا۔ گرمی کے موسم میں ان صاف ستھری خوش باش راہوں پر میں اکثر یوں ہی اکیلی اپنے آپ میں گم چلتی رہتی تھی۔ سردی میں اِن برفیلے راستوں پر بھاری بوٹ پہنے گرتے پڑتے چلنے کا مزہ ہی الگ ہوتا تھا اور پھر خزاں کا موسم۔۔۔ وہ دلنواز موسم۔۔۔ خزاں شروع ہوتے ہی (Maple) میپل کے درختوں میں جیسے آگ لگ جاتی ہے ۔لال، پیلے، نارنجی پتوں سے بھرے میپل کے جنگل تو میرے وجود کا حصہ بن چکے ہیں۔ میں اور ارشد کار میں لمبی ڈرائیو پر نکل جاتے۔۔۔ جہاز اب منجمد ہوئے دریا کے اوپر اڑ رہا تھا، اندھیرے دریا کے بیچ میں روشنیوں کی ایک کہکشاں تھی۔ یہ شامپلین (Champlain) کا پل ہے شاید۔۔۔ تھوڑی دورپر سیٹ جوزف چرچ کے اونچے گنبد اور بےشمار سیڑھیوں پر برقی روشنیوں سے چراغاں کا سماں تھا۔ اونچی کرسی پر بنے بے شمار سیڑھیوں والے اس شاندار چرچ کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ یہ خیال آتا تھا کہ کاش میری دہلی کی پرشکوہ جامع مسجد کی سیڑھیاں بھی کاٹ کباڑ سے پاک ہو جائیں وہاں بھی یہ چراغاں ہو۔ جہاز اب جاں کا ر ٹیئر (Jean Cartier) کے پل کے اوپر سے گذر رہا تھا۔ وہیں کہیں نیچے وہ یونیورسٹی جہاں ہم نے زندگی کے کئی سال گذارے تھے۔وہیں وہ اپارٹمنٹ ہے جس کی کھڑکی سے میں ہررات ماونٹ رائل پر چمکتا ہوا حضرت عیسی کا برقی کراس دیکھتی تھی، جس کی روشنیاں دور سے شہر مانٹر یال کا پتہ دیتی تھیں۔ جہاز اس چمکتے ہوئے کر اس سے اب بہت دو ر ہوگیا تھا۔ نیچے اب تاریکی کا گہرا سمندر تھا۔
میں کھڑکی کا پلاسٹک والا شٹر گرا دیا، ارشد نے تھک کر کرسی کی پشت سے سر ٹکاکر آنکھیں بند کر لیں تھیں، مہینوں کی تھکن اب ہم دونوں پر غالب آ گئی تھی۔ شاپنگ، سامان اور کتابوں کے کارٹن کارگو سے بھجوانا، پیکنگ، ملنا ملانا، دعوتیں نہ جانے کتنے دنوں سے یہ سلسلہ تھا۔ ہم دونوں شاید تھوڑی دیر کے لئے سوگئے ہوں گے جب آنکھ کھلی تو جہاز میں کھانا شروع کرنے کی تیار یاں ہو رہی تھیں۔
ارشد تھوڑے تازہ دم نظر آرہے تھے میرا سر بھی ہلکا سا محسوس ہوتا تھا۔
ارشد کھوئے کھوئے لہجے میں بولے۔
اس بار اعظم گڑھ جاکر اپنے گاؤں کے پرانے اسکول جاؤں گا گپتا جی سے ملنے، وہ تواب ریٹائر ہوگئے ہوں گے۔۔۔ کوئی بات نہیں ان کے گھر جاکر ملوں گا۔۔۔ پتہ ہے چار سال پہلے جب میں ہندوستان گیا تھا تب اپنے پرانے استادوں سے ملنے اپنے اسکول ’’شوشنکر جی ہائی اسکول’‘ بھی گیا تھا۔ گپتا جی جنھوں نے ہمیں بچپن میں پڑھایا تھا وہ بہت خوش ہوئے تھے مل کر۔ میں نے جب انھیں بتایا تھا کہ میں نے اپنی پی ایچ ڈی مکمل کر لی ہے اور اب کناڈا میں یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہوں تو گلے لگا کر بہت دعائیں دی تھیں اور کہا تھا۔
‘’بیٹا! ایک کہوں’‘ اور پھر انھوں نے یہ دوہا پڑھا تھا۔
بڑا بھیا تو کیا بَھیا جیسے پیڑ کھجور
پنتھی کو سایہ نہیں پھل لاگیں اَتی دور
میں سمجھ گئی کہ ارشد ابھی مختصر سی نیند کے دوران کہیں بیتے دنوں کی سیر کر آئے ہیں۔۔۔ یادوں، ارادوں اور خوابوں کی ایک دھنک ان کی آنکھوں میں لہرا رہی تھی ۔نہ جانے کیوں میرا دل ڈر سا گیا، مجھے وہ ساری بحثیں یاد آ گئیں جو ہمارے ہندوستان واپس جانے کے سلسلے میں ہوئی تھیں۔ پی ایچ ڈی ختم کرنے کے بعد فوراً ہی ارشد کو مانٹریال کی ایک یونیورسٹی میں Faculty Position مل گئی تھی لیکن ان کو چین نہیں تھا۔۔۔ وہ ہی پرانا خواب کہ پڑھ لکھ کر کمپیوٹر کی اعلی تعلیم حاصل کرکے اپنی مادر درس گاہ میں مسلمانوں کے لئے اس علم کو فروغ دوں گا۔ دوست احباب رشتہ دار سب اونچ نیچ سمجھاتے تھے کہ اتنے سال باہر رہنے کے بعد تم وہاں واپس جاکر فٹ نہیں ہو سکتے، کیوں اتنے جذباتی ہوتے ہو، عقل سے سوچو، اتنی اچھی پوزیشن چھوڑکر جاؤ گے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ارشد کا برسوں پرانا خواب ان سے جدا ہوہی نہیں سکتا تھا۔ میں کہتی کہ ابھی جلدی کیا ہے بعد میں چلے جائیں، اس کا جواب ہمیشہ ارشد یہی دیتے تھے۔
’’بوڑھے ہوکر وہاں جائیں گے؟ جب کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ تم صرف اپنی تن آسانی دیکھتی ہو ہمارا بھی تو کوئی فرض ہے۔۔۔ او ر پھر زندگی کا کوئی مقصد بھی تو ہو، تم ادیب و شاعر تو چاہتے ہو کہ وطن سے دور بیٹھے وطن کی محبت اور ناسٹالجیا Nostalgia کے گیت اور کہانیاں لکھتے رہو، تمہیں حقیقت سے کیا واسطہ’‘۔
میرا دل چاہتا تھا کہ کہوں۔
’’ارشد میاں! خوابوں میں تو تم رہتے ہو، حقیقت سے نظریں تم چراتے ہو، تمہاری جذباتیت اور آئیڈیلزم کھوٹے سکے ہیں’‘۔
صبح جہاز (Amsterdam) کے ہوائی اڈے پر اتر رہا تھا تو سار ا شہر کہرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ ہمیں یہاں سے دوسرا جہاز دہلی لے جانے والا تھا۔ یہ کہرے میں ڈوبا شہر کافی اداس سا لگ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ اب ہر روز روشن صبح ہندوستان میں کھلی کھڑکیوں سے اندر آکر ہمیں جگائےگی۔ صبج اپنی مانوس آوازوں اور خوشبؤں کے ساتھ آئےگی۔ بند کمروں میں سوتے ہیں تو صبج آنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔۔۔ مجھے یا دآیا کہ علی گڑھ میں صبح چھ بجے دودھ والا اپنی سائیکل پر دودھ کے ڈبے ٹانگے ہمارے لان کا پھاٹک کھولتا تھا۔۔۔ امی صبح نماز کے بعد چمیلی کے پھول اکٹھا کرکے لاتی تھیں۔ ائیر پوٹ کی ڈیوٹی فری شاپ میں گھومتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ مجھے ایک ہیئر ڈرایئر چاہئے کاونٹر پر کھڑی ہوئی سیلز گرل سے میں Duel voltage والا ڈرائیر مانگا تو ارشد نے کہا۔
’’تمہارے دماغ میں اب بھی 220 اور 110 والا تضاد موجود ہے۔ ہندوستان میں تو 220V ہی چلتی ہے وہی لے لو۔ دیکھو! ہم اپنی کشتیاں جلاکر جا رہے ہیں’‘۔
ہم دوسرے جہاز کے انتظار میں بیٹھے تھے، آج نئے سال کی صبح تھی یعنی سن ۱۹۸۹ کا پہلا دن ۔ارشد بیٹھے اپنے بریف کیس میں رکھے کاغذ الٹ پلٹ رہے تھے۔ ایک بار پھر انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے آیا ہوا اپنا تقررنامہ نکال کر پڑھا اور بولے۔
’’ویسے ان لوگوں کو مجھے پروفیسر شپ دینی چاہئے تھی، کتنا تجربہ اور ریسرچ روک ہے میرا، لیکن جانے دو۔۔۔ کوئی فرق نہیں پڑتا میں وہاں عہدے کے لئے تو نہیں جا رہا ہوں۔ مجھے تو کام کرنا ہے’‘۔
نئی دہلی کے ایئر پورٹ پر جہاز شام چار بجے پہنچا تھا۔ یوں تو پچھلے دس برسوں میں ہم لوگ تین چار مرتبہ ہندوستان آئے تھے لیکن آج وطن کی سر زمین نئی سی دکھائی دے رہی تھی اک عجیب سا احساس تھا۔ پہلی جنوری ۱۹۸۹ کا نیا دن، نیا سال۔۔۔ آج واپسی کا سفر شروع ہوا تھا۔
۲۹ دسمبر ۱۹۸۹ کی وہ کہرآلود رات تھی ہم جب دہلی کے ائیر پورٹ پر کناڈا کی فلائٹ لینے کے لیئے پہنچے۔ اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے اور نئے سال کا پہلا دن شروع ہو چکا تھا۔ پورا سال گذر گیا۔۔۔ پہلی جنوری ۱۹۹۰ پورا ایک برس گذر گیا۔ دہلی کے ائیر پورٹ پر حسب معمول گہما گہمی تھی۔ دبئی، کویت اور سعودی عربیہ کے لئے کئی فلائٹس ہمارے سامنے ہی روانہ ہوچکیں تھیں۔ جہاز بھر بھر کے لوگ زیادہ پیسے کمانے پر دیسوں کو سدھار رہے تھے۔
اب پسنجر لاونج میں زیادہ لوگ نہیں تھے۔ میں اور ارشد خاموشی سے بیٹھے بظاہر تو لوگوں کی آمد ورفت دیکھ رہے تھے لیکن ذہن میں واقعات کی اک فلم چلی رہی تھی۔ آدھے گھنٹے بعد KLM کی فلائٹ ہمیں کناڈا لے جانے والی تھی۔ میری نظروں اور دل میں ہمارے گھر کے لان کے پھاٹک پر کھڑے امی اور ابا کے دھواں دھواں چہرے بھٹک رہے تھے۔۔۔ایک بار پھر میں گھر کی دہلیز پر دعاؤں کے چراغ جلے چھوڑ آئی تھی۔ پچھلے ایک برس کے عرصے میں اپنا گھر اور اپنا پرانا شہر پھر سے اپنا ہو گیا تھا۔ گرمی، بجلی کی کٹوتی، گندگی اور دوسری سہولیات کے نہ ہونے کا بھی اب کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیوں کہ ایک خواب لے کر آئے تھے ہم اپنی زمین پر۔۔۔ لیکن ایک بار پھر وطن بدر ہونا پڑ رہا ہے۔۔۔ مجھے ایک دم ارشد پر غصہ آنے لگا کہ کیا ضرورت تھی اس قدر اصول پسند بننے کی۔۔۔ ارے بھئی جب آوے کا آواہی ٹیڑھا ہے تو آپ کیا تیر مارلیں گے۔ مصلحت کوشی اور حالات سے سمجھوتا بھی تو کرنا پڑتا ہے انسان کو۔۔۔ زندگی کو اتھل پتھل کرکے رکھ دیا۔
ارشد اچانک ہی بول پڑے۔
’’سب کے سب جھوٹے، مفاد پرست، خود غرض’‘۔
میں سمجھ گئی کہ یہ جملہ ان کے ذہن و دل میں چلنے والے مکالموں کی ایک کڑی ہے جوغصہ میں ابل کر باہر آ گیا ہے۔
وہ کہہ رہے تھے۔
’’وہ ہمارے پرانے استاد پروفیسر انصاری فرما رہے تھے کہ بھئی مصلحت اور صلح پسندی سے کام لو، وقت پر تو گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے۔۔۔ ہونہہ! رجسٹرار صاحب ایک دن میٹنگ میں فرمارہے تھے کہ آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو آکسفورڈ کیوں بنانا چاہتے ہیں۔۔۔ کمال ہے انھیں اتنا بھی نہیں معلوم کہ یہی تو سرسید کا خواب تھا۔۔۔ ٹھیک ہے بنا لو یتیم خانہ اسی مادر درسگاہ کو۔۔۔ ہونہہ۔۔۔ اقلیتی کردار بنائیں گے یہ لوگ یونیورسٹی کا۔۔۔ اقربا پروری بےایمانی اور تنگ نظری کا کوڑا دان کہو۔۔۔’‘
ارشد کی مایوسی غصہ اور بےبسی انہیں دیوانہ بنائے دے رہی تھی وہ ایکٹنگ کرکے بولے۔
’’وہ! وہ سارے خواجہ سرا وہ کلرک یونیورسٹی کے حاکم بنے بیٹھے ہیں۔ سینئرپروفیسر ان کے پاس جاکر کہتے ہیں کہ ۔۔۔ حضور ہمار کام کروا دیں۔۔۔ مجھے ڈرایا جا رہا تھا کہ ڈین صاحب آپ سے خفا ہیں، آپ ابھی probation پر ہیں، سنبھل کر رہئے۔۔۔ ارے وہ کیا لکھیں گے میرے خلاف۔۔۔ یہی نا کہ میں داخلوں میں، تقرری میں اور امتحانات میں ایمان داری اور باقاعدگی چاہتا تھا۔ کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ کا چیئرمین ہونے کے ناطے کمپیوٹر اور دوسرے سامان کی خریداری میں پیسہ نہیں کھاتا اور نہ کھانے دیتا تھا۔۔۔ لڑکوں میں کچھ سیکھنے کی امنگ پیدا کر دی تھی۔۔۔ ہاں، ہاں۔۔۔ یہ الزام لگائیں گے کہ میں لوگوں سے لڑتا تھا۔۔۔ ٹھیک ہے مت کرو لوگوں سے لڑائی، بنے رہو میاں مٹھو۔۔۔ اور دو مُٹھی خاک ڈال دو یونیورسٹی کی قبر پر۔۔۔‘‘
ارشد نے اپنا بریف کیس کھولا اور اپنا طویل اور مشروط استعفی نکال کر اک بار پھر دیکھا۔ سات صفحے پر مشتمل یہ استعفی انھوں نے کئی راتیں جاگ کر لکھا تھا۔
‘’یہ خط دیکھو‘‘ وہ بولے
‘’یہ ہے وہاں کی بے ایمانیوں، بد عنوانیوں اور سیاست بازیوں کی فہرست۔ یہ دیکھو سب لکھ دیا ہے میں نے‘‘۔
مجھے غصہ آ گیا۔
‘’لکھا ہوگا، مجھے کیا دکھا رہے ہو۔۔۔ اس تحریر کی ایک ایک لائن سے میں واقف ہوں۔ تم نے ساری رات جاگ کر خود کو جلا کر اپنے خیال میں جو فردِ جرم تیار کی ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ سال بھر جو تم نے جھک ماری ہے تو کون سی بات تمہاری سن لی لوگوں نے جو اب یہ استعفی انھیں سمجھا دے گا۔’‘
ارشد کاغذ پلٹتے ہوئے بولے۔ ‘’کم سے ہم فائل میں ریکارڈ میں تو رہے گا کہ کیا گڑ بڑ ہو رہی تھی۔‘‘
‘’ہاں’‘ میں نے جواب دیا ‘’اور یہ فائل کسی زنگ آلود ا لماری میں گرد کھائے گی یا شاید تمہارے استعفی کوپہلے ہی غائب کر دیا جائے۔ کیا تم کو یہاں کے حالات کا پتہ نہیں تھا۔‘‘
ہماری فلائٹ کی بورڈنگ کا اعلان ہو گیا تھا۔ ارشد نے بریف کیس بند کیا اور اُٹھتے ہوئے بولے۔
‘’اگلے مہینے نئے وائس چانسلر آنے والے ہیں، دیکھو وہ اس سلسلے میں کیا کرتے ہیں میں ان کو ایک تفصیلی خط لکھوں گا ۔’‘
میں نے اپنا ا ئیر بیگ کندھے پر ٹانگتے ہوئے آ ہستہ سے کہا کہ ‘’تم نے جو دلیٌ سے کناڈا تک کا واپسی کا ٹکٹ لیا ہے وہ صرف تین مہینے تک valid رہے گاپھر کینسل ہو جائے گا‘‘ میں نے اور آہستہ سے کہا۔
’’وہ واپسی کا ٹکٹ تم یہیں ابھی پھاڑ کر پھینک دو تو اچھا ہے۔‘‘
مصنف:عذرا نقوی